اسلامی تربیت کی اہمیت اور اسکے اہم اصول
اسلامی تربیت کی اہمیت اور اسکے اہم اصول
فدا حسین حلیمی بلتستانی
پیشکش امام حسین(ع)فاؤنڈیشن
مقدمہ
قرآن وسنت کی نگاہ میں اسلامی تربیت اس قدر اہم ہے کہ قرآن مجید نے اسے انبیاء کی بعثت کے اہداف میں سے قرار دیا ہے :چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ( هُوَ الَّذِی بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهُْمْ يَتْلُواْ عَلَیهِْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّیهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحِْكْمَةَ وَ إِن کاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِین) (1)- وہ خدا جس نے ناخواندہ لوگوں مںع انہی مںف سے رسول بھجا جو انہںف اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انکی تربیت کرتا ہے اور انہںس کتاب و حکمت کی تعلمی دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ صریح گمراہی مںی تھے۔ پس معلوم ہوا کہ انبیاء ہوے تاکہ اس خاکی انسان کو تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرکے اس میں انسانیت کی روح پھونکر اسے عرشی اور الھی بنایا جاے ۔ چنانچہ اسی اہمیت کے پیش نظر اس مختصر مقالے میں تعلیم کے ساتھ اسلامی تربیت کی ضرورت ؛ اسلامی تربیت کےچند اہم اصولوں کو زیر قلم لانے اور ہماری حالیہ تعلیمی نظام میں تربیتی بحران کے اسباب کا جا ئزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسے اس بحران سے نجات دلانے کا طرقہ کار بتانے کی کوشش کی ہے ۔
تربیت کا لغوی معنی ۔
تربیت عربی کا لفظ ہے جسے مادۃرببَََ یا ربَو سے لیا گیا ہے جسکا مطلب کسی چیز کی پرورش کرنا یا کسی چیز کے رشد کرنے کے اسباب اورعوامل کا فراہم کرکے اسے اپنے کمال کے مرحلے تک پہنچانا ہے جیسا کہ معجم مقائیس الغۃ میں اسطرح سے آیا ہے : ربَوَ او ربی یدلُ علی الزیادۃ او النماء و العلو : یعنی ربو یا ربی ؛ رشد ؛ زیادتی امور بڑھانے کے معنی میں آتا ہے (2)-
تربیت کا اصطلاحی معنی ۔
اگر چہ علم تربیت کے ماہریں نے مختلف انداز میں مختلف قسم کی تعریفیں کی ہے لیکن تربیت کے اصول اور اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئےیہ کہ سکتے ہیں کہ تربیت پرورش کرنے کا نام ہے یعنی کسی شی کے اندر قابلیت کی صورب میںموجودہ صلاحیتوں اور استعداد کو واقعی اور حقیقی صورت عظا کرنا اور انہیں پروان چڑھانا ہے ۔
تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت ۔
تعلیم وتربیت انسان کی کامیا بی کی بنیاد ہے کسی بھی معاشرے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی ضرورت اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم جب تعلیم کے معنی اور مفہوم سے آشنا ہو جائے کیونکہ تعلیم کا معنی صرف یاد کرانااور معلومات دینا ہے چنانچہ تعلیم کے لحاظ سے متعلم یا تعلیم لینے والا سٹوڈن صرف یاد کرنے والا ہوتا ہے اسکا دماغ اس گودام کی طرح ہے کہ کچھ معلومات اس میں ڈلی جاتی ہےہیں لیکن اسے اس انسان میں اس متعلم میں ذھنی ؛فکری رشد اور استقلال نہیں آتا اور نہ ہی اس شخص میں انسانی اقدار اور خدادای صلاحیتیں بیدار ہونگی لہذا یہ انتہائی نقص شمار ہوگا کہ ایک مربی اور اور ایک معلم کا ہدف صرف اور صرف یہی ہو کہ وہکچھ معلومات ؛اطلاعات ؛؛اور فامولے طالب علم کے دماغ میں ڈالے اور اسکے ذہن میں ذخیرہ ساذی کردے اور اسکا ذھن ایک ایسے حوض کی مانند ہے جائے جس میں تھوڑا سا پانی جمع ہے جیسا کہ عام طور پر ہماری تعلیمی اداروں میں یہی فکر پائی جاتی ہے اورتعلیم تربیت کے ذمہ دار افراد اسی سوچ کے ساتھ تعلییا اداروں میں قدم رکھتے ہیں :
بلکہ ایک معلم اور مربی کا ہدف اسے بلند اور اعلی ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ متعلم اورسیکھنے والے کی فکری توانائی اور ذھنی صلاحیتوں کو پروان چڑہائے اسے فکری استقلال ؛ خود اعتمادی ؛ خود اختیاری بخشے اسکی ابداع اور ایجاد کی قوت کو حیات بخشے اسکے جسمانی اور تعلیمی نشونما کے ساتھ ساتھ اسکے عقیدتی ؛ ایمانی اور اخلاقی اقدار بھی پروان چڑھے ۔لہذا دین میں اسلام نے جس قدر تعلیم کے مئلے پر زور دیا ہے اسی قدر تربیت کو بھی مہم جانا ہے لیکن موجودہ دور میں جہاں انسان نے علم میں ترقی کی ہے وہاں تربیت کو پس پشت ڈال دیا ہے یا تربیت کو ایک خاص زاویے سے دیکھا ہے جسکی وجہ سے معاشرے میں برائیاںجنم لے رہی ہیں اور ہر جگہ ظلم وبربریت کا بول بالا ہے لہذا اگر آئندہ نسل کو تباہی سے بچانا ہو تو ہمیں تربیت کی طرف توجہ دینا پڑے گی اور خاص طور پر دینی تربیتی نظام سے مدد لینا ہو گا ۔چنانچ اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں سب سے پہلے حالیہ تعلیمی نظام میں تربیتی بحران کے اسباب ڈھوڈنا پڑے گا پھر اسے چٹکاڑا حاصل کرنا ہو گا ۔
حالیہ تعلیمی نظام تربیتی بحران کے شکار ہونے کا اسباب ۔
اس باب میں بہت ہی اختصار کے ساتھ یہ کہ سکتا ہے کہ حاللیہ تعلیمی نظام تربیتی بحران کے شکار ہونے کا اہم ترین سبب خود انسان شناسی شناخت انسان میں ڈھوھڈنا ہو گا کیونکہ تربیت کا موضوع خود انسان ہے اور اس اس دور میں مختلف مکاتب فکر نے ماہیت انسان کی پہچان اور شناخت میں وجود انسان کے مختلف ابعاد اور مختلف زاویوں کو نظر انداز کیاہے اور بہت ہی محدود زاویوں سے انسان کو دیکھا ہے اور انہی محدود نگاہوں کو اپنے تعلیمی اور تربیتی نظام کا بنیاد اور اساس قرار دیا ہے جسکی وجہ سےآج مختلف تربیتی نظام ان مسائل کو حل کرنے میں قاصر ہے چانچہ ہم یہاں انسان شناسی کے اس باب میں ایک دو نظریے انکے خامیوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ۔
1۔مادی رجحان کا حامل نظریہ ۔
جدید علوم کے بعض ماہریں نے مادی گری بنیادوں پر اس انسان کو دیگر مادی موجودات کے برابر قرار دیا ہے اور انسان کو ایک جسمانی اور مادی موجود سے پہچانا ہے جسکا اپنا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی ماضی اورآئندہ سے اسکا کوئی ارتباط ہے بلکہ موت کے آنے سے اسکی زندگی ختم ہو جاتی ہے
اب جس تعلیمی اور تربیتی نظام کا بیسک اور بنیاد اس نظریے پر قائم ہو تو خواہ نا خواہ تربیتی بحران کا شکار ہونا ہی تھا لیکن خوش بختی سے آج اس نظریے کا کوئی حامی نہیں ملتا کیو نکہہ اس نظریئے کا عقلاًاور وجداناً باطل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے (3)-
2۔سماجی رجحان کے حامل نظریہ ۔
عصر حاضر میں سماجیات اور انسانی علوم کے بعض ماہریں نے انسان کے سماجی اور اجتماعی زاویے سے پہچنوایا ہے انکا کہنا ہے ایسان ایک سماجی اور اجتماعی موجود ہے لہذا اسکی ویسے تربیت ہونی چاہیے جیسے سماج ہو گا یعنی آدمی کو ایک ایسی موقعیت میں لا کر کھڑا کرنا ہے جسکی وجہ سے فرد خود بخود معاشرے میں جاری کلچر اور رسومات ؛آداب سکھ لے
نظریاتی خامیاں ۔
1 ۔سب سے پہلے یہ ان نظریات کے حامل افراد نے انسان کو بن گلی میں ڈال کر اسے بہت ہی محدود زوایوں میں پہچانے کی کوشش کی ہے جبکہ ابعاد وجودی انسان اسے کہیں زیادہ وسیع اور گستردہ ہے جس طرح امیر المومنین علی علیہ السلام انسان کی پہچان کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
و تحسب أنک جرم صغیر و فیک انطوی العالم الأکبر
و أنت الکتاب المبین الذی بأحرفه یظهر المضمر(4)
اے انسان کیا تو یہ سوچتا ہےکہ تو ایک چھٹا سا جرسومہ ہے در حالاتکہ تیرے اندر ایک بہت بڑا عالم سمایا ہوا ہے ۔
2۔ اکثر سماجی اور اجتماعی سوچ کے حامل افراد نے عاطفہ اور احساسات کو اپنے تربیتی نظام کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اسی کو رشد دینے کی کوشش کی ہے اور اور انسان کے عقلائی ابعاد سے چشم پوشی کی ہے جبکہ مکتب اسلام نے اپنے تربیتی نظام کی بنیاد کو عقل وفکر قرار دیتے ہوے تعقل ؛ تفکر کی روشنی میں انسان کے فکری ؛ عقلی ؛نفسیاتی ؛ اخلاقی ؛ اور دیگر سماجی قوتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے
3۔ عالم غرب میں رائج کلچر اور تہذیب جو حقیقت میں ضد دین ؛ ضد مذہب ؛ ضد اخلاق اور ضد انسانیت ہے لہذا انکے تعلیمی اداروں او ر درسگاہوں میں انہی ثقافت اور تہذیب کی بنیاد پر تربیت دیا جاتا ہے جسکی وجہ سے معاشرے میں برائیاں جنم لے رہی ہیں اور ہر جگہ ظلم وبربریت کا بول بالا ہے اور پورا معاشرہ افرطو تفریط کے شکار ہو کر اپنا تعادل کھو دیا ہے
راہ حل ۔
پہلے بھی عرض ہو چکا کہ حالیہ تعلیمی نظام کے تربیتی تحران کے شکار ہونے کا اہم ترین سبب انسان شناسی اور انسان کی پہچان میں بحران کی شکار ہونے کی وجہ سے ہے تو بہترین راہ حل یہ کہ ہم سب سے پہلے اس انسان اسی طرح پہچاننے کی کوشش کرے جس طرح خالق انسان نے اسے پہچانوایا ہےکیونکہ وہی ذات سب سے بڑ کر انسان کے تمام اسرار اور ابعاد سے آگاہ اور واقف ہے ۔چنانچہ اس بارے میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے( وَ أَسِرُّواْ قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُواْ بِهِ إِنَّهُ عَلِیمُ بِذَاتِ الصُّدُورِ) ور تم لوگ اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ظاہر کرو یقینا وہ تو سنو؛ں مںذ موجود رازوں سے خوب واقف ہے۔ أَ لَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیر ۔ بھلا جس نے پداا کاِ وہ نہیں جانتا ؟ وہ تو پوشد ہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چزا سے) آگاہ ہے(5)-
اسی پہچان کی بنیاد پر تربیتی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اسلام میں تربیتی نظام پہلے سے آمادہ ہے صرف اسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے اسلام کے تربیتی نظام علم؛ تفکر؛ اور استقلال کے بارے میں گفتگو ہوتا ہے تو وسیی ہی انسا کے عقلائی زاویوں اور سمجی پرورش کے بارے میں بھی بحث ہوتا ہے ۔ اس مقدس نظام میں انسان کے دنیوی اور مادی زندگی کو مورد توجہ قرار دیا ہے اور اسے صحیح راہ میں پروان چڑانے کے بہترین فارمولے پیش کیا ہے تو ساتھ ساتھ اسکے معنوی اور اخروی زندگی کو بھی مورد توجہ قرار دیتے ہوئے معنوی مسائل کو حل کرنے اور اسے کمال سے ہم کنار کرنے کے لیے بہترین اصولوں سے آشنا کرانےکے ساتھ ساتھ اسکے ترقی اور کمال کی راہ میں پیش آ نے والی رکاوٹوں ؛ دشواریوں اور سختیوں کو دور کرنے کے بہترین راہ حل پیش کیا ہے اس نظام میں سماج ؛فرد اور نوع بشر سب کو مورد توجہ قرار دیا ہ اور تمام انسانی اقدار و توحید کے مسیر میں حرکت دینے کا بہترین سامان فراہم کیا ہے ہم یہاں چند اہم اسلامی اصولوں سے آشنا کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسلامی تربیت کے چند اہم اصول ۔
دین مقدس اسلام نے انسانوں کے اندر موجودہ تمام ناخفتہ قوتوں اور مختلف ابعاد کے درمیاں تواذن اور تعادل کو برقرار رکھنے کیلیئے مختلف اصولوں کو عملی زندگی میں تطبیق دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے کو ضروری سمجھا ہے انہی اصولوں میں سے ایک۔
1۔قوہ ارادہ کی تقویت۔
انسان کی ان استعدادات میں سے جن کی قطعی طور پر تعلیم کے ساتھ ساتھ پرورش ہونی چاہیے ایک ارادہ ہے ارادہ ایک اندرونی اور باطنی قوت ہے انسان ارادے کے ذریعے اپنے آپ کو بیرونی طاقتوں کے اثر سے خارج اور مستقل کرتا ہے ارادہ جتنا قوی ہو گا انسان کی قوت اختیار اتنی ذیادہ ہو گی اور وہ خود پر اپنے افعال پر اور اپنی سرنوشت پر ذیادہ مسلط ہو گا
دنیا میں کوئی بھی نظریہ ایسا نہیں ہے جو اس بات میں ذرا بھی شک کرے کہ ارادے کو انسان کی خواہشات پر حاکم ہونا چاہے لیکن بات اس میں ہے کہ اس مطلب کو عملی صورت دینے کا طریقہ کیا ہے یا یوں کہا جاے عقل اور ارادہ کو خوہشات ؛ ہواوہوس ؛ لذت پرستی ؛ شہوت پرستی ؛ لا ابالی پر غالب آنے کا ضامن کیا ہے ؟ یقیناً اسلام میں اسکا تنہا ضامن ایمان ؛ تقوی اور تزکیہ نفس ہے ۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے۔اِتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً ۔ خدا سے ڈرو تمہیں حق وباطل کے درمیاں تمیز دینے کا ذریعہ عطا کرے گا اسی طرح فرامیں معصومیں سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی اور پرہیزگاری کی مثال رام گھوڑے کی طرح ہے کہ جسکا لگام سواری کے ہاتھ میں ہے جبکہ گناہ ؛خطاء اور بےتقوی اس سرکش گھوڑے کی مانند ہے جو سواری سے اختیار چھین لیتا ہے اور اسے گمراہی کے گوڈال میں گرا دیتا ہے ۔چنانچہ امیر المومنین علی ؑاس بارے میں نہج البلاغہ میں فرماتے ۔ ۔ ِ أَلَا وَ إِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِی النَّارِ أَلَا وَ إِنَّ التَّقْوَی مَطَايَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَ(6)-
خبر دار گناہوں کی مثال ایسے سرکش گھوڑوں کیطرح ہے جو سواری سے اختیار سلب کر لیتے ہیں اور اسے گمراہی اور جہنم کی آگ میں گرا دیتے ہیں جبکہ تقوی کی مثال اس رام گھوڑوں کی طرح ہے کہ یہاں پر لجام سوار کے ہاتھ میں ہے نہ کہ سواری کےہاتھ میں۔
لہذا ایک مربی اور تعلیم تربیت کے ذمہ دار شخص کی ذمہ داریاپنے تعلیمی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کو تقوی اور ایمان بھی سکھانا ہے ۔
2۔ روح عدالت خواہی کو اجاگر کرنا ۔
اسی طرح اسلامی تعلیمات میں اصلاح نفس اور تربیت کے اصولوں میں سے ایک روح عدالت خواہی کی پرورش کرنا ہے عدالت انسانی اور سماحی زندگی کی روح اور حیات ہے وہ معاشرہ جس میں ظلم اور بے عدالتی رائج ہو اس معاشرے میں انسانوں کی انسانیت شامال ہو جاتی ہے اسی اہمیت کے پیش نظر اسلام کی نگاہ میں انبیاءِ الھی کے بیجھے جانے اور کتبِ آسمانی کے نازل کرنے کا ایک اہم مقصد اور ھدف معاشرے میں عدل وانصاف قائم کرنا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ۔لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِیزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط(7)-
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان عدل نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدالت پر قائم رہے ۔ اسی طرح کسی اور مقام پر پروردگار عالم ہمیں عدلو انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاحْسَان(8)-
یقینا اللہ عدل و احسان قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس طرح کے اور بھی دسویں قرآنی آیات اور روایات اس بنیادی اصول کو زندگی کے تمام شعبوں میں رواج دینے اور اسے پروان چڑانے کی تاکید کرتے ہیں ۔
لہذا ایک مربی اور تعلیم وتربیت کی ذمہ دار شخص کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ خود عادل ہواور اپنے شاگردوں میں بھی روح عدالت خواھی کو اجاگر کرنے کی کوشش کرے ۔
3۔حس حقیقت جوئی کی تربیت ۔
تربیتی مدان میں ایک اور اہم مسئلہ حقیقت حوئی کی حس کو تونائی بخشنا ہے کہتے ہیں کم وبیش ہر انسان کی جبلت میں موجو ہے کہ وہ حقیقت کا متلاشی اور کوشش کرنے والا ہوتا ہے اسی وجہ ہے انسان علم کے پیچھے جاتا ہے اور مختلف میدانوں میں آیے دن نیٹ نیے انکشافات رونما ہوتے ہیں ۔خو تاریخ اسلا اس بات کی شاہد ہے کہ پہلی صدی ھجری میں یعنی خود رسول اکرمﷺ کے زندگی میں ہی پڑھنا ؛لکھنا ؛لکھانا ؛پڑھانا اور مختلف زبانیں سیکھنا شروع ہو چکا تھا اور یہ چیز علوم دینی سے شروع ہو کر سائنس ؛فلسفہ وغیرہ وغیرہ تک جا پہنچی ۔
4۔ تقوا اور پرہیزگاری ۔
اسلامی ترتبتی اصولوں میں سے ایک جسکے انسانی زندگی میں سب سے تڑا رول ہے وہ تقوی اور پرہیزگاری ۔تقوی وقی یقی سے ہے جسے مراد بچانے یا پرھیزکرنا ہے یعنی نفس کو ان چیزوں سے بچا لینا ہے جسے نفس کو نقصان پہونچتا ہو ۔
لیکن دینی اصطلاح میں تقوی سے مراد نفس کو اس طدح رام کرنا ہے اس طرح کنٹرول کرنا ہے جسکی وجہ سے انسان خطاء ؛ گناہ ؛پلیدیوں اور برائیوں سے خود بخود باز آے خواہ وہ برائی اورگناہ عقیدتی مسائل میں ہو یا اخلاقی اور عملی سطح پر ہوفرق نہیں پڑتا ۔
دینی تعلیمات میں غور کرنے سے ہمیں اس نتیجے پر پہنچا دیتے ہیں کہ اس کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے ہر دور میں قدرت ؛ ثروت ؛ قومیت؛ ریاست ؛لسانیت اور دیگر توہمات پر مبنی تمام جعلی اور مصنوعی معیاروں کو ٹھوکراکر صرف ایک چیز " انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم یعنی تقوا کو معیار قرار دیا ہے۔
کیونکہ جس طرح امر المومنین علی ؑنہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔فَإِنَّ تَقْوَی اللَّهِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ وَ ذَخِیرَةُ مَعَادٍ وَ عِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ وَ نَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ بِهَا يَنْجَحُ الطَّالِبُ وَ يَنْجُو الْهَارِبُ وَ تُنَالُ الرَّغَائِب(9)-
تقوی کامیابی کی کنجی ؛ذخیرہ معاد ؛ہر باندھ سے آزادی اور ہر قسم کی ہلاکتوں سے نجات کا ذریعہ ہے اور تقوی ہی کے واسطے انسان اے اہداف تک رسائی حاصل کرتاہے اپنے دشمنوں سے نجات پاتا ہے اور اپنی آرزوں تک پہونچ پاتاہے ۔ چونکہ تقوی ْ فَإِنَّ تَقْوَی اللَّهِ دَوَاءُ دَاءِ قُلُوبِكُمْ وَ بَصَرُ عَمَی أَفْئِدَتِكُمْ وَ شِفَاءُ مَرَضِ أَجْسَادِكُمْ وَ صَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِكُمْ وَ طُهُورُ دَنَسِ أَنْفُسِكُمْ وَ جِلَاءُ عَشَا أَبْصَارِكُم وَ أَمْنُ فَزَعِ جَأْشِكُمْ وَ ضِيَاءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُ(10)-
تمھارے قلبی بیماریوں کے لیے دوا ؛اندھے دلوں کے لیے بصرت ؛ جسمانی بیماریوں کے لیے شفا ؛فکری کجیوں کی اصلاح ؛ نفسانی آلودگیوں کے لیے صیقل اور آنکھوں پر آئی ہوئی پردوں کی پردہ دری ؛ دلوں میں آنے والی خوف وہراس کے لیے ایمن اور تمہارے وجود پر چھائی ہوئی تاریکیوں کے لیے روشنی ہے ۔لہذا ہمارے تربیتی ادارے با تقوی افراد کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے اور اس میںبا تقوی افراد کی تربیت ہونی چاہیے ۔
اسی طرح خود اعتمادی ؛ استقلال ؛ دینی غیرت ؛عزت نفس ؛ ایثار ؛ محبت ؛ کوشش جدوجہد ؛لکن ؛ محنت وغیرہ وغیرہ انکےعلاوہ بھی دسویں ایسے سنہری اسلامی تربیتی اصولوں کو ہر مربی ہر تعلیم وتربیت کے زمہ دار افراد اور تعلیمی ادارے اپنا نصب العین قرار دینا چاہیے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
امید ہے پروردگار عالم ہم سب کوسماجی زندگی میں تربیتی ذمہ داری اچھی طرح نبھانے کی توفیق عطا فرمائے انشاءاللہ ۔