کربلا،عقیدہ و عمل میں توحید کی نشانیاں
توحید کا عقیدہ صرف ایک مسلمان کے ذہن اور فکر پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ اس کے تمام حالات شرائط اور تمام پہلوؤں پر اثر ڈالتا ہے۔ خدا کون ہے؟ کیسا ہے؟ اور اس کی معرفت و شناخت ایک مسلمان کی فردی اور اجتماعی اور زندگی میں اس کے موقف اختیار کرنے پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ ان تمام عقائد کا اثر اور نقش مسلمان کی عملی زندگی میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ اس خدا پر عقیدہ رکھے جو سچا ہے اور سچ بولتا ہے، اپنے دعووں کی مخالفت نہیں کرتا ہے جس کی اطاعت فرض ہے اور جس کی ناراضگی جہنمی ہونے کا موجب بنتی ہے ۔ ہر حال میں انسان کے لئے حاضرو ناظر ہے، انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے علم و بصیرت سے پوشیدہ نہیں ہے.... یہ سب عقائد جب ”یقین “ کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں تو ایک انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ مؤثر عنصر بن جاتے ہیں۔ توحید کا مطلب صرف ایک نظریہ اور تصور نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں” اطاعت میں توحید “ اور” عبادت میں توحید“ بھی اسی کے جلوہ اور آثار شمار ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام پہلے ہی سے اپنی شہادت کا علم رکھتے تھے اور اس کے جزئیات تک کو جانتے تھے۔ پیغمبر نے بھی شہادت حسین علیہ السلام کی پیشینگوئی کی تھی۔ لیکن اس علم اور پیشین گوئی نے امام کے انقلابی قدم میں کوئی معمولی سا اثر بھی نہیں ڈالا اور میدان جہادو شہادت میں قدم رکھنے سے آپ کے قدموں میں ذرا بھی سستی اور شک و تردید ایجاد نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ سے امام کے شوق شہادت میں اضافہ کیا،امام اسی ایمان اور اعتقاد کے ساتھ کربلاآئے اور جہاد کیا اور عاشقانہ انداز میں خدا کے دیدار کے لئے آگے بڑھے، جیسا کہ امام سے منسوب اشعار میں آیا ہے :
ترکت الخلق طرّا فی هواکا
واٴیتمت العیال لکی اراکا
کئی موقعوں پر آپ کے اصحاب اور رشتہ داروں نے خیرخواہی اور دلسوزی کے جذبہ کے تحت آپ کو عراق اور کوفہ جانے سے روکا اور کوفیوں کی بے وفائی اور آپ کے والد اور برادر کی مظلومیت اور تنہائی کو یاد دلایا گرچہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ ایک معمولی انسان کے دل میں شک و تردید ایجاد کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام روشن عقیدہ، محکم ایمان اور اپنے اقدام و انتخاب کے خدائی ہونے کے یقین کی وجہ سے ناامیدی اور شک پیدا کرنے والے عوامل کے مقابلے میں کھڑے ہوئے آپ فقاء الٰہی اور مشیت پروردگار کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے تھے، جب ابن عباس نے آپ سے درخواست کی کہ عراق جانے کے بجائے کسی دوسری جگہ جائیں اور بنی امیہ سے ٹکر نہ لیں تو امام حسین نے بنی امیہ کے مقاصد اور ارادوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” انی ماض فی امر رسول اللهصلی الله علیه وآله وسلم و حیث امرنی وانا لله وانا الیه راجعون“ اور یوں آپ نے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی پیروی اور خدا کے جوار رحمت کی طرف بازگشت کی جانب اپنے مصمم ارادہ کا اظہار کیا، اس لئے کہ آپ کو اپنے راستے کی حقانیت اور خدا کے وعدوں کے صحیح ہونے کا یقین تھا۔
” یقین“ دین خدا اور حکم شریعت پر محکم اعتقاد کے ظہور کا نام ہے گوہر یقین جس کے پاس بھی ہو اس کو مصمم اور بے باک بنا دیتا ہے عاشورہ کا دن جلوہ گاہ یقین تھا اپنے راستہ کی حقانیت کا یقین، دشمن کے باطل ہونے کا یقین ،قیامت و حساب کے برحق ہونے کایقین، موت کے حتمی اور خدا سے ملاقات کا یقین، ان تمام چیزوں کے سلسلے میں امام اور آپ کے اصحاب کے دلوں میں اعلی درجہ کا یقین تھا اور یہی یقین ان کو پایداری، عمل کی کیفیت ،اور راہ کیانتخاب میں ثابت قدمی کی راہنمائی کرتا تھا۔
کلمہ ”استرجاع“ ( انا لله وانا الیه راجعون) کسی انسان کے مرنے یا شہید ہونے کے موقع پر کہنے کے علاوہ امام حسین کی منطق میں کائنات کی ایک بلند حکمت کو یاد دلانے والا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ” کائنات کا آغاز و انجام سب خدا کی طرف سے ہے “ آپ نے کربلا پہونچنے تک بارہا اس کلمہ کو دہرایا تا کہ یہ عقیدہ ارادوں اور عمل میں سمت و جہت دینے کا سب بنے۔
آپ نے مقام ثعلبیہ پر مسلم اور ہانی کی خبر شہادت سننے کے بعد مکرر ان کلمات کو دوہرایا اور پھر اسی مقام پر خواب دیکھا کہ ایک سوار یہ کہہ کر رہا ہے کہ ” یہ کاروان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور موت بھی تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی ہے“ جب آپ بیدار ہوئے تو خواب کا ماجرا علی اکبر کو سنایا تو انھوں نے آپ سے پوچھا ” والدگرامی مگر ہم لوگ حق پر نہیں ہیں؟ “ آ پ نے جواب دیا ” قسم اس خدا کی جس کی طرف سب کی بازکشت ہے ہاں ہم حق پر ہیں“ پھر علی اکبر نے کہا ” تب اس حالت میں موت سے کیا ڈرنا ہے؟ “ آپ نے بھی اپنے بیٹے کے حق میں دعا کی۔[1]
طول سفر میں خدا کی طرف بازگشت کے عقیدہ کو بار بار بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ہمراہ اصحاب اور اہل خانہ کو ایک بڑی قربانی وفداکاری کیلئے آمادہ کریں، اس لئے کہ پاک و روشن عقائد کے بغیر ایک مجاہد حق کے دفاع میں آخر تک ثابت قدم اور پایدار نہیں رہ سکتا ہے۔
کربلا والوں کو اپنی راہ اور اپنے ہدف کی بھی شناخت تھی اور اس بات کا بھی یقین تھا کہ اس مرحلہ میں جہاد و شہادت ان کا وظیفہ ہے اور یہی اسلام کے نفع میں ہے ان کو” خدا“ اور ”آخرت“ کا بھی یقین تھا اور یہی یقین ان کو ایک ایسے میدان کی طرف لے جارہا تھا جہاں ان کو جان دینی تھی اور قربان ہونا تھا جب وہب بن عبد اللہ دوسری مرتبہ میدان کربلا کی طرف نکلے تو اپنے رجز میں اپنا تعارف کرایا کہ میں خدا کی پر ایمان لانے والا اور اس پر یقین رکھنے والا ہوں۔[2]
مدد و نصرت میں توحید اور فقط خدا پر اعتماد کرنا، عقیدہ کے عمل پر تاثیر کا ایک نمونہ ہے اور امام کی تنہا تکیہ گاہ ذاکردگار تھی نہ لوگوں کے خطوط، نہ ان کی حمایت کا اعلان اور نہ ان کی طرف آپ کے حق میں دیئے جانے والے نعرے، جب سیاہ حر نے آپ کے قافلہ کا راستہ روکا تو آپ نے ایک خطبہ کے ضمن میں اپنے قیام یزید کی بیعت سے انکار اور کوفیوں کے خطوط کا ذکر کیا اور آخر میں سے گلہ کرتے ہوئے فرمایا ” میری تکیہ گاہ خدا ہے اور وہ مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کرتا ہے ” سیغنی اللہ عنکم“[3] آگے چلتے ہوئے جب عبد اللہ مشرقی ملاقات کی اور اس نے کوفہ کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ آپ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا ” حسبی الله ونعم الوکیل“[4]
عاشور کی صبح جب سیاہ یزید نے امام کے خیموں کی طرف حملہ کرنا شروع کیا تو اس وقت بھی آپ کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور خدا سے مناجات کرتے ہوئے یوں فرمارہے تھے ”خدایا! ہر سختی اور مشکل میں میری امید اور میری تکیہ گاہ تو ہی ہے، خدایا! جو بھی حادثہ میرے ساتھ پیش آتا ہے اس میں میرا سہارا تو ہی ہوتا ہے، خدایا! کتنی سختیوں اور مشکلات میں تیری درگاہ کی طرف رجوع کیا اور تیری طرف ہاتھ بلند کئے تو تو نے ان مشکلات ک دور کیا“[5]
امام کی یہ حالت اور یہ جذبہ آپ کے قیامت اور نفرت الٰہی پر دلی اعتقاد کا ظاہری جلوہ ہے اور ساتھ ہی دعا و طلب میں توحید کے مفہوم کو سمجھاتا ہے۔
دینی تعلیمات کا اصلی ہدف بھی لوگوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے چنانچہ یہ مطلب شہداء کربلا کے زیارتناموں خاص کر زیارت امام حسین میں بھی بیان ہوا ہے ۔ اگر زیارت کے آداب کودیکھا جائے توان کا فلسفہ بھی خدا کا تقرب ہی ہے جو کہ عین توحید ہے امام حسین کی ایک زیارت میں خدا سے مخاطب ہو کے ہم یوں کہتے ہیں کہ ”خدایا! کوئی انسان کسی مخلوق کی نعمتوں اور ہدایا سے بہرہ مند ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور وسائل تلاش کرتا ہے لیکن خدایا میری آمادگی اور میرا سفر تیرے لئے اور تیرے ولی کی زیارت کے لئے ہے اور اس زیارت کے ذریعہ تیری قربت چاہتا ہوں اور انعام وہدیہ کی امید صرف تجھ سے رکھتا ہوں۔[6]
اوراسی زیارت کے آخر میں زیارت پڑھنے والا کہتا ہے ! خدایا! صرف تو ہی میرا مقصود سفر ہے اور صرف جو کچھ تیرے پاس ہے اس کو چاہتا ہوں ” فالیک فقدت وما عندک اردت“
یہ سب چیزیں شیعہ عقائد کے توحیدی پہلو کا پتہ دینے والی ہیں جن کی بنا پر معصومین علیہم السلام کے روضوں اور اولیاء خدا کی زیارت کو خدا اور خالص توحید تک پہونچنے کے لئے ایک وسیلہ اور راستہ قراردیا گیا ہے اور حکم خدا کی بنا پر ان کی یاد منانے کی تاکید کی گئی ہے۔
[1] بحار الانوار،ج/۴۴،ص/۳۶۷
[2] بحار الانوار،ج۴۵،ص/۱۷، مناقب،ج/۴،ص/۱۰۱
[3] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۷
[4] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۸
[5] بحار الانوار،ج/۴۵،ص/۴
[6] تہذیب الاحکام، شیخ طوسی،ج/۶،ص/۶۲