علت خوشبختی یا بدبختی قرآن کی نگاہ میں
بسم الله الرّحمن الرّحیم
قرآن کریم کی متعدد آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ استغفاراور ترک گناہ انسان کے مال اور معاشرے کی تعمیر و آبادی وغیرہ میں فراوانی ، وسعت اور خوشبختی کا باعث ہے جبکہ اس کے برعکس خدا کی نافرمانی اور دوسروں پر ظلم کرنا،فقر و بدبختی کا سبب بنتا ہے۔ اس معیار کی بنیاد پر بہت سارے افراد جو اپنی زندگی میں متعدد مشکلات میں مبتلا ہیں وہ اپنے اعمال اور کردار پر توجہ کرتے ہوئے ، قرآن مجید کے شفابخش نسخہ کے ذریعہ، اپنی مشکلات اور فقر و تنگدستی سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
فقر و مصیبت سے گناہ کا تعلق
قرآن کریم سورہ شوریٰ آیت ۳۰ میں فرماتا ہے:وَما اَصابَکُمْ مِنْ مُصِيبَهٍ فَبِما کَسَبَتْ اَيدِيکُمْ وَ يعْفُو عَن كَثِيرٍ(1)اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔
ہر مصیبت اور گرفتاری جس میں آپ مبتلا ہوتے ہیں وہ آپ کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے؛ البتہ یہ سب کچھ نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض اثرات ہیں جو انسان تک پہنچتے ہیں اور باقی اثرات معاف کر دیے جاتے ہیں ’’وَ يعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ‘‘’’ اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے ‘‘۔ آیہ شریفہ اچھی طرح بتا رہی ہے کہ یہ مصائب اور عقوبتیں ایک قسم کی سزا اور خداوند متعال کی طرف سے بندے کو خبردار کرنے کے لےہیں۔(اگرچہ کچھ موارد استثنا ہیں) اس ترتیب سے دردناک حوادث اور زندگی کی مشکلات کا فلسفہ واضح ہوتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں حضرت امام علی علیہ السلام، حضرت رسولخداصلی الله علیه و آله وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا:"خير آية في كتاب الله هذهالآية (و ما اصابكم من مصيبة...)، يا علي ما من خدش عود و لا نكبة قدم الّا بذنب وما عفي الله عنه فيالدنيا فهو اكرم من ان يعود فيه و ما عاقب عليه فيالدنيا فهو اعدل من ان يثني علي عبده.
قرآن مجید میں یہ (وما اصابكم من مصيبة...)بہترین آیۃ ہے، ای علی! انسان کے جسم پر اگر کوئی خراش آتی ہے یا قدم لرزتا ہے تو وہ اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے؛ اور اللہ تعالیٰ نے جس گناہ سے دنیا میں درگذر کیا ہے پھروہ گرامی و بزرگوار ہے اس سے کہ دوبارہ مؤاخذہ کرے۔اور جس گناہ پر دنیا میں عقاب کیا ہے وہ عادل ہے اس سے کہ دوبارہ عذاب کرے۔ (۱)
اس طرح کے مصائب انسان کے بار کو ہلکا کرنے کے ساتھ آیندہ کے لئے متوجہ کرتے ہیں کہ خود پر کنٹرول کرے۔
گرچہ ظاہر آیۃ عام ہے تمام مصائب اور بلائوں کو شامل ہے لیکن کچھ موارد مستثنیٰ ہیں مثلا وہ مصیبتیں جو انبیاءو ائمہ معصومین علیہم السلام پر نازل ہوتی ہیں کہ مقام و منزلت میں رفعت اور بلندی کے لئے ہوتی ہیں۔
اور اس طرح وہ مصائب جو نادانی، عدم دقت، مشاورت نہ کرنے یا اپنے امور میں سہل انگاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں وہ ان اعمال کے تکوینی اثرات ہوتے ہیں ۔
یا بعض اوقات، غیر معصومین کو پیش آنے والے مصائب بہ خاطر امتحان و آزمایش ہوتے ہیں۔
اس بارے میں قرآن مجید فرماتے ہیں: وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشىءٍ مِّنَ الخوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَ بَشِّرِ الصَّابرِين۔ (سورہ بقرہ:۱۵۵)۔
اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔
بہ الفاظ دیگر متعدد آیات و روایات کے درمیان جمع کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ اس آیہ شریفہ (سورہ بقرہ:۱۵۵) کے عموم کو تخصیص لگائی جائے؛ کیونکہ اس آیہ میں ذکر شدہ اکثر موارد کا تعلق عقوبت اور کفارہ سے ہےاس لئے سورہ شورا کی آیۃ ۳۰ میں عام کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔
لیکن اکثر موارد جنبہ کیفری (عقوبت) اورجنبہ کفارہ رکھتے ہیں لذا آیت ۳۰ سورہ شوریٰ میں بہ طور عموم بیان کات گیا ہے۔
اس بیان کے مطابق ہر گرفتاری اور رنج گناہ کی سزا (کیفر) نہیں ہوتا کیونکہ ان گرفتاریوں کے مختلف اسباب اور علل ہوتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱ - انسان کی اندرونی اور بیرونی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے اور نکھارنے کیلئے۔
۲- آیندہ کیلے خبردار کرنا۔
۳- خواب غفلت سے بیدار کرنا، غرور اور مستی سے خبردار کرنا۔
۴- كيفر گناهان،
۵- اکثر اوقات انسان کی نادانی اور سہل انگاری کا نتیجہ ہوتاہے۔
۶- انسان کی زندگی میں امتحان اور آزمایش کی ضرورت کو بتلانے کیلئے۔(2)
ایک حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ: جس وقت حضرت امام علی بن حسین (علیہما السلام)، یزید (لعنۃ اللہ) کے سامنے آیا تو امام کی طرف نگاہ کی اور کہا: ’’يا علي ما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم‘‘ ’’ای! علی یہ جو آپ کے اوپر مصیبت آئی ہے وہ آپ کے اعمال کا نتیجہ تھی‘‘ (حوادث کربلا کی طرف اشارہ تھا )تو امام نے فورا اسکے جواب میں فرمایا: (كلا ما هذه فينا نزلت، إنما نزل فينا "ما اصاب من مصيبة فيالارض و لا في انفسكم الا في كتاب من قبل ان نبرأها ان ذلك علي الله يسير لكيلاتأسوا علي مافاتكم ولاتفرحوا بما آتاكم) (3) (فنحنالذين لانأسي علي مافاتنا من امر الدنيا و لانفرح بما أوتينا)(4)
ہرگز! یہ آیت ہم اہل بیت کے بارے نازل نہیں ہوئی، بلکہ ہمارے بارے یہ نازل ہوا ہے کہ: کوئی بی مصیبت زمین میں اور آپ کے جسم و جان میں پیش نہیں آتی مگر یہ کہ وہ پہلے سے کتاب (لوح محفوظ)میں لکھی ہوئی ہوتی ہے، اور یہ اللہ پر آسان ہے، تاکہ جوچیز آپ کے ہاتھ سےچلی جائے (فوت ہو جائے) اس پر مایوس نہ ہوں اور جو آپ کو دیا جائے اس پر زیادہ خوش نہ ہوں(مقصد کہ ان دنیاوی چیزوں سے زیادہ دل نہ لگائیں بلکہ یہ آزمائش اور امتحان ہیں)۔
بس ہم اہل بیت، دنیاوی چیز کے چلے جانے پر مایوس نہیں ہوتے اور نہ ہی زیادہ خوش ہوتے ہیں اس پر جو ہمارے پاس ہے۔
جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیہ شریفہ کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا:
کیا آپ کو خبر ہے کہ علی اور اس کے اہل بیت (علیہم السلام) مصائب میں گرفتار ہوئے، کیا یہ ان کے اعمال کی وجہ سے تھا؟ حالانکہ وہ اہل بیت پاکیزہ اور معصوم ہیں؛ مزید فرمایا:
’’ان رسول الله كان يتوب الي الله و يستغفر في كل يوم و ليلة ماة مرة من غير ذنب ‘‘
’’ہمیشہ توبہ کرتے رہتے تھے اور ہر شب و روز میں ایک سو (۱۰۰) مرتبہ استغفار کرتے تھے بغیر کسی گناہ کے‘‘۔
اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء اور دوستوں کے لیے مصائب مقرر کرتا ہے تاکہ صبر کرنے پر اجر و ثواب دے، درحالانکہ وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔(5)
کبھی مصیبت اجتماعی اور سب کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے جس طرح سورہ روم آیت ۴۱ میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ظَهَرَ الْفَسَادُ فىِ الْبرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِى عَمِلُواْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ‘‘۔
لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔
واضح ہے کہ انسانی معاشرے اپنے اعمال کی وجہ سے پریشان اور گرفتار ہیں۔
سورہ رعد آیت۱۱ میں ہے کہ:
’’لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَينْ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ وَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ‘‘
’’ ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے اس کے فرشتے (پہرے دار) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں، اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا،ا ن کا کوئی مددگار ہوتا ہے‘‘۔
ہر قوم یا معاشرہ بشر کی تقدیر اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے خود کو بدلنا ہے۔ اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں(إِنَّ اللَّهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ)۔
اسی طرح دوسری آیات گواہی دیتی ہیں کہ اعمال اور انسان کی زندگی کے تکوینی نظام کے درمیان گہرا رابطہ موجود ہےکہ اگر فطری اصول و قوانین خلقت کے مطابق قدم اٹھائیں اور عمل کریں تو برکات الاہی شامل حال ہو نگیں اور اگر بدکار و بد اعمال ہو جائیں تو ان کی زندگی بھی فاسد اور خراب ہو جائے گی۔
یہ مسئلہ ہر فرد کے بارے میں صادق و صحیح ہے جو بھی مرتکب گناہ ہو گا، کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوگا۔(6)
اس بارے منابع اسلامی میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں، تتمہ بحث کے اعتبار سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۸ میں فرمایا ہے کہ: ’’ما كان قوم قط في غض نعمة من عيش، فزال عنهم، الا بذنوب اجترحوها، لانالله ليس بظلام للعبيد و لو ان الناس حين تنزل بهمالنقم و تزول عنهمالنعم، فزعوا الي ربهم بصدق من نياتهم و وله من قلوبهم، لرد عليهم كل شارد و اصلح لهم كل فاسد‘‘۔
کید قوم سے ناز و نعمت زندگی چھینی نہ گئی مگر ان کے گناہوں کی وجہ سے جن کے وہ مرتکب ہوئے کیونکہ اللھ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا پس اگر لوگ نعمتوں کے سلب، اور بلائوں کے نزول کے دوران خالص نیت اور سچی دل کے ساتھ بارگاہ ربّ العزت میں تضرّع و زاری کرتے اور اس کی طرف متوجّہ و مائل ہوتے تو جو کھو دیا تھا وہ لوٹا دیتا اور سب خرابیوں کو درست کر دیتا۔
’’جامع الاخبار‘‘ میں ایک اور حدیث حضرت امام علی (علیہ السلام) سے ذکر کی گئی ہے کہ فرمایا: ’’ان البلاء للظالم ادب و للمومن امتحان و للانبياء درجة و للاولياء كرامة‘‘۔
بلائیں ظالم کے لیے تادیب، مومن کے لیے امتحان، انبیاء کے لیے درجہ اور اولیاء کے لیے کرامت ہیں۔(7)
یہ حدیث شریف، پےل مذکور استثنائات کے لیے، ایک واضح دلیل ہے۔
کتاب ’’کافی‘‘ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےمنقول ہے کہ فرمایا: ’’ ان العبد اذا كثرت ذنوبه ولم يكن عنده منالعمل ما يكفرها، ابتلاه بالحزن ليكفرها ‘‘۔
جس وقت بندے کے گناہ زیادہ ہو جائیں اور اس کے پاس جبران کرنےکے لیے کوئی نیک عمل نہ ہو تو خداوند متعال اس کو غم و اندوہ میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اس کا جبران ہو جائے۔(8)
کتاب کافی میں اس بارے میں ایک باب موجودہے جس میں بارہ احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
یہ سب کچھ نہیں بلکہ ان گناہوں کہ علاوہ اور بھی گناہ ہیں جو اللھ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بندے پر رحم کرتے ہوئے بخش دیتا ہے اور مواخذہ نہیں کرتا۔
کیا ان مصائب اور مشکلات کے سامنے تسلیم ہو جائیں؟
ایسا نہ ہو کہ کوئی اس قرآنی حقیقت سے غلط استفادہ کرے اور مصائب اور مشکلات کے سامنے تسلیم ہوکر ان کا استقبال کرے اور اس درس سے برعکس نتیجہ نکالے۔
کبھی بھی قرآن مجید یہ نہیں کہتا کہ مصائب و مشکلات کے آگے تسلیم ہو جاو اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہ کریں اور ظلم، جبر و استبداد اور مشکلات کے سامنے جھک جائیں بلکہ یہ فرماتا ہے کہ تمام تلاش و کوشش کے باوجود بھی اگر مصیبت اورگرفتاری سے چھٹکارا نہیں ملا تو مزید غور و فکر کریں اپنے گذرے پر نگاہ ڈالیں، استغفار و توبہ کریں اور خود کی اصلاح فرمائیں۔
بعض روایات میں، اس آیہ شریفہ کو بترتین آیت بتایا گیا ہے یہ اس کے تربیتی آثار کی وجہ سے ہے جو اس آیہ شریفہ پر مترتب ہوتے ہیں۔(9)
حوالہ جات:
1. مجمع البيان"، جلد 9، صفحه 31، ذيل آيات مورد بحث.
2. مجمع البيان"، جلد 25، صفحه 128 و 129.
3. ۲۲و 23 / حديد.
4. نورالثقلين"، جلد 4، صفحه 580.
5. نورالثقلين"، جلد 4، صفحه 581.
6. الميزان"، جلد 18، صفحه 61.
7. بحارالانوار"، جلد 81، صفحه 198.
8. كافي جلد 2، كتاب "الايمان والكفر" باب تعجيل عقوبة الذنب، حديث 2.
9. تفسير نمونه"، جلد 20 صفحه 446.