روزہ کے آثار اور برکتیں
- شائع
-
- مؤلف:
- پاسدار اسلام -ترجمہ ، ترمیم اور اضافات: محمد عیسی روح اللہ
- ذرائع:
- پیشکش: امام حسین فاؤنڈیشن
تحریر : پاسدار اسلام
ترجمہ ، ترمیم اور اضافات: محمد عیسی روح اللہ
تصحیح: حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی
پیشکش: موسسہ امام حسین علیہ السلام (امام حسین فاؤنڈیشن)
ذرائع: الحسنین نیٹ ورک ویب سائٹ (امام حسین فاؤنڈیشن)
1- دیباچہ
خدا وند متعال نے اپنی ربوبیت کی وجہ سے انسانوں کی تربیت اور انہیں ان کی لائق منزل کمال تک پہنچانے کی خاطر عبادتوں اور اخلاقی کاموں کا ایک سلسلہ معین و مقرر فرمایا، تاکہ انسان ان پر عمل پیرا ہوکراس منزل پر پہنچ جائے جس کے لئے اسے خلق کیا ہےاور خدا کی نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے؛ اس لئے کہ جب انسان برائی کے دلدل میں پھنس جاتا ہےاور برے کام اس سے سرزد ہوجاتےہیں تو وہ معنویت سے دور ہوجاتا ہے لیکن معنوی قوت اورروحانی طاقت مکمل طور پر نابود نہیں ہوتی ہے بلکہ صرف دب جاتی ہے اور اپنا اثر نہیں دکھا سکتی ہے اور جب تک یہ قوت اپنا اثر نہ دکھائے معنوی لذتوں سے انسان محروم رہے گا۔
ماہ رمضان انسان کو یہ سنہری فرصت دیتا ہے کہ ایک مختلف عبادتوں اور کاموں کوانجام دے اور اپنے باطن کے گندگیوں کو ان عبادتوں اور کاموں سے صیقل دے دے۔ جب اس کا درون پاک ہوگا تو اس کی برکت سے زمین بھی نورانی ہوگی۔ خاکی مخلوق کا ماہ رمضان کے ان دنوں اور راتوں میں کہ خاک سے فاصلہ کم ہوجاتا ہے اس قدر قوت پرواز حاصل کرتا ہے کہ فرشتوں سے بھی آگے وادی حضرت حق میں قدم رکھتا ہے اب وہ ہے اور اس کا معشوق۔ یہ باطن اور صفائے دل اسے صرف اور صرف روزہ اور بھوک و پیاس کے مرہون منت ملا ہے ، جو کہ اس مقدس مہینے کے اعمال میں سے ایک ہے۔
روزہ کی مختلف جہات اور فوائد و آثارہیں۔ اسی لئے ہم نے اس مختصر نوشتہ میں کوشش کی ہے کہ روزہ کے آثار، برکات اور فوائد میں سے بعض فائدے ارباب فکر ، نظر اور عمل و تقوی کی خدمت میں پیش کیا کریں۔
2- روزہ کا مفہوم
لفظ "صوم" یعنی روزہ لغت میں رکنا اور بچنا ہےمثال کے طور پر کھانے، پینے ۔۔ جیسے کاموں سے بچنا۔ اسی لئے لفظ "صمت" یا "سکوت" کو بھی صوم کہا ہےاس لئے کہ صمت و سکوت بھی بولنے اور تکلم سے بچنا ہے نیز کہا جاتا ہے ہر وہ چیز جو حرکت سے رک جاتی ہے اسے بھی صوم کہا جاتاہے جیسے "صامت الریح" ہوا رک گئی۔ اس بنا پر صوم لغت میں پرہیز اور بچنا ہے۔(1)
ہاں ممکن کہ معنائے صوم میں اس قید کا اضافہ کیا جائے کہ صوم سے مراد ہر کام سے بچنا نہیں ہے بلکہ بعض مخصوص کاموں سے بچنا ہے وہ کام جس کے کرنے پر انسان کا ہوائے نفس اسے وادار کرے۔(2)
لیکن صوم دینی اصطلاح میں " مخصوص اوقات میں بعض خاص چیزوں سے" بچنے کا نام ہے۔
3- روزہ ،قرآن میں
قرآن کریم اور روایتوں میں روزہ کے لئے متعدد الفاظ استعمال ہوئےہیں؛ جیسے "صبر" کہ خدا وند متعال نے جگہ جگہ اس کی وصیت کی ہے۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاَةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾(3) ایمان والو! صبر (روزہ) اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے﴿وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاَةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾(4)صبر ()او ر نماز کے ذریعہ مدد مانگو. نماز بہت مشکل کام ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو خشوع و خضوع والے ہیں۔
اسی طرح "سیاحت" کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے؛ جیسا کہ متقین کی توصیف کرتے ہوئے ارشاد رب العزت ہوتا ہے: ﴿التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ﴾(5)یہ لوگ توبہ کرنے والے ,عبادت کرنے والے ,حمد پروردگار کرنے والے ,راسِ خد امیں سفر کرنے والے ,رکوع کرنے والے (روزہ رکھنے والے) سجدہ کرنے والے .... ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنّت کی بشارت دیدیں.
البتہ زیادہ تر روزہ کے لئے لفظ "صوم" اور" صیام" استعمال ہوا ہے۔ جیسے وجوب روزہ کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾(6) اےصاحبانِ ایمان! تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ۔
اس آیہ شریفہ میں خدا اپنے بندے کوروزے کا( جو کہ اذیت اور تکلیف کا باعث بنتا ہے)حکم دیتے ہوئے کئی جگہوں پر لطف اور دلجوئی فرماتا ہے:
1- اپنے بندے سے "﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾" کے خوبصورت خطاب سے مخاطب ہوتا ہے یعنی اپنی ذات پر ایمان لانے والے کہہ کر؛ اس طرح کہ" اےصاحبانِ ایمان!" یہ ایمان کی طرف لوگوں کومتوجہ کرانے کی خاطر ہے، ورنہ یہ فرماتا کہ "اے لوگو"لیکن ایسا نہیں کیا تاکہ لوگوں کوسمجھائے کہ یہ لوگ چونکہ ایماندار ہیں جوبھی حکم ان کے پروردگار کی طرف سے آئے گا بلا چون و چرا قبول کرلیں گے، اگر چہ ان کے میل اور طبیعت کے بر خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ یعنی روزہ جیسے سخت اور کٹھن حکم کے صادر کرنےمیں خدا کو اتنا ان لوگوں پر اعتماد ہے۔
2- لفظ "کتب" کو مجہول ذکر کیا اگر چہ شارع اور حکم صادر کرنے والی ذات وہی ہستی ہے۔ لیکن چونکہ روزہ کے ساتھ مشقت اور تکلیف ہے اپنی ذات کی طرف نسبت نہیں دیا۔ لیکن جہاں رحمت کی بات ہے تو فرماتا کہ :﴿قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾(7) ان سے کہئے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کس کے لئے ہے؟ پھر بتائیے کہ سب اللہ ہی کے لئے ہے اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ہے۔ اس رحیم و کریم پروردگارکے لطف و کرم کو دیکھے جب کبھی رحمت اور محبت کا مقام آتا ہے تو اسے اپنی طرف نسبت دیتا ہے لیکن جب مشقت اور زحمت کا حکم دیتا ہے تو اپنی ذات کی طرف بھی نسبت دینے سے گریز کرتاہے اس لئے کہ بندہ اس کی رحمت اور محبت سے مانوس ہے ۔ لیکن بندہ کو دیکھے جب اس پر کوئی بلا، اذیت اور مشقت کی آفت پڑتی ہے تو اسے خدا کی طرف نسبت دیتا ہے ، جیسے کہ خدا سے کہتا ہے کہ تو مجھے فقیر کیا تو نے مجھے بیمار کیا۔ حالانکہ وہ تو فقیروں کو بے نیاز کرنے والی ذات ہے، بیماروں کو شفا دینے والی ذات ہے۔
3- فرمایا : ﴿ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ﴾ یعنی یہ روزہ صرف تم (امت محمدی) پر واجب نہیں ہوا ہے بلکہ تم سے پہلی امتوں: گذشتہ انبیاء کے ماننے والے، اسلام سے پہلی امتوں جیسے امت موسی اور امت عیسی علیہما السلام پ پر بھی واجب ہوا تھا ۔
4- ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ پھر آیت کے آخر میں فرماتا ہے کہ اس مشقت والے کام کا فائدہ بھی تم کو ہی ملتا ہےتمہیں تقوی کی زینت سے مزین کرتا ہے۔
4- روزہ کا تاریخی جائزہ
جیسا کہ تاریخی کتب سے یہ بات ملتی ہے کہ روزہ صرف مسلمانوں پر واجب نہیں ہوا تھا بلکہ گذشتہ امتوں پر بھی واجب تھا، لیکن اس کے انجام دینے اور وقت میں فرق تھا۔ تفسیر فخر رازی میں اس بارے میں کہ گذشتہ امتیں کس طرح روزہ رکھتیں تھیں ؟ اس طرح آیا ہے:
خدا نے ماہ رمضان کے روزہ کو یہودیوں (امت موسی) پر فرض کیا لیکن انہوں نے اس ماہ کے روزے کو ترک کیا اور صرف ایک روزہ پراکتفاء کیا اور شاید اسی دن فرعون غرق ہو گیا۔(8)
نصاری (امت عیسی علیه السلام) کے روزے کے بارے میں آیا ہے کہ: یہ لوگ ماہ رمضان میں روزہ رکھتے تھے لیکن جب موسم گرما سے روبرو ہوے تو انہوں نے اسے شمسی مہینے کے ساتھ بدل دیا تاکہ ثابت رہے اور موسم گرما میں روزہ رکھنانہ پڑے۔ اس تغییر کی خاطر دس دن بڑھا کر چالیس دن کردیا، اس وقت کسی بادشاہ نے کسی مشکل کی وجہ سے سات دن بڑھا دیا بعد کسی اور بادشاہ نے بھی تین کا اضافہ کیا اس طرح حضرت عیسی کے پیروکاروں کا روزہ پچاس دن ہو گیا۔(9)
حضرت یعقوب پر اس طرح وحی ہوئی کہ : خدا نے تجھے خاضع اور روزہ رکھنے والا بنایا ، بہشت سے تیرے لئے وہ کھانا دیا جسے نہ تو جانتے تھے اورنہ تیرے آبا و اجداد، تاکہ تجھے سکھائے کہ انسان صرف روٹی کے سہارےزندہ نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ جو خدا کی طرف سے صادر ہوتا ہے اس سے انسان زندہ ہو جاتا ہے۔(10)
روزہ کی برکتیں
5- روزہ کے تربیتی اور روانی آثار
روزہ کاسب سے اہم اثر اس کے تربیتی اور روحی پہلو میں ہےروزہ انسان کو متواضع، اسکے ارادے کو قوی اور اس کے شہوات نفسانی کو کم کرتا ہے۔
مرتاض اور تہذیب نفس کرنے والے (جوکہ مختلف طریقوں سے اپنی روح کو پاک کرنے کی مشق کرتے ہیں) انسانوں کا عقیدہ ہے کہ جس چیز سے انسانی نفس اور ہوا و ہوس نفرت کرے اسے انجام دےدیں اور روزہ بھی اسی طرح ہے یعنی ان افعال میں سے جس سے نفس، ہوا و ہوس اور طبعت نفرت کرتی ہے۔ جو کچھ صوفیائے کرام انجام دیتے ہیں کہ تہذیب نفس کی خاطر چلہ کاٹتے ہیں، یا عرفاء اگر کہیں کہ اپنے اندر کو خالی رکھیں یہ سب لوگ تہذیب نفس میں روزے کی کردار پر یقین رکھتے ہیں؛ اس لئے کہ روزہ شہوت پرستی، شکم پرستی وغیرہ سے مقابلہ کرنے کے لئے سپر کا کام کرتا ہے ۔
(مترجم)
کہا جاتا ہے که گناہ اور رزائل اخلاقی بظاہر طبیعت انسانی کے عین مطابق ہیں لیکن ثواب کاکام، فضائل اخلاقی، اور معنویت دیکھنے میں بر خلاف طبیعت بشر ہیں ، انسان کے لئے ہر لذید کھانوں سےلذت اٹھانا تو اس کی طبعت کہتی ہے کہ یہ بہت اچھا ہے لیکن حلال و حرام کا تمیز کرنا صرف حلال تک محدود رہنا، مشکوک کھانوں سے بچنا، ریاضت کی خاطر بعض مفید کھانوں جیسے گوشت وغیرہ سے بچنا مزاج اور طبیعت کے ساتھ موزون نہیں ہے؛ اسی لئے دنیا میں گناہ گاروں کی تعداد مومنوں سے کئی کئی گنا زیادہ هے۔
6- تخلیہ اور تحلیہ
اخلاق اور تہذیب نفس دو ستونوں پر قائم ہے:
1- تخلیہ:اپنے نفس کو بری عادتوں، مادی کثافتوں اور تمام جراثیم سے پاک کرنا ۔ اس کام کے لئے سب سے پہلے اچھے اور برے کی معرفت ضروری ہے۔
2- تحلیہ: یعنی اپنے کو اچھے صفتوں کے زیور سے مزین کرنا، جیسے تقوی جو کہ روزہ کی حکمتوں میں سے ہے۔(11)
ہاں روزہ تقوی کی تعلیم حاصل کرنے کا ایک کلاس ہے جہاں انسان تقوی کے نصاب کو پڑھتے ہیں۔ہر بالغ عاقل انسان کو سال میں ایک مہینہ خواستہ نخواستہ اس کلاس میں حصہ لینا پڑتا ہے تاکہ شیطان اور نفس امارہ سے جاری جنگ (جہاد اکبر) میں کامیاب ہونے کے واسطے مشق کیا جا سکے۔ اور شکم پرستی، شہوت پرستی ان تین چیزوں میں سے ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی امت پر خوف تھا۔(12)
نیز آنحضرتؐ کے فرمان میں سے ہے کہ "وہ چیزیں جو انسان کے جہنمی ہونے کا سبب بنتی ہیں منہ(ہزراروں گناہوں کا سرچشمہ)اور شرمگاہ ( جنسی شہوت کا ذریعہ) ہیں"(13)
ماہ مبارک رمضان میں روزہ دار پر کئی چیزوں سے اجتناب ضروری ہے ان میں کھانا، پینا اور جنسی کام کرنا شامل ہیں۔ وہ روزہ کی حالت میں بھوک اور پیاس کے باوجود کھانے اور پینے سے بچےاور اسی طرح آنکھوں کو محفوظ رکھے اور اپنی رفتار سے یہ ثابت کرے کہ حیوان کی طرح نہیں ہے۔ وہ نفس کے سرکش راہوار کے لگام کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی قدرت رکھتا ہے مسلسل مشقوں اور انتھک جد و جہد سے شکم پرستی اور شہوت پرستی کے سخت رہگذر سے نفس کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر گزر جائے۔
حقیقیت میں روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی معنوی اثر اور تربیتی پہلو ہے۔ وہ انسان جو رنگارنگ خورد و نوش کی چیزوں کو اپنے پاس رکھتا ہے اور جب بھی بھوک پیاس لگے ان سے لطف اندوز ہوجاتا ہےاس کی مثال ان درختوں کی ہے جو نہر کے کنارے پروان چڑتے ہیں جو بہت ہی نازک اور کمزور ہوتے ہیں اگر کئی دن انهیں پانی نہ ملےسوکھ جاتے ہیں؛ لیکن وہ درخت جو بیابانوں، لب و دق صحراؤں، اور پہاڑوں میں پروان چڑتے ہیں ان کی شاخوں کو انہی ابتدائی دنوں میں ہی کبھی طوفانوں اور سخت آندھیوں سے پالا پڑتا ہے تو کبھی سردیوں کے موسم سے مقابلہ کرنا پڑتاہےیہ شاخیں طاقت ور، مضبوط اور سخت ہوتی ہیں۔ روزہ دار بھی حیوانوں کی دنیا سے ترقی پا کر عالم ملکوت تک چلا جاتا ہے۔
اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ : (الصوم جنة من النار)(14) روزہ آگ کے لئے ڈھال ہے" تو اسی موضوع کی طرف اشارہ ہے۔
نیز امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے (وَ صَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِنَّهُ جُنَّةٌ مِنَ الْعِقَابِ)(15) ماہ رمضان کا روزہ عقاب الہی سے بچنےکی سپر ہے۔
یعنی روزہ گناہوں کے بخشنے کا سبب بنتا ہے اور جب گناہ بخش جاتے ہیں تو وہ پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے اس وقت اسے جہنم سے نجات ملتی ہے۔ بسا اوقات انسان کے گناہیں بخش جانے کے علاوہ ان تمام گناہوں کی جگہ ثواب لکها جاتا ہے اور یہ بات آیات کی رو سے ثابت شدہ ہے کہ "حبط عمل" اور "تکفیر سیئات" خدا کی سنتوں میں سے ہے۔
(مترجم)ذیل میں ان آیتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتاہے:
1- ﴿فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ أُوذُوا فِي سَبِيلِي وَ قَاتَلُوا وَ قُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَ لَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَاباً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ اللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ﴾(16) پروردگار ہم نے اس منادی کو صَنا جو ایمان کی آواز لگا رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے- پروردگار اب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما.
2- ﴿وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَ لَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾(17) اور اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور ہم سے ڈرتے رہتے تو ہم ان کے گناہوں کو معاف کردیتے اور انہیں نعمتوں کے باغات میں داخل کردیتے۔
3- ﴿إِلاَّ مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَ كَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً﴾(18) علاوہ اس شخص کے جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
4- ﴿وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾(19)اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہم یقینا ان کے گناہوں کی پردہ پوشی کریں گے اور انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزا عطا کریں گے۔
5- ﴿أُولٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَ نَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ﴾(20) یہی وہ لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کرتے ہیں یہ اصحاب جنّت میں ہیں اور یہ خدا کا وہ وعدہ ہے جو ان سے برابر کیا جارہا تھا۔
6- ﴿وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ آمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَ أَصْلَحَ بَالَهُمْ﴾(21)اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کیا اور نیک اعمال کئے اور جو کچھ محمد پر نازل کیا گیا ہے اور پروردگار کی طرف سے برحق بھی ہے اس پر ایمان لے آئے تو خدا نے ان کی برائیوں کو دور کردیا اور ان کے حالات کی اصلاح کردی۔
7- ﴿لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَ يُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللَّهِ فَوْزاً عَظِيماً﴾(22) تاکہ مومن مرد اور مومنہ عورتوں کو ان جنتوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان ہی میں ہمیشہ رہیں اور ان کی برائیوں کو ان سے دور کردے اور یہی اللہ کے نزدیک عظیم ترین کامیابی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ کسی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ "شیطان کو خود کو دور کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیئے؟" تو آپ نے فرمایا: >الصَّوْمُ يُسَوِّدُ وَجْهَهُ وَ الصَّدَقَةُ تَكْسِرُ ظَهْرَهُ وَ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَ الْمُوَازَرَةُ عَلَى الْعَمَلِ الصَّالِحِ يَقْطَعُ دَابِرَهُ وَ الِاسْتِغْفَارُ يَقْطَعُ وَتِينَهُ وَ لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ وَ زَكَاةُ الْأَبْدَانِ الصِّيَامُ(23) روزہ شیطان کے چہرے کو کالا کردیتا ہے اور راہ خدا میں انفاق کرنا شیطان کے کمر کو توڑ دیتا ہے خدا کی خاطر دوستی کرنااور نیک عمل پر مواظبت کرنا شیطان کے رابطے کو کاٹ دیتا ہے اور استغفار کرنا شیطان کی دل کی رگ کو کاٹ دیتا ہے ہر چیز کی ایک زکات ہوتی ہے جسموں کی زکات روزہ ہے۔
انسان کا دل صرف جلوہ گاہ حضرت حق نہیں ہے بلکہ شیاطین کی رفت و آمد کا مقام بھی ہے۔ دل حرم خدا ہے لیکن کبھی نا محرموں کی صدائیں بھی گونجتی ہیں کبھی شیطانی قوتیں بھی محو عمل ہو جاتی ہیں اس وقت یہ خبیث روحوں کا مسکن بن جاتا ہے. جو انسان غیبت کرتا ہے وہ حقیقت میں اپنےمردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے. یہ جو انسان کسی نا محرم کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے وہ حقیقت میں شیطان کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اب کیوں نہ شیطان کے ظاہری اور باطنی رابطے انسان کو جہنم کے دہانے تک پہنچائیں؟! کیا کریں کہ "ہم" ہوجائیں اور ایک باعزت زندگی گزاریں، خدا جو کہ معرفت اور محبت کے فضاوں میں پرواز کرنے والوں کے لئے آرامگاہ ہے، اس سے لو لگائیں اس کی یاد سے دل کو سکون بخشیں اس نے ہمارے راستے میں ہزاروں نشانیاں رکھیں تاکہ ہم راستہ بھٹک نہ جائیں اور گمراہ نہ ہو جائیں اپنی ذات کے دیدار کے مشتاق دل جلے عاشقوں کے لئے سیڑیاں رکھیں تاکہ وادی محبت میں داخل ہو سکیں، ہمیشہ دروازے کو کھلا رکھا تاکہ جب بھی کوئی داخل ہونا چاہے داخل ہو سکے اس خاک سے اس نیلگون آسمان کی طرف ایک دریچہ ہمیشہ کھلا رکھا تاکہ راستہ کھو نہ دیں۔
ہاں! فرمان رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق روزہ شیطانی وسوسوں اور قرب الہی کے منزلوں کے درمیان ایک بڑا حائل ہے جو انسان کو شیطانی وسوسوں سے روک کر قرب الہی کی وادی میں جانے کے لئے مدد کرتا ہے
روزہ ایک اچھا انسان بننے کے لئے مختصر مشق ہے ایسا مشق کہ جس سے گناہوں کا ستیاناس اور خدا سے آشنا ہو جائے۔
روزہ ایک ایسی فرصت ہے جو انسان کو ہلاکت کی تاریک کنویں کے دہانے، بلاؤں کے زد، اور کیچڑ میں پھنسنے سے خود کو بچانے کی مہلت دیتا ہے،
گیارہ مہینے خزاں لگنے کے بعد انسان منجمد ہوجاتا ہے اس جمود کو ایک مہینے کی بہار میں ختم کرکے اب وہ پھر سے نورانی ہو جاتاہے۔
(مترجم) یہ خدا کا کرم ہے کہ شیطان گیارہ مہینہ اپنے کارندوں کو گھماتا ہے تاکہ انسان کو گمراہ کیا جا سکے اور وہ اس مدت میں اپنے اہداف میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے لیکن جوں ہی ماہ رمضان داخل ہوجا تا ہے اس کی تمام کوششیں خاک میں مل جاتی ہیں اور انسان اس ایک مہینہ میں دوبارہ بندہ رحمان بن جاتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں شیطانی مکر و حیلہ ناکام ہوجاتا ہے۔
7- 2- روزہ کے سماجی اور اخلاقی آثار
طبقاتی نظام اور امراء اور غرباء میں فاصلہ سماجی اور معاشرتی برائیوں میں سے ہے۔جس قدر طبقاتی فاصلے بڑھ جائیں اتنا ہی معاشرے میں اخلاقی برائیا ں جنم لیتی ہیں اور روز بروز غریب طبقے کا امیروں سے انتقام کا جذبہ بڑھ جاتا ہےاورایک دن یہ پھٹتا ہے تو پورا معاشرہ متزلزل ہوجا تا ہے۔
دین مقدس اسلام انسانوں کو حیات طیبہ عطا کرتا ہے، سماجی اور اجتماعی عدالت اور مساوات کے سہارے سماج کی بہتری کے لئے ہمیشہ کوشاں ہے اور چونکہ معاشرے میں ہر ایک کی صلاحیتیں اور توانائیاں ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں اس لئے قوانین اور احکام کو وضع کر کے مزاج اور طبیعت کے اختلاف کو کم سے کم پر پہنچایا جا سکے، انہی احکام میں سے ایک روزہ ہے کہ سب سے پہلے اس میں معاشرے کے تمام لوگ برابر ہیں۔ ثانیا امراء او رثروتمندوں کو یہ احساس دلائیں کہ فقیروں اور نیازمندوں کی حالت کیا ہےاس کو درک کرتے ہوئے سماج سے فقر کو ختم کرنے کے لئے قدم اٹھائیں۔ ثالثا معاشرہ کو دوریوں کی آفت سے نجات دیں تاکه ایک دوسرے کے قریب آجائےاور برادری اور برابری کا جذبہ سب میں ایجاد کیا جا سکے۔ اسی لئے جب ہشام بن حکم نے امام صادق علیہ السلام سے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
(إِنَّمَا فَرَضَ اللَّهُ الصِّيَامَ لِيَسْتَوِيَ بِهِ الْغَنِيُّ وَ الْفَقِيرُ وَ ذَلِكَ أَنَّ الْغَنِيَّ لَمْ يَكُنْ لِيَجِدَ مَسَّ الْجُوعِ فَيَرْحَمَ الْفَقِيرَ لِأَنَّ الْغَنِيَّ كُلَّمَا أَرَادَ شَيْئاً قَدَرَ عَلَيْهِ فَأَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ خَلْقِهِ وَ أَنْ يُذِيقَ الْغَنِيَّ مَسَّ الْجُوعِ وَ الْأَلَمِ لِيَرِقَّ عَلَى الضَّعِيفِ وَ يَرْحَمَ الْجَائِعَ)(24)
خدا نے روزہ واجب کیا تاکہ امیر اور غریب برابر ہو جائیں یہ اس لئے کہ امیروں نے فقر و فاقہ کا ذائقہ نہیں چکھا ہے، اس روزہ کی برکت سے درد فقیری کا احساس کریں ، امراء جب بھی کسی چیز (کھانے پینے)کے لئے دل کرئے ان کے لئے حاضر کی جاتی ہےپس خدا نے روزہ واجب کیا تاکہ اس کے سبب سے امیر و فقیر میں مساوات ہو جائےاورثروتمند لوگ بھوکے اور پیاسے لوگوں کے درد کا احساس کریں تاکہ اس احساس کے ناطے فقیروں پر رحم کریں۔
روزہ کے معنوی اور اخلاقی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس روزہ کے بھوک او رپیاس میں انسان قیامت کے بھوک اور پیاس کو یاد کرےاور اپنے کو اس دن کی سختیوں کے لئے تیار کرے ۔ اسلام کے معارف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قیامت کا دن بڑا ہولناک ہوگامیدان حشر میں گرمی اپنی انتہاء پر ہوگی۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
(وَ ذَلِكَ يَوْمٌ يَجْمَعُ اللَّهُ فِيهِ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ لِنِقَاشِ الْحِسَابِ وَ جَزَاءِ الْأَعْمَالِ خُضُوعاً قِيَاماً قَدْ أَلْجَمَهُمُ الْعَرَقُ وَ رَجَفَتْ بِهِمُ الْأَرْضُ فَأَحْسَنُهُمْ حَالًا مَنْ وَجَدَ لِقَدَمَيْهِ مَوْضِعاً وَ لِنَفْسِهِ مُتَّسَعاً)(25)
وہ دن ہوگا جب پروردگار اولین و آخرین کو دقیق ترین حساب اور اعمال کی جزاءکے لئے اس طرح جمع کرے گا کہ سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔ پسینہ ان کے دہن تک پہنچا ہوگا اور زمین لرز رہی ہوگی بہترین حال اس کا ہوگا جو اپنے قدم جمانے کی جگہ حاصل کرے گا اور جسے سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔
قیامت کی گرمی کے لئے ایسی تشبیہ اس کی سختی اور ہولناکی کو بیان کر تی ہے ۔
کسی دوسری روایت میں آیا کہ امام باقر علیہ السلام سے اس آیت کےبارے میں پوچھا ﴿فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ﴾ (26) (تو آج ذلّت کے عذاب کی سزادی جائے گی) تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : ذلت کے عذاب سے مراد پیاس ہے۔(27)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "خطبہ شعبانیہ " میں فرماتے ہیں:
(وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِيهِ جُوعَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ عَطَشَهُ)(28)
اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کریں۔
کسی ایک روایت میں ان خصلتوں کو گنتے ہوئے جو کہ خدا روزہ دار کو عنایت کرتا ہے، نقل ہوا ہے کہ :
(وَ الْخَامِسَةُ أَمَانٌ مِنَ الْجُوعِ وَ الْعَطَشِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(29)
پانچویں خصلت جو خدا روزہ دار کو عنایت کرتا ہے وہ یہ کہ روزہ دار قیامت کے بھوک اور پیاس سے امان میں ہے۔
اسی طرح کسی اور روایت میں امام علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے روزہ کے اخلاقی فلسفوں میں سے ایک لوگوں کے خلوص کا امتحان ہے (وَ الصِّيَامَ ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْقِ)(30) اور روزہ کو اخلاص کے امتحان کا وسیلہ قرار دیا۔
حضرتؑ کی اس سنہری بات کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی روزہ رکھے اپنے آپ کو مختلف لذید اور خوشگوار کھانوں سے بچائے حالانکہ وہ اس پر قادر ہو یہ اخلاص کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟! اور جو کوئی مخلص ہو جائے تو وہ تمام انعامات جو جن کا خدا نے مخلصین کے لئے وعدہ دیا ہے اسے بھی ملیں گے۔
3- روزہ کے طبی فوائد
سماجی، تربیتی اور اخلاقی فائدے کے علاوہ روزہ کے طبی اور سائنسی فوائد بھی ہیں۔ روزہ جسم کے تمام اعضاء اور جوارح کو تھکاوٹ اور سستیوں سے نجات دلاتا ہے جسم کو چست و چالاک بنا دیتا ہےمختلف قسم کی کسالتوں، دردو آلام اور موٹاپا جیسے امراض سے اسے نجات دیتا ہے۔
روزہ جسم کی زائد چربیوں کو پگھلانے اور بڑی چربیوں کی جگہ مفید گوشت اگانے میں کیمیا کا کام کرتا ہے گویا سائنس اور ڈاکٹری نگاہ سے روزہ کا معنوی پہلو بہت زیادہ ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔(31)
روزہ آج کے علم طب کی رو سے مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج کے لئے مؤثر دوا ہے. ڈاکٹرز حضرات کئی ایک بیماریوں کے لئے روزہ کو ہی دوا کے طور پر تجویز کرتے ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ روزہ کی حالت میں پہلے کھا ل کے ساتھ ملےہوئےچربیوں کا صفایا ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اندرونی چربیوں کے جلنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ان تمام حالتوں میں اس کے گوشت ، رگوں اور ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہےمگر یہ کہ انسان زیادہ مدت بھوکا رہے اس وقت اس کے گوشت بھی پگھلنا شروع ہوتا ہے ۔(32)
(مترجم) ہمارے فقہ کے مطابق اذان مغرب کے بعد روزہ افطار کرناواجب ہے اگر کسی نے عمدا ایسا نہیں کیا تو وہ گناہ گار ہے وہ انسان جو بہت زیادہ توانائی رکھتاہو اور اس کے پاس قوت تحمل بھی ہو وہ افطار کو نماز مغربین کے بعد تک موخر کر سکتا ہے ۔)
ڈاکٹر "الکسیس کارل" اپنی کتاب "انسان موجود ناشناختہ" میں لکھتے ہیں:" روزه جگرمیں موجود شوگر کو ختم کرتا ہے اور کھال کے نیچے موجودچربیاں ، عضلانی پروٹینز، غدود اور کبدکے سیلز وہاں سے چھوٹ کرانسانی غذا میں شامل ہو جاتے ہیں۔"
وہ آگے لکھتے ہیں" روزہ تمام ادیان الہی میں لازم تھا ۔ روزہ میں ابتداء میں بھوک اور اعصاب کا تحرک اور احساس کمزوری انسان کے لئے پیش آجاتا ہے لیکن اسی لحظہ ایک ایسی کیفیت اس پرطاری ہوجاتی ہے کہ وہ ان کو بھول جاتا ہے اور تمام اعضا اپنے خاص مواد کو دل کی حفاظت کے لئے نثار کرتے ہیں۔ اسی لئے روزہ دار اپنے داخلی سیسٹم کی صفائی کرتا ہے،اور اس داخلی گھرکوخوشگوار بنادیتا ہے۔(33)
ڈاکٹر" جان فڑوموزین" روزہ سے علاج کے طریقے کو اعضاء بدن کی دھلائی سے تعبیر کرتا ہے کہ روزہ داری کے شروع میں زبان حاملہ ہے بدن میں پسینہ بہت زیادہ ہے منہ بدبودار کبھی ناک سے پانی آنا شروع ہوجا تا ہے یہ سب دھلنے کی علامت ہےتین چار دن بعد بدبو ختم ہوجاتی ہےپیشاب کا سیلاب بھی رک جاتا ہے انسان خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے اور اپنے اندر بےپناہ خوشی کا احساس کرتا ہےاس حالت میں اعضاء و جوارح کافی آرام ہیں۔
ڈاکٹر"تومانیاس" روزہ کے طبی فوائد کے بارے میں یوں لکھتے ہیں: " کم کھانے اور مختلف کھانوں سے پرہیز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا ہاضمہ جو پورے گیارہ مہینے ہمیشہ کھانوں سے پر رہتا ہے ایک ماہ کی روزدہ داری ان تمام غذائی مادوں کو دفع کرتی ہے اسی طرح جگر جو کھانوں کو ہضم کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے سرخ مائعات کو استعمال کرتا ہےان تیس دنوں میں وہ باقی ماندہ مائعات کے قطروں کو بھی استعمال کرکے مکمل طور پر خالی ہوجاتا ہے۔ قوت ہاضمہ کو کم کھانے کی وجہ سے کچھ وقت مہلت مل جاتی ہے اور وہ اپنی تھکاوٹ کو دور کرتی ہے۔
روزہ یعنی کم کھانا اور کم پینا کسی خاص مدت میں یہ علاج کا سب سے بہترین طریقہ ہے اور اسی علاج نےپرانے اور نئے طب کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے مخصوصاً وہ بیماریاں جو قوت ہاضمہ کو لاحق ہوتی ہیں خاص جو جگر اور کلیہ کو لاحق ہوتی ہیں ، جو کسی بھی دوائی سے ٹھیک نہیں ہوتی ہیں ان بیماریوں کے لئے روزہ بہترین علاج ہےاسی لئے بدہضمی کا سب سے بہترین علاج روزہ ہے۔
جگر(کبد)کی وہ مخصوص بیماری جو یرقان کا باعث بنتی ہے اسکا بہترین علاج روزہ ہےاس لئے کہ یہ بیماریاں بسا اوقات کبد کی تھکاوٹ کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں جو حد سے زیادہ متحرک رہنے کی وجہ سے مطلوب مائع کو ایجاد نہیں کر پاتا ہے اسی لئے کئی قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ (34)
ڈاکٹر گوئل پا فرانسیسی کہتا ہے : " 4/5 بیماریاں انٹریوں میں غذائی مواد پھنس جانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ یہ سب روزہ سے ٹھیک ہو جاتی ہیں۔(35)
ڈاکٹر الکسی سوفورین لکھتے ہیں: " جسم روزہ کے وقت غذا کے بجائے جسم میں موجود مواد کو استعمال کرتا ہےاس طرح وہ گندا اور سڑا ہوا موادجو جسم میں ہے ان سب کو ختم کرتا ہے اور انسانی جسم کو تندرست و توانا بنادیتا ہے ۔(36)
امریکی ڈاکٹر کاریو ر لکھتے ہیں:" ہر انسان کے لئے ضروری ہے وہ سال کے کچھ ایام بھوکا رہے اس لئے کہ جب تک جسم میں کھانا پہنچتارہے جسم کے اندرموجود جراثیم بڑھتے رہیں گے لیکن جب انسان کھانے سے پرہیز کرتا ہے تو یہ جراثیم کمزورہوناشروع ہو جاتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں"
وہ آگے لکھتے ہیں :" وہ روزہ جسے اسلام نے واجب کیا ہے جسم کی صحت و سلامتی کی سب سے بڑی گارنٹی ہے
پیغمبر اکرم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے اس معدے کے بارے فرمایا> المعدة بيت کل داء و الحمية رأس کل دواء<(37) معدہ تمام بیماریوں کا گھر ہے اور بھوکا رہنا ان بیماریوں کا سب سے بڑا علاج ہے۔
(مترجم)
ذیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ روزہ کس کس طرح جسمانی بیماریوں کا علاج ہے۔
1. دل کے امراض:روزہ دل کے مریضوں پر کوئی برے اثرات نہیں ڈالتا‘ البتہ بعض حالات میں دل کے مریضوں کو اپنے معالج کے مشورے سے روزہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مرض قلب میں محتاط فاقے سے فائدہ ہوتا ہے۔ آرتھرائٹس کی بیماری ایسے فاقے سے بالکل دور ہوجاتی ہے یا اس میں کمی آجاتی ہے وجع المفاصل میں بھی فاقہ علاج ہے۔
2. ذہنی امراض:ذہنی امراض کے مریضوں کے لیے روزہ کسی تحفہ سے کم نہیں‘ روزہ سے وہ ڈسپلن حاصل ہوتا ہے جس سے ذہنی امراض سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔
3. دانتوں کے امراض:روزہ کی حالت میں کئی گھنٹے خوراک سے پرہیز کیے جانے سے کھانے کے ذرات مسوڑھوں میں نہیں رکتے اور مسوڑھے مضبوط اور دانتوں کی صفائی ہوجاتی ہے۔ منہ کی بدبو بھی جو ہر وقت الابلا کھانے کی وجہ سے آتی ہے دور ہوجاتی ہے اور دانتوں کے ہلنے کی تکلیف اور ڈاڑھوں کے سوراخوں کا بھی علاج ہوجاتا ہے۔
4. دمہ کا مرض:دمہ کے مرض میں بھی روزہ شفائی ہے اورالرجی سے پیدا ہونے والا دمہ بھی اس سے دور ہوتا ہے اور گلے کی سوزش اور تحریک بھی کم ہوجاتی ہے۔
5. زنانہ امراض:روزہ زنانہ امراض میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ ایام کی بے قاعدگی اس سے دور ہوجاتی ہے‘ ہارمونز کی عدم توازن کی حالت جسم کو فربہ بناتی ہے چنانچہ روزہ اس سے بھی بچاتا ہے اور فربہی کم کرنے کا روزہ بہترین علاج ہے۔ دوران حمل قے کی شکایت اس سے دور ہوجاتی ہے اور اسقاط حمل کا مرض بھی روزے سے دور ہوتا ہے۔
6. گردے کے امراض:روزہ گردہ کی بیماری کا بھی علاج ہے اور روزہ رکھنے والے شخص کا پیشاب سب بیماریوں کا خود علاج کرلیتا ہے۔ روزہ سے جسمانی بافت میں جمع شدہ پانی جل جاتا ہے اور گردوں کے سکڑنے سے بلڈپریشر کا مرض پیدا ہوتا ہے وہ بھی روزہ سے دور ہوجاتا ہے۔
7. جلدی امراض:جلد کی صحت پر تمام جسم کی صحت کا دارومدار ہے۔ جو شخص کسی جسمانی تکلیف کا شکار ہوتا ہے اور اس میں کوئی اندرونی بیماری ہوتی ہے۔ اس کی جلد صاف نہیں ہوتی۔ جلدی امراض یعنی پھوڑے‘ پھنسیوں میں بھی روزہ بہت مفید ہے۔ بعض لوگ چہرے کے مہاسوں اور دانوں کاشکار ہوتے ہیں اس کا علاج بھی روزے میں پوشیدہ ہے۔
8. معدےکے امراض:روزہ معدے کی تکلیف بھی دورکرتا ہے یہ نظام ہضم کومضبوط بناتا ہے اور جسم میں چربی اور نمکیات کو معتدل بناتا ہے چنانچہ سارا سال جومعدے پر اضافی بوجھ پڑتا ہے رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے معدے کا ورم، کھچاؤ، السرو کینسر، قے‘ ڈکار، منہ میں پانی بھر آنا اور بھوک کی کمی جیسی بیماریاں کافی حد تک دورکردیتے ہیں۔
9. بچوں کے امراض:چھوٹے بچوں کو جب روزہ رکھوایا جاتا ہے تو اس سے بھی حیرت انگیز فوائد حاصل ہوتے ہیں سرخ بخار‘ حلق کے زخم‘ خناق‘ کالی کھانسی اور بچوں میں فالج کی علامات پیدا ہوتے ہوئے روزہ رکھوانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
10. بلڈپریشر:روزہ بلند فشار خون کے مریضوں کیلئے نہایت فائدہ مند ہے۔ روزہ بلڈپریشر کو بڑھنے سے روکتا ہے‘ خون کا دباؤ‘ تفکرات‘ غیرمعمولی مصروفیات اور طرح طرح کی نفسیاتی الجھنوں سے بڑھ جاتا ہے۔مستقل غصہ سے بھی یہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے جسم میں چربی کی شرح بڑھ جانے سے اس کے اجزاء شریانوں میں پھنسنے لگتے ہیں تو دل کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جس سے بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے۔فاقے سے زائد چربی جلتی ہے اور اس طرح بلڈپریشر کے مریضوں کو روزے سے بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ روزہ وزن کو کم کرنے اور بلڈپریشر کواعتدال پر رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
11. ذیابیطس کا مرض:جو شوگر یا ذیابیطس کے مریض گولیوں یا خوراک کے ذریعے علاج کروا رہے ہوتے ہیں ان کیلئے روزہ بہت مفید ہے۔ سحرو افطار میں مناسب خوراک کا استعمال کرکے شوگر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ شوگر کے مریض کے خون میں انسولین کی مقدار کم اور شوگر کی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ دوران روزہ کھانے پینے سے پرہیزکیا جاتا ہے اس لیے خوراک سے حاصل شدہ ساری گلوکوز دوران روزہ استعمال ہوجاتی ہے اور سحری سے افطار تک انسولین کی کافی مقدار حاصل ہوجاتی ہے جو مریض کیلئے مفید ہے اور مریض صحت کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ بعض اوقات شوگر کے مریضوں کو معالج کے مشورے سے روزہ سے پرہیز بھی کروایا جاتا ہے۔
12. جسمانی کمزوری کا علاج:جب انسان زیادہ لاغرہوجاتا ہے تو اسے غذا سے بہت کم فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ پھر نہ اس کی غذا ہضم ہوتی ہے نہ جزوبدن بنتی ہے چنانچہ ایسی حالت میں روزہ مفیدثابت ہوتا ہے کیونکہ غذا کی مقدار کم کرنا آخر میں عموماً طاقت اورشگفتگی کا باعث بنتا ہے۔ بعض لوگ کافی کھانے کے باوجود لاغر رہتے ہیں ان کیلئے روزہ بہت مفید ہے۔
13. جنون اور دیوانگی کا علاج:روزہ اس دیوانگی کو بھی دور کرتا ہے جو خون میں زہریلے مادے شامل ہونے کے باعث ہوتی ہے اور اگر دماغی حالت درست نہ ہو یا کسی صدمے سے کوئی دماغی تکلیف ہو تو روزہ بہت مفید ہے اور اس وقت تک روزہ رکھنا چاہیے جب تک کہ حالت مکمل درست نہ ہوجائے۔
14. کینسر کا علاج: حالیہ تحقیقی مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ روزہ کینسر کے خلیوں کی افزائش روک کر اس مرض سے محفوظ رکھتا ہے۔ کینسر کے خلیے پروٹین کے چھوٹے ذرات سے بنتے ہیں اور روزہ میں جسم میں پروٹین کی مقدار کم ہوتی ہے چنانچہ ان کی افزائش نہیں ہوتی اور کینسر کے مرض کی روک تھام ہوتی ہے۔
حرف آخر: روزہ اکثر جسمانی امراض میں حفظ ماتقدم اور شفاء ہے۔ لیکن روزہ کا اصل مقصد اپنے مولا کی اطاعت و فرمانبرداری ہی ہے۔ اپنے رب کریم کی بندگی میں ہی بھلائی اور بہتری کا راز پوشیدہ ہے۔ رب کریم سے دعاگو ہوں ہم سب کو اس مقدس ماہ مبارک میں اپنی رضا کے مطابق روزے رکھنے کی توفیق عطائی فرمائے اور اس ماہ مبارک کی تمام برکات سمیٹنے کی توفیق دے اور ہم سب سے راضی ہوجائے۔ آمین!(38)
4- روزہ کے عرفانی فائدے
حدیث قدسی میں آیا ہے کہ خدا نے >کل عمل آدم هو له غير الصيام، هو لي و انا أُجزي به(39) بندے کا ہر عمل اسی کے لئے ہے مگر روزہ ! یہ تو میرے لئے ہے اور میں ہی اس کااجر دوں گا۔
روزہ کا صرف خدا کے لئے ہونے کی علت یہ ہے کہ یہ اکیلا عبادت ہے جو انجام نہ دینے والی چیزوں سے بنی ہے جبکہ باقی عبادتوں میں بہت سے شرائط کا ہونا اور انجام دینے کی ضرورت ہے، جیسے نماز، حج، وغیرہ، ان میں بہت سے کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان عبادتوں کو وجود میں لایا جاسکے۔ ان میں کوئی امر وجودی کا دخل ہے اور یہ بات واضح ہے کہ یہ اعمال خالص خدا کے لئے انجام پانا مشکل ہے اس لئے کہ مادے کے آفات سے خالی نہیں ہے کبھی سستی کبھی دکھاوا جیسے آفتوں کا دخل ممکن ہےجبکہ روزہ میں ان تمام کاموں کا دخل ہے جنہیں انجام نہیں دینا ہے جیسے کھانے پینےسمیت کئی اور چیزوں سے اجتناب کرنا پڑتا ہے ، اس میں روزہ دارخود کو اس مادی زندان سے آزاد پاتا ہے اب وہ خواہ مخواہ شہوت کی زندان سے خود کو باہر کرتا ہے اور یہ چیزیں خدا کے علاوہ کسی اور کی خاطر کیسے ہو سکتے ہیں؟!
اور یہ کہ حدیث قدسی میں فرمایا "و انا اجزي به" اگر لفظ " اجزي به " کو فعل معلوم پڑھیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں خود اس کا اجر دوں گا تو اس وقت اس کی دلالت یہ ہوگی کہ روزہ کے اجر دینے میں میرا اور میرے بندے کے درمیان کوئی حائل نہیں ہے جس طرح میرے بندے نےاس بندگی کے لئے اپنےاور میرے درمیان کسی کو حائل نہیں رکھا میرے بندے نے کسی کو اپنی روزہ داری کے بارے خبر تک ہونے نہیں دیا۔ چنانچہ صدقہ کے بارے میں آیا کہ صدقہ کو صرف اور صرف خدا ہی وصول کرتا ہے اور صدقہ دینےوالے اور خدا کے درمیان کوئی حائل نہیں ۔ قرآن کریم میں بھی یہ بات آئی ہے
﴿أَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَ يَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾(40)
کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور زکوٰة و خیرات کو وصول کرتا ہے اور وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔
اسی لئے روایتوں میں آیا ہے کہ بندے کے تمام اعمال کو فرشتے وصول کرتے ہیں مگر صدقہ سیدھا خدا کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے۔(41)
لیکن اگر لفظ اجزی بہ کو مجہول پرھیں تو اس کا معنا یہ ہوگا کہ میں خود اس کا اجر بنوں گا۔
علامہ طباطبائی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں یہ روزہ دار سے قرب الہی سے کنایہ ہے۔
شاہراہ عشق کے مسافروں پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ یہ حدیث بہت ہی بلند و بالا معارف پر مشتمل ہے کہ علامہ طباطبائی جیسی عظیم شخصیت اس کے بارے میں لب گشا ہوجائے۔ بہر حال اس حدیث کی معنی کا ادراک مشکل ہے؛ اس لئے کہ مال اور اس کی قیمت میں برابری عقل اور عدالت کا تقاضا ہے، بندے کے اعمال کا اجر جس قدر بھی دے وہ خدا کی طرف سے فضل ہے اور کسی کو خدا سے اپنے عمل کے اجر مانگنے کا حق نہیں ہےاسی لئے خدا نےجنت کی قیمت انسانوں کی جان کو قرار دیا ، اور فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾(42)
بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے۔
اور حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
﴿إِنَّهُ لَيْسَ لِأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا﴾(43)
تمہاری جانوں کی قیمت جنت کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتی پس اسے جنت کے علاوہ کسی اور چیز کے عوض نہ بیچیں۔
اسی طرح رسول گرامی اسلام کا فرمان ہے کہ ﴿إِنَّ لِلْجَنَّةِ بَاباً يُدْعَى الرَّيَّانَ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ إِلَّا الصَّائِمُونَ﴾(44) جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام "ریان" ہے روزہ دار کے علاوہ کوئی اس سے داخل نہیں ہو سکتا ۔
بہر حال "میں خود روزہ دار کا اجر ہوں" کا مطلب یہ ہے میں خود کو روزہ دار کے لئے دے دیتا ہوں ؛ یعنی اسے میں خود جیسا بنا دوں گا جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ«عبدي أطعني تكن مثلي»(45) اے میرا عبد! میری اطاعت کرو تجھے میں خود جیسا بنا دوں گا ۔ اسی لئے ہمیں امر ہوا ہے کہ ﴿تخلقوا بأخلاق الله، و بعثت لأتمم مكارم الأخلاق﴾(46) الہی اخلاق سے خود کو مزین کریں اور میں مکارم اخلاق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ اور اسی طر حدیث قدسی میں آیا ہے کہ:
﴿ وَ مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدٌ بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَ إِنَّهُ لَيَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّافِلَةِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَ لِسَانَهُ الَّذِي يَنْطِقُ بِهِ وَ يَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا إِنْ دَعَانِي أَجَبْتُهُ وَ إِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ وَ مَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ كَتَرَدُّدِي عَنْ مَوْتِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَ أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ﴾(47)
میرا تقرب بندہ نے اس چیز سے حاصل کیا جو مجھے زیادہ محبوب ہے ؛ یعنی جو میں نے اس پر واجب کیا ہے اسے پورا کر کے، اور وہ اس تقرب کو زیادہ کرتا ہے نافلہ ادا کر کےتاکہ میں اے دوست رکھوں اور جب میں اسے دوست رکھتا ہوں تو میں ہوتا ہوں اس کا حس سامعہ، جس سے وہ سنتا ہے اور حس باصرہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور حس ناطقہ جس سے وہ بولتا ہےاور میں ہی اسکا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ حملہ کرتا ہے؛ یعنی یہ چاروں باتیں میرے حکم کے بموجب سرزد ہوتی ہیں پس جو دعا وہ مجھ سے کرتا ہے اسے قبول کرتاہوں اور جو وہ مانگتا ہے دے دیتا ہوں اور میں اپنا حکم نہیں ہٹاتا مگر موتِ مومن کے لئے، جب بندہ مرنا نہیں چاہتا تو میں اسے آزردہ کرنا نہیں چاہتا۔
لیکن ان تما م خصلتوں کے حامل روزہ کے لئے شرط او رشروط ہیں وہ یہ ہے کہ تمام اعضاء و جوارح روزہ رکھیں اسی صورت میں وہ مادیات سے دور ہوکر منزل عقل کے نزدیک ہوجا تا ہے اور یہی عقل ہے جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہے بندہ جب منزل عقل پر پہنچ جاتا ہے تو وہ خدا میں محو ہوجاتا ہے اور روزہ داروں کی منزلت پر فائز ہوجاتا ہے۔
------------------
منابع و ماخذ:
(1 )ترجمه تفسير مجمع البيان، ج2، ص199.
) 2)تفسيرالميزان، ج3، ص8.
(3) البقره / 153
(4) البقره / 45
(5) توبه/ 113
(6) البقره / 183
(7) انعام / 12
(8) روزه، بهترین درمان بيماريهای روح و جسم، ص149.
(9) تفسير فخررازی، ج15، ص68.
(10) روزه، بهترين درمان بيماريهاي روح وجسم، ص150.
(11) لعلکم تتقون سوره بقره، آيہ183.
(12) جامع السعادات، ح2، ص4.
(13) خصال، ص78، ح126.
14) )برقى، ابو جعفر، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن ج، ص: 287
(15) نهج البلاغه، خطبه 109۔
(16) آل عمران / 195۔
(17) مائده / 63
(18) فرقان / 70
(19) عنکبوت / 7
(20) احقاف / 16
(21) محمد / 2
(22) فتح / 5
(23) كلينى، ابو جعفر، محمد بن يعقوب، الكافی ج، ص: 62
(24) عاملى، حرّ، محمد بن حسن، وسائل الشيعة، ج، ص: 7
(25) نهج البلاغه / خ 102
(26) احقاف / 20
(27) بحارالانوار، ج7، ص186.
(28) قمّى، صدوق، محمّد بن على بن بابويه، فضائل الأشهر الثلاثة
(29) قمّى، صدوق، محمّد بن على بن بابويه، علل الشرائع، ج، ص: 379
(30) نهج البلاغة حکمت 252
(31) احمد صبور اردوبادي، اہميت روزه از نظرعلم روز، ص29.
(32) ایضا، ص53.
(33) روزه، ضيافت نور، ص56.
(34) ایضا
(35) ایضا
(36) ایضا
(37) بحارالانوار، ج62، ص290.
(38) https://www.facebook.com/UbqariMagazine/posts/575394345911730
39) )مغربى، ابو حنيفه، نعمان بن محمد تميمى، تأويل الدعائم،ج 3، ص 110۔
(40) التوبة / 105
(41) تفسير عياشی، طبق نقل تفسير برهان، ذيل آية مورد بحث.
(42) التوبة / 112
43)) نهج البلاغة، حکمت 457۔
(44) معانی الاخبار ص 409
45)) نراقى، مولى احمد بن محمد مهدى، مستند الشيعة فی أحكام الشريعة، ص 6۔
46) )اصفهانى، مجلسى اول، محمد تقى، روضة المتقين فی شرح من لا يحضره الفقية،ج6، ص406
(47) اصول کافی، ج2، ص352۔