کیا اہل سنت کے آئمہ اور بزرگ علماء امام صادق(ع) کے شاگرد تھے؟
کیا اہل سنت کے آئمہ اور بزرگ علماء امام صادق(ع) کے شاگرد تھے؟
جواب:
اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کا علم لدنی اور بہت وسیع تھا اور اسی وجہ سے ہر زمانے کے لوگ قیامت تک صحیح اور حقیقی علم کے لیے ان کے محتاج تھے اور ہمیشہ محتاج رہیں گے۔ حتی اہل بیت کے مخالفین نے کئی بار اس بات کا اقرار اور اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ اہل بیت کے علم کے محتاج ہیں، مثال کے طور پر عمر ابن خطاب ہمیشہ کہتا تھا کہ:
فكان عمر يقول لولا على لهلك عمر.
اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
ابن عبد البر النمری القرطبی المالكی، ابو عمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفی463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3 ص 1103 ، تحقيق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى،
یا اسی طرح عمر ابن خطاب یہ بھی کہتا تھا کہ:
و فی كتاب النوادر للحميدی و الطبقات لمحمد بن سعد من رواية سعيد بن المسيب قال كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن يعنی علی بن أبی طالب.
عمر ہمشیہ اس مشکل علمی مسئلے سے خدا کی پناہ مانگتا تھا کہ جس کے حل کرنے کے لیے علی ابن ابی طالب موجود نہ ہوں۔
العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفی852 هـ)، فتح الباری شرح صحيح البخاری، ج 13 ص 343 ، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
اب ہم اہل سنت کے چند علماء اور بزرگان کے امام صادق (ع) کے شاگرد ہونے کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں:
1- آلوسی:
آلوسی عالم اہل سنت نے کتاب «مختصر تحفہ الاثنی عشريہ» کے مقدمے میں اور اسی بات کو خود ابو حنیفہ کے قول سے بھی بیان کیا ہے کہ وہ دو سال تک امام صادق (ع) سے علمی استفادہ کرتا رہا ہے:
و هذا أبو حنيفة - رضی الله تعالى عنه – و هو بين أهل السنة كان يفتخر و يقول بأفصح لسان: لولا السنتان لهلك النعمان، يريد السنتين اللتين صحب فيهما لأخذ العلم الإمام جعفر الصادق - رضی الله تعالى عنه -. و قد قال غير واحد أنه أخذ العلم و الطريقة من هذا و من أبيه الإمام محمد الباقر و من عمه زيد بن علی بن الحسين - رضی الله تعالى عنهم۔
یہ ابو حنیفہ ہے کہ جو اہل سنت میں سے تھا اور ہمیشہ اس بات پر فخر کیا کرتا تھا اور واضح طور پر کہا کرتا تھا کہ اگر وہ دو سال نہ ہوتے تو، میں ہلاک ہو جاتا۔
ابو حنیفہ کی مراد وہ دو سال ہیں کہ جن میں اس نے امام صادق سے علم حاصل کیا تھا۔ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نے علم اور سیر و سلوک کو امام صادق اور انکے والد امام باقر اور انکے چچا زید ابن علی ابن الحسین سے پڑھا اور سیکھا تھا۔
الألوسی، محمود شكری، مختصر التحفة الاثنی عشرية، ص 8 ، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه عبد العزيز غلام حكيم الدهلوی، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد بن محيی الدين بن عمر الأسلمی، حققه و علق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر: المطبعة السلفية، القاهرة،
القنوجی البخاری، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفی1307هـ)، الحطة فی ذكر الصحاح الستة، ج 1 ص 264 ، ناشر : دار الكتب التعليمية - بيروت ، الطبعة : الأولى،
2- ابن تيميہ:
ابن تيميہ نے اگرچے اپنی کتب میں ابو حنیفہ کے امام صادق کے شاگرد ہونے کو واضح طور پر بیان نہیں کیا لیکن اس نے واضح کہا ہے کہ مالک بن انس، سفيان بن عيينہ، شعبہ، ثوری، ابن جريج، يحيی بن سعيد وغیرہ نے امام صادق (ع) سے علم حاصل کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ:
فإن جعفر بن محمد لم يجيء بعد مثله و قد أخذ العلم عنه هؤلاء الأئمة كمالك و ابن عيينة و شعبة و الثوری و ابن جريج و يحيى بن سعيد و أمثالهم من العلماء المشاهير الأعيان.
کوئی بھی جعفر ابن محمد ( امام صادق ع) کے بعد انکی مثل نہیں ہے، اہل سنت کی بزرگ شخصیات اور علماء جیسے مالک، سفيان بن عيينہ، [سفيان] ثوری، ابن جريج اور يحيی بن سعيد وغیرہ جیسے مشہور و معروف علماء نے ان سے علم حاصل کیا تھا۔
ابن تيميه الحرانی الحنبلی، (متوفی 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 126 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.
3- محمد بن طلحہ:
اس نے بھی اہل سنت کے چند علماء کو ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے امام صادق (ع) کے علمی درس سے استفادہ کیا تھا:
الإمام جعفر الصادق (عليه السلام) ... هو من عظماء أهل البيت و ساداتهم (عليهم السلام) ذو علوم جمة ، و عبادة موفرة ، و أوراد متواصلة ، و زهادة بينة ، و تلاوة كثيرة ، يتتبع معانی القرآن الكريم ، و يستخرج من بحره جواهره ، و يستنتج عجائبه ، و يقسم أوقاته على أنواع الطاعات ، بحيث يحاسب عليها نفسه ، رؤيته تذكر الآخرة ، و استماع كلامه يزهد فی الدنيا ، و الاقتداء بهديه يورث الجنة ، نور قسماته شاهد أنه من سلالة النبوة ، و طهارة أفعاله تصدع أنه من ذرية الرسالة. نقل عنه الحديث ، و استفاد منه العلم جماعة من الأئمة و أعلامهم مثل : يحيى بن سعيد الأنصاری، ابن جريج، مالک بن أنس، الثوری، ابن عيينة، شعبة ، و أيوب السجستانی ، و غيرهم (رض) و عدوا أخذهم عنه منقبة شرفوا بها و فضيلة اكتسبوها.
امام جعفر صادق اہل بیت میں سے ہیں کہ جن کا علم بہت زیادہ، ہمیشہ عبادت اور یاد خدا میں مصروف رہنے والے، بہت زہد رکھنے والے، قرآن کی زیادہ تلاوت کرنے والے، قرآن کے معانی میں دقت و تحقیق کرنے والے کہ جو قرآن سے علمی جواہرات نکالنے والے، قرآن سے مختلف عجائب کا نتیجہ نکالنے والے، کہ انھوں نے اپنے وقت کو کئی قسم کی عبادات کرنے کے لیے تقسیم کیا ہوا تھا کہ اس وقت میں ہمیشہ اپنے نفس کی اصلاح میں مصروف رہتے تھے۔ ان کا مبارک چہرہ دیکھنے سے آخرت کی یاد تازہ ہو جاتی تھی، ان کا کلام سننے سے انسان کے دل میں دنیا کی محبت کم ہوتی تھی، انکی سیرت پر عمل کرنے سے انسان جنت کے راستے پر چلنے لگ جاتا تھا، ان کے چہرے کا نور اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ وہ انبیاء کی اولاد میں سے ہیں، ان کے نیک اور پاک اعمال اس بات کی علامت تھے کہ وہ رسول خدا (ص) کی نسل میں سے ہیں، ان کے علم سے آئمہ اور بزرگان کی ایک جماعت، جیسے يحيى بن سعيد انصاری، ابن جريج، مالک بن انس، سفيان ثوری، سفيان، ابن عيينہ، شعبہ اور ايوب السجستانی وغيرہ نے استفادہ کیا تھا اور وہ لوگ امام صادق کی شاگردی کو اپنے لیے فخر اور فضیلت شمار کیا کرتے تھے۔
الشافعی، محمد بن طلحة (متوفی652هـ)، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول (ع)، ص 436 ، تحقيق : ماجد ابن أحمد العطية. كتابخانه اهل بيت (ع) کی سی ڈی کے مطابق،
4- محيی نووی:
یہ بھی اہل سنت کے بزرگان کی شاگردی کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں کہ:
روى عنه محمد بن إسحاق و يحيى الأنصاری و مالك و السفيانان و ابن جريج و شعبة و يحيى القطان و آخرون و اتفقوا على إمامته و جلالته و سيادته.
محمد بن اسحاق، يحيى الأنصاری، مالک، دو سفيان، ابن جريج، شعبہ اور يحيى القطان وغیرہ نے امام صادق سے روایت نقل کی ہے اور انکی جلالت، امامت اور بزرگواری پر سب ہی متفق تھے۔
النووی الشافعی، محيی الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفی676 هـ)، تهذيب الأسماء و اللغات، ج 1 ص 155 ، تحقيق: مكتب البحوث و الدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى،
5- خطيب تبريزی:
خطيب تبريزی کہ خود بھی عالم اہل سنت ہے، اس نے اسطرح لکھا ہے کہ:
جعفر الصادق: هو جعفر بن محمد بن علی بن الحسين بن علی بن أبی طالب، الصادق کنيته أبو عبد الله کان من سادات أهل البيت روی عن أبيه وغيره سمع منه الأئمة الأعلام نحو يحيی بن سعيد و ابن جريج و مالک بن أنس و الثوری و ابن عيينة و أبو حنيفة.
جعفر الصادق: کہ وہ جعفر ابن محمد ابن علی ابن الحسين ابن علی بن ابی طالب ہیں، انکا لقب صادق اور کنيت ابو عبد الله ہے. وہ اہل بیت میں سے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد اور دوسرے آئمہ اہل بیت سے روایات کو نقل کیا ہے، اور آئمہ و بزرگان، جیسے يحيی بن سعيد، ابن جريج، مالک بن انس، سفيان ثوری، سفيان بن عيينہ اور ابو حنيفہ نے امام صادق سے روايت کو سنا تھا۔
الخطيب التبريزی، محمد بن عبد الله، (متوفی741 هـ)، الأکمال فی أسماء الرجال، ص 19،
6- ابو المحاسن ظاہری:
یہ حنفی مذہب اور عالم اہل سنت ہے اور اس نے امام صادق کے حضور میں رہنے والے اہل سنت کے چند علماء کا ذکر کیا ہے:
[ما وقع من الحوادث سنة 148] و فيها توفی جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زين العابدين بن الحسين بن علی بن أبى طالب رضی الله عنهم، الإمام السيد أبو عبد الله الهاشمی العلوی الحسينی المدنی ... و كان يلقب بالصابر، و الفاضل، و الطاهر، و أشهر ألقابه الصادق ... و حدث عنه أبو حنيفة و ابن جريج و شعبة و السفيانان و مالك و غيرهم. و عن أبی حنيفة قال: ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد.
وہ حوادث جو سن 148 ہج کے سال میں رونما ہوئے: اس سال جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی زين العابدين ابن حسين بن علی بن ابی طالب نے وفات پائی۔ وہ امام، سید، ابا عبد اللہ، ہاشمی، علوی، حسینی، مدنی تھے۔ انکا لقب صابر، فاضل اور طاہر تھا لیکن سب سے مشھور لقب صادق تھا۔ ان سے بہت سے افراد جیسے ابو حنيفہ، ابن جريج، شعبہ، سفيان بن عيينہ، سفيان، ثوری اور مالک وغيرہ نے حدیث کو نقل کیا تھا، اور ابو حنیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ: میں نے کسی کو جعفر ابن محمد سے زیادہ فقیہ تر نہیں دیکھا۔
الأتابكی، جمال الدين أبی المحاسن يوسف بن تغری بردى (متوفی874هـ)، النجوم الزاهرة فی ملوك مصر و القاهرة، ج 2 ص 68، ناشر: وزارة الثقافة و الإرشاد القومی – مصر.
7- ابن صباغ مالکی:
علی ابن احمد مكی معروف بہ ابن صباغ مالکی کہ عالم اہل سنت تھا، اس نے لکھا ہے کہ:
كان جعفر الصادق ابن محمّد بن عليّ بن الحسين عليهم السلام ... و روى عنه جماعة من أعيان الاُمّة و أعلامهم مثل: يحيى بن سعيد و ابن جريج و مالك بن أنس و الثوری و ابن عيينة و أبو حنيفة و شعبة و أبو أيّوب السجستانی و غيرهم.
جعفر الصادق ابن محمد بن علی بن الحسين عليهم السلام... کہ ان سے امت کے بزرگان کی ایک جماعت جیسے، يحيى بن سعيد، ابن جريج، مالک بن انس، الثوری، ابن عيينہ، ابو حنيفہ، شعبہ اور ابو ايّوب السجستانی وغيرہ نے روایت کو نقل کیا تھا۔
المالكی المکی، علی بن محمد بن أحمد المعروف بابن الصباغ (متوفی885هـ)، الفصول المهمة فی معرفة الأئمة، ج 2 ص 907-908، تحقيق: سامی الغريری، ناشر: دار الحديث للطباعة و النشر مركز الطباعة و النشر فی دار الحديث – قم، الطبعة الأولى،
8- ابن حجر ہيثمی:
اس نے ابو حنیفہ اور اہل سنت کے بزرگان کی شاگردی کے بارے میں اس طرح لکھا ہے کہ:
جعفر ... و روى عنه الأئمة الأكابر كيحيى بن سعيد و ابن جريج و السفيانين و أبی حنيفة و شعبة و أيوب السختيانی.
جعفر صادق [عليه السلام] ... بزرگ علماء، جیسے يحيی بن سعيد، ابن جريج، دو سفيان، سفيان ثوری، سفيان بن عيينہ، ابو حنيفہ، شعبہ اور ابو ايوب سختیانی نے ان حضرت سے روایت کو نقل کیا ہے۔
الهيثمی، ابو العباس أحمد بن محمد بن علی ابن حجر (متوفی973هـ)، الصواعق المحرقة علی أهل الرفض و الضلال و الزندقة، ج 2 ص 586 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركی - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى،
9- شبراوی:
عبد الله بن محمد شبراوی کہ بزرگان شافعی میں سے ہے، اس نے امام صادق کا نام ذکر کرنے کے بعد، شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے مالک بن انس اور ابو حنيفہ کا بھی نام ذکر کیا ہے:
السادس من الائمة جعفر الصادق ذو المناقب الکثيرة و الفضائل الشهيرة روی عنه الحديث کثيرون مثل مالک بن انس و أبو حنيفه و يحيی بن سعيد و ابن جريج و الثوری.
جعفر صادق چھٹے امام کہ جن کے فضائل اور مناقب بہت زیادہ اور مشہور ہیں، ان سے بہت سے محدثین بزرگ، جیسے مالک بن انس، ابو حنيفہ، يحيی بن سعيد، ابن جريج اور ثوری وغیرہ نے حدیث کو نقل کیا ہے۔
الشبراوی الشافعی، عبد الله بن محمد بن عامر، الإتحاف بحب الأشراف، 54 ، دار النشر: مصطفی البابی الحلبی و أخويه – مصر،
10- شبلنجی شافعی:
مومن بن حسن شبلنجی کہ جو اہل سنت کے بزرگان میں سے ہے، اس نے اپنی کتاب نور الابصار میں اسطرح لکھا ہے کہ:
روی عنه جماعة من أعيان الآئمة و أعلامهم کيحيی بن سعيد و مالک بن أنس و الثوری و ابن عيينة و أبی حنيفة و أيوب السختيانی و غيرهم.
آئمہ کی ایک جماعت نے جیسے يحيی بن سعيد، مالک بن انس، ثوری، ابن عيينہ، ابو حنيفہ اور ابو ايوب سختيانی وغيرہ نے ان سے روایت کو نقل کیا ہے۔
شبلنجی الشافعی، حسن بن مومن، نور الابصار فی مناقب آل بيت النبی المختار، ص 297 ، قدم له: دکتور عبد العزيز سالمان، المکتبة التوفيقية،
11- زركلی:
خير الدين زرکلی نے بھی لکھا ہے کہ:
جعفر بن محمد الباقر بن علی زين العابدين بن الحسين السبط، الهاشمی القرشی، أبو عبد الله، الملقب بالصادق: سادس الآئمة الاثنی عشر عند الإمامية. كان من أجلاء التابعين. و له منزلة رفيعة فی العلم. أخذ عنه جماعة، منهم الإمامان أبو حنيفة و مالك. و لقب بالصادق لأنه لم يعرف عنه الكذب قط، له أخبار مع الخلفاء من بنی العباس و كان جريئا عليهم صداعا بالحق.
جعفر ابن محمد باقر ابن علی زين العابدين ابن حسين کہ جو رسول خدا (ص) کے نواسے، وہ بنی ہاشم کے قبيلہ قريش سے تھے، انکی كنيت ابا عبد الله اور لقب صادق اور شیعوں کے بارہ آئمہ میں سے چھٹے امام تھے، انکا شمار بزرگ تابعین میں سے ہوتا ہے، علم و معرفت میں انکا بہت بلند مقام تھا، ایک بہت بڑی جماعت نے ان سے علم حاصل کیا ہے، کہ ان میں سے امام ابو حنیفہ اور امام مالک کہ جو اہل سنت کے امام بھی ہیں، وہ بھی شامل ہیں۔ انکا لقب صادق ہے کیونکہ کسی نے ہرگز ان سے جھوٹ نہیں سنا تھا۔ ان کے بارے روایات میں ذکر ہوا ہے کہ وہ ساری زندگی دین حق کی سر بلندی کے لیے بنی عباس کے خلفاء کے ساتھ جہاد اور جنگ کی حالت میں رہے۔
الزركلی، خير الدين (متوفی1410هـ)، الأعلام، ج 2 ص 126 ، ناشر: دار العلم للملايين - بيروت – لبنان، چاپ: الخامسة، كتابخانه اهل بيت (ع) کی سی ڈی کے مطابق،
12- علی بن محمد دخيل الله:
ڈاکٹر علی بن محمد دخيل الله وہابی کہ جو دور حاضر کا محقق اور مصنف ہے، اس نے کتاب الصواعق المرسلہ کی تحقیق کے حاشیے میں اسطرح لکھا ہے کہ:
هو جعفر بن محمد الباقر بن علی زين العابدين بن الحسين السبط الهاشمی القرشی الملقب بالصادق. ولد سنة 80 بالمدينة و هو سادس الائمة الاثنی عشرية عند الامامية، من اجلاء التابعين، أخذ عنه جماعة منهم الإمامان مالک و أبو حنيفة. و توفی فی المدينة سنة 148.
وہ جعفر بن محمد باقر بن علی زين العابدين ابن حسين، کہ جو رسول خدا (ص) کے نواسے، وہ قبيلہ بنی ہاشم اور قريش میں سے تھے، ان کا لقب صادق تھا. وہ سال 80 ہجری کو مدينہ میں پیدا ہوئے۔ وہ امامیہ کے بارہ آئمہ میں سے چھٹے امام ہیں، انکا شمار بزرگ تابعین میں سے ہوتا ہے۔ ایک جماعت کہ ان میں امام مالک اور ابو حنیفہ بھی ہیں، نے ان سے کسب علم کیا تھا۔ وہ سال 148 ہجری کو مدينہ میں وفات پا گئے تھے۔
ابن قيم الجوزية، محمد بن أبی بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين (متوفی: 751هـ)، الصواعق المرسلة على الجهمية و المعطلة، ج 1 ص 616 ، المحقق: علی بن محمد دخيل الله، دار النشر: دار العاصمة، الرياض – المملکة العربية السعودية،
13- عبدالرحمن شرقاوی:
شرقاوی جو ایک معروف مصری مصنف ہے، اس نے کتاب آئمة الفقہ التسعہ میں حضرت صادق کے ایک مخصوص باب میں، ابو حنیفہ کے ان سے بہت مشکل سوالات اور ان حضرت کے تمام سوالات کے جوابات دینے کو نقل کرنے کے بعد، اس نے لکھا ہے کہ:
و صحبه أبو حنيفة النعمان بعد ذلک مدة سنتين يتلقی عنه العلم.
ابو حنيفہ اس واقعہ کے بعد دو سال تک امام صادق کے ساتھ رہا اور ان سے علم حاصل کرتا رہا۔
الشرقاوی، عبد الرحمن، آئمة الفقه التسعة، ص 49 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
اور اسی طرح حضرت صادق کے اسی مخصوص باب کے آخر میں، اس نے اسطرح لکھا ہے کہ:
توفی الامام جعفر الصادق الذی درس عليه الامام مالک و روی عنه أبو حنيفة النعمان و تعلم منه و صحبه سنتين کاملتين قال عنهما أبو حنيفة النعمان: لولا السنتان لهلک النعمان.
امام صادق [سلام الله عليه] دنیا سے اس حالت میں گئے کہ مالک نے ان سے علم حاصل کیا تھا اور ابو حنیفہ نے ان سے روایت نقل کی اور ان سے علم بھی حاصل کیا تھا، اور ابو حنیفہ پورے دو سال ان کے ساتھ رہا اور ان دو سالوں کے بارے میں اسطرح کہتا ہے کہ: اگر وہ دو سال نہ ہوتے تو، نعمان [يعنی ابو حنيفہ] ہلاک ہو جاتا۔
الشرقاوی، عبد الرحمن، آئمة الفقه التسعة، ص 51 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
اسی نے ایک دوسری جگہ واضح طور پر کہا ہے کہ امام صادق (ع) ابو حنيفہ کے استاد تھے:
و کان يقاوم کما قاوم أستاذه و صديقه الإمام جعفر الصادق من قبل البدعة تزيين التقشف و الانصراف عن هموم الحياة و ترک الأمر کله لطبقة بعينها تملک و تستغل و تحکم و تستبد.
ابو حنيفہ اپنے استاد اور دوست امام صادق کی طرح بدعت کے مقابلے پر، مشکل و سختی کو خوبصورت ظاہر کرنے پر، اپنے نفس پر درویشوں کی طرح ظلم کرنے پر اور ظاہری دنیا سے دوری اختیار کرنے پر، ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا تھا اور اس [ابو حنيفہ] نے ان گروہوں کی تمام خصوصیات و صفات کو اور ان کے ذریعے غلط استفادہ کرنے اور غلط بات کرنے کو ترک کیا ہوا تھا۔
الشرقاوی، عبد الرحمن، آئمة الفقه التسعة، ص 60 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
اسی اس نے مالک کے بارے میں لکھا ہے کہ:
أفاد الإمام مالک من صحبة الإمام جعفر و أخذ عنه کثيرا من طرق استنباط الحکم و وجوه الرأی و أخذ عنه البعض الاحکام فی المعاملات و أخذ الاعتماد علی شاهد دون شاهدين إذا حلف المدعی اليمين و کما أخذ من الإمام الصادق جعفر بن محمد اخذ من أبيه الإمام محمد الباقر بن علی زين العابدين بن الحسين بن علی بن أبی طالب.
امام مالک نے امام صادق کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت علمی استفادہ کیا تھا اور بہت سے احکام کو استنباط کر کے ان سے نتیجہ نکالنے کو امام سے سیکھا تھا اور اسی طرح معاملات کے احکام اور دعوی کرنے والا جب قسم کھائے تو اس وقت ایک گواہ یا ایک سے کم گواہ پر اکتفاء کرنے کے احکام کو بھی اس نے امام سے سیکھا تھا، جس طرح کہ امام جعفر صادق [سلام الله عليہ] نے اپنے والد محمد باقر ابن علی زين العابدين ابن علی ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب [سلام الله عليهم اجمعين] سے علم اور احکام کو حاصل کیا تھا.
الشرقاوی، عبد الرحمن، آئمة الفقه التسعة، ص 87 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
اسی طرح اس نے مالک کے امام باقر اور امام صادق سلام الله عليهما کے درس میں حاضر ہونے کے بارے میں اور اسکی اہل بیت (ع) کے ساتھ اعتقاد میں مخالفت کے بارے میں لکھا ہے کہ:
لزم مالک مجلس الامام محمد الباقر و ابنه الامام جعفر و تعلم منهما علی الرغم من ان الرأيه فی الإمام علی بن أبی طالب کرم الله وجهه لا يرضی آل البيت و شيعتهم فقد فضل عليه أبابکر الصديق و عمر بن الخطاب و عثمان بن عفان رضی الله عنهم و جعل الامام عليا کرم الله وجهه و رضی الله عنه کسائر الصحابة.
مالک امام محمد باقر اور انکے فرزند امام جعفر صادق کے درس کی مجلس میں حاضر ہوتا اور ان سے علم کسب کرتا تھا، در حالیکہ اسکی نظر امام علی بن ابی طالب کے بارے میں، اھل بیت اور انکے شیعوں کی نظر کے مخالف تھی، کیونکہ مالک ابوبکر، عمر اور عثمان کو علی پر برتری دیتا تھا اور امام علی کو دوسرے عام صحابہ کی طرح قرار دیتا تھا۔
الشرقاوی، عبد الرحمن، آئمة الفقه التسعة، ص 87 ، دار النشر: دار الشروق، 1411 هـ، 1991 م.
شرقاوی کے اس کلام سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) کو دوسرے صحابہ پر برتری دینے کا نظریہ خود اہل بیت (ع) کے زمانے میں بھی موجود تھا۔
14- عبد الحليم الجندی:
عبد الحليم الجندی کہ جو دور حاضر کے اہل سنت کا استاد اور محقق ہے، اس نے لکھا ہے کہ:
فلقد تتلمذ أبو حنيفة و مالک للإمام الصادق، و تأثر کثيرا به ،سواء فی الفقه أو فی الطريقة. و مالک شيخ الشافعی و الشافعی يدلى إلى أبناء النبی بأسباب من العلم و الدم. و قد تتلمذ له أحمد بن حنبل سنوات عشرة. فهؤلاء آئمة أهل السنة الأربعة، تلاميذ مباشرون أو غير مباشرين للإمام الصادق.
ابوحنيفه اور مالک بن انس امام صادق [سلام الله عليه] کے شاگرد تھے۔ وہ علم فقہ ہو یا سیر و سلوک کا علم ہو، وہ دونوں امام سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ مالک، شافعی کا استاد ہے، اور شافعی لوگوں کو رسول خدا کے فرزندان کی طرف راہنمائی کرتا تھا کہ ان سے تعلقات برقرار کریں اور انکے علم سے استفادہ کریں۔ احمد بن حنبل نے دس سال اس سے علم حاصل کیا۔ یہ اہل سنت کے چار امام ہیں کہ جہنوں نے مستقيم اور غير مستقيم امام صادق [سلام الله عليہ] سے علم حاصل کیا ہے۔
الجندي، عبد الحليم، الإمام جعفر الصادق، ص3 ، دار المعارف، مصر، قاهره.
15- محمد ابو زہره:
محمد ابو زہره عالم اور مصنف اہل سنت ہے، اس نے لکھا ہے کہ:
فآئمة السنة الذين عاصروه تلقوا عنه و أخذوا، أخذ عنه المالک رضی الله عنه، و أخذ عنه طبقة مالک، کسفيان بن عيينة و سفيان الثوری، و غيرهم کثير و أخذ عنه أبو حنيفة مع تقاربهما فی السن، و اعتبره أعلم أهل الناس، لأنه أعلم الناس باختلاف الناس، و قد تلقی عليه رواية الحديث طائفة کبيرة من التابعين، منهم يحيی بن سعيد الانصاری و أيوب السختيانی و ابان بن تغلب و أبو عمرو بن العلاء و غيرهم من آئمة التابعين فی الفقه و الحديث.
اہل سنت کے آئمہ کہ جو ان [امام صادق سلام الله عليہ] کے ہمعصر تھے، انھوں نے ان سے علم حاصل کیا تھا۔ مالک اور اسکے ہمعصروں نے جیسے، سفيان بن عيينہ اور سفيان ثوری وغیرہ کہ بہت زیادہ ہیں۔ ابوحنیفہ نے بھی ان سے کسب علم کیا ہے، در حالیکہ ان دونوں کی عمر ایک دوسرے کے نزدیک تھی، اور ابوحنیفہ ان کو اس زمانے کا عالم ترین انسان کہتا تھا کیونکہ وہ لوگوں کے درمیان علمی اختلافات کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، اور بہت زیادہ تابعین نے بھی ان سے روایت کو نقل کیا ہے کہ ان میں سے، يحيی بن سعيد انصاری، ايوب سختيانی، ابان بن تغلب اور ابو عمرو بن علاء وغيرہ کہ یہ سب علم فقہ اور علم حدیث میں بزرگ تابعین میں سے تھے۔
ابو زهرة، محمد، الامام الصادق حياته و عصره – آرائه و فقهه، ص 66،
اس نے ایک دوسری جگہ اعتراف کیا ہے کہ اہل سنت کا اتفاق اور اجماع ہے کہ مالک، امام صادق کا شاگرد تھا:
و إنه من المتفق عليه أخذ أن المالک رضی الله عنه کان يختلف إليه، و يأخذ عنه.
مالک کا امام صادق کے پاس آنا جانا اور ان سے علم حاصل کرنا، یہ ایک ایسی بات ہے کہ اہل سنت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے۔
ابو زهرة، محمد، الامام الصادق حياته و عصره – آرائه و فقهه، ص 89
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اہل سنت کے بزرگان اور آئمہ مستقیم اور غیر مستقیم امام صادق کے شاگرد ہیں، اگرچے انھوں نے علم فقہ اور علم عقائد میں مکمل طور پر اپنے استاد کی پیروی نہیں کی، لیکن پھر بھی وہ سب امام صادق کے شاگرد شمار ہوتے ہیں۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں سب اہل سنت نے تمام مسائل اور تمام احکام میں شیعوں کی طرح امام صادق کی اطاعت اور پیروی کرنے کی بجائے، امام صادق اور دوسرے اہل بیت کے آئمہ کو چھوڑ کر ان کے شاگردوں کی پیروی کی ہے ؟؟؟
نتيجہ:
یہاں تک یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ اہل سنت کے علماء اور بزرگان، حتی ان کے چار امام یعنی ابوحنيفه، مالک بن انس، محمد بن ادريس شافعی اور احمد بن حنبل، مستقیم اور غیر مستقیم امام صادق کے شاگرد تھے، اور یہ عادی اور طبیعی بات تھی کہ وہ اپنے استاد کے شاگرد ہونے کے ناطے سے زرارہ، ہشام اور محمد ابن مسلم وغیرہ کی طرح علم فقہ اور علم عقائد میں مکمل طور پر امام صادق (ع) کی پیروی کرتے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا اور انھوں نے امام صادق کا شاگرد ہونے کے باوجود اپنے علمی راستے کو اپنے استاد سے مکمل طور پر جدا کر لیا، جس طرح کہ بہت سے صحابہ نے خود اہل سنت کی کتب کے مطابق، نہ فقط یہ کہ رسول خدا (ص) کے مکتب کی مکمل طور پر پیروی نہ کی بلکہ رسول خدا کی طرف ہذیان وغیرہ کی نا مناسب نسبتیں دیں۔ قطعی اور یقینی طور ان لوگوں کا ایسا کرنا، اس میں رسول خدا یا امام صادق کا کوئی قصور یا عیب نہیں ہے، بلکہ یہ سب ان لوگوں کا قصور اور سستی ہے کہ جہنوں نے ان معصوم اور خدائی راہنماؤں کی پیروی نہیں کی، لہذا عقلی اور نقلی طور پر سب اہل سنت کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ شاگردوں کی پیروی کرنے کی بجائے، شیعوں کی تمام احکام اور تمام عقائد میں علم لدنی اور وسیع علم رکھنے والے اہل بیت (ع) کے معصوم آئمہ کی پیروی کریں، تا کہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔
التماس دعا