امام صادق (ع) علمائے اہل سنت کی نظر میں:
امام صادق (ع) علمائے اہل سنت کی نظر میں:
مطالب کی فہرست :
ابوحنيفہ اور امام صادق (ع):
مالک ابن انس اور امام صادق (ع):
امام شافعی اور امام صادق (ع):
ابن حبان اور امام صادق (ع):
ابو حاتم اور امام صادق (ع):
عبد الرحمن ابن جوزی اور امام صادق (ع):
شبلنجی اور امام صادق (ع):
خیر الدین الزرکلی اور امام صادق (ع):
محمد فريد وجدی اور امام صادق (ع):
ابو زہره اور امام صادق (ع):
ابن الصباغ مالكی اور امام صادق (ع):
ابن شبرمہ اور امام صادق (ع):
ابن ابی ليلی اور امام صادق (ع):
عمرو بن عبيد معتزلی اور امام صادق (ع):
جاحظ اور امام صادق (ع):
عمر بن مقدام اور امام صادق (ع):
شہرستانی اور امام صادق (ع):
ابن خلكان اور امام صادق (ع):
ابن حجر عسقلانی اور امام صادق (ع):
صاحب کتاب سير اعلام النبلاء، ذہبی اور امام صادق (ع):
ابن حجر ہيتمی اور امام صادق (ع):
مير علی ہندی اور امام صادق (ع):
امام صادق کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں نہ فقط شیعہ علماء نے بہت کچھ بیان کیا ہے بلکہ اس بارے میں اہل سنت کے علماء اور بزرگان نے بھی بہت کچھ بیان کیا ہے۔ مذاہب اہل سنت کے آئمہ، علماء اسلامی اور صاحب نظر و فکر افراد نے امام صادق (ع) کی علمی، عملی، اخلاقی صفات اور کرامات کو بیان کیا ہے۔
اس تحریر میں ہم ان علماء اور بزرگان کے بعض اقوال اور اعترافات کو ذکر کرتے ہیں:
ابوحنيفہ اور امام صادق (ع):
نعمان بن ثابت بن زوطی (80 - 150ه. ق.) کہ جو ابو حنيفہ کے نام سے بھی معروف ہے، وہ مذہب حنفی کا امام ہے، وہ امام صادق کا ہمعصر بھی تھا۔ اس نے امام صادق کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں بہت ہی اچھے اعترافات کیے ہیں، کہ ان میں سے یہ ہے کہ:
ما رأيت افقه من جعفر بن محمد و انه اعلم الامۃ۔
میں نے جعفر ابن محمد سے فقیہ تر اور عالم تر کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ اس امت کے اعلم ترین بندے تھے۔
شمس الدين ذهبی، سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 257
تاريخ الكبير، ج 2، ص 199 و 198، ح 2183.
امام صادق (ع) کے زمانے میں عباسی خلیفہ منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ وہ اولاد علی (ع) اور اولاد فاطمہ (ع) اور خاص طور پر امام صادق (ع) کی عزت، عظمت اور شہرت سے ہمیشہ پریشان اور غصے کی حالت میں رہتا تھا۔ اس پریشانی کے حل کے لیے وہ کبھی ابو حنیفہ کو امام صادق کے مقابلے پر کھڑا ہونے کا کہتا تھا۔ منصور دوانقی امام صادق کے علمی مقام اور عزت و عظمت کو دوسروں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، ابو حنیفہ کی اس زمانے کے سب سے بڑے عالم کے عنوان سے حکومتی سطح پر عزت اور احترام کرتا تھا، تا کہ اس سے سرکاری سطح پر امام صادق (ع) کے احترام کو کم کیا جا سکے۔
اس بارے میں خود ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ:
ایک دن منصور دوانقی نے کسی کو میرے پاس بھیجا اور کہا کہ: اے ابو حنیفہ لوگ جعفر ابن محمد سے بہت محبت اور اسکا بہت احترام کرتے ہیں، معاشرے میں اسکا ادب و احترام روز بروز زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ تم جعفر ابن محمد کی عزت اور احترام کو لوگوں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، اسطرح کرو کہ چند مشکل اور پیچیدہ علمی مسئلوں کو تیار کرو اور ایک مناسب وقت پر اس سے یہ سوالات پوچھو تا کہ وہ ان سوالات کا جواب نہ دے سکے اور اس طرح سے لوگوں کے دلوں میں اسکی محبت کم ہو جائے گی اور لوگ اس سے دور ہو جائیں گے۔
ابو حنیفہ کہتا ہے کہ میں نے یہ سن کر چالیس مشکل علمی مسئلوں کو تیار کیا اور جس دن منصور حیرہ کے مقام پر تھا، اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میں اسکے پاس پہنچ گیا۔ جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ جعفر ابن محمد منصور کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انکی جلالت اور رعب کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔ اتنا رعب تو خلیفہ منصور کو دیکھ کر بھی مجھ پر طاری نہیں ہوا تھا، حالانکہ خلیفہ کو سیاسی قدرت رکھنے کی وجہ سے با رعب ہونا چاہیے تھا۔ میں نے داخل ہو کر سلام کیا اور انکے ساتھ بیٹھنے کی اجازت طلب کی، خلیفہ نے اشارے سے مجھے کہا کہ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ میں بھی چپ کر کے بیٹھ گیا۔ اس پر منصور عباسی نے جعفر بن محمد کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ: اے ابو عبد اللہ، یہ ابو حنیفہ ہیں۔ انھوں نے جواب دیا، ہاں میں اسکو جانتا ہوں۔ پھر منصور نے مجھ سے کہا کہ اے ابو حنیفہ اگر تم نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو ابو عبد اللہ جعفر ابن محمد سے پوچھ لو۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے بھی اسے بہت اچھی فرصت جانا اور وہ چالیس سوال جو میں نے پہلے سے تیار کیے ہوئے تھے، ایک ایک کر کے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا۔ امام صادق ہر مسئلے کو بیان کرنے کے بعد، اسکے جواب میں فرماتے تھے کہ:
اس مسئلے میں تمہارا عقیدہ اس طرح ہے، مدینہ کے علماء کا عقیدہ اس طرح ہے اور ہم اھل بیت کا عقیدہ اس طرح ہے۔ بعض مسائل میں امام کی نظر ہماری نظر کے مطابق تھی اور بعض سائل میں مدینہ کے علماء کی نظر کے ساتھ موافق تھی اور کبھی امام کی نظر ہر دو نظروں کے مخالف تھی، اس صورت میں امام تیسری نظر کو انتخاب کر کے بیان کیا کرتے تھے۔
میں نے تمام چالیس مشکل سوال کہ جو انتخاب کیے ہوئے تھے، ایک ایک کر کے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا تو انھوں نے بھی بڑے آرام اور تحمل سے ان سوالات کے مجھے جوابات دئیے۔
پھر ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ:
ان اعلم الناس اعلمهم باختلاف الناس۔
بے شک اعلم ترین وہ بندہ ہے کہ جسکو علمی مسائل میں مختلف علماء کے نظریات کا علم ہو، اور کیونکہ جعفر ابن محمد بالکل ایسے ہی تھے، پس وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔
سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 258
بحارالانوار، ج 47، ص 217.
وہی ہمیشہ امام صادق کی علمی عظمت کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ:
لولا جعفر بن محمد ما علم الناس مناسك حجهم۔
اگر جعفر ابن محمد نہ ہوتے تو لوگوں حج کے احکام اور اعمال کا علم نہ ہوتا۔
شيخ صدوق، من لايحضره الفقيه، ج 2، ص 519، طبع قم، نشر اسلامی،
مالک ابن انس اور امام صادق (ع):
مالک ابن انس (97 - 179 ه .ق) وہ اہل سنت کے چار آئمہ میں سے ایک امام اور مذہب مالکی کا امام ہے اور اسکو کچھ مدت امام صادق کا شاگرد رہنے کا شرف اور فخر بھی حاصل ہوا ہے۔
سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 256.
اس نے امام صادق (ع) کی علمی اور اخلاقی شخصیت و عظمت کے بارے میں اس طرح کہا ہے کہ:
و لقد كنت آتی جعفر بن محمد و كان كثير المزاح و التبسم، فاذا ذكر عنده النبيی(ص) اخضر و اصفر، و لقد اختلفت اليه زمانا و ما كنت اراه الا علی ثلاث خصال: اما مصليا و اما صائما و اما يقراء القرآن. و ما راءيته قط يحدث عن رسول الله (ص) الا علی الطهاره و لا يتكلم فی ما لا يعنيه و كان من العلماء الزهاد الذين يخشون الله و ما رأيته قط الا يخرج الوساده من تحته و يجعلها تحتی۔
کچھ مدت تک میرا جعفر ابن محمد کے پاس آنا جانا تھا۔ وہ تھوڑا تھوڑا مزاح کرنے والے تھے اور ہمیشہ انکے مبارک چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ جب بھی انکے سامنے رسول خدا کا اسم گرامی ذکر ہوتا تو، انکے چہرے کا رنگ متغیر ہو کر زرد ہو جاتا تھا۔ جتنی مدت میرا امام صادق کے گھر آنا جانا تھا، میں ہمیشہ ان کو تین حالتوں میں سے ایک حالت میں دیکھتا تھا، یا وہ حالت نماز میں ہوتے تھے، یا وہ حالت روزہ میں ہوتے تھے اور یا وہ تلاوت قرآن کی حالت میں ہوتے تھے۔
میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ جعفر ابن محمد نے بغیر طہارت اور وضو کے رسول خدا سے کوئی حدیث نقل کی ہو۔ میں نے کبھی انکو فالتو اور بیہودہ بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ایسے زاہد عالم تھے کہ خداوند سے ڈرتے تھے اور خدا کا خوف انکے پورے وجود میں موجود تھا۔
میں جب بھی انکے حضور میں حاضر ہوتا تھا تو وہ اپنے نیچے سے چادر نکال کر میرے لیے بچھایا کرتے تھے۔
ابن تيميه، التوسل و الوسيله، ص 52
جعفريان، حيات فكری و سياسی امامان شيعه، ص 327.
مالک ابن انس نے امام صادق کی عبادت، زہد اور عرفان کے بارے میں کہا ہے کہ:
ہم امام صادق کے ساتھ مدینہ سے اعمال حج انجام دینے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم مدینہ کے لوگوں کے احرام باندھنے والی جگہ یعنی مسجد شجرہ پہنچے۔ ہم سب نے احرام پہنا۔ احرام پہنتے وقت تلبیہ کہنا، یعنی لبیک اللہم لبیک کا ذکر پڑھنا ضروری ہے۔ ہم سب بڑے آرام سے عادی طور پر اس ذکر کو پڑھ رہے تھے۔
مالک کہتا ہے کہ میں نے امام صادق کی طرف دیکھا کہ انکی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔ وہ تلبیہ کہنا چاہتے تھے، لیکن ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتا جا رہا تھا، ایک عجیب سا خوف ان پر طاری تھا، اور ان کے گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ انکی حالت اپنی سواری سے نیچے گرنے والی ہو گئی تھی۔
مالک کہتا ہے کہ میں آگے بڑھا اور کہا: یا ابن رسول اللہ، اس ذکر کو تو لازمی طور پر کہنا ہی پڑے گا، اسکے علاوہ تو کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اس پر امام نے فرمایا:
يابن ابی عامر! كيف اجسر ان اقول لبيك اللهم لبيك و اخشی ان يقول عز و جل لا لبيك و لا سعديك.
اے ابی عامر کے بیٹے، میں کیسے لبیک اللہم لبیک کہنے کی جرات کروں ؟ لبیک یعنی اے خداوندا تو جو بھی مجھے حکم کرتا ہے، میں فوری اسکو انجام دیتا ہوں اور ہمیشہ تیرا حکم ماننے کے لیے تیار ہوں۔ میں کس طرح خداوند سے کہوں کہ میں ہر وقت تیرا حکم ماننے کے لیے تیار ہوں ؟! اگر خداوند میرے جواب میں کہے کہ لا لبیک و لا سعدیک، تو اس وقت میں کیا کروں گا ؟
شيخ صدوق، امالی، ص 143، ح 3.
اسی نے امام صادق کی فضیلت اور عظمت کے بارے میں کہا ہے کہ:
ما رأت عين و لا سمعت اذن و لا خطر علی قلب بشر افضل من جعفر بن محمد ۔
جعفر ابن محمد سے با فضیلت تر انسان کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی کان نے نہیں سنا اور کسی بنی بشر کے خیال میں بھی ایسا بندہ نہیں آ سکتا۔
شهيد مطهری، سيری در سيره آئمه اطهار (ع) ، ص 149.
مالک ابن انس کے بارے میں لکھا ہے کہ:
و كان مالك بن انس يستمع من جعفر بن محمد و كثيرا ما يذكر من سماعه عنه و ربما قال حدثنی الثقه يعنيه۔
مالک ابن انس نے جعفر ابن محمد سے حدیث کو سنا ہے، اور بہت زیادہ ان سے سنا کرتا تھا اور لوگوں کے لیے بیان کیا کرتا تھا، اور کبھی کبھی کہا کرتا تھا کہ میں نے اس حدیث کو ایک ثقہ بندے سے نقل کیا ہے، کہ اسکی مراد جعفر ابن محمد ہوتے تھے۔
شرح الاخبار فی فضايل الآئمه الاطهار، ج 3، ص 299، ح 1203.
حسين بن يزيد نوفلی نے کہا ہے کہ:
سمعت مالك بن انس الفقيه يقول و الله ما راءت عينی افضل من جعفر بن محمد عليهما السلام زهدا و فضلا و عبادۃ و ورعا. و كنت اقصده فيكرمنی و يقبل علی فقلت له يوما يابن رسول الله ما ثواب من صام يوما من رجب ايمانا و احتسابا فقال و كان و الله اذا قال صدق حدثنی ابيه عن جده قال رسول الله (ص) من صام يوما من رجب ايمانا و احتسابا غفر له. فقلت له يابن رسول الله فی ثواب من صام يوما من شعبان فقال حدثنی ابی عن ابيه عن جده قال رسول الله (ص) من صام يوما من شعبان ايمانا و احتسابا غفر له.
میں نے مالك بن انس فقيہ سے سنا ہے کہ: اس نے کہا کہ: خدا کی قسم میری آنکھوں نے زہد، علم، فضیلت، عبادت اور تقوی کے لحاظ سے جعفر ابن محمد سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں جب بھی انکے پاس جاتا تھا، تو وہ گشادہ روئی سے میرا استقبال کرتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ اے رسول خدا کے بیٹے، ماہ رجب میں روزہ رکھنے کا کتنا ثواب ہے ؟
انھوں نے جواب میں رسول خدا کی حدیث کو نقل کیا۔ خدا کی قسم وہ جب بھی کسی سے کوئی چیز نقل کرتے تھے تو صحیح نقل کرتے تھے۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ: میرے والد نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے جدّ سے اور انھوں نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ: ماہ رجب میں روزہ رکھنے کا یہ ثواب ہے کہ، اس بندے کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ پھر میں نے ماہ شعبان کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے پھر وہی جواب دیا۔
امالی صدوق، ص 435 و436، ح 2.
امام شافعی اور امام صادق (ع):
ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ: اسحاق بن راهويه نے کہا ہے کہ میں نے شافعی سے کہا کہ: جعفر ابن محمد کا مقام تیرے نزدیک کیسا ہے ؟ شافعی نے کہا: ثقة۔
یعنی میرے نزدیک وہ مکمل طور پر مورد اعتماد ہیں۔
ابن حبان اور امام صادق (ع):
ابن حجر عسقلانی نے ابن حبان سے امام صادق کے بارے میں قول نقل کیا ہے کہ:
ابن حبان ن کہا ہے کہ:وہ سادات اہل بیت میں سے تھا کہ وہ فقیہ، عالم اور فاضل تھا کہ ہم انکے علم کے محتاج تھے۔
ایک دوسری جگہ ابن حبان نے کہا ہے کہ: جعفر ابن محمد وہ تنہا علم تھے کہ تمام فقھاء، علماء، اور فضلاء ان کے علم کے محتاج تھے۔
ابو حاتم اور امام صادق (ع):
ذھبی نے اپنی کتاب تذكرة الحفاظ میں لکھا ہے کہ:
قال ابو حاتم، ثقة لا يسأل عن مثله۔
امام صادق اس طرح قابل اعتماد ہیں کہ انکی طرح کے انسان کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا۔
عبد الرحمن ابن جوزی اور امام صادق (ع):
ابن جوزی کہ وہ خود اہل سنت کے عرفا میں سے ہے، اور جہان اسلام کے مشہور مصنفین میں سے ہے، اس نے اپنی کتاب صفة الصفوة میں لکھا ہے کہ:
كان (جعفر بن محمد) مشغولا بالعبادة عن حب الرياسة۔
یعنی جعفر ابن محمد ایسی شخصیت تھی کہ جسکو خداوند کی عبادت میں مصروف ہونے کو حکومت کے عشق سے دور کیا ہوا تھا۔
شبلنجی اور امام صادق (ع):
یہ عارف بزرگ بھی اہل سنت کے مشہور مصنفین میں سے تھا۔ اس نے اپنی مشہور کتاب نورالابصار میں لکھا ہے کہ:
كان جعفر الصادق (رضی الله عنه) مستجابا لدعوة و اذا سأل الله شيئاً لم يتم قوله الا و هو بين يديه۔
یعنی جعفر صادق (رضي الله عنہ) کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی تھی، جب وہ خداوند سے کوئی چیز مانگتے تھے تو ابھی انکی دعا ختم نہیں ہوتی تھی کہ وہ چیز انکے سامنے حاضر کر دی جاتی تھی۔
خیر الدین الزرکلی اور امام صادق (ع):
یہ بھی اہل سنت کا مشہور مصنف تھا کہ جس نے با ارزش تالیفات یاد گار کے طور پر چھوڑی ہیں۔ اس نے اپنی كتاب الاعلام میں امام صادق (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:
كان من أجلّاء التابعين و له منزلة رفيعة فی العلم. أخذ عنه جماعة،منهم الإمامان ابو حنيفة و مالك و لقب بالصادق لأنه لم يعرف عنه الكذب قط له اخبار مع الخلفاء من بنی العباس و كان جريئاً عليهم صداعاً بالحق۔
امام جعفر صادق (ع) کا شمار بزرگ تابعین میں سے ہوتا ہے، انکا علمی مقام بہت بلند تھا اور ایک بہت بڑی جماعت نے ان سے کسب علم کیا ہے کہ ان میں سے دو بندے اہل سنت کے امام ابو حنيفہ اور امام مالک ہیں۔ انکا لقب صادق تھا کیونکہ ان سے کسی نے جھوٹ نہیں سنا تھا۔ ان کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ حق اور سچ کی سر بلندی کے لیے ہمیشہ بنی عباس کے خلفاء کے ساتھ جہاد اور جنگ کی حالت میں رہتے تھے۔
محمد فريد وجدی اور امام صادق (ع):
یہ جہان اسلام کا مشہور مصنف ہے کہ جس نے بہت سی کتب کو تالیف کیا ہے، اس نے اپنی ایک مشہور کتاب دائرة المعارف میں امام جعفر صادق (ع) کے بارے میں بعنوان مذہب سنی لکھا ہے کہ:
ابو عبدالله جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زين العابدين ابن الحسين بن علی ابن ابيطالب هو احد الآئمة الأثنی عشر علی مذهب الامامية كان من سادات اهل البيت النبوی، لقب الصادق لصدقه فی كلامه كان من افاضل الناس.
ابو عبد الله جعفر الصادق فرزند محمد باقر فرزند علی زين العابدين فرزند حسين فرزند علی فرزند ابيطالب ہیں کہ جو مذہب امامیہ کے بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، وہ رسول خدا کے سادات اہل بیت میں سے ہیں اور کلام میں ہمیشہ سچا ہونے کی وجہ سے انکو صادق کا لقب دیا گیا۔ وہ اپنے زمانے کے لوگوں میں بزرگان میں سے تھے۔
ابو زہره اور امام صادق (ع):
محمد ابو زہره جہان اسلام کے مصنفین اور متفکرین میں سے ہیں۔ اس نے ایککتاب الامام الصادق لکھی ہے اور اس میں امام صادق کے بارے میں لکھا ہے کہ:
امام صادق(ع) اپنی پر برکت زندگی میں ہمیشہ حق کی طلب میں تھے اور کبھی بھی شک اور تردید ان کے دل پر عارض نہیں ہوا تھا۔ ان کے نیک اور اصلاحی کام اس زمانے کے ظالم حکماء کی غلط سیاست کی وجہ سے بھی کم رنگ نہیں ہوئے تھے۔ اسی وجہ جب ان کی وفات ہوئی ہو تو اس وقت عالم اسلام انکی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا کیونکہ ہر زبان پر انکا نام اور انکا ذکر تھا۔ انکی فضیلت پر تمام علماء اور متفکرین نے اعتراف کیا ہے۔
پھر اس نے لکھا ہے کہ:
علمائے اسلام نے عقائد کے مختلف ہونے کے با وجود کسی بھی مسئلے میں اتنا اجماع اور اتفاق نہیں کیا، جتنا کہ امام صادق کے علم اور فضیلت پر اجماع کیا ہے۔ اہل سنت کے علماء کی ایک بہت بڑی تعداد کہ جو امام کے ہمعصر تھے، انھوں نے امام سے بہت علمی فیض حاصل کیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے زمانے میں مکمل طور پر علمی راہنما بننے کی صلاحیت رکھتے تھے، جس طرح کہ ان سے پہلے انکے والد اور انکے جدّ اور انکے چچا زید رضی الله عنهم اجمعين ایسی صلاحیت رکھتے تھے۔ راہ ہدایت کے تمام آئمہ نے انکی پیروی کی ہے اور انکے علم سے استفادہ کیا ہے۔
ابن الصباغ مالكی اور امام صادق (ع):
یہ اہل سنت کے نامور مصنف ہیں کہ جہنوں نے اپنی کتاب الفصول المهمہ میں امام صادق کے قابل توجہ مناقب کو ذکر کیا ہے، اس نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:
مناقب جعفر الصادق (عليه السلام) فاضلة أو صفاته فی الشرف كاملة، و شرفه علی جبهات الأيام سائلة، و أندية المجد و الغر بمفاخره و مآثره آهلة.
جعفر صادق کے فضائل اور مناقب بہت بلند اور انکی صفات شرافت کے لحاظ سے کامل تھیں، انکی فضیلت زمانے کی پیشانی پر ثبت ہے، انکی عزت اور احترام دائمی ہے کہ جو کبھی بھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
ابن شبرمہ اور امام صادق (ع):
عبد الله بن شبرمہ بن طفيل ضببی (72-144 ه .ق) کہ جو ابن شبرمہ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ کوفے کا قاضی اور فقیہ تھا۔ اس نے امام صادق کے بارے میں کہا ہے کہ:
عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ قَالَ: مَا ذَكَرْتُ حَدِيثاً سَمِعْتُهُ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع إِلَّا كَادَ أَنْ يَتَصَدَّعَ لَهُ قَلْبِي سَمِعْتُهُ يَقُولُ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (ص)۔
مجھے ہمیشہ یاد ہے کہ میں نے جب بھی جعفر ابن محمد سے حدیث کو سنا تو اس نے مجھ پر بہت زیادہ اور گہرا اثر کیا۔ میں نے انکو حدیث نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ: وہ کہتے تھے کہ: میں نے اپنے والد اور اپنے جدّ اور رسول خدا سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
امالی صدوق ص 343، ح 16.
اسی نے کہا ہے کہ:
و اقسم بالله ما كذب علی ابيه و لا كذب ابوه علی جده و لا كذب جده علی رسول الله۔
خدا کی قسم نہ جعفر ابن محمد نے اپنے والد سے روایت نقل کرنے میں جھوٹ بولا ہے اور نہ ہی انکے والد نے انکے جدّ سے جھوٹ نقل کیا ہے اور نہ اس نے رسول خدا سے جھوٹ نقل کیا ہے، یعنی جو کچھ جعفر ابن محمد کی روایت کی سند میں ذکر ہوا ہے، وہ سب ٹھیک ہے۔
امالی صدوق ص 343، ح 16.
ابن ابی ليلی اور امام صادق (ع):
شيخ صدوق نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد الرحمان کہ جو «ابن ابی ليلی » (74- 148 ه .ق) کوفے کا فقیہ، محدث، مفتی اور قاضی تھا۔ وہ امام صادق کے پاس گیا اور ان سے چند سوال کیے اور بہت اچھے ان کے جواب بھی سنے، اس پر اس نے امام سے عرض کیا کہ:
اشهد انكم حجج الله علی خلقه۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خداوند کی مخلوق پر خداوند کی طرف سے حجت ہیں۔
من لايحضره الفقيه، ج 1، ص 188، ح 569.
عمرو بن عبيد معتزلی اور امام صادق (ع):
عمرو بن عبيد معتزلی امام جعفر بن محمد ع کے پاس گیا، جب اس نے اس آیت کی تلاوت کی کہ:
الذين يجتنبون كبائر الاثم و الفواحش۔
سوره نجم، آيه 32.
تو وہ خاموش ہو گیا۔ امام صادق نے فرمایا: کیوں خاموش ہو گئے ہو ؟ اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لیے قرآن سے کبیرہ گناہوں کو ایک ایک کر کے بیان کریں۔ امام صادق نے ترتیب کے ساتھ ایک ایک کر کے کبیرہ گناہوں کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ امام نے اس کو اتنا اچھا اور مکمل جواب دیا کہ عمرو ابن عبید نے بے اختیار رونا شروع کر دیا اور چیخ کر کہا:
هلك من قال براءيه و نازعكم فی الفضل و العلوم۔
ہلاک ہو جائے وہ انسان کہ جو اپنی رائے سے بات کرے اور فضل و علم میں آپ سے مقابلہ کرے۔
كلينی، كافی، ج 2، ص 287- 285.
جاحظ اور امام صادق (ع):
ابو بحر جاحظ بصری، تیسری صدی کا مشہور عالم تھا، اس نے امام صادق کے بارے میں کہا ہے کہ:
جعفر بن محمد الذی ملا الدنيا علمه و فقهه و يقال ان ابا حنيفه من تلامذته و كذلك سفيان الثوری و حسبك بهما فی هذا الباب۔
جعفر ابن محمد وہ تھے کہ جن کے علم اور فقہ نے دنیا کو بھر دیا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری انکے شاگردوں میں سے تھے اور یہی ان امام کی عظمت کے لیے کافی ہے۔
رسائل جاحظ، ص 106
حيات فكری و سياسی امامان شيعه، ص 328.
عمر بن مقدام اور امام صادق (ع):
عمر بن مقدام دور حاضر کا عالم ہے، اس نے امام صادق کے بارے میں کہا ہے کہ:
كنت اذا نظرت الی جعفر بن محمد علمت انه من سلاله النبيين و قد رأيته واقفا عند الجمره يقول سلونی، سلونی۔
جب میں جعفر ابن محمد کو دیکھتا تھا تو میں سمجھ جاتا تھا کہ وہ انبیاء کی نسل میں سے ہیں۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ وہ منی کے مقام پر جمرہ کے پاس کھڑے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ تم نے پوچھنا ہے، مجھ سے پوچھ لو اور میرے علم سے استفادہ کر لو۔
سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 257.
شہرستانی اور امام صادق (ع):
ابو الفتح محمد بن ابی القاسم اشعری کہ جو شہرستانی کے نام سے مشہور تھا (479-547 ه .ق)۔ اس نے اپنی مہم کتاب الملل و النحل میں امام صادق کی عظمت کے بارے میں لکھا ہے کہ:
و هو ذو علم عزيز فی الدين و ادب كامل فی الحكمه و زهر بالغ فی الدنيا و ورع تام عن الشهوات۔
امام صادق امور و مسائل دینی میں بہت زیادہ علم رکھنے والے، علم حکمت میں مکمل ادب رکھنے ولے، امور دنیا اور اسکی زرق و برق کی نسبت بہت محکم زہد رکھنے والے اور نفسانی شہوات سے دوری کرنے والے تھے۔
الملل و النحل، ج 1، ص 147
حيات فكری و سياسی امامان شيعه، ص 330.
ابن خلكان اور امام صادق (ع):
ابن خلكان نے امام صادق (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:
احد الآئمه الاثنی عشر علی مذهب الاماميه و كان من سادات اهل البيت و لقب بالصادق لصدق مقالته و فضله اشهر من ان يذكر۔
وہ امامیہ کے بارہ آئمہ میں سے ایک امام اور رسول خدا کے اہل بیت میں سے تھے۔ کلام میں سچا ہونے کی وجہ سے صادق کے لقب سے شہرت پائی اور انکی فضیلت اس قدر مشہور ہے کہ وہ بیان کرنے کی محتاج نہیں ہے۔
ابن خلكان نے اسی طرح لکھا ہے کہ:
و كان من سادات اهل البيت و لقب بالصادق لصدقه فی مقالته... و كان تلميذه ابو موسی جابر بن حيان الصوفی الطرسوسی قد ألف كتاباً يشتمل علی ألف ورقة تتضمن رسائل جعفر الصادق و هی خمس مأة رسالة.
امام صادق اہل بیت کے بزرگان میں سے تھے، کلام میں سچا ہونے کی وجہ سے ان کو صادق کا لقب دیا گیا تھا، امام صادق (ع) علم کیمیا میں ایک خاص قسم کی مہارت رکھتے تھے۔ ابو موسی جابر بن حيان طرطوسی ان کا شاگرد تھا۔ جابر نے اس بارے میں ہزار صفحے کی ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اس نے جعفر ابن محمد کی تعلیمات کو ذکر کیا ہے اور یہ کتاب پانچ سو رسالوں پر مشتمل تھی۔
وفيات الاعيان، ج 1، ص 327
سيره پيشوایان، ص 353
حيات فكری و سياسی امامان شيعه، ص 330.
ابن حجر عسقلانی اور امام صادق (ع):
شہاب الدين ابو الفضل احمد بن علی مصری شافعی کہ جو «ابن حجر عسقلانی کے نام سے مشہور تھا (773-852 ه .ق)۔ اس نے امام صادق (ع) کے بارے میں کہا ہے کہ:
جعفر بن محمد بن علی بن حسين بن علی بن ابی طالب ایک ایسے فقیہ ہیں کہ جو بہت سچے ہیں۔
تقريب التهذيب، ص 68
ابن حجر میں اپنی كتاب تهذيب التهذيب میں ابی حاتم سے اور اس نے اپنے والد سے امام صادق کے بارے میں نقل کیا ہے کہ:
ثقۃ لا يسأل عن مثله.
یعنی امام صادق کی شخصیت اتنی مورد اطمینان ہے کہ کسی سے ان کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور نے لکھا ہے کہ: ابن عدی نے کہا ہے کہ:
و لجعفر احاديث و نسخ و هو من ثقات الناس ... و ذكره ابن حبان فی الثقات و قال كان من سادات اهل البيت فقها و علما و فضلا ... و قال النسايی فی الجرح و التعديل ثقه۔
جعفر ابن محمد کی احادیث اور نسخے بہت زیادہ ہیں، وہ موثق افراد میں سے ہیں۔ ابن حبان نے ان کو ثقات میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ: جعفر ابن محمد رسول خدا کے بزرگ اھل بیت میں سے ہیں، فقہ، علم اور فضیلت کے لحاظ سے انکا مقام بہت بلند ہے۔ نسائی نے جرح و تعدیل میں امام صادق کو ثقہ افراد میں سے قرار دیا ہے۔
تهذيب التهذيب، ج 2، ص 104.
صاحب کتاب سير اعلام النبلاء، ذہبی اور امام صادق (ع):
صاحب «سير اعلام النبلاء» ذھبی نے امام صادق (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:
جعفر ابن محمد ابن علی ابن حسين کہ جو حسین ابن علی فرزند رسول خدا کے بیٹے ہیں، ان بزرگوار کی والدہ ام فروہ بنت قاسم ابن محمد ابن ابی بکر ہیں کہ ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبد الرحمن ابن ابی بکر ہیں، وہ بنی ہاشم کے بزرگ ہیں۔ ان سے بہت سے افراد نے علمی استفادہ کیا ہے کہ ان میں سے ان کے بیٹے موسی کاظم، يحيی ابن سعيد انصاری، يزيد بن عبد الله، ابو حنيفہ، ابان بن تغلب، ابن جريح، معاويہ بن عمار، ابن اسحاق، سفيان ثوری، شبعہ، مالك، اسماعيل بن جعفر، وہب بن خالد، حاتم بن اسماعيل، سليمان بن بلال، سفيان بن عينيہ، حسن بن صالح، حسن بن عياش، زہير بن محمد، حفص بن غياث، زيد بن حسن انماطی، سعيد بن سفيان اسلمی، عبد الله بن ميمون، عبد العزيز بن عمران زہری، عبد العزيز دراوری، عبد الوہاب ثقفی، عثمان بن فرقد، محمد بن ثابت بنانی، محمد بن ميمون زعفرانی، مسلم زنجی، يحيی قطان، ابو عاصم نبيل وغیرہ وغیرہ۔
سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 255 و 256.
اسی نے اپنی كتاب ميزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ:
جعفر بن محمد آئمہ بزرگان میں سے ایک امام ہیں، کہ انکا مقام بہت ہی بلند ہے اور بہت نیک کام کرنے والے اور سچے انسان ہیں۔
لغت نامه دهخدا، ج 9، ص 130- 323.
ابن حجر ہيتمی اور امام صادق (ع):
شہاب الدين ابو العباس، احمد بن بدر الدين شافعی کہ جو ابن حجر ہيتمی کہ نام سے مشھور ہے۔ (909 - 974 ه.ق)۔ اس نے اپنی کتاب صواعق المحرقہ میں امام صادق ع کے بارے میں لکھا ہے کہ:
لوگوں نے ان سے بہت علم حاصل کیا ہے۔ یہ علوم و فنون مسافرین کے ذریعے سے ادھر ادھر پہنچ گئے اور اسطرح جعفر ابن محمد کا نام ہر جگہ پہنچ گيا تھا۔ علماء بزرگ جیسے يحيی بن سعيد، ابن جريج، مالك، سفيان ثوری، سفيان بن عينيہ، ابو حنيفہ، شعبہ اور ايوب سجستانی نے ان سے حدیث کو نقل کیا ہے۔
الصواعق المحرقه، ص 201.
مير علی ہندی اور امام صادق (ع):
مير علی ہندی کہ وہ دور حاضر کا اہل سنت کا بزرگ عالم ہے، اس نے امام صادق کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہا ہے کہ:
دینی نظریات اور فتووں نے فقط سادات اور بزرگ فاطمی شخصیات کے نزدیک فلسفی رنگ کو اپنایا ہوا تھا۔ اس زمانے میں علم کی وسعت اور ترقی نے، بحث اور تحقیق کی روح کو زندہ کیا ہوا تھا۔ فلسفی ابحاث اور گفتگو سارے معاشرے میں شروع ہو چکی تھیں۔ اس علمی انقلاب کی رہبری مدینہ کے علمی مرکز کے ذمہ تھی۔ اس علمی مرکز کی بنیاد علی ابن ابی طالب (ع) کے پوتے جعفر ابن محمد کہ جس کا لقب صادق تھا، رکھی تھی۔ وہ بہت بڑے علمی محقق اور متفکر تھے کہ اس زمانے کے تمام علوم سے کامل آشنائی رکھتے تھے۔ وہ پہلے شخص تھے کہ جس نے فلسفی مدارس کی اسلام میں بنیاد رکھی تھی۔
ان کے حلقہ درس میں فقط وہ لوگ شرکت کرتے تھے کہ جہنوں نے بعد میں فقھی مذاہب کی بنیاد رکھی تھی، بلکہ ان کے درس میں فلسفہ کے طالب علم دور دور کے علاقوں سے آ کر شرکت کیا کرتے تھے۔
حسن بصری کہ جو بصرہ کے فلسفی مکتب کا بانی اور واصل ابن عطا کہ جو مذہب معتزلہ کا بانی تھا، وہ امام صادق کے شاگردان میں سے تھے کہ جہنوں نے ان کے علمی سر چشمہ سے استفادہ کیا تھا۔
مختصر تاريخ العرب، ص 193
سيره پيشوايان، ص 352