ماہ رمضان کے دس پیغامات
1. روحی انقلاب
روحی اور روانی انقلاب جو انسانی معاشرے میں رونما ہوتی ہے تین اہم حصوں پر مشتمل ہے:
٭ علم و دانش میں اضافہ
٭ انسانی آزادی، اختیار اور انتخاب کے دائرے کو وسیع کرنا
٭ محبت ، عاطفہ اور آسمانی عشق کی تقویت
رمضان کا مہینہ ہستی کےبارے میں موجود حقائق کا علم زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا مہینہ ہے، اور یہ عظیم الہی ہدف قرآن کی تلاوت اور اس میں غور و فکر کی برکت سے ہی قابل حصول ہے۔ ماہ رمضان ہوا و ہوس کی غلامی سے آزاد ہونے کامہینہ ہےاور یہ مقدس امر روزہ کی برکت سے تحقق پاتا ہے۔
یہ مہینہ دعا، عبادات اور شب زندہ داری کا مہینہ ہے، ایسا مہینہ جو انسان کو اپنے حقیقی محبوب اور معشوق سے حقیقی عشق کرنے کے لئے لمحات اور لحظات فراہم کرتا ہے، اور مناجات کی لذت سے انسان کو آشنا کرانے کا مہینہ ہے۔
2. برے عادتوں سےنجات
انسان اپنی زندگی میں مختلف قسم کی بیماریوں سے رو بروو ہوتا ہے، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
عادت پرستی
شہوت کی پیروی
غفلت کا شکار ہونا
سستی، کاہلی اور جسم پروری
سماجی اور اجتماعی زندگی میں تبعیض کی عادت
ماہ رمضان کی اجالے سورج کی روشنی میں انسان ان تمام بیماریوں پر قابو پایا جا سکتاہے۔ عادتوں اور شہوتوں کی پیروی سے چھٹکارا، غفلتوں کی سخت خوابوں سے بیداری و غیرہ کے ذریعے خودسازی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹایا جا سکتاہے، دینی بھائی چارگی، جذبہ مساوات اور برابری اور حاجتمندوں سے ہمدردی کے جذبے میں اور بڑھایا جا سکتاہے، قرآن کی تلاوت، تقوی اور تہجد فطرت الہی اور ایک بلند بالا انسانی زندگی کی طرف پلٹنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
3. روزہ کا معنی
لفظ "صوم" یعنی روزہ اپنے مشتقات سمیت تیرہ بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔روزہ کا واجب ہونا، مسافر کا روزہ، نذر کا روزہ، قربانی کا بدل والا روزہ، ماہ رمضان کے کفارے کا روزہ،قسم کے کفارے کا روزہ، ظہار کے کفارے کا روزہ اور روزہ دار مردوں اور عوروتوں کا مقام و منزلت اور ۔۔۔ ایسے مباحث ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید کے مختلف آیات میں بحث ہوئی ہے ۔ ان کے علاوہ ایک بار ماہ مبارک رمضان کا تذکرہ بھی ہوا ہے کہ اس مہینے میں قرآن کا نازل ہونا،لوگوں کے لئے ہدایت، اور حق و باطل کے درمیان فاصلہ اور فرق ڈالنے کے حوالے سے اس ماہ اور قرآن کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
شب قدر بھی ماہ مبارک رمضان کاایک حصہ ہے اور بشریت کے لئے ایک قیمتی فرصت ہے اس شب کے بارے میں ایک پورا سورہ سورہ قدر کے نام سے موجود ہے اس کے علاوہ سورہ مبارکہ دخان کے ابتدئی دو آیتوں میں اس مبارک رات کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ سورہ قدر اور سورہ دخان کی آیتوں کے مطابق یہ رات ہر باحکمت امور کی تقدیر اور تعیین اور ہزار مہینوں سے افضل رات ہے۔
ایسی رات جس کی منزلت سے تمام بشریت یہاں تک خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی واقف نہیں ہیں۔(1) ایسی رات جس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے انسان کامل(2)پر نازل ہوتے ہیں۔ایک ایسی رات جو صج تک امن و سلامتی کی رات ہے۔
نہج البلاغہ میں ایک بار لفظ "صوم" ، سات بار لفظ "صیام"، دو بار لفظ"صیامہ" اور دوبار لفظ صائم آیا ہے۔اور ماہ مبارک رمضان کے روزہ کو عذاب الہی کے لئے ایک ڈھال اور سپر ، جسم کی زکات اور دلوں کی اخلاص جانچنے کا وسیلہ قرار دیاہے
4. خود سازی
خود سازی مختلف الفاظ اور عبارتوں کے ساتھ قرآن اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے احادیث میں آیا ہے۔مختلف الفاظ جیسے تذکیہ، تقوا، نفس سے جہاد،شبہات سے بچنا،جہاد اکبر، نفس کا حساب کتاب، الہی اخلاق کو اپنانا،نیک اخلاق کو کسب کرنا، عدل اور احسان کی رعایت، عبادت، اور ۔۔۔ یہ سب ایک اعتبار سے خودسازی شمار ہوتے ہیں۔
اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فرہنگ میں خود سازی کا مطلب یہ ہے کہ خدائی حکم کے دائرے میں رہ کر اپنی رفتار اور کردار پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ آنکھ ،کان ، زبان، ہاتھ، پاؤں، پیٹ اور شہوت پر کنٹرول حاصل کرنا، وہ بھی قرآن او رسنت کے دستور کی روشنی میں کہ کیا کرنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے۔یہ سب خودسازی کے مصداق ہیں متعدد آیات اور روایت میں بھی ان پر بہت تاکید ہوئی ہے ۔ آیات او رروایات میں پے در پے اس بات کی تاکید ہوئی ہے کہ روزے کاتعلق صرف کھانے اور پینے سے بچ کر رہنے سے نہیں ہے بلکہ انسان اپنے اعضاء و جوارح پر مسلط رہے۔ بطور مثال ان احادیث شریفہ پر غور کریں گے:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
«اَلصِّیامُ اِجْتِنابُ الْمَحارِمِ کَما یَمْتَنِعُ الرَّجُلُ مِنَ الطَّعامِ وَالشَّرابِ»(3) روزہ حرام سے بچنا ہے جس طرح آدمی کھانے اور پینے سے خود کو بچاتا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:
«مَا يَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِيَامِهِ إِذَا لَمْ يَصُنْ لِسَانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوَارِحَهُ»(4)روزہ دار کے لئے اس روزے کا کیا فائدہ جو اس کے زبان، کان، آنکھ اور جوارح کو محفوظ نہ رکھ سکے۔
فرہنگ اہل بیت علیہم السلام میں خود سازی کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں عقیدتی، اخلاقی ، چال چلن اور کریکٹر کی خود سازی بھی شامل ہےاس کے ساتھ ساتھ سیاسی برتاؤ اقتصادی، دفاعی اور جہادی برتاؤ اور سلوک بھی خود سازی کے ارکان ہیں۔ ماہ رمضان انسانی فکر ،سوچ ، اخلاقی جرأت ، چال چلن اور نظر میں انقلاب بپا کرنے کی ایک بہترین فرصت ہے ۔
تمام اخلاقی فضائل ایمان اور تقوا کے سایے میں ہی میسر ہے اور روزہ کے کلینک میں ہی تمام بیماریوں کا شافی علاج میسر ہے
5. دعا
امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں ماہ رمضان کے بارے مین بہت ہی گرانقدر معارف سے ہمیں آشنا کرا رہے ہیں۔ صحیفہ سجادیہ کا سب سے زیادہ کامل نسخہ وہ کتاب ہے جو موسسہ امام مہدی نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے یہ کتاب 270 دعاوں پر مشتل ہے۔
اس کتاب میں نیمہ شعبان کی رات پرھی جانے والی دعاؤں کے ضمن میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں: خدایا تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ ماہ رمضان کو ماہ شعبان کی عبادتوں کو کامل کرنے والے مہینے کے طور پر درک کرنے کی توفیق دےاور ان دونوں مہینوں کو اپنے اختتام تک پہنچا کر گناہوں سے پاک و منزہ ہونے کہ توفیق دے کہ میں صر ف تیرے مضبوط قلعے میں پناہ لایا ہوں۔ تیرے عظیم ناموں سے متوسل ہو ا ہوں اور تیرے اولیاء کے دوستوں میں سے ہوں وہ اولیاء جو ایک کے بعد ایک امام ہیں اور تاریک راتوں میں روشن چراغ، جو تمام مخلوقات پر تیری حجت ہیں ۔ تو ان پر درود و سلام نازل کر۔
آپ علیہ السلام نے ماہ رمضان کے داخل ہونے پر ایک مفصل دعا بیان فرمایا ہے اور اس میں ماہ رمضان کو صیام کا مہینہ ، اسلام کا مہینہ ، پاکیزگی کا مہینہ ،تصفیہ کا مہینہ ، عبادت وقیام کا مہینہ جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
ابو حمزہ ثمالی رہ جس نے دعائے ابوحمزہ ثمالی کو امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہتا ہے :
"علی ابن الحسین علیہ السلام عبادت گذاروں کی زینت-خدا کی درود و سلام اس پر ہو- ماہ رمضان کے اکثر راتوں کو نماز میں گزارتے تھے اور جب سحر ہوجا تا تھا تو یہ دعا پڑھتے تھے"
حضرت امام سجاد علیہ السلام جس دعا کر ماہ رمضان میں ہر روز پڑھتے تھے صحیفہ جامعہ میں دعا نمبر 117 کے طور پر نقل ہوئی ہے۔
چوتھے امام علیہ السلام نے ماہ رمضان کے تیرہ سے آخر تک پرھنے کے لئے ایک مخصوص دعا ہمیں سکھائی ہے خود آپ بھی اس پر مداومت کیا کرتے تھے۔
بعض دوسرے دعائیں مختلف عنوان سے کچھ اس طر ح نقل ہوئی ہ:
٭ ستائیسویں کی رات کی دعا
٭ ماہ رمضان کی آخری دن کی دعا
٭ وداع ماہ رمضان کی دعا ، دعانمبر 142
٭ وداع ماہ رمضان کی دعا ، دعانمبر 143
٭ عید فطر کے دن کی دعا
٭ افطار کی دعا
٭ نماز عید الفطر سے پلٹنے کے بعد پڑھی جانے والی دعا
ان دعاؤں میں سے ہر ایک زندگی بخش گہرے مطالب پر مشتمل، دلربا عبارات کا حامل موسم بہار کی بارش کی طرح انسان کو چست و چالاک کرنے والی دعائیں ہیں۔ ان تمام دعاؤں میں امام علیہ السلام نے ماہ رمضان کا تعارف اور اس کی تربیتی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔
ماہ رمضان کی جدائی میں امام جو مرثیہ یا غم نامہ وداع ماہ رمضان کے عنوان سے پڑھتے ہیں وہ دلوں کو جلانے والا اور فراق کے قصے سے زیادہ غمگین ہے۔
یہ مہینہ ایک فرصت اور بھی قیمتی اور استثنائی، کہ انسان پر ضروری ہے کہ اس کی استقبال بھی کرے اور اسے ایک خاص انداز میں ودا ع بھی، عید فطر کے بعد مستحب ہے کہ چھ دن روزہ رہ کر اس کو آخری الوداع بھی کرئے۔
6. تلاوت قرآن
ماہ رمضان قرآن کی بہار ہے۔ قرآن کی تلاوت کے لئے پروگرام بنانا، قرآن میں غور و فکر کرنا، قرآن کا سیکھنا سکھانا، قرآن کی تفسیر کرنا اور قرآن کو حفظ کرنا اس ماہ کے بہرین اعمال میں سے ہیں اسی طرح ذمہ دار افراد اور ریڈیو ٹیلویژن ، علماء اور روحانیت ، دینی طلاب اور دین کے درد رکھنے والے افراد کی طرف سے قرآنی محفلوں کو زیادہ زیادہ سے برگزار کرنا فرہنگی کاموں میں سے ہے۔
اسی طرح لوگوں خاص کر جوان طبقے کوتعلیم یافتہ طبقے کو بہترین تفسیر کی معرفی کرنا، اچھے اور مفید ترجموں کی معرفی ، قرآنی علوم سے مربوط کتابوں کی معرفی، قرآنی سی ڈی اور سایٹس کی معرفی کرنا ایسے امور ہیں جن میں خدا کی رضایت امام زمانہ عج اللہ فرجہ الشریف کی خوشنودی شامل حال ہے، یہ امور دینی مبلغین کے کاندھے پر ہیں۔
(مترجم) البتہ ترجمہ اور تفسیر ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ترجمہ کرنے والا شیعہ ہو اسی طرح وہ تفسیر بھی شیعہ تفسیر ہو ۔ اگر کوئی سوال کرئے کہ : قرآن کا سمجھنا مقصود ہے اردو ترجمہ کی ضرورت ہے چاہئے وہ ترجمہ جس کسی کا بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن اول سے آخر تک اہل بیت کی مدح و ثنا ہے اس میں آیات ولایت بھی ہے اور آیات برائت بھی بہت سی آیتیں حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ایک غیر شیعہ بھلا کیونکر ان آیتوں کا درست ترجمہ کریں، اسی لئے شیعہ مترجم اور مفسر کی ترجمہ اور تفسیر سے استفادہ کریں۔
7. شفا
امراض کی شفا ہمیشہ دوائی کھانے شربت پنے اور انجکشن لگانے میں نہیں ہے ۔ روزہ اسلامی ثقافت میں ایک عبادت، معنوی فعل ہونے کے علاوہ علاج بھی، جس کے طبی، ڈاکٹری اور علاجی آثار بھی ہیں
بعض روایتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے صحت اور شفامیں روزہ کے کردار کےحوالے سے اس طرح نقل ہوئی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: «صُومُوا تَصِحُّوا» (5)روزہ رکھیں تاکہ صحت مند رہیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «اَلصِّيامُ اَحَدُ الصِّحَّتَينِ» (6) روزہ دو قسم کی صحت میں سے ایک ہے۔
8. دل اور زبان پر قابو
عبادات اور خودسازی کے کئی مر حلے ہیں منزل کمال کی طرف جانے کا راستہ سب کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ روزہ اور ماہ رمضان کے بارےمیں بھی یہی ہے کہ ہر انسان کے لئے روزہ کے بلند ترین مقامات تک پہنچنا ممکن ہے اور ان مقامات تک رسائی کے لئے دل کا روزہ رکھنا ضروری ہے۔
کسی ایک حدیث میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «صَوْمُ الْقَلْبِ خَیْرٌ مِنْ صِیام اللِّسانِ وَ صِیامُ اللِّسانِ خَیْرٌ مِنْ صِیامِ الْبَطْنِ»(7) دل کا روزہ زبان کے روزے سے اور زبان کا روزہ شکم کے روزے سے بہتر ہے۔
منہ پر قابو، زبان پر قابو اور دل پر قابو روزہ دار کے لئے منزل کمال کے مرحلے ہیں اور ہر کوئی ان تینوں مرحلوں میں سے کسی ایک مرحلے پر ہوتا ہے
اسی ہستی کا فرمان ہے «صوم النفس عن لذات الدنیا انفع الصیام»(8) کہ نفس کا دنیوی لذتوں سے بچ کے رہنا عالی ترین روزہ ہے۔
ہاں ہمیشہ کے عیش و عشرت سے لطف اندوز ہونے کے لئے دنیا کے لذتوں سے بچنے کی ضرورت ہے ۔(9)
9. جہاد
روزہ اور جہاد کے درمیان انتہائی گہرا رشتہ ہے۔ دونوں راہ خدا میں کوشش کرنا ہے، دونوں قصد قربت کے ساتھ انجا پاتے ہیں، دونوں انسان کی قوت ارادی کی نشانی اور دلیل ہے، دونوں انسانوں پر خدا کی حکومت کی دلیل ہے، دونوں سے خواہشا ت نفسانی پر قابو پایا جا سکتاہے، دونوں ایک مقدس ہدف کی خاطر انجام دی جاتی ہے، دونوں میں صبر اور استقامت کی ضرورت ہے اور دونوں کسی ملت کی آزادی اور استقلال کے لئے مضبوط بازو ہیں۔
دونوں میں خدا کی یاد اور اس سے راز و نیاز ہے، دونوں سلامتی کا ضامن ہے دونوں ایک قسم کی خودسازی اور دوسروں کی مدد ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے: «اَلصَّوْمُ فِی الْحَرِّ جَهادٌ»(10) گرمی میں روزہ رکھنا جہاد ہے۔
10. روح کی غذا
انسان روح اور جسم کا مرکب ہے ، دل اور دل کا مسکن۔
انسان مادیت اور معنویت کا ایک مخلوط موجود ہے، جسم کے لئے مادی غذا اور روح کے لئے معنوی غذا کی ضرورت ہے۔ مختلف قسم کی غذائیں،موسم کی غذائیں او ران کے استعمال کا مقدار انسان کی صحت اور تندرستی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
جسم کی غذا ہمیشہ کیفیت اور کمیت ، پاکی اور حلال ہونے کے اعتبار سے جسم کے ساتھ مناسب ہواسی طرح روح کی غذا بھی ہر طرح سے مناسب، پاک، صاف اور مفید ہو
قرآن انسانوں کی روح کا دسترخوان ہے ،جو ماہ رمضان میں بچھایا جاتا ہے سب سے پاک صاف، سالم اور مفید دسترخوان خدا کا دسترخوان ہے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
«إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللَّهِ فَتَعَلَّمُوا مِنْ مَأْدُبَتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ»(11)
یہ قرآن ایک ادب کا درسگاہ ہے پس اس درسگاہ سے جتنا ہوسکے ادب سکھائیں۔ ایسا دسترخوان جو شب قدر کو خدا اپنے مہمانوں کے لئے بچھاتا ہے ایسی مہمانی جس کا میزبان خدا، زمین پر خدا کا خلیفہ اور حجت امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف ہے۔
عظیم محدث شیخ عباس قمی رہ فرماتے ہیں: ماہ رمضان کے ہرشب کے وظائف میں سے یہ ہے کہ انسان مأثورہ دعاؤں اور نیک اعمال کو اس ہستی کے نام سے شروع اور اس پر ختم کریں جو زمین پر بندوں کے درمیان خدا کا خلیفہ اور نمائندہ ہےاور اس ہستی کے لئے جس طرح اس کی شان کے مطابق ہو دعا کریں حمد خدا اورمحمد و آل محمد پر درود کے بعد دعائے سلامتی امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف(12) کو پڑھیں علماء نے اسے تئیسویں کی شب کے اعمال میں ذکر کئے ہیں۔
(مترجم) پس روح کی غذا قرآن، نمازیں، دعائیں، سحر کی مناجاتیں اور تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز ہے ، بعض لوگ -جنہوں نے دین سے کوئی فائدہ نہیں لیا- کہتے ہیں کہ گانا روح کی غذا ہے ۔ یہ لوگ نہ صرف گانا بلکہ ہر لہو و لعب اور ساز و طبل کو روح کی غذا مانتے ہیں لیکن کونسا روح؟ یہ وہ روح ہے جو ہمیشہ نفس امارہ کا رفیق بن کر انسان کے ساتھ ہوتا ہے، کسی بھی موڑ پر انسان سے نیک کام سرزد ہونے نہیں دیتا ہے ، انسان کے برے کاموں کو اچھی شکل و صورت میں پیش کرتا ہے، یہ روح جہنم کے دہانے تک انسان کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے، جب تک انسان کو جہنم میں دھکیل نہ دے اسے سکون نہیں ملتی ہے۔ اس روح کا نام روح شیطان، روح ظلمات، روح خبیث اور نفس امارہ ہے۔ سر سے ثریا کافرق ہے اس روح میں اور روح رحمان میں، روح رضوان میں ، اس روح میں جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ روح میری امر میں سے ہے۔
-------------
1:اس لئے کہ سورہ مبارکہ قدر کی دوسری آیت میں خدا اپنے رسول سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کئے اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے۔
2:انسان کامل سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بارہ جانشین ہے۔ شب قدر میں فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں اس وقت انسان کامل کا صرف ایک ہی مصداق ہے دہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ذات ہے پس شب قدر میں فرشتے اور روح اس مقدس ہستی پر نازل ہوتے ہیں۔
3: مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار، بحار الأنوار؛ ج93، ص: 294
4: مغربى، ابو حنيفه، نعمان بن محمد تميمى، دعائم الإسلام، دعائم الإسلام؛ ج1، ص: 268
5: مغربى، ابو حنيفه، نعمان بن محمد تميمى، دعائم الإسلام، ج1، ص: 342
6:-غررالحکم، حکمت 1683
7: -غرر الحکم، ج1 ص 417 ح 82
8: غرر الحکم، ج1، ص 416.
9: -دعائے ندبہ میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اے معبود حمد ہے تیرے لیے کہ جاری ہو گی تیری قضا و قدر تیرے اولیا کے بارے میں جن کو تو نے اپنے لیے اور اپنے دین کیلئے خاص کیا جب کہ انہیں اپنے ہاں سے وہ نعمتیں عطا کی ہیں جو باقی رہنے والی ہیں جو نہ ختم ہوتی ہیں نہ کمزور پڑتی ہیں اس کے بعد کہ تو نے ان پر اس دنیا کے بے حقیقت مناصب جھوٹی شان و شوکت اور زینت سے دور رہنا لازم کیا پس انہوں نے یہ شرط پوری کی اور ان کی وفا کو تو جانتا ہے تو نے انہیں قبول کیا، مقرب بنایا، ان کے ذکر کو بلند فرمایا اور ان کی تعریفیں ظاہر کیں تو نے ان کی طرف اپنے فرشتے بھیجے ان کو وحی سے مشرف کیا ان کو اپنے علوم سے نوازا اور ان کو وہ ذریعہ قرار دیا جوتجھ تک پہنچائے اور وہ وسیلہ جو تیری خوشنودی تک لے جائے۔
10: -بحار الأنوار؛ ج93، ص: 257
11: عاملى، حرّ، محمد بن حسن ،هداية الأمة إلى أحكام الأئمة - منتخب المسائل؛ ج-3، ص: 64
12: اللَّهُمَّ كُنْ لِوَلِيِّكَ، الْقائِمِ بِأَمْرِكَ، الْحُجَّةِ، مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمَهْدِيِّ، عَلَيْهِ وَ عَلىٰ آبائِهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَ السَّلامِ، فِي هٰذِهِ السَّاعَةِ وَ فِي كُلِّ ساعَةٍ، وَلِيّاً وَ حافِظاً وَ قاعِداً، وَ ناصِراً وَ دَلِيلًا وَ مُؤَيِّداً، حَتَّىٰ تُسْكِنَهُ أَرْضَكَ طَوْعاً، وَ تُمَتِّعَهُ فِيها طُولًا وَ عَرْضاً، وَ تَجْعَلَهُ وَ ذُرِّيَّتَهُ مِنَ الْأَئِمَّةِ الْوارِثِينَ.
(سيد ابن طاووس، الإقبال بالأعمال الحسنة ج1، ص: 191)