امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

بنت باب الحوائج، حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی حیات طیبہ پر ایک نظر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

Masooma Fatima - حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا - [Danishkadah]

بنت باب الحوائج، حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی حیات طیبہ پر ایک نظر

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی محترمہ ہیں۔

آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔

آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔

ممتاز شیعہ عالم شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں:

امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔

آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ہشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں،انہیں کے پر مہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔

آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت (س) کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے کہ جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔

واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاؤ۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا:

" ابوھا فداھا "

یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔

200ہجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت (س) کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ہجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ" پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم" کا رخ کریں۔

جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔

اہل قم کی طرف سے حضرت معصومہ (س) کا پرتپاک استقبال:

علامہ مجلسی تاریخ قدیم سے نقل کرتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے ساوہ آنے اور ان کے بیمار ہونے کی خبر آل سعد [عرب اشعری شیعہ خاندان] کو ملی تو انہوں نے ساوہ جانے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے ساتھ قم لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں موسی بن خزرج بن سعد اشعری بھی موجود تھا۔ جب وہ ساوہ پہنچے تو موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے اونٹ کی مہار کو تھام لیا اور قم تک لے آیا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا تقریباً 16 یا 17 دن تک اس کے گھر میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔

چونکہ آپ کا روز شہادت 10 یا 12 ربیع الثانی ہے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قم میں آپ 23 ربیع الاول 201 ہجری قمری کو داخل ہوئیں۔ قم کے اکثر لوگ اہل بیت (س) سے محبت کرنے والے تھے لہذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے یہاں آنے پر انتہائی خوش ہوئے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا جتنے دن زندہ رہیں اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی میں روتی رہیں۔ موسی بن خزرج کے گھر میں ایک جگہ عبادت کیلئے مخصوص تھی جہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عبادت کیا کرتی تھیں۔ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی رحلت اور کفن و دفن:

جس جگہ پر ابھی حضرت معصومہ (س) کی قبر مطہر ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ پر مشتمل تھی۔ حضرت معصومہ (س) کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ (س) کے بدن اقدس کو اس قبر میں ڈالے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ (س) کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔

کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س) کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب چہروں والے سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انکی نماز جنازہ اور انکا دفن صرف معصوم ہستی ہی انجام دے سکتی ہے، لیکن کچھ ممتاز ہستیاں اس امر میں معصومین علیہم السلام کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں سے ایک شخصیت حضرت ابو الفضل العباس علمدار علیہ السلام کی ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دفن کیا۔ جب ان کے ساتھیوں نے ان کو مدد کرنے کو کہا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

"ان معنی یعیننی"

یعنی میرے ساتھ [فرشتگان اور ملکوتیان] ہیں جو میری اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔

حضرت معصومہ (س) کی شخصیت اور خصوصیات:

قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیہم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر ہے۔

"قاموس الرجال" کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں:

امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ نہیں ہے۔

عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہ السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں۔

آپ کی شخصیت کے بہت سے فضائل میں سے چند کو ذکر کیا جا رہا ہے:

1- قیامت کے دن وسیع پیمانے پر محبان اہل بیت (ع) کی شفاعت:

شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) کے ساتھ مخصوص ہے کہ جس کو قرآن مجید میں "مقام محمود" کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو "ولسوف یعطیک ربک فترضی" میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ اطہر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور دوسری شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وسیع شفاعت کے بارے میں یہ روایت ہی کافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ محشر کے دن امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت آپ سلام اللہ علیہا کے مہریہ میں شامل ہے۔

روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کے موقی پر جبرائیل خداوند کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا:

"خداوند نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہریہ قرار دیا ہے"۔

یہ حدیث اہلسنت نے بھی نقل کی ہے کہ:

"حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے"۔

امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

"تدخل بشفاعتھا شیعتنا الجنۃ باجمعھم"

یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہوں گے۔

2۔ عصمت:

اس روایت کے مطابق جو مرحوم سپہر نے کتاب "ناسخ" میں امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کی ہے، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو امام علی رضا علیہ السلام نے معصومہ کا لقب عطا کیا ہے۔

اس روایت کے مطابق امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

"من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی"

یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔

اس روایت کو مرحوم محلاتی نے بھی نقل کیا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ عصمت چودہ معصومین علیہم السلام تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اور فرشتے بھی معصوم ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بارہ امام علیہم السلام کا "چودہ معصوم" کے طور پر معروف ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گناھان کبیرہ اور صغیرہ سے محفوظ ہونے کے علاوہ ترک اولی، جو عصمت کے منافی نہیں ہے، سے بھی مبرا ہیں۔

مرحوم مقرم اپنی با ارزش کتابوں "العباس" اور "علی اکبر" میں حضرت ابو الفضل العباس علمدار علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کے معصوم ہونے کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ مرحوم نقدی اپنی کتاب "زینب الکبری" میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عصمت کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح "کریمہ اہلبیت" کے مصنف حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عصمت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا اسم مبارک "فاطمہ" ہے اور اپنی زندگی میں انہیں کبھی معصومہ کا لقب نہیں ملا، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ان کو یہ لقب عطا کرنا، انکی عصمت پر دلیل ہے۔

3۔ فداھا ابوھا:

آیت اللہ سید نصر اللہ مستنبط کتاب "کشف اللئالی" سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور انکے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دئیے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے انکی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے انکے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا:

"فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے، چونکہ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔

4۔ حضرت معصومہ (س) کا مزار، مزار حضرت زہرا (س) کی تجلی گاہ:

اس سچے خواب کے مطابق جو مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ وہ مرحوم اس کوشش میں تھے کہ جس طرح بھی ہو حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر کی جگہ معلوم کریں۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:

"علیک بکریمہ اھل البیت"

یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کی پناہ حاصل کرو۔

انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی:

"جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لیے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں"۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر ہے"۔

پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند نے یہ ارادہ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے لہذا اس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کی تجلی گاہ قرار دیا ہے۔ وہ عظمت جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کیلئے تھی، خداوند نے وہی عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر کو عطا کی ہے تا کہ لوگ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر کی زیارت کے ثواب سے محروم نہ رہ جائیں"۔

5۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی:

امام جعفر صادق علیہ السلام قم کے مقدس ہونے کے بارے میں شہر ری کے اہالی سے ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں:

میرے فرزندان میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہو گا اور وہ موسی بن جعفر کی بیٹی ہو گی، قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت سے تمام شیعیان اہلبیت بہشت میں داخل ہوں گے"۔

راوی کہتا ہے: "میں نے یہ حدیث اس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنی تھی جب امام موسی کاظم علیہ السلام بھی ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے"۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بارے میں آپ کے والد ماجد کی ولادت سے پہلے پیش گوئی کرنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے۔

6۔ شہر  قم کے مقدس ہونے کا راز:

بہت سی احادیث میں قم کے مقدس ہونے کا ذکر ہوا ہے اور یہ کہ اس شہر کی تصویر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چوتھے آسمان پر دکھائی گئی۔

 امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے قم کے رہنے والوں پر درود بھیجا اور وہاں پر جبرائیل کے قدموں کے نشان ہونے کی خبر دی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے قم کو اہلبیت علیہم السلام کا گھر کہا ہے اور اسکی مٹی کو پاک و پاکیزہ جانا ہے۔

 امام موسی کاظم علیہ السلام نے قم کو آل محمد علیہم السلام کا آشیانہ کہا ہے اور خبر دی ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ اہالی قم سے مخصوص ہو گا۔

امام علی نقی علیہ السلام نے قم کے لوگوں کو "مغفور لھم" یعنی بخشے گئے لوگ سے تعبیر کیا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم کے لوگوں کی حسن نیت کو سراہا اور انکی اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔

اسی طرح کی بہت سے احادیث جو ائمہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہنچیں ہیں اس سرزمین اور وہاں پر رہنے والوں کی عظمت اور فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس عظمت اور فضیلت کا راز کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی والی حدیث اس عظمت اور فضیلت کا راز کھولتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فضیلت اور عظمت ریحانہ پیغمبر، کریمہ اہلبیت، خاتون اسلام حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مبارک پر نور وجود کی وجہ سے ہے۔

7۔ امام علی رضا علیہ السلام کی اکلوتی بہن:

امام موسی کاظم علیہ السلام کی زوجہ گرامی جناب نجمہ خاتون نے دو بچوں کو ہی پالا جن کے نام امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔

محمد بن حریر طبری، پانچویں صدی ہجری کے ایک ممتاز شیعہ عالم دین، نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 25 سال تک امام علی رضا علیہ السلام جناب نجمہ خاتون کی اکلوتی اولاد تھے۔ ایک چوتھائی صدی کے انتظار کے بعد سر انجام ایک تابناک ستارہ جناب نجمہ خاتون کے دامن میں طلوع ہوا جو امام علی رضا علیہ السلام کیلئے خوشی کا باعث تھا اور آپ نے اپنے تمام برادرانہ عواطف ان پر نچھاور کر دیئے۔ ان بہن بھائیوں کے درمیان گہری محبت پائی جاتی تھی۔

امام موسی کاظم علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک واقعہ میں جس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا کردار بھی ہے، جب نصرانی ان سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں تو وہ فرماتی ہیں:

"انا المعصومہ اخت الرضا"

یعنی میں معصومہ امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہوں۔

اس تعبیر سے ان کے دل میں اپنے بھائی کیلئے پائی جانے والی بے حد محبت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

8۔ دعوت نامہ:

ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا، لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کیلئے سخت مشکل تھی۔ یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ لہذا مرو میں مستقر ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو ایک خط لکھا اور ایک با اعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ راستے میں کہیں نہ رکے تا کہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی خط ملتے ہی آمادہ سفر ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔   

حضرت امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستے میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت (ع) کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نے حکومتی اہلکاروں سے مل کر حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی۔ جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سے افراد شہید ہو گئے۔ بی بی غم و الم کی شدت سے مریض ہو گئیں اور شہر ساوہ میں نا امنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا :

مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے:

قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔

اس طرح حضرت معصومہ (س) ساوہ سے قم روانہ ہو گئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے ، موسیٰ ابن خزرج اشعری نے اونٹ کی لگام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اہل قم کے والہانہ استقبال میں شہر میں وارد ہوئیں۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا۔

حضرت معصومہ (س) نے 17 دنوں تک قم میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ بسر فرمائے۔

تاریخی مآخذ میں آپ کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ اور آپ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بھی درج نہیں ہے۔ آپ امام رضا (ع) سے ملنے کے لیے ایران تشریف لے آئیں، لیکن راستے میں بیمار ہونے کی وجہ سے قم میں وفات پا گئیں اور وہیں پر دفن ہو گئیں۔ اہل تشیع کے ہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہیں یہاں تک کہ ائمہ سے منقول احادیث میں آپ کی زیارت کرنے والے کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بعد صرف آپ ہی کے لیے ائمہ کی طرف سے زیارت نامہ کی روایت ہوئی ہے۔ حرم حضرت معصومہ قم میں واقع ہے۔

حضرت معصومہ (س) کے بارے میں اطلاعات کی کمی:

ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب «ریاحین الشریعہ» میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہم تک نہیں پہنچیں، جیسے آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں، کیا امام رضا (ع) کی شہادت سے پہلے وفات پائی یا بعد میں۔ اس حوالے سے تاریخ میں کچھ درج نہیں ہے۔

محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج 5 ص 31

شیعوں کے ہاں مقام و منزلت:

شیعہ علماء آپ کے لیے بہت بلند مقام کے قائل ہیں اور آپ کی منزلت اور زیارت کی اہمیت کے بارے میں منقول ہے کہ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ شیعہ ان کی شفاعت کے ذریعے بہشت میں داخل ہوں گے۔

مجلسی، بحار الانوار، ج 99 ص 267

ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔

مجلسی، بحار الانوار، ج 99 ص 267

مجلسی، زاد المعاد، ص 547

امام صادق (ع)، امام کاظم (ع) اور امام محمد تقی (ع) سے منقول بعض روایات کے مطابق حضرت معصومہ (س) کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دیا گیا ہے۔

ابن‌قولویہ، کامل‌ الزیارات، ص 536

مجلسی، بحار الانوار، ج 99 ص 265

البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے کہ جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔

مجلسی، بحار الانوار، ج 99 ص 266

القاب:

معصومہ اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مشہور القاب میں ہیں۔

مہدی‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ص 23 و 41

اصغری ‌نژاد، «نظرى بر اسامى و القاب حضرت فاطمہ معصومہؑ،

کہا جاتا ہے کہ لقب «معصومہ» امام رضا (ع) سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔

مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ص 29

محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ امام رضا (ع) نے انہیں معصومہ کا نام دیا ہے۔

مجلسی، زاد المعاد، ص 547

آج کل انہیں «کریمہ اہل بیت» بھی کہا جاتا ہے۔

مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ص 41 و 42

کہا جاتا ہے کہ یہ لقب آیت ‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کے دیکھے ہوئے اس خواب سے مستند ہے کہ جس میں ائمہ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیت کے نام سے پکارا ہے۔

مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ص 41 و 42

شادی:

ریاحین الشریعہ نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہ (س) نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں۔

محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج 5 ص 31

اس کے باوجود یہ مشہور ہے کہ حضرت معصومہ (س) نے شادی نہیں کی ہے۔

مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیت (س)، ص 150

اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں، جیسے کہا کیا ہے کہ آپ کا کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔

مہدی‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ص 151

اسی طرح یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظم (ع) نے اپنی بیٹیوں کی نسبت شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی۔

یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج 2 ص 361

لیکن اس بات پر اشکال کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام کاظمؑ کی کتاب اصول کافی میں مذکور وصیت نامے میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔

کلینی، اصول کافی، ج 1 ص 317

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج 2 ص 497

ایران کا سفر، قم میں آنا اور وفات:

تاریخ قم نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ (س) سن 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضا (ع) سے ملنے مدینہ سے ایران کی جانب نکلیں۔ اس وقت امام رضا (ع) کا مامون عباسی کی ولایت عہدی کا دور تھا اور امام خراسان میں تھے لیکن آپ راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پا گئیں۔

قمی، تاریخ قم، توس، ص 213

سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہ (س) کو ساوہ میں زہر دیا گیا اور اسی وجہ سے شہید ہو گئیں۔

عاملی، حیاة السیاسی للامام رضا (ع)، ج 1 ص 428

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول ہیں:

ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہو گئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد قم لے جانے کا کہا۔

قمی، تاریخ قم، توس، ص 213

دوسرے قول جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں، اس کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی درخواست کی۔

قمی، تاریخ قم، توس، ص 213

قم میں حضرت فاطمہ معصومہ موسی بن خزرج اشعری نامی شخص کے گھر رہیں اور 17 دن بعد وفات پا گئیں۔

قمی، تاریخ قم، توس، ص 213

آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان قبرستان میں دفن کیا گیا۔

قمی، تاریخ قم، توس، ص 213

حرم حضرت معصومہ (س):

حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی قبر پر شروع میں ایک سائبان اور پھر ایک قبہ بنایا گیا۔

قمی، تاریخ قم، توس، ص 213

سجادی، آستانہ حضرت معصومہ، ص 359

آپ کے مدفن میں آئے روز وسعت آتی گئی اور آج ایران میں حرم امام رضا (ع) کے بعد سب سے بڑی بارگاہ ہے۔

سجادی، آستانہ حضرت معصومہ، ص 358

زیارت کی فضیلت:

حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق (ع) نے فرمایا:

خداوند کا ایک حرم ہے کہ جو مکہ ہے، رسول خدا (ص) کا ایک حرم ہے کہ جو مدینہ ہے، امیر المومنین علی (ع) کا ایک حرم ہے  کہ جو کوفہ ہے، اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ شہر قم ہے۔ امام صادق (ع) نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے:

میری اولاد میں سے موسی ابن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی۔ اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

ایک اور بیان کے مطابق آپ کی زیارت کا اجر بہشت ہے۔

بحار الانوار، ج 57 ص 219

ریاحین الشریعۃ، ج 5 ص 35

امام رضا (ع) کی حدیث میں یوں آیا ہے کہ جو کوئی اس کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی۔

عیون اخبار الرضا ؑ، ج 2 ص 271

مجالس المؤمنین، ج 1 ص 83

اور دوسری روایات کے مطابق:

بہشت اس کی ہے۔

کامل الزیارات، ص 536 ح 827

امام جواد (ع) نے فرمایا: جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت کے ساتھ میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت میں سے ہو گا۔

بحار الانوار، ج 102 ص 266

حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خاندان اہلبیت (ع) کی ایک بی بی قم میں دفن ہوں گی کہ جس کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:

مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى،

جس نے شہر قم میں معصومہ کی زیارت کی اس نے ہماری زیارت کی ہے۔

ناسخ التواریخ ،ج 3 ص 68

امام معصوم کی جانب سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو یہ لقب ملنا، آپ کی شان و منزلت کی بہترین دلیل ہے۔

امام رضا علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

جو میری زیارت کو نہ آ سکے وہ شہر ری میں میرے بھائی یا شہر قم میں میری بہن کی زیارت کرے تو اسے میری زیارت کا ثواب عطا کیا جائے گا۔

زبدۃ التصانیف ،ج 6 ص 159

عالمہ غیر معلمہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا:

القاب کس نے دیئے:

تین معصومین علیہم السلام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے یہ القاب بی بی کی ولادت با سعادت سے پہلے عطا فرمائے تھے۔

فاطمہ نام کی محبوبیت:

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی کئی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے: فاطمہ کبریٰ، فاطمہ صغریٰ (بی بی ہیبت، تدفین: آذربائیجان باکو)، فاطمہ وُسطیٰ، فاطمہ اُخریٰ (عُرف خواہر امام، تدفین : رشت ایران) فاطمہ کبریٰ یہی بی بی ہیں جو قم مقدسہ کی معنویت و مرکزیت کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

مفصل القاب:

معصومہ، اُخت الرضا، کریمہ ٔاہلبیت، عالمہ غیر معلمہ، ولیۃ اللہ، عابدہ، زاہدہ، عقیلہ، متقیہ، عارفہ کاملہ، مستورہ، عقیلہ الھاشمیہ، محدثہ، شفیعۂ روزِ جزا، طاہرہ، راضیہ، رضیّہ، مرضیہ، تقیّہ، نقیّہ، رشیدہ، سیدہ، حمیدہ، برّہ۔

مشہور لقب کی عطا:

کتاب ناسخ التواریخ کے مطابق لقب: معصومہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا اور واضح ہے کہ کوئی بھی معصوم کسی غیر معصوم کو معصومہ خطاب نہیں فرماتے لہذا یہ عالمہ غیر معلمہ بی بی درجۂ عصمت پر فائز ہیں۔

اور بی بی کے جدّ گرامی امام صادق (ع) نے بی بی کی ولادت سے پہلے انکو « کریمہ اہل بیت » کا لقب عطا فرمایا تھا۔

بھائی سے جدائی کا عرصہ:

حضرت امام رضا علیہ السلام کی مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف اجباری ہجرت کے ایک سال کا عرصہ بی بی نے بھائی کی جدائی میں بسر کیا لیکن مزید قابل تحمل نہ رہا۔

ہجرت:

مدینہ منورہ سے قم شہر۔

ہجرت کی وجہ: حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنی بہن کے نام خراسان سے خط بھجوایا تھا جس کے ملتے ہی بی بی نے رخت سفر باندھ لیا۔

مذہبی شہر قم میں داخلہ:

23 ربیع الاول 201 ہجری (ابھی تک اس دن حضرت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کے قم داخلے کی یاد تازہ کی جاتی ہے)۔

حضرت معصومہ کی ہمراہی:

بھائی سے ملنے کے شوق میں پیش آنے والے اس سفر میں حضرت معصومہ علیہا السلام کے پانچ بھائیوں، متعدد بھتیجوں، چند غلاموں اور چند کنیزوں نے بی بی کی ہمراہی اختیار کی۔

حضرت معصومہ کے ساتھ سفر میں ہمراہی کرنے والے بھائیوں کے نام یہ ہیں:

فضل، جعفر، ہادی، قاسم اور زید۔

کاروان پر حملہ:

جب یہ کاروان ساوہ شہر پہنچا تو خلیفۂ وقت مأمون کے اشارے پر دشمنان اہل بیت (ع) نے حملہ کر دیا، دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس حملے میں حضرت معصومہ کے تمام بھائی اور کئی دیگر ہمراہی شہید ہو گئے۔

حضرت معصومہ علیہا السلام کا بیمار ہونا:

دشمنوں کے ظالمانہ حملے کی وجہ سے پیش آنے والی مظلومانہ شہادتیں دیکھ کر یا ایک تحقیق کے مطابق مسموم ہو جانے کی وجہ سے بی بی سخت بیمار ہو گئیں اور خراسان تک سفر کرنا ناممکن ہو گیا۔

اہل قم کا استقبال:

قم کے مؤمنین باخبر ہوئے تو استقبال کے لیے بڑھے اور انتہائی شان و شوکت سے جبکہ کریمہ اہلبیت کے ناقہ کی لگام موسیٰ بن خرزج نے پکڑی ہوئی تھی۔ کاروان کو قم لے گئے۔ اسی بزرگوار اور عقیدت مند مؤمن کو میزبانی کا شرف نصیب ہُوا۔

قم میں قیام:

باب الحوائج امام کی بیٹی، رئیسِ مذہب امام کی پوتی، غریب الغرباء امام کی ہمشیرہ اور جواد الائمہ امام علیہم السلام کی پھوپھی حضرت معصومہ قم شہر میں مقیم ہوئیں اور اس قیام کی مدت 17 دنوں سے بڑھ نہ سکی۔

قیام کا مقام یا قیام گاہ:

قم میں موسیٰ بن خزرج کا گھر بی بی کی قیام گاہ بنا جو بعد میں مدرسہ ستّیہ کی صورت اختیار کر گیا۔ اس گھر میں بی بی کا محرابِ عبادت اب بھی بیت النور کے عنوان سے معروف ہے، حضرت معصومہ علیہا السلام کا محراب عبادت آج بھی عام و خاص کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

حسرت جو ادھوری ہی رہی:

بھائی کو ملنے کی حسرت پوری نہ ہو سکی اور بہن اپنے بھائی کی یاد میں اس پردیس کے عالم میں دُنیا سے گزر گئیں۔

تاریخ شہادت:

دس ربیع الثانی 201 ہجری

تشیع:

پیکر مطہر سوگوار ارادتمندوں کے اجتماع میں بہت شان و شوکت سے قم سے باہر تدفین کے لیے لایا گیا ، جہاں اس وقت حرم مطہر قائم ہے۔

حضرت معصومہ کی تدفین:

مؤمنین اسی مسئلے میں شدت سے پریشان تھے کہ تدفین کا مرحلہ کیسے ہو تو اسی دوران دو نورانی ہستیاں اپنی سواریوں پر وہاں تشریف لائیں جن کے چہروں پر نقاب تھے، ایک قبر کے اندر داخل ہوئے اور ایک نے جسد مطہر احترام سے اٹھا کر ان کے سپرد کیا اور پھر کسی سے کوئی بات کیے بغیر وہ دونوں سوار وہاں سے چلے گئے۔

دفن کرنے والے:

معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو بزرگوار و غمخوار ہستیاں خداوند کی دو حجتیں، دو معصوم امام یعنی حضرت امام رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام تھے کیونکہ معصوم کو غیر معصوم دفن نہیں کر سکتا۔

مدفن:

تدفین کے بعد موسی ابن خزرج نے بوریا سے بنایا گیا ایک سائبان قبر مطہر پر قائم کیا۔

گنبد:

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب نے مرقد منور پر سن 205 ہجری میں گنبد تعمیر کروایا۔

مثالی بہن بھائی:

تاریخ نے مثالی بہن بھائی پہلے بھی دیکھے تھے، یہ بہن بھائی بھی بہت بے مثال محبت و ارادت والے تھے۔

ایک حساب کے مطابق حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا دونوں کی والدہ ماجدہ ایک تھیں یعنی حضرت نجمہ خاتون۔ امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت 11 ذیقعدہ 148 ہجری میں ہوئی جبکہ حضرت فاطمہ کبری یکم ذیقعدہ 173 ہجری میں دنیا میں تشریف لائیں۔ اس طرح سے 25 سال کا عرصہ امام ایسی بہن سے محروم رہے تھے اور خداداد فضائل جو حضرت معصومہ علیہا السلام کو عطا کیے گئے تھے اور عصمت و علم و سخاوت و کرامت کہ کریمۂ اہلبیت کہلائیں، ان سب کی وجہ سے یہ بہن ، بھائی کی نگاہ میں خاص و منفرد منزلت و مقام رکھتی تھیں۔

مقام و منزلت:

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو خود ان کے رؤوف بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام نے معصومہ کہہ کر پکارا اور ان کی زیارت کی فضیلت اس طرح سے بیان فرمائی:

قال الامام الرضا (ع) مَن زار المعصومۃ بقم کمن زارنی۔

یعنی جو شخص بھی قم میں حضرت معصومہ کی زیارت کا شرف حاصل کر لے تو اُس نے میری زیارت کر لی ہے۔

اسی طرح حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:

من زار قبر عمّتی بقم فلہ الجنۃ،

یعنی جو بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، تو جنت اسکی ہو جائے گی۔

مقام شفاعت:

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمۂ اہلبیت بی بی مقام شفاعت پر فائز ہیں جیسا کہ اُن کے القاب میں سے ایک لقب شافعۂ روزِ جزا ہے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

فاطمہ کبریٰ کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔

اب بھی قم مقدسہ میں ہر زائر کے دل کی امید کے پس منظر میں اُس کی زبان پر یہ جملہ وظیفہ بن کر مکرر ہوتا رہتا ہے:

یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ،

خداوند متعال اس کریمہ بی بی کی کرامت کے طفیل ہمیں بھی ان کی مقبول زیارت اور شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک