خداشناسی
اھمیت شناخت خدا کے عملی، شخصی اور اجتماعی اثرات سے قطع نظر، شناخت خدااورشناخت اسماء وصفات الٰھی سعادت بشر میں نھایت موثر اور بے انتھا اھمیت کی حامل ھے۔ کیونکہ کمال انسان ،خدا کی صحیح شناخت میں مضمر ھے۔ اگر انسان خدا کی شناخت اس طرح حاصل نہ کرے جس طرح حاصل کرنے کا حق ھے توو ہ لاکہ نیک و خیرا عمال نجام دے لے، ھرگز کمال انسانی کے اعلیٰ مراتب تک رسائی حاصل نھیں کرسکتا۔
خدا کی صحیح شناخت ھی کمال انسانی کا اعلیٰ ترین مرتبہ ھے ۔ درحقیقت صرف اور صرف اسی کے ذریعہ بشر خدا کی طرف پرواز کرسکتا ھے:( الیه یصعد الکلم والطیب والعمل الصالح یرفعه) پاکیزہ کلمات اس کی طرف بلند ھوتے ھیں اور عمل صالح انھیں بلند کرتا ھے۔ (۱)
اس سلسلے میں شھید مرتضی مطھری فرماتے ھیں:
انسان کی انسانیت، شناخت خدا کے ارد گرد گھومتی ھے کیونکہ شناخت انسان، انسان سے جدا کوئی شئ نھیں ھے بلکہ اس کی ذات کا اصلی ترین وحقیقی ترین جز ھے۔ انسان جس قدر ھستی، نظام ھستی ومبداٴ واصل ھستی سے قریب تر ھوتا جائے گا اتنی ھی اس کے اندر انسانیت راسخ ھوتی جائے گی وھی انسانیت جس کے جوھراور حقیقت کا نصف حصہ علم، معرفت اور شناخت ھے۔
اسلام اورمخصوصاً مذھب شیعھ کے نقطہٴ نظر سے ، ان معارف و تعلیمات پر مرتب ھونے والے عملی اور اجتماعی اثرات سے قطع نظر اسمیں ذرہ برابر شک و تردد کی گنجائش نھیں ھے کہ معارف الٰھی کا ادراک ھی اصل ھدف و کمال انسانیت ھے۔(۲)
حوالہ جات
۱۔فاطر:۱۰
۲۔مجموعہ ٴآثار، ج /۲ ، ص / ۱۰۵
خدا کون ھے
وہ کونسی ذات ھے جس کو عربی زبان میں الله، انگلش میں GOD ، فارسی میں خدا کہا جاتا ھے اور ھر دیگر زبان والے اپنے اپنے اعتبار سے پکارتے ھیں؟ اس کے اوصاف کیا ھیں؟ اس کا ھم سے کیسا اور کیا رابطہ ھے؟ھم اس کے ساتھ کیسا رابطہ برقرار کریں؟یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالات ھمیشہ اور ھر زمانے میں پائے جاتے رھے ھیں۔
اگر بشری افکار ونظریاتی تاریخ پر ایک اجمالی اور سرسری نظر ڈالی جائے توواضح ھوجاتاھے کہ خدا کے وجود پر اصل اعتقاد وایمان گذشتہ قدیم زمانوں سے ھی رائج اور مشھور رھا ھے۔ دوسرے الفاظ میں خدا پر ایمان کی تاریخ اتنی ھی قدیم ھے جتنی کہ تاریخ وجود انسانی ،لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ تمام افراد بشر، وجود خدا کے معتقد رھے ھیں اور خدا کے بارے میں ان کا عقیدہ یکساں رھا ھے یا سبھی نے خدا کی تعریف یکساں طور پر کی ھے۔
یہ نظریاتی اختلافات مخصوصاً ان لوگوں کے یھاں جو انبیائے الٰھی کے تعلیمات سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنے افکار و نظریات پر زیادہ بھروسہ کرتے ھیں، ھمیشہ اور بھت زیادہ رھے ھیں۔ قبل اس کے کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے بیان شدہ صفات خدا کو بیان کیا جائے بھتر ھے کہ بعض اھم ترین اوربزرگ ترین مشرقی و مغربی دانشمندوں کے خدا کے بارے میں نظریات وخیالات اور اعتقادات پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اس سلسلے میںاسلامی توحید کے عروج وبلندی کا دیگر مکاتب وافراد کے توحیدی نظریات سے تقابل کیا جاسکے۔
خدا، سقراط کی نظر میں
SOCRATES 470-399BC)) دیگر یونانی معاصر کی طرح مختلف خداؤں کے وجود پر ایمان رکھتا تھا۔ تاریخ فلسفہ میں نقل شدہ حقائق کے پیش نظر، سقراط کے مطابق سعادت و کمال حاصل کرنے کے لئے انسان کو خدا اور اس کی ھدایت کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ اگرچہ وہ کمال انسانی کو اصول اخلاقی میں مقید گردانتا ھے لیکن اس نے خدا اور انسانی زندگی میں اس کے رابطے اور دخل کا کوئی تذکرہ نھیں کیاھے۔
خدا، افلاطون کی نگاہ میں
PLATO (BC 427/8۔347/) خدا کے عنوان سے دوموجودات کا تذکرہ کرتاھے۔ ایک خیر مطلق اور دوسری صانع۔ اس کی نگاہ میں خیر مطلق ھی حقیقی خدا ھے جس کو وہ پدر یا باپ اور صانع کو پسر یا بیٹا کھتا ھے۔
افلاطون کے مطابق خیر مطلق کی شناخت نھایت مشکل بلکہ دشوار ترین معرفت ھے جو تمام معرفتوں کے حصول کے بعد حاصل ھوتی ھے اور ان دونوں خداؤں کو فقط فلسفی حضرات ھی درک کرسکتے ھیں۔ افلاطون کے مطابق فلسفی حضرات وہ افراد ھیں جو روحی اور ذھنی حتی جسمانی لحاظ سے مخصوص صفات کے حامل ھوتے ھیں البتہ یہ فلسفی حضرات بھی مختلف مراحل سے گزر کر اور اپنی عمر کے پچاس برس گزارنے کے بعد ھی خیر مطلق کا ادراک کرسکتے ھیں لیکن دوسرے افراد جن میں غالباً عوام الناس آتے ھیں ھمیشہ ھمیشہ شناخت وادراک خدا سے محروم رھتے ھیں۔
خدا، ارسطو کے نقطہٴ نظر سے
ARISTOTLE (4 BC / 483۔321/2 ) کے عقیدے کے اعتبار سے عالم ھمیشہ موجود رھا ھے یعنی ازلی ھے اور کسی نے اس کو خلق نھیں کیاھے۔ لھٰذا ارسطو کا خدا، خالق کائنات نھیںبلکھ فقط محرک کائنات ھے او رایسا محرک جو خود کوئی حرکت نھیں رکھتا ھے۔ خدائے ارسطو کی روشن ترین صفت یھی عنوان”محرک غیر متحرک“ ھے ۔ ارسطوکی خدا شناسی کا اھم ترین گوشھ یھ ھے کھ ارسطو کے مطابق خدا کی پرستش، اس سے محبت اور اس سے رحم و کرم کی توقع ناممکن ھے۔ خدائے ارسطو کسی بھی طرح محبت انسان کا جواب نھیں دے سکتا۔ ارسطو کا خدا فاقد ارادہ ھے نیزاس کی ذات سے کسی بھی طرح کا کوئی فعل سرزد نھیں ھوتا ھے۔ ارسطو کا خدا ایک ایسا خدا ھے جو ھمیشہ فقط اور فقط اپنے متعلق غور و فکر کرتا رھتا ھے۔ (۱)
وجود خدا ، قرون وسطیٰ کے عیسائیوں کے نزدیک ”
مغربی دنیا میںدین سے فرار کے اسباب “کے تحت خدا کے بارے میں کلیسا کے نظریات کی طرف ایک ھلکا سا اشارہ کیا جا چکا ھے۔ یھاں اس نکتے کا اضافہ ضروری ھے کہ قرون وسطیٰ میںغالب نظریہ یہ تھا کہ دوسرے عوامل واسباب کے شانہ بشانہ خدا بھی اس جھان کے نظم و نسق میں موثر ھے۔ اس زمانے کے خدا معتقد افراد جب زلزلہ ، چاندگرھن، سورج گرھن، آندھی، طوفان وغیرہ کی کوئی علت تلاش نھیں کرپاتے تھے تو آخرکار ان حادثات کی علت خدا کو قرار دے دیتے تھے۔ظاھر ھے کہ اس طرز تفکر کا نتیجھ یھی ھوتا ھے کہ خداکو اپنے ارد گرد بکھرے ھوئے مجھولات میں تلاش کیا جائے۔ طبیعی ھے کہ جتنا ھماری معلومات میں اضافہ ھوتا جائے گا اور ھمارے مجھولات کم ھوتے جائیں گے اتنا ھی خدا کا دائرہ کار بھی سمٹتا جائے گا اور اگر فرض کرلیں کہ کسی دن تمام مسائل و معمہ ھائے بشر حل ھوجائیں اور انسان ھر حادثہ و واقعہ کی طبیعی علت و عامل کی شناخت کرلے تو اسی دن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس دنیا سے لفظ ”خدا“ کا بھی خاتمہ ھو جائے گا۔
مذکورہ کلیسائی نظریے کی بنا پر اس کائنات کے فقط کچھ ھی موجودات ایسے ھیں جنھیں وجود خدا کی نشانیاں کھا جاسکتا ھے یعنی فقط ایسے موجودات جن کی علت ابھی تک ناشناختہ ھے۔ یہ نظریہ چونکہ ھماری اس دنیا میں موجود تھا لھٰذا کانٹ KANT)) کو اعتراض کرنا پڑا:
”علم و سائنس نے خدا کو اس کے مشاغل سے جدا کرکے ایک گوشے میں قرار دے دیا ھے۔“ (نقل از شھید مطھری، مجموعہٴ آثار،ج/۱،ص/۴۸۲)
KANT کھنا یہ چاھتا ھے کہ اب تک بشریت یہ سمجھتی تھی کہ ھر حادثے کی علت خدا ھے یعنی خدا کو ایک پوشیدہ ومخفی قوت کے طور پر فرض کیا جاتاتھا جیسے ایک جادو گر اچانک کوئی فیصلہ کرے اور بغیر کسی مقدمے کے کوئی جادو کا نمونہ پیش کردے۔ مثال کے طور پر اگر اس زمانے میں کسی کو بخار ھوجاتاتھا اور اس سے سوال کیا جاتا تھا کہ بخار کیوں ھواھے تو جواب دیا جاتا تھا کہ خدانے ا سکے اندر بخار ایجاد کردیا ھے جس کا مطلب یہ ھوتا تھا کہ اس بخار کے ایجاد ھونے میں کوئی طبیعی عامل سبب نھیں بنا ھے لیکن اب جب کہ سائنس نے یہ ثابت کردیا ھے کہ بخار کا سبب فلاں مائیکروب ھے تو ظاھر ھے کہ اب اس معلول یا بخار کی علت خدا تو نھیں ھے اور اسی طرح جس قدرمختلف اشیاء یا حادثات کی نا شناختھ علتیں اور عوامل کشف ھوتے رھیں گے اتنا ھی خدا کا دائرہ کاربھی محدود ھوتا جائے گا۔
حقیقت یہ ھے کہ اس طرح کا نظریہ رکھنے والے افراد کے نزدیک دوسرے تمام موثر اسباب و عوامل کی طرح بھی خدا ایک سبب و علت اور اس کائنات کے اجزاء میں سے ایک جز ھے۔
شھید مرتضیٰ مطھری اس نظریہ پر تنقید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”سبحان اللہ ! کتنا غلط طرز تفکر اور کتنی گمراھی ھے اور مقام الوھیت سے لا علمی کا کیا عالم ھے ۔! یھاں تو قرآن کریم کا یہ قول نقل کرنا چاھئے کہ وما قدرو االلہ حق قدرہ (۲) ترجمہ:اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نھیں کی۔(۳)
خدا ،گلیلیو کے تصور
میں قرون وسطیٰ کے خاتمہ اور علوم تجربی کی چوطرفہ ترقی و پیش رفت کے بعد گلیلیو GALILIO ( 1564۔1624) جیسا دانشمند پیدا ھوا اوراس نے خدا کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا۔
GALILIO کے مطابق یہ کائنات ایٹم( ATOMS)کا ایک مجموعہ ھے۔ اس کائنات میں رونما ھونے والی تمام تبدیلیاں اور تغییرات ان ATOMS کی ترکیبات اورحرکات کا نتیجہ ھوتی ھیں۔ اس درمیان خدا کادائرہ کار صرف اور صرف ATOMS کوخلق کرنا ھوتا ھے اور بس۔ قدرت خدا کے ذریعے جیسے ھی یہ کائنات خلق ھوئی ویسے ھی خدا کی ضرورت بھی ختم ھو گئی اوراب کائنات مستقل وآزادانہ طور پر رواں-دواں ھے۔
خدا کے بارے میں نیوٹن کا نظریہ
نیوٹن 1727) ISAAQ NEOTON ۔1642 ) نے کائنات سے خدا کے رابطے کو گھڑی ساز اور گھڑی کے رابطے سے تشبیہ دی ھے۔ جس طرح گھڑی ساز کے گھڑی ایجاد کرنے کے بعد گھڑی اس سے بے نیاز ھو کر اپنا کام کرتی رھتی ھے اسی طرح یہ کائنات بھی خدا کے ذریعہ خلق کئے جانے کے بعد آزادانہ طور پررواں دواں ھے۔ نیوٹن اس نکتے کا بھی اضافہ کرتاھے اور یھیں سے اس کانظریہ GALILIO سے مختلف ھوجاتاھے کہ خداکبھی کبھی امور کائنات میں دخیل ھوتا اور بعض غیر مرتب اشیاء و سیاروں کو منظم ومرتب کرتا رھتاھے۔ اس کے علاوہ خدا ھی وہ ذات ھے جو ستاروں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے میں مانع ھوتی ھے۔
اس نظریہ پر بھی قرون وسطیٰ میں موجود نظریے کا کسی حد تک اثر پڑتا نظر آتا ھے کہ خدا کے وجود کو ان موارد سے مخصوص کیا جاتا تھا جن کی علت و سبب ناشناختہ ھوتی تھی۔ بعدمیں سائنس نے یہ کشف کیا کہ سیاروںکی حرکت فعلی اور ان کے کے ایک دوسرے سے نہ ٹکرانے میں براہ راست خدا کی کوئی دخالت نھیں ھے۔ جس کانتیجہ یہ ھوا کہ خدا کا دائرہ کار مزید محدود ھوگیا۔
۱۷/ویں اور ۱۸/ویں صدی کے بھت سے دانشمندوں نے خدا کے بارے میں GALILIO کے نظریے کو ھی قبول کیاھے۔ ان کے نذدیک خدانے آغاز خلقت میں اس کائنات کو خلق کیا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اب اپنی بقا کی خاطر اس کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نھیں ھے جیسے ایک عمارت اپنی تعمیر کے بعد معمار سے بے نیاز ھوجاتی ھے۔
حوالہ جات:
۱۔فلسفہ یونان اور ادیان الٰھی میں خداشناسی کی بنیادیں، رضابر نجکار، ص/۸۱تا ۱۰۳
۲۔ انعام:۹۱
۳۔ شھید مرتضیٰ مطھری، علل گرایش بہ مادی گری
خدا اسلام کی نظر میں
قرآن کریم میں مذکورہ صفات خدا پر ایک اجمالی نظر یہ کہا جاسکتا ھے کہ دین اسلام کے ظھور اور نازل ھونے کی حقیقی اور اصل دلیل یہ تھی کہ اسلام، حقیقت خداکو اس طرح پہچنوائے جو اس ذات مقدس کو پھچنوانے کا حق ھے۔ قرآن کریم میں جس طرح خدا کی ذات کی شناخت کرائی گئی ھے ایسی شناخت کسی بھی مکتب یا مذھب میں موجود نھیں ھے۔ حتی اسلام سے ماقبل ادیان الٰھی بھی خدا کی ذات کی شناخت کرانے میں اس کمال تک نھیں پھونچ سکے ھیں۔ قرآن کریم کی کوشش یہ رھی ھے کہ زبان بشری کے دائرے میں ذات خدا کو کامل ترین حد تک بشر کو پہچنوایا جاسکے۔
قرآن مجید کے مطابق خدا واسع (وسعت دینے والا) ، علیم(۱) (دانا) ، اسرع الحاسبین (۲) (نھایت جلدی حساب لینے والا) ، حی (زندہ) ، قیوم(۳) (دائم) ،علی( اعلیٰ) ،کبیر( بزرگ)، حق(۴)، ذوالجلال والاکرام(۵) ، صمد(۶)(بے نیاز) ھے؛ خدا ،اول یعنی ازلی (ھر موجود سے قبل موجود تھا) ساتھ ھی ساتھ آخری یعنی ابدی (ھر موجود کے بعد بھی موجود رھے گا) ظاھر اور ساتھ ھی ساتھ باطن ھے۔(۷)
خدا، متعال(۸) ھے یعنی جو کچھ ھم تصور کرسکتے ھیں اس سے بھی بالاتر ھے اور ھم کسی بھی قیمت پر اس کی حقیقت اورا سکے جمال و جلال کی حقیقت سے اس طرح آشنا نھیں ھوسکتے جس طرح کہ وہ ھے(۹)
ھماری نگاھیں اس کو پانھیں سکتیں لیکن وہ ھماری نگاھوں کابرابر ادراک رکھتا ھے۔ (۱۰) خدا واحد ھے اوراس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے (۱۱)۔ وہ احد (۱۲) اور واحد ھے (۱۳) اورکوئی شیٴ اس کی مانند نھیں ھے۔ (۱۴)
خدا ھی کے لئے بھترین نام ھیں اور اس کو ان ناموں سے پکارا جاسکتا ھے۔ (۱۵)
وہ ملک یعنی جھان ھستی کا حقیقی مالک، قدوس یعنی ھر عیب سے پاک، سلام یعنی سلامت بخش، مومن یعنی امن و امان عطا کرنے والا، مھیمن یعنی ھر شےٴ کی حفاظت کرنے والا، عزیز یعنی ایسا قدرتمند جو ھر شیٴ پر قادر ھے اور کوئی شیٴ اس پر غلبہ حاصل نھیں کرسکتی، جبار یعنی اصلاح کرنے والا اور متکبر یعنی شایستہ کبریا ی وبزرگی ھے۔ (۱۶)
بھترین مثال، خدا کے لئے ھے۔ (۱۷)
جدھر رخ کیا جائے ادھر ھی خدا ھے۔ (۱۸)
وہ ھر شےٴ کا عالم(۱۹) اور ھرشےٴ پر قادر ھے۔ (۲۰)
خدا عظمتوں کے آخری مراحل پر ھونے کے ساتھ ھی ساتھ لامتناھی بھی ھے۔
نہ اس کا کوئی شریک ھے اور نہ ساتھی۔
خدا انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ انسان سے نزدیک ھے۔
وہ وسوسہ ھائے نفسانی کو بھی جانتا ھے۔ (۲۱)
خدا بے انتھا بخشنے والا اور مھربان ھے اور یہ دونوں صفات اسقدر اس کی ذات میں واضح ھیں کہ قرآن کے ھر سورے کاآغاز انھیں صفات سے کیا گیاھے: ”بسم الله الرحمٰن الرحیم“۔ ایسا خدا جس نے لطف و رحمت کواپنے اوپر فرض کرلیا ھے۔ (۲۲)
وہ ایسا خداھے جو بے انتھا غفور یعنی بخشنے والا، غافر الذنوب یعنی گناھوں کا بخشنے والا، غفار یعنی بے حد معاف کرنے والا ھے در حالیکہ وہ قوی (۲۳) یعنی طاقت ور، قاھر(۲۴) یعنی مسلط، اور قھار(۲۵) یعنی بے انتھا مسلط ھے۔ قابل التوب (۲۶) یعنی توبہ قبول کرنے والا ، وھاب(۲۷) یعنی بخشنے والا، ودود(۲۸) یعنی دوستدار، رؤوف(۲۹) یعنی مھربان، ذوالطول (۳۰) یعنی صاحب نعمت، ذوالرحمة(۳۱) یعنی صاحب رحمت، تواب(۳۲) یعنی بے حد توبہ قبول کرنے والا اور ذوالفضل العظیم(۳۳) یعنی صاحب فضل عظیم ھے۔
وہ ایسا خدا ھے جو دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ھے۔ (۳۴) اس کا دست قدرت و رحمت وسیع ھے۔ جس قدر چاھتا ھے بخشتا ھے اور روزی عطا کرتا ھے۔ (۳۵)
قرآن مجید نے جس خدا کا تذکرہ کیا ھے وہ خالق (۳۶)، فاطر السموات والارض (۳۷)اوراس سے بڑھ کر خالق کل شےٴ (۳۸) یعنی ھرشےٴ کا پیدا کرنے والا ھے۔ لھٰذا اس کائنات میں موجود ھرشےٴ اس کی ذات سے وابستہ اور اسی کی نیازمند ھے۔
خدا آسمانوں میں بھی ھے اور زمین میں بھی اور ھر جگہ الٰہ ھے نہ یہ کہ آسمان میں آسمان اور زمین میں زمین کی صورت اختیار کرلے۔ (۳۹)
ھم جھاں بھی رھیں، خداھمارے ساتھ ھے اور ھم سے جتنے بھی افعال سرزد ھوتے ھیں، خدا انھیں جانتا ھے: (وھو معکم اینما کنتم والله بما تعملون بصیر) (۴۰)
خدائے قرآن کریم، رب یعنی پالنے والا، مالک اور تمام امور کا مدبر ھے اور تمام عالمین کا پروردگار ھے۔ (۴۱)
اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔ نہ خلقت میں اور نہ سلطنت میں(۴۲)، نہ ربوبیت میں(۴۳) اور نہ حکم صادر کرنے میںییی(۴۴) نہ شفاعت (۴۵) میں اور نہ کسی دوسرے کمال اور صفت میں۔ خدا کے علاوہ ھر ذات جو بھی کمال رکھتی ھے وہ خدا سے ھی وابستہ اورمنسوب ھے۔ (۴۶)
قرآن حکیم درحقیقت کتاب خدا شناسی اور کتاب معرفة الله ھے۔ اس سلسلے میں آیات قرآن اس قدر عمیق و دقیق ھیں کہ بزرگ ترین دانشمندان جھان بھی اس کی حقیقت اور ذات کی گھرائیوں تک نھیں پھونچ سکتے۔ قرآن مجید کے ذریعہ خدا کے بارے میں بیان شدہ تعریف جامع ترین، دقیق ترین اور عمیق ترین تعریف ھے۔ اس سلسلے میں عارف بالله، حکیم دانا اور مفسر عالی مقام حضرت امام خمینی(رہ) فرماتے ھیں:
اگر قرآن نہ ھوتا تو تا ابد باب معرفت الله مسدود رہ جاتا․․․․․․․․ اس کا جتنا قرآن میں تذکرہ ھوا ھے اس قدر کسی بھی دوسری کتاب میں تلاش نھیں کیا جا سکتا حتی کتب عرفانی اسلامی میں بھی․․․․․․․․․ غیر از ایں، قرآن کی عبارتیں بھی ان عبارتوں سے جدا اور مختلف ھیں جیسی دوسری کتابوں میں بیان ھوئی ھیں۔ قرآن اس سلسلے میں لطیف و نادر نکات کا مجموعہ ھے۔ (۴۷)
حوالہ جات:
۱۔بقر ہ :۱۱۵: ان الله واسع علیم
۲۔انعام : ۶۲: الا له الحکم و هو اسرع الحاسبین
۳۔ طہ : ۱۱۱:وعنت الوجوه للحی القیوم
۴۔لقمان :۳۰: ذالک بان الله هوالحق و ان ما ید عون من دونه الباطل و ان الله هو العلی الکبیر
۵۔رحمٰن :۲۷: و یبقیٰ وجه ربک ذو الجلال والاکرام
۶۔ اخلاص: ۲: الله الصمد
۷۔حدید : ۳ : هو الاول والآخر والظاهر والباطن
۸۔ طہٰ:۱۱۴: فتعالیٰ الله الملک الحق
۹۔انعام ۱۰۰: سبحانه و تعالیٰ عما یصفون
۱۰۔ انعام : ۱۰۳: لا تدرکه الابصار و هو یدرک الابصار
۱۱۔آل عمران :۱۸: شهد الله انه لا اله الا هو
۱۲۔ اخلاص: ۱: قل هو الله احد
۱۳ ۔ نحل : ۵۱: انماهو اله واحد
۱۴۔ شوریٰ: ۱۱: لیس کمثله شی
۱۵۔ اعراف :۱۸۰: و لله الاسماء الحسنیٰ فادعوه بها
۱۶۔ حشر : ۲۳: هو الله الذی لا اله الا هوالملک القدوس السلام الموٴمن المهیمن العزیز الجبار المتکبر
۱۷۔ نحل : ۶۰: ولله المثل الاعلیٰ
۱۸۔ بقرہ : ۱۱۵: فاینما تولوا فثم وجه الله
۱۹۔ حدید: ۳: و هو بکل شی٘ علیم
۲۰۔ بقرہ : ۲۸۴: والله علیٰ کل شئی قدیر
۲۱۔ق: ۱۶: و لقد خلقنا الانسان و نعلم ما توسوس به نفسه و نحن اقرب الیه من حبل الورید
۲۲۔انعام : ۱۲: کتب علیٰ نفسه الرحمة
۲۳۔ انفال: ۵۲: ان الله قوی
۲۴۔ انعام : ۱۸ : و هو القاهر فوق عباده
۲۵۔ رعد : ۱۶: و هو الواحد القهار
۲۶۔ غافر: ۳: غافر الذنب و قابل التوب
وجود خدابدیھی ھے
قران میں بداھت وجود خدا عام طور پر کتب فلسفہ وکلام میں سے بحث کا آغاز”اثبات وجود خدا“ سے ھوتاھے اور کوشش کی جاتی ھے کہ مختلف استدلالات و براھین کے ذریعہ ثابت کیا جائے کہ ”اس کائنات کا ایک خالق ھے جو خود کسی کی مخلوق نہیں ھے۔
لیکن آسمانی کتابوں مخصوصاً قرآن کریم میں مبحث خداشناسی، ایک دوسرے انداز سے پیش کیا گیا ھے۔ ان کتابوں میں ندرت کے ساتھ ھی ایسی عبارتیں نظر آتی ھیں جو براہ راست اثبات اصل ھستی خدا سے بحث کرتی ھیں۔ گویا اصل وجود خدا، ا یک روشن وواضح حقیقت اور امر مسلم ھے جس میں کسی شک و تردید کی قطعاً کوئی گنجائش نھیں ھے۔
مفسر عالی مرتبت علامہ طباطبائی اپنی معرکة الآراء تفسیر، تفسیرالمیزان میں اس نکتے پر نھایت تاکید کرتے ھیں کہ قرآن کریم نے وجود خدا وند متعال کو واضح وبدیھی شمار کیاھے کہ جس کی تصدیق واثبات کے لئے کسی دلیل یا برھان کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ اگر دلیل و استدلال کی ضرورت ھے تو فقط اس کی صفات کے لئے مانند وحدت، خالقیت ،علم و قدرت وغیرہ۔ (۱)
علامہٴ مرحوم کے مطابق کلمہٴ اسلامی ”لا الٰہ الا الله“ کہ جو اسلام اور تعلیمات قرآن کریم کا لب لباب ھے، میں اس جملہ کے فقط سلبی حصے کو دلیل کی ضرورت ھے (یعنی الله کے سوا کوئی الله ھی نھیں ھے) ورنہ اس کا اثباتی جنبہ ( یعنی الله موجود ھے) بدیھی اور دلیل و استدلال سے بے نیاز ھے۔ (۲)
قرآن کریم کی منطق اصل وجود خدا کے بارے میں مندرجہ ذیل ھے:
”اٴفی الله شک“ (۳) یعنی آیا وجود خدا کے بارے میں کوئی شک یا تردید ھے؟!
دیگر آسمانی کتابوں میں بداھت وجود خدا
جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا ھے کہ قرآن کریم کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں میں بھی خدا شناسی سے متعلق مذکورہ روش کو انتخاب کیا گیا ھے۔ آربری A.J. ARBERRY اپنی کتاب ”اسلام میں عقل ووحی“ میں رقمطراز ھے:
یونان میں عصر افلاطون ایسی روایات کا منبع تھا کہ جن کی بنیاد پر وجود خدا کے اثبات کے لئے دلیل و برھان ضروری تھا۔ مغربی دنیا میں ایسا پھلی دفع ھوا تھا کہ بشر اپنے خالق کی جستجوکررھا تھا۔ عھد عتیق میں ایسا کبھی نھیں ھوا تھا کہ کوئی دانشمند ھستی خدا کے بارے میں کسی ایسے پیچیدہ اور گنجلک مسئلہ سے روبروھوا ھو جس میںکسی تردید یاشک کی گنجائش ھوکیونکہ قوم سامی( قوم پسر نوح)کی فطرت خود وحی میں ھی خدا کوتلاش کرلیتی تھی۔
عھد عتیق (باستان) سے متعلق مذکورہ نکات کسی قدر ترمیم کے ساتھ عھد جدید (زمانہٴ حضرت عیسیٰ) پر بھی منطبق ھوتے ھیں۔(۴)
زرتشتیوں کی مقدس کتاب ”اوستا“ کے مطالعہ سے بھی یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اصل وجود خدا کا بدیھی ھونا فقط اقوام سامی یاکتب دینی سے ھی مخصوص نھیں رھا ھے بلکہ ”اوستا“ میں بھی اصل ھستی خدا کوبدیھی اور دلائل سے بے نیاز بتا یاگیا ھے۔
البتہ ھندؤں کی کتب مقدس ”اپنیشید“ میں خال ۔خال ایسی عبارتیں نظر سے گذرتی ھیں کہ جن کا آھنگ اور انداز ھستی صانع اورعلت اولیہ کے بارے میں سوالیہ ھے لیکن یہ عبارتیں بھی علت اولیہ، مبداٴ خلقت اوراس کی صفات جیسے امورسے متعلق ھیں نہ کہ اصل وجود میں تردید یا شکوک وشبھات کو بیان کرنے والی۔
عصر بعثت اور الله پر ایمان و اعتقاد
قرآن مجید کی بھت سی آیتوںسے واضح ھوتا ھے کہ قرآن کریم کے زمانہٴ نزول میں اصل ھستی خدا اوراس کائنات کے خالق کا وجود اس زمانے کے تمام افراد کے لئے قابل قبول تھا حتی بت پرست اور مشرکین بھی وجود خالق کائنات پر اعتقاد رکھتے تھے:
(ولئن ساٴلتهم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن الله فانی یوٴفکون)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے خلق کیا اور کس نے تمھارے لئے شمس وقمر کو مسخر کیا ھے تو وہ کھیں گے کہ الله نے ! تو پھر وہ منحرف کیوں ھو رھے ھیں؟(۵)
(ولئن ساٴلتهم من نزل من السماء ماء فاحیا به الارض من بعد موتها لیقولن الله قل الحمد لله بل اکثر هم لا یعقلون)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے برسایا اوراس کے وسیلے سے زمین کو اس کی موت کے بعد کس نے زندہ کیا تو وہ کھیں گے کہ الله نے ۔ تو ان سے کهدو کہ ساری تعریفیں الله ھی کے لئے ھیں لیکن ان میں سے اکثر نھیں سمجھتے۔(۶)
(ولئن ساٴلتهم من خلق السموات والارض لیقولن خلقهن العزیز الحکیم)
اوراگر تم ان سے سوال کرو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ھے تو وہ یقینا یھی کھیں گے کہ خداوند متعال قادر وعلیم نے ھی انھیں پیدا کیا ھے۔(۷)
اقوام نوح، عاد اور ثمود میں خدا پر اعتقاد
قرآن مجید کی آیتوں سے وضاحت ھوتی ھے کہ نہ فقط زمانہٴ رسول اکرم کے افراد بلکہ قوم نوح، عاد، ثمود اور دوسری امتوں میں بھی اپنے اپنے پیغمبروں کے ساتھ اصل وجود خداپر کوئی جھگڑا یا اختلاف نھیں تھا بلکہ اختلافات اگرتھے تو فقط توحید، نبوت اور قیامت سے متعلق ۔ ان زمانوں کے بت پرست اور مشرکین وجودخدا کو بطور خالق قبول کرتے ھوئے اس کی تصدیق کرتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ ساتھ ھی ساتھ بتوں کی بھی تجلیات خدا کے طور پر پرستش کرتے تھے۔ وہ لوگ بتوں کی اس لئے پرستش و عبادت کرتے تھے کہ اصنام ان کے اور خدا کے درمیان واسطہ اور وسیلہ قرار پائیں اور ان کی حاجت روائی اور ان کی مشکلات کو دور کریں:
(الم یاٴتکم نبوٴالذین من قبلکم قوم نوح وعادٍ وثمود والذین من بعدهم لا یعلمهم الاالله فلیتوکل المتوکلون)
کیا تمھیں ان لوگوں کی خبر نھیں پھونچی جو تم سے پھلے تھے؟ قوم نوح، ثمود اور جو ان کے بعد تھے وھی جن سے الله کے علاوہ اور کوئی آگاہ نھیں ھے ان کے پیغمبر ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے لیکن انھوں نے (تعجب اور استھزا سے) اپنے منہ پر ھاتھ رکھ کر کھا: ھم اس چیز کے کافر (منکر) ھیں جس کے لئے تم مامور ھو اور جس کی طرف تم ھمیں بلاتے ھو، اس کے بارے میں ھمیں شک ھے۔ ان کے رسولوں نے کھا! کیا الله کے بارے میں شک ھے اور وہ الله جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا، وہ جو تمھیں دعوت دیتاھے کہ تمھارے گناہ بخش دے اور تمھیں وعدہ گاہ تک باقی رکھے گا؟ انھوں نے کھا: ( ھم یہ باتیں نھیں سمجھتے ۔ ھم تو اتنی بات جانتے ھیں کہ) تم تو ھمارے ھی جیسے انسان ھو اورتم چاھتے ھو کہ ھمیں اس سے روکو جس کی ھمارے آباء واجداد پرستش کرتے تھے۔ تم ھمارے لئے کوئی واضح دلیل لاؤ۔
ان کے رسولوں نے کھا! (ھاں) یہ ٹھیک ھے کہ ھم بھی تم جیسے بشر ھیں لیکن الله اپنے بندوں میں سے جس کو چاھتا ھے ( اور جس کو اھل پاتا ھے) نعمت (اورمقام رسالت) عطا فرماتا ھے اور ھم حکم خدا کے بغیر ھرگز معجزہ نھیں لاسکتے اور تمام باایمان افراد صرف الله پر ھی توکل کرنا چاھتے ھیں۔ ھم الله پر کیوں نہ توکل کریں جب کہ اس نے ھمیں(سعادت کی) راھوں کی طرف راھنمائی کی ھے اور ھم تمھاری ایذا رسانیوں پر یقینا صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو صرف الله پر ھی توکل کرنا چاھئے۔ (۸)
علامہ طباطبائی اپنی تفسیر میں ان آیتوں کے ذیل میں اس بات پر زور دیتے ھیں کہ اصل وجود خدا میں ان بت پرست قوموں کو کوئی شک وشبہ نھیں تھا بلکہ اعتراض فقط توحید، رسالت اور قیامت کے سلسلے میں تھا۔ حتی جملہٴ ”فاطر السموات والارض“ توحید پر استدلال ھے نہ کہ اصل وجود پر۔
طبرسی نے” مجمع البیان “اور سید قطب نے ”درفی ظلال القرآن“میں اسی نظریہ کو بیان کیا ھے ۔ ان کے علاوہ بعض دوسرے مفسرین نے بھی اس رائے کواختیار کیا ھے۔ان کا نظریہ بھی یھی ھے کہ بت پرست قوموں کا اختلاف توحید اور خدا کی یکتائی سے تھا نہ کہ اصل وجود خدا سے۔
حوالہ جات
۱۔المیزان فی تفسیر القرآن :جلد۱،ص۳۹۵
۲۔المیزان فی تفسیر القرآن :جلد۱،ص۳۹۵
۳۔ابراھیم:۱۰
۴۔اسلام میں عقل و وحی،آربری:ص۹
۵۔عنکبوت:۶۱
۶۔عنکبوت:۶۳
۷۔زخرف:۹
۸۔ابراھیم۔۹۔۱۲
فطرت اور خدا
قرآن مجید کی مختلف آیتوں سے بخوبی واضح ھو جاتا ھے کہ وجود خدا پرایمان ویقین، اس کی طرف رغبت اور اس کی پرستش وعبادت کی طرف تمایل، فطری ھے یعنی انسانی خلقت و فطرت میںداخل ھے۔
اس حقیقت کی بیان گر بعض آیتوں کے تذکرے سے پھلے چند نکات کی طرف توجہ مبذول کرنا ضروری ھے۔
معنائے لغوی فطرت، مادہٴ” فطر “سے ھے جس کے معنی کسی شے کو اس کے طول سے چیرنا ھے۔ دوسرے معنی کسی بھی طرح کے چیرنے کے ھیں اور چونکہ خلقت، ظلمت، تاریکی اور عدم کو چیرنے کے مترادف ھے لھٰذا اس لفظ کے ایک اھم معنی ”خلقت“ بھی ھیں۔ اس لفظ سے ابداع اور اختراع کے معنی بھی مراد لئے جاتے ھیں۔
فطرت ”فِعلَہ“ کے وزن پر ھے اور وزن فعلہ نوع پر دلالت کرتا ھے۔ لغت میں فطرت کے معنی ایک خاص طرح کی خلقت کے ھیں۔ لھٰذا ”فطرت انسان“ بھی ایک مخصوص طینت اور خلقت انسان کے معنی میں ھوگی۔ (۱)
ظاھراً پھلی مرتبہ قرآن مجید نے اس لفظ کو انسان کے متعلق استعمال کیا ھے۔ قرآن سے ما قبل لفظ فطرت کا ایسا کوئی استعمال مشاھدے میں نھیں آیاھے۔
”فطرت“ قرآن میں
قرآن مجید میں ”فطر“ کے مشتقات مختلف طریقے سے استعمال ھوئے ھیں۔ مثلاً ”فطرالسموات والارض“ (۲) ”فطرکم اول مرة“ (۳) فطرنا(۴) فطرنی (۵) فاطر السموات والارض (۶) یھاں قرآن کی مراد پیدا کرنے اور خلق کرنے سے ھے۔ لفظ ”فطور“ آیت ”فارجع البصر هل تریٰ من فطور“ (۷) میں شگاف اور سوراخ کے معنی میں ھے اور لفظ ”منفطر“ آیت ”السماء منفطر به“ (۸)میں شکافتہ کے معنی میں لیکن قرآن کریم میں لفظ فطرت صرف ایک مرتبہ استعمال ھوا ھے اور وہ بھی لفظ الله کے ساتھ ”فطرة الله“ ۔انسان کے ساتھ لفظ فطرت اس طرح آیا ھے: ”فطرالناس علیها“ (۹)
فطرت الٰھی انسان
کوئی بھی مکتب ھو ، اگر وہ انسانی ھدایت وکمال اور سعادت ابدی کا دعوی کرتا ھے تو لازمی طور پر انسان کی ایک مخصوص تعریف اور حدود اربعہ بھی بیان کرتا ھے۔ اسی بنا پر انسان کے بارے میں جیسی اس مکتب کی شناخت ھوتی ھے ویسا ھی اس کی سعادت کاراستہ اور وسیلہ بھی معین کرتا ھے۔
مکتب الٰھی میں بھی انسان کے بارے میں کافی کچھ کھا گیا ھے ، قرآن میں بھی اور روایات معصومین علیھم السلام میں بھی کہ جن کے تمام جوانب پر تبصرہ کرنے کے لئے نہ جانے کتنی صخیم کتابوں کی ضرورت پڑے گی۔
انسان کے بارے میںاسلامی نقطہٴ نظر کو بیان کرنے والابھترین لفظ ”فطرت“ ھے۔ لھٰذا انسان کے بارے میں اسلام کی بیان کردہ تعریف کو ”نظریہٴ فطرت“ کا عنوان بھی دیا جاسکتا ھے۔
نظریہٴ فطرت،اجمالی طور پر اس نظریے کے مطابق:
(۱) ھر انسان اپنی اپنی خلقت اور طینت اولیہ کی بنیاد پر ایک مخصوص حدود اربعہ کا حامل ھوتا ھے اور ساتھ ھی ساتھ کچھ ایسی مخصوص صفات اس کی ذات سے مربوط ھوتی ھیں جواس پر خارج از ذات حمل نھیں ھوتیں بلکہ درحقیقت یہ تمام صفات اس کی ذات کا خاصہ ھوتی ھیں۔
دوسرے الفاظ میں، انسان ایک ایسا کورا کاغذ نھیں ھے کہ اس پر کچھ بھی یکساں طور پر لکہ دیا جائے اور وہ اسے قبول کرلے بلکہ انسان کا باطن اور ضمیر کچھ مخصوص تمایلات اور اوصاف کے خمیر سے خلق ھوا ھے۔
(۲) وجود انسان میں پائے جانے والے تمایلات میں سے بعض اس کے حیوانی جنبہ سے اور بعض انسانی جنبہ سے مربوط ھیں۔ فطرت الٰھی انسان کے فقط ان تمایلات اور رغبتوں سے مربوط ھے جو اس کے انسانی جنبہ سے مخصوص ھیں نہ کہ اس جنبہ سے جوانسان وحیوان میں مشترک ھے مانند غریزہٴ جنسی۔
(۳) یہ تمایلات وغرائز اس کودوسرے حیوانات سے جدا کرکے دیگر تمام حیوانات سے ممتاز درجہ عطا کرتے ھیں۔ اگر کوئی شخص مکمل طور پر ان تمایلات واوصاف سے بے بھرہ ھوجائے تو بظاھر تو وہ انسانی شکل و صورت اختیار کئے ھوئے ھوگا لیکن درحقیقت حیوان ھوگا۔
(۴) یہ تمام تمایلات واوصاف نوع انسان سے مربوط ھیں لھٰذا اس نوع کے تمام افراد میں مشترک اور سب میںپائے جاتے ھیں یعنی ایسا نھیں ھے کہ کسی خاص زمان یا مکان سے مربوط ھوں یا کسی مخصوص معاشرے، قوم یا نسل سے بلکہ ھر زمانے اور ھرجگہ کے افراد ان اوصاف سے مستفید ھوتے ھیں۔
(۵) یہ تمام اوصاف وتمایلات جنبہٴ قوة واستعداد رکھتے ھیں یعنی انسانی وجود میں پائے تو جاتے ھیں لیکن انھیں بارور ھونے اور ظاھر و بالفعل ھونے کے لئے انسانی کوشش و سعی درکار ھے۔
(۶) اگر انسان فطری امور کو اپنے اندر بارور اور اجاگر کرلے تو تمام مخلوقات حتی فرشتوں سے بھی بالاتر مقام حاصل کرلے گا۔ ساتھ ھی اپنے کمال کے اعلیٰ ترین مراتب کو بھی طے کر لے گا اور اگر یہ صفات پژمردہ ھوگئے تو اپنے اندر فطرت انسانی کے بجائے حیوانی صفات و تمایلات کا ذخیرہ کرلےگا جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ وہ تمام مخلوقات سے پست ھو جائے گا اور جھنم کے آخری مراتب کو اپنا مقدر بنالے گا۔
(۷) جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا ھے ، انسانی فطرت، بعض ادراک وشناخت اور بعض تمایل ورغبت کے مقولوں کامجموعہ ھے۔ منطق میں بدیھیات اولیہ سے جوکچھ مراد لیاجاتا ھے وہ فطری شناخت ھی کا ایک جزء ھے اور حقیقت طلبی، عزت طلبی، حسن پرستی جیسے تمام امور،انسانی تمایلات فطری کے ذیل میں آتے ھیں۔
شناخت خدا اور اس کی طرف رغبت کا فطری ھونا
قرآن مجید کی آیتوں کی رو سے شناخت خدا بھی فطری ھے اور اس کی طرف رغبت و جستجو بھی۔ بحث ”وجود خدابدیھی ھے“ کے ذیل میں کھا جا چکا ھے کہ خدا کے وجود کا باور اور اعتراف، عام اورسبھی کے لئے قابل قبول رھا ھے یعنی وجود خدا کوئی ایسا مجھول مسئلہ نھیں ھے جو اثبات کامحتاج ھو۔ اس بحث کے ذریعے شناخت خدا کا فطری ھونا ثابت ھو چکا ھے۔
اس سلسلے میں جو آیتیں دلالت کرتی ھیں ان میں سے ایک سورہٴ روم کی تیسویں آیت ھے جس کو آیہٴ فطرت کھا جاتا ھے:
(فاقم وجھک للدین حنیفاً فطرة الله التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون)
اپنا رخ پروردگار کے خالص دین کی طرف کرلو کیونکہ یہ فطرت ھے جس پر الله نے انسانوں کو پیدا کیا ھے۔ اس کی تخلیق میں کوئی تغیرو تبدل نھیں ھوتا اور یھی محکم واستوار دین ھے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نھیں جانتے۔(۱۰)
مذکورہ آیت مکمل وضاحت وصراحت کے ساتھ دین کو فطری امر کے طور پر پیش کرتی ھے۔ اس آیت میںدین سے کیا مراد ھے، اس سلسلے میں مفسرین دو رائے پیش کرتے ھیں:
(الف) دین سے مراد معارف و احکام مخصوصاً اسلام کے حقیقی اور بنیادی معارف واحکام کامجموعہ ھے۔ اس رائے کے مطابق، دین کے اندر موجود تمام کلیات کہ جن میں سے اھم ترین شناخت اور عبادت خدا ھے، فطرت انسان میں راسخ کردئے گئے ھیں ۔ مرحوم علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر،” تفسیر المیزان“ میں اسی نظریے کو منتخب کیاھے۔
(ب) دین سے مراد وہ دین ھے جو فطرت کے مطابق ھواور اس کے معنی خدا کے سامنے تسلیم محض اور سربسجود ھوجانا ھے کیونکہ دین کا لب لباب خضوع و خشوع ، فرمانبرداری و اطاعت کے ماسوا کچھ نھیں ھے:
(ان الدین عند الله الاسلام)
خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ھے۔(۱۱)
اس رائے کے مطابق، دین کے فطری ھونے کا مطلب یہ ھے کہ انسان کی خلقت میں ایسے تمایلات واوصاف شامل کردئے گئے ھیں جو اسے خدا کی عبادت کی طرف اکساتے رھتے ھیں۔ واضح ھے کہ اگر خداپرستی فطری ھو تو خدا شناسی بھی فطری ھوجائے گی کیونکہ فطرتہ یہ ممکن نھیں ھے کہ انسان اس کی پرستش کرے جس کو وہ جانتا بھی نہ ھو۔
حوالہ جات:
۱۔ ابن منظور لسان العرب میں لکھتا ھے : ”اصل الفطر، الشق، منہ قولہ تعالیٰ: اذا السماء انفطرت ای انشقت وفطراللہ الخلق یفطرھم : خلقھم وبداٴھم ۔ والفطرت: الابتداء والاختراع ․․․ والفطرت بالکسرہ: الخلقت ․․․ والفطرت : ما فطراللہ علیہ الخلق من المعرفة بہ․․․ وقال ابو الھیثم : الفطرت : الخلقت التی یخلق علیہ المولود فی بطن امہ ۔ وقولہ تعالیٰ : الذی فطرنی فانہ سیھدین: ای خلقنی قول النبی : کل مولود یولد علی الفطرة یعنی الخلقت التی فطر علیھا فی الرحم من سعادة اوشقاوة (علامہ ابی الفضل جمال الدنی محمد بن مکرم ابن منظور افریقائی ،مصری ، لسان العرب، نشر ادب حوزہ ،قم ، ج/۵،ص/۵۵،۵۶۔
۲۔ انعام:۷۹
۳۔ اسراء: ۵۱
۴۔طٰہ:۷۲
۵۔ ھود: ۵۱، یس: ۲۲، زخرف:۲۷
۶۔ انعام: ۱۴، یوسف:۱۰۱، فاطر:۱، زمر: ۴۶، شوریٰ:۱۱
۷۔ ملک:۳
۸۔ مزمل: ۱۸
۹۔روم: ۳۰
۱۰۔ روم: ۳۰
۱۱۔ آل عمران: ۱۹
برھان نظم
قبلا ًیہ بات واضح ھو چکی ھے کہ خداوند عالم کا وجود واضح اور بدیھی ھے اور ھر انسان کی فطرت میں اس کے وجود پر اعتقاد کوودیعت کیا گیا ھے یعنی ھر انسان فطری طور پر دل کی گھرائیوں سے خدا کے وجود پر یقین رکھتا ھے لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ خداوند عالم کے وجود پر کوئی دلیل یا برھان موجود نہ ھوبلکہ وجود خداوندعالم پر بے شمار دلائل خدا کے معتقدین کی جانب سے پیش کئے جاتے رھے ھیں۔انھیں براھین میں ایک بھت ھی سادہ اور واضح برھان ، برھان نظم ھے ، یہ برھان دو مقدموں پر مشتمل ھے:
الف) تجربات اور شواھد کی روسے یہ بات ثابت ھے کہ اس کائنات میں منظم مجموعے پائے جاتے ھیں یعنی ایک نظم اور انسجام پوری کائنات میں موجود ھے۔
ب) ھر وہ مجموعہ جو منظم ھو اس کے لئے ایک ناظم ضروری ھے (بغیر ناظم کے کوئی بھی شےٴ منظم نھیں ھوسکتی ) ۔
نتیجہ: سابقہ دونوں مقدموں کی روشنی میں یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ وہ منظم مجموعے جو اس کائنات میں پائے جاتے ھیں ان کا ایک ناظم ھے۔
اس برھان کے معنی اور مفھوم کو سمجھنا بھت آسان ھے حتی کہ بھت سے ایسے افراد جو لکھنا پڑھنا بھی نھیں جانتے اس برھان کے معنی سے آشنا ھیں اور اس جھان کے نظم اور انسجام کودیکہ کر اس نظم کو وجود بخشنے والے خدا کی جانب متوجہ ھوجاتے ھیں لیکن اس برھان کی فنی اعتبار سے تبیین و توضیح کے لئے ضروری ھے کہ پھلے نظم کی تعریف کی جائے اور پھر دونوں مقدمات کی وضاحت کی جائے۔
تعریف نظم
کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف اجزاء کا ایک مجموعے میں جمع ھو جانا، اس طریقے سے کہ ان کی باھمی ھماھنگی اور ارتباط کے ذریعے ایک معین غرض حاصل ھو جائے ،نظم کھلاتا ھے۔
مثلا: گھڑی ایک منظم چیز ھے اس لئے کہ اس میں مختلف اجزاء جو کمیت و کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متفاوت ھیں ،ایک جگہ جمع ھوتے ھیں۔
مقدمہٴ اول: یہ ایک حقیقت ھے کہ اس کائنات میں منظم مجموعے موجود ہیں یھاں تک کہ منکرین خدا بھی اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ کائنات منظم ھے اوردرحقیقت علوم تجربی اسی نظم اور ھماھنگی تک پھنچنے کا نام ھے علوم تجربی اور سائنس کی ترقی کے ذریعہ روز بروز کائنات کے نظم کے عجیب و غریب مناظر سامنے آتے ھیں۔ آج اگر کسی بھی دانشمند(چاھے وہ موحد ھو یا ملحد) سے اس کائنات کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ یھی کھے گا کہ اس کائنات میں ایک تعجب آور اور حیران کن نظام کی حکمرانی ھے، خواہ وہ ھمارے وجود کے مختصر ترین ذرات ھوں یا بدن کے دوسرے مختلف اجزاء (قلب، مغز، رگوں کے سلسلے و․․․․) اور ان کی باھمی ھماھنگی اوردوسرے سے ارتباط اورخواہ آسمان کے بڑے بڑے مجموعے، کھکشایٴں اورمنظومہ شمسی وغیرہ اور جھاں تک علم انسانی کی دسترس ھے ، تمام کے تمام مجموعے ایک دقیق نظام کی پیروی کرتے ھیں۔
مقدمہٴ دوم: برھان نظم کا یہ دوسرا مقدمہ بھی واضح اور بدیھی امر ھے اور تمام افراد اس کو قبول کرتے ھیں نیز ھر روز اس سے استفادہ کرتے ھیں۔
ھم جب کسی خوبصورت عمارت کودیکھتے ھیں تو کھتے ھیں کہ یقینا اس کانقشہ کسی ماھر انجینئر نے بنایا ھے اور کسی ماھر مستری کے ھاتھوں نے دیواروں کو بلندکیا ھے۔
جب بھی نھج البلاغہ یا صحیفہٴ سجادیہ کوپڑھتے ھیں تو اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں کہ ان کلمات کو وجود بخشنے والااعلیٰ درجے کی فصاحت و بلاغت ، حکمت ومعرفت اور علم ودانش کا حامل تھا۔
جب کسی گھڑی کودیکھتے ھیں کہ سھی وقت بتا رھی ھے تو ھمیں یہ یقین ھو جاتا ھے کہ اس گھڑی کو بنانے والا اس کے بارے میں خاص معلومات رکھتا تھا۔
کیا اس طرح اور اسی طرح کے بے شمار موارد میں یہ احتمال دیا جاسکتا ھے کہ یہ چیزیں اتفاقاً یا کسی حادثے کے نتیجہ میںوجود میں آئی ھوں گی یا کوئی ایسا شخص ان کو عالم وجود میں لایا ھوگا جو ان کے بارے میں کوئی اطلاع یا علم نہ رکهتا ھو۔
اگر ھم ایک صفحہ کوٹائپ رائٹر میں لگا ھوا دیکھیں جس پر دقیق علمی مطالب بغیر کسی غلطی کے ٹائپ ھوئے ھوں تو آیا ھم یہ احتمال دے سکتے ھیں کہ ایک نادان بچے نے اتفاقاً اور حادثاتی طور پر ٹائپ رائٹر کے بٹنوں کو دبادیا ھوگا جس کی بنا پر اتفاقاً یہ دقیق علمی تحریر کاغذ پر ٹائپ ھوگئی۔
پس یہ بات ثابت ھے کہ ھر نظم کسی ناظم کے ذریعہ ھی وجود میںآسکتا ھے۔
چند نکات
۱) نظم کو دیکہ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ ناظم کتنا حکیم اور قادر ھے (یعنی ناظم کی قدرت اور حکمت نظم کے تناسب سے ھوتی ھے)۔ لھٰذا مورد نظر نظم جتنا دقیق اور پیچیدہ ھوگا، ناظم کی حکمت وقدرت کو اتنا ھی زیادہ ثابت کرے گا۔
۲) برھان نظم میں یہ روری نھیں ھے کہ تمام کائنات میں نظم ثابت کیا جائے بلکہ اتنا ھی کافی ھے کہ یہ کھا جاسکے کہ کائنات میں دقیق اور پیچیدہ نظام موجود ھے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ ھم جس موجودہ نظم کو جانتے ھیں اس کے ذریعہ ایک حکیم ناظم کا وجود اس کائنات میں ثابت ھو جاتا ھے چاھے کائنات کا وہ حصہ جوابھی ھمارے لئے مجھول ھے اس کے نظم کا ھمیں علم نہ ھو۔
۳) برھان نظم ان افراد کے نظریے کو رد کرتا ھے جو کھتے ھیں کہ کائنات اسی فاقد عقل و شعور طبیعت کی پیداوار ھے اور چھوٹے چھوٹے ذرات کی کور کورانہ حرکت اور ان کے ایک دوسرے پر تاثیر اور تاثرات کے ذریعہ وجود میں آئی ھے۔
۴) جتنی سائنس ترقی کرتی جا رھی ھے اتنا ھی کائنات میں نظم کا وجود ثابت ھوتا جا رھا ھے اور برھان نظم کی قوت میںاضافہ ھوتا جا رھا ھے اس لئے کہ اس کائنات کے اسرار سے ھر اٹھایا جانے والا پردہ خدا کے وجود کے اثبات کے لئے ایک آیت اور علامت دانشمندوں کے سامنے پیش کردیتا ھے۔جیسا کہ مشھور ماھر فلکیات ھرشل کا قول ھے:
جتنا زیادہ علم کا دائرہ بڑھتا جائے گا خدائے ازلی اوراس کے وجود کے اثبات پر دنداں شکن اورقوی ترا ستدلالات بھی مھیا ھوتے جائیں گے۔
۵) حالانکہ قرآن کریم نے اثبات وجود خدا پر صریحاً کوئی دلیل قائم نھیں کی ھے( کیونکہ قرآن وجود خدا کو ایک بدیھی امر سمجھتا ھے) لیکن امر خلقت ، عالم کی تدبیر وغیرہ میں خدا کے شریک نہ ھونے اور خدا کے تنھا پروردگار عالم ھونے کو بیان کرتے ھوئے بارھا انسجام اور موجودات عالم کے حیرت انگیز نظم کی یاد آوری کرائی ھے اور لوگوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دی ھے نیز کائنات کے ھر موجود کوخدا کے وجود کی ایک نشانی قراردیاھے۔اس سلسلے میں قرآن کی بعض آیات مندرجہ ذیل ھیں:
إنّ فی خلق السمٰوات و الاٴرض و اختلاف اللیل و النهار لآیات لاٴولی الالباب
بے شک زمین و آسمان کی خلقت ،لیل و نھار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خد اکی نشانیاں ھیں۔(۱)
وفی خلقکم و مایبثّ من دآبة آیات لقوم یوقنون
اور خود تمھاری خلقت میں بھی اور جن جانوروں کو وہ پھیلاتا رھتا ھے ان ،میں بھی صاحبان یقین کے لئے بھت سی نشانیاں ھیں ۔ (۲)
إنّ فی خلق السمٰوات و الاٴرض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس و ما اٴنزل الله من السماء من ماءٍ فاٴحیا به الاٴرض بعد موتها و بثّ فیها من کلّ دابّة و تصریف الریاح و السحاب المسخّر بین السماء و الاٴرض لآیات لقوم یعقلون۔
بے شک زمین و آسمان کی خلقت ،لیل و نھار کی آمد و رفت اوران کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کے لئے دریاؤں میں چلتی ھیں اور اس پانی میں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعے مردہ زمینوں کو زندہ کیاھے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئے ھیں اور ھواؤں کے چلانے میں نیز آسمان و زمین کے در میان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کے لئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ھیں ۔(۳)
وفی الار ض آیات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بھت سی نشانیاں پائی جاتی ھیں اور خود تمھارے اندر بھی ۔کیا تم نهیں دیکہ رھے ھو۔(۴)
حوالہ جات:
۱۔آل عمران :۱۹۰ ،
۲۔جاثیہ:۴
۳۔بقرہ:۱۶۴
۴۔ذاریات۔۲۰،۲۱
صفات خدا
صفات ذاتی وصفات فعلی
صفات خدا سے متعلق مختلف تقسیمات بیان کی گئیں ھیں جن میں سے اھم ترین صفات ذاتی (یعنی توحید ذات) اور صفات فعلی (توحید فعلی) ھیں۔
صفات ذاتی
صفات ذاتی سے مراد یہ ھے کہ خدا کی ذات کے ماوراء کسی شےٴ کا تصور کئے بغیران صفات کو خدا سے متصف کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، ان صفات کو خدا سے متصف یا مرتبط کرنے کے لئے صرف خدا کی ذات ھی کافی ھے یعنی کسی خارجی امر کو مدنظر رکھنے یا ذات خدا کا ان سے تقابل کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ حیات وقدرت جیسی صفات اس زمرے میں آتی ھیں۔ اگر اس کائنات اور عالم ھستی میں ذات خدا کے ماسوا کوئی بھی موجود نہ ھو یعنی فقط اور فقط خدا تنھا ھو تو بھی خدا کو حی اور قادر کھا جاسکتا ھے۔
صفات فعلی صفات ذاتی کے بالمقابل،
صفات فعلی ھیں کہ جب تک خدا کی ذات سے خارج کسی امر یا شیٴ کو مدنظر نہ رکھا جائے ، ان صفات کو خدا کی ذات کے ساتھ نھیں جوڑا جاسکتا۔ لھٰذا صفات فعلی وہ صفات ھیں کہ جن کے اتصاف کے لئے ذات خدا کے علاوہ کوئی شیٴ ھو تاکہ اس کی ذات سے اس شیٴ کا رابطہ قائم کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھی موجود کائنات میں وجود نہ رکھتا ھو تو خدا کو خالق نھیں کھا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی بھی مخلوق پر تکالیف واحکام الٰھی کی انجام دھی واجب نہ ھو تو خدا کوشارع نیز اگر کوئی بھی بندہ معصیت ونافرمانی خدا انجام نہ دے تو خدا کو غفور بھی نھیں کھا جاسکتا۔
یھیں سے یہ بات بھی واضح ھو جاتی ھے کہ خالق، شارع اور غفور جیسی صفات، صفات فعلی میں شمار کی جاتی ھیں۔ صفات فعلی وذاتی میں اھم ترین امتیاز وفرق مندرجہ ذیل ھیں:
(۱) صفات فعلی وہ صفات ھیں جو ذات سے صادر ھونے والے فعل کو مدنظر رکھتے ھوئے اس کے ساتھ تقابل کے ذریعہ ذات سے متصف ھوتی ھیں یعنی یہ صفات فعل خدا سے انتزاع اور اخذ کی جاتی ھیں جب کہ صفات ذاتی فقط اور فقط دائرہٴ ذات کے ذریعہ ھی اخذ کی جاسکتی ھیں۔
(۲) صفات فعلی قابل نفی و اثبات ھیں ،اس معنی میں کہ بعض شرائط میں ان کی نفی کی جاسکتی ھے اور بعض میں اثبات۔ دوسرے الفاظ میں ،ان میں سے ذات خدا سے ھر صفت کی نفی یا اثبات ممکن ھے مثلاً خدا زمین کو خلق کرنے سے قبل ”خالق زمین“ نھیں تھا لیکن خلقت زمین کے بعد کھا جاسکتا ھے کہ ”خدا خالق زمین ھے۔“
اسی طرح بعثت رسول اکرم سے پھلے خدا قرآن کا نازل کرنے والا نھیں تھا لیکن بعثت کے بعد ”منزِّل قرآن“ ھوگیا۔
اس کے برخلاف ، صفات ذاتی ھمیشہ اور تمام شرائط و اوقات میں ذات اقدس خدا سے پیوستہ اور آمیختہ ھیں یعنی کسی بھی صورت میں خدا کی ذات سے ان کو خارج نھیں کیا جاسکتا نیز خدا از ازل تا ابد ان صفات کا حامل و و اجدرھے گا۔
صفات ثبوتی وصفات سلبی
صفات ثبوتی
صفات ثبوتی وہ صفات ھیں جو ذات خدا کے کمالات کو بیان کرتی ھیں۔ قابل غور ھے کہ خدا کی صفات ثبوتی میں ذرہ برابر نقص وکمی کا شائبہ نھیں پایا جاسکتا اور اگر کوئی ایسا مفھوم پیدا بھی ھوگیا جو کمال پردلالت کرنے کے باوجود کسی طرح کا نقص بھی رکھتا ھو تو اس کو خدا کی صفات ثبوتی کا جز قرار نھیں دیا جاسکتا مثلاً صفت ”شجاعت“کہ جس کے معنی کسی ایسی شیٔ سے روبرو ھوتے وقت خوف نہ کھانے اور نہ ڈرنے کے ھیں جس سے کسی طرح کے نقصان یاخطرے کا اندیشہ ھو۔ اگرچہ ایک جھت سے یہ صفت کمال ھے کیونکہ موجود شجاع، موجود غیر شجاع سے افضل اورکامل تر ھے۔ لیکن صفت شجاعت، اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ شخص شجاع کو کسی نہ کسی طرح کا نقصان پھونچ سکتا ھے اور کائنات میں ایسی کوئی شےٴ نھیں ھے جو خدا کو نقصان پھونچا سکے لھٰذا خدا کو ”شجاع“ نھیں کھا جاسکتا۔ اس طرح کے موارد میں خدا سے یہ دونوں صفتیں، شجاعت اور بزدلی سلب ھوجاتی ھیں۔
المختصر یہ کہ صفات ثبوتی وہ صفات ھیں جوایسے کمال پر دلالت کرتی ھیں جس میں نقص کی قطعاً کوئی گنجائش نھیں ھوتی۔
صفات سلبی
یہ وہ صفات ھیں جوذات خدا سے کسی بھی طرح کے نقص کی نفی کرتی ھیں جیسے جسمانی نا ھونا، عاجز نہ ھونا، بے مکانی وبے زمانی ھونا۔
صفات سلبی، دیگر موجودات سے خدا کی غیریت کوبیان کرنے کے ساتھ ساتھ خدا کی ذات کے اِن نقائص سے مبرہ ھونے پر بھی دلالت کرتی ھیں۔ لیکن صفات ثبوتی، خدا کے ان کمالات پر دلالت کرتی ھیں جن کا خدا حامل و واجد ھے۔
تھوڑی توجہ دینے پر واضح ھوجاتا ھے کہ صفات سلبی کی بازگشت بھی صفات ثبوتی کی طرف ھے کیونکہ جو کچھ صفات سلبی کے ذریعے خدا سے نفی یا سلب ھوتا ھے ، نقص ھے اور نقص خود بذاتہ امرعدمی وسلبی ھے اور سلبِ سلب ، ایجاب واثبات ھوتاھے۔ جب ھم یہ کھتے ھیں کہ ”خدا عاجز نھیں ھے“ تو درحقیقت ھم یہ کھتے ھیں کہ ” خدا فاقد قدرت نھیں ھے“ اور ” عاجز نہ ھونا “ مساوی ھے ”قادر ھونے“ کے۔
صفات ثبوتی کو صفات جمالیہ اور صفات سلبی کو صفات جلالیہ بھی کھا جاتا ھے۔
علم
خدا ھر شئے سے آگاہ ھے اور کوئی بھی چیز اس کے علم سے ماوراء اور خارج نھیں ھے۔ چھوٹا یا بڑا، اھم یا غیر اھم جو کچھ ماضی میں اب تک گذر چکا ھے یا آئندہ آنے والا ھے، سب کچھ خدا کے علم میں ھے ۔ اور کیا یہ ممکن ھے کہ وہ خدا جس نے ساری کائنات کو خلق کیا ھے، وہ کائنات جس کا ذرہ ذرہ اپنی ھستی میں وجود خدا کا محتاج ھے، اپنی مخلوق سے بے خبرھو؟
قرآنی مثالیں
عقلی دلائل سے ھٹ کر قرآن کریم کی نہ جانے کتنی آیتیں ھیں جو علم خدا کے لامتناھی ھونے پر دلالت کرتی ھیں:
(واعلموا ان الله بکل شیٴ علیم)
اور جان لو کہ خدا کو ھر چیز کا علم ھے۔(۱)
(الا یعلم من خلق وهو اللطیف الخبیر)
کیا پیدا کرنے والا نھیں جانتا ھے جب کہ وہ لطیف بھی اور خبیر بھی ھے۔(۲)
(وهو الله فی السمٰوات وفی الارض یعلم سرکم وجهکم ویعلم ماتکسبون) وہ آسمانوں اور زمین ھر جگہ کا خدا ھے وہ تمھارے باطن اور ظاھر اور جو تم کاروبار کرتے ھو، سب کو جانتا ھے۔(۳)
(ویعلم مافی السمٰوات ومافی الارض)
اور وہ زمین و آسمان کی ھر چیز کوجانتا ھے۔(۴)
(وعنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو ویعلم مافی البر والبحر وما تسقط من ورقة الایعلمها ولا حبة فی ظلمات الارض ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین)
اور اس کے پاس غیب کے خزانے ھیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نھیں جانتا ھے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ھے۔ کوئی پتہ بھی گرتا ھے تو اسے اس کا علم ھے۔ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نھیں ھے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ھو۔(۵)
حوالہ جات:
۱۔بقرہ: ۲۳۱
۲۔ملک:۱۴
۳۔ انعام:۳
۴۔ آل عمران: ۲۹
۵۔ انعام:۵۹
حکمت وعدل خدا
حکمت
خدا حکیم ھے اوراس کے تمام افعال وامور حکیمانہ ھیں۔ حکمت کے دو معنی ھیں اور دونوں ھی معنی صفات ثبوتی خدا کے زمرے میں آتے ھیں:
(۱) فاعل کے فعل میںاستحکام وپائداری، اس طرح کہ فعل اپنے نھایت کمال کے درجے پرفائز ھو اور اس میں کسی بھی طرح کا نقص یا عیب نہ پایا جاتا ھو۔
(۲) فاعل ایسا ھو کہ اس کی ذات سے کسی بھی طرح کا کوئی غلط یا غیر پسندیدہ (قبیح) فعل سرزد نہ ھو اور اس کا ھر فعل شایستہ اورعمدہ وپسندیدہ (حسن) ھو۔
فخر رازی اس سلسلہ میں فرماتے ھیں:
”فی الحکیم وجوه: الاول: انه فعیل بمعنی مفعل، کاٴلیم بمعنی مؤلم ومعنی الاحکام فی حق الله تعالیٰ فی خلق الاشیاء هو اتقان التدبیر فیها وحسن التقدیر لها․․․ الثانی انه عبارة عن کونه مقدساً عن فعل مالا ینبغی“ ۔ (۱)
حکیم کی اصل اِحکام ھے اور اس عبارت میں اِحکام کے دو معنی ذکر کئے گئے ھیں ایک اتفاق تدبیر اور حسن تقدیر اور دوسرے نا مناسب فعل کا انجام نہ دینا۔
حکمت، پھلے معنی میں خدا کیونکہ تمام کمالات کا حامل ھے اور اس کا علم وقدرت بے حد ولامتناھی ھے، وہ ھر شئے کا علم رکھتا ھے اور ھر شئے پر قدرت رکھتا ھے، کسی بھی شئے یا ذات کا محتاج نھیں ھے لھٰذا قطعاً اس کا ھر قعل بھی کامل ترین، مستحکم ترین اور پایدار ترین فعل کی صورت اختیار کرلیتا ھے۔ پس وہ ”احسن الخالقین“ ھے۔
( اتدعون بعلاً وتذرون احسن الخالقین ۔الله ربکم ورب آبائکم الاولین) یعنی کیا تم لوگ بعل کو آواز دیتے ھو اور بھترین خلق کرنے کو چھوڑ دیتے ھو۔ جب کہ وہ الله تمھارا اور تمھارے باپ داداکا پالنے والا ھے۔ (۲)
(خالق، صفت فعل ھے لھٰذا خدا اس صورت میں احسن الخالقین ھے کہ جب اس کا فعل بھی احسن الافعال ھو اور اسی لئے یہ آیت خلقت خدا کے بھترین خلقت ھونے پر دلالت کرتی ھے۔)
حکمت، دوسرے معنی میں دوسرے معنی کی بنیاد اس حقیقت کے قبول کرنے پر موقوف ھے کہ بیان شارع (خدا) سے قطع نظر، بعض افعال حَسَن اور بعض قبیح (غیر پسندیدہ) ھوتے ھیں اور یہ کہ عقل بھت سے موارد اور مواقع پر یہ فیصلہ کرلیتی ھے کہ کونسا فعل حسن اور کونسا قبیح ( غیر پسندیدہ) ھے مثلاً صداقت، امانت داری، کسی محتاج کی مدد کرنا وغیرہ عقل کے نزدیک پسندیدہ اور ان کے مقابلے میں کذب یا دروغ گوئی، امانت میں خیانت، ظلم و ستم وغیرہ غیر پسندیدہ اور قبیح ھیں۔
اس اصل اور کلیہ کوحسن و قبح عقلی کھا جاتاھے۔
متکلمین اھل سنت کی اکثرےت کہ جس کو اشاعرہ کھا جاتا ھے ،اس مذکورہ اصل و کلیہ کی مخالف و منکر ھے۔جس کی وجہ سے هے لوگ عدل کو صفات خدا سے خارج کردےتے ھیں ۔ ان کے مقابلہ میں اھل سنت ھی کا ایک دوسرا گروہ کہ جس کومعتزلہ کھا جاتا ھے اور عام طور پر تمام شےعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کے قائل ھیں۔ان کا نظرےہ و عقےدہ هے کہ بشمول عدل خدا فقط فعل حسن کو ھی انجام دےتا ھے اور بشمول ظلم فعل قبیح کا مرتکب نھیں ھوتا۔
اسی وجہ کے متکلمین کا هے گروہ ”عدلیہ“ کھلاتا ھے۔
اس کلئے کے قائل ھونے کے بعد ھم کهہ سکتے ھیں: خدا وندعالم، غنی مطلق ھے اور کسی غیر کا ذرہ برابر محتاج نھیں ھے نیز عالم وقادر بھی مطلق ھے۔ا فعال حسن وعمدہ اور پسندیدہ کا علم رکھتا ھے اور ان کی انجام دھی پرقادر ھے نیز کارھائے قبیح کا بھی علم رکھتا ھے اور ترک کرنے پر بھی قادر ھے۔ مذکورہ صفت کا حامل موجود یاذات کسی بھی صورت میں فعل قبیح انجام نھیں دے سکتی اور اسی طرح کسی بھی صورت میں فعل حسن کو ترک بھی نھیں کرسکتی۔
عدل
خداوند عالم عادل ھے اور ھرگز ظلم نھیں کرتا ھے ۔لھٰذا عدل اس کی صفات ثبوتی اور ظلم اس کی صفات سلبی میں سے ھے۔
عدل سے مراد، ھر شئی کو اس کے مقام پر قرار دینا ھوتاھے: وضع کل شیٴ فی موضعہ ، جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”العدل یضع الامور مواضعها“
عدالت، امور کو ان کے مقام پر قرار دیتی ھے۔ (۳)
البتہ کبھی کبھی یہ بھی کھا جاتا ھے کہ عدل یعنی ھر صاحب حق کواس کا حق دے دیا جائے” اعطاء کل ذی حق حقاً“ یہ معنی مذکورہ پھلے والے معنی سے اخص او رمحدود تر اور اس کا مصداق ھے یعنی صاحب حق کو اس کا حق دینا ،کسی شئے کو اس کے صحیح مقام پر قرار دئے جانے والے موارد میں سے ایک مورد ھے۔
عقلی حکم کی بنیاد پرعدل ایک فعل حسن اور پسندیدہ اور ظلم فعل قبیح شمار کیا جاتا ھے۔ خدا چونکہ حکیم ھے اور ھراچھے فعل کو انجام دیتا ھے نیزھر برے فعل سے اجتناب کرتا ھے لھٰذا وہ عادل ھے اور ظلم نھیں کرتا۔
مذکورہ بیان سے واضح ھوجاتا ھے کہ عدل الٰھی ، جنبہٴ حکمت الٰھی سے مربوط ھے۔
قرآنی مثالیں
قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں خدا پر اسم حکیم کا اطلاق ھوا ھے:
(فاعلموا ان الله عزیز حکیم)
یاد رکھو کہ خدا سب پر غالب ھے اور صاحب حکمت ھے۔(۴)
قرآن فرماتاھے:
خداوند عالم ھر شئی کو اس کے بھترین مرتبے پر خلق فرماتاھے:
(الذی احسن کل شیٴ خلقه)
اس نے ھر چیز کو حسن کے ساتھ بنایا ھے۔(۵)
اس کی خلقت میں بے ترتیبی ، فرق یا شگاف نھیں پایا جاتا:
(ماتریٰ فی خلق الرحمٰن من تفاوت فارجع البصر هل تری من فطور )
تم رحمن کی خلقت میں کسی طرح کا فرق نہ دیکھو گے۔ پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر دیکھو کھیں کوئی شگاف نظر آتا ھے۔(۶)
خلقت خدا، ھرگز عبث ،بیکار اور باطل نھیں ھے:
(اٴفحسبتم انما خلقناکم عبثاً)
کیا تمھارا خیال یہ تھا کہ ھم نے تمھیں بیکار پیدا کیا ھے؟(۷)
(وما خلقنا السماء والارض وما بینهما باطلاً)
اورھم نے آسمان وزمین اوراس کے درمیان کی مخلوقات کوبیکار پیدانھیں کیاھے۔( ۸)
خدا کسی پر ظلم نھیں کرتا ھے بلکہ یہ خوداحسان فراموش انسان ھے جو اپنے آپ پر ظلم کرتاھے:
(وما ظلمنا هم ولکن کانوا انفسهم یظلمون)
اور یہ ھم نے ظلم نھیں کیا ھے بلکہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے۔(۹)
خدا کی شان یہ نھیں ھے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کو روا رکھے۔:
(وان الله لیس بظلام للعبید)
اور خدا اپنے بندوں پر ظلم نھیں کرتا۔(۱۰)
خدا نہ فقط انسان بلکہ اس کائنات کے کسی بھی موجود پر ظلم نھیں کرتا:
(وما الله یریدظلماً للعالمین)
اورالله عالمین کے بارے میں ھرگز ظلم نھیں چاھتا۔ (۱۱)
حوالہ جات:
۱۔ شرح الاسماء الحسنیٰ، منشورات مکتبة الکلیة الازھریة ، ص/۲۷۹؛الالھیات علی الکتاب والسنۃ والعقل ج،۱،ص ۲۲۵
۲۔ صافات: ۱۲۵، ۱۲۶۔
۳۔۱۔نھج البلاغہ:کلمات قصار۔۴۳۷
۴۔بقرہ:۲۰۹؛نیز بقرہ:۲۲۸ ،آل عمران :۱۸، انعام:۱۸
۵۔سجدہ:۷
۶۔ملک:۳
۷۔مومنون:۱۱۵
۸۔ص:۲۷
۹۔نحل:۱۱۸، نیزھود:۱۰۱، زخرف::۷۶
۱۰۔آل عمران:۱۸۲، نیز انفال:۵۱، حج:۱۰، فصلت:۴۶، ق:۲۹
۱۱۔آل عمران:۱۰۸
توحید
اصطلاحاً توحید کے معنی خدا اور مبداٴ ھستی کو ایک ماننے کے ھیں۔ دین اسلام ، دین توحیدیعنی خدائے وحدہ لاشریک پراعتقاد اور اس عقیدے کا نام ھے کہ اس کی ذات کے علاوہ کوئی ذات قابل پرستش وعبادت نھیں ھے۔ اگراسلام اور فلسفہٴ اسلام کوسمیٹا جائے تو ایک جملے میں یوں کھا جاسکتا ھے: لا الٰہ الا الله․ یہ جملہ قرآن مجید کا نچوڑ اور تمام اسلامی تعلیمات کا لب لباب ھے۔ یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم نے ساٹھ مرتبہ سے بھی زیادہ اس آسمانی نعرے اور شعار کو مختلف انداز وعبارتوں میںاستعمال فرمایا ھے:
”لاالٰه الاالله “ الله کے سوا کوئی خدا نھیں ھے۔ (۱)
”لاالٰه الاھو“ اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے۔ (۲)
”لاالٰه الا انت“ تیرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے۔(۳)
”لا الٰه الا انا“ میرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے۔(۴)
”ما من الٰه الا الله“ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے۔(۵)
”ما کان معه من الٰه“ اس کے ساتھ کوئی خدا نھیں ھے۔ (۶)
” ان الٰهکم لواحد“ بیشک تمھارا خدا ایک ھے۔ (۷)
”هوا الله احد“ وہ الله ایک ھے۔ (۸)
اس شعار کی اھمیت اسقدر زیادہ ھے کہ مندرجہ ذیل مختصرسی آیت میں دوبار استعمال ھوا ھے:
(شهد الله انه لا الٰه الا هو والملائکة واولو العلم قائماً بالقسط لا الٰه الا هو العزیز الحکیم) الله خود گواہ ھے کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے۔ ملائکہ اور صاحبان علم گواہ ھیں کہ وہ عدل کے ساتھ قائم ھے۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور وہ صاحب عزت وحکمت ھے۔(۹)
البتہ توحید کی طرف دعوت فقط اسلام سے مخصوص نھیں رھی ھے بلکہ تمام آسمانی مذاھب ، دین توحید اور تمام انبیائے الٰھی، منادی توحید رھے ھیں۔
(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیه انه لا الٰه الا انا فاعبدون)
اور ھم نے آپ سے پھلے کوئی رسول نھیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف یھی وحی کرتے رھے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے لھٰذا سب لوگ میری ھی عبادت کرو۔ (۱۰)
مراتب توحید
توحید کے کچھ مراتب ودرجات پائے جاتے ھیں اس کے بالمقابل شرک کے بھی مراتب و درجات ھیں۔
یہ مراتب مندرجہ ذیل ھیں:
(۱) توحید ذاتی
توحید ذاتی یعنی یہ اعتقاد کہ مبداٴ عالم ِھستی یعنی خداکی ذات اور اسکا موجود فقط ایک ھے۔ صرف وھی ایسا موجود ھے کہ دوسرے تمام موجودات کی خلقت بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی کی ذات سے وابستہ ھے جب کہ وہ ایسی ذات ھے کہ کسی نے اس کو خلق نھیں کیاھے۔ اس حقےقت کو فلسفہ میں ”علیت اولیہ “کے عنوان سے جانا جاتا ھے۔
دوسرے الفاظ میں توحید ذاتی یعنی یہ اعتقاد کہ تمام موجودات فقط ایک خالق کی مخلوقات ھیں اور یہ کہ جھاں ھستی وکائنات اپنی تمام وسعت ،عظمت، کثرت و تعدّد کے باوجود فقط و فقط ایک ھی خالق اور مبداٴ رکھتی ھے۔
(قل الله خالق کل شیٴ)
کھہ دیجئے کہ الله ھر چیز کا خلق کرنے والا ھے۔ (۱۱)
البتہ اس سے مراد یہ نھیں ھے کہ اس مبداٴ ھستی نے ھر شئے کو براہ راست اور بغیر کسی واسطے کے خلق کیا ھے بلکہ ممکن ھے کہ ایک موجود ، ایک یا چند واسطوں کے ذریعہ مخلوق خدا ھو مثلاً خدا ایک موجود "A" کو خلق کرے اور پھر "A" کے ذریعہ ، "B"کو خلق کرے ، پھر"B" کے ذریعہ ، "C" کو۔ اس فرضیے میںموجود "A" خدا کی براہ راست مخلوق ھے جب کہ "B" ایک واسطے اور "C" دو واسطوں کے ساتھ مخلوق خدا ھے۔ اس طرح کے فرض کو قبول کرنا توحید ذاتی سے کسی بھی طرح منافی نھیں ھے۔
(۲) توحید صفاتی
توحید صفاتی یعنی یہ اعتقاد و ایمان کہ صفات ذاتی خدا مثلاً علم، قدرت، حیات وغیرہ عین ذات خدا هیں۔ مفھوم کے اعتبار سے خدا کی صفات ذاتی متعدد اورمتکثر ھیں لیکن مصداق کے لحاظ سے عین یک دیگر،یہ تمام صفات عین ذات خدا اور ایک سے بیشتر یک شئے نھیں ھیں۔
حقیقت یہ ھے کہ توحید صفاتی مندرجہ ذیل دو اعتقاد وںکا نام ھے:
۱) علم و قدرت جیسی صفات ذات خدا پر زائد وعارض نھیں ھیں۔
۲) یہ صفات، ذات خدا میں ترکیب وکثرت کی موجب نھیں ھوتی ھیں۔
ذات وصفات کی عینیت مذکورہ دونوں نکات کوبیان کرتی ھے۔
شھید مرتضی مطھری ۺ کے مطابق توحید صفاتی ،ذات خداسے ھرطرح کی ترکیب کی نفی کے اعتقاد کوبھی اپنے اندر شامل کرتی ھے ۔ ( ۱۲) لیکن استاد مصباح یزدی معتقد ھیں کہ متکلمین کی اصطلاح میں توحید صفاتی فقط نفی صفات زائد بر ذات کو بیان کرتی ھے۔( معارف قرآن ص/۶۹)
آپ کے بقول اصطلاح فلاسفہ اور متکلمین میں توحید صفاتی سے مراد یہ ھے کہ ھم جن صفات کو ذات خدا سے منسوب کرتے ھیں وہ ذات خدا کے علاوہ اور کچه نھیں ھیں۔(۱۳)
استاد جعفر سبحانی توحید ذاتی کے لئے دو معنی بیان فرماتے ھیں: الف) یہ کہ خدا کا کوئی ثانی نھیں ھے۔ ب) یہ کہ خدا، جزء نھیں رکھتا نیزفرماتے ھیں: متکلمین نے ان دونوں معانی کی ایک دوسرے سے تفکیک کی خاطر پھلے والے معنی کو توحید ذاتی واحدی اور دوسرے معنی کو توحید ذاتی احدی کھاھے۔ (۱۴)
ذات خدا بسیط ھے اور اس میں کسی بھی طرح کی ترکیب کاداخلہ ممکن نھیں نیزاس کی ذات کے لیے کوئی جز بھی فرض نھیں کیاجا سکتا۔
بعض مفسرین کا نظریہ وعقیدہ ھے کہ عنوان ”واحد“ توحید ذاتی کو بیان کرنے یعنی ذات خدا سے کسی ثانی کی نفی کرنے والا اور عنوان ”احد“ توحید صفاتی کو بیان کرنے او رذات مقدس خدا سے ھر ممکنہ ترکیب کی نفی کرنے والا ھے۔
توحید افعالی
توحید افعالی یعنی یہ اعتقاد کہ تمام موجودات کا ئنات ،خدا سے وابستہ ھیں اور استقلال ذاتی نھیں رکھتے ھیں۔ اسی طرح ان موجودات کے افعال وامور اور ان افعال وامور کا اثر بھی ذات وقدرت خدا سے وابستہ ھے یعنی یھموجودات اپنے فعل کے صادر کرنے میں بھی اپنی ذات کی طرح خود مختار نھیں ھیں۔
دوسرے الفاظ میں، توحید ذاتی یعنی خدا اپنی ذات میں کوئی شریک نھیں رکھتا ھے اور توحید افعالی یعنی فاعلیت وتاثیر فعل میں وہ تنھا اور واحد ھے۔ یھاں بھی اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔ البتہ اس سے مراد یہ نھیں ھے کہ خدا کی کوئی بھی مخلوق فعل و اثر فعل کی حامل نھیں ھے بلکہ مراد یہ ھے کہ ان مخلوقات کے افعال اوراثر افعال خداکی قدرت کے زیر سایہ صادر ھوتے ھیں۔
شعار دینی ”لا حول ولاقوة الا بالله العلی العظیم“ مکمل اور دقیق طور پر توحید افعالی کا غماز ھے۔
توحید افعالی کے عملی آثار
توحید افعالی اور یہ اعتقاد کہ تنھا خدا ، خودمختارانہ طور پر امور عالم ھستی کو انجام دیتا ھے اور دیگر موجودات یا مخلوقات سے صادر ھونے والا ھر فعل ذات خدا سے استمداد اور وابستگی کے ذریعے صادر ھوتاھے، مندرجہ ذیل نتائج کاموجب ھوتا ھے:
اولاً: انسان کسی بھی شخص یا شئی کو خدا کے مقابل قابل پرستش اور قابل عبادت وستائش نہ گردانے اور خدا کے علاوہ کسی کے آستانے پر سجدہ ریزی نہ کرے:
(ان الحکم الا لله امر الا تعبدوا الا ایاه ذلک الدین القیم)
حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ھے اور اسی نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے کہ یھی مستحکم اور سیدھادین ھے۔ (۱۵)
ثانیاً: انسان فقط خدا پر اعتماد واعتبار کرے اور تمام امور میں اسی پر توکل کرے، فقط اسی کی ذات سے طلب امداد کرے، اس کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور اس کے علاوہ کسی سے کوئی امید نہ رکھے حتی جب عام حالات واسباب اس کی خواھش وتمنا کے برخلاف ھوں، مایوس نہ ھوکیونکہ اگرخدا ارادہ کرلے تو اچانک تمام حالات یکبارگی تبدیل ھوسکتے ھیں اور بندے کے لئے خدا کی طرف سے ساری راھیں کھل سکتی ھیں۔
(ومن یتق الله یجعل له مخرجاً ویرزقه من حیث لا یحتسب ومن یتوکل علی الله فهو حسبه ان الله بالغ امره قد جعل الله لکل شیٴ قدراً)
اور جو بھی الله سے ڈرتا ھے الله اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ھے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ھے جس کا اسے خیال بھی نھیں ھوتا ھے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ھے بیشک خداپنے امرکو پھونچانے والا ھے۔ اس نے ھر شئی کے لئے ایک مقدار معین کردی ھے۔ (۱۶)
حوالہ جات