کیا امام صادق ع نے اسماعیل کوامامت دی تھی؟
سؤال : کیا امام صادق علیہ السلام نے اسماعیل کو مقام امامت پر بٹھایا تھا ؟
جواب :
اس سوال کا جواب شیعوں کی قدیمی ترین اعتقادی اور ایمانیات کی کتابوں میں موجود ہیں ؛
یہ جو دو روایات امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے ؛
قول الصادق عليه السلام : ما بدا لله بداء كما بدا له في إسماعيل ابني ،
يقول : ما ظهر لله أمر كما ظهر له في إسماعيل ابني إذ اخترمه قبلي ليعلم بذلك أنه ليس بإمام بعدي .
: جو میرے بیٹھے اسماعیل کے بارے میں اللہ کو بداء ہوئی وہ کسی اور کے بارے میں نہیں ہوئی ۔
اللہ کے لئے کوئی ایسی چیز ظاہر نہیں ہوئی [لوگوں کے لئے باعث تعجب ہونے کے اعتبار سے ] جو میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ہوئی ،کیونکہ انہیں مجھ سے پہلے دنیا سے اٹھایا ۔ تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ وہ میرے بعد امام نہیں ہے ۔
التوحيد ، الشيخ الصدوق ، ص 336
اسماعيل ، امام صادق عليه السلام کا بڑا بیٹا تھا اور جو چیز لوگوں کے درمیان مشہور تھی اس حساب سے عادی اور طبيعي طور پر اسماعیل ہی امام ہونا تھا ؛
کیونکہ شیعوں کے ہاں ایک روایت ہے :
الأمر في الكبير ما لم تكن فيه عاهة
امامت بڑے بیٹے کو ملے گی مگر یہ کہ اس میں کوئی بیماری ہو [ایسی بیماری کہ جو لوگوں کا اس سے روگردانی کا سبب ہو ] ۔
الكافي ج 1 ص258
اگرچہ یہ والی روایت صحیح سند ہم تک نہیں پہنچی ہے اس کی سند میں سهل بن زياد ابو يحيي الواسطي امامي ہے لیکن اس کی وثاقت ثابت نہیں ہے ۔ اسی روایت کے مضمون میں تحریف کا ہی نتیجہ تھا یہ امام صادق عليه السلام کی شہادت کے بعد بعض شیعوں کی گمراہی کا موجب بنی کیونکہ عبد الله أفطح کہ جو امام کے ہی فرزند تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام سے بزرک تھا لہذا بعض نے اس روایت کے آخی حصے کو ہٹایا [ امام جسمانی طور پر معزور نہ ہو ] اور روایت کے دوسرے حصے کو توجہ کا مرکز بنایا اور عبد الله افطح کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، جبکہ عبد الله افطح جسمانی طور پر سالم نہیں تھا اسی لئے اس کو ابطح کیا گیا )
ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات کی بنیاد پرامام صادق عليه السلام کا جانشین آپ کا ایک اور فرزند یعنی حضرت امام موسي بن جعفر علیہما السلام تھے ،اسی لئے لوگوں کو شبھہ ہوا تو اللہ نے بھی جناب اسماعیل کو امام صادق علیہ السلام کی زندگی میں ہی اٹھایا تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ امام صادق علیہ السلام کا جانشین اور لوگوں کا امام حضرت موسي بن جعفر عليهم السلام ہی ہیں .
جناب اسماعیل کے دنیا سے جانے کہ وجہ سے بہت سے لوگوں کو تعجب ہوا کیونکہ لوگ یہ فکر کرتے تھے کہ یہی بعد میں امام ہوں گے لیکن اللہ نے اپنے وعدے کو پورا کیا ۔
عقیدہ بداء کے سلسلے میں ایک شبھہ کا جواب :
بعض لوگ مذکورہ روایت اور بدا کے لفظی معنی کو بہانہ بنا کر یہ ادعا کرتے ہیں کہ شیعوں کے عقیدہ بداء کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ اللہ کی طرف نعوذباللہ جہالت اور خطاء کی نسبت دیتے ہیں ۔
جبکہ شیعہ اس قسم کے الزامات سے برئ ہیں ۔
ہم نمونے کے طور پر شیعہ معتبر کتب سے دو روایت یہاں نقل کرتے ہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) کا فرمان ھے :
”مَن زَعَمَ اِنَّ اللهَ تَعٰالیٰ بَدَالَہُ فِی شَیٍٴٍ بَدَاءَ نِدَامَةٍ فَہُوَ عِندَناَ کَافِرٌ بِاللهِالعَظِیمِ“
”جو شخص بھی یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے کسی بھی چیز کے متعلق پشیمانی کی وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل کیا ھے یا اسلئے کہ وہ چیز پھلے خدا کی ذات پر مخفی تھی اور اب ظاھر ھوئی ھے تو ھمارے نزدیک ایسا شخص خدائے عظیم کا منکر اور کافر ھے۔
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق (ع)ارشاد فرماتے ھیں:
”مَن زَعَمَ اَنَّ اللّٰہَ بَدَالَہُ فِیشَيءٍ وَلَم یَعلَمہُ اَمسَ فَاٴبرَاٴ مِنہُ “ ۔
”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے اسلئے کسی چیز کے متعلق ارادہ بدلاھے کہ وہ پھلے اسے نھیں جانتا تھا تو ھم ایسے شخص سے بیزار ھیں“
شبهات کے جواب دینے والی ٹیم
تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر (عج)