امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت عباس علیہ السلام کی زندگی کے نشیب و فراز

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

حضرت عباس علیہ السلام کی زندگی کے نشیب و فراز
تمہید:
ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں نشیب و فراز سے دوچار ہوتا ہے، وہ مختلف قسم کی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ عام طور پر لوگ مشکلات کے سامنے ہارمان کر اپنے آپ کو حالات کے بہاؤ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے درمیان کچھ اس طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو معاشرے میں موجود سخت ترین حالات اور کٹھن سے کٹھن لمحات میں بھی پائداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ذرّےبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی صحیح طرح سے معرفت حاصل کی اور اپنی زندگی امامت اور ولایت کی اطاعت میں گزاری ۔ ائمہ اطہار علیھم السلام کو اپنی زندگی میں نمونہ اور آیڈیل قرار دیا ۔ ایثار و وفا کے پیکر، حیدر کرار علیہ السلام کی تمنا ، ام البنین سلام اللہ علیھا کی آس ، حسنین علیھما السلام کے قوت بازو ، زینب و ام کلثوم (علیہما السلام) کی ڈھارس ، قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کا شمار انہی افراد میں ہوتا ہے
آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ان سب کا بیان ایک مقالہ میں ممکن نہیں ۔ آپ علیہ السلام کو تین معصوم اماموں علیھم السلام کا زمانہ درک کرنے کا شرف حاصل رہا اور آپ علیہ السلام نے کماحقہ ہر ایک سے کمال فیض حاصل کیا۔ پوری زندگی میں ایک لمحے کے لئے بھی امام حق کی اطاعت میں آپ کے قدم نہیں ڈگمگائے۔
مدینے میں ام البنین سلام اللہ علیھاکے چاند کا طلوع:
حضرت عباس علیہ السلام کے سن ولادت میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے لیکن ان اقوال میں سے دو قول مشہور ہیں کہ آپ 4شعبان المعظم سنہ 23 یا 26ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
یہ بات حکمت سے خالی نظر نہیں آتی کہ امام حسین علیہ السلام نے 3شعبان المعظم کو اپنے وجود سے اس جہان خاکی کو منور فرمایا اور 4شعبان کو حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام اس دنیا میں آئے یوں ان دو ہستیوں کا آپس میں ایک خاص ارتباط سے انکار نا ممکن ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کو اپنے مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی:
جب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت کی بشارت دی گئی تو آپعلیہ السلام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علی علیہ السلام کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی علیہ السلام اپنے مستجاب دعا کو بد و تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے، چونکہ حضرت علی علیہ السلام اپنی دوررس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کے بیٹا عباس علیہ السلام گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام نے اپنی پوری حیات بابرکت میں ایک لحظہ کے لئے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علی علیہ السلام نے اپنے نو مولود کا نام عباس(یعنی بپھرا ہوشیر)رکھا۔
عباس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لئے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لئے آپ کو مانگا تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لئے نمونہ عمل رہے۔
امام علی علیہ السلام نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعدحضرت عباس کو فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین علیہ السلام کی آغوش میں دیا۔ آقا حسین علیہ السلام نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسین علیہ السلام کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباس علیہ السلام نےولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھیا کے چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے۔
ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی
اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی
میرا دل کہہ رہا ہے شاید حضرت عباس علیہ السلام مولا حسین علیہ السلام کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسین علیہ السلام کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزوں پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔
حضرت عباس علیہ السلام مختلف مراحل میں:
حضرت عباس علیہ السلام نے اپنی زندگی میں بڑےنشیب و فراز دیکھے ۔ جب آپ نے اس دنیا میں قدم رکھا خاندان عصمت و طہارت کڑے وقت سے گذر رہا تھا۔ اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پر فراز و نشیب زندگی کو پانچ مرحلوں میں بیان کریں۔
۱۔ حضرت عباس علیہ السلام ماں کی آغوش میں:
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل کے مشورے سے جو علم انساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمہ کلا بیہ سے عقد کیا اور اپنے خالق سے آرزو کی کہ پروردگارا ! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کردے جو اسلام اور توحید کی سر بلندی کے لئے کربلا کے خونی معرکے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت علی علیہ السلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فاطمہ کلابیہ سلام اللہ علیھا کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے ان علیہ السلام کو عطا کر دیے جس کی بناءپر آپ کو ام البنین سلام اللہ علیھا کا لقب ملا، ام البنین سلام اللہ علیھا کے چاروں بیٹے شجاعت و دلیری میں زبان زد عام و خاص تھے ،اور سبھی نے معرکہ کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا ، لیکن عباس علیہ السلام ان سب میں نمایاں تھے، ماں نے ایک خاص نہج پر ان کی تربیت اور پرورش کی چونکہ وہ جانتی تھیں کہ حضرت عباس علیہ السلام ہی امیرالمؤمنین علیہ السلام کی مستجاب تمنا ہیں، اور انہیں ایک خاص مقصد اور ہدف کی تکمیل کے لئے آمادہ کرنا ہے ، لہذا بچپنے سے ہی عباس علیہ السلام کی تربیت میں ایثار و فداکاری اور اپنے امام علیہ السلام کے سامنے اطاعت اور سر تسلیم خم کرنے جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھردی تھیں۔
ماں کے سامنے انو کھا واقعہ:
ایک بار جناب ام البنین سلام اللہ علیھا مادر حضرت عباس علیہ السلام تشریف فرما تھیں، اور حضرت عباس علیہ السلام کا بچپن تھا حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازؤوں کی جانب خیرہ ہوئے ، محو فکر ہیں اور پھر ان بازؤں پر بو سے دینے لگے، ام البنین سلام اللہ علیھا نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کیا؛مولا! یہ کیسا طریقہ محبت ہے ؟ یہ آستین کیوں الٹی جارہی ہے ، یہ بازؤوں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟! کیا ان میں کسی طرح کا عیب و نقص پایا جاتا ہے؟! امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: ام البنین علیہ السلام اگر صبر و تحمل سے کام لو تو بتاؤں گا؟
"تمہارا یہ لال کربلا میں شہید کردیا جائیگا اور اس کے شانے قلم ہوں گے، پروردگارانہیں دو پر عنایت کرے گا جس سے یہ حضرت جعفر طیارعلیہ السلام کی طرح جنت میں پرواز کرے گا‘‘۔
یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف امام علیہ السلام حق کی نصرت ، وہ کتنی عظیم ماں ہوگی کہ جس نے نصرت امام علیہ السلام کے لئے اپنی ممتاقربان کردی اور آنسو نہ بہائے۔
2۔ عباس علیہ السلام تربیت گاہ علی علیہ السلام میں:
اسلامی تاریخ کے تلخ ترین لمحات میں حضرت عباس علیہ السلام نے آنکھیں کھولیں حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت اگر 23 سن ہجری کو درست مانی جائے تو آپ خلیفہ دوم کی حکومت کے آخری سالوں میں پیدا ہوئے اسی طرح آپ علیہ السلام نے عثمان کے دور خلافت کو اچھی طرح سے اپنی تیزبین نگاہوں کے سامنے سے گزارا ،عثمان کی اقرباء پروری،اور خیرخواہ لوگوں کی نصیحتوں کو خلیفہ کی طرف سے بد بینی سے تعبیر کرنے جیسی صورت حال کو حضرت عباس علیہ السلام نے قریب سے حس کیا اور جب انقلابیوں کے اصرار کے باوجود مروان کو ان کی جائگاہ سے نہ ہٹایا گیا تو انہوں نے خلیفہ کو محاصرے میں لےلیا اور عثمان کے قتل کے درپے ہوئے اور پانی روٹی کی ترسیل روک دی،تاریخ کے ان سخت حالات میں حضرت عباس علیہ السلام دور سے صرف تماشائی بن کر نہ رہے بلکہ ہمیشہ اپنے باپ علی علیہ السلام کے ساتھ سائے کی طرح رہے اور معاشرے میں کردار ادا کیا۔ جب عثمان کے محل اقامت کا محاصرہ کیا گیا ، حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل میں خلیفہ تک پانی اور غذا پہنچائی۔ عباس نے حادثہ قتل عثمان کو بھی دیکھا اور ان تمام حالات سے اپنے لئے آگاہی اور عبرت کا سامان مہیا کیا۔
آپ علیہ السلام نے لوگوں کو حکومت عدل علوی کی برقراری کی طرف میلان اور اپنے باپ کے حق میں لوگوں کی بیعت کے مناظرکا بھی مشاہدہ کیا، اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جانچا اور پرکھا کہ جنہوں نے مال دنیا اور ثروت اندوزی کی خاطر حکومت حق کی حمایت نہیں کی اور یا وہ لوگ جنہوں نے اوّل امام علی علیہ السلام کی بیعت کی پھر جب دیکھا حکومت علوی میں اقربا پروری، ثروت اندوزی اور بیت المال لوٹنے کی کوئی گنجائش نہیں بیعت توڑی اور جنگ جمل کے ذریعے امام حق علیہ السلام کا استقبال کیا۔حضرت عباس علیہ السلام بنوامیہ کی دغا بازیوں کو بھی سمجھ رہے تھے جو قتل عثمان کو بہانہ بنا کر علوی حکومت پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور خونخواہی عثمان کے نعرے کے ذریعےمظلوم نمائی کر رہے تھے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کر رہے تھے۔حضرت عباس علیہ السلام اپنے باپ علی مرتضیٰ علیہ السلام اور اپنے دونوں بھائیوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان حالات میں بہترین کردار ادا کرتے رہے اور ایک لحظے کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹے،ایسا کرتے بھی کیسے آخر حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام جیسے باپ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی،علی علیہ السلام کے نزدیک حکومت اور مال دنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی۔وہ خلیفہ مسلمین ہونے کے باوجود ان کی خوراک خشک نان جو ہوا کرتی تھی،اور کبھی لذیذ کھانا تناول نہیں فرمایا۔
حضرت علی علیہ السلام پر مسلط کردہ جنگوں میں بھی حضرت عباس علیہ السلام ہمیشہ اپنے باپ علیہ السلام کے ساتھ کوہ استوار کی طرح رہے ۔ بعض نقلوں کے مطابق جنگ صفین میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے، امام علی علیہ السلام نے مختف جنگوں میں عباس علیہ السلام کو میدان میں جانے نہیں دیا شاید امام علیہ السلام انہیں ایک خاص معرکہ کے لئے جو 61 ہجری میں وقوع پذیر ہونا تھا ، محفوظ کر رہے تھے۔ حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت کو بھی تحمل کیا اور بستر شہادت میں دوسرے فرزندوں کی طرح حضرت عباس علیہ السلامنے بھی اپنے باپ کی وصیتوں کو سنا اور ان کو ہمیشہ کے لئے اپنے سینے میں حفظ کیا اور ان پر عمل پیرا رہے۔
3۔حضرت عباس علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں:
سنہ 40 ہجری 21 رمضان المبارک آل علی علیہ السلام کے لئے نہایت غمگین گھڑی تھی؛چونکہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کا وار کاری ثابت ہوا اور یوں خورشید عدالت نے غروب کیا۔اور لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی،عین اسی وقت معاویہ اور اس کے کارندے سیم ورز کے ذریعے رؤسا قبائل کو خریدنے میں سرگرم عمل ہوئے اور امام حسن علیہ السلام کی بیعت کو کمزور اور لوگوں کی عقیدت کو امام حسن علیہ السلام کے لئے سست کرنے لگے اس کا فوری اثریہ ہوا کہ کوفہ اور اس کے اطراف سے امام علی علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ معاویہ سے جنگ کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی لیکن آج ان میں سے صرف بارہ ہزار افراد کو(وہ بھی بڑی زحمت اور تگ و دوسے) جمع کیا۔
(ماہ بی غروب ، ص73)
یوں لوگ انتظار سے پہلے ہی اپنے امامعلیہ السلام کو تنہا چھوڑ کر ان کے پاس سے ہٹ گئے ، یہاں تک کہ ان کے چچیرے عبیداللہ بن عباس (جو سپاہ امام علیہ السلام کے کمانڈر تھے ) کو بھی بھاری رقم رشوت دیکر خرید لیا۔ عبیداللہ بن عباس کی خیانت سے سپاہ امام کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ،دیکھتے ہی دیکھتے امامعلیہ السلام کے ایک اور کمانڈر بنام کندی 4 ہزار سپاہیوں کے ساتھ (جو شہر انبار میں مستقر تھے)معاویہ سے جاملے ،اس سے بڑھ کر ان بے ایمان لوگوں نے مدائن کے نزدیک (ساباط)نامی گاؤں میں امام حسن علیہ السلام کے خیمے پر حملہ کر کے آپ علیہ السلام کے سجادہ کو پاؤوں تلے سے باہر کھینچ نکالا اور آپ علیہ السلام کو زمین پر گرا دیا اور خنجر سے آپ علیہ السلام کی ران پر زخم لگادیا، لوگوں کی بے وفائی ، معاویہ کے سیم وزر کے سامنے بک کر امام علیہ السلام سے خیانت اور حتی آپ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہونا۔
ایسے عوامل تھے کہ امام حسن علیہ السلام نے 25 ربیع الاول 41 ہجری کو معاویہ کے ساتھ صلح کی، اسی طرح حکومت عدل کہ جس کی امام علی علیہ السلام نے بنیاد ڈالی تھی جو غریب اور بینوا لوگوں کی خوش بختی کی نوید تھی آج اختتام کو پہنچی ،پھر کیا تھا معاشرہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ ان تمام حالات اور مشکلات میں حضرت عباس علیہ السلام اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کھڑےہیں۔لوگوں کو اصل حقیقت کی شناخت کی طرف دعوت دے رہے تھے،پکار پکار کر لوگوں کو خواب غفلت سے بیدارکرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جہالت اور خوف کی قبر میں سوئے لوگ جاگ نہ سکے۔ لیکن جب معاویہ کے کار ندے جیسےسمرۃ بن جندب،بسر بن ارطاۃ اور زیاد بن ابیہ کے تیغ تلے قتل عام ہوئے تو حکومت عدل علوی یاد آئی لیکن "اب ہوتا کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت”
4۔ حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں:
28 صفر سال 50ہجری کو امام حسن علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی ، امام حسین علیہ السلام ، ابوالفضل العباس علیہ السلام اور دوسرے سارے بنی ہاشم نے عزت و جلال کے ساتھ امام حسن علیہ السلام کے بدن پاک کو مسجدالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تشیع کیا تا کہ نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار میں دفن کریں ، لیکن عائشہ نے امام علیہ السلام کے مخالفوں کی مددسے سبط رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنازے کو روکا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار میں دفنانے سے منع کیا اور امام علیہ السلام کے جنازے پر تیر باران کرکے ان کے جنازے کی بے حرمتی کی ، اس منظر کو دیکھ کر حضرت عباس علیہ السلام کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی ہوئے ، حضرت عباس علیہ السلام کو دیکھتے ہوئے جوانان بنی ہاشم نے بھی تلواریں نیام سے نکالنا چاہیں لیکن حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت ہمیشہ اطاعت امام علیہ السلام کے سایہ تلے تھی ، امام حسین علیہ السلام کے حکم پر حضرت عباس علیہ السلام نے بنی ہاشم کے دوسرے جوانوں سمیت اپنی تلواروں کو نیام میں رکھا ؛ چونکہ امام حسن علیہ السلام کی وصیت تھی کہ ان کے وفات کے بعد اور دفن کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے ، آپ علیہ السلام کا جنازہ بقیع کی طرف لے جایا گیا اور وہیں پر آپ کا مرقد مطہر بنا ۔
حضرت عباس علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اور سخت ترین حالات میں بھی آپ علیہ السلام نےمحبت و وفاداری کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفاء ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام اپنے بھیا امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد دس سال تک معاویہ کی حکومت کے دوران مدینہ میں رہے اور تبلیغ دین اور تدریس معارف الہی میں مشغول رہے اور حضرت عباس علیہ السلام ہمیشہ سائے کی طرح امام حسین علیہ السلام کے ساتھ رہے ، انہوں نے کبھی بھی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے بھائی ہونے کی حیثیت سے نہیں دیکھا ، بلکہ ان کو فرزندان رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بتول سلام اللہ علیھا و امام و مقتدائے خود سمجھ کر ان کی اطاعت و نصرت میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے ۔ اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اپنے امام علیہ السلام کی اطاعت اور ان کے اہداف کی تکمیل میں نچھاور کیا ۔ تبھی تو ائمہ اطہار علیھم السلام کی لسان مبارک میں آپ علیہ السلام عبد صالح سے ملقب ہوئے ۔
(قہرمان علقمہ ، ص ۱۸۹)
امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلبی کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کا کردار
جب معاویہ اس دنیا سے چل بسے اور یزید لعین مسند خلافت پر بھٹایا گیا اور عالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیات سے بیعت کا درپے ہوا ، حاکم مدینہ ولید بن عقبہ نے امام حسین علیہ السلام کو رات کے وقت، دارالامارۃ میں طلب کیا ، امام علیہ السلام ان کی نیت سے واقف تھے لہذا آپ علیہ السلام اپنے قوت بازو عباسعلیہ السلام اور دوسرے جوانان بنی ہاشم کے ہمراہ دارالامارۃ پہنچے اور انہیں ولید کے گھر کے باہر مامور کیا اور کہا کہ جب میری آواز اونچی ہوجائے تو گھر میں داخل ہونا ، اور خود ولید کے گھر میں داخل ہوئے ۔ ولید نے امام عالی مقام علیہ السلام کا استقبال کیا اور معاویہ کی موت کی خبر سنائی ، ساتھ ہی امام علیہ السلام کو یزید کا حکم سنایا جس میں اہل مدینہ سے بالعموم اور امام حسین علیہ السلام سے بالخصوص بیعت لینے کا کہا گیا تھا ۔ امام علیہ السلام نے ولید کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : ہم اہلبیت نبوت ہیں صبح ہوجائے اور سب لوگوں کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کریں گے ۔ مروان بن حکم ( لعین ) جو ولید کے پاس موجود تھا کہنے لگا :یا امیر انہیں جانے نہ دیجئے ، اگر یہاں سے باہرچلے گئے تو پھر آپ کے ہاتھ آنا مشکل ہے ، یہیں ان سے بیعت طلب کرو ، نہ ماننے کی صورت میں ان کی گردن اڑاؤ ! امام حسین علیہ السلام نے مروان پر ایک تحقیر آمیز نگاہ ڈالی اور فرمایا :
’’اے پسر زرقا (نیلی آنکھیں والی ماں کے بیٹا)! آیا تو مجھے قتل کرے گا یا یہ ؟ ( پاس بیٹھے ہوئے ولید کی طرف اشارہ کیا )پھر امام علیہ السلام نے ولید سے کہا ” اے امیر ہم اہلبیت نبوت ، معدن رسالت ، محل رفت و آمد ملائکہ ہیں ۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و فاجر ، شرابخوار ، ناحق قاتل نفس ۔۔۔ ہے کبھی بھی مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ۔۔۔”
یوں امام علیہ السلام نے صراحتا اپنی عدم بیعت کا اعلان کردیا ۔ مروان اور ولید نے حضرت عباس علیہ السلام کی قیادت میں جوانان بنی ہاشم کے تلواروں کی چھنکار سنی تو امام عالی مقام علیہ السلام سے متعرض ہونے کی ہمت نہیں کی ، حضرت امام حسین علیہ السلام جوانان بنی ہاشم ( جن کی سربراہی حضرت عباس علیہ السلام فرمارہے تھے )کے جھرمٹ میں محلہ بنی ہاشم پہنچے ۔
امام علیہ السلام نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اور مکہ ،حرم امن الہی کی طرف کوچ کا حکم دیا ، بہت ساری بزرگ شخصیات اس سفر میں امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی سے محروم رہیں لیکن حضرت عباس علیہ السلام نہ فقط ان مشکل حالات میں امام علیہ السلام کے ساتھ رہے بلکہ انہوں نے امام علیہ السلام کے تمام امور اور اہل خانہ کی سرپرستی اپنے ذمے لی اور اس کاروان کی علمداری کاحق نبھایا تمام ممکنہ خطرات کے سامنے سینہ سپر ہوکر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے۔
(زندگانی حضرت ابوالفضل علیہ السلام ، ص ۱۱۸،۱۲۰)
۵۔ حضرت عباس علیہ السلام میدان کربلا میں:
امام حسین علیہ السلام ۳ شعبان ( یعنی اپنے روز ولادت) سنہ ۶۰ ہجری وارد مکہ ہوئے اور۸ذیحجہ تک حرم امن الہی میں عبادت ، دین اسلام کی تبلیغ اور فاسد حکمرانوں کی کارستانیوں سے زائرین بیت اللہ الحرام اور حجاج کرام کو مطلع کرتے رہے۔ اسی اثناء اہل عراق نے آپعلیہ السلام کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کوفہ آنے کی دعوت دی اور بے شمار خطوط لکھ کر آپ علیہ السلام پر حجت تمام کی ۔ ۸ ذی الحجہ کو امام علیہ السلام جان گئے کہ عمر و بن سعید بن العاص بہت سارے یزیدی سپاہیوں سمیت حاجیوں کی بھیس میں امام عالی مقام علیہ السلام کے قتل کی غرض سے وارد مکہ ہوئے ہیں ، امام علیہ السلام نے بیت اللہ کی حرمت کی پاسبانی اور جس تحریک ( بنی امیہ ، خاص کر یزید کی شخصیت اور ان کی حکومت سے پردہ برداری) کا آغاز کیا تھا اس کی حفاظت کی غرض سے کوفہ کا رخ اختیار کیا تا کہ اہل عراق کی دعوت کی اجابت بھی ہوجائے ۔
حسینی کاروان حضرت عباس علیہ السلام کی علمداری اور قیادت میں منزلیں طے کرتا ہوا ۲ یا ۳ محرم سنہ ۶۱ ہجری کو دشت کربلا پہنچا ، اس پورے سفر میں حضرت عباس علیہ السلام نے کاروان حسینی میں شامل تمام افراد خاص کر اہل حرم کی آسائش کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جنگ صفین میں ابن شعثاء اور ان کے سات بیٹوں کو تہ تیغ کرنے والا شکاری شیر آج کربلا میں ہے ، حر بن یزید ریاحی امام علیہ السلام کا راستہ روک رہے ہیں ؛ ثانی حیدر ، قوت بازوئے حسین علیہ السلام حضرت عباسعلیہ السلام بپھرے ہوئے شیر کی طرح انگڑائی لیتے ہیں لیکن مولا و آقا حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کو سمجھا بجھا کر آرام کررہے ہیں ، امام علیہ السلام کو خیموں کی جابجائی کا کہا جارہا ہے عباس طیش میں آتے ہیں لیکن ان کی شجاعت امام وقت کی تابع ہوتی ہے ، ان کا ہر فعل و عمل ولایت اور امامت کی اطاعت اور تابعداری میں انجام پاتا ہے ۔ جب شمر امان نامہ عبیداللہ بن زیاد کو عباس اور ان کے بھائیوں کو دینے کے لئے آواز دے رہا ہوتا ہے لیکن حضرت عباس علیہ السلام شمر کی آواز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے لیکن حکم امام علیہ السلام پر ان سے ہمکلام ہوتے ہیں اور امان نامے کو رد کرکے شمر اور ابن زیاد کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں ۔
یوں تو حضرت عباس علیہ السلام کی پوری زندگی معرکہ آرا ہے لیکن کربلا میں ان کے کارنامے بلندی کی اوج کو پہنچے ، علی علیہ السلام کے مستجاب تمنا اور ام البنین کی تربیت کا ثمر اپنے ہدف ( شہادت) کے نزدیک ہورہا ہے ۔ تین دن سےحضرت زہراءعلیھا السلام کے لعل اور ان کے اہل و عیال پر پانی کی بندش رہی لیکن حضرت عباس علیہ السلام نے کئی بار نہر فرات پر قبضہ جمایا لیکن مولا حسین علیہ السلام کی پیاس اور ننھے بچوں کی العطش کی صدائیں یاد کرکے اپنی پیاس بھلایا اور ایک گھونٹ پانی پیئے بغیر خیام حسین علیہ السلام کی طرف پانی لے کر لوٹ آئے ۔
۹ محرم کی سہ پہر:
۹ محرم سنہ ۶۱ ہجری سہ پہر کا وقت ہے فوج اشقیاء ریحانہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب پیکار کی غرض سے بڑھنے لگتی ہیں ۔ حضرت عباس علیہ السلام فورا امام عالی مقام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ آقا دشمن آپ کے سو آرہے ہیں ، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میرے بھیا ، قربان جاؤں جاؤ اور پتہ کرو وہ کیا چاہتے ہیں ؟ امام علیہ السلام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس علیہ السلام کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کردیتی ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالی ترین مرتبہ پر فائز ہیں ۔
حضرت ابوالفضل علیہ السلام تیس صحابی جن میں زہیر بن قین ، حبیب بن مظاہر شامل تھے ، یزیدی فوج کے پاس پہنچے اور اس سے اس کا مقصد دریافت کیا کہ یہ فوجی تحرکات کس لئے انجام دئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے بے شرمانہ جواب دیا : عبیداللہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے یا تم لوگ یزید کی بیعت کرو ورنہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ ، حضرت عباس علیہ السلام نے ان کے ارادوں سے امام علیہ السلام کو آگاہ کیا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا :
’’دیکھو بھیا ان کے پاس جاؤ اور آج رات کے لئے جنگ ٹالنے کی مہلت مانگو تاکہ یہ رات میں قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھ کر گزاروں ۔ جب امام علیہ السلام کا یہ پیغام عمر سعد تک پہنچایا گیا تو کافی چون و چرا کے بعد ایک رات کی مہلت مل گئی ‘‘۔
(زندگانی حضرت ابوالفضل العباسعلیہ السلام، ص ۱۷۰)
شب عاشورا امام علیہ السلام کے دل ہلادینے والے کلمات:
محرم کی دسویں رات امام حسین علیہ السلام ، ان کے خاندان اور اصحاب کے لئے بڑی سخت رات تھی امام حسین علیہ السلام نے اس رات اپنے تمام اعوان و انصار کو یکجا کیا اور اس حساس موقع پر فرمایا :
’’میں اپنے اصحاب اور خاندان سے بڑھ کر وفادار اور بہتر کسی کے خاندان اور اصحاب کو نہیں سمجھتا ، اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے لیکن آگاہ رہو میں گمان نہیں کرتا کہ آج ان دشمنوں کی طرف سے ہمارے لئے کوئی کل نصیب ہوجائے ، میں نے آپ سب کو اجازت دی اور اپنی بیعت کو آپ سے اٹھایا تا اینکہ آسودگی اور بغیر ملامت کے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاکر اپنا راستہ اختیار کرو اور چلے جاؤ ‘‘۔
(زندگانی حضرت ابوالفضل العباسعلیہ السلام،ص ۱۷۵ ، نقل از تاریخ ابن اثیر ، ج۳ ، ص ۲۸۵)
لیکن ابھی امام علیہ السلام کا خطبہ آخر کو نہیں پہنچا تھا ایک جوش و جذبہ اہلبیت و اصحاب امام علیھم السلام کے اندر وجود میں آیا ، حضرت ابوالفضل علیہ السلام نے سب سے پہلے سکوت کو توڑا اور اہلبیت کی نمائندگی میں بولے : آقا کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ آپ علیہ السلام کے بعد ہم زندہ رہیں۔
(تاریخ طبری ، ج۶ ، ص ۲۳۸)
اور اصحاب کی طرف سے سب سے پہلے مسلم ابن عوسجہ نے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔
حضرت عباس علیہ السلام کی آخری آس جو پوری نہ ہوسکی:
عصر عاشور امام حسین علیہ السلام کے تمام یار و انصار شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہوئے ۔ صبح سے سہ پہر تک حضرت عباس علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جوانان بنی ہاشم اور اصحاب با وفاء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نڈھال ہوگئے تھے اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھ چکے تھے ۔ مرحوم حبیب اللہ شریف کاشانی ، کتاب تذکرۃ الشہداء میں لکھتے ہیں کہ حضرت عباس علیہ السلام کے دو صاحبزادے محمد و قاسم بھی کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر انہیں بھائی کی تنہائی اور چھوٹے بچوں کی شدت پیاس سے العطش کی صدائیں برداشت نہیں ہوپارہی تھیں ۔ حضرت عباس علیہ السلام نے میدان میں جانے کی اجازت چاہی لیکن امام والا مقام علیہ السلام نے یہ کہہ کر ٹالا کہ آپ میرے لشکر کے سپہ سالار اور علمدار ہیں ۔ امام علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کی موجودگی سے احساس توانمندی کرتے تھے اور دشمن بھی عباس علیہ السلام کی موجودگی میں خیام حسینی پر حملہ کی جرأت نہیں کرسکتے تھے ۔ حضرت عباس علیہ السلام کے اصرار پر آپ کو فقط بچوں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی فراہم کرنے کی اجازت ملی ۔ آپ علیہ السلام مشکیزہ ساتھ لئے نہر فرات کی طرف بڑھے ، دشمن کا محاصرہ توڑ کر نہر فرات پہنچے ، ایک چلو پانی لیا پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ۔ لیکن آپ نے پانی نہر فرات پر پھینکا اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: اے عباسعلیہ السلام یہ تیرے آئین (وفاء) کے خلاف ہے کہ تو اپنے مولا حسین علیہ السلام اور ان کے ننھے بچوں اور مخدرات سے پہلے اپنی پیاس بجھائے ۔ مشکیزہ پانی سے بھر کر خیام حسینی کی طرف چل دیئے ، فوج اشقیاء مانع بنی لیکن ثانی حیدر ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے گئے ، عباس کی ایک آس تھی کہ کسی طرح پانی کا مشکیزہ خیام حسینی تک پہنچادیں لیکن ایک بزدل نے پیچھے سے گھات میں لگا کر آپ علیہ السلام کا دایاں بازو جدا کیا لیکن آپ نے مشکیزہ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک بد ذات شقی نے چھپ کر پیچھے سے بائیں بازو کو بھی شہید کر ڈالا لیکن شجاعت کے پیکر عباس علیہ السلام نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری ،مشکیزہ کو دانتوں سے پکڑ کر پاؤں سے دفاع کرتے ہوئے آگے بڑھے، لیکن دشمنوں نے ایک دفعہ مشکیزے پر تیروں کی بارش کی اور پانی زمین کربلا میں گرا ، یوں عباس کی آس ٹوٹ گئی ۔ ایک ظالم نے گرز جفا کو آنحضرت علیہ السلام کے سر اقدس پر مارا اور آپ اسی حالت میں زمین کربلا پرگرے درحالیکہ دونوں بازو جدا ہوچکے تھے ؛ مولا حسین علیہ السلام کو آخری سلام دیا ۔ امام حسین علیہ السلام آپ علیہ السلام کی شہادت پر بہت روئے ۔ عرب شاعر نے کہا :
احق الناس ان یبکی علیه فتی ابکی الحسین بکربلاء
اخوه وابن والده علی ابوالفضل المضرج بالدماء
و من واساه لا یثنیه شئی و جادله علی عطش بماء
ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین علیہ السلام روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی علیہ السلام کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل علیہ السلام ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کی اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کرکے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔
(انا لله و انا الیه راجعون)
سایٹ رسالت سے ماخوذ

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک