امام صادق (ع) کی نگاہ میں مقام امامت
کتاب اصول کافی کی روشنی میں امام صادق (ع) کی نگاہ میں مقام امامت:
ابو عبد الله حضرت امام جعفر ابن محمد الصادق عليہ السلام کی علمی شخصیت کی تاثیر آج بھی مختلف علوم میں اتنی واضح ہے کہ حتی مخالفین نے بھی اسکا اعتراف کیا ہے۔
وہ فرصت زمانی کہ جو امام صادق (ع) کے دور امامت میں ایجاد ہوئی کہ جس میں حکومت بنی امیہ زائل اور حکومت بنی عباس قائم ہو رہی تھی، اس فرصت میں علمی محافل اور علمی ماحول مدینہ کی پاک سرزمین پر قائم ہو چکا تھا۔ اس فرصت میں امام صادق (ع) نے ان علمی محافل میں خالص معارف اہل بیت کو منتشر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ امام صادق (ع) کی علمی محافل میں ہر عقیدے، تفکر، رنگ، نسل اور زبان کے افراد دور دراز کے شہروں سے حاضر ہوا کرتے تھے، جیسے محمد ابن مسلم ، زرارة ابن اعین اور ہشام ابن حکم وغیرہ، ان علمی محافل میں بعض افراد ایسے حاضر ہوتے تھے کہ جو حتی راہ اہل بیت سے دور تھے اور جنکا رابطہ و تعلق اہل بیت سے اچھا نہ تھا جیسے ابو حنيفہ اور مالک ابن انس وغیرہ۔
امام صادق (ع) کی نگاہ میں مقام امامت ایسی اہم بحث ہے کہ جو قابل ذکر اور قابل توجہ ہے۔ اس موضوع کے بارے میں مختلف کتب میں متعدد روایات کا ذکر ہونا، اہل بیت کے نزدیک اس موضوع کی اہمیت پر واضح دلیل ہے۔ اس تحریر میں مختصر طور پر اس اہم موضوع کے بارے میں مطالب کو ذکر کیا جا رہا ہے:
1.ضرورت امامت:
ایک نورانی روایت میں امام صادق سلام الله عليہ نے ہر زمانے میں امام کی ضرورت کے بارے میں فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَجَلُّ وَ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ يَتْرُكَ الْأَرْضَ بِغَيْرِ إِمَامٍ عَادِلٍ.
ابو بصیر نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا: خداوند اس سے بالا تر اور بزرگ تر ہے کہ زمین کو عادل امام کے بغیر چھوڑ دے۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج1، ص178، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
قابل توجہ نکتہ کہ جو اس روایت میں نصب امام کے علاوہ ہے، وہ امام میں صفت عدالت کا ہونا ہے یہ عادل خداوند اپنے بندوں کے لیے عادل امام انتخاب کرتا ہے نہ کہ ہر امام۔ پس اہل سنت کا عقیدہ، کہ ہر فاسق، فاجر، ظالم، زانی، شرابی اور حرامزادے امام کی پیروی و اتباع لازم و ضروری ہے، امام صادق (ع) کے کلام کے مطابق باطل ہو جاتا ہے اور اسی طرح علیم و حکیم خداوند کی طرف سے ظالم اور غیر عادل امام کا نصب ہونا بھی باطل ہو جاتا ہے، کیونکہ لوگوں پر عادل امام کی پیروی اور اتباع کرنا لازم و واجب ہوتا ہے نہ کہ ظالم و غیر عادل امام کی پیروی و اتباع۔
2.ائمہ، جانشين خداوند ہوتے ہیں:
امام صادق (ع) نے اپنے کلام میں آئمہ اہل بیت کو زمین پر خداوند کے جانشینان بیان فرمایا ہے، کیونکہ امام لوگوں کا پیشوا اور راہنما ہوتا ہے، اس لیے خداوند کا جانشین ہوتا ہے۔
ایک روایت میں ابو بصير نے امام صادق (ع) سے ایسے نقل کیا ہے:
عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام الْأَوْصِيَاءُ هُمْ أَبْوَابُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ الَّتِي يُؤْتَى مِنْهَا وَ لَوْلَاهُمْ مَا عُرِفَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ بِهِمُ احْتَجَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى عَلَى خَلْقِهِ.
ابو بصير نے امام صادق (ع) سے ایسے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا: اوصیاء (جانشینان) خداوند کے ایسے دروازے ہیں کہ جن سے عطا کیا جاتا ہے اور اگر وہ نہ ہوتے تو کسی کو خدا کی معرفت نہ ہوتی، خداوند نے انکے ذریعے سے لوگوں پر اپنی حجت تمام کی ہے۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج1، ص193، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
آئمہ کا رسول خدا (ص) کا جانشین ہونے کے علاوہ، خداوند کی معرفت بھی انکے وجود پر موقوف ہے کیونکہ وہ انوار مقدسہ کامل ترین اور افضل ترین خلق خداوند ہیں۔ آئمہ، خداوند کی صفات مقدسہ کے اعلی ترین اور کامل ترین مظہر ہیں۔
3. آئمہ امانت الہی ہیں:
ایک روایت میں امام صادق (ع) نے امام کی متعدد صفات کو ذکر کیا ہے کہ جو اس موضوع کی اہمیت و عظمت پر واضح دلیل ہے:
عَنْ خَيْثَمَةَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَا خَيْثَمَةُ نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ بَيْتُ الرَّحْمَةِ وَ مَفَاتِيحُ الْحِكْمَةِ وَ مَعْدِنُ الْعِلْمِ وَ مَوْضِعُ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ مَوْضِعُ سِرِّ اللَّهِ وَ نَحْنُ وَدِيعَةُ اللَّهِ فِي عِبَادِهِ وَ نَحْنُ حَرَمُ اللَّهِ الْأَكْبَرُ وَ نَحْنُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَ نَحْنُ عَهْدُ اللَّهِ فَمَنْ وَفَى بِعَهْدِنَا فَقَدْ وَفَى بِعَهْدِ اللَّهِ وَ مَنْ خَفَرَهَا فَقَدْ خَفَرَ ذِمَّةَ اللَّهِ وَ عَهْدَهُ.
خیثمہ نے بیان کیا ہے کہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا: اے خیثمہ ہم نبوت کے درخت، رحمت کا گھر، حکمت کی چابیاں، مرکز علم، محل رسالت، ملائکہ کے آنے جانے کا مقام اور خداوند کے اسرار کی جگہ ہیں، ہم بندوں کے درمیان خداوند کی امانت اور حرم خداوند ہیں، ہم خداوند کی امان اور اسکا وعدہ ہیں، جو ہمارے ساتھ وعدے کی وفا کرے گا، اس نے خداوند کے ساتھ وفا کی ہے اور جو ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کرے گا اس نے خداوند کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج1، ص221، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
4.ولی امر خداوند متعال:
ایک روایت میں امام صادق (ع) نے عبد الرحمن ابن کثير سے خطاب کرتے ہوئے تصريح فرمائی ہے کہ ہم اہل بیت خداوند کی طرف سے ولی امر اور اسکے علم کے خزانے اور مقام وحی ہیں:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ نَحْنُ وُلَاةُ أَمْرِ اللَّهِ وَ خَزَنَةُ عِلْمِ اللَّهِ وَ عَيْبَةُ وَحْيِ اللَّهِ.
ہم خداوند کے ولی امر اور علم خداوند کے خزینے دار اور وحی نازل ہونے کا محل و مقام ہیں۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج1، ص192، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
اسی روايت کو مرحوم خزاز قمی تھوڑے فرق کے ساتھ ایسے نقل کیا ہے:
نَحْنُ وُلَاةُ أَمْرِ اللَّهِ وَ خَزَنَةُ عِلْمِ اللَّهِ وَ عَيْبَةُ وَحْيِ اللَّهِ وَ أَهْلُ دِينِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ وَ بِنَا عُبِدَ اللَّهُ وَ لَوْلَانَا مَا عُرِفَ اللَّهُ وَ نَحْنُ وَرَثَةُ نَبِيِّ اللَّهِ وَ عِتْرَتُهُ.
ہم خداوند کے ولی امر اور علم خداوند کے خزینے دار اور اسکی وحی نازل ہونے کا محل و مقام اور خداوند کے دین کے اہل ہیں، کتاب خدا ہم پر نازل ہوئی ہے، ہمارے ذریعے سے خدا کی عبادت کی گئی، اگر ہم نہ ہوتے، خدا کی پہچان نہیں ہونی تھی، ہم رسول خدا کے وارث اور اسکی عترت ہیں۔
الصفار، محمد بن الحسن بن فروخ (المتوفي290ق) بصائر الدرجات، ص81، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الحاج ميرزا حسن كوچه باغي، ناشر: منشورات الأعلمي – طهران، سال چاپ : 1404ق - 1362 ش.
5.اطاعت اور شناخت امام:
امام صادق (ع) نے ایک طولانی روايت میں اہل بیت کی اطاعت اور شناخت (معرفت) کے لازم و ضروری ہونے کو ایسے بیان فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: إِنَّكُمْ لَا تَكُونُونَ صَالِحِينَ حَتَّى تَعْرِفُوا وَ لَا تَعْرِفُونَ حَتَّى تُصَدِّقُوا وَ لَا تُصَدِّقُونَ حَتَّى تُسَلِّمُوا أَبْوَاباً أَرْبَعَةً لَا يَصْلُحُ أَوَّلُهَا إِلَّا بِآخِرِهَا ضَلَّ أَصْحَابُ الثَّلَاثَةِ وَ تَاهُوا تَيْهاً بَعِيداً إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ إِلَّا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ لَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ إِلَّا بِالْوَفَاءِ بِالشُّرُوطِ وَ الْعُهُودِ وَ مَنْ وَفَى اللَّهَ بِشُرُوطِهِ وَ اسْتَكْمَلَ مَا وَصَفَ فِي عَهْدِهِ نَالَ مَا عِنْدَهُ وَ اسْتَكْمَلَ وَعْدَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَخْبَرَ الْعِبَادَ بِطَرِيقِ الْهُدَى وَ شَرَعَ لَهُمْ فِيهَا الْمَنَارَ وَ أَخْبَرَهُمْ كَيْفَ يَسْلُكُونَ فَقَالَ وَ إِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى وَ قَالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ فَمَنِ اتَّقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِيمَا أَمَرَهُ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مُؤْمِناً بِمَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ صلي الله عليه و آله هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ فَاتَ قَوْمٌ وَ مَاتُوا قَبْلَ أَنْ يَهْتَدُوا وَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ آمَنُوا وَ أَشْرَكُوا مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّهُ مَنْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها اهْتَدَى وَ مَنْ أَخَذَ فِي غَيْرِهَا سَلَكَ طَرِيقَ الرَّدَى وَصَلَ اللَّهُ طَاعَةَ وَلِيِّ أَمْرِهِ بِطَاعَةِ رَسُولِهِ صلي الله عليه و آله وَ طَاعَةَ رَسُولِهِ بِطَاعَتِهِ فَمَنْ تَرَكَ طَاعَةَ وُلَاةِ الْأَمْرِ لَمْ يُطِعِ اللَّهَ وَ لَا رَسُولَهُ وَ هُوَ الْإِقْرَارُ بِمَا نَزَلَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ- خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَ الْتَمِسُوا الْبُيُوتَ الَّتِي أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ فَإِنَّهُ قَدْ خَبَّرَكُمْ أَنَّهُمْ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إِيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ إِنَّ اللَّهَ قَدِ اسْتَخْلَصَ الرُّسُلَ لِأَمْرِهِ ثُمَّ اسْتَخْلَصَهُمْ مُصَدِّقِينَ لِذَلِكَ فِي نُذُرِهِ فَقَالَ وَ إِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ تَاهَ مَنْ جَهِلَ وَ اهْتَدَى مَنْ أَبْصَرَ وَ عَقَلَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ وَ كَيْفَ يَهْتَدِي مَنْ لَمْ يُبْصِرْ وَ كَيْفَ يُبْصِرُ مَنْ لَمْ يُنْذَرْ اتَّبِعُوا رَسُولَ اللَّهِ ص وَ أَقِرُّوا بِمَا نَزَلَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ اتَّبِعُوا آثَارَ الْهُدَى فَإِنَّهُمْ عَلَامَاتُ الْأَمَانَةِ وَ التُّقَى وَ اعْلَمُوا أَنَّهُ لَوْ أَنْكَرَ رَجُلٌ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عليه السلام وَ أَقَرَّ بِمَنْ سِوَاهُ مِنَ الرُّسُلِ لَمْ يُؤْمِنْ اقْتَصُّوا الطَّرِيقَ بِالْتِمَاسِ الْمَنَارِ وَ الْتَمِسُوا مِنْ وَرَاءِ الْحُجُبِ الْآثَارَ تَسْتَكْمِلُوا أَمْرَ دِينِكُمْ وَ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ.
امام صادق (ع) نے فرمایا: تم معرفت کے بغیر صالح نہیں ہو سکتے اور تصدیق کے بغیر معرفت حاصل نہیں کر سکتے اور تسلیم ہونے کے سوا تصدیق نہیں کر سکتے، چاروں (تسليم و تصديق و معرفت و صلاح) کو موازنہ کرو تو ان میں سے پہلا، آخری تینوں کے علاوہ مناسب نہیں لگتا، جو ان تینوں کے ساتھ ہو وہ گمراہ ہو جاتا ہے اور سیدھے راستے سے بہت دور ہو جاتا ہے،
خداوند صرف عمل صالح کو قبول کرتا ہے اور شرائط و وعدوں پر عمل کرنے کو قبول کرتا ہے، جو خداوند کے ساتھ شرط پر وفا کرے اور جو کچھ خدا نے اپنے پیمان میں ذکر کیا ہے، اس پر عمل کرے تو وہ بندہ جو خدا کے پاس ہے، اسکو پا لیتا ہے اور خداوند کے وعدوں کو مکمل وفا کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔
خداوند نے اپنے بندوں کو ہدایت کے راستوں کے بارے میں بتایا ہے اور ان راستوں میں چراغوں کو بھی قرار دیا ہے اور بندوں کو بتایا ہے کہ کیسے ان راستوں پر چلنا ہے اور فرمایا ہے: میں انکو بخشتا ہوں کہ جو توبہ کریں اور عمل صالح انجام دیں اور پھر ہدایت کے راستے پر چلیں،
اور فرمایا ہے: خداوند صرف پرہیز کاروں کے اعمال کو قبول کرتا ہے،
پس جو خداوند سے اسکے اوامر کے بارے میں ڈرے، وہ رسول خدا پر ایمان کی حالت میں خداوند سے ملاقات کرے گا،
افسوس افسوس لوگ ہدایت پانے سے پہلے دنیا سے چلے گئے اور وہ گمان کرتے تھے کہ مؤمن ہیں لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ مشرک تھے، جو بھی دروازے سے گھر میں آئے، وہ ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور جو دروازے کو چھوڑ دے، وہ ہلاک ہو جاتا ہے،
خداوند نے اپنے ولی امر کی اطاعت کو اپنے رسول کی اطاعت کے ساتھ ملایا ہے اور اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ جوڑا ہے، پس جو بھی ولی امر کی اطاعت نہیں کرے گا تو اس نے خدا اور اسکے رسول کی اطاعت نہیں کی ہے اور جو کچھ خداوند کی طرف سے نازل ہوا ہے کہ فرمایا ہے: ہر مسجد میں صاف لباس پہنا کرو، اور تمنا کرے اور تلاش کرے ایسے گھروں کی کہ جہنیں خداوند نے بلند قرار دیا ہے اور اسکے نام کو وہاں ذکر کیا جائے کیونکہ خداوند نے تمہیں خبر دی ہے کہ وہ ایسے مردان خدا ہیں کہ جنکو تجارت اور لین دین یاد خدا، نماز قائم کرنے اور زکات دینے سے غافل نہیں کرتا۔۔۔۔۔
بے شک خداوند نے اپنے امر کے لیے انبیاء کو انتخاب کیا ہے اور فرمایا ہے: ہم نے ہر امت میں بشیر و نذیر کو بھیجا ہے۔ وہ گمراہ ہو گیا کہ جسکو علم نہیں تھا اور جو راستے پر پہنچ گیا وہ عاقل و بصیر ہو گیا۔ روشنی کی تلاش میں رہو اور راستے پر چلو اور غیب میں موجود چيزوں کو طلب کرو تا کہ تمہارا دین کامل ہو اور خداوند پر ایمان لاؤ۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج2، ص47-48، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
6. بلند مقام و منزلت امام:
امام و حجت خدا کا مقام و مرتبہ عام انسانوں سے بالا تر ہے کہ یہ امام شناسی کے بارے میں ایک اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔
ایک روایت میں امام صادق (ع) نے امام اور حجت خدا کے مقام و مرتبے کو ایسے بیان فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام فِي خُطْبَةٍ لَهُ يَذْكُرُ فِيهَا حَالَ الْأَئِمَّةِ عليهم السلام وَ صِفَاتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَوْضَحَ بِأَئِمَّةِ الْهُدَى مِنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّنَا عَنْ دِينِهِ وَ أَبْلَجَ بِهِمْ عَنْ سَبِيلِ مِنْهَاجِهِ وَ فَتَحَ بِهِمْ عَنْ بَاطِنِ يَنَابِيعِ عِلْمِهِ فَمَنْ عَرَفَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه و آله وَاجِبَ حَقِّ إِمَامِهِ وَجَدَ طَعْمَ حَلَاوَةِ إِيمَانِهِ وَ عَلِمَ فَضْلَ طُلَاوَةِ إِسْلَامِهِ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى نَصَبَ الْإِمَامَ عَلَماً لِخَلْقِهِ وَ جَعَلَهُ حُجَّةً عَلَى أَهْلِ مَوَادِّهِ وَ عَالَمِهِ وَ أَلْبَسَهُ اللَّهُ تَاجَ الْوَقَارِ وَ غَشَّاهُ مِنْ نُورِ الْجَبَّارِ يُمَدُّ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ مَوَادُّهُ وَ لَا يُنَالُ مَا عِنْدَ اللَّهِ إِلَّا بِجِهَةِ أَسْبَابِهِ وَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ أَعْمَالَ الْعِبَادِ إِلَّا بِمَعْرِفَتِهِ فَهُوَ عَالِمٌ بِمَا يَرِدُ عَلَيْهِ مِنْ مُلْتَبِسَاتِ الدُّجَى وَ مُعَمَّيَاتِ السُّنَنِ وَ مُشَبِّهَاتِ الْفِتَنِ فَلَمْ يَزَلِ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَخْتَارُهُمْ لِخَلْقِهِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ عليه السلام مِنْ عَقِبِ كُلِّ إِمَامٍ يَصْطَفِيهِمْ لِذَلِكَ وَ يَجْتَبِيهِمْ وَ يَرْضَى بِهِمْ لِخَلْقِهِ وَ يَرْتَضِيهِمْ كُلَّمَا مَضَى مِنْهُمْ إِمَامٌ نَصَبَ لِخَلْقِهِ مِنْ عَقِبِهِ إِمَاماً عَلَماً بَيِّناً وَ هَادِياً نَيِّراً وَ إِمَاماً قَيِّماً وَ حُجَّةً عَالِماً أَئِمَّةً مِنَ اللَّهِ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ حُجَجُ اللَّهِ وَ دُعَاتُهُ وَ رُعَاتُهُ عَلَى خَلْقِهِ يَدِينُ بِهَدْيِهِمُ الْعِبَادُ وَ تَسْتَهِلُّ بِنُورِهِمُ الْبِلَادُ وَ يَنْمُو بِبَرَكَتِهِمُ التِّلَادُ جَعَلَهُمُ اللَّهُ حَيَاةً لِلْأَنَامِ وَ مَصَابِيحَ لِلظَّلَامِ وَ مَفَاتِيحَ لِلْكَلَامِ وَ دَعَائِمَ لِلْإِسْلَامِ جَرَتْ بِذَلِكَ فِيهِمْ مَقَادِيرُ اللَّهِ عَلَى مَحْتُومِهَا فَالْإِمَامُ هُوَ الْمُنْتَجَبُ الْمُرْتَضَى وَ الْهَادِي الْمُنْتَجَى وَ الْقَائِمُ الْمُرْتَجَى اصْطَفَاهُ اللَّهُ بِذَلِكَ وَ اصْطَنَعَهُ عَلَى عَيْنِهِ فِي الذَّرِّ حِينَ ذَرَأَهُ وَ فِي الْبَرِيَّةِ حِينَ بَرَأَهُ ظِلًّا قَبْلَ خَلْقِ نَسَمَةٍ عَنْ يَمِينِ عَرْشِهِ مَحْبُوّاً بِالْحِكْمَةِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَهُ اخْتَارَهُ بِعِلْمِهِ وَ انْتَجَبَهُ لِطُهْرِهِ بَقِيَّةً مِنْ آدَمَ عليه السلام وَ خِيَرَةً مِنْ ذُرِّيَّةِ نُوحٍ وَ مُصْطَفًى مِنْ آلِ إِبْرَاهِيمَ وَ سُلَالَةً مِنْ إِسْمَاعِيلَ وَ صَفْوَةً مِنْ عِتْرَةِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه و آله لَمْ يَزَلْ مَرْعِيّاً بِعَيْنِ اللَّهِ يَحْفَظُهُ وَ يَكْلَؤُهُ بِسِتْرِهِ مَطْرُوداً عَنْهُ حَبَائِلُ إِبْلِيسَ وَ جُنُودِهِ مَدْفُوعاً عَنْهُ وُقُوبُ الْغَوَاسِقِ وَ نُفُوثُ كُلِّ فَاسِقٍ مَصْرُوفاً عَنْهُ قَوَارِفُ السُّوءِ مُبْرَأً مِنَ الْعَاهَاتِ مَحْجُوباً عَنِ الْآفَاتِ مَعْصُوماً مِنَ الزَّلَّاتِ مَصُوناً عَنِ الْفَوَاحِشِ كُلِّهَا مَعْرُوفاً بِالْحِلْمِ وَ الْبِرِّ فِي يَفَاعِهِ مَنْسُوباً إِلَى الْعَفَافِ وَ الْعِلْمِ وَ الْفَضْلِ عِنْدَ انْتِهَائِهِ مُسْنَداً إِلَيْهِ أَمْرُ وَالِدِهِ صَامِتاً عَنِ الْمَنْطِقِ فِي حَيَاتِهِ فَإِذَا انْقَضَتْ مُدَّةُ وَالِدِهِ إِلَى أَنِ انْتَهَتْ بِهِ مَقَادِيرُ اللَّهِ إِلَى مَشِيئَتِهِ وَ جَاءَتِ الْإِرَادَةُ مِنَ اللَّهِ فِيهِ إِلَى مَحَبَّتِهِ وَ بَلَغَ مُنْتَهَى مُدَّةِ وَالِدِهِ عليه السلام فَمَضَى وَ صَارَ أَمْرُ اللَّهِ إِلَيْهِ مِنْ بَعْدِهِ وَ قَلَّدَهُ دِينَهُ وَ جَعَلَهُ الْحُجَّةَ عَلَى عِبَادِهِ وَ قَيِّمَهُ فِي بِلَادِهِ وَ أَيَّدَهُ بِرُوحِهِ وَ آتَاهُ عِلْمَهُ وَ أَنْبَأَهُ فَصْلَ بَيَانِهِ وَ اسْتَوْدَعَهُ سِرَّهُ وَ انْتَدَبَهُ لِعَظِيمِ أَمْرِهِ وَ أَنْبَأَهُ فَضْلَ بَيَانِ عِلْمِهِ وَ نَصَبَهُ عَلَماً لِخَلْقِهِ وَ جَعَلَهُ حُجَّةً عَلَى أَهْلِ عَالَمِهِ وَ ضِيَاءً لِأَهْلِ دِينِهِ وَ الْقَيِّمَ عَلَى عِبَادِهِ رَضِيَ اللَّهُ بِهِ إِمَاماً لَهُمُ اسْتَوْدَعَهُ سِرَّهُ وَ اسْتَحْفَظَهُ عِلْمَهُ وَ اسْتَخْبَأَهُ حِكْمَتَهُ وَ اسْتَرْعَاهُ لِدِينِهِ وَ انْتَدَبَهُ لِعَظِيمِ أَمْرِهِ وَ أَحْيَا بِهِ مَنَاهِجَ سَبِيلِهِ وَ فَرَائِضَهُ وَ حُدُودَهُ فَقَامَ بِالْعَدْلِ عِنْدَ تَحَيُّرِ أَهْلِ الْجَهْلِ وَ تَحْيِيرِ أَهْلِ الْجَدَلِ بِالنُّورِ السَّاطِعِ وَ الشِّفَاءِ النَّافِعِ بِالْحَقِّ الْأَبْلَجِ وَ الْبَيَانِ اللَّائِحِ مِنْ كُلِّ مَخْرَجٍ عَلَى طَرِيقِ الْمَنْهَجِ الَّذِي مَضَى عَلَيْهِ الصَّادِقُونَ مِنْ آبَائِهِ ع فَلَيْسَ يَجْهَلُ حَقَّ هَذَا الْعَالِمِ إِلَّا شَقِيٌّ وَ لَا يَجْحَدُهُ إِلَّا غَوِيٌّ وَ لَا يَصُدُّ عَنْهُ إِلَّا جَرِيٌّ عَلَى اللَّهِ جَلَّ وَ عَلَا.
امام صادق (ع) نے آئمہ کی صفات کے بارے میں اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا: بے شک خداوند نے اہل بیت کے آئمہ ہدی کے ذریعے سے اپنے دین کو ظاہر کیا اور اپنے علم کو واضح کیا اور انکے لیے علم باطنی کے چشموں کو جاری کیا، محمد (ص) کی امت میں سے جو بھی اپنے امام کے واجب حق کی معرفت حاصل کرے تو اس نے اپنے ایمان کی شرینی اور لذت کو پا لیا ہے کیونکہ خداوند نے امام کو اپنی مخلوق کی امامت کے لیے معیّن کیا ہے اور اسے ان پر حجت قرار دیا ہے اور اپنے عزت و وقار کا تاج اسکے سر پر رکھا ہے اور خداوند امام کی معرفت کے بغیر بندوں کے اعمال کو قبول نہیں کرتا، خداوند نے ہمیشہ آئمہ کو اپنی مخلوق کی راہبری کے لیے نسل امام حسین (ع) سے انتخاب کرتا اور پسند کرتا ہے، جب بھی ایک امام دنیا سے چلا جاتا ہے تو خداوند اسکی اولاد میں سے امام اور حجت کو بندوں کے لیے نصب کرتا ہے، وہ امام خدا کی طرف سے پیشوا ہے، حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے،
خداوند نے اپنے علم غیب اور حکمت کو اسے عطا کیا ہے اور اسے اسکی طہارت کی وجہ سے امام و حجت انتخاب کیا ہے، حضرت آدم سے باقی بچنے والی خلافت، امام تک پہنچی ہے اور وہ امام اولاد نوح میں سے بہترین فرزند ہے، وہ خاندان ابراہیم اور نسل اسماعیل اور رسول خدا کی عترت سے انتخاب ہوا ہے،
خداوند نے ہمیشہ امام کی سرپرستی کی ہے اور اپنے حجاب سے اسکی حفاظت فرمائی ہے اور شیطان اور اسکے لشکر کے حیلوں سے اسے دور کیا ہے، جادوگروں کے جادو اور بلاؤں کو بھی اس امام سے دور کیا ہے، امام تمام آفات، لغزشوں اور تمام برے کاموں سے محفوظ اور معصوم ہے۔
امام نور کے ساتھ جاہل انسانوں کی سرگردانی اور اہل جدل کی باتوں کے سامنے عدل کے ساتھ قیام کرتا ہے، حالانکہ واضح حق کے ساتھ روشن بیان امام کے ساتھ تھا اور امام نے اپنے نیک و صالح آباء و اجداد کی راہ پر قدم رکھا ہے، پس ایسے امام کے حق کو سوائے بد بخت انسان کے کوئی پامال نہیں کرتا اور اسکے حق کا صرف گمراہ انسان انکار کرتا ہے اور خدا کا نافرمان بندہ، اسکے ساتھ بد عہدی کرتا ہے۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج2، ص203-205، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
7.علم الہی:
امام و حجت خداوند کا وسیع و لا متناہی علم، خداوند کے ذاتی اور لا متناہی علم سے وابستہ ہوتا ہے، آئمہ اہل بیت کے علم کے چشمے، خداوند کے علم سے جاری ہوتے ہیں۔
امام صادق سلام الله عليہ نے ابو بصير کو اپنے علم کی وسعت کے بارے میں ایسے فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: قَالَ لِي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يُعْطِ الْأَنْبِيَاءَ شَيْئاً إِلَّا وَ قَدْ أَعْطَاهُ مُحَمَّداً ص قَالَ وَ قَدْ أَعْطَى مُحَمَّداً جَمِيعَ مَا أَعْطَى الْأَنْبِيَاءَ وَ عِنْدَنَا الصُّحُفُ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَ مُوسى قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هِيَ الْأَلْوَاحُ قَالَ نَعَمْ.
ابو بصیر کہتا ہے: امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا: اے ابو بصیر خداوند نے جو چیز انبیاء کو عطا فرمائی، وہی رسول خدا محمد (ص) کو بھی عطا فرمائی اور جو کچھ انبیاء کو دیا، وہی محمد (ص) کو بھی عطا فرمایا، اور وہ صحف کہ جو خدا نے فرمایا ہے:
«صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَ مُوسى» وہ ہمارے پاس ہے، میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: وہ صحف وہی الواح و تختیاں ہیں ؟ امام نے فرمایا: ہاں۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج1، ص225، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
اس روایت کے مطابق لوح ابراہیم و موسی کہ جنکے بارے میں صرف خداوند اور انبیاء کو علم ہے، وہ الواح اہل بیت کے پاس موجود ہیں اور یہی معنی ہے کہ اہل بیت کا علم، خداوند کے علم سے وابستہ ہے۔
ایک دوسری روايت میں راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق (ع) کا قول سنا کہ:
سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ كِتَابَ اللَّهِ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ كَأَنَّهُ فِي كَفِّي فِيهِ خَبَرُ السَّمَاءِ وَ خَبَرُ الْأَرْضِ وَ خَبَرُ مَا كَانَ وَ خَبَرُ مَا هُوَ كَائِنٌ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيهِ تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ.
خدا کی قسم مجھے کتاب خدا کا اول سے لے کر آخر تک علم ہے، ایسے کہ جیسے وہ میرے ہاتھ کی ہتھلی پر ہو، قرآن میں آسمان ، زمین ، گذشتہ اور آئندہ کی تمام خبریں موجود ہیں، جیسا کہ خداوند نے فرمایا ہے: اس (قرآن) میں ہر چیز کا بیان ہے۔
الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الكافي، ج1، ص229، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ، تهران، الطبعة الثالثة، 1388هـ.
8.عصمت:
معصوم ہونا یہ امام کی اصلی ترین اور اہم ترین صفات میں سے ہے۔ امام صادق (ع) نے امام و عصمت کو لازم و ملزوم کہا ہے، جیسا کہ امام نے فرمایا ہے:
عنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام فِي خُطْبَةٍ لَهُ يَذْكُرُ فِيهَا حَالَ الْأَئِمَّةِ عليهم السلام وَ صِفَاتِهِم ... فَالْإِمَامُ هُوَ الْمُنْتَجَبُ الْمُرْتَضَي وَ الْهَادِي الْمُنْتَجَي وَ الْقَائِمُ الْمُرْتَجَي اصْطَفَاهُ اللَّهُ بِذَلِكَ وَ اصْطَنَعَهُ عَلَي عَيْنِه ... لَمْ يَزَلْ مَرْعِيّاً بِعَيْنِ اللَّهِ يَحْفَظُهُ وَيَكْلَؤُهُ بِسِتْرِهِ مَطْرُوداً عَنْهُ حَبَائِلُ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ مَدْفُوعاً عَنْهُ وُقُوبُ الْغَوَاسِقِ وَنُفُوثُ كُلِّ فَاسِقٍ مَصْرُوفاً عَنْهُ قَوَارِفُ السُّوءِ مُبْرَأً مِنَ الْعَاهَاتِ مَحْجُوباً عَنِ الْآفَاتِ مَعْصُوماً مِنَ الزَّلَّاتِ مَصُوناً عَنِ الْفَوَاحِشِ كُلِّهَا مَعْرُوفاً بِالْحِلْمِ وَالْبِرِّ فِي يَفَاعِهِ مَنْسُوباً إِلَي الْعَفَافِ وَالْعِلْمِ وَالْفَضْل.
امام صادق (ع) نے فرمایا: پس امام وہی منتخب شدہ، پسندیدہ، رہبر، محرم اسرار اور امید دینے والا ہے کہ جس نے خداوند کے حکم سے قیام کیا ہے۔۔۔۔۔ خداوند کی ہمیشہ امام کی طرف توجہ ہے، خداوند امام کی حفاظت اور حمایت کرتا ہے، شیطان اور اسکے لشکر کے داموں اور حیلوں سے دور ہے۔۔۔۔۔۔۔ امام گناہ سے معصوم ہے اور ہر طرح کی بے حیائی سے محفوظ ہے، امام ہر جگہ بردباری اور نیکی کرنے والا مشہور ہوتا ہے اور شرم و حیا، علم و فضل سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج1، ص203 ـ 204، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
نتيجہ:
امام صادق (ع) کے نورانی کلام میں معرفت اور شناخت امام معصوم کو کتاب اصول کافی کی روشنی میں بیان کیا گیا۔ اس تحریر میں امام معصوم کی اہم ترین صفت جو امام صادق (ع) روایات کی روشنی میں بیان کی گئی، وہ علم اور عصمت امام معصوم ہے۔
التماس دعا۔۔۔۔۔