عزاداری اور انتظارکا باہمی رابطہ
عزاداری اور انتظارکا باہمی رابطہ
تحریر: غلام قاسم تسنیمی
مقدمہ
تاریخ گواہ ہے کہ جتنے مظالم اور ظلم کے پہاڑ شیعیان حیدر کرار پر ڈہائے گئے ہیں ان کی کائنات میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک تشیع کا نام بھی ختم ہو جانا چاہیے تھا، لیکن یہ خدا کی مرضی ہے کہ نہ صرف تشیع باقی رہی بلکہ روز بروز پھیلتی چلی گئی اور آج تشیع ایک عالمی طاقت ہے اور وہ دن بھی دور نہیں جب خدا کا یہ دین، تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور
وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها (۱)
کے مصداق کے مطابق دھرتی نور الہی سے جگمگا اٹھے گی۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خالق کائنات کن فیکون کا مالک ہوتے ہوئے بھی اشیاء اور امور کو ان کے طبیعی اسباب کے ذریعہ ایجاد کرتا ہے، جس طرح فلسفہ میں کہا جاتا ہے کہ
ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها،
اب ظاہر ہے کہ تشیع جیسے شجرہ طوبی اور مظہر نور الہی کی بقا کے پیچھے بھی کچھ طبیعی عناصر اور عوامل ہیں، جن میں سے اہم ترین عزاداری اور انتظار ہیں۔ عزاداری اور انتظار کے باہمی رابطہ کو بیان کرنے سے پہلے سے ہم امام حسین ؑ اور امام زمانہ عج کے باہمی رابطہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
امام حسینؑ اور امام زمانہ ؑ کا باہمی رابطہ
امام حسینؑ اور امام زمانہ ؑ میں بہت ہی گہرا رابطہ پایا جاتا ہے، ان دونوں بزرگواروں میں سے ہر ایک نے دوسرے کا تعارف کروایا ہے، دوسرے کی صفات بیاں کی ہیں۔
آیات کی تفسیر
مثال کے طور پر امام حسین نے کچھ آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد امام زمانہ ہے۔ جیسا کہ سورہ شمس کی آیات :
وَ الشَّمْسِ وَ ضُحاها (1)وَ الْقَمَرِ إِذا تَلاها (2)وَ النَّهارِ إِذا جَلاَّها (3)
میں فرماتے ہیں کہ شمس، رسول اللہ ہیں: قمر امام علی ؑ ہیں اور نھار، امام زمانہ ہیں۔
دوسری طرف امام زمانہ کھیعس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد واقعہ عاشورا اور امام حسینؑ ہے۔
جبکہ روایت ہے کہ اس ایک ہی آیت:
وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كانَ مَنْصُورا(2)
میں امام حسینؑ اورامام زمانہؑ دونوں کا تذکرہ ہے۔ مظلوما سےمراد، امام حسین ؑاورمنصورا سے مراد، امام زمانہؑ ہے۔
ادعیہ اور زیارات
اسی طرح زیارت عاشور جو کہ ایک بہت ہی فضیلت اور عظمت والی زیارت ہے، اور امام حسینؑ کے فضائل اور مصائب کے بارے میں معارف کا ایک سمندر ہے، اس میں منصور کا لفظ امام زمانہ کیلئے نقل کیا گیا ہے، ان یرزقنی طلب ثارک مع امام منصور۔ جبکہ دعائے ندبہ جو کہ امام زمانہ کی دعا ہے اور اس میں مولا کے فضائل و مصائب کے سمندر کو ایک کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے، اس میں امام حسین کو یاد کیا گیا ہے:
این الحسن این الحسین !
روایات
امام حسین ؑ، مولا امام زمانہ کیلئے ارشاد فرماتے ہیں:
لو لم یبق من الدنیا الا یوم واحد لطول الله ذالک الیوم حتی یخرج رجلا من ولدی فیملا الله الارض عدلا و قسطا کما ملئت ظلما و جوراکذالک سمعت رسول الله (3)
روایت ہے کہ جب امام زمانہ کا ظہور ہوگا تو اپنے جد امجد مولا امام حسین ؑ کو یاد کرتے ہوئے ارشاد فرمائینگے: الا یا اھل العالم انا الامام الغائب، یا اهل العالم اناالصمام المنتقم، یا اهل العالم ان جدی الحسین قتلوه عطشانا، یا اھل العالم ان جدی الحسین طرحوه عریانا، یا اھل العالم ان جدی الحسین سحقوه عدوانا(4)
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ عزاداری اور انتظار میں کیا رابطہ ہے، لیکن پھر بھی اس تعلق اور رابطہ کو بیان کرنے کیلئے ہمیں مختصر طور پر ہی صحیح لیکن عزاداری اور انتظار کو واضح کرنا پڑے گا
عزاداری
مولا حسین ؑ کے مصائب اور ان کے اہل بیت پر ٹوٹنے والے مظالم پر ان کے حبداروں اور عقیدتمندوں کا عزاداری کرنا ایک فطری بات ہے، اس لا زوال اور بے مثال غم پر غمگین ہونا اور سر و سینہ پیٹنا بلکل ہی فطری سی بات ہے۔رسول کائنات اسی فطری بات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
ان لقتل الحسین فی قلوب المومنین حرارة لا تبرد ابدا (۵)
شہادت حسین نے مومنین کے قلوب میں ایسی حرارت اور تپش ایجاد کی ہے جو کبھی بھی ٹھنڈی نہ ہو سکے گی۔
تشیع کی طاقت اور اقتدار اور مومنین کے حوصلہ کا منبع اور سرچشمہ یہی عاشورا، امام حسین کا قیام اور آپ کی قربانی ہے، یہ مولا کا غم ہے جس کی وجہ سے مومنین تمام غموں کو بھلا دیتے ہیں اورقربانیاںاور شہادتیں دے کر بھی انہیں نیا جوش، جذبہ اور ولولہ ملتا ہے۔مطلب یہ کہ یہ عزاداری حیات بخش اور روح افزا ہے، اسی وجہ سے رہبر کبیر انقلاب اسلامی بت شکن دوران خمینی نے فرمایا تھا کہ اسی محرم اور صفر نے اسلام کو باقی رکھا ہے۔ اور رہبر معظم انقلاب فرماتےہیں کہ شہدا کو یاد کرنا، شہادت سے کمتر نہیں ہے۔ یعنی کل اگر شہیدوں نے اسلام کو زندہ رکھا تو آج ان کی یاد اسلام کو زندہ رکھے گی۔
انتظار
ایک عالمی اور عادلانہ حکومت کے قیام کیلئے بہت ہی بڑی منصوبہ بندی اور مسلسل عمل، جہاد اور کوشش کی ضرورت ہے۔اسی کا نام انتظار ہے، ایک ایسے انقلاب اور حکومت کا انتظار، ظاہر ہے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے نہیں کیا جا سکتا
علامہ اقبال نے اس کی کیا خوب منظر کشی کی ہے
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !
عزاداری اور انتظار کا باہمی رابطہ
عزاداری اور انتظار دو پر ہیں تشیع کی پرواز کے، تشیع کی سربلندی اور کامرانی کے بنیادی عامل یہی ہیں، ایک نے انتقام کا جذبہ پیدا کیا اور دوسرے نے اس کو بقا بخشی، کیونکہ اگر انتقام لینے والے کے پاس حوصلہ اور استقامت نہ ہوں تو وہ کبھی بھی انتقام نہیں لے پائے گا اور مایوس ہو جائے گا ، لیکن یہ انتظار اس جذبہ کو باقی رکھے گا۔
تشیع کے دو پرچم ہیں ایک انتقام اور شہادت طلبی کا سرخ پرچم، دوسرا انتظار کا سبز پرچم۔ یہ دونوں ہی کامیابی اور عالمی انقلاب کے ضامن ہیں، ضرورت یہی کہ ان کو اصلی صورت میں باقی رکھا جائے گا، عزداری کو رسم نہیں رزم سمجھا جائے، انتظار کو دلاسہ نہیں تیاری سمجھا جائے، اور اس طرح عزاداری اور انتظار کیا جائے جس طرح خود امام زمانہ انتظار فرما رہے ہیں کہ فرماتے ہیں:
السلام عليك يا جداه!.. لئن أخرتني الدهور، وعاقني عن نصرك المقدور.. لأندبنك صباحاً ومساءً، ولأبكين عليك بدل الدموع دماً)
حوالہ جات
(۱)سورہ زمر، آیت۶۹
(۲)سورہ اسرا، آیت۳۳
(۳)کمال الدین، ج۱، ص۳۱۷
(۴)الزام الناصب، ج۲، ص۲۴۶
(۵)جامع احادیث الشیعہ، ج۱۲، ص۵۵۶