شعائرحسینی ہی شعائراللہ ہیں
؛؛؛
بسم الله الرحمن الرحیم
"و من یعظم شعائرالله فانها من تقوی القلوب"
اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرےتویہ عمل دلوں کی پرہیزگاری ہے" (الحج #32)
؛؛؛
شعائر کا معنی ومفھوم
"شعائر" جمع ہے "شعیرہ" کی.شعیرہ کے لغوی معنی "علامت" کے ھیں.جیسے نقشِ قدم جانیوالے کی علامت ھے، دھواں آگ کی علامت ھے.
"علامت" کو علامت کیوں کہتے ھیں؟علامت کو اس لیے علامت کہا جاتا ھے کہ وہ "ذریعہ علم" ھوتی ھے یعنی "ذریعہ شعور" ھے کیونکہ علم کے معنی شعور کے ھیں.
علامت کی جمع علائم اسی طرح شعیرہ کی جمع شعائر
علامت وہ ھوتی ھے جس کے ذریعہ سے ذھن کسی اور طرف جائے مثلاً تھرمامیٹر میں پارے کو دیکھا کہ کس نقطہ پر ھے تو ذھن 'بخار' کی طرف گیا اور کہا کہ اتنے درجہ بخار ھے.یعنی دیکھتے پارے کو ھیں رائے بخار کی قائم کرتے ھیں.دوسرے الفاظ میں 'اثر' کو دیکھ کر 'مؤثر' کو ماننا.تو علامت جسکو دیکھ کر ذھن کسی شے کی طرف جائے تو وہ اس شے کی علامت کہلائیگی.
تو اب "شعائراللہ" یعنی اللہ کے شعائر یعنی اللہ کی علامتیں یعنی جنکو دیکھ کر ذھن اللہ کی طرف جائے یعنی جنکو دیکھ کر ذھن میں اللہ کا خیال آجائے وہ "شعائراللہ" کہلائیں گی.مثلاً مسجدالحرام پہنچے خانہ کعبہ کو دیکھا تو یاد آیا یہ "بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر" تو ذھن منتقل ھوا اللہ کی طرف تو خانہ کعبہ شعائراللہ میں ھوا حالانکہ اللہ جسم و جسمانیت سے پاک ھے اس میں رھتا نہیں ھے مگر نسبت 'بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر' کی وجہ سے اللہ کا خیال آیا اور ذھن اللہ کی طرف متوجہ ھوا.
عام مسجدیں بھی خانہ خدا یعنی بیت اللہ کہلاتی ھیں مگر ان پر خانہ کعبہ کی حرمت کے مکمل آداب جاری نہیں ھوتے.احترام انکا بھی ھے.
یہ مسجدیں اصل میں مسجدالحرام یعنی خانہ خدا کی شبیہیں (نقلیں) ھیں.وہ حضرات ابراھیم و اسمعٰعیل علیھما السلام نے بنایا تھا انکو لوگ خود بناتے ھیں مگر احترام وھی ھے مگر ان پر مکمل احکامات جاری نہیں ھوتے کیونکہ وہ اصل ھے اور یہ مساجد اسکی شبیہہ. حج و طواف اِسکا نہیں ھوسکتا مگر طہارت اِس کیلیے بھی ضروری ھے تو یاد رکھنے کی بات یہ ھے کہ کچھ اصل ھوتی ھیں اور کچھ اسکی شبیہات.اصل احکام اصل پر ھی جاری ھوتے ھیں مگر اس اصل کی شبیہات بھی قابل احترام ھوتی ھیں.
پس تعزیہ شبیہ روضہ حسین علیہ السلام ھے تواحکام اصلی تو کربلا میں روضہ حسین علیہ السلام پر ھی جاری ھونگے مگر احترام اس شبیہ روضہ کا بھی کیا جائیگا بعنوان "تعظیم و تکریم" عبادت نہیں کہا جانا بلکہ احترام یعنی تعظیم و تکریم.عبادت غیرخدا کی کی جائے تو وہ کفر ھے مگر تعظیم دل کے تقوٰی کا جزو ھے.اب یہ کہنا بےمعنی ھے کہ تم خود ھی بناتے ھو.قرآن بھی ھم خود ھی لکھتے ھیں ، مسجدیں بھی ھم خود ھی بناتے ھیں تو ھمارے بنا لینے سے انکا احترام ختم نہیں ھوجائیگا بلکہ یہ دیکھنا ھوگا کہ کس نیت سے بنائی ھے وہ شبیہہ مسجدالحرام کہ یہ خانہ خدا کی شبیہہ ھے تو اس پر احکام تعظیم و تکریم جاری ھوجائیں گے اور اسکا احترام ھر فقہ اسلام کی رو سے واجب ھے.اسی طرح شھراللہ اللہ کا مہینہ ، کتاب اللہ اللہ کی کتاب تو جناب قرآن لکھا تو ھم نے ھی ھے مگر بقصد کلام اللہ بقصد کتاب اللہ بقصد قرآن تو بے وضو ھاتھ لگانا حرام ھوجائیگا.بعینہ اسی طرح
علم بنایا تو بقصد شبیہہ علمِ اسلام تعزیہ/ضریح بنایا تو بقصد شبیہہ روضہ امام حسین علیہ السلام
ذوالجناح بنایا تو بقصد شبیہہ سواری امام حسین علیہ السلام اب ان تمام کے اصل احکام تو کربلا میں اور اصل مقامات پر ھی جاری ھونگے مگر شبیہہ ھونے کی حیثیت سے تعظیم و تکریم جاری ھوجائیگی.
شعائراللہ سمجھنے کے بعد اب دیکھنا یہ ھے کہ قرآن مجید نے جو حکم دیا ھے کہ "شعائراللہ کی تعظیم کرو" تو خود قرآن مجید سے بھی کچھ رھنمائی ھوتی ھے کہ آخر شعائراللہ ھوتے کیا ھیں اور کون ھیں تو یہاں پہلے یہ عرض کردوں کہ قرآن مجید نے کسی بھی جگہ شعائراللہ کی کوئی جامع فہرست بیان نہیں کی ھے اگر کوئی فہرست شعائراللہ کی بیان کردی جاتی تو پھر کوئی بھی کسی چیز کو شعائراللہ میں سے کہتا یا بتاتا تو ھر ایک کو اُس سے اس مطالبے کا حق ھوتا کہ قرآن نے تو اس چیز کو شعائراللہ کی فہرست میں بیان نہیں کیا تو تم اسے کیونکر شعائراللہ میں قرار دے رھے ھو لیکن اگر قرآن مجید کے اندازِ بیان سے یہ ظاھر ھو کہ اُسے شعائراللہ کی کوئی فہرات پیش کرنا مقصود نہیں ھے بلکہ ذھن انسانی کی رھنمائی کیلیے بطور مثال کچھ شعائراللہ کا تذکرہ کرنا ھے جس سے مدد ملے اور یہ سمجھنے میں کہ کس قسم کی چیزیں شعائراللہ ھوا کرتی ھیں تو اس کیلیے قرآن مجید میں دو آیتیں ملتی ھیں.دونوں جگہ ایک ھی طرح کے الفاظ ھیں جن سے ھر شخص بخوبی سمجھ سکتا ھے اس کیلیے عربی دانی کی ضرورت نہیں جب اسکا ترجمہ تحت لفظی کیا جائے تو اس سے ھر غیر عربی دان بھی اسی طرح سمجھ سکتا ھے جس طرح عرض کیا گیا ھے.ان میں سے ایک آیت
-* "ان الصفا والمروة من شعائرالله" یقینًا صفا اور مروہ شعائراللہ میں سے ھیں" (البقرہ#158)
اور دوسری آیت
-* "والبدن جعلنها لکم من شعائرالله"
اور یہ قربانی کے جانور شعائر اللہ میں سے ھیں" (الحج#36)
ان آیات میں اگر یہ "مِن" نہ ھوتا تو یہ معنی ھوتے کہ یہ تینوں شعائراللہ ھیں.مگر جیسے استاد شاگرد کو سمجھانے کیلیے ایک دو مثالیں دیدیتا ھے تاکہ شاگرد بعد میں خود ان مثالوں کو سامنے رکھ کر اس میں اور دیگر اشیاء میں تمیز کرسکے.قرآن نے اک مثال کیلیے "جمادات" اور دوسری مثال کیلیے "حیوانات" کا ذکر کیا جبکہ "نباتات" کی صنف کو چھوڑ دیا.
یہ پہاڑ کیا ھوتا ھے پتھروں کا مجموعہ انہی جمادات میں سے ایک چیز منتخب کی یعنی "صفا اور مروہ" کہ یہ دو پہاڑیاں شعائراللہ میں سے ھیں اور انکی تعظیم کو کہا گیا کہ تقوٰی کا جزو ھے.اب یہ صفا اور مروہ میں کیا خصوصیت ھے کہ اگر ھیبت پہاڑ یا عظمتِ جسمانی مدنظر ھے تو پھر ھمارے علاقہ کے ھمالیہ اور K2 زیادہ حقدار تھے کہ جسکی بلندی پر پہنچنا آجکل کی دنیائے تمدن کے نزدیک معیار ارتقائے انسانی سمجھا جاتا ھے جبکہ یہ دونوں پہاڑیاں ھمارے یہاں کے سات زینوں کے منبر جتنی بلند ھونگی اب تو خیر پہاڑیاں بھی نہیں رہیں بلکہ انکو صاف کرکے انکی بلندی جتنی ڈھلوان بنادی گئی ھے اور اس ڈھلوانی بلندی کو ھی صفا و مروہ کی بلندی تصور کرلیا گیا (اس طرح کی تبدیلیوں پر کوئی نہیں سوچتا کہ یہ بدعت ھے) جب عظمت جسمانی ھیبت پہاڑ یا تصور بلندی مدِنظر نہیں پھر آخر ان پہاڑیوں کو شعائراللہ میں سے کیوں قرار دیا گیا؟؟
وہ ماوراءالتاریخ کا دور تہا اس دور کی باتیں تاریخ نویسوں کے حدودِ علم سے باھر ھوتی ھیں تو تایخ مذھب جو احادیث سے مرتب ھوئی اس سے پتہ چلتا ھے کہ اللہ پر توکل کرنیوالی ایک بی بی جناب حاجرہ (ع) خلیل اللہ علیہ السلام کی شریک حیات اور انکا شیرخوار بچہ یعنی اک نبی کی زوجہ دوسرا نبی زادہ جنکو خلیل اللہ علیہ السلام مشیت ایزدی کے مطابق وہ ایک کوزہ آب اور دو تین روٹیاں پاس رکھ کر اک بےآب و گیاہ میدان میں چھوڑگئے تھے.اتنی قلیل خوارک کہاں تک وفا کرتی بالآخر ختم ھوگئی اور پہلے ماں پر پیاس کا غلبہ ھوا پہر بھوک کا اور بہوک اور پیاس کا غلبہ اتنا ھوا کہ بچے کا جو فطری ذخیرہ غذا ھے وہ ختم ھوگیا(شروع میں بچے کی غذا روٹی نہیں ھوتی) پھر یہ منزل پہنچی کہ بچہ تڑپنے لگا اپنی بھوک پیاس پر مظاھرہ برداشت کرتی رھیں مگر جب بچہ تڑپنے لگا تو اپنی جگہ سے اُٹھیں اور صفا و مروہ کی بلندی تک گئیں کہ بلندی پر حد نظر میں وسعت پیدا ھوجاتی ھے کہ ممکن ھے کہیں پانی کا چشمہ نظر آئے.اب صورت واقعہ یہ بتاتی ھے کہ پانی کی تلاش میں بلندی پر جاتیں مگر پھر تصور ھوتا کہ بچہ اکیلا ھے تو اتر کر بچہ کے پاس پھر اسکی تڑپ دیکھی نہیں جاتی تو گویا اپنی نگاہ کو جھٹلاتے ھوئے پھر جاتیں کہ ممکن ھے کہیں پانی دستیاب ھوجائے. غرض سات چکر لگائے صفا سے مروہ تک اور مروہ سے صفا تک.اللہ کو انکا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ انکے اس عمل کو جزوِ حج بنادیا بعنوان 'سعی' اور جہاں جہاں اس پاکیزہ و عفیفہ بی بی کے پاؤں مس ھوئے اسے یعنی 'صفا و مروہ' کو شعائراللہ میں قرار دیدیا.اب ھر صاحب فہم غور کرے کہ کوئی روایت یہ نہیں بتاتی کہ جناب ھاجرہ (ع) کے پیر سے خون کا کوئی قطرہ اس زمین پر گرگیا ھو مگر اللہ پر کامل توکل کرکے اسکی راہ میں چلیں نبی زادے کی جان بچانے کیلیے تو اس محترمہ و مکرمہ بی بی کے قدم سے جو پہاڑیاں مس ھوئیں بنصِ قرآن وہ شعائراللہ میں داخل ھوگئیں تو خدارا یہ بتایئے کہ وہ زمین جہاں نبی زادے کا خون جذب ھو جائے اکیلا نبی زادہ نہیں بلکہ نبی کا پورا گھرانہ اور انکے احباب و رفقا شہید ھوجائیں اور راہ خدا کے ان شہداء کا خون اس زمین میں جذب ھوجائے ھم اگر اسے خاک پاک کہیں اور اسکا احترام کریں تو اُسے شرک کہا جائے اگر وہ پہاڑیاں شعائراللہ میں ھوسکتی ھیں تو پھر کربلا کی زمین بھی شعائراللہ میں سے ھے اسے مانئے اور قبول کیجئے کہ شعائراللہ کی شبیہہ کی تعظیم و تکریم عین شعائراللہ کی تعظیم وتکریم ہے.
دوسری آیت مبارکہ
"والبدن جعلنها لکم من شعائرالله" (الحج#36)
اور یہ قربانی کے جانور شعائراللہمیں سے ہیں"
اسی ترجمہ سے سمجھا جاسکتا ھے کہ وہ جانور ابھی قربان نہیں ھوئے مگر چونکہ قربانی کی نیت سے وہ رکھے گئے ھیں لہذا بحالتِ حیات بھی وہ شعائراللہ میں سے ھیں.پس عقل سے کام لیجئے اور یاد رکھئے کہ دین انہی کیلیے ھے جنکے پاس عقل ھو وہ اور مذاھب ھونگے جو عقل پر پہرے لگاتے ھیں قرآن تو پکارتا ھی ھر جگہ صاحبِ عقل کو ھے بےعقلوں کو تو اس نے تکلیفِ شرعی ھی سے بری کردیا ھے مگر شرط یہ کہ فطری بےعقل ھو خود ساختہ نہیں ورنہ یہ عقل ھی انکے خلاف حجت ھوگی کہ عقل رکھتے تھے مگر عقل سے کام نہ لیا.تو غور کیجئے کہ حیوان جو راہِ خد میں بحکمِ خدا یعنی حج کی راہ میں لہذا راہِ خدا ھی کہہ سکتے ھیں حاجیوں کیلیے قربانی واجبات میں سے تو قربانی کا حکم اللہ کا ھے لہذا راہِ خدا میں حکم خدا سے قربان کرنے کیلیے ساتھ رکھے گئے ھوں تو وہ حیوان اپنی حیات میں بھی شعائراللہ اور اسی سے سمجھ آئیگا کہ جب قربانی ھوجائے تو بھی وہ قابلِ احترام ھیں شعائراللہ ھیں.
اب انصاف کرنا چاھیئے کہ حیوان راہِ خدا میں بحالتِ حیات شعائراللہ ھوں تو وہ انسان جو راہِ خدا میں قربان ھوجائیں وہ انسان شعائراللہ نہ ھونگے؟؟؟کمال ھے آپکی عقلِ فتوٰی ساز کا کہ انکی تعظیم کی جائے تو شرک قرار پائے جانوروں کی تعظیم حکمِ خدا کے تحت دلوں کے تقوٰی کا جزو وہ انسان جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں راہِ خدا میں قربان کردی ھوں اور صاحبِ فہم اس پر غور کرے تو نتیجہ بہت سادہ و آسان ھے کہ شہید ھونا اپنے اختیار کی بات نہیں یہ قسمت سے وابستہ ھے اپنے اختیار کی بات تو میدانِ جنگ میں جمے رھنا ھے تو وہ جانور شعائراللہ ھوں اور انسان شعائراللہ نہ ھوں؟؟اب اگر عقل ھو تو نتیجہ نکالئے کہ وہ انسان جو راہِ خدا میں قربان ھونیوالے ھوں وہ بعدِ شہادت ھی شعائراللہ نہیں ھیں کہ وقتِ ولادت ھی سے شعائراللہ ھیں.
عقل وفہم استعمال کریں تو سب کے یہاں روایات موجود ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچوں کے بوسے لیتے تھے یہ بچوں کی محبت تھی یا شعائراللہ کا احترام تھا.چونکہ دینِ اسلام دینِ فطرت ھے لہذا بچوں کی محبت بھی کوئی خلافِ شان بات نہیں ھے بچوں سے محبت بھی منظورِ قدرت ھے سبکو اپنے بچوں سے محبت کرنی چاھیئے.مگر کچھ روایات ھیں جنکو دیکھ کر مکمل اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ھے کہ محرکِ بوسہ بچوں کی محبت نہیں بلکہ شعائراللہ کا احترام ھی مدِنظر تھا.
بچوں کی محبت ھو تو پیشانی بھی اپنے بچے کی ھے رخسارے بھی اپنے بچے کے ھیں ھاتھ بھی سینہ بھی اپنے بچے کا ھے مگر کیا بات ھے کہ اک بچے کے دھن کے بوسے اور اک بچے کے گلے کے بوسے کہ اک کے دھن کے ساتھ "زھرِدغا" متصل ھے اور اک کے گلے کے ساتھ "خنجرِجفا" متصل ھے.اور یہ بھی روایت میں ھے کہ "حسین(ع) آتے ھیں اور رسول(ص) فدماتے ھیں کہ یاعلی (ع) ذرا پیرھن اٹھاؤ حسین کے جسم کے خصائصِ حسینیہ میں جناب شیخ جعفر شستری نے لکھا ھے کہ پیرھن اٹھاتے اور رسول(ص) جابجا بوسے لیتے اور علی(ع) بھی کہتے یارسول اللہ (ص) یہ کیا کررھے ھیں؟فرماتے "اقبل مواضع السیوف وابکی" جہاں جہاں تلواریں پڑیں گی وھاں وھاں بوسے لے رھا ھوں" تو معلوم ھوا کہ رسولِ ثقلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ عمل دراصل شعائراللہ کی تعظیم و تکریم سکھاناتھا.
اب ذرا غور کیجئے کہ یہ قربانی خلیل اللہ(ع) نے خواب دیکھا اور بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی آج تک مسلمان عیدالاضحٰی پر قربانی کرتے ھیں.پوچھا کہ یہ قربانی آخر ھے کیا اور وہ بھی منٰی میں ھو اور دس ذوالحجہ کو ھو تو پتہ چلتا ھے کہ یہ اس کے خلیل کی جو قربانی تھی اسکی یاد ھے.اب یہ براہِ راست اللہ کی یاد نہیں ھے خاص براہِ راست اس کے خلیل کی یاد ھے چونکہ دس ذوالحجہ کو انہوں نے اپنے فرزند کو حکمِ الہی سے ذبح کرنا چاھا تھا تو اب قیامت تک کے مسلمانوں کو حکم ھوگیا.حج میں واجب اور جو حج کو نہیں گئے ان کیلیے گھروں میں سنت.ذرا سوچیں یہ قربانی ھے کیا اب نہ تو خلیل ھیں نہ وہ قربانی اس وقت ھے یہ بس یادگار ھی تو ھے اور خلیل اللہ علیہ السلام کی اک قربانی کی یاد میں اتنی ساری قربانیاں اسی تاریخ کو ھوجاتی ھیں.
ھر نقطہ نظر کے مسلمان کی متفقہ روایت ھے کہ کیا واقعی وہ قربانی عمل میں آگئی تھی.ھر مسلمان جانتا ھے کہ وہ قربانی عمل میں نہیں آئی بلکہ بعد میں فدیہ آگیا تو بس ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ھے ھر مسلمان کو جو رسول(ص) کو مانتا ھے وہ غور کرے کہ سابق دور کے رسول کی ملتوی شدہ قربانی تو یاد رکھنے کے قابل ھو اور اپنے رسول کے گھر کی وقوع میں آئی ھوئی قربانی فراموش کرنے کے قابل ھو ایک ھی مہینے کا تو فرق ھے وہ دس ذوالحجہ کو اور یہ دس محرم کو.اُس قربانی کی یادگار پر اتنا زور اور اس قربانی کے خلاف فتوے! آخر اس یادگار نے کیا قصور کیا؟؟؟
اور اب ذرا یہ دیکھئے کہ قربانی حسین علیہ السلام اور قربانی ابراھیم علیہ السلام!!قربانی ابراھیم علیہ السلام پہلے اور قربانی حسین علیہ السلام بعد کو تو صاحبِ عقل و فہم غور کریں تو ان میں اتنا بڑا فرق ھے کہ وھاں ابراھیم علیہ السلام کا کردار اور ھے اور اسمٰعیل علیہ السلام کا کردار اور ھے.ابراھیم علیہ السلام کا کردار ھے قربانی کرنا اور اسمٰعیل علیہ السلام کا کردار ھے قربان ھونا.جبکہ کربلا میں حسین علیہ السلام بیک وقت خلیل بھی ھیں اور ذبیح بھی ھیں.یہ ذبیح ھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ کی نسبت سے اور خلیل ھیں علی اکبر و علی اصغر علیہما السلام و دیگر قربانیوں کے لحاظ سے جو انہوں نے پیش کیں.تو یہ اھمیت ھے اس قربانی کی.
ایک اھم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاھونگا کہ یہ عیدالاضحٰی کیوں منائی جاتی ھے کس خوشی میں مبائی جاتی ھے اور یہ جو قربان کیے جارھے ھیں کس کی شبیہہ ھے؟؟؟رواداری میں کہہ دیجئے کہ شبیہہ اسمٰعیل علیہ السلام تو کیا یہ واقعی شبیہہ اسمٰعیل علیہ السلام ھے؟ نہیں یہ اس گوسفند کی شبیہہ ھے جو نبی زادے کے بدلہ ذبح ھوا اور نبی زادے کی جان بچانے کا سبب بنا اور نبی زادے کی جان بچ جانے کی خوشی میں عید منائی جارھی ھے یعنی فلسفہ شعائراللہ یہاں بھی وھی ھے کہ جو جانور نبی زادہ کی جان کا فدیہ ھوا وہ شعائراللہ میں داخل ھوگیا.
تو بس اب شبیہہ "ذوالجناح" پر اعتراض ختم ھوگیا کہ ذوالجناح نے کتنے نازک وقت میں نبی زادے کا ساتھ دیا کہ جہاں تین دن سے انسان بھوکے ھوں وھاں مرکبوں کو غذا کہاں سے ملنی ھے.جو مجاھد پہلے شہید ھوا اس کے مرکب نے اتنی ھی دیر کام کیا جبکہ میرے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کی شہادت تو سب سے آخر میں ھے اور یہ وفادار جانور آخر تک وقت شہادت تک اپنے سوار کے کام آتا رھا اسی بھوک اور پیاس میں بغیر اف کیے بغیر احتجاج کیے اپنے سوار کی خدمت کرتا رھا اور اسی بھوک و پیاس میں تمام معرکہ سر کیا.
بس یہی اصول یاد رکھئے اور اعتراض نہ کیجئے کہ اب ذوالجناح نکالنے کے کیا معانی یاد رکھیئے اگر جانور بھی نبی زادے کے کام آئے تو وہ بھی یاد رکھنے کے قابل ھوتا ھے.ھم چونکہ وفادار ھیں اس لیے ھر اس جانور کو بھی یاد رکھتے ھیں جو آلِ رسول (ع) کے کام آیا اگر انسان کام نہ آئے تو اسے بھول جائیں گے مگر جانور کو ضرور یاد رکھیں گے.
اور یہ بھی یاد رکھیئے کہ عیدالاضحٰی نبی زادے کی جان کے بچنے کی خوشی کے طور پر منائی جارھی ھے تو ایک ماہ کے فرق سے دس محرم کو صرف نبی زادہ ھی نہیں بلکہ نبی کا پورا گھرانہ قربان ھوگیا تو ھمیں اس سانحہ عظیم پر غم منانے کا حق ھے.
؛؛؛
~* اہم نکتہ *~
(عبادت اور تعظیم کا فرق)
عبادت اور تعظیم میں فرق کیا ھے کہ عبادت خالصتًا اللہ ھی کی ھے اور اسی کیلیے ھے.
- "الله لااله الاهوالحی القیوم" (البقره#255)
- "قال یاقوم اعبدواالله" (الاعراف#64)
- "الا تعبدو الا ایاه" (بنی اسرائیل#22)
- "ولایشرك بعبادة ربهاحدا" (الکهف#110
- "وعبد ربك حتي یاتيك اليقين" (الحجر#99)
- "وان اعبدوني هذا صراطمستقيم" (يسن#60)
- "وما يعبدون من دون الله" (مريم 49 )
- "الله لاإله إلا هو" (طه 8)
یہ تمام آیات مبارکہ ثابت کررہی ہیں کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی ہے مگر تعظیم شعائراللہ کی بھی ھے اور شعائراللہ کے الفاظ خود بتارہے ہں کہ "اللہ" اور ہے اور "شعائر" اور ہیں تو ھر تعظیم شرک نہیں ھوا کرتی.اور اگر وہ تعظیم اللہ کے حکم پر یعنی بنص قرآن ہو تو پہر وہ بہی عبادت میں داخل ہے.
شرک کی حقیقت کیا ھے کہ خالقِ حقیقی ، رازقِ حقیقی بس ایک ربِ حقیقی یہ باتیں کسی اور میں ثابت کی جائیں تو شرک ھوجاتا ھے.عبادت خالص اللہ کیلیے ھے کسی اور کا تصور کرکے عبادت کی جائے تو شرک ھوجائیگا مگر جو بات اللہ کیلیے ھو ھی نہیں سکتی اسے غیراللہ میں ثابت کرنے سے شرک کیسے ھوجائیگا؟؟؟
اللہ کیلیے کوئی بات ھوتی اور اسے غیراللہ میں کہتے تو شرک مگر جو بات ھے ھی غیراللہ کیلیے اس میں شرک کیسے ھوسکتا ھے.
~* نتیجہ *~
ارشادِ احدیت ھورھا ھے "جو شعائراللہ کی تعظیم کرے" اس سے ثابت ھورھا ھے کہ شعائراللہ یعنی اللہ کے شعائر یعنی اللہ اور ھے اس کے شعائر اور ھیں.اور اللہ کی طرف سے کبھی بھی شرک کی تعلیم نہیں دی جاسکتی جبکہ کہا جارھا ھے کہ "جو شعائراللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقوٰی کا جزو ھے" یعنی
"عبادتِ خدا"اور"شعائراللہ"کی تعظیم دونوں مل کر دلوں کے تقوٰی کو مکمل کرتی ھیں.
والسلام علی من اتبع الهدی
اللهم صلی علی محمدوآل محمدوعجل فرجهم