امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا اجمالی تعارف
امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا اجمالی تعارف
1۔ولادت با سعادت :
۳ شعبان 4 ھ کی صبح تھی جب امام حسین علیہ السلام گلشن پنجتنؑ کے پھول بن کر صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بطن سے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور دنیا کو اپنے وجود پر نور سے منور کیا۔امیر کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا گھر خوشیوں اور شکر و حمد کی صداؤں سے بھر گیا۔جب ولادت کی خبر سنی تو آنحضرتؐ دولت سرا میں تشریف لائے اپنی محبت اور الفت کے غیر متحمل جذبات کو ایک دم کے لیے بھی نہ روک سکے۔ گھر آتے ہی اپنے پارہ جگر کو طلب فرمایا۔ اور آغوش میں لے کر دیر تک اس معصوم بچے کو اپنی زبان مبارک چوساتے رہے اس کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ نے امام حسین علیہ السلام کو گود میں بیٹھا کر پیار کر رہے تھے کہ جبرائیلؑ زمین پر اتر آئے اور درود و سلام کے بعد انہوں نے آنحضرتؐ کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی جس پر آنحضرتؐ زار و قطار رونے لگے۔ بحار الانوار کی روایت کے مطابق رسول خداؐ نے جب شہادت امام حسین علیہ السلام کی خبر اپنی بیٹی فاطمہؑ کو سنائی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کا تذکرہ کیا تو حضرت زہراؑ نے سخت گریہ کرتے ہوئے پوچھا: بابا جان ! یہ مصبتس کب نازل ہوگی؟ آنحضرتؐ نے فرمایا ۔ یہ مصیبت اس وقت آئے گی جب میں تم اور علی علیہ السلاماس دنیا میں نہ ہوں گے جب یہ سنا تو ان کے رونے میں اضافہ ہوا اور کہا اے بابا جان ! میرے بیٹے حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر کون گریہ کرے گا؟ ان کے لیے کون عزاداری کرے گا؟
آپؐ نے فرمایا : میری امت کی عورتیں میرے اہل البیتؑ کی عورتوں پر گریہ کریں گی اور ان کے مرد میرے اہل البیتؑ کے مردوں پر گریہ کریں گے ۔ وہ ہر سال عزاداری منائیں گے۔ یہ سلسلہ ہر سال نسل در نسل تا قیامت چلتا رہےگا۔ تم میری امت کی عورتوں اور میں اپنی امت کے مردوں کی شفاعت کروں گا۔ جو کوئی بھی میرے بیٹے حسینؑ پر گریہ کرے گا میں اسے ہاتھ سےپکڑ کر بہشت میں داخل کروں گا۔
رسم نام گذاری
امالی صدوق کے مطابق امام سجادؑ سے مروی ہے کہ ولادت امام حسینؑ کے بعد جناب سیدہ نے عرض کیا۔ یا علیؑ بچے کانام کیا ہوگا؟
حضرت علیؑ نے فرمایا: زہرا !جس ہستی نے حسنؑ کا نام رکھا تھا وہی اس بچے کا بھی نام رکھے گا میں اپنے آقا سے کیسے سبقت کر سکتا ہوں ۔ آنحضرتؐ تشریف لائے تو بی بیؑ نے کہا بابا جان ! حسنؑ کا نام بھی آپ نے رکھا تھا ۔ اب اس بچے کا نام بھی آپ ہی تجویز فرمادیں ؟
آپؐ نے فرمایا بیٹی نہ حسنؑ کا نام میں نے رکھا تھا اور نہ اس مولود کا نام میں رکھوں گا۔ حسنؑ کا نام بھی اللہ نے ہی رکھا تھا اور اس بچے کا نام بھی وہی رکھے گا میں اللہ سے کیسے سبقت کر سکتا ہوں ۔ میں انتظار کر رہا ہوں جیسے ہی جبرائیل آکر بتائے میں تجھے آگاہ کر دوں گا۔
آپؐ اسی انتظار میں تھے کہ جبرائیل ؑنے آکر اللہ کی طرف سے درود و سلام کے بعد عرض کیا کہ : ارشاد قدرت کے مطابق علی علیہ السلام کو آپؐ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی لہذا جس طرح بڑے بیٹے کا نام فرزند ہارون کے نام پر ہے اسی طرح چھوٹے بچے کا نام بھی ہارون کے چھوٹے بچے کے نام پر شبیر رکھو جس کا عربی میں ترجمہ حسینؑ ہے۔
آپؑ کے القابات میں : سید، سبط اصغر، شہید اکبر اور سید الشہداء زیادہ مشہور ہیں اور کنیت ابو عبداللہ ہے جس سے عام طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔
2۔سایہ رحمت دو عالم میں آپ ؑ کی پرورش:
پغمبر اسلامؐ کی گود جو اسلام کی تربیت کا گہوارہ تھی ان دو بچوں کی پرورش کا مرکز بنی ، ایک حسنؑ اور دوسرے حسینؑ ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک طرف نانا کا اسوہ حسنہ تھا جو بانی اسلام تھے تو دوسری طرف پدر بزرگوار جو مجاہد و محافظ اسلام تھے اور تیسری طرف مادر گرامی جو طبقہ خواتین کے لیے تعلیمات پیغمبر ؐ کی عملی ترجمان بننے کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔
بقول اقبال
مزرع تسلیم را حاصل بتولؑ مادراں را اسوۂ کا مل بتول ؑ
( تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل بتولؑ ہیں، ماؤں کے لئے اسوۂ کامل بتول ؑ ہیں)
مسجد میں پانچوں وقت نماز با جماعت پیغمبرؐ کے بصیرت آفریں مواعظ اور خطبے، مسلمانوں کاذوق و شوق اور جوش و خروش اور گھر میں رات دن عبادت و ذکر الہیٰ کی آوازیں، تکبیر کی صدائیں ، وحی کی آیتیں،غزوات کے تذکرے، اسلام کو ترقی دینے کے مشورے یا پھر غریبوں کی خبر گیری، کمزوروں کی دستگیری اور مظلموں کی داد رسی بس ہر وقت یہی ذکر ہے یہی فکر ، یہی قصے ہیں اور یہی کہانیاں ایک طرف فطرت کے مخصوص عطیے ، دوسری طرف یہ نورانی اور روحانی ماحول اور اس پر تربیت پیغمبرؐ ایسے بلند معلم کہ جن کا مقصد رسالت ہی قرآن کے اعلان کے مطابق تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت مقصد تھا۔ اور آپ ؐنے خود بھی اعلان فرمایا تھا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل میرا اصل نصب العین ہے پھر کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہؐاپنے اہل بیت کی تربیت میں اس فرض کو نظر انداز کر دیتے جو بحیثیت معلم اخلاق کے ، بحیثیت بزرگ خاندان کے اور بحیثیت ایک پیغمبرؐ کے آپ پر عائد ہوتا تھا چنانچہ ختم المرتبت ؐ نے اسی کمسنی ہی کے عالم میں ان بچوں کو اپنے اخلاق و اوصاف کا نمونہ بنایا اور ان آئینوں میں جو قدرت کی طرف سے کمال کا جوہر لے کر آئے تھے اپنی سیرت کا پورا عکس اتار دیا اپنی ذات و صفات کی مخصوص بلندیوں کا یہ نتیجہ تھا کہ رسول اللہؐاپنے نواسوں کے ساتھ غیر معمولی محبت رکھتے تھے۔ ( شہید انسانیت ص ۶۸، ، علامہ سید علی نقی النقوی)
رسول اکرمؐ کی ہمراہی میں زندگی کے ابتدائی ۶ سال میں امام حسینؑ نے جس طرح کی زندگی گزاری اس کا قیاس بعد کی زندگی پر کسی انداز سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اکرمؐ کے دور میں اگر کبھی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تو آپؐ نے فوراً گودی میں اٹھا لیا کہ مجھے حسینؑ کے گریہ سے تکلیف ہوتی ہے ۔ اگر مسجد میں آکر گر پڑے تو آپؐ نے خطبہ قطع کر کے منبر سے اتر کر اٹھا لیا اور فرمایا کہ اے لوگو! اسے پہچانو ، اس کا احترام کرو اور وقت پڑنے پر اس کی مدد کرو۔ اگر کبھی پشت مبارک میں بیٹھ گئے تو آپؐ نے سجدہ کو طول دے دیا۔ اگر کبھی حسین ؑ نے بچہ آہو کا تقاضا کیا تو حضور اکرمؐ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوئے جب تک بچہ آہو حسینؑ کے حوالے نہیں کیا ۔ اگر مباہلہ کے میدان میں لے گئے تو اپنی گودی میں اٹھا لیا تاکہ حسینؑ کو راستہ چلنے کی زحمت بھی نہ ہو۔ اگر آغوش میں ابراہیم جیسا فرزند دیا اور قدرت نے کہہ دیا کہ ایک کو اختیار کرو ۔ تو ابراہیم کو قربان کر کے حسینؑ کو بچا لیا۔ ( واضح رہے کہ ابراہیم بن ماریہ قبطیہ کی ولادت ۸ھ میں ہے اور وفات ۱۰ھ میں ہوئی )۔اگر کبھی حبیب ابن مظاہر کو خا ک قدم حسینؑ کو آنکھوں میں لگاتے دیکھا تو حبیب کو آغوش میں اٹھا لیا کہ یہ میرے فرزند حسینؑ کا قدردان ہے۔ ( نقوش عصمت، علامہ ذیشان حیدر جوادی ، ص: ۲۶۰)
جنت کے کپڑے اور فرزندان رسولصلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلمکی عید
امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا بچپنہ ہے ، عید آنے کو ہے ، بچوں نے ماں کے گلےمیں باہیں ڈال دیں۔ مادر گرامی !اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کر نکلیں گے اور ہمارے پاس نئے لباس ہی نہیں ہے ۔ ہم کس طرح عید منائیں گے؟ ماں نے کہا بچو! گھبراو نہیں۔ تمہارے کپڑے درزی لائے گا۔عید کی رات آئی ، بچوں نےماں سے پھر کپڑوں کا تقاضا کیا۔ ماں نے وہی جواب دے کر بچوں کو خاموش کر دیا۔ ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب(دروازہ کھٹکھٹایا) کیا اور ایک گٹھڑی حوالے کردیا۔فضہ نے سیدہ کونین ؑ کی خدمت میں اسے پیش کیا۔ اب جو کھولا تو اس میں دو چھوٹے چھوٹے عمامے دو قبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ۔ ما ں کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ تو سمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا۔ بچوں کو جگایا کپڑے دئیے۔ صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی تو کہا مادر گرامی یہ تو سفید کپڑے ہیں ۔ اطفال مدینہ ر نگین کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ اماں جان ہمیں رنگین کپڑے چاہیے۔ حضور انور ؐ کو اطلاع ملی تو آپ ؐتشریف لائے۔ فرمایا گھبراو نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہو جائیں گے۔ اتنے میں جبرائیل آمین آ پہنچے۔ انہوں نے کپڑوں پر پانی چھڑکایا تو ایک جوڑا سبز اور دوسرا سرخ ہوگیا۔سبز جوڑا حسنؑ نے پہنا اور سرخ جوڑا حسینؑ نے زیب تن فرمایا، ماں نے گلے لگایا ، باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پر سوار کر کے مہار کے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دے دیں اور کہا۔ میرے نونہال، رسالت کی باگ تاہارے ہاتھوں میں ہے جہاں چاہو موڑو اور جہاں چاہو لے چلو۔کسی نے اس حالت کو دیکھ کر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: واہ! کتنی اچھی سواری ہے تو حضور اکرم ؐ نے جواب میں فرمایا: یہ کیوں نہیں کہتے کہ کتنے اچھے سوار ہیں( روضۃ الشہداء ص: ۱۸۹ بحارالانوار)
رسول خداؐ کا اپنے بیٹے ابراھیم کو اپنے نواسے حسینعلیہ السلامپر قربان کرنا:
یہ امر محتاج بیان نہیں کہ تمام خونی رشتوں میں انسان کو اولاد سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ آنحضرتؐ کو اپنے نواسے حسینؑ سے جو محبت تھی اس کی معراج کا یہ عالم تھا کہ آپ ؐ نے اپنے عزیز بیٹے ابراھیم کو اپنے نواسے پر قربان کر دیا ۔چنانچہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ : میں بارگاہ رسالت میں موجود تھا آنحضرتؐ کا فرزند ابراھیم آپ کی بائیں ران پر اور نواسہ حسینؑ دائیں ران پر بیٹھے تھے۔ آپ کبھی حسین ؑ کو بوسہ دیتے اور کبھی ابراھیم کو ، اسی اثنا میں جناب جبرائیلؑ پروردگار عالم کی طرف سے وحی لے کر نازل ہوئے۔ جب آنحضرتؐ کی حالت وحی ختم ہوئی تو ارشاد فرمایا: ابھی ابھی میرے پاس جبرائیل امین میرے پروردگار کا یہ پیغام لے کرآئے ہیں کہ خدا تفہر درود و سلام کے بعد ارشاد فرماتاہے۔ کہ میں ان دونوں کو زندہ رکھنا نہیں چاہتا۔ لہذا ایک کو دوسرے پر قربان کیجئے۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے بیٹے ابراھیم کی طرف دیکھا اور رو کر فرمایا: ابراھیم کی ماں کنیز ہے اگر یہ مرگیا تو اس پر مجھے ہی حزن و ملال ہو گا لیکن حسینؑ کی ماں فاطمہؑ اور باپ علیؑ ہے جو میرا ابن عم اور میرا گوشت وپوست ہیں ،لہذا حسینؑ کی موت پر میری بِیٹی میرا ابن عم اور میں خود سب سوگوار ہوں گے اس لیے میں تنہا اپنےحزن کو ان دونوں کے رنج و الم پر ترجیح دیتا ہوں پھر جبرائیل کو خطاب کر کے فرمایا۔ جبرائیل میں ابراھیم کو حسینؑ پر قربان کرتا ہوں چنانچہ تین دن کے بعد ابراھیم کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد آنحضرت کا یہ معمول تھا جب بھی حسینؑ کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھتے تو ان سے پیار کرتے سینے سے لگاتے اور فرماتے میں اس پر نثار جس پر میں نے اپنے بیٹے ابراھیم کو قربان کر دیا ہے۔(سعادۃ الدارین مقتل الحسینؑ، ص: ۶۰)۔
3۔پدر بزرگوار اور برادر ارجمند کے ہمراہ:
آپؑ کی زندگی کےابتدائی چھے سال اپنے نانا بزرگوار کی حیات مبارکہ میں گزرے۔ حضوراکرم ؐ کی رحلت کے بعد تیس سال اپنے والد بزرگوار امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کے سایہ عاطفت میں گزارے اور ان کی خلافت کے دوران اہم ترین امور میں عملی طور پر شرکت فرمائِی ۔اور ۴۰ ہجری میں امیر المومنینؑ کی دردناک شہادت کے بعد دس سال تک اپنے برادر بزرگوار جناب امام حسنؑ کے شانہ بشانہ سیاسی و سماجی میدان میں شریک کار رہے۔ اور ۵۰ ہجری میں امام حسنؑ کی شہادت کے بعد دس سال امیر شام کی حکومت کے امور کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھتے رہے۔اور بار ہا اس سے لفظی جنگ بھی کرتے رہے۔ مگر اس کے مرنے کے بعد اس کے ناخلف بیٹے یزید کی حکو مت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جس کے نتیجے میں کربلا کا معرکہ وجود میں آیا جس نے اسلام کو بقائے دوام کی سند عطا کی۔ (سیرت ِ معصومین ؑ ص: ۴۸۳ ، علامہ محمد علی فاضل)۔
۱۔ ناکثین ا ور قاسطین کے ساتھ محاذ جنگ میں
حضرت امام حسینؑ اپنے والد گرامی کی خلافت کے دوران آپ کے ساتھ سیاسی اور عسکری میدان میں شریک رہے۔ اس دوران امیر المومنینؑ کو جو تین جنگوں کا سامنا ہوا آپ نے ان میں بھر پور شرکت فرمائی۔ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ جنگ صفین میں امیر المومنینؑ کے لشکر کے میریہ کی کمان آپؑ کے ہاتھ میں تھی اور جنگ صفین میں آپؑ جہاں اپنی تقریروں اور خطبات سے لشکر امیر المومنینؑ کی ہمت افزائی فرماتے تھے وہاں عملی طور پر بھی جنگ میں نمایاں حصہ لیتے رہے۔(سیرت معصومین ؑ ص: ۴۸۶،۴۸۴،مولانامحمد علی فاضل)
۲۔ حضرت امام حسن مجتبیٰؑ کے ہمراہ
امیر المومنینؑ کی شہادت کے بعد امام حسینؑ اپنے زمانے کے اما م اور پیشوائے دوران برادر بزرگوار حضرت امام حسنؑ کے شانہ بشانہ شریک کار رہے۔ سپاہ شام سے جنگ کے لیے حضرت امام حسنؑ کے ہمراہ شام کی طرف تشریف لے گئے۔کتاب کامل ابن اثیر جلد ۳ ص: ۴۰۵ ،کے مطابق امیر شام نے امام حسنؑ کو صلح کی پیشکش کی تو انہوں نے جناب امام حسینؑ اور جناب عبداللہ بن جعفر کے ساتھ اس بارے میں مشورہ فرمایا اور اس مشاورت کے بعد انہوں نے اس پیش کش کو قبول فرمایا اور پیمان صلح کے بعد آپؑ اپنے بھائی حضرت امام حسنؑ کے ہمراہ مدینہ تشریف لے آئے۔ (سیرت معصومین ؑ، علامہ محمد علی فاضل)
تاریخ میں ملتا ہے کہ امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کابہت زیادہ احترام کرتے تھے، اور نقل ہوا ہے کہ جس مجلس میں امام حسنؑ ہوتے اس مجلس میں آپ کی احترام کی خاطر امام حسینؑ اپنی کوئی رائے نہیں دیتے تھے۔امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے بعد خوارج جو شامیوں سے جنگ چاہتے تھے انہوں نے امام حسنؑ کی بیعت نہیں کی اور امام حسینؑ کے پاس آکر آپ کی بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے پناہ مانگتا ہوں جب تک حسنؑ زندہ ہیں تمہاری بیعت میں قبول نہیں کرسکتا ہوں۔ اور آپ نے کہا کہ وہ (امام حسنؑ) میرے امام ہیں ۔لہذا بعض لوگوں کا یہ خیال کہ امام حسینؑ صلح پر راضی نہیں ہے محض ایک غلط تصور ہے اس لیے کہ بالفرض اگر ایسا ہوتا تو امام حسینؑ اپنے دور امامت میں اسکے خلاف کوئی کاروائی کرتے جبکہ جب تک معاویہ زندہ رہا کوئی معاہدہ کے خلاف اقدام نہیں فرمایا بلکہ اس کی مخالفت پر مسلسل صبر فرماتے رہے۔
4:خصوصیات اور فضائل
1۔شکل و شمائل
امام حسین علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ رسول خدا سے شباہت رکھتے تھے عاصم اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خواب میں دیکھا اور اپنی خواب کو ابن عباس کے سامنے بیان کیا۔ اس نے پوچھا: کیا ان کو دیکھتے وقت تمہیں امام حسین یاد نہیں آئے؟ میں نے کہا: بخدا کیوں نہیں۔ پیغمبر کے شانوں پر نگاہ پڑتے ہی مجھے امام حسین کی یاد آگئی۔ ابن عباس نے کہا: امام حسین رسول خدا سے کتنا مشابہ ہیں!۔
2۔جو د و سخا
امام حسین علیہ السلام انسانی فضائل و کمالات اور اسلامی اخلاق کے نمونہ عمل تھے۔ سخاوت، کرامت، عفو و بخشش، شجاعت و بہادری، ظلم و ستم کا مقابلہ آپ کی آشکارا خصوصیات تھیں۔ اسامہ بن زید حالت احتضار میں تھے امام حسین علیہ السلام عیادت کرنے انکے پاس گئے اور انہیں غمگین حالت میں دیکھا۔ سبب معلوم کیا تو انہوں نے کہا: ساٹھ ہزار درہم کا مقروض ہوں۔ اور اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ کبھی ادا کرنے سے پہلے ہی مر جاؤں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے مرنے سے پہلے اسے ادا کر دوں گا اور اس کے بعد آپ نے ان کا قرضہ ادا کر دیا۔
ایک دیہاتی آدمی آپ کی خدمت میں آیا اور کہا: ایک دیّت میری گردن پر ہے اسے ادا کرنے سے ناتوان ہوں۔ اور میں نے سوچا باکرامت ترین شخص سے اس کا مطالبہ کروں گا اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ کریم کوئی شخص میں نے نہیں پایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے مومن بھائی میں تجھ سے تین سوال کروں گا۔ اگر ایک کا جواب دیا تو تمہاری دیّت کا ایک تہائی مال ادا کروں گا اور دو سوال کے جواب دئے تو دو تہائی اور تینوں کا جواب دیا تو پورا مال عطا کر دوں گا۔ اس آدمی نے کہا: آپ جیسا عالم اور شریف آدمی مجھ سے سوال کرے گا؟ فرمایا: ہاں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا ہے کہ ” المعروف بقدر المعرفۃ” نیکی انسان کی معرفت کی مقدار میں ہونا چاہیے۔ اس آدمی نے کہا: اچھا سوال پوچھئے اگر معلوم نہیں ہوں گے تو آپ سے معلوم کر لوں گا۔ آپ نے فرمایا:
سب سے بہترین عمل کون سا ہے؟ اس نے کہا: خدا پر ایمان۔ فرمایا: ہلاکت اور عذاب سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ کہا: خدا پر بھروسہ اور توکل۔ امام نے پھر پوچھا: مرد کی زینت کیا ہے؟ کہا: علم حلم اور بردباری کے ساتھ۔ فرمایا: اگر یہ اس کے پاس نہ ہو؟ ( یعنی علم اور حلم نہ رکھتا ہو) اس نے کہا: مال سخاوت کے ساتھ۔ فرمایا اگر یہ بھی نہ ہو؟ فقر صبر کے ساتھ۔ فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ اس نے کہا: پس آسمان سے بجلی گرے اور مر جائے۔ امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اسے عطا کی۔ اور ایک انگوٹھی جس کی قیمت دو سو درھم تھی اسے دی اور کہا ان پیسوں سے دیت ادا کرو اور انگوٹھی بیچ کر اپنا خرچ چلاؤ۔ اس اعرابی نے پیسے لیئے اور کہا: خدا بہتر جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا سزوار کون ہے؟
3۔فصاحت و بلاغت
امام حسین علیہ السلام ایک بہترین سخنور تھے آپ ایسے گھر میں پروان چڑھے کہ جہاں الٰہی فرشتے کلام خدا لے کر نازل ہوتے تھے۔ جب آپ نے انکھیں کھولیں تو سب سے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے اذان و اقامت کی صورت میں کلام وحی کو سنا۔ آپ کی معلم اور مربی آپ کی والدہ گرامی سیدہ کونین دختر رسول جناب زہرا (س) تھیں اور استاد آپ کے والد بزرگوار علی مرتضیٰ تھے کہ جن کا خطابت کے میدان میں عرب و عجم میں کوئی ماں کالال مقابلہ نہ کر پایا۔
حضرت سید الشھداء (ع) کے بہت سارے حکیمانہ خطبات نقل ہوئے ہیں ۔ دعائے عرفہ اور خطبہ منیٰ کے علاوہ قیام کے دوران مدینہ سے لے کر کربلا تک مختلف مقامات پر آپ کے دلنشین خطبات سے آپ کی فصاحت و بلاغت کے عروج و کما ل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔دعائے عرفہ میں آپ ؑ نے معرفت خداوندی اور عشق الٰہی کے سمندر کو کوزہ میں بند کر کے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
۔”مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ؟ لقد خاب من رضی دونک بدلا” جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا؟ اور جس نے تجھ کو پالیا اس نے کیا کھویا؟ جو تیرے بدلے میں کسی اور چیز پر راضی ہوا وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔
4۔شجاعت اور دلیری
امام حسین علیہ السلام نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔ آپ اس معمولی اور انگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور جنگ کے یقینی ہونے کےبعد ذرہ برابر خوف و ہراس آپ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصر سی فوج کو آمادہ کیا اور پورے اقتداراور دلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کر لیا۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار خون میں لت پت ہوگئے لیکن ہر گز آپ دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ اور جب اپنی جنگ کی باری آئی، تو شیر دلاور کی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشے بچھا دئے۔آپ نے ہر جنگی ٹیکنیک کو پوری امید کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ایسی جنگ کی کہ دشمن نے جنگی قوانین کو پامال کرتے ہوئے حیوانوں کی طرح آپ پر حملہ کیا۔
وہ لوگ جو آپ کے مد مقابل بر سر پیکار تھے کوچہ و بازار کے افراد نہ تھے بلکہ پہش ور اور ماہر جنگجو تھے لیکن آپ کی شجاعت کے سامنے سب نے گھٹنے ٹیک دئے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ آج تک کسی کو ایسا نہ دیکھا کہ جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی گودی کے پلے ہوئے اور لاڈلے ذبح کئے جائیں پھر بھی وہ تمام قوت کے ساتھ میدان کارزار میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرے۔
برخلاف دشمن کے کہ جو حکومت اور اقتدار کی لالچ دلا کر لوگوں کو جنگ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب و انصار کو واپس چلے جانے اور جنگ کرنے میں اختیار دیا تھا۔ آپ نے اپنی اپنے مختصر سے لشکر کو دنیا پرستی اور پست عناصر سے پاک وپاکیزہ کر دیا تھا اور صرف وہی لوگ آپ کے ہمراہ آئے تھے جنہوں نے دنیا کو بیچ کر جنت کے مقامات خرید لئے تھے یہی وجہ تھی کہ دشمن نے کبھی بھی امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب کے اندر ضعف اور ناتوانی کے آثار نہیں دیکھے۔فوج اشقیاء کے چاروں طرف سے آپ کو گیر کر جو چیز انہیں میسر ہوئی اس سے آپ پر حملہ کیا لیکن پھر بھی شجاعانہ طریقہ سے دفاع کر رہے تھے اور دشمن کو نزدیک نہیں آنے دیا۔ ہاں، حسین ابن علی (ع) نے زخموں سے چھلنی بدن کے ساتھ زندگی کے آخری لمحہ تک فوج اشقیاء کے سیلاب کے سامنے جبل راسخ کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرما لیا۔
5۔حریت اور آزادی
امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کی آشکار صفات میں سے ایک صفت حریت اور آزادی تھی۔امام حسین (ع) نے ذلت کو قبول نہیں کیا، ظلم وستم کے نیچے نہیں دبے اور ظالموں کا آخری لمحہ تک منہ توڑ جواب دیا۔ یزید کے بر سر اقتدار آنے سے یہ احساس کیا کہ اسلامی اور انسانی قدریں نابود ہو رہی ہیں۔ اگر یزید جیسا شرابخوار، ہوس پرست اور زن باز اسلامی تخت خلافت پر بیٹھ جائے تو دین اور دینداری کا چراغ گل ہو جائے گااسی وجہ سے روز اول مروان کے سامنے بیٹھ کر یہ اعلام کر دیا:
جب بھی اسلامی حکومت کی باگ ڈور یزید جیسوں کے ہاتھ میں ہو تو ایسے میں اسلام کی فاتحہ پڑھنا چاہیے ۔
وہ حسین (ع) کہ جنہوں نے آغوش وحی میں تربیت حاصل کی تھی ہر گز اپنے ذاتی مفاد اور مصالح کی حفاظت کی خاطر اہداف رسالت کو پامال ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا تھا: ہم خاندان پیغمبر، آماجگاہ رسالت اور فرشتوں کی رفت و آمد کی جگہ ہیں۔ خدا وند عالم نے ہم سے آغاز کیا ہے اور ہمیں پر ختم کرے گا۔مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
آپ نے اپنی تحریک اور قیام کے اندر بھی حریت اور آزادی کو پیغام دیا ہے مدینہ سے مکہ کی طرف حرکت کرتےوقت آپ کو یہ پیشنہاد دی تھی کہ آپ بھی عبداللہ بن زبیر کی طرح کہیں اور کا راستہ اختیار کریں لیکن آپ نے فرمایا: خدا کی قسم میں اس راستے کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ خدا جو چاہے میرے مقدر میں لکھ دے۔
دشمن کے پاس عظیم لشکر تھا اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار ان کے مقابلہ میں نہایت قلیل تھے۔ لیکن علی (ع) کا لال اس لشکر غفیر کو اپنے مقابل میں کچھ بھی نہیں سمجھ رہے تھے کیونکہ وہ پست و ضمیر فروش لوگ تھے اور انسانی اعلی قدروں کے لیے کسی حرمت کے قائل نہیں تھے اسی وجہ سے ان کی بے غیرت مندانہ رفتار کو دیکھ کر آپ نے فرمایا:
«انْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دينٌ وَكُنْتُمْ لا تَخافُونَ الْمَعادَ فَكُونُوا أَحْراراً فِى دُنْياكُمْ ...» (اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم سے کم اپنی زندگی میں آزاد بندوں کی طرح رہو)۔ آزادی و حریت کے بارے آپ کا معروف شعار ( ظالم و جابروں کے ہمراہ ذلت کی زندگی گزارنے سے عزت کی موت مرنا سعادت و کامرانی کا باعث ہے)آج بھی ہر مرد حر کے لئے مشعل راہ بنا ہو اہے
6۔نماز سے عشق:
امام حسین (علیہ السلام) نماز کے ساتھ خصوصی انس رکھتے تھے ان کا بچپن آغوش نبوت و رسالت میں گزرا تھا وہ نماز بچانے ہی تو نکلے تھے، انہوں نے نانا کا دین بچانے کیلئے ہی تو قیام کیا تھا،۔ یہی وجہ ہے کہ شب عاشور امام علیہ السلام نے اپنے برادر ابوالفضل العباسؑ کو کہا کہ امویوں سے ایک رات کی مہلت لو تاکہ زندگی کی آخری رات کو صر ف دعا، نماز، تلاوت قرآن، استغفار اور خدا سے راز و نیاز میں بسر کر سکیں اور پھر ایسے ہی اپنی مہلت کی رات کو تقسیم کیا، عشق خدا میں کربلا والوں نے جو رات بسر کی وہ تاریخ کا ایسا روشن و تابندہ باب ہے کہ اس کی مثالیں آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی دی جا تی ہےاور دی جاتی رہیگی، ادھر آپ دیکھیں کہ ظہر عاشورا جب جنگ اپنے زوروں پر تھی، جب نماز کا ذکر ہوا تو آپ ؑ اقامہ نماز کے لئے فکر مندہوئے اور جس شخص نے وقت نماز کا ذکر کیا اُس کو فرمایا خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دے۔ پھر آپ نے کہا کہ دشمن کو کہئے کہ جنگ روک دے تاکہ ہم نماز پڑھ سکیں، پھر جب وہ لوگ اس بات پر راضی نہ ہوئے تو سعید ابن عبداللہ اور عمرو بن قرظہ نے امام کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سرلی اور نماز گزاروں کی حفاظت کرتے ہوئے جان آفرین کے سپرد کی۔
7۔احسان و کشادہ دلی
آپ غلاموں اور کنیزوں کو اچھے کردار کی وجہ سے آزاد کیاکرتے تھے۔ کہا جاتا ہے معاویہ نے ایک کنیز کو بہت سارا مال اور فاخر لباس کے ساتھ آپ کو ہدیہ بھیجا تو آپ نے قرآن کی بعض آیات کی تلاوت اور دنیا و موت کے بارے میں بعض اشعار پڑھنے پر اسے ازاد کیا اور اس مال کو بھی اسے بخشدیا۔اورایک دن کسی کنیز نے آپ کو پھول دئے تو آپ نے اسے آزاد کیا۔ کسی نے کہا ایک پھول کی وجہ سے اسے آزاد کیا؟ تو آپ نے آیہ شریفہ «و اذا حیّیتم بتحیّة فحیّوا بأحسن منها أو ردّوها» کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ہمیں اس طرح کا ادب سکھایا ہے۔
5۔امام حسینؑ کی امامت کا زمانہ
سنہ 50 ھ میں امام حسن ؑ کی دل سوز شہادت کے بعد نص پیغمبر ؐ کے مطابق آپ منصب امامت پر فائز ہوئے۔ عصر معاویہ میں آپؑ معاویہ بن ابو سفیان کے ساتھ صلح پر پابند ہونے کی وجہ سے کسی کو اپنی طرف دعوت نہیں دیتے تھے۔ بعینہ اپنے والد گرامی امیر المومنینؑ کی راہ پر گامزن رہے، جن کی امامت نبی کریمؐ کے بعد خاموش اختیار کرنے کے باوجود ثابت تھی اور اپنے بھائی حسنؑ کی امامت کی مانند جو صلح کے بعد رکے اور خاموش رہے اور یہ سب حضرات اس طرز میں سنت رسول اللہؐ پر عمل پیرا تھے۔چونکہ یہ ہستیاں صلح بھی کرتے ہیں تو بھی دین و دینی اقدار کو بچانے کے لئے اور قیام بھی کرتے ہیں تو دین کی مصلحتوں کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔لہذا جب معاویہ مر گیا ور صلح کی مدت ختم ہو گئی جو ظاہراآپؑ کو اپنی طرف دعوت دینے میں رکاوٹ تھی تو آپؑ سے جس قدر ہو سکا اپنے امر ولایت کو ظاہرکیا اور اپنا حق لوگوں پر واضح کردیا۔ (تذکرہ الاطہار، ص ۲۴۳۔۲۴۶ شیخ مفید)۔مرگ معاویہ کے بعد اس کا نا خلف ،فسق و فجور میں محبوس بیٹا یزید تخت شام پر قابض ہوگیا اور قابض ہوتے ہی اقتدار و اختیار کے نشے نے اس کو اپنے لپیٹ میں لے لیا اور فورا اپنے تخت و تاج کے استحکام کی خاطر اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ اسی سلسلے میں حاکم مدینہ کو خط بھیجا اور مدینہ کے تین شخصیات عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن زبیر اور فرزند رسول ؐ حسین ابن علی ؑ سے فورا بیعت لینے کا حکم نامہ جاری کر دیا اور انکار کی صورت میں ان کو راستے سے ہٹانے کا حکم دیا۔ باقی دو اشخاص کی روش کے برخلاف امام حسین ؑ نے یزید جیسے فاسق و فاجر کے خلاف قیام کا اعلان فرمایا اور حاکم مدینہ کے دربار میں اپنا اور یزید کا تعارف ان الفاظ میں فرمایا۔”۔”انا أهل بيت النبوة، ومعدن الرسالة، ومختلف الملائكة، بنا فتح الله وبنا يختم، ويزيد رجلٌ شاربٌ للخمور، قاتل النفس المحترمة، معلنٌ بالفسق، ومثلي لا يبايع مثله“ (مقتل اللہوف،ص 17)
” ہم نبو ت کا خا ندان ، رسا لت کی کان ، فرشتوں کی آمدورفت کی جگہ اور نزو ل رحمت خدا کا محل ہیں ، خدا و ندنے ہمارے ذریعے ابتداء فرما ئی اور ہم ہی پر اختتا م فرمائے گا اور یزید ایک فاسق،فاجر ، شرابخور، بے گناہوں کا قاتل اور کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والا شخص ہے، مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ”
اس طرح آپ حق و صداقت اور اسلام کی حقانیت کی حفاظت کا پرچم لیکر مدینہ سے تحریک کا آغاز کرتے ہوئے 28 رجب و المرجب سنہ 60 ھ کو عازم سفر ہوئے۔
6۔قیام امام حسین علیہ السلام:
"قال امام الحسینعليه السلام” أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام”
امام حسینؑ کا قیام شرانگیزی پھیلانے کےلیے نہ تھا۔ امام حسینؑ کا قیام فساد پھیلانے کے لیےنہ تھا امام حسینؑ کا قیام کسی پر ظلم کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ امام حسینؑ کے قیام کا مقصد اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنا تھا۔
انہیں یہ احساس تھا کہ تعلیمات اسلام پر ایک ایسا غلاف چڑھ گیا ہے جس سے آئندہ صدیوں اور قیامت تک آنی والی نسلوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ حقیقتا وہ تمدن و ہ تہذیب وہ ثقافت وہ آئین معاشرت اور وہ نظام زندگی کیا تھا جسے پیغمبر اسلامؐ نے پیش کیا تھا۔
دنیا میں جتنے قیام و خروج وجود میں آتے ہیں ان کا مرکز و محور یا تو انسان کی خود اپنی ذات ہوا کرتی ہے۔ یا اپنی قوم، گروہ یا خود سے متعلق افراد ہوتے ہیں۔ یا رضا الہیٰ کا حصول ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی ذات اور اپنی قوم کے لیے قیام کرتے ہیں ا نہیں دوسری اقوام کے عروج و زوال کا خیال نہیں ہوتا وہ طاقت کا مقابلہ ہمیشہ طاقت سے کرتے ہیں ۔ لیکن جس قیام کا مقصد، الہیٰ ہو جس نے اصلاح امت کا نعرہ بلند کیا ہو جس کا ہدف اور مقصد بندگان خدا کو ظلم کے پنوبں سے نجات دلانا ہو۔ غاصبوں سے ان کا حق دلانا ہو جس کا مقصد لوگوں کو شریعت الہیٰ کی تعلیم دینا ہو وہ طاقت کا مقابلہ طاقت سے سے نہیں بلکہ کردار سے کرتا ہے وہ شرکا مقابلہ خیر سے کرتا ہے وہ کثرت کا مقابلہ قلت سے کرتا ہے وہ ظلم کا مقابلہ مظلومیت سے کرتا ہے وہ حیوانیت کا مقابلہ رضائے الہیٰ سے کرتا ہے وہ شر ار بو لہبی کا مقابلہ چراغ مصطفوی سے کرتا ہے اور جب وہ مقام بیان میں ہوتا ہے تو عالم بشریت کو جینے کا درس ان الفاظ میں دیتے ہیں:
"إنی لا أری الموت إلاّ سعادةً ولا الحیاةَ مع الظالمین إلا برما”
میں جان بازی اور شجاعت کی موت کو اپنے لیے سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا اپنے لیے باعث ذلت سمجھتا ہوں۔
جب ملوکیت اور یزیدیت کی ظلمت ہر طرف چھاگئی ہو ، امت کے خیرخواہوں نے مایوس ہو کر گوشہ نشینی اختیار کی ہو ، معاشرے سے روحانیت اور معنویت کا خاتمہ ہو چکا ہو، ہر طرف ظلم کا دور دورہ ہو، یزید جیسا زناکار ، فاسق، شرابی، فاجر شخص نے حکومت کا تاج اپنے نا پاک سر پر سجا دیا ہو، وہاں ایک حق کا علمبردار کا ہونا ضروری تھا ۔ وہاں ایک ایسی ہستی کا وجود ضروری تھا جو مایوس جسموں میں امید کی روح پھونک دے تاکہ نگاہ انسانیت کو غفلت کی تاریکی سے نکال دیں اور اسلامی اصولوں کی برق تجلی کو عمل کی اس معراج پر آنکھوں کے سامنے لائے کہ نظر اٹھتے ہی سب سے پہلے اسی پر جا پڑے اور اس کی چمک دمک میں محو ہو جائے۔ نتیجے کے طور پر عرض ہے کہ وہ ہستی وہ حق کا علمبردار حسین ابن علیؑ تھے جن کی تحریک نے عالم انسانیت کو ایسا بیدار کر دیا ایسا جینے کا سلیقہ سکھایا کہ آج غیر مسلم بھی جب اپنی عقیدت کا اظہار مولا حسینؑ سے کرتا ہے تو ان الفاظ میں کرتا ہے ۔
زندہ اسلام کو کیا تو نے حق و باطل دیکھادیا تو نے
جی کےمرنا تو سب کو آتا تھا مر کے جینا سکھا دیا تو نے
(مہندر سنگھ بیدی)
نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؑ کی مدینہ سے روانگی :
حضرت امام حسینؑ ۶۰ ہجری رجب المرجب ختم ہونے سے دو روز قبل اتوار کی رات اپنی اولاد اپنے بھائیوں اپنے بھائی حضرت اما حسنؑ کی اولاد اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (مقتل مقرم)
امامؑ نے مدینہ سے روانگی کے وقت ایک وصیت محمد بن حنفیہ کے نام لکھی جس کی عبارت یوں ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
” یہ وصیت نامہ حسین ابن علیؑ کی جانب سے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے نام ہے ۔ حسینؑ گواہی دیتا ہے خدا کی توحید و یگانگی کی ، شہادت دیتا ہے کہ خدا کا کوئی شریک و ہم کفو نہیں اور گواہی دیتا ہے کہ محمدؐ خدا کے بندے اور اس کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں کہ جو حق یعنی اسلام کو خدا کی طرف سے لائے۔ گواہی دیتا ہوں کہ جنت و جہنم حق ہے بلاشک روز جزاء آئے گا اور اس دن خدا تمام مردوں کو زندہ گرے گا۔
جب کہ میں خود خواہی ،فتہ و فساد اور ستم گیری کے لیے مدینہ سے روانہ نہیں ہو رہا ہوں بلکہ اس سفر سے میرا ہدف امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور مفاسد کی اصلاح ہے ۔ محمد رسول اللہ ؐ میرے جد ہیں میں چاہتا ہوں کہ اپنے جدّبزرگوار کی سنت اور اپنے پدر علی ابن ابی طالبؑ کی سیرت کو زندہ کروں ۔ اس بنا پر جو کوئی بھی مجھ سے اس حقیقت کو قبول کرے اور میری پیروی کرے تو در حقیقت اس نے راہ خدا کی جو برتری ہے اس کو قبول کیا اور جو کوئی بھی مجھ سے اس حقیقت کوقبول نہ کرے میں اپنے اعتقاد پر قائم رہوں گا۔ یہاں تک کہ خداوند میرے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کرے کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔
اے میرے بھائی ! میر ی یہ وصیت آپ کے نام ہے، البتہ کام کو درست کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے اور میں اس پر توکل کرتا ہوں اور میری بازگشت اس کی طرف ہے”والسلام علیک و علی من اتبع الھدی ولا قوہ الا بااللہ العلی العظیم” اس کے بعد وصیت نامے پر اپنی مہر لگائی اور اسے لپیٹ کر اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے سپر د کیا۔ ( مقتل مقرم ۔ سید عبدالرزاق موسوی)
آپؑ پانچ دن سفر کرنےکے بعد تین شعبان کو مکہ میں پہنچے اور مکہ میں عباس بن عبد المطلب کے ہاں تشریف لے گئے۔
حضرت امام حسینؑ کا مکہ سے عراق کی جانب سفر عشق:
جب امام حسینؑ کو معلوم ہوا کہ یزید نے اپنے ایک کمانڈر کو سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ امیر کارواں بنا کر مکہ کی طرف بھیجا ہے اور اسے وصیت کی ہے کہ امام حسینؑ کو جہاں پر موقع میسر آئے وہاں قتل کردو۔ تو امام حسینؑ نے ارادہ کیا کہ اعمال حج کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے مکہ روانہ ہو جائیں لہذا آپؑ نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور خانہ خدا کی حرمت کو محفوظ رکھنے کے لیے مکہ سے روانہ ہو گئے ۔
حضرت امام حسینؑ نے آٹھ ذی الحجہ کو اپنے اہل بیتؑ اور ان دوستوں اور شیعوں کے ہمراہ مکہ چھوڑاجو حجاز، کوفہ اور بصرہ سے آنے والے تھے اور یہ کاروان عشق جب منزل زبالہ پر پہنچا تو مسلم کی شہادت کی خبر مل گئی ۔قافلہ عشق و کاروان نور مختلف منازل سے گزرتے ہوئے تقریباً اٹھارہ ۱۸ منازل کے طے کرنے کےبعد ۲ محرم ۶۱ ہجری کو کربلا میں وارد ہوا۔
تھوڑے سے توقف کے بعد آنے اپنے بیٹوں ، بھائیوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو جمع کیا ان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ یہ گفتگو فرمائی :
” خداوند ! ہم تیرے نبیؐ کی اولاد ہیں ہمیں اپنے جد کے حرم مبارک سےنکال دیا گیا ۔خداوند ! بنو امیہ نے ہم پر ظلم و تعدی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہمارا حق ان سے وصول کر اور ہمیں ان ظالموں پر فتح عطا فرما۔پھر فرمایا خداوند متعال نے جو اصحاب مجھے عطا کیا ہے اور جو اہل بیت مجھے میسر آئے ہیں میرے ان اصحاب کرام اور اہل بیت سے بہتر اور وفادار کسی اور ہستی کو میسر نہیں آئے ۔ ( مقتل مقرم)
7۔شہادت امام حسین علیہ السلام
۷ محرم کو عبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کے پاس ایک خط بھیجا کہ فوج کو فرات پر لگا دو تاکہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کردیں اور انہیں ایک قطرہ پانی پینے کی بھی اجازت نہ دیں جیسا کہ عثمان بن عفان کو پانی نہیں دیا گیا تھا۔تعمیل حکم میں عمر بن سعد نے پانچ سو فوجی گھاٹ پر لگا دیا اور انہوں نے امام حسینؑ اور آپ کے انصار و اہل بیت پر پانی بند کر دیا ۔
۹ محرم الحرام کو ابن سعد کا لشکر جنگ کے لیے تیار ہوا اور لشکر حسینؑ کی جانب بڑھنے لگا امام حسینؑ نے حضرت عباس کو بھیجا تاکہ ان سے ایک شب عبادت اور نماز و مناجات کےلیے مہلت مانگے حضرت عباس کو دشمن کی طرف سے اس رات مہلت ملی گئی اور وہ شب امامؑ نے عبادات و مناجات،تلاوت قرآن اور اپنے اصحاب و اہل بیت ؑ کے ساتھ اسرار الٰہیہ کے بارے گفتگو کرتے ہوئے گزاری۔
۱۰ محرم کو عمر سعد امام حسینؑ کے اصحاب کے قریب آیا اور زوردار آواز دے کر کہا ۔ جھنڈا قریب لاؤ اس کے بعد عمر بن سعد نے تیر کمان میں جوڑا اور اصحاب امام حسینؑ کی طرف پھینکتے ہوئے کہا ۔ گواہ رہنا کہ سب سے پہلے میں نے ان کی طرف تیر پھکاے ہے ۔ پھر اس نے حکم دیا کہ ہر ایک اصحاب امام حسینؑ کی طرف تیر برسانا شروع کر دے ۔ نتیجہ میں اصحابامام حسینؑ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں بچا جو زخمی نہ ہوا ہو اور اس حملہ میں امام حسینؑ کے پچاس اصحاب شہید ہو گئے۔(صحیہب کربلا )
عصر عاشور کو جب یکے بعد دیگرے امام کے تمام اصحاب و انصار شہید ہوگئے اور امام ؑ یکہ و تنہا ہو گئے ۔ اب امام ؑ کی بھاری تھی تو امامؑ الوداع کے لیےخیمے میں تشریف لائے اور حضرت زینب سے فرمایا : بہن مجھے ایسا پرانا پیرا ہن لا کر دو جس میں کوئی بھی رغبت نہ کرے کہ اسے اپنے لباس کے نیچے پہن لوں تاکہ شہادت کے بعد مجھے میرے لباس کو غارت نہ کیا جائے۔ یہ جملہ سن کے خیمہ گاہ میں مخدرات عصمت نے گریہ شروع کیا اور ایک کہرام مچ گیا۔ پھر آپ کی بہن نے بہت ہی بوسیدہ لباس پیش کیا ۔ امامؑ نے اس کو زیب تن فرمایا اور میدان کی طرف تشریف لے جاتے وقت اس طرح الوداعی سلام کہا :۔
"یا سکینۃ یا فاطمۃ یا زینب یا ام کلثوم علیکن منی السلام ”
( اے لاڈلی سکینہ، بیٹی فاطمہ، اے زینب ؑ و ام کلثوم ؑ میرا آخری سلام قبول کر لیجیے)
عصر کا قت آگیا وعدہ وفا ہونے کو ہے زیر خنجر آج سبط مصطفیٰ ؐ ہونے کو ہے
خشک ذروں میں نمایاں ہوں گے آثار جناں آج دشت ماریہ اک پر فضا ہونے کو ہے
آج آثار قیامت ہیں نمایاں دہر میں سجدہ خالق میں کس کا سر جدا ہونے کو ہے
جس کی خاطر زینبؑ مغموم نے چھوڑا وطن عالم غربت میں بھائی سے جدا ہونے کو ہے ۔
امام حسینؑ کا آخری الوداع:
امام مظلوم ؑآخری الوداع کے لیے حضرت سجاد ؑکے خیمہ میں تشریف لائے جناب سجادؑ بستر مرض پر تھے جب آپ نے آنکھیں کھول کر فرزند رسول ؑ کے تمام جسم کو خون سے رنگین دیکھا تو عرض کیا۔
میری جان آپ پر فدا ہو ۔ آپ کا تمام جسم تیروں سے زخمی ہے چچا عباس ۔ بھائی علی اکبر کہا ں گئے۔ مظلوم کربلا ؑنے فرمایا :۔ بیٹے اس وقت ان خیام میں مردوںمیں سے ایک تو ہےاور ایک میں زندہ ہوں ۔ میں تجھ سے آخری الوداع کرنے آیا ہوں پھر آپؑ نے اسرار امامت سید سجاد ؑکے سپرد کیے اور بتایا بیٹے تمام تبرکات انبیاء مدینہ سے روانگی سے قبل میں نے ام المومنین ام سلمہ کے پاس رکھے تھے واپس پر سنبھال لینا۔
سید سجادؑ سے الوداع کیا اور واپس اپنے خیمے میں آئے تمام مستورات ایک خیمہ میں جمع ہو گئیں ۔ ذوالجناح پر سواری کا ارداہ فرمایا ۔ دائیں بائیں دیکھا کوئی نظر نہ آیا بے ساختہ آپ کے منہ سےنکلا: اے میدان شجاعت کے سوارو! آج میں ایک ایک کا نام لے کر پکار تاہوں تم جواب تک نہیں دیتے ۔
امامؑ میدان میں آئے اور رجز پڑھنے لگے اور عمر سعد سے فرمایا کہ عرب کے دستور کے مطابق ایک ایک کر کے میرے مقابلہ میں بھیجو۔ ایک ایک ہو کر یزیدی مقابلے میں آنے لگے اور امام مظلوم کے ہاتھوں واصل جہنم ہونے لگے آخر یزیدیوں میں سے کوئی بھی مقابلہ میں آنے پر آمادہ نہ ہوتا تھا۔ شمر ملعون نے عمر سعد سے کہا اگر پورا خطہ عرب بھی آجائے تو یہ تمام کو فنا کر دے گا۔ تجھے معلوم تو ہےکہ اس کی رگوں میں خون علی ؑاور بنت رسول ؐکا دودھ ہے۔ عمر سعد نے کہا پھر کیا کریں۔ شمر ملعون نے کہا چاروں طرف سے حملہ کرینگے عمر سعد نےکہا کہ ٹھیک ہے ایسا ہی کرتے ہیں۔
ان ملاعین نے امامؑ پر چاروں طرف سے حملہ کیا ، امام ؑ کو دشمویں نے گھیر لئے ، مگر آپ شجاعت و بہادری کے ساتھ دشمنوں سے لڑتے رہے یہاں تک کہ آپؑ جنگ کرتے کرتے تھگ گئے تو آپؑ ایک جگہ پر کھڑے ہو گئے تاکہ تھوڑی دیر استراحت کرلیں۔ اچانک ایک پتھر آپؑ کی پیشانی مبارک پر لگا آپؑ نے پیشانی سے خون صاف کرنے کی غرض سے قیمص کا دامن اٹاایا۔ اچانک ایک سہ شعبہ زہر آلود تیر آپؑ کے سینے میں پیوست ہوا توآپؑ نے فرمایا:
بسم اللہ و باللہ علی ملۃ رسول اللہ ۔ آپ نے تیر کو پشت سے کھینچا تو خون کے فوارے چلے جس کی وجہ سے آپؑ میں جنگ کرنے کی طاقت نہ رہی۔ امام نے فرمایا :"ان کان دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیا سوف خذیننی”اگر میرے نانا کا دین میرےقتل کے بغیر نہیں بچ سکتا تو بس اے تلوارو مجھے لے لو اور میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔
علماء کا بیان ہے کہ امام نے جب تلوار کو نیام میں رکاے اور کہا اے تلوارو مجھے لے لو تو ہر طرف سے کسی نے پتھر مارا کسی نے تلوار سے وار کی کسی نے نیزے سے وار کیا غرضیکہ جس کے ہاتھ میں جو آیا امام ؑ کو نشانہ بناتا رہا۔ امام زمین پر گر پڑے شمر ملعون نے حکم دیا کہ حسینؑ کے سر کو قلم کر دو ہرکوئی باری باری گیا لیکن کامیاب نہ ہوا بلاآخر وہ ملعون خود گیا اور امامؑ کے سینہ پر سوار ہوا ۔ امامؑ نے اپنے قاتل کو پہچانا اور فرمایا کہ میرے نانا ؐ نے میرے بابا علیؑ سے کہا تھا کہ اے علیؑ تیرے اس بیٹے کا قاتل مبروص ہوگا اس کے سینہ پر برص کا داغ ہوگا اور اس کا چہرہ کتے اور خنزیر سے ملتا جلتا ہوگا۔ یہ سننا تھا کہ اس ملعون کو غصہ آگیا اور انتہائی بے دردی کے ساتھ تیرہ ضربو ں سے امام مظلومؑ کا سر مبارک جدا کیا ” "انا للہ و انا الیہ راجعون "
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسین ؑ کا سر نعرۂ تکبیر کے ساتھ۔
( الالعنۃ اللہ علی الظالمین )