امام جعفر صادق علیہ السلام کا تعارف
امام جعفر صادق علیہ السلام کا تعارف
امام جعفر صادقؑ 17 ربیعالاول سنہ83 ہجری کو مدینہ میں متولد ہوئے ۔اربلی، کشف الغمۃ، نے آپؑ کی تاریخ ولادت کو سنہ 80 ہجری لکھا ہے۔آپؑ کے والد ماجد امام محمد باقرؑ اور والدہ ماجدہ ام فروہ بنت قاسم ہیں۔آپؑ کا سب سے مشہور لقب "صادق” ہے آپؑ کے دیگر القاب میں صابر، طاہر اور فاضل شامل ہیں اور آپؑ کی مشہور کنیت ابوعبدالله (آپ کے بیٹے عبدالله افطح کی نسبت) ہے جب کہ آپؑ کو ابو اسماعیل (آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی نسبت) اور ابوموسی (آپ کے فرزند ارجمند امام موسی کاظمؑ کی نسبت) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش:
اللّہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۔ ( اللہ ہر چیز کا خلق کرنے والا ہے) اور ”
اللَّہُمَّ أَنْتَ ثِقَتِی فَقِنِی شَرَّ خَلقِكَ”۔ ( خداوندا تو میرا سہارا اور قابل اعتماد ہے پس اپنی مخلوق کے شر سے مجھے محفوظ رکھ ) منقول ہیں
شیخ مفید کے مطابق امام صادق علیہ السلام کی اولاد میں ازواج میں حمیدہ بنت صاعد یا صالح سے تین اولادیں امام کاظم -اسحاق اور محمد تھے
جبکہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن حسین سے اسماعیل، عبدالله افطح اور ام فروة تھی عبدالله نے باپ کی شہادت کے بعد امامت کا دعوی کیا اور اس کے پیروکار فطحیہ کے نام سے معروف ہوئے۔ اسماعیل بن جعفر امام صادقؑ کی زندگی میں فوت ہوئے لیکن ایک جماعت نے اسے قبول نہیں کیا اور اسماعیلیہ گروہ تشکیل دیا
دیگر ازواج میں ام ولد نامی ازدواج کا زکر ملتا ھے جن کے بطن سے عباس، علی، اسماء و فاطمہ تھے (شیخ مفید کے بقول ان میں سے ہر ایک فرزند کی ماں ام ولد ہیں)
آپؑ کی امامت 34 سالوں (114-148ھ) پر محیط تھی جس میں بنی امیہ کے آخری پانچ خلفاء یعنی ہشام بن عبدالملک سے آخر تک اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور دوانیقی بر سر اقتدار رہے ہیں
آپؑ کی امامت کے دوران چونکہ بنی امیہ اپنے زوال کے ایام سے گذر رہی تھی اس لئے آپؑ کو دوسرے آئمہ کی نسبت زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔
آپؑ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔ اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
امام صادقؑ کو اہل سنت کے فقہی پیشواؤں کے ہاں بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ ابوحنیفہ آپؑ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و معرفت کا حامل سمجھتے تھے۔ بنی امیہ کی حکومت رو بزوال ہونے نیز شیعوں کی جانب سے حاکم وقت کے خلاف قیام کرنے کی دعوت کے باوجود آپؑ نے قیام نہیں فرمایا۔
ابومسلم خراسانی اور ابوسلمہ کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق درخواست کو بھی آپؑ نے رد فرمایا۔
اسی طرح اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپؑ شریک نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپؑ اپنے پیروکاروں کو بھی قیام کرنے سے پرہیز کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود حاکمان وقت کے ساتھ بھی آپؑ کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے آپؑ تقیہ کیا کرتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔
امام صادقؑ نے زیادہ سے زیادہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں رہنے، درپیش شرعی سوالات کا جواب دینے، وجوہات شرعیہ کے دریافت اور اپنے پیروکاروں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے وکالتی نظام تشکیل دیا۔ اس نظام میں آپ کے بعد آنے والے اماموں کے دور میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ غیبت صغریٰ کے دور میں عروج پر پہنچ گیا۔ آپ کے دور امامت میں غالیوں کی فعالیتوں میں بھی شدت آگئی۔ جس کی وجہ سے آپؑ نے اس سوچ کے خلاف نہایت سخت اقدامات انجام دیئے یہاں تک کہ غالیوں کو کافر اور مشرک قرار دیا۔
بعض منابع میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے حکومت وقت کے حکم پر عراق کا سفر کیا اس دوران کربلا، نجف اور کوفہ بھی گئے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔
شیعہ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے معرفی فرمایا تھا، لیکن امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر آپؑ نے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی مقرر کیا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آ گئے جن میں اسماعیلیہ، فَطَحیہ اور ناووسیہ وغیرہ شامل ہیں۔
امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے جن میں اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں:
زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی
الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر
پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای
اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔