امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام حسن عسکری علیہ السلام کی نظر میں عبادت اور عرفان(پہلا حصہ)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام حسن عسکری علیہ السلام کی نظر میں عبادت اور عرفان(پہلا حصہ)

مقالہ از: عبدالکریم پاک نیا

ترجمہ: اسدرضاچانڈیو

تصحیح: حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی

پیشکش: امام حسین فاؤنڈیشن قم


مقدمہ:
آسمانی  اور قرآنی ثقافت میں انسان کے کمال کا تنہا راستہ معرفت کے ساتھ عبادت ہے۔ جن و انس کی خلقت اسی عظیم  مقصد کے متعلق ہے  ۔(۱)
انسان کے رحمان  کے ساتھ، روشن ارتباط کا نام ’’عبادت‘‘ہے۔ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات پر احاطہ رکھتا ہے اور اس پر حاضر اور ناظر ہے۔اللہ اپنی تمام مخلوق میں سے انسان کوسب سے  زیادہ پسند کرتا ہے۔ اور انسان سے سب سے زیادہ قریب ترین ذات پروردگار کی ہے۔وہ انسان کے دل و دماغ سے آگاہ ہے اور اس کے مخفی  ارادوں کو بھی جانتا ہے۔
عرفان کے حقیقی بانی ، مولای متقیان، امیر المومنین، علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: قد علم السرائر وخبر الضمائر، له الاحاطة بکل شي ء، والغلبة لکل شي ء والقوة علي کل شي ء (2) اللہ تعالی تمام اسرار سے واقف ہے، وہ ہر چیز کے باطن جو جانتا ہے، وہ ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔
قرآن کی نظر میں انسان کا اپنے قادر، عالم اورغالب پروردگار سے رابطہ بہت آسان ہے۔ ہرشخص، ہر جگہ، ہر حالت میں اپنے خالق، مالک اور مہربان پروردگار سے رازونیاز کر سکتا ہےاور اسے اپنا درد، دل سنا سکتا ہے۔ اس سے مناجات ، نماز اور دعا کے ذریعہ رابطہ  بحال کر سکتا ہے تاکہ اس کی رحمت کے دروازوں کو کھلوا سکے۔
واذا سالک عبادي عني فاني قريب اجيب دعوة الداع اذا دعان (3)
اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں. پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے۔
اس بنا پر کمزور  انسان، جب عبادت گذار بندہ بنتا ہے اور اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ رکھنے والا بن جاتا ہے، خود کو لاچار جان کر۔  اس قادر، کبھی مغلوب نہ ہونے والی ہستی کی پناہ میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس ذات کے وسیلہ، اس کی قدرت بے پایاں کے ذریعہ، اس کا کھویا ہوا ،سکون اورقرار اسے واپس مل گیا ہے۔اوروہ جان جاتا ہے کہ   معرفت کے ساتھ عبادت کر کے، نیکی کے سر چشمہ سے رابطہ جوڑ کر اس نے زندگی گذارنے کے درست  راستہ کا انتخاب کیا ہے۔
سحر با باد مي گفتم حديث آرزومندي
خطاب آمد که واثق شو به الطاف خداوندي
دعاي صبح و آه شب کليد گنج مقصود است
بدين راه و روش مي رو که با دلدار پيوندي

میں نے ہوا، اور سحر کو اپنی آرزو بتائی۔
جواب آیا کہ اللہ کی رحمت پر تکیہ کرو!
صبح سویرے دعا کرنا اور،راتوں کو آہیں بھرنا منزل مقصود  کی چابی ہے۔
اس روش اور راستہ پر چلتے رہو تا کہ اپنے محبوب سے مل جاؤ!
عبادت، عرفان اور سلوک ،انسان کو باارزش تحفہ دیتے ہیں۔ رضائے پروردگار،روحانی اور معنوی مقام، تقوی کا ملکہ(جو ،ہرانسان کی اعلی منزل ہے) باطن کی پاکیزگی اور  روح کی آزادی، برائیوں سے دوری اور نیکیوں کا قرب،جسمانی صحت اور تندرستی، فردی اور اجتماعی کامیابی ۔ یہ سب  نمونہ ہیں، عبادت کے راستہ پر چلنے کا۔ اس کے علاوہ دوسرے معنوی مقامات جیسے، خلوص، توکل، پروردگار کی اطاعت، حضور قلبی اور اس جیسی دوسری چیزیں بھی اسی عبادت اور پروردگار سے مناجات کا پھل ہیں۔
اگر عبادت اور عرفان حقیقی کا ایک عبارت میں خلاصہ کیا جائے تووہ ہوگا ’’آزادی‘‘  تمام چیزوں سے ،ہر قسم کی، بغیر کسی قید اور شرط کے آزادی ۔ اللہ تعالی کےعلاوہ سب سے تعلق توڑنا، ان سے امیداور توقع  نہ رکھنا۔ اللہ تعالی کی پناہ میں آنا۔  اور یہ پناہ انسان کوتمام مخلوقات سے عظیم بناتی ہیں کہ انسان فرشتوں پر بھی سبقت لے جاتا ہے۔وہ اس عشق کے ذریعہ،اپنے دل و دماغ سے، پوری کائنات میں تصرف کرسکتا ہے اور اسے تسخیر کر سکتا ہے اور اور نتیجہ میں اس کا وجود زمین اورآسمان پر جگمگانے لگتا ہے۔
گرنور عشق حق به دل و جانت اوفتد
بالله کز آفتاب فلک خوبتر شوي
از پاي تا سرت همه نور خدا شود
در راه ذوالجلال چو بي پا و سر شوي

اگر نور الہی تیرے دل و جاں کو منور کرے!
خدا کی قسم! چاند اور سورج سے بھی زیادہ نورانی ہو جاؤ گے!
سر سے پاؤں تک نور الہی ہوگا۔
جب اللہ کی راہ میں بے سرو پا بن جاؤ گے۔
راہ عبادت اور وادی عرفان کو طے کرنے کیلئے ایک رہبر اور رہنما کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بغیر ہادی کے انسان اس راستہ میں حیران اور پریشان پھرتا رہے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کوئی شیطانی گروہ اسے صراط مستقیم سے گمراہ کرکے ہمیشہ کیلئے ہلاکت میں مبتلا کردے۔ یعنی سالک کیلئے ضروری ہے کہ عبادت اور  عرفان کیلئےبہترین رہنما کا انتخاب اور اس کی پیروی کرے۔
اس سے بہتر کیا ہوگا کہ ہم اس کٹھن راستہ میں سعادت تک پہنچنے کیلئے  الہی رہبر، ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت اور اقوال سے جو تمام بشریت کیلئے نمونہ عمل ہے،   نصرت طلب کریں ۔
اس مقدمہ کی بنا پر، انسانی  زندگی میں عبادت اور عرفان کی اہمیت کی وجہ سے ہم نے چاہا کہ اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی اور ان کی سیرت  میں عبادت اور عرفان کو ملاحظہ کریں اور اس پر ایک اجمالی نظر ڈالیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کا عرفانی کردار، رفتار اور گفتار جو کہ مظہر رحمت الہی ہیں۔ ہمارے لئے اس حساس  اور پر خطر راستہ  میں مشعل راہ ثابت ہوں۔
عبادت کی معنی
لفظ ’’عبادت‘‘ ایک بہت زیادہ وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ جو ہر اس عمل صالح، ہر نیکی،خوبی اور فائدہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو انگیزہ الہی سے انجام پائے۔ یعنی عبادت کے  اساسی دو، رکن ہیں: ایک نیت۔ دوسرا عمل صالح۔
بنیادی طور پر اسلام کی نظر میں عبادت کا وقت بلوغ سے لے کر  موت تک ہے۔واعبد ربک حتي ياتيک اليقين(4)
اور اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے جب تک کہ موت نہ آجائے۔
اس نکتہ کو نظر میں رکھتے ہوئے، اگر انسان اپنے تمام اعمال صالح کوبلکہ اپنے تمام کاموں کو قصد قربت سے انجام دےتو اس کی حیات کے تمام لمحات عبادت میں شمار ہو سکتے ہیں۔  وہ انسان رحمت الہی کے پھیلے ہوئے دسترخوان سے فائدہ اٹھا کر خود کو،  نورانی، معنوی، ملکوتی اور عبادی فضا میں داخل کر کے کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح وہ محبوب خدا بن جاتا ہے اور اس کا پورا وجود خدائی بن جاتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: ما يزال عبدي يتقرب الي بالنوافل حتي احبه فاذا احببته کنت سمعه الذي يسمع به و بصره الذي يبصر به ويده الذي يبطش بها ورجله التي يمشي بها; (5) ان دعاني اجبته وان سالني اعطيته (6)
انسان نوافل کے ذریعہ مسلسل میرے قریب ہو تا جاتا ہے، کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، اور جب میں اسے محبوب بناتا ہوں تو میں اس کا ،کا ن بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ سنتا ہے،اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ دیکھتا ہے، اور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ کام کرتا ہے، اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ چلتا ہے۔اگر وہ دعا مانگتا ہے تو میں مستجاب کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے  تو میں عطا کرتا ہوں۔
ایسے انسان کی ہر چیز عبادت ہے ۔ لیکن اس کے باوجود کچھ نیکیاں خاص ہیں، جو انسان کو منزل مقصود کے بہت جلد اور تیزی سے نزدیک کر دیتی ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: الوصول الي الله سفر لا يدرک الا بامتطاء الليل; اللہ سے ملاقات اور اللہ تک پہنچنا  ایک ایسا سفر ہے جو انسان راتوں کو جاگے بغیر طے نہیں کر سکتا۔
ایک بہت بڑے عارف نے اس حدیث سے چند نکتےسمجھے ہیں، جن کابیان بے فائدہ نہیں ہے۔ وہ بزرگوار فرماتے ہیں: اس حدیث سے سمجھ میں آتا ہے:
۱۔ اللہ تعالی سے ملاقات اور اللہ تعالی تک پہنچنا ممکن ہے محال نہیں۔
۲۔ اللہ تعالی سے ملاقات اور اللہ تعالی تک پہنچنا حرکت اور سفر کے ذریعہ ممکن ہےسکون کے ذریعہ نہیں۔
۳۔  اس منزل کا  راستہ بڑا ،سخت،  کٹھن اور طولانی ہے۔جس کیلئے مرکب اور سواری کی ضرورت ہے۔ اور اس سفر کی سواری، سحر خیزی (سویرے جاگنا)ہے۔
۴۔ انسان کو اس مقصد تک رسائی کیلئے،راتوں کو جاگ کر مناجات کرنا ،دنوں کی عبادات سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے۔(۷) اس وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام نے جو خط شیخ صدوق کے والد گرامی علی ابن بابویہ قمی کو  لکھا،  اس میں اس نکتہ کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وعليک بصلاة الليل، فان النبي صلي الله عليه وآله اوصي علياعليه السلام فقال: ياعلي عليک بصلاة الليل، ومن استخف بصلاة الليل فليس منا، فاعمل بوصيتي وآمر جميع شيعتي حتي يعملوا عليه (8)
تمہارے لئے نماز شب پڑھنا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو نماز شب کی  تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے علی! تمہارے لئے نماز شب پڑھنا ضروری ہے؛ کیونکہ جو بھی نماز شب کو کم اور حقیرسمجھے، وہ ہم میں سے نہیں۔(اے علی ابن بابویہ) میری وصیت پر تم خود بھی عمل کرنا اور  تمام شیعوں تک میری یہ وصیت پہنچانا تا کہ وہ بھی عمل کر سکیں!
شب زندہ داری کے اثرات
پوری تاریخ ایسے بزرگ علماءاور سچے مومنین سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی اس وصیت پر عمل کیا۔ اور شب زندہ داری اور سحر خیزی کے ذریعہ بہت  اچھا نتیجہ حاصل کیا اورکامیابی کو اپنے مقدر میں تحریر کیا۔ ہم یہاں  پرچند بزرگ علماء کے واقعات کے  ذکر سے اپنے ذہن میں انکی  یاد کو  تازہ کرتے ہیں:
۱۔ بزرگ عالم مرحوم تقی مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی کے والد گرامی اپنی زندگی کےیادگار واقعات میں ارشاد فرماتے ہیں:ایک رات نماز شب اور صبح کے نوافل سے فارغ ہونے سے پہلے میں نے ایک عجیب سی  خوشی محسوس کی۔ اور میں نے اس خوشی سے اندازہ لگایا کہ اس وقت جو بھی حاجت طلب کی جائے پوری ہوگی اور جو بھی دعا مانگی جائے مستجاب ہوگی۔ میں نے بہت سوچا کہ امور دنیا اور آخرت میں سے کیا مانگوں ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں گہوارہ میں سوئے ہوئے میرے بیٹے محمد باقر کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے ناگہاں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی: پروردگارا! محمد و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں میرے اس بچہ کو  دین کو پھیلانے والا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کے احکامات کو پہنچانے والا قرار دے اسے ہر کام میں کامیاب ہونے کی توفیق عطا فرما!(۹)
دوش وقت سحر از غصه نجاتم دادند
واندر آن ظلمت شب آب حياتم دادند
چه مبارک سحري بود و چه فرخنده شبي
آن شب قدر که اين تازه براتم دادند
اين همه شهد و شکر کز سخنم مي ريزد
اجر صبري است کز آن شاخ نباتم دادند
همت حافظ و انفاس سحر خيزان بود
که زبند غم ايام نجاتم دادند

صبح سویرے مجھے ہر درد سے نجات  بخشی!
تاریک رات میں مجھے آب حیات عطا فرمایا!
کتنی بابرکت سحر تھی اور کتنی خوشی بھری رات!
وہ  شب قدر جس میں مجھے نئی بخشش عطا فرمائی۔
یہ جو میرے کلام میں مٹھاس ہے۔
اس صبر کا نتیجہ ہے جو اس درخت کی شاخ سے مجھے کچھ عطا کیا۔
یہ سحر خیز حافظ اور انفاس کی ہمت تھی۔
جس نے مجھے غم دوراں سے  نجات بخشی!
اور اس طرح سحر خیزی کی وجہ سے اس عارف کی دعا قبول ہوئی۔ اور اس کا دانشمند بیٹا ، دین کی ترویج میں اورشریعت کے احکامات  پہنچانے میں  اس  قدر کامیاب ہوا کہ دوست اور دشمن تعجب میں پڑ گئے۔ یہانتک کہ علوم اسلامی اور حوزہ دین کا  کوئی محقق اس عالم کی  محنت اور زحمت  بھری تالیفات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
۲۔ میراث اہلبیت علیہم السلام کے عظیم محافظ، آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی۔ اکثر علوم اسلامی میں صاحب نظر  تھے، جس کی روشن  دلیل مختلف موضوعات پر انکی ۱۵۰قیمتی  کتابیں ہیں۔معنوی کرامات، ۱۴۰۰اسلامی بزرگ علماء کا اجتہادی اور روایتی اجازہ،۶۷ سال سے زیادہ حوزہ علمیہ قم اور نجف میں تدریس،ہزاروں شاگردوں کی تربیت،سیکڑوں علمی مدرسوں، مسجدوں، امام بارگاہوں، ہاسپٹلز اور ثقافتی مراکز کا سنگ بنیاد، خصوصا  اسلامی دنیا کا سب سے بڑا، مشہور اور معروف کتابخانہ۔ یہ سب اس نابغ فقیہ کی کا میابیاں اور کارنامے ہیں۔ اور وہ  ان  تمام توفیقات کواہلبیت علیہم السلام کی کرامت، ۷۰ سالہ مناجات سحری اور نصف شعبان کی دعائوں کا حاصل سمجھتے ہیں۔ اور بہت تاکید کے ساتھ وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:وہ مصلی جس پر میں نے ۷۰ سال نماز شب ادا کی ہے اس کو میرے ساتھ دفن کرنا۔(۱۰)
اوقات خوش آن بود که با دوست به سر رفت
باقي همه بيحاصلي و بي خبري بود
هر گنج سعادت که خدا داد به حافظ
از يمن دعاي شب و ورد سحري بود

خوشی کا وقت وہ تھا، جب میں نے اپنے محبوب کے ساتھ گذارا۔
اس کے علاوہ سب لمحے لا حاصل اور لا پتا تھے۔
ہر وہ سعادت کا خزانہ جو اللہ تعالی نے حافظ کو عطا کیا۔
وہ سب شب زندہ داری اور سحر خیزی کا ثمر تھا۔
۳۔ آیت اللہ شہید مرتضی مطہری، ایک اور بزرگ عالم دین ہیں، جو اپنی تمام توفیقات کو خالص عبادت اور  اس جہان  کے خالق، مالک اور  پروردگار کے ساتھ رابطہ کے مرہون منت سمجھتے ہیں۔وہ عظیم المرتبت شہید، میدان علم کے شہ سوار، اس بات پر ہمیشہ عمل پیرا رہے: ما يک سلسله لذتهاي معنوي داريم که معنويت ما را بالا مي برد . براي کسي که اهل تهجد و نماز شب باشد، جزء صادقين، صابرين و مستغفرين بالاسحار باشد، نماز شب لذت و بهجت دارد [. . . آنان] به لذتهاي مادي که ما دل بسته ايم هيچ اعتنا ندارند . . . آدمي اگر بخواهد از چنين لذتي بهره مند شود، ناچار از لذتهاي مادي تخفيف مي دهد تا به آن لذت عميق معنوي برسد . (11)
ہم لذت معنوی کا ایک سلسلہ رکھتے ہیں، معنویت جو کہ ہمیں عظیم بناتی ہے۔ جو نماز شب کے پابند ہیں، جو صادق ہیں، صابر ہیں، سحر میں استغفار کرنے والے ہیں۔ان کے لیےنماز شب میں لذت اور سرور ہے۔(وہ)مادی لذتوں سے۔جن کے ہم پیچھے ہیں۔ دل کو آلودہ نہیں کرتے۔۔۔۔اگر انسان معنوی لذت کو درک کرنا چاہتا ہے تو اسے مجبورا مادی لذتوں کو کم کرنا پڑے گا تاکہ اس معنوی لذت کی گہرائی کو پا سکے!
استاد مطہری اس بات پر یقین رکھتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ ہمیشہ مناجات سحری میں مشغول رہتے تھے۔ اور اس لذت معنوی میں اس قدر مسرور رہتے تھے اس کی عاشقانہ باتیں دوسروں کو بھی  متاثر کرتی تھیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای رہبر معظم انقلاب اپنی زندگی کے یادگار واقعات میں فرماتے ہیں: مرحوم مطہری ایک روحانی شخصیت، با اخلاق ،عابد اور  زاہد انسان تھے۔ہم نے ہر رات مطہری کے ساتھ گذاری۔ وہ مرد مجاہدآدھی رات کو گریہ کے ساتھ نماز شب ادا کرتے تھے۔ یعنی نماز شب میں گریہ کرتے تھے۔  اور اس قدر گریہ کرتے تھے کہ اس کے رونے کی آواز سے، اس کے گریہ اور مناجات سے، لوگ نیند سے جاگ جاتے تھے۔۔۔۔جی ہاں! وہ گریہ کے ساتھ نماز شب ادا کرتے تھے اتنا گریہ جس کی آواز ان کے کمرہ سے صاف سنائی دیتی تھی!(۱۲)
۴۔علامہ عارف مرحوم سید علی آقا قاضی بھی دنیا اور آخرت کی سعادت کونماز شب اور سحر خیزی میں جانتے ہیں۔وہ اپنے زمانہ کے نابغ فرد، اخلاق اور عرفان کے استاد،نہ صرف یہ کہ خود اس بات پر عمل کرتے تھے بلکہ اپنے شاگردوں کو اس بات پر عمل کرنے کی وصیت کرتے تھے اور ترغیب دیتے تھے۔ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:جب میں علم کے حصول کیلئے نجف اشرف گیا۔ میں ایک دن اپنے مدرسہ کے دروازہ کے پاس کھڑا تھا اتنے میں مرحوم قاضی کا وہاں سے گذر ہوا۔ جب وہ میرے پاس سے گذرے تو رک کر اپنا ہاتھ میرے شانہ پر رکھتے ہوئے فرمایا: میرے بیٹے! اگر دنیا چاہئے تو نماز شب پڑہو! اگر آخرت چاہیے نماز شب پڑہو!
امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے ایک پر حکمت کلام میں شب زندہ داری کے جسمانی  فوائد بیان فرماتے ہیں۔ اور سحر خیزی کے فوائد میں سے جسمانی اور روحانی سکون کو شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:سحر خیزی نیند کی لذت کو اور روزہ کھانے کی لذت کو بڑہا دیتا ہے۔(۱۴)
نماز کو اہمیت دینا
نماز کا امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیرت اور کلام میں ان کے اجداد کی طرح ایک خاص مقام اور منزلت ہے۔ ہم اس بارے میں چند روایات ذکر کرتے ہیں:
الف) ابو ہاشم جعفری(۱۵) بیان کرتے ہیں: میں ایک دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ امام لکھنے میں مشغول ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، امام نماز پڑھنے کیلئے اٹھے۔میں نے تعجب سے دیکھا کہ قلم اسی طرح لکھ رہا ہے یہانتک کہ وہ تحریر پوری ہو گئی۔میں اس کرامت کو دیکھ کر شکر کے سجدہ میں گر گیا۔ جب امام نماز ادا کر کے پلٹے ، قلم کو ہاتھ میں لیا اور لوگوں کو ملاقات کی اجازت مرحمت کی۔(۱۶)
ب) امام کا خادم،عقید  نقل کرتا ہے: جب امام حسن عسکری علیہ السلام بستر بیماری پر تھےاور اپنی  زندگی کے آخری لمحات گذار رہے تھے،امام نے جوشاندہ طلب کیا۔ میں نے جوشاندہ بنا کر امام کی خدمت میں حاضر کیا۔اتنے میں امام متوجہ ہوئے کہ نماز صبح کا وقت داخل ہو گیا ہے۔امام نے فرمایا: میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں نےامام کا  مصلی بستر پربچھایا۔ امام نے اس خادمہ سے جو وہاں موجود تھی، وضو کا پانی لیا اور وضو مکمل کرنے کے بعداپنی زندگی کی آخری  نماز کو بستر میں ادا کرنے لگے۔اس کے چند لمحے بعد امام کی روح پرواز کر گئی۔(۱۷)
ج) شیخ طوسی، امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا:روزانہ، دن اور رات میں،۵۱ رکعتیں ادا کرنا سچے شیعہ کی نشانی ہے۔ اس روایت کے مطابق ایک حقیقی مومن صرف واجب ۱۷ رکعتوں پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ مستحب ۳۴ رکعتوں کو بھی اپنے لئے ضروری جانتا ہے۔ اس روایت کا متن کچھ اس طرح ہے: علامات المؤمنين خمس: صلوة الاحدي والخمسين، وزيارة الاربعين، والتختم في اليمين، وتعفير الجبين، والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم (18)
مومن کی پانچ علامتیں ہیں۔روزانہ ۵۱ رکعتیں ادا کرنا، زیارت اربعین  کرنا،سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، خاک پر سجدہ کرنا اور نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا۔
روایت کے پہلے جملہ کی تشریح میں اس نکتہ کو ذکر کرنا ضروری ہے کہ۵۱ رکعتوں سے مراد،۱۷ رکعتیں واجب اور۳۴ رکعتیں مستحب ہے۔ نماز واجب کی نوافل کیلئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔ خصوصا رات کی نوافل جسے نماز شب کہا جاتا ہےاس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، اس وجہ سے  اس روایت میں واجب نمازوں کے ساتھ نفل نمازوں کو  مومن کی نشانی شمار کیا گیا ہے۔
جن کی ترتیب فقہ ، حدیث اور دعا کی کتابوں میں اس طرح بیان ہوئی ہے:  جمعہ کے دن کے علاوہ یہ ترتیب ہے: نماز صبح کے نوافل دو رکعتیں ہیں، جو واجب نماز سے پہلے ادا کی جائیں گی۔نماز ظہر کے نوافل ۸ رکعتیں ہیں، جو واجب نماز سے پہلےادا کی جائیں گی۔ اسی طرح نماز عصر کے نوافل ۸ رکعتیں ہیں جو واجب نماز سے پہلے ادا کی جائیں گی۔نماز مغرب کے نوافل ۴ رکعتیں ہیں، جو واجب نماز کےبعد ادا کی جائیں گی۔ نماز عشاء کے نوافل۲ رکعتیں ہیں، جو واجب نماز کے بعد بیٹھ کر ادا کی جائیں گی اور ایک رکعت شمار ہوں گی۔۱۱ رکعتیں نماز شب کی ہیں،جس کاوقت آدھی رات سے صبح کی اذان تک ہے۔
 اس طرح ۳۴ رکعتیں نوافل اور ۱۷ رکعتیں واجب، کل ۵۱ رکعتیں مکمل ہوئیں۔ روایت کے مطابق ،جن کی روزانہ ادائیگی، مومن کی نشانی ہے۔
د) امام حسن عسکری علیہ السلام ایک روایت میں اہل نماز کی منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جب انسان نماز پڑھنے کی جگہ طرف کی جاتا ہے تا کہ نماز ادا کر سکے۔ اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے خطاب فرماتا ہے:کیا میرے بندہ کو نہیں دیکھ رہے، جو تمام مخلوقات کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں آیا ہے،اس حالت میں کہ میری رحمت،کرامت،جود اور سخاوت کا امیدوار ہے۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے  اپنی رحمت اور کرامت سے  اس کو نوازا!(۱۹)
بہترین نماز ادا کرنے والوں کی یادیں
امام حسن عسکری علیہ السلام سےاس آیت «ويقيمون الصلوة»  کے ذیل میں ابوذر کی نماز کے متعلق ایک داستان نقل ہے، جس کا ذکر یہاں بے مورد نہیں ہے۔ امام فرماتے ہیں: ایک دن ابو ذر غفاری، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ! میرے پاس ۶۰ بھیڑیں ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی وجہ سے ہمیشہ جنگل میں گذاروں اور آپ سے دور رہوں۔ اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ ان کو کسی اور کے حوالہ کروں جو ان پر ظلم کرے اور ان کے حق کا خیال نہ کرے۔  میں کیا کروں؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ابھی جاؤ! اپنی بھیڑوں کو چراؤ!ابوذر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان مطابق جنگل میں اپنی بھیڑیں چرانے لگا۔ ایک ہفتہ بعد وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوذر سے پوچھا : اپنی بھیڑوں کا کیا کیا؟اس نے جواب دیا: میری بھیڑیں بہت تعجب آور ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا :وہ کیسے؟  ابوذر نے جواب میں کہا: یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھااتنے میں بھیڑیا نے میری  بھیڑوں پر حملہ کیا۔ میں نے کہا: پروردگارا! میری  نماز! میری بھیڑیں!میں حیران اور پریشان ہو گیا ۔کیا کروں۔اگر نماز بچاتاہوں تو بھیڑیا بھیڑیں کھا جائے گا۔ اور اگر بھیڑوں کو بچاتا ہوں تو نماز باطل ہو  جائے گی۔آخر میں نے نماز کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ اتنے میں شیطان نے وسوسہ کرنا شروع کیا:ابوذر یہ کیا کر رہے ہو؟ اگر یونہی نماز کو جاری رکھو گے  تو بھیڑیا ساری بھیڑیں کھا جائے گا؟ یہ تیرا کل سرمایہ ہے، اب کیا کرو گے؟ کیسے گذر سفر ہوگا؟ میں نے شیطان کے جواب میں کہا: میرے لئے سب سے بہترین سرمایہ،اللہ تعالی کی وحدانیت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت، ان کے بھائی امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی کا عقیدہ ہے، جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔اس کے علاوہ کوئی بھی چیز جائے، مجھے فرق نہیں پڑتا۔میں نے اپنی نماز جاری رکھی۔ بھیڑیا نے ایک بھیڑ پر حملہ کیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کہیں سے ایک شیر نمودار ہوااوراس نےبھیڑیا پر حملہ کیا اور میری بھیڑوں کو نجات دی اور میرے گلہ میں چھوڑ گیا۔ اور اس کے بعد شیر نے مجھے مخاطب کر کے فصیح زبان میں کہا:اے ابوذر! آرام اور سکون سے اپنی نماز ادا کرو۔ اللہ تعالی نے تمہاری بھیڑوں کی حفاظت کیلئے مجھے مامور کیا ہےیہاں تک کہ تم اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔ میں نے نماز کو تمام کیا اس حال میں کہ بہت حیرت زدہ تھا اوربہت تعجب کر رہا تھا۔ اللہ ہی میرا حال جانتا ہے۔اتنے میں وہ شیر میرے قریب آیا ۔ اور کہنے لگا: امض الي محمدصلي الله عليه وآله فاخبره ان الله تعالي قد اکرم صاحبک الحافظ لشريعتک ووکل اسدا بغنمه يحفظها
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاؤ۔ اور انہیں اطلاع دو کہ کیسے اللہ تعالی نے اس کے دوست ، جوشریعت کا حفاظت کر رہا تھا ،عزت بخشی، اور اس کی بھیڑوں کی حفاظت کیلئے شیر کو مقرر کیا۔ یہ پورا ماجرا سن کر تمام حاضرین محفل نے بہت تعجب کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اے ابوذر! تم سچے ہو۔مجھ پر،علی پر، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام پر ایمان کی وجہ سے تیرایہ واقعہ بھی سچا ہے۔ لیکن منافقین میں سے ۲۰ افراد نے یقین نہیں کیا اور کہا: یا رسول اللہ! ابوذر جھوٹ بول رہا ہے۔ہمیں خود اس کا پیچھا کرنا چاہیے اور اس جھوٹ کا پردا فاش کرنا چاہیے۔انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب نماز کا وقت ہوا اور ابوذر نے تکبیر کہی۔ایک شیر نے اس کے گلہ کو چرانا اور اس کی حفاظت کرنا شروع کیا۔جب دوبارہ ابوذر، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئےتو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: يا اباذر انک احسنت طاعة الله، فسخر الله لک من يطيعک في کف العوادي عنک، فانت افضل من مدحه الله عزوجل بانه يقيم الصلاة
اے ابوذر! تم اللہ تعالی کی بہترین اطاعت کرنے والے ہو۔ اس لئے اللہ تعالی نے تمہارے لئے جنگل اور بیابان میں اطاعت کرنے والا کو مسخر کردیا۔جنافراد کی اللہ تعالی نےنماز کو قائم کرنے والے کہہ کہ اس آیت میں مدح کی ہے، تم ان میں سب سے افضل ہو!(۲۰)
سجدہ ایک ملکوتی حالت
اللہ تعالی کے سچے بندے، جب عبادت ، مناجات اور پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کی مٹھاس اور لذت چکھ لیتے ہیں۔تو وہ اپنی سعادت اور عزت کو خشوع اور خضوع کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عاشقانہ سجدہ میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالی کی تعظیم میں لذت، سرور ، مٹھاس اور دل کے قرار کو  ڈھونڈتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ معبود سے عبد کا قرب سجدہ کی حالت میں کمال تک پہنچتا ہے۔ اللہ تعالی کے خالص بندوں کی نشانی دل سے اللہ تعالی کو یاد کرکے اس کا ذکر کرنا اورخاک پر پیشانی رکھناہے۔وہ اس ملکوتی حالت میں نورانی ہو جاتے ہیں ،زمین سے فرشتوں کے ساتھ عرش کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ وہ اس حالت میں اس قول کے مصداق بن جاتے ہیں۔ عظم الخالق في انفسهم وصغر ما دونه في اعينهم (21)
ان کی نظر میں صرف پروردگار کی ذات عظیم ہوتی ہے اور اس کے علاوہ تمام چیزیں حقیر ہو جاتی ہیں۔
پاسبان حرم دل شده ام شب همه شب
تا در اين پرده جز انديشه او نگذارم

میں نے ہر رات حرم دل کی پاسبانی  کی!
تاکہ اس پردہ میں اس کے علاوہ کسی کا خیال تک نہ آئے!
ہم اس مورد میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی عاشقانہ عبادت اور طولانی سجدہ کے متعلق کی چند روایتیں ذکر کرتے ہیں:
۱۔ محمد شاکری ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہم عصر اور  ماننے والوں میں سے تھے۔ وہ ، امام کی عبادت اور عرفان کی سیرت کے متعلق کہتے ہیں: جب امام محراب عبادت میں سجدہ فرماتے تھےتو اتنا طولانی ہوتا تھا کہ ہم سو جاتے تھے دوبارہ جاگتے تھے،  امام سجدہ میں ہوتے تھے۔امام بہت کم کھانا کھاتے تھے ۔میں جب امام کیلئے فروٹ لاتا تھا ، امام ایک یا دو دانہ لیتے تھے اور فرماتے تھے یہ اپنے بچوں کیلئے لے جاؤ!(۲۲)
۲۔جب  امام حسن عسکری علیہ السلام  عباسی زندان میں قید میں تھے، بہت سارے  ظالم اور جابر زندان بان تبدیل ہوئے، جن سے کہا جاتا تھا :جتنا ہو سکے امام کو زیادہ مشقت میں رکھو! ان زندان کے نگباونوں میں سےایک، صالح ابن وصیف ہے۔اسے کہا گیا: امام حسن عسکری علیہ السلام کو جتنی تکلیف دے سکتے ہو دو، اس کیلئے کوئی آرام اور سکون کا ذریعہ باقی نہ چھوڑو۔ صالح ابن وصیف نےان سے پوچھا :میں کیا کروں؟ میں نے دو شریر افراد کو انہیں ستانے پر مامور کیا لیکن ان پر امام کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے  نہ صرف امام کو ستانا چھوڑ دیا بلکہ خود بھی نماز اور روزہ کی پابندی کے ذریعہ بہت بلند مقام تک پہنچ گئے۔
 اس کے بعد ان کو حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔خلیفہ نے ان کو سرزنش کرتے ہوئے کہا: وائے ہو تم دونوںپر!ایک قیدی پرمامور ہو اس میں بھی کوتاہی کرتے ہو؟انہوں نے جواب دیا:ایسے انسان کو جو، ہر روز ،روزہ رکھتا ہے، تمام رات نماز پڑھتا ہے، سحر میں مناجات کرتا ہے ،ایسے انسان کو کیا ستائیں؟ جو اللہ تعالی کے سوا کسی سے کوئی کلام نہیں کرتا، اللہ تعالی کی عبادت، مناجات اوررازونیاز کے سوا کوئی کام نہیں کرتا۔جب وہ ہم پر نظر ڈالتا ہے اس کی نظروں کی جلالت سے ہم کانپنے لگتے ہیں۔ جب عباسی حکمرانوں نے یہ صورتحال دیکھی تو مایوس اور ناامید ہوکر ان کو چھوڑ دیا۔(۲۳)
ان کا عاشقانہ، سوز وگذاز والا سجدہ، عبادت اور ذکر اتنا اثر رکھتے تھے کہ ان کے ساتھ درو دیوار بھی مناجات کرتے تھے،  یہانتک کہ ان کے دشمن بھی اس سے متاثر ہوتے تھے۔ اور وہ اس آیت کے مصداق نظر آتے تھے جو حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی۔يسبحن بالعشي والاشراق (24)
امام حسن عسکری علیہ السلام ہمیشہ اپنے شیعوں کو طولانی سجدوں کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے  تھے: اوصيکم بتقوي الله والورع في دينکم والاجتهاد لله . . . وطول السجود (25)
میں تم لوگوں کواللہ تعالی کی راہ میں  اور دین کی جستجو میں تقوی اور پرہیزگاری  کی وصیت کرتا ہوں۔۔۔۔ اور طویل سجدوں کی سفارش کرتا ہوں۔
اپنے پروردگار کے مقابلہ میں تواضع ، خاکساری اور طولانی سجدہ انسان کیلئے بہت عظیم، آثار لاتا ہے۔ انسان اس وقت اپنے پروردگار سے سب سے قریب ہوتا ہے،جب اس کے آستانہ پر اپنی پیشانی جھکاکر معراج کرتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن اپنے گھر کو تعمیر کر رہے تھے۔وہاں سے ایک شخص کا گذر ہوا، اس نے نزدیک آ، کر عرض کی: یا رسول اللہ! میں مستری ہوں، گھر بنانا جانتا ہوں، مجھے اجازت دیں، آپ کی مدد کروں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت دی۔جب کام مکمل ہو گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:بتاؤ! تمہیں اس کی اجرت میں کیا چاہئے؟اس نے بغیر فاصلہ کے جواب دیا: جنت چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تھوڑا سوچا اور پھر قبول کر لیا۔جب وہ بندہ خوش خوش رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جدا ہونے  لگا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے بلایا اور فرمایا: يا عبد الله! اعنا بطول السجود (26)
اے بندہ خدا! تم کو بھی طولانی سجدوں سے ہماری مدد کرنا پڑے گی!

حوالہ جات :

1) وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون» ; «میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگرعبادت کیلئے» (ذاريات/56).
2) نهج البلاغه، خطبه 86 .
3) بقره/186 .
4) حجر/99 .
5) الغدير، ج 1، ص 408 .
6) بحارالانوار، ج 72، ص 155 .
7) بحارالانوار، ج 75، ص 380; الانوار البهيه، ص 319 .
8) مستدرک الوسائل، ج 3، ص 63; الامامہ و التبصره، علي بن بابويه قمي، ص 162 .

9) الفيض القدسي، ص 11 .
10) وصيتنامه الهي - اخلاقي، ص 22 .
11) حق و باطل، ص 170 .
12) سرگذشتهاي ويژه، ص 88 .
13) مهرتابان، ص 26 .
14) بحارالانوار، ج 75، ص 369 و 379 .

15) داؤد ابن قاسم ابن اسحاق ابن عبد اللہ ابن جعفر ابن ابی طالب، جو کہ ابو ہاشم کے نام سے مشہور ہیں۔
 امام حسن عسکری علیہ السلام کے قریبی دوستوں اور مورد اطمناجن اشخاص میں سے ہیں۔انہوں نے جناب جعفر طیار(امام علی علیہ السلام کے بھائی) سے منسوب ہونے کی وجہ سے  جعفری لقب انتخاب کیا ہے۔ بغداد کے بزرگان میں سے تھے اور چار اماموں کی خدمت میں حاضر ہوئے(امام علی رضا علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام، امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام)۔اور ان عظیم ہستیوں سے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں۔
 اس طرح ان کے والد گرامی، امام جعفر صادق علیہ السلام سے احادیث کو نقل کرنے والے شمار ہوتے ہیں۔ ابو ہاشم  غیبت صغری کی شروعات میں امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کی طرف سے وکیل کے عنوان سے خدمت انجام دیتے تھے۔ انہوں نےائمہ معصومین علیہم السلام سے احادیث نقل کرنے کے علاوہ  علم حدیث پر ایک مستقل کتاب بھی تالیف کی۔
 ابو ہاشم ایک آزاد اور شہامت والے شجاع مرد تھے۔جب یحیی ابن حسین ابن زید(علویوں سے ایک بزرگ، متقی،  پرہیز گار اور بہادرسید، جس نے مستعین عباسی  کی ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا۔ اور شہید ہوئے) کا سر اور اس کے دیگر ساتھیوں کے سر بغداد میں محمد ابن طاہر(ایک عباسی حاکم )کے سامنے لائے گئے۔ بغداد کے تمام بزرگان اور تمام درباری عہدہ دار ہدیہ تبریک اور مبارکباد پیش کرنے کیلئےحاکم کے پاس آئے اور یحیی کے قتل کی مبارکیں دینے لگے۔ابو ہاشم جعفری بھی حاکم کے پاس گئے۔ اس وقت حاکم کے پاس تمام بزرگان تشریف رکھتےتھے۔
لیکن اس نے کسی سے ڈرے بغیر حاکم سےخطاب کیا: اے امیر! یہ تمام افراد اس مقتول کی نسبت تمہیں مبارکباد دے رہے ہیں لیکن اگر آج رسول اکرم صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم زندہ ہوتے تو غمگین ہو کرتسلیت دیتے !
اہلبیت علیہم السلام کے نزدیک ابو ہاشم ایک عظیم مقام اور منزلت رکھتے تھے۔
وہ اشعار کے ذریعہ حریم آل محمد علیہم السلام کا دفاع کرتے تھے۔ اور اسی وجہ سے سن ۲۵۲ میں طالبین کے ایک گروہ کے ساتھ سامرا سے جلا وطن کئے گئے اور باقی زندگی جلا وطنی میں گذاری۔
 (رجال نجاشي، ص 156; معجم رجال الحديث،  
ج 23، ص 85 و ج 8، ص 122; شاگردان مکتب ائمه عليهم السلام، ج 2، ص 138) .
16) بحارالانوار، ج 50، ص 304 .

17) کمال الدين، ص 473; بحارالانوار، ج 50، ص 331 .
18) مصباح المتهجد، ص 788; وسائل الشيعه، ج 14، ص 478
. لیکن وسائل الشیعہ میں حدیث کے پہلے جملہ میں«صلوة الخمسين»  ۵۰ رکعتوں کا ذکر ہے۔
19) جامع احاديث الشيعه، ج 4، ص 22 .
20) تفسير امام العسکري عليه السلام، ص 72 اور اس کے بعد; بحارالانوار، ج 81، ص 231، 232، 233، خلاصہ کے ساتھ .
21) نهج البلاغه،خطبہ ہمام سے اقتباس.
22) بحارالانوار، ج 50، ص 253 .
23) کشف الغمه، ج 3، ص 290 .

24) ص/18 .
25) تحف العقول، ص 487 .
26) وسائل الشيعه، ج 6، ص 378 .

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک