زمین، حجت خدا سے خالی نھیں ھوگی“
حدیث”زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نھیں ھوگی“
مھدی (ع) کی ولادت ھو چکی ھے۔جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی اسی نکتہ کو بیان کیا ھے اور امام علی (ع) کے قول کی شرح کرتے ھوئے کھا ھے کہ:زمین اس وقت تک اس فرد سے خالی نہ رھے گی کہ مشیت الٰھی بندوں پر حاکم ھوجائے (۶) تقریباًیہ مطلب شیعوں سے ملتا جلتا ھے اگر چہ علماء(معتزلہ)نے اس کو ”ابدال‘:پر حمل کیا ھے۔[1]ابن حجر عسقلانی نے بھی اس حدیث سے مھدی (ع)اھلبیت(ع)کے بارے میں استدلال کیاھے ؛وہ کہتے ھیں:حضرت عیسیٰ کا آخری زمانے میں (قیامت کے نزدیک)اس امت کے ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھنا جس کا مطلب یہ ھے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نھیں رھے گی ۔[2]
اس عبارت(جو امام مھدی (ع)کے بارے میں ھے)کی دلالت پر چند شواھدو قرائن نہج البلاغہ سے جس میں امام امیر لمومنین (ع)کے قول کو اس مقام پر بیان کرتے ھیں:ای کمیل ابن زیاد؛لوگوں کے دل ان ظروف کی مانند ھیں جو بہترین ھونے کے ساتھ وسیع بھی ھوں پس جو کچھ میں تم سے کہ رھا ھوں اس کو نوٹ کرلو(لکھ لو)لوگوں کی تین قسمیں ھیں:عالم ربانی،وہ متعلم جو راہ سعادت کی طرف رواں دواں ھے،اور وہ احمق لوگ جو گدھے کو بھی پاجاتے ھیںتو اس کی بھی پیروی کرنے لگتے ھیں یہ ایسے لوگ ھیں جو ھلکی سی ھوا کے رخ پر چلے جاتے ھیں انھوں نے علم و دانش کے نور کو درک ھی نھیں کیا اور کسی مطمئن شی سے پناہ نھیں مانگتے ۔
اس کے بعد فرمایا:ھاں زمین حجت خدا سے خالی نھیں رھے گی چاھے ظاھرمیں مشھور ھو یا باطن میں مضطرب یھاں تک کہ خدا کی روشن دلیل ختم نہ ھوجائےں۔[3]
یھاں پر حسین ابن علاء سے ایک صحیح حدیث نقل کرتے ھیں :
میں نے امام صادق(ع) سے عرض کیا:کیا کوئی زمانہ ایسا آئے گا کہ زمین بغیر کسی امام کے رھے؟
حضرت نے فرما یا:نھیں ۔۔۔۔[4]
جب اس حدیث کو حدیث ثقلین ،حدیث من مات۔،اور حدیث ۱۲خلفاء کے ساتھ اضافہ کرتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ واقعاً اگر امام مھدی اس دنیامیں نہ آئے ھوں تو بدون شک واجب ھوجائے گا کہ امام قبلی(یعنی امام حسن عسکری)قیامت تک زندہ رھیں ،جبکہ کوئی بھی مسلمان امام مھدی (ع)کے سوا کسی کے زندہ رھنے کا قائل نھیں ھے یعنی ائمہ اھلبیت علیھم السلام وھی لوگ ھیں جن کی تعداد روایات صحیحہ اور ان کے اسماء مبارکہ کتب مناقب میں ذکر ھیں۔
احادیث ”خلفای اثنا عشر“
بخاری نے خود اپنے اسناد سے جابر ابن سمرہ سے نقل کیا ھے کہ میںنے رسول اکرم (ص)سے اس طرح سنا :
میرے بارہ خلیفہ اور جانشین ھوں گے ۔پھر کچھ کھا لیکن میں نے نھیں سنا لیکن میرے والد نے بتایا کی آنحضرت (ص)نے فرمایا :کہ سب کے سب قریش سے ھونگے ۔[5]
صحیح مسلم میں ھے کہ :دین اسی طرح قائم و دائم رھے گا یھاں تک ہ قیامت آجائے گی یا یہ کہ پورے بارہ خلفاء ”جو سب کے سب قریش سے ھوں گے “تم پر ظاھر ھوجائیں ۔(۳)
احمد ابن حنبل نے اپنے اسناد سے مسروق سے نقل کیا ھے :ھم لوگ عبد اللہ ابن مسعود کے یھاں [6]بیٹھے ھوئے تھے اور وہ قرآن کی تلاوت کر رھے تھے کہ کسی نے ان سے کھا :اے ابا عبد الرحمن!کیا آپ نے کبھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے یہ سوال کیا کہ اس امت پر کتنے خلفاء حکومت کریں گے ؟
ابن مسعود نے جواب دیا :جب سے میں وارد عراق ھوا ھوں تم سے قبل کسی نے مجھ سے ایسا سوال نھیں کیا ۔
پھر کھا:ھاں میں نے اس مسئلہ کو خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے پو چھا تھا تو انھوں نے فرمایا:
میرے خلفاء کی تعداد نقبای بنی اسرائیل کے برابر ھوگی کہ جن کی تعداد بارہ تھی۔[7]
ان احادیث سے یہ نکات نکلتے ھیں:
بلکہ پیغمبر اسلام(ص) کی نظر میں ”خلیفہ“سے مراد وہ شخص ھے جس کی -”-خلافت و حکومت“کا دار و مدار شارع مقدس پر ھو اور یہ کہ ،ائمہ اطھار کا امت پر حکومت نہ کرنا دوسروں کے ظلم و ستم کرنے سے کوئی منافات نھیں رکھتا۔
عون المعبود فی شرح سنن ابن ابی داؤد میں اس طرح آیا ھے:
نور بشتی کا کھنا ھے کہ :اس حدیث کااصل مطلب یہ ھے کہ خلفاء عادل اور لائق حکام مراد ھیں کیونکہ یھی لوگ مستحق عنوان خلافت ھیں لیکن یہ بھی ضروری نھیں ھے کہ وقتی حکومت و قدرت سے بھی بر خور دار ھوں اگر چہ فرض تو یھی ھے کہ یہ لوگ عملی طور پر حاکم ھیں پس امیر و خلیفہ سے مراد وہ لوگ ھیں جن کو مجازاًاس عنوان سے یاد کیا گیا ھے ۔اسی طرح المرقاة میں بھی ذکر ھے ۔[8]
(۲) روایت میں یھی بارہ لوگ مراد ھیں ۔اور بنی اسرائیل کے نقباء سے ان کی تشبیہ کا مطلب بھی یھی ھے ،ارشاد باری تعالیٰ ھے ۔
خدا نے بنی اسرائیل سے عھد اور ان میں سے بارہ نقیب چنے ۔[9]
(۳)یہ احادیث زمانے کو بارہ اماموں سے خالی نہ رھے کو ضروری بتاتی ھیں اور یہ بھی کہ جب تک دین ھے ان میں سے کسی ایک کا باحیات ھونا ضروری ھے یھاں تک کہ قیامت آجائے
مسلم نے اس کے بارے میں صریح حدیث کو نقل کیا ھے :یہ امر قریش میں ا سوقت تک باقی رہ جائے گی جب تک لوگوں میں سے دولوگ زندہ رہ جائیں ۔[10]
یہ حدیث بالکل اعتقاد شیعہ ”بارھویں امام مھدی موعود کے زندہ ھونے“ پر صحیح اتر رھی ھے
اورمھدی موعود (ان کے جد بزرگوار رسول اعظم(ص) کی بشارت کے مطابق)وھی ھے ج وآخری زمانے میں ظھور کرے گا اور زمین جو اس زمانے میں ظلم و جور سے بھری ھوگی اس کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ۔
یہ بات بھی ناقص نہ رہ جائے کہ اھل سنت نے بارہ اماموں کے ناموں پر اتفاق نظر نھیں کیا اس کے بر خلاف بعضوں نے تو ۱۲نام پورا کرنے کی غرض سے مجبور ھوکر یزید ابن معاویہ،مروان،عبد الملک اور عمر ابن عبد العزیز کے نام لئے ھیں ۔(۴)قطعاًیہ نتیجہ حدیث نبوی کے نص کے لئے غلط تفسیر اور غیر منطقی نتیجہ ثابت ھوگا کیونکہ ایسی تفسیر کا مطلب تو یہ ھواکہ عمر ابن عبد العزیز کے بعد زمین خلیفہ بر حق سے خالی رھی جبکہ خود دین تو قیامت تک باقی رھے گا ۔
اگر حدیث کی تفسیر شیعہ نقطہ نگاہ سے نہ ھو تو یقیناً حدیث کا کوئی خاص اور مشخص معنی نھیں نکلےں گے اور یہ تو واضح سی بات ھے کہ زمانے کے گزرے مطابق تو قریش میں سے اس عدد ”۱۲“کے کتنے لوگ حکومت اور خلافت ظاھری حاصل کر چکے ھیں ،چاھے بنی امیہ میں یا بنی عباس میں ،اور اتفاق مسلمین کے مطابق حدیث میں سے ان میں کسی ایک کا نام ذکر نھیں ھے ۔اس کے علاوہ تمام کے تمام ختم ھوگئے اور آج کوئی بھی زندہ نھیں ھے ۔
قندوزی حنفی اسی کو مد نظر رکھتے ھوئے کہتے ھےں :
بعض محققین نے کھا ھے :یہ احادیث رسول اللہ (ص)کے بارہ خلفا کی تعدادکو شھرت کے ساتھ بیان کر رھی ھیں جوبہت طریقوں سے نقل ھوئی ھیں ،اور ھم نے تو زمانے کی روشن فکری اور تو ضیحات سے سمجھا کہ اس حدیث--”۱۲“نفری میں رسول خدا (ص)کے بیان کے مطابق ان کے اھلبیت میں سے بارہ امام منظور ھیں تو اس کامطلب یہ ھوا کہ ھر گز یہ حدیث اموی حکام کے لئے نھیںھونگی کیونکہ وہ ”بارہ “عدد سے زیادہ وہ سب کے سب(عمر بن عبد العزیز کے سوا)ظلم اور گناھوں کے مرتکب ھوئے اوران میں کوئی بھی بنی ھاشم سے نھیں تھا جبکہ جابر سے عبد الملک کی روایت کے مطابق ،رسول خدا(ص) نے فرمایا:وہ سب بنی ھاشم سے ھونگے رسولخدا (ص)کی جانب سے اس روایت کا آھستہ ادا ھونا اس روایت کی تائید کر رھی ھے ۔کیونکہ بنی امیہ کو بنی ھاشم کی خلافت اچھی نھیں لگتی تھی ۔اور اسی طرح حدیث کو بنی عباس کے حق میں بھی نھیں لے جا سکتے کیونکہ عباسی خلفا کی تعداد اس عدد”۱۲“سے کھیں زیادہ تھی اور دوسرے یہ کہ عدالت،پرھیز گاری اور پارسائی کی اصلاًرعایت نھیں کرتے تھے ۔اس کی تائیدمیں یہ کہہ سکتے ھیں کہ حدیث ثقلین بھی ۱۲م(ع)صوم اماموں کا عترت نبی سے ھونے کی تصدیق کر رھی ھے ۔
اس کی تائید میں یہ کھا جا سکتا ھے کہ حدیث ثقلین بھی ”۱۲“معصوم اماموں کا عترت بنی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے ھونے کی تائید کر رھی ھے۔[11]دوسری طرف سے یہ بھی معلوم ھے کہ تاریخی لحاظ سے یہ حدیث (جو خلفاء کی تعداد ”۱۲“بتا رھی ھے )ائمہ معصوم کی حیات سے پھلے کی ھے اور یہ حدیث شیعہ کے وجود میں آنے سے قبل کتب صحاح میں اور ان کے علاوہ میں ثبت و ضبط ھوچکی ھےں تو یہ حدیث کسی تاریخ نویس کے انجام دینے سے ثبت اور منعکس نھیں ھوئی بلکہ حقیقت ربانی اور مشیت الٰھی کی خبریں ھیں جو پیغمبراسلام(ص)<ما ینطق عن الھویٰ>کی زبان پر جاری ھوا اس لحاظ سے حضرت نے فرمایا:”میرے بعد ۱۲خلیفہ ھونگے“یہ اس وجہ سے کھاھے کہ آئندہ امامتی نظام کے شاھد رھنا اور اس کی تصدیق بھی کرناجس کا آغاز علی (ع) ابن ابی طالب (ع)سے ھوگا اور امام مھدی (ع)پر اس نظام کا اختتام ھوگا اس حدیث کی تنھا یہ تفسیر معقول اور منطقی ھے ۔[12]
بارہ اماموں کے ناموں کی وضاحت (جو خلفاء کے بارہ عدد ھونے کو بیان کر ر ھی ھے )
ھم اس سلسلہ میں ان ادلہ و قرائن کو جو حدیث کو”خلفاء بارہ نفر ھیں“کے مراد و مقصود اور شخص امام مھدی (ع)کے نام و نسب کو بتا رھی ھیں انھیں پیش کررھے ھیں گے اس کے متعق اھل سنت اور شیعہ کے جوامع روائی سے سات روایات کو نقل کررھے ھیں لیکن ان روایات کے نقل کرنے سے قبل بہتر ھے کہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے چلیں کہ حق طلب انسان اس میں تعقل و تدبر کرے کہ مھدی موعود کے حسب و نسب کے تشخیص میں اس کے لئے کوئی چھوٹا سا بھی ابھام و اشکال باقی نہ رھے تو امام مھدی (جس کو رسول خدا (ص)نے امت کے لئے چھوڑا ھے)کو پھلے مقیاس و معیار کے ذریعہ پہچان لیا جائے۔
تاریخی شواھد:تاریخ امت اسلام پر نظر ڈالنے کے بعد پتہ چلتا ھے کہ ابتدا و آغاز ھی میں حکومت کے مزدوروں نے عترت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کوحکومت و قدرت سے محروم رکھنے کے لئے اپنی پوری کوششوں کو بروئے کار لاکر انھیںجبکہ حکومت سے محروم رکھاجو ان درد ناک مظالم سے جداتھی جسکو اموی اور عباسی حکام ،ذریت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر روا اور جائز سمجھتے تھے تو ایسی حالت میں طبعی طور پر ۱۲امام کے حق میں روایات و احادیث منصوصہ کم ھونگی اور حکام وقت کے کھنے پر کتب روائی سے یہ احادیث حذف کر دی گئیں گی یھاں تک کہ کربلا کے تپتے ھوئے صحرا کی ریت خامس آل عبا کے خون مطھر سے رنگین کردی گئی اور یھی نھیں بلکہ نسل زھرا (سلام اللہ علیھا)کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔
یہ بات عقل میں نھیں آتی کہ ظالم حکام تعین مھدی اور امام حسین (ع)کے نویں نسل سے ھونے کے متعلق احادیث کی نقل و نشر کی اجازت دے کر خود اپنی ذلت، نفرت اور شکست کا زمینہ فراھم کیا ھواور اسی دوران چند روایات جو ان کی نظروں سے پوشیدہ ھیں ان کے نکالنے میں کامیاب نہ ھوئے ھوںلیکن تعجب اس بات پر ھیکہ ان سختیوں کے باوجود کچھ روایات ضائع ھونے سے بچ گئیں اور نور خورشید کی طرح ھر دور میں چمکتی رھیں یہ نکتہ اتنی اھمیت کا حامل ھے کہ اس سے غفلت کرناصحیح نھیں ھوگا ۔
اب ان سات احادیث کونقل کر رھے ھیں جو حدیث(خلفاء بارہ ھونگے) کے مصادیق کو روشن کریں گے :
۱۔ قندوذی حنفی نے کتاب مناقب خوارزمی سے خود اپنی اسناد سے حضرت امام رضا(ع) سے انھوں نے اپنے اجداد سے اور انھوں نے رسولخدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے ایک حدیث کو روایت کیا ھے جس میں بارہ اماموں(امام علی (ع)سے امام مھدی(ع) محمد بن حسن عسکری (ع)تک)کے ناموں کی وضاحت کی گئی ھے وہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں حموینی (جوینی شافعی صاحب فرائد السمطین)کے عنوان میں فرائد السمطین سے ائمہ کے اسماء جن میں سب سے پھلے امام علی (ع) اور آخری امام حضرت مھدی(ع) کو ذکر کیا ھے
۲۔اسی طرح قندوزی نے( بارہ اماموں کے مصادیق اور اسامی کے بیان میں) کے عنوان میں فرائد السمطین سے ائمہ کے اسماء جن میں سب سے پھلے امام علی (ع) اور آخری امام مھدی عجل اللہ کو ذکر کیا ھے قندوذی نے دو حدیث خود اپنے اسناد سے ابن عباس کے ذریعہ۔[13]
اور پھر انھیں دونوں روایتوں کو رسول خدا کے خلفاء اور اوصیا کے باب میں بھی نقل کیا ھے۔ [14]
۳۔قندوزی نے جابر ابن عبد اللہ انصاری سے اور انھوں نے رسولخدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روایت کی ھے اے جابر !میرے بعد میرے اوصیاء اور میری امت کے رھبر سب سے پھلے علی(ع) انکے بعد حسن(ع) پھر حسین(ع) اور ان کے بعد امام حسین(ع) کی نو اولاد کے ناموں کو علی (ع) ابن الحسین(ع) سے لے کر مھدی(ع) ابن حسن عسکری تک گناتے رھے ۔[15]
۴۔شیخ صدوق(رہ) فرماتے ھیں کہ:حسین ابن احمد ابن ادریس نے مجھے خبر دی اور کھا ھے کہ :مرے والد نے احمد ابن محمد عیسیٰ اور ابراھیم ابن ھاشم دونوں نے حسن ابن محبوب سے ،انھوں نے ابو جارود سے اور ابو جارود نے امام باقر علیہ السلام سے اور امام نے جابر ابن عبد اللہ سے اس طرح روایت کی ھے کہ :ایک دن میں نے فاطمہ زھرا(س)کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک تختی ھے جس میںتمام اوصیاء کے نام لکھے ھوئے تھے جب میں نے ان ناموں کو شمار کیا تووہ بارہ تھے اور سب سے آخر یں قائم نام تھا اور تین نام محمد اور چار نام علی تھے صلوات اللہ علیھم اجمعین۔[16]
شیخ صدوق نے اس حدیث کو دوسرے اسناد سے بھی نقل کیا ھے احمد ابن محمد ابن یحیی ٰعطار سے کہ انھوں نے اپنے والد،انھوں نے محمد ابن حسین ابن ابو خطاب سے ،انھوں نے حسن ابن محبوب سے ، ابن محبوب نے امام باقر علیہ السلام سے اور امام باقر علیہ السلام نے جابر ابن عبد اللہ سے نقل کیا ھے ۔
خلاصہ یہ کہ: بعض لوگ اس حدیث کی سند پر دو طرح سے اعتراض کرتے ھیں :
پھلا اعتراض:پھلی سند میں حسین ابن احمد ابن ادریس اور دوسری سند میں احمد ابن محمد ابن یحییٰ
عطار جن کی توثیق نھیں ھوئی ھے ۔
جواب:اس اعتراض کا یہ ھے کہ یہ دونوں افراد خود مشایخ اجازہ ھیں اور شیخ صدوق نے جھاں بھی ان دونوںبزرگوں کے نام لئے خدائے متعال سے طلب رضوان کیا اور یہ بات روشن ھے کہ کبھی بھی فاسق کے حق میں رضی اللہ نھیں کھا جاتا بلکہ کسی جلیل القدر اور قابل احترام شخص کے لئے ایسی دعا کی جاتی ھے ۔اگر فرض کریں کہ ان کی توثیق نھیں ھوئی تو حدیث کے صحیح ھونے کی علامت یہ ھے :بعید ھے کہ یہ دونوں بزرگ اپنے والد پر جھوٹ کا الزام لگائیں کیونکہ انھوں نے اپنے والد سے اس حدیث کو نقل کیا ھے ۔
دوسرا شاھد یہ ھے کہ :ثقة الاسلام شیخ کلینی اس حدیث کو صحیح اسناد کے ذریعہ ابی جارود سے نقل کیا ھے جس کی ابتداء مین شیخ صدوق کے والد کا نام ذکر کیاھے کہ انھوں نے محمد ابن یحییٰ عطار سے ،محمد ابن حسین سے،ابن محبوب،ابو جارود،انھوں نے امام باقر علیہ السلام سے کہ امام نے جابر ابن عبد اللہ سے اس حدیث کو نقل کیاھے۔ [17]پھلے تینوں سند کے مشایخ خود بزرگان حدیث میں سے تھے اور ان کی و ثاقت بھی مقبول ھے۔
دوسرا اعتراض:اگر یہ کھیں کہ ابو جارود پر اعتراضات ھوئے ھیں تو اس سند کی حجیت ثابت نھیں ھو گی۔
جواب :اس کا یہ ھے کہ ابو جارود ”تابعین“میں سے ھیں اور تابع انسان کھاں سے اور کیسے جانے گا کہ رسولخدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اوصیاء کے اسماء میں تین محمد نام کے شخص اور چار علی (ع) نام کے موجود ھیں ؟جبکہ سلسلہ امامت کی تکمیل سے دسیوں سال قبل ان کا انتقال ھوگیاتھا اس کے علاوہ ان کی وثاقت میں یہ کھا جا سکتا ھے کہ شیخ مفید نے ان کو ثقہ سمجھا ھے ۔[18]
جناب شیخ مفید نے ابو الجارود کو اصحاب امام باقر (ع) کے فقھاء کے زمرہ میں اور ان کا شمار ان بزرگوں میں کیاھے جن لوگوں سے حلال و حرام اخذ ھوئے ھیں تو ان کے مطابق ان لوگوں کے بارے میں عیب جوئی اور ان کو ضعیف سمجھنا ممکن نھیں ھے ۔
شیخ صدوق نے بھی حدیث لوح کو اسی باب کی ابتداء میں اس سند سے ذکر کرتے ھوئے کھا ھے :
میرے والد اور محمد ابن حسن نے مجھے خبر دی اور کھا :سعد ابن عبد اللہ، عبد اللہ ابن جعفر حمیری دونوں نے ابو الحسن صالح ابن حماد اور حسن ابن طریف سے ،انھوں نے بکر ابن صالح سے کہ انھوں نے مجھے خبر دی اور اسی طرح میرے والد نے محمد ابن موسیٰ متوکل،محمد ابن ماحبیلویہ،احمد ابن علی ابن ابراھیم، حسن ابن ابراھیم ناتانہ، اور احمد بن زیاد حمدانی نے مجھے خبر دی اور کھا کہ:علی ابن ابراھیم نے اپنے والد ابراھیم ابن ھاشم سے ،انھوں نے بکر ابن صالح، عبد الرحمن ابن سالم نے ابو بصیر سے ،اور ابو بصیر نے کھا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے مجھے خبر دی ھے کہ حضرت نے اسی حدیث کو آخر تک بیان کیا ھے۔
بکر ابن صالح (جن کی تضعیف ھوئی ھے)کی دونوں سند صحیح ھیں لیکن بکر ابن صالح کے ضعف کی وجہ سے اس سند میں کوئی مشکل پیش نھیں آئے گی کیونکہ ضروری نھیں ھے کہ کسی چیز کے بارے میں اس کاخبر دینا اس کے کذب کے ثابت ھونے کے پھلے اور بعد دونوں ایک جیسے واقع ھوئے ھوں جبکہ بکر ابن صالح نے امام کاظم (ع) سے روایت کی ھے تو کیسے ممکن ھے کہ خود سے اولاد امام کاظم (ع) کو امام مھدی (ع) تک پہچان لیتے اور یہ بات تو یقینی ھے کہ بکر ابن صالح نے امام علی نقی (ع)،امام حسن عسکری (ع)اور امام مھدی (ع) کونھیں دیکھا اس کے گوا ہ حسن ابن طریف کے مشایخ میں سے ایک جنھوں نے بکر ابن صالح سے حدیث نقل کی ھیں وہ جناب ابن ابی عمیر (م۲۱۷ھ)ھیں۔
۵۔کفایة الاثر فی النص علی الائمة الاثنا عشر(۔۔۔از علماء قرن چھارم)میں ائمہ کے اسماء و نسب سے مربوط باب میں کچھ روایات کو خاص طور سے ذکر کیا ھے (یھاں پر ان تمام روایات کو پیش کرنے کا موقع نھیں ھے )جس کا مقدمہ قابل ذکر ھے وہ کہتے ھیں :
میںنے اس کتاب میں پھلے رسولخدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے کچھ معروف صحابہ سے کچھ رویات کو نقل کیاجن میں پورے بارہ اماموں کے نام کو واضح طور پر بیان کیا گیا ھے جیسے یہ روایات جن افراد سے ھم تک پھنچی ھیں وہ یہ ھیں :عبد اللہ ابن عباس،عبد اللہ بن مسعود ،ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری ،سلمان فارسی ، جابر ابن سھرة،جابر ابن عبد اللہ ،انس ابن مالک ،ابو ھریرہ ،محمد ابن الخطاب،زید ابن ثابت،زید ابن ارقم، ابو امامہ،واثلہ ابن اسقع،ابو ایوب انصاری، عمار ابن یاسر،حذیفہ ابن اسیر،عمران ابن حصین،سعد ابن مالک ،حذیفہ ابن یمان،ابو قتادہ انصاری،علی ابن ابی طالب،اور ان کے دو فرزند حسن (ع) و حسین(ع) اور خواتین میں سے امّ سلمہ،،عائشہ اورفاطمہ بنت محمد(ص)۔[19]
پھر ائمہ معصومین سے کچھ روایتوں کو ”حسن میں ھر امام نے اپنے بعد ھونے والے امام کے نام ونسب کو بیان کیا ھے “ ذکر کرتے ھیں ،جو کاملاً روایات صحابہ سے منطبق ھو رھی ھیں ۔[20]تاکہ مخاطبین ان کو پاکر ان پر ایمان لے آئےں اور ان لوگوں کے جیسے نہ ھو جائیں جن کے بارے میں خدا نے فرمایا :
اور انھیں اپنے امر کی کھلی ھوئی نشانیاں عطا کی ھیں۔پھر ان لوگوں نے علم آنے کے بعد آپس کی ضد میں اختلاف کیا۔[21]
۶۔شیخ صدوق (رہ)نے محمد ابن ماحبلویہ،محمد ابن موسیٰ ابن متوکل سے اور انھوں نے یحییٰ ابن عطار سے،انھوں نے محمد ابن حسن صفار سے ،اور محمد ابن حسن ابن احمد ابن ولید نے محمد ابن حسن صفار سے، انھوں نے ابو طالب عبداللہ ابن صلت قمی اورعثمان ابن عیسیٰ اور انھوں نے سناعة ابن مھران سے اس طرح نقل کیا ھے کہ :
ھم (سماعة ابن مھران)ابو بصیر اور محمدابن عمر(امام باقر (ع)کےغلام )مکہ میں ایک گھر میں تھے محمد ابن عمران نے کھا:میں نے امام صادق (ع)سے سنا کہ انھوں نے فرمایا:”ھم بارہ لوگ ھدایت شدہ ھیں“
ابو بصیر نے عمران سے سوال کیا :تم کو قسم ھے بتاؤ کیا تم نے خود امام صادق (ع) سے سنا ھے ؟
ابن عمران نے ایک یا دو بار قسم کھائی کہ اس مطلب کو امام (ع) سے سنا ھے ۔
پھر ابو بصیر نے کھا:لیکن میں نے اسی بات کو امام باقر (ع)سے سنا ھے ۔[22]
جناب کلینی نے بھی اس حدیث کو (انھیں الفاظ میں )محمد ابن یحییٰ اور اور احمد ابن محمد سے،محمد ابن حسن نے ابو طالب ،عثمان ابن عیسیٰ نے سماعة بن مھران سے نقل کیا ھے۔ [23]اس روایت کے راویوں میں کوئی ایسا نھیں ھے جس کی وثاقت میں کوئی شک ھو بلکہ تمام راوی موثق ھیں ؛اگر چہ جناب شیخ صدوق کی سند میں کوئی ”ممدوح“فرد موجود ھے لیکن ممدوح کے ساتھ ساتھ افراد ثقہ بھی موجود ھیں کہ جو حدیث”خلفاء بارہ ھونگے“کے مقصد اور منظور کو بیان کرنے کے لئے کافی ھونگے۔
۷۔شیخ کلینی نے پوری صحیح اسناد سے جس کو کسی گروہ نے اصحاب،احمد ابن محمد برقی،ابو ھاشم،داؤد ابن قاسم جعفری سے اور انھوں نے ابو جعفر الثانی سے نقل کیا ھے کہ:
امیر المومنین علیہ السلام امام حسن کے ساتھ سامنے آئے اور جناب سلمان کے ھاتھوں کو پکڑے ھوئے تھے اور ۔۔۔کہ جس میں تمام ائمہ ،امام علی (ع)سے لیکر امام مھدی (ع)تک کے تمام نام ذکر ھیں ۔[24]
شیخ کلینی فرماتے ھیں :محمد ابن یحییٰ نے ،محمد ابن حسن صفار سے ،انھوں نے احمد ابن ابی عبد اللہ سے،انھوں نے ابو ھاشم سے میرے لئے اسی طرح کی حدیث کونقل کیاھے ۔محمد ابن یحییٰ کہتے ھیں :میں نے محمد ابن حسن سے کھا :اے ابو جعفر میں تو سوچتا تھا کہ یھی خبر احمدابن ابی عبد اللہ کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ سے ھم تک پھنچتی تو اچھا تھا۔تو انھوں نے کھا:احمد ابن ابی عبد اللہ نے ”حیرت“سے دس سال قبل اس حدیث کو مجھ سے بیان کیا تھا۔(۳)
حیرت سے وھی غیبت امام مھدی۲۶۰ھ(سال وفات امام حسن عسکری علیہ السلام) مراد ھے اور محمد ابن یحییٰ کا کھنا ا حمدابن ابی عبد اللہ برقی کے سلب اعتماد کا سبب تو نھیں ھوگا اس لئے کہ سب انکی وثاقت کوقبول کرتے ھیں گویا کہ محمد ابن یحییٰ نے سوچا کہ جس فرد نے اس حدیث کو صفار سے نقل کی ھے وہ امام حسن عسکری(ع) اور امام ھادی(ع) کے زمانے میں تھا جبکہ ابن ابی عبد اللہ برقی ۲۷۴یا۲۸۰ھ تک زندہ تھے اور ان کی آرزو کی وجہ یہ تھی کہ اگر برقی اس زمانہ میں اس حدیث کو روایت کئے ھوتے تو انکی روایت آئندہ(کے اخبار)سے مربوط ھوتی کہ جو بعد میں اس طرح واقع ھوتا تو یہ ایک طرح کامعجزہ کھلا تا کہ جس کے اثبات کے لئے روایت کے مشھور ھونے کی ضرورت نہ پڑتی ۔لیکن صفار کا جواب سن کر شیخ جلیل القدر برقی نے اس حدیث کو زمانہ غیبت شروع ھونے سے دس سال قبل روایت کی ھے ۔
یہ بات کسی پر مخفی نھیں ھے کہ غیر موثق راوی کہ جو کسی حادثہ کے واقع نہ ھونے پر خبر دیں اس کی بات کو قبول کر نے سے پھلے ضعیف خبر کو قبول کرنے یا اس مر کے محقق ھونے کو قبول کرنے کی شرطوں کو بیان کیا اس کی کوئی ضرورت نھیں ھے چونکہ یھی چیز اس کی صداقت کی علامت ھے اگر چہ رجال کی کتابوں میں اس کی تصدیق نہ ھوئی ھو۔[25]
جناب کلینی اور شیخ صدوق نے اسناد صحیح کے ذریعہ ابان ابن عباس سے ،سلیم ابن قیس ھلالی سے، انھوں نے عبد اللہ ابن جعفر طیار سے اور انھوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے نقل کیا ھے کہ امام علی کا نام پھر امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا نام ،پھر علی ابن الحسین،پھر محمد ابن باقر (ع) کا نام لیا اس کے علاوہ یہ کھا: پورے امام بارہ ھیں جن میں نو حسین (ع) کے بیٹے ھوںگے۔[26]
اور ابا ن ابن عباس کا ضعیف ھونا یھاں پر کوئی مشکل ایجاد نھیں کرے گا اس لئے کہ آئندہ کے کسی حادثے کی خبر دی ھے کہ اس کے مرنے کے سالوںبعداس کی خبر کے مطابق محقق ھواھے ۔
اکمال الدین میں اس طرح کی بہت زیا دہ روایتیں موجود ھیں کہ بعض لوگو ں نے اس فن میں مھارت نہ رکھنے کہ وجہ سے ضعف سند کا بھانا بنایاھے جبکہ راویا ن ضعیف سلسلہ امامت کی تصدیق ھونے سے سالوں قبل مرچکے ھیں اور یہ اعجاز بارھویںامام کی غیبت کے اکثر اخبار پرمنطبق ھو رھی ھے اور خود شیخ صدوق نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ھے اور فرماتے ھیں :ائمہ معصومین (ع) امام مھدی (ع) کی غیبت اور اس کے واقع ھونے کی وضاحت اپنے شیعوں سے کر چکے تھے اور یہ احا دیث تو قریب دو سو سال قبل شیعوںکی کتب احادیث میں لکھی جاچکی تھیں اس طرح یہ ادعاکیا جاسکتا ھے کہ اصحاب اور شیعوں میں سے کوئی بھی معصوم نھیں تھا مگر ان میں سے زیادہ تر احادیث کو اپنی روایت میں لکھتے تھے ۔
کچھ کتابیں ایسی تھی جو اصول اربع مائہ (چار سو اصول )کے نام سے بہت زیادہ مدت تک عصر غیبت سے قبل شیعوں کے پاس محفوظ تھیں اور اس کتاب میں جتنی رویا ت بھی ھمیں غیبت کے حوالہ سے ملی ھیں انھیں خاص خاص موقعوں پر حمل کیا ھے ۔
اس بناء پر ان کتابوں کے موٴلفین کے کام تین حال سے خارج نھیں ھیں ،یا تو انھیں علم غیب تھا کہ حجت خداکی غیبت بعد میں واقع ھوگی اور اسے اپنی کتابوں میں لکھ دیا اور عقلمند حضرات اس اس احتمال کو ھرگزقبول نھیں کرےں گے ۔یا سب کے سب فاصلہ زمانی ومکانی اور انکے درمیان نظریات میں اختلاف کی وجہ سے اس مسئلہ کے مدعی ھوگئے ۔لیکن اتفاقی طور پر انکے واقع سے جھوٹے ھونے کی خبر کے مطابق ھوگئی جبکہ قاعدةً یہ احتمال محال ھے تیسرا احتمال یہ ھے کہ علماء اور شیعوں نے غیبت کے واقع ھونے کی خبر کو اپنے ائمہ (جورسول خدا(ص)کے اقوال اور انکی وصیتوںکے محافظ ھیںجن میں سے ایک وصیت مسئلہ غیبت تھی ) سے دریافت کیا ھے اور اسکو کتب احادیث میں ثبت کر کے اپنے اصول میں جمع کر دیا اور انھوں نے اسکی حفاظت کی ۔[27]
قابل ذکر بات یہ ھے کہ شیخ صدوق نے جن اصولوں کی طرف اشارہ کیا ھے خود انکی نظر میں مقطوع الانتساب ھیں جس طرح آج کتاب اکمال الدین ھمارے لئے شیخ صدوق(رہ) سے مقطوع الانتساب ھے اور اگر فرض کریں کہ غیبت کے متعلق روایا ت کے اسناد میں ضعف پایا جاتا ھے تو روایات کا مستقیماًکتب اصول میں نقل ھونے کے بعد یہ ضعف کی وجہ سے روایت کی صحت پر کوئی فرق نھیں پڑے گالہٰذااس با ب میں ان روایا ت کے علاوہ جو شیعوں کے نزدیک سوفی صدصحیح یا وہ روایات جن کے بارے میں لوگوں غیبت سے قبل خبر دی چاھے (ان کی توثیق ھوئی ھو یا نھیں )ھمیں دوسری روایا ت کی ضرورت نھیں ھے۔
امام حسین (ع)کی نسل میں امام مھدی (ع)کا نواں فرزند ھونا
اگر چہ ما قبل کی گفتگو سے کچھ نتیجہ حاصل ھوگیا ھے لیکن بہتر ھوگا کہ اھل سنت کی کچھ روایات جن سے انھوں نے استدلا ل کیا ھے اور کچھ شیعوں کی چنندہ صحیح روایا ت کی تحقیق کریں :
(۱)سلمان فارسی ،ابو ایوب انصاری،ابوسعید خدری ، ابن عبا س ، اور علی ھلالی سے مختلف الفاظ میں رسو ل اکرم(ص) سے اس طرح نقل ھواھے ”اے فا طمہ ھم اھل بیت (ع)کو چھ خصلتیں عطاکی گئی ھیں جن میں سے ایک بھی اس سے پھلے کسی کو نھیں دی گئیں اور اسکے بعد بھی کسی کو نھیں دیا جائے گا مگر ھم اھل بیت (ع)کو۔۔۔۔۔۔اس امت کا مھدی جسکے پیچھے حضرت عیسیٰ نماز ادا کریں گے وہ ھم میں سے ھوگا “پھر امام حسین (ع) کے شانے پرھاتھ مار کر کھا :”مھدی امت اسکی نسل سے ھوگا “ [28]
(۲)مقدسی شافعی نے امام علی (ع) سے ایک روایت کی ھے جس میں اس طرح نقل ھو ا ھے: مھدی (ع)اولا د حسین (ع) سے ھوگا اور یاد رکھو جو اس کے غیر سے متمسک ھوگا خدا اس پرلعنت کرے گا ۔[29]
اس کے بعد مقدسی استدلال سے قبل یوں فرماتے ھیں اس فصل کا خاتمہ کلا م امیرالمومنین (ع) کی روشنی میں ظالمین کی ذلت ورسوائی پر ھوگا جس میں کسی ھولناک حادثے ،دشواریوں اور قیا م امام مھدی کا بیان او ر موعود تو وہ ھوگاجو مشکلات کو دوراور دشمنوں کے لشکر کو شکست فاش دے گا ۔
(۳)اسی طرح مقدسی نے جابر ابن یزید کے ذریعہ امام باقر (ع) کی ایک مفصل حدیث کو نقل کیاھے جس میں نقل ھے کہ :”اے جابر :مھدی اولاد حسین (ع) سے ھوگا ۔[30]
(۴)ابن ابی الحدید اما م علی (ع)کے قول ”۔۔۔۔۔“کی شرح کرتے ھوئے یوں فرماتے ھیں:اس کلام میں امام مھدی (ع)کی طرف اشارہ ھے جو آخری زمانہ میں ظھور کریں گے اور اکثر محدثین ان کے اولا د فاطمہ(ص) سے ھونے کے معتقد ھیں اور علماء معتزلہ ان کا انکار نھیں کرتے ھیں حتیٰ ان کے نام کی وضاحت اپنی کتابوں میں کی ھے اور اکثر بزرگوں نے ان کے وجود کا اعتراف کیا ھے ۔۔(قاضی القضاة(رہ))کافی الکفاة ابوالقاسم اسماعیل بن عباد سے نقل کرتے ھیں کہ انھوں نے امام مھدی(ع) کا نام لیا اور ان کو اما م حسین (ع) کی او لا د میں شمار کیا ھے اسی طرح ان کی نشانی اور اوصاف کو یوں بیان کیا ھے :”امام مھدی (ع)کی پیشانی نورانی اور کشادہ ،ناک پتلی ،چوڑی ران ،دانوں کی مانند کھلے دانت ،اور داھنے ران میں ایک علا مت ھوگی “اس حدیث کو ابن قطیبہ نے بعینہ کتاب غریب الحدیث میں نقل کیا ھے ۔[31]
(۵)قندوزی نے خوار زمی کی المناقب سے خود اپنے اسنادسے حضرت امام حسین (ع) سے نقل کیا ھے: میں اپنے ج درسول اللہ کی خدمت میں پھونچا تو مجھے اپنے زانو پر بٹھاکر مجھ سے فر مایا :”اے حسین (ع)خدا نے تیری نسل میں نو امام بنا ئے ھیں اور ان میںسے نواں قائم ھو گا اور سب کے سب فضل و مرتبہ میں خدا کے نزدیک یکساں ھوں گے ۔[32]
(۶)اسی طرح قندوزی نے المناقب خوارزمی سے سلمان فارسی سے روایت کی ھے :میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ھو ا تو حسین ابن علی (ع)کو پیغمبر(ص) کے زانو پر اس طرح بیٹھا ھو ا دیکھا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے انکی آنکھوں اور منھ کا بوسہ لینے کے بعد فرمایا کہ :”تم خو د سید سردار اور سید و سردار کے بیٹے اور بھائی ھو ،تم خود امام او ر امام کے بےٹے اور بھائی اور تم نو حجت الٰھی کے باپ ھو جب کہ نویں کی صفت یہ ھے کہ وہ قائم ھو گا “[33]
سلمان فارسی کی اس حدیث کو شیخ صدوق(رہ) نے سندکے صحیح ھونے کا یقین رکھتے ھوئے یوں نقل کیا ھے : میرے والد نے مجھ سے رواےت کی اور فرمایا :سعد ابن عبداللہ نے مجھے خبر دی کہ یعقوب بن یزید نے حما د بن عیسیٰ سے ،عیسیٰ نے عبداللہ ابن مسکان سے انھوں نے ابان ابن تغلب سے ،ابان سے،ابان نے سلیم قیس ھلالی سے او رانھوں نے سلمان فارسی سے کہ انھوں نے کھا:جب میں حضور(ص)کی خدمت میں حاضر ھوا تو حسین بن علی (ع) کو رسول اللہ(ص) کے زانو پر بیٹھا ھوا دیکھا کی جب آپ(ص)امام حسین (ع)کی آنکھوں او رلبوں کو چومتے ھوئے فر ما رھے تھے :-----”تم سید ،امام ،حجت خدا اور سید ،امام حجت خدا کے بیٹے ھواو ر تم نو حجت خداکے باپ ھو جو تمھاری ھی نسل سے ھوں گے اور ان میں کا نوا ںقائم ھوگا“۔[34]
(۷)مرحوم کلینی نے علی ابن ابراھیم اور ان کے والد ابراھیم ابن ھاشم سے ،محمد ابن ابی عمیر سے، سعید ابن غزوان سے ،انھوں نے ابو بصیر سے اور ابو بصیر نے امام محمد باقر (ع) سے نقل کیا ھے :”حسین ابن علی (ع) کے بعد نو امام ھوں گے کہ ان میں کا نواں قائم ھوگا “[35]
اور شیخ صدوق(رہ)نے بھی اس حدیث کو اسی طرح علی ابن ابراھیم سے نقل کیا ھے جس طرح سے کافی میں بھی ذکر ھے ۔[36]اس حدیث کی سند میں رجال کا کوئی فرد نھیں ھے کہ جس سے ا سکی جلالت ،صحیح
ھونا اور اس کے نقل کر نے میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ پیدا ھو۔
(۸)قندوزی حنفی نے حموینی جوینی شافعی کی کتاب فرائد السمطین سے خود اپنی اسناد سے اصبغ ابن نباتہ اور ابن عباس سے اور انھوںنے رسول خدا(ص)سے یوںنقل کیاھے :ھم ، علی (ع)،حسن ،حسین (ع)فرزندان حسین (ع) سے نو بیٹے پاک اور معصوم ھوںگے۔[37]
[1]شرح نہج البلاغہابن ابی الحدیدج۱۸ص۳۵۱
[2]فتح الباری فی شرح البخاری عسقلانیج۶ص۳۸۵
[3]نہج البلاغہشرح شیخ محمد عبدہج۴ص۶۹۱؛شرح ابن الحدیدج۱۸ص۳۵۱
[4]مسند احمد ۳ج۵ص۹۰،۹۳،۹۷،۱۰۰،۱۰۶،۱۰۷اور شیخ صدوق نے بھی ابن مسعود سے اس حدیث کو نقل کیا ھے ر ک :اکمال الدینج۱ص۲۷۰ج۱۶۔
[5]صحیح بخاریج۴کتاب الاحکامباب الاستخلافص۱۶۶؛شیخ صدوق نے اس روایت کو جابر ابن سھرةسے اکمال الدین کے ج۱ص۲۷۲پر اوراسی طرح خصال کے ج۲ص۲۶۹و ۴۷۵پر نقل کیا ھے ۔
[6]الکافیج۱ص۱۳۶درباب”زمین حجت خدا سے خالی نہ رھےگی“ اور سند حدیث کواس طرح سے بیان کیا ھے ۔
بعض علماء شیعہ نے احمد ابن محمد ابن عیسیٰ سے ؛انھوں نے محمد ابن ابو عمیر سے ،انھوں نے حسین ابن علاء سے اور انھوں نے امام صادق(ع) سے روایت کی ھے کہ۔۔۔۔۔۔۔
[7]ان حکام یا خلفاء کی تعداد بارہ سے تجاوز نھیں کرے گی اور سب کے سب قریش سے ھوں گے اور یہ عدد تو فقط شیعوں کے عقیدے پر منطبق ھورھی ھے کہ ائمہ م(ع)صومین(ع) کی تعداد بھی بارہ اور سب کے سب قریشی ھیں کبھی ایسا بھی کھا جاتاھے کہ عنوان”حکام یا خلفاء“ائمہ طاھرین کی واقعی زندگی پر منطبق نھیں ھوتی ۔اس کا جواب توروشن ھے ،اس لئے کہ رسول خدا (ص)کے کھنے کامقصد لائق و مستحق خلافت کاھوناھے ایسا توھر گز ممکن نھیں ھے کہ حضرت کی مراد مروان،معاویہ اور یزید جیسے افراد ھوں کہ جنھوں نے امت اسلام کی شکل کو جس طرح چاھا بدل ڈالا اور خوب اپنی من مانی کی۔
[8]عون المعبودج۱۱ڈ۲۶۲شرح حدیث ۴۲۵۹۔
[9]مائدہ۲۔
[10]صحیح مسلم ج۲ص۱۱۵۴ح۱۸۲۰؛صحیح بخاریج۹ ص۷۰۱ح۱۹۹۵ (۴)ان اقوال سے کے لئے ر۔ک:السلوک لمعرفةدول الملوک مقریزیج۱ص۱۳۔۱۵ ،یا تفسیر ابن کثیر ج۲ ص ۳۴۔سورئہ مائدہ کی آیت کے ذیل میں ؛شرح العقائد الطحاوی ج۲ص۲۶۳ح۴۲۵۹؛الحاوی للفتاویٰ ج۲ص۸۵۔
[11]نیابیع المودةقندوزیج۳باب۷۷ص۱۰۵۔
[12]بحث حول المھدیشھید سید محمد باقر الصدرص۵۴۔۵۵
[13]نیابیع المودة ج۲باب۹۳ص۹۹۔
[14]گزشتہ حوالہص۲۱۲
[15]گزشتہ حوالہص۱۷۰
[16]اکمال الدین ج۱باب۲۸ص۳۱۳ج۴
[17]الکافیج۱باب۱۲۶ج۹۔
[18]سلسلہ مولفات شیخ المفیدجوابات اھل الموصل فی العدد والروئیةچاپ بیروتج۹ص۲۵
[19]کفاییة الاثرخزازص۸۔۹۔
[20]کفا یة الاثرخزازص۹۰۸
[21]جاثیہ۱۷
[22]اکمال الدین ج۲ص۳۳۵ح۶۔
[23]الکافیج۱باب۱۲۶ص۵۳۴۔۵۳۵،علامہ مجلسی نے اس کو مراة العقول کے ج۶ص۲۳۵پر حدیث مجھول میں شمار کیا ھے لیکن یہ فیصلہ غلط ھے کیونکہ اس حدیث کی سند کے افراد کا ذکر کافی میں ھوا ھے تمام لوگوں کی توثیق شیخ الطائفہ نجاشی اور تمام بعد کے رجال نے کی ھے شاید سند کے ابھام نے علامہ مجلسی کو شک میں ڈال دیا وہ محمد ابن عمران غلام امام(ع) باقر(ع) کے سلسلہ میں ھونا کہ جس کی توثیق میں کوئی نص نھیں ھے لیکن اس کے ھونے سے سند کی صحت میں کوئی ضرر نھیں ھوگا ۔اس لئے کہ سند میں ثقہ راوی بھی موجود ھیں اور اسی حدیث کو ابو بصیر نے امام باقر(ع) سے بھی روایت کی ھے پس کوئی مانع نھیں ھے اگر چہ یھی حدیث امام صادق(ع) سے بھی سنی گئی ھے ۔
[24]الکافیج۱ص۵۲۵(۳)الکافیج۱ ص۲۵۶۔
[25]خبر دینے والے کی صداقت کے باوجود ان امور کو شرط نھیں جانتے اس لئے کہ ھمارا فرض اس کے قول کا صدق ھے اور صدق کے بعد مطابقت باواقع سے زیادہ کوئی نکتہ نھیں رہتا جیسے نزول حضرت عیسیٰ اور امام مھدی(ع)کاظھوراور دجال کے فتنہ کا قضیہ ۔اگر چہ ابھی تک واقع نھیں ھوا ۔
[26]الکافیج۱باب۱۲۶ص۵۲۹ج۴؛اکمال الدینج۲باب ۲۴ص۲۷۰ح۱۵؛الخصال ج۲ص۴۷۷ح۴۱۔
[27]اکمال الدین ،ج۱،ص۱۹ مقدمہ مصنف ۔
[28]اس حدیث کو دار قطنی میں رواےت کی ھے اور ذیل کی کتب میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ھے:البیان ،کنجی ،ص۵۰۱،الفصول المھمہ،ابن صباغ ،فصل۱۲۰،ص۲۹۵،فضائل الصحابہ ،سمعانی (ج سطرح قندوزی نے ینابیع المودہ کے باب ۹۴ میں اسی سے نقل کیاھے)اسی طرح معجم احادیث الامام المھدی کے ج۱،ص۱۴۵،ج۷۷پر متعدد طریقہ سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ھے اور مزید توضیح دی کہ اگر تنھا اس کے تمام اسنادکوجمع کر دیا جائے تواس کی ایک جلد کتاب بن جائے گی ۔
[29]عقدالدرر،مقدسی ،ریاب ۴،فصل ۲،ص۱۳۲۔
[30]عقدالدرر،مقدسی ،باب ۴،فصل۲،ص۱۲۶
[31]شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید ،ج۱ ،ص۲۸۱،خطبہ ۱۶ کے ذیل میں
[32]ینابیع المودة ،قندوزی ،ج۳،باب ۹۴ ،ص ۱۶۸
[33]ینابیع المودة ،قندوزی ،ج۳،باب ۹۴ ،ص ۱۶۷
[34]الخصال ،ج۲ ،ص۴۷۵،ح۳۸ ،اکمال الدین ،ج۱،باب ۲۴،ص۲۶۱،ح۹
[35]الکافی ،ج۱،باب ۱۲۶،ص۵۴۳،ح۱۵
[36]خصال ،صدوق(رہ) ،ج۲،ص۴۸۰،ح۵۰
[37]ینابیع المودة ،قندوزی ،ج۳،باب ۹۴ ،ص ۱۶۲ و ص۸۲ ،المودة العاشرہ ”ائمہ کی تعداد کے باب میںاور یہ کہ مھدی انھیں میں سے ھوگا “
ماخوذ از : اسلام شیعہ سائٹ