امام صادق ع نے فرمایا: امام زمان (عج) کو سلام کرو
سؤال:
امام صادق (ع) کے زمانے میں امام زمان (عج) ابھی دنیا میں نہیں آئے تھے تو پھر کیسے انھوں نے فرمایا ہے کہ امام زمان (عج) کو سلام کرو ؟
جواب:
اولا:
سلام کا معنی، کسی کی سلامتی کی دعا کرنا ہے اور دعا اسکے لیے بھی کی جا سکتی ہے جو ابھی موجود ہو اور فی الحال موجود نہ ہو اور بعد میں موجود ہو گا۔ اہل سنت کی کتب لغت و تفسیر کے مطابق بھی سلام کا معنی، سلامتی کی دعا کرنا ہے۔
معني السلام هو الدعاء بالسلامة
سلام کا معنی سلامتی کی دعا کرنا ہے۔
الإيضاح في علوم البلاغة ج1/ص347
اسی طرح کی عبارت مندرجہ ذیل کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے:
التفسير الكبير ج21/ص202-
الكشاف ج3/ص29-
روح المعاني ج12/ص94-
زاد المسير ج9/ص194-
فتح الباري ج11/ص13
پس جب تم کسی کو سلام کرتے ہو تو اصل میں تم نے اسکی سلامتی اور محفوظ رہنے کی دعا کی ہے اور ایک شخص کے لیے دعا کرنے کے لیے اسکا سامنے ہونا موجود نہیں ہے۔ اہل سنت کی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنے زمانے میں موجود نہ ہونے والے افراد کے لیے بھی دعا کی ہے:
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن قال سمعت عبد الله بن لهيعة قال ثنا دراج أبو السمح ان أبا الهيثم حدثه عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلي الله عليه وسلم ان رجلا قال له يا رسول الله طوبي لمن رآك وآمن بك قال طوبي لمن رآني وآمن بي ثم طوبي ثم طوبي ثم طوبي لمن آمن بي ولم يرني قال له رجل وما طوبي قال شجرة في الجنة مسيرة مائة عام ثياب أهل الجنة تخرج من أكمامها
ایک شخص نے رسول خدا سے عرض کیا کہ کیا جنتی درخت طوبی اسکے لیے ہے کہ جس نے آپکو دیکھا ہو اور آپ پر ایمان لایا ہو ؟ (طوبی کا لفظ دعا کے لیے بولا جاتا ہے) رسول خدا نے فرمایا: جنتی درخت اسکے لیے ہے کہ جس نے مجھے دیکھا ہو اور مجھ پر ایمان لایا ہو اور جنتی درخت اسکے لیے بھی ہے کہ جس نے مجھ پر ایمان لایا ہو لیکن مجھے دیکھا نہ ہو۔ اس شخص نے حضرت سے عرض کیا: طوبی کیا ہے ؟ حضرت نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے کہ جسکا طول ہزار مہینوں کے برابر ہے کہ اہل بہشت کا لباس اس درخت کی شاخوں سے نکلتا ہے۔
مسند أحمد بن حنبل ج3/ص71
یہی روایت ان کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے:
المستدرك علي الصحيحين ج4/ص96
صحيح ابن حبان ج16/ص213
مسند أبي يعلي ج2/ص519
اور چند دوسری کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے اور کتب میں بہت سے علماء نے اس روایت کو صحیح و معتبر کہا ہے:
ثانيا:
مورد بحث روایات میں سوال ایسے کیا گیا ہے کہ حضرت امام زمان کے زمانے میں کیسے انکو سلام کریں ؟ تو امام صادق نے جواب فرمایا: کہو السلام عليك يا بقية الله یعنی معنی یہ ہے کہ جب تم ان امام کے زمانے میں ہو گے تو ان امام کو ایسے سلام کرنا۔
اسکے علاوہ ہم امام زمان کی ولادت سے پہلے ان حضرت کی زیارت کرنے سے شبہے کو دور کرنے کے لیے، ایسے جواب دیتے ہیں کہ:
ثالثا:
تمام افراد کا اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے، ایک روحانی وجود ہوتا ہے اور وہ سمجھنے و جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اہل سنت اس آیت میں:
وَإذ أخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَأشهَدَهُم عَلَي أنفُسِهِم ألَستُ بِرَبِّكُم قَالُوا بَلَي،
اور جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم سے انکی ذریت کو لیا (یعنی خلق کیا) اور انکو ان پر ہی شاہد بنایا (یعنی ان سے اقرار لیا) کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا: ہاں، (آپ ہمارے پروردگار ہیں)
(سوره أعراف آيه 172)
اس بات کا اقرار کیا ہے، اگرچہ انھوں نے جو روایات اس بارے میں ذکر کی ہیں، وہ شیعہ عقائد سے منافات رکھتی ہیں، لیکن یہ روایات عالم ذر کو ثابت کرتی ہیں:
أنا قتيبة بن سعيد عن مالك عن زيد بن أبي أنيسة عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد عن مسلم بن يسار الجهني أن عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم علي أنفسهم ألست بربكم قالوا بلي شهدنا أن تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين فقال عمر سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يسأل عنها فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم إن الله عز وجل خلق آدم فمسح ظهره بيمينه فاستخرج منه ذرية فقال خلقت هؤلاء للجنة وبعمل أهل الجنة يعملون ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية فقال خلقت هؤلاء للنار وبعمل أهل النار يعملون ...
عمر ابن خطاب سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا ۔۔۔۔۔ عمر نے کہا کہ رسول خدا سے سنا ہے کہ ان سے بھی اس بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا: خداوند نے آدم کو خلق کیا پھر اپنے دائیں ہاتھ کو انکی کمر پر پھیرا تو اس سے اسکی ذریت (اولاد) کو خارج کیا، پھر کہا میں نے انکو جنت کے لیے خلق کیا ہے اور وہ اہل بہشت والے (نیک) اعمال انجام دیں گے، پھر دوبارہ اسکی کمر پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ذریت کو خارج کیا پھر کہا میں نے انکو جہنم کے لیے خلق کیا ہے اور وہ اہل جہنم والے (برے) اعمال انجام دیں گے ۔۔۔۔۔
سنن النسائي الكبري ج6/ص347
عالم ذر کے بارے میں عام و کلی روایات کے علاوہ، رسول خدا اور آئمہ اطہار کے بارے میں اس دنیا میں آنے سے پہلے، کتب شیعہ و سنی میں بہت سی روایات موجود ہیں:
حدثنا أبو همام الوليد بن شجاع بن الوليد البغدادي حدثنا الوليد بن مسلم عن الأوزاعي عن يحيي بن كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال قالوا يا رسول الله متي وجبت لك النبوة قال وآدم بين الروح والجسد قال أبو عيسي هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث أبي هريرة لا نعرفه إلا من هذا الوجه
رسول خدا سے سوال کیا گیا کہ آپ کب نبوت پر مبعوث ہوئے تھے ؟ فرمایا: جب آدم روح و بدن کے درمیان تھا، (یعنی جب روح و بدن ایک دوسرے سے جدا تھے) ۔۔۔۔۔ یہ حدیث حسن و صحیح (معتبر) ہے۔
سنن الترمذي ج5/ص585
حدثنا أبو بكر قال حدثنا عفان قال حدثنا وهيب قال حدثنا خالد الحذاء عن عبد الله بن شقيق أن رجلا سأل النبي صلي الله عليه وسلم متي كنت نبيا قال كنت نبيا وآدم بين الروح والجسد
رسول خدا سے سوال کیا گیا کہ آپ کب نبوت پر مبعوث ہوئے تھے ؟ فرمایا: جب آدم روح و بدن کے درمیان تھا، (یعنی جب روح و بدن ایک دوسرے سے جدا تھے)۔
مصنف ابن أبي شيبة ج7/ص329
محمد بن يحيي ، عن محمد بن أحمد ، عن محمد بن الحسين ، عن أبي سعيد العصفوري عن عمر [ و ] بن ثابت ، عن أبي حمزة قال : سمعت علي بن الحسين عليه السلام يقول : إن الله خلق محمدا وعليا وأحد عشر من ولده من نور عظمته ، فأقامهم أشباحا في ضياء نوره يعبدونه قبل خلق الخلق ، يسبحون الله ويقدسونه وهم الأئمة من ولد رسول الله صلي الله عليه وآله.
ابی حمزہ کہتا ہے کہ میں نے امام سجاد کو فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک خداوند نے اپنی عظمت کے نور سے محمد، علی اور 11 نور کو انکی ذریت سے خلق کیا پھر انکو اپنے نور کی روشنی میں سائے کی صورتوں میں قرار دیا کہ وہ اسکی عبادت کرتے تھے کہ ابھی تک کوئی بھی مخلوق خلق نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔
الكافي - الشيخ الكليني - ج 1 - ص 530 - 531
علي بن محمد ومحمد بن الحسن ، عن سهل بن زياد ، عن محمد بن الحسن بن شمون ، عن عبد الله بن عبد الرحمن الأصم ، عن كرام قال : حلفت فيما بيني وبين نفسي ألا آكل طعاما بنهار أبدا حتي يقوم قائم آل محمد ، فدخلت علي أبي عبد الله عليه السلام قال : فقلت له : رجل من شيعتكم جعل لله عليه ألا يأكل طعاما بنهار أبدا حتي يقوم قائم آل محمد ؟ قال : فصم إذا يا كرام ولا تصم العيدين ولا ثلاثة التشريق ولا إذا كنت مسافرا ولا مريضا فإن الحسين عليه السلام لما قتل عجت السماوات والأرض ومن عليهما والملائكة ، فقالوا : يا ربنا ائذن لنا في هلاك الخلق حتي نجدهم عن جديد الأرض بما استحلوا حرمتك ، وقتلوا صفوتك ، فأوحي الله إليهم يا ملائكتي ويا سماواتي ويا أرضي اسكنوا ، ثم كشف حجابا من الحجب فإذا خلفه محمد صلي الله عليه وآله واثنا عشر وصيا له عليهم السلام وأخذ بيد فلان القائم من بينهم ، فقال : يا ملائكتي ويا سماواتي ويا أرضي بهذا أنتصر [ لهذا ] - قالها ثلاث مرات .
کرام سے نقل ہوا ہے کہ میں نے قسم کھائی کہ دن کو کھانا نہ کھاؤں ( روزہ رکھوں گا) یہاں تک کہ قائم آل محمد ظہور فرمائیں، پھر میں امام صادق کے پاس گیا اور ان حضرت سے عرض کیا کہ آپکے ایک شیعہ نے ایسی نذر مانی کی ؟ امام نے فرمایا: پس تم روزہ رکھو اے کرام، لیکن عید فطر اور عید قربان کو روزہ نہ رکھنا، حج میں ایام تشریق میں تین دن روزہ نہ رکھنا اور جب مسافر و مریض ہو تو بھی روزہ نہ رکھنا، پھر فرمایا: بے شک جب امام حسین کربلا میں شہید ہو گئے تو زمین و آسمان و تمام موجودات اور ملائکہ نے گریہ کیا، پھر کہا خدایا ہمیں اجازت دے کہ ہم لوگوں کو حرام کاموں کے انجام دینے اور نیک لوگوں کے قتل کرنے کی وجہ سے، انکو ایسا ہلاک کر دیں کہ وہ صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں۔ خداوند نے ان پر وحی نازل کی کہ اے میرے ملائکہ، اے میرے آسمانوں اور اے میری زمین تھوڑا صبر و حوصلے سے کام لو، پھر اپنے حجابوں میں سے ایک حجاب کو ہٹایا تو اسکے پیچھے رسول خدا اور انکی آل سے 12 افراد تھے اور اسکی طرف اشارہ کیا کہ جو انکے درمیان کھڑا تھا، پھر فرمایا اے میرے ملائکہ، اے میرے آسمانوں اور اے میری زمین، میں اس شخص کے ذریعے سے مدد کروں گا، (امام حسین کی) اور تین مرتبہ اس بات کا تکرار کیا۔
الكافي - الشيخ الكليني - ج 1 - ص 534
پس ہم نے دیکھا کہ امام زمان کو سلام کرنا نہ صرف امام صادق کے زمانے میں بلکہ ان حضرت پر سلام کرنا، رسول خدا کی ظاہری خلقت و بعثت سے پہلے بھی ممکن تھا۔
اسی طرح اہل سنت نے اس آیت "وَاسأل مَن أرسَلنَا مِن قَبلِكَ
"( سوره زخرف آيه 45)
کے ذیل میں روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: تمام انبیاء میری نبوت اور علی ابن ابی طالب کی ولایت کے عہد پر میرے بعد مبعوث ہوئے ہیں۔
حدثنا أبو الحسن محمد بن المظفر الحافظ قال حدثنا عبد الله بن محمد بن غزوان قال ثنا علي بن جابر قال ثنا محمد بن خالد بن عبد الله قال ثنا محمد بن فضيل قال ثنا محمد بن سوقة عن إبراهيم عن الأسود عن عبد الله قال قال النبي صلي الله عليه وسلم يا عبد الله أتاني ملك فقال يا محمد وسل من أرسلنا من قبلك من رسلنا علي ما بعثوا قال قلت علي ما بعثوا قال علي ولايتك وولاية علي بن أبي طالب قال الحاكم تفرد به علي بن جابر عن محمد بن خالد عن محمد بن فضي ولم نكتبه الا عن بن مظفر وهو عندنا حافظ ثقة مأمون،
معرفة علوم الحديث ج1/ص95
یہ روایات واضح طور پر بیان کر رہی ہیں کہ رسول خدا اور آئمہ اطہار کا معنوی، روحانی اور نورانی وجود تمام انبیاء کی خلقت سے پہلے کا موجود تھا لیکن اس عالم مادی و ظاہری میں اسباب کے فراہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایک کر کے دنیا میں تشریف لاتے رہیں ہیں۔ پس جب آئمہ کسی نہ کسی عالم میں اور کسی نہ کسی وجود میں موجود رہیں ہے تو پھر انکو سلام کرنا اور انکی سلامتی کے لیے دعا بھی ممکن ہو گا اور یہ ایک فالتو اور بیہودہ کام شمار نہیں ہو گا۔
التماس دعا۔۔۔۔۔