کیا ائمہ اہل سنت، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ر ہے ہیں؟
کیا ائمہ اہل سنت، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ر ہے ہیں؟
بلا شک و شبھہ،خداوندعالم نےاھل بیت اطھارعلیھم السلام کو بے نظیرعلوم ومعارف عطا فرمائے ہیں جس کی بنا پر تمام لوگ ان کےعلوم کے محتاج رہے ہیں یہاں تک کہ مختلف مواقع پرمخالفین ومعاندین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ ہم علمی مسایل میںان کے محتاج ہیں۔ مثال کے طور پر،عمر بن خطاب ھمیشہ کھا کر تے تھے :
فكان عمر يقول لولا على لهلك عمر.
اگر علی { علیہ السلام } نہ ہو تے تو عمر ہلاک ہو جاتا ۔
ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاى463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3 ص 1103 ، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
حضرت عمر اس طرح بھی کہا کرتے تھے :
وفي كتاب النوادر للحميدي والطبقات لمحمد بن سعد من رواية سعيد بن المسيب قال : كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن يعني علي بن أبي طالب.
عمر ھمیشہ ہر،اس مشکل میں خدا سے پناہ مانگتے تھے کہ جس کے حل کے لئے علی ابن ابی طالب [ علیہ السلام ] موجود نہ ہوں ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 13 ص 343 ، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل، لینک ملاحظہ فرمائیں :
« لو لا علي (ع) لهلك عمر» کن کتا بوں میں ذکر ہوا ہے ؟
اب ھم،اختصار کے طورپراھل سنت کے ان ائمہ وعلماء اور بزرگ اسا تذہ کا ذکر کریں گے کہ جنھوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے سامنے زانو ئے ادب طے کیا [ اور سالھا سال، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد رہے ہیں ] :
۱. آلوسي
آلوسی،اهل سنت کے مشھور علماء میں سے ہیں وہ اپنی کتاب«مختصر تحفة الاثني عشرية»کے مقدمہ میں ، ابو حنیفہ کی زبانی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ :ابوحنیفہ نے دو سال، امام صادق علیہ السلام سےعلمی استفادہ کیا { دو سال شاگردی کی } وہ لکھتے ہیں :
وهذا أبو حنيفة - رضي الله تعالى عنه - وهو بين أهل السنة كان يفتخر ويقول بأفصح لسان: لولا السنتان لهلك النعمان، يريد السنتين اللتين صحب فيهما لأخذ العلم الإمام جعفر الصادق - رضي الله تعالى عنه -. وقد قال غير واحد أنه أخذ العلم والطريقة من هذا ومن أبيه الإمام محمد الباقر ومن عمه زيد بن علي بن الحسين - رضي الله تعالى عنهم -.
یہ ابو حنیفہ ہیں در حالیکہ اھل سنت کے درمیان،ہمیشہ [ امام صادق علیہ السلام کی شاگردی پر ] فخر کرتے تھے اورفصیح زبان میں
کہتے تھے: اگردو سال [ امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کے ] نہ ھوتے تو نعمان { یعنی میں ابو حنیفہ } ھلاک ھوجاتا - ابوحنیفہ کی دو سال سےمراد وہ دو سال ہیں کہ جس میں انھوں نےامام صادق [علیہ السلام ] سے کسب علم کیا، اور بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نے علم وطریقت، ان [یعنی امام صادق علیہ السلام ] سےاوران کے پدربزرگوار امام محمد باقر [علیہ السلام ] اوران کےعم،زید بن علی بن الحسین-علیھم السلام - سےحاصل کیا ہے ۔
الألوسي، محمود شكري، مختصر التحفة الاثني عشرية، ص 8 ، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه عبد العزيز غلام حكيم الدهلوي، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد بن محيي الدين بن عمر الأسلمي، حققه وعلق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر: المطبعة السلفية، القاهرة، الطبعة: 1373 هـ .
اور دیکھئے : القنوجي البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفاى1307هـ)، الحطة في ذكر الصحاح الستة ، ج 1 ص 264 ، ناشر : دار الكتب التعليمية - بيروت ، الطبعة : الأولى 1405هـ/ 1985م .
۲. ابن تيميه
ابن تیمیہ،اگرچہ اپنی کتاب میں ابوحنیفہ کی شاگردی کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کرتے ہیں، لیکن واضح طورپرمالک بن انس،سفیان بن عینیہ،شعبہ،ثوری،ابن جریح،یحیی بن سعید و ۔ ۔ ۔ کومنجملہ ان افراد میں شمار کرتےہیں کہ جنھوں نےامام جعفرصادق علیہ السلام سے کسب علم کیا،چنانچہ ابن تیمیہ لکہتے ہیں:
فإن جعفر بن محمد لم يجيء بعد مثله وقد أخذ العلم عنه هؤلاء الأئمة كمالك وابن عيينة وشعبة والثوري وابن جريج ويحيى بن سعيد وأمثالهم من العلماء المشاهير الأعيان.
بیشک جعفر بن محمد [ امام جعفر صادق علیہ السلام ] کے بعد ان کے مثل کو ئی نہیں آیا،اور اھل سنت کے بہت سے ائمہ و بزرگ علماء
جیسے:مالک،سفیان بن عینیہ،اورشعبہ،{ سفیان} ثوری،ابن جریج ویحیی بن سعید اوراس طرح دوسرے مشھورومعروف بزرگ علماء نے امام صادق علیہ السلام سےعلم حاصل کیا ۔
ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 126 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ
۳۔ محمد بن طلحه
یہ بھی،اھل سنت کے ان علماء کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جنھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب علم کیا، وہ لکھتےہیں :
الإمام جعفر الصادق (عليه السلام) ... هو من عظماء أهل البيت وساداتهم (عليهم السلام) ذو علوم جمة ، وعبادة موفرة ، وأوراد متواصلة ، وزهادة بينة ، وتلاوة كثيرة ، يتتبع معاني القرآن الكريم ، ويستخرج من بحره جواهره ، ويستنتج عجائبه ، ويقسم أوقاته على أنواع الطاعات ، بحيث يحاسب عليها نفسه ، رؤيته تذكر الآخرة ، واستماع كلامه يزهد في الدنيا ، والاقتداء بهديه يورث الجنة ، نور قسماته شاهد أنه من سلالة النبوة ، وطهارة أفعاله تصدع أنه من ذرية الرسالة . نقل عنه الحديث ، واستفاد منه العلم جماعة من الأئمة وأعلامهم مثل : يحيى بن سعيد الأنصاري ، وابن جريج ، ومالك بن أنس ، والثوري ، وابن عيينة ، وشعبة ، وأيوب السجستاني ، وغيرهم (رض) وعدوا أخذهم عنه منقبة شرفوا بها وفضيلة اكتسبوها.
امام جعفر صادق علیہ السلام ۔ ۔ ۔اھل بیت [علیھم السلام ] کےعظیم اوربزرگ افرادمیں سےہیں- وہ کثیرالعلم،اوردایمی عبادت گزارانسان تھے اورھمیشہ یاد خدا میں رہتے تھے ان کا زھدوتقوا سب پرآشکارتھا،قرآن کی کثرت سے تلاوت کرتے تھے،قرآن کے معانی ومفاھیم
پرمحققانہ وماھرانہ نظررکھتے تھے،اورقرآن کے معانی ومفاھیم کےسمندرسےجواھرات[ قیمتی مطالب ومفاھیم ومعانی ] کا استخراج کرتے تھے،اورقرآن سےعجایب[ نئی اور تازہ چیزیں ] کا نتیجہ نکالتےتھے،انھوں نے اپنے اوقات کواللہ کی مختلف اطاعات اورعبادات کے لئے تقسیم کررکھا تھا اس طریقہ سےان اوقات میں اپنے محاسبہ نفس میں مشغول رھتے تھے- ان کا دیدار،آخرت کی یاد دلاتا تھا، اوران کا کلام سننا،دنیا میں زھد و تقوا کا باعث بنتا تھا،ان کے نقش قدم پہ چلنا جنت کا راھنما تھا،ان کے حسین وخوبصورت چھرہ کا نوراس بات کا گواہ تھا کہ وہ انبیاء کی اولاد اوران کی نسل سے ھیں،اور ان کے اعمال وافعال کی طھارت و پاکیزگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ رسالت و نبوت کی ذریت ہیں،ائمہ وبزرگ اساتذہ جیسے:يحيى بن سعيد انصاري،ابن جريج،مالك بن انس،[سفيان]ثوري،[سفيان]ابن عيينہ، وشعبه،وايوب السجستاني اوران کےعلاوہ دوسرے افراد نے امام صادق علیہ السلام سے کسب علم کیا-اور،ان{ امام صادق ع } کی شاگردی اوران سے کسب علم کو اپنے لئے باعث فخروفضیلت سمجھتے تھے کہ جس سے وہ [ ائمہ و بزرگان اھل سنت ]آراستہ تھے ۔
الشافعي، محمد بن طلحة (متوفاي652هـ)، مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 436 ، تحقيق : ماجد ابن أحمد العطية. طبق برنامه كتابخانه اهل بيت عليهم السلام.
4. محيي الدین نووي الشافعی
اھل سنت کے عا لم د ین، نو وی الشافعی بھی علماء و بزرگان اھل سنت کی شا گردی و کسب علم کو یوں بیان کر تے ہیں :
روى عنه محمد بن إسحاق ويحيى الأنصاري ومالك والسفيانان وابن جريج وشعبة ويحيى القطان وآخرون واتفقوا على إمامته وجلالته وسيادته.
محمد بن اسحاق، و يحيى الأنصاري،مالك،دو سفيان { ثوری،و ابن عینیہ } اور ابن جريج،اور شعبه و يحيى القطان، اور دوسر ے لوگوں نے
ان { امام جعفر صادق علیہ السلا م } سے روایت کی ہیں، اور ان کی [ علمی ] جلا لت، اور امامت و رھبری پر اتفاق نظر رکھتے تھے ۔
النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاى676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 1 ص 155 ، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.
۵ ۔ خطيب تبريزي
خطيب تبريزي،اھل سنت کی عظیم اور مضبوط علمی شخصیات میں شمار ھو تے ہیں انہوں نے کہا ہے:
جعفر الصادق: هو جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب، الصادق کنيته أبو عبدالله کان من سادات أهل البيت روي عن أبيه وغيره سمع منه الأئمة الأعلام نحو يحيي بن سعيد وابن جريج ومالک بن أنس والثوري وابن عيينة وأبو حنيفة.
{ امام }جعفر الصادق { علیہ السلام }:ان کا نام جعفربن محمدبن علي بن الحسين بن علي بن اأبي طالب[ علیھم السلام ]،کنیت ابوعبداللہ اور لقب صادق تھا وہ اھل بیت{ علیھم السلام } کے عظیم اور بزرگ افراد میں سے تھے انھوں نے اپنے پدر بزرگوار اور دوسروں سے روایتیں کی
ہیں،اوراہل سنت کے ائمہ اوربزرگ اساتذہ جیسے: يحيي بن سعيد،ابن جريج،مالک بن انس،سفيان ثوري،سفيان بن عيينه اورابو حنيفه نےان [ امام صادق علیہ السلام ] سے روایت سنی ہیں ۔
الخطيب التبريزي، محمد بن عبد الله، (متوفاي: 741 هـ)، الأکمال في أسماء الرجال، ص 19 ، بي جا، بي تا.
6 . ابو المحاسن ظاهري
یہ اہل سنت کے حنفی علماء میں آتے ہیں انھوں نے اہل سنت کے بعض ان ائمہ وعلماء کے نام ذکر کئے ہیں کہ جوامام صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرتے تھے، وہ اس بارے میں تحریر کرتے ہیں :
[ما وقع من الحوادث سنة 148] وفيها توفي جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبى طالب رضي الله عنهم، الإمام السيد أبو عبد الله الهاشمي العلوي الحسيني المدني ... وكان يلقب بالصابر، والفاضل، والطاهر، وأشهر ألقابه الصادق ... وحدث عنه أبو حنيفة وابن جريج وشعبة والسفيانان ومالك وغيرهم. وعن أبي حنيفة قال: ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد.
[ بیان میں اس کے ۔ ۔ ۔ کہ جو واقعات سن 148 ھجری قمری میں رونما ھوئے ] : اس سال { امام } جعفر صادق { علیہ السلام } ابن
محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب [ علیھم السلام ] نے وفات پائی وہ، امام و آقا تھے ابا عبداللہ ان کی کنیت تھی، اور وہ ھاشمی، علوی، حسینی اور مدنی تھے ۔ ان کو صا بر، فاضل اور طاھر جیسے القاب سے پکارا جاتا تھا اور ان کا سب سےمشھورلقب صادق تھا ۔ ۔ ۔ ابوحنيفه، ابن جريج، اور شعبه او ر سفيان بن عيينه و سفيان و ثوري اور مالک ۔ ۔ ۔ اور دوسر ے افراد نے ان سے روایتیں نقل کی ھیں ۔ اورابو حنیفہ سے نقل ھے کہ وہ کھتے تھے : میں نے جعفر بن محمد[ امام صادق علیہ السلام ] سے بڑا فقیہ نھیں دیکھا ۔الأتابكي، جمال الدين أبي المحاسن يوسف بن تغري بردى (متوفاى874هـ)، النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، ج 2 ص 68 ، ناشر: وزارة الثقافة والإرشاد القومي – مصر.
7 . ابن صباغ مالکي
علي بن احمد مكي، ابن صباغ کے نام سے مشھور اھل سنت کے مالکی علماء میں سے ھیں وہ بھی اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
كان جعفر الصادق ابن محمّد بن عليّ بن الحسين عليهم السلام ... وروى عنه جماعة من أعيان الاُمّة وأعلامهم مثل : يحيى بن سعيد وابن جريج ومالك بن أنس والثوري وابن عيينة وأبو حنيفة وشعبة وأبو أيّوب السجستاني وغيرهم.
یعنی : جعفر الصادق ابن محمد بن علي بن الحسين عليهم السلام ... ان سے امت کے بزرگ علماء اور اساتذہ کی جماعت جیسے : يحيى
بن سعيد، وابن جريج، مالك بن أنس، والثوري وابن عيينة اور أبو حنيفة وشعبة اور أبو أيّوب السجستاني اور دوسر ے لوگوں نے روایتیں نقل کی ہیں ۔
المالكي المکي، علي بن محمد بن أحمد المعروف بابن الصباغ (متوفاي885هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج 2 ص 907-908 ، تحقيق: سامي الغريري، ناشر: دار الحديث للطباعة والنشر مركز الطباعة والنشر في دار الحديث – قم، الطبعة الأولى: 1422 – 1379 ش.
8 . ابن حجر هيثمي
یہ بھی اہل سنت کے بزرگ علماء، من جملہ ابو حنیفہ کی شاگردی کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں :
جعفر ... وروى عنه الأئمة الأكابر كيحيى بن سعيد وابن جريج والسفيانين وأبي حنيفة وشعبة وأيوب السختياني.
جعفر [ صادق علیہ السلام ] ۔ ۔ ۔ ان سے، بزرگ ائمہ جیسے : یحيي بن سعيد، ابن جريج، دو سفيان [سفيان ثوري او ر سفيان
بن عيينه ] ، ابو حنيفه اور شعبه، اور ابو ايوب سختياني نے روایتیں نقل کی ہیں۔
الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 586 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
9 . شبراوي
عبدالله بن محمد شبراوي، اہل سنت کے شافعی مذھب کے بزرگ علماء میں سے ھیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام ذکر کرنے کے بعد، امام علیہ السلام کے شاگردوں میں من جملہ مالک بن انس اور ابو حنیفہ کو شمار کر تے ہیں وہ کھتے ہیں :
السادس من الائمة جعفر الصادق ذو المناقب الکثيرة و الفضائل الشهيرة روي عنه الحديث کثيرون مثل مالک بن انس و أبو حنيفه و يحيي بن سعيد و ابن جريج و الثوري.
[امام ] جعفر صادق [عليهالسلام] ، ائمہ میں چھٹے [امام ] ھیں وہ کثیر مناقب اور مشھور فضایل کے مالک تھے ان سے بہت سے بزرگ محدثین [ یعنی نقل حدیث کرنے والے افراد ] جیسے : مالک بن انس، ابوحنيفه،يحيي بن سعيد اور ابن جريج اور ثوري نے روایتیں نقل کی ہیں۔
الشبراوي الشافعي، عبد الله بن محمد بن عامر، الإتحاف بحب الأشراف، 54 ، دار النشر: مصطفي البابي الحلبي وأخويه – مصر، بي تا.
10 . شبلنجي شافعي
مومن بن حسن شبلنجي، اھل سنت کے بزرگوں میں سے ھیں وہ اپنی کتاب نور الابصار میں لکھتے ہیں :
. روي عنه جماعة من أعيان الأئمة وأعلامهم کيحيي بن سعيد ومالک بن أنس والثوري وابن عيينة وأبي حنيفة وأيوب السختياني وغيرهم.
امت کے بزرگ ائمہ اوراساتذہ کی جماعت جیسے : يحيي بن سعيد، مالک بن انس، اور ثوري ، ابن عيينه اور ابو حنيفه اور ابو ايوب سختياني
اور ان کےعلاوہ دوسر ے افراد نے ان [ امام جعفر بن محمد الصادق علیھما السلام ] سے روایتیں نقل کی ہیں۔
شبلنجي الشافعي، حسن بن مومن، نور الابصار في مناقب آل بيت النبي المختار، ص 297 ، قدم له: دکتور عبدالعزيز سالمان، المکتبة التوفيقية، بي تا.
۱۱. زركلي
نیز خير الدين زرکلي،{ بزرگ عالم اھل سنت } لکھتے ہیں :
جعفر بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين السبط، الهاشمي القرشي، أبو عبد الله، الملقب بالصادق: سادس الأئمة الاثني عشر عند الإمامية. كان من أجلاء التابعين. وله منزلة رفيعة في العلم. أخذ عنه جماعة، منهم الإمامان أبو حنيفة ومالك. ولقب بالصادق لأنه لم يعرف عنه الكذب قط. له أخبار مع الخلفاء من بني العباس وكان جريئا عليهم صداعا بالحق.
جعفر بن محمد باقر بن علي زين العابدين بن حسين [ علیھم السلام ] رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم کے نواسہ، اور ھاشمی و قرشی تھے ان کی کنیت ابا عبد اللہ تھی اور لقب صادق تھا وہ شیعو ں کے { بارہ اماموں میں } چھٹے امام ہیں ان کا شمار، بزرگ تابعین میں ھوتا ہے ۔
اور وہ علم و دانش کے بلند مرتبہ کے مالک ہیں، { علماء و اساتذہ کی } ایک بڑی جماعت نے ان سے علم حاصل کیا ان میں منجملہ اہل سنت کے دو امام : امام ابو حنیفہ اور امام مالک ہیں۔ اور ان کا لقب، صادق اس لئے ھے کہ ھرگز کسی نے کبھی ان سے جھوٹ نھیں سنا اور انسے متعلق خبروں میں آیا ہے کہ وہ کلمہ حق کی سربلندی کے لئے مستقل خلفاء بنی عباس سے برسرپیکار تھے۔
الزركلي، خير الدين (متوفاي1410هـ)، الأعلام، ج 2 ص 126 ، ناشر: دار العلم للملايين - بيروت – لبنان، چاپ: الخامسة، سال چاپ : أيار - مايو 1980 طبق برنامه مكتبه اهل البيت عليهم السلام.
۱۲. علي بن محمد دخيل الله
وھابی مسلک کے معاصر محقق اور صاحب قلم ڈاکٹر علي بن محمد دخيل الله، کتاب الصواعق المرسلة کی تحقیق میں حاشیہ پر لکھتے ہیں:
هو جعفر بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين السبط الهاشمي القرشي الملقب بالصادق. ولد سنة 80 بالمدينة وهو سادس الائمة الاثني عشرية عند الامامية، من اجلاء التابعين، أخذ عنه جماعة منهم الإمامان مالک وأبو حنيفة. وتوفي في المدينة سنة 148.
وہ جعفر بن محمد باقر بن علي زين العابدين بن حسين {علیھم السلام } رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے ہیں ان کا تعلق قبیلہ بنی ھاشم کے قریش خاندان سے ہے ان کا لقب صادق تھا، وہ سن ۸۰ ھجری قمری میں مدینہ میں پیدا ہو ئے ، اور شیعوں کے [ بارہ اماموں
میں سے ] چھٹے امام ہیں، وہ تابعین کے بزرگوں میں سے ہیں اور{ علماء و بزرگان کی } ایک جماعت : من جملہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے ان سے کسب علم کیا ہے [ اوران کے شاگرد رہے ہیں ]، انھوں نے سن 148ھجری قمری میں وفات { شھادت } پائی۔
ابن قيم الجوزية، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين (متوفاى: 751هـ)، الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة، ج 1 ص 616 ، المحقق: علي بن محمد دخيل الله، دار النشر: دار العاصمة، الرياض – المملکة العربية السعودية، بي تا.
۱۳. عبدالرحمن شرقاوي
شرقاوي، مصر کے مشھور صاحبان قلم میں سے ھیں وہ اپنی کتاب ائمة الفقه التسعة میں، امام صادق سلام اللہ علیہ سے مخصوص
باب میں امام صادق علیہ السلام سے ابوحنیفہ کے سخت سوالات اورامام علیہ السلام کے ایک ایک سوال کا مدلل جواب دینے کے واقعہ کو نقل کے بعد لکھتے ہیں :
وصحبه أبو حنيفة النعمان بعد ذلک مدة سنتين يتلقي عنه العلم.
ابو حنيفه نعمان، اس واقعہ { امام سے علمی شکست } کے بعد دو سال تک امام صادق علیہ السلام کے ملازم و ھمراہ رہے تاکہ امام سے کسب علم کریں۔[ یعنی دوسال امام صادق علیہ السلام کی شاگردی میں رہے] ۔
الشرقاوي، عبدالرحمن، ائمة الفقه التسعة، ص 49 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
شرقاوی اسی باب کے آخر میں لکھتے ہیں :
توفي الامام جعفر الصادق الذي درس عليه الامام مالک وروي عنه أبو حنيفة النعمان وتعلم منه وصحبه سنتين کاملتين قال عنهما أبو حنيفة النعمان: لولا السنتان لهلک النعمان.
امام جعفر صادق [علیہ السلام ] دنیا سے گئے در حالیکہ ان سے، مالک نے درس پڑھا تھا اور ابو حنیفہ نے روایتیں نقل کی تھیں اور علم سیکھا
تھا-اور پور ے دو سال تک امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں کسب علم کیا تھا اورابو حنيفه ان دو سال کی قدر و اھمیت کے بار ے میں
کھتے تھے : اگر وہ دو سال نہ ھوتے تو نعمان { یعنی ابو حنیفہ} ہلاک ھوجاتا۔[ ابوحنیفہ کا اصلی نام نعمان تھا اور ابو حنيفه، کنیت مشھو ر تھی]
الشرقاوي، عبدالرحمن، ائمة الفقه التسعة، ص 51 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
وہ دوسری جگہ پر، اس بات کی وضاحت کرتے ھیں کہ امام صادق علیہ السلام، ابو حنیفہ کے استاد تھے وہ لکھتے ہیں :
وکان يقاوم کما قاوم أستاذه وصديقه الإمام جعفر الصادق من قبل البدعة تزيين التقشف والانصراف عن هموم الحياة وترک الأمر کله لطبقة بعينها تملک وتستغل وتحکم وتستبد.
ابوحنيفه، اپنے استاد اور دوست امام صادق [ علیہ السلام ] کی طر ح : خشک مقدسی و سادگی{ ضرورت سے زیادہ سادگی } کو اچھے عمل کے طور پیش کرنا [ اہنے اوپر سخت لینا در حالیکہ دین، سھو لت و آسانی پیدا کرنے کے آیا ہے نہ کہ سختی پیدا کرنے کے لئے ] اورمکمل طور پرترک دنیا کرنا { در حالیکہ دین، ایسا کوئی حکم نھیں دیتا } جیسی بدعتی چیزوں کا مقابلہ کر تے تھے، اور انھوں [ ابوحنیفہ ] نےاس قسم کے افراد کے تمام عادات واطوار اورصفات کو ترک کر دیا تھا کہ جن کے ذریٰعہ سے یہ لوگ غلط فایدہ، ہٹ دھرمی واستبداد اورتحکم { زور و زبر دستی سے اپنی بات منوانا کی کوشش کرنا } جیسے، خلاف کام انجام دیتے تھے ۔
الشرقاوي، عبدالرحمن، ائمة الفقه التسعة، ص 60 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
شرقاوی، { امام } مالک سے متعلق اس طرح لکھتے ہیں :
أفاد الإمام مالک من صحبة الإمام جعفر وأخذ عنه کثيرا من طرق استنباط الحکم ووجوه الرأي وأخذ عنه البعض الاحکام في المعاملات وأخذ الاعتماد علي شاهد دون شاهدين إذا حلف المدعي اليمين وکما أخذ الإمام الصادق جعفر بن محمد اخذ من أبيه الإمام محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب.
امام مالک نے ، امام جعفر [ صادق علیہ السلام ] کی ھمراھی و مصاحبت سے { علمی } فایدہ اٹھایا، چنانچہ احکام کے استنباط و استخراج کی بھت سی روشیں اور طریقے، اور احکام کے نتایج کے علم کو، ان [ امام جعفر صادق علیہ السلام ] سے سیکھا، اسی طرح بعض معاملاتی احکام { یعنی خرید وفروخت اور بازارکے احکام } ،اورایک گواہ پراعتبارکرنا اس صورت میں کی جب دو گواہ نہ ھوں - اورجس وقت، مدعی قسم کھا لے - و ۔ ۔ ۔ کے علم کو ان [ امام صادق علیہ السلام ] سے سیکھا جس طرح خود، امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار امام محمد باقر بن علي زين العابدين بن علي بن حسن بن علي بن أبي طالب [سلام الله عليهم اجمعين] سے سیکھا تھا۔
الشرقاوي، عبدالرحمن، ائمة الفقه التسعة، ص 87 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
اسی طرح شرقاوی، امام باقر اور امام صادق علیھما السلام کے حلقہ درس میں { امام } مالک کی حاضری و شاگردی، اوراھل بیت [ علیھم السلام ] سے مالک کی فکری و اعتقادی مخالفت کے بارے میں لکھتے ہیں :
لزم مالک مجلس الامام محمد الباقر وابنه الامام جعفر وتعلم منهما علي الرغم من ان الرأيه في الإمام علي بن أبي طالب کرم الله وجهه لا يرضي آل البيت وشيعتهم فقد فضل عليه أبابکر الصديق وعمر بن الخطاب وعثمان بن عفان رضي الله عنهم وجعل الامام عليا کرم الله وجهه ورضي الله عنه کسائر الصحابة.
امام محمد باقراوران کے فرزند امام جعفرصادق [ علیھما السلام ] کے حلقہ درس میں، مالک حاضر ھو تے تھے اوران دونوں سے کسب علم کرتے تھے در حالیکہ، مالک کا نظریہ امام علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ [ علیہ السلام ] کے بار ے، اھل بیت [ علیھم السلام ] اور ان کے شیعوں کے نظریہ کے مخالف تھا کیو نکہ امام مالک، ابابکر و عمر و عثمان کو [ امام ] علی علیہ السلام پر فضیلت و برتری دیتے تھے اور امام علی کرم اللہ وجھہ و رضی اللہ عنہ [ علیہ السلام ] کو دوسر ے اصحاب کی طرح سمجھتے تھے۔
الشرقاوي، عبدالرحمن، ائمة الفقه التسعة، ص 87 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
شرقاوی کے اس بیان سے اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ھے کہ امیر المو منین علی علیہ السلام کی تمام اصحاب پر فضیلت و برتری کا نظریہ، خود اھل بیت علیھم السلام اور ان کے شیعوں کے زما نے سے چلا آرھا ھے نہ کہ بعد میں پیدا ہوا ہے۔
14. عبد الحليم الجندي
عبد الحليم الجندي، اھل سنت کے معاصر محقق اور استاد، یوں لکھتے ہیں :
فلقد تتلمذ أبو حنيفة ومالک للإمام الصادق، وتأثر کثيرا به ،سواء في الفقه أو في الطريقة. ومالک شيخ الشافعي والشافعي يدلى إلى أبناء النبي بأسباب من العلم والدم. وقد تتلمذ له أحمد بن حنبل سنوات عشرة. فهؤلاء أئمة أهل السنة الأربعة، تلاميذ مباشرون أو غير مباشرين للإمام الصادق.
ابوحنيفه اور مالک، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد تھے اور { یہ ابو حنیفہ و مالک }چا ھے وہ علم فقہ ھو یا علم طریقت، دونوں میں امام صادق علیہ السلام سے بھت زیادہ متاثر تھے [ کیونکہ امام صادق ع کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ورثہ میں علم ملا تھا ] اور مالک
،شافعی کے استاد تھے اورشافعی لوگوں کو فرزندان پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [ یعنی امام باقر و امام صادق علیھما السلام ] کی طرف ھدایت کرتے تھے تاکہ ان سے خاندانی رابطہ رکھیں اور ان سے علم سیکھیں۔ اور احمد بن حنبل نے دس سال تک امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کی { اور ان سے علم سیکھا } یہ اہل سنت کے چار امام ہیں کہ جو بلا واسطہ یا با لواسطہ، امام صادق علیہ السلام کےشاگرد تھے۔
الجندي، عبد الحليم، الإمام جعفر الصادق، ص3 ، دار المعارف، مصر – قاهره.
۱۵.محمد أبو زهره
محمد ابو زهره، اہل سنت کے معاصر علماء اور اھل قلم میں آتے ہیں وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
فأئمة السنة الذين عاصروه تلقوا عنه وأخذوا، أخذ عنه المالک رضي الله عنه، وأخذ عنه طبقة مالک، کسفيان بن عيينة وسفيان الثوري، وغيرهم کثير وأخذ عنه أبو حنيفة مع تقاربهما في السن، واعتبره أعلم أهل الناس، لأنه أعلم الناس باختلاف الناس، وقد تلقي عليه رواية الحديث طائفة کبيرة من التابعين، منهم يحيي بن سعيد الانصاري وأيوب السختياني وابان بن تغلب وأبو عمرو بن العلاء وغيرهم من أئمة التابعين في الفقه والحديث.
اہل سنت کے ائمہ { مالک و ابو حنیفہ وغیرہ} کہ جو امام صادق علیہ السلام کے ھمعصر تھے وہ امام صادق کا استقبال کرتے تھے اور ان سے علم سیکھتے تھے۔ {امام } مالک اور ان کے طبقہ کے افراد [ زما نے کے لحاظ سے ھم عصر] جیسے : سفيان بن عيينه اور سفيان ثوري اور ان جیسے بھت سے لوگوں نے امام صادق سے کسب علم کیا۔ اور ابو حنيفه نے امام صادق سے علم سیکھا جبکہ ابو حنیفہ، امام صادق علیہ السلام کے ہم سن و سال تھے { پھر بھی ابو حنیفہ نے علم سیکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی } اور وہ امام صادق کو لوگوں میں سب سے بڑا عالم جانتے تھے کیونکہامام صادق دوسروں کے اختلاف کے ساتہ ، لوگوں میں سب سے بڑے عالم تھے اور تابعین کی ایک بھت بڑی جماعت نے ان سے فقہ اورحدیث کے موضوع پرروایتیں نقل کی ہیں ان میں : يحيي بن سعيد انصاري، ايوب سختياني، ابان بن تغلب اور ابو عمرو بن علاء اور دوسر ے بھت سے بزرگ تابعین قابل ذکر ہیں۔
ابوزهرة، محمد، الامام الصادق حياته وعصره – آرائه وفقهه، ص 66، بي تا، بيجا.
ابو زھرہ، ایک دوسری جگہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ مالک ، امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگرد تھے وہ لکھتے ہیں :
وإنه من المتفق عليه أخذ أن المالک رضي الله عنه کان يختلف إليه، ويأخذ عنه.
اہل سنت، اس بات پر متفق ھیں کہ مالک، امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آتے جاتے تھے اور ان سے علم سیکھتے تھے۔ { یعنی مالک ، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد تھے }۔
ابوزهرة، محمد، الامام الصادق حياته وعصره – آرائه وفقهه، ص 89 ، بي تا، بي جا.
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اھل سنت کے ائمہ اور بزرگ علماء و اساتذہ، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد رھے ھیں اگرچہ یہ لوگ فقھی اوراعتقادی مسایل میں { امام صادق کے شاگرد ھو نے کے با وجود } ان کے نظریات کو مکمل طور پر قبول نھیں رکھتے تھے [یعنی امام صادق ع کے اقوال و نظریات کی پیر و کار نھیں تھے ] لیکن اس کے باوجود ان کے علمی دسترخوان کے خوشہ چین تھے۔
اب ھمارا مھم سوال یہ ھے کہ کیوں اہل سنت بجائے اس کے کہ امام صادق اور اھل بیت پیامبر صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین کی اطاعت کرتےاورشیعوں کی طرح ان کے نقش قدم پر چلتے ان کو چھوڑکر،ان کے شاگردوں جیسے : مالک ، ابو حنیفہ، شافعی وغیرہ کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں ؟ { کیوں ان سب کے استاد امام صادق علیہ السلام کی اطاعت نہیں کرتے ؟ }
نتيجه:
ان ساری بحثوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہلسنت کے بہت سے علما ء واساتذہ یہاں تک کے ان کے چار امام : ابوحنيفه، مالك بن انس،محمد بن
ادريس شافعي، احمد بن حنبل، بلا واسطہ یابالواسطہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگرد تھے - لھذا فطری طور پر مناسب یہ تھا کہ امام
صادق علیہ السلام کی شاگردی کے تقاضے کے تحت، زرارہ، محمد بن مسلم وغیرہ جیسے شاگردوں کی طرح علم فقہ اور اعتقادی مسائل میں اپنے استاد کی مکمل طور پر اطاعت و پیروی کرتے ۔ ۔ ۔ لیکن یہ وہ کوتاہی ہےکہ جو، ان سے سر زد انجام پائی ھے ۔ جیسا کہ اھل سنت کی بھت سی معتبر کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض اصحاب نے نہ فقط یہ کہ آنحضرت کی مکمل طور پر اطاعت نہیں کی اوران کے نقش قدم پرنہیں چلے بلکہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرہذیان کا الزام بھی لگایا - یقینی طور پر ان جیسے افعال [ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ اور امام صادق کی اطاعت نہ کرنا وغیرہ ] سے رسول خدا اور امام صادق علیھما السلام کا کوئ نقصان نھیں ہوا اور نہ ہوگا بلکہ وہ لوگ نقصان میں رہیں گے کہ جنھوں نے ان کی اطاعت نہیں کی ۔ لہذا اہل سنت حضرات کے حق میں مناسب یہ ہےکہ تمام دینی مسائل میں، ان کے شاگردوں اوران کے درکے خوشہ چیں افراد [ اہل سنت کےائمہ اوربزرگ علماء واساتذہ جیسے: ابو حنیفہ، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ ] کی اطاعت کے بجائےعلم ودانش وفضل کے بحربے کراں امام جعفر صادق اوراھل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کریں اورانہیں کے پیروکار، بن کے رہیں۔