توحیدعبادی
توحید ایک اہم ترین مرتبہ جس کے بارے میں قران مجید میں متعدد آیات موجود ہیں وہ توحید عبادی ہے۔اس میں تو کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عبادت فقط خدا وند متعال کی ہوسکتی ہے اسکے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت جائز نہیں لیکن عبادت کسے کہتے ہیں؟یا عبادت کن کن امور سے ہوتی ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ عبادت یعنی خضوع ،تذلل اور تعظیم کانام ہے۔
لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ تعریف درست نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید نے بذات خود خدا کے علاوہ دوسروں کی تعظیم اور انکے سامنے خضوع اور تذلل کا حکم دیا ہے۔مثلاً قرآن کریم میں ہے:
” ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ “[1]
ترجمہ: بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔
یا والدین کے سامنے تذلل کا حکم ہے جیسے:
” وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا “[2]
بنابریں مطلق خضوع اور تذلل کو عبادت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
یا بعض حضرات کہتے ہیں :”عبادت،انتہائی درجے کا تذلل اور خضوع کا نام ہے”
البتہ یہ تعریف بھی درست نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ سجدہ انتہائی درجے کا تذلل اور خضوع ہے لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے کہ “غیر اللہ کو بھی اللہ کے حکم سے سجدہ کیا گیا ہے”مثلاًخدا نے تمام ملائکہ کو حکم دیا کہ حضرت آدمؑ کو سجدہ کریں!
” وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ “[3]
ترجمہ: اور (اس وقت کو یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔
یا فرزندان یعقوبؑ بلکہ خود یعقوبؑ اور انکی زوجہ کو حضرت یوسفؑ کے سامنے سجدہ کریں!
” وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ “[4]
ترجمہ: اور وہ سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا:اے ابا جان! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا، بتحقیق میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا۔
ذرا غور فرمائیں:
اگر عبادت انتہائی تذلل اور خضوع کا نام ہوتا تو ملائکہ اور حضرت یعقوبؑ اپنے فرزندان سمیت “غیراللہ” کے سامنے ایسا عمل ہی کیونکر انجام دیتے۔
اشکال:
مذکورہ موارد میں سجدہ عبادت نہیں کیونکہ یہ سجدہ خدا کے حکم سے تھا۔
جواب:
کبھی بھی حکم بدلنے سے موضوع تبدیل نہیں ہوتا ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ موضوع کا حکم تبدیل ہوجائےء لیکن حکم مُغیّر و مُبدّل موضوع نہیں ہوتا۔آسان الفاط میں یوں کہا جائے کہ اگر سجدہ عبادت ہے تو پھر عبادت ہوگا چاہے حکم کچھ بھی ہو، اگر سجدہ عبادت نہیں ہے تو پھر عبادت نہیں ہوگا چاہے حکم کچھ بھی ہو۔مثلاً اگر ایک عمل شرک ہو تو وہ شرک ہی ہوگا اب کسی کے کہنے سے وہ مشرکانہ عمل، توحیدی عمل نہیں بنے گا۔
اشکال:
ان موارد میں سجدہ نہ آدم کو تھا اور نہ ہی یوسف نبی کو بلکہ سجدہ تو اللہ کیلئے تھا ،ہاں آدم اور یوسف ،کعبۃ اللہ کی مانند تھے یعنی انکی جانب رخ کرکے سجدہ کیا گیا ناکہ انہیں سجدہ کیا گیا۔
جواب:
قرآن مجید کی آیات واضح طور پر بیان کررہی ہیں کہ حضرات آدم اور یوسف ؑ کو سجدہ کیا گیا،”اسجدوا لآدم” یا”خرّوا لہ سُجّداً” کا معنی یہ ہے کہ حضرات آدم اور یوسف ؑ کو سجدہ کیا گیا ۔اگر معنی یہ ہوتا کہ انکی جانب رخ کر کے سجدہ کرو جیسے کعبۃ اللہ کی جانب رخ کرکے سجدہ کرتے ہو تو آیات” اُسجدوا الی آدم “یا “خرّوا الیہ سُجّداً “ہونی چاہیئے تھیں۔
پس مذکورہ مباحث سے ثابت ہوا سجدہ بما ھی سجدہ (بذات خود) عبادت نہیں ہے۔
عبادت کی صحیح تعریف: “وہ خضوع اور تذلل جو الوہیت اور ربوبیت کا عقیدہ رکھتے ہوئے کیا جائے”
اس تعریف کی بناءپر عبادت کے دو رکن ہیں:
الف:خضوع و تذلل
ب:کسی چیز کو اللہ مانتے ہوئے ،اسکی پرستش کی جائے یا اسکے سامنے جھکا جائے۔
قران مجید واضح طریقہ سے بیان کرتا ہے کہ مزرکین خدا کے علاوہ دوسری چیزوں کے بارے میں الوہیت یا ربوبیت کا عقیدہ رکھتے ہوئے انکے سامنے جھکتے تھے۔
آیات ملاحظہ فرمائیں:
” وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا “[5]
ترجمہ:اور انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ ان کے لیے باعث تقویت بنیں ۔
“اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی”[6]
ترجمہ: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟
“الَّذِیۡنَ یَجۡعَلُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ۚ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ”[7]
ترجمہ: جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا لیتے ہیں عنقریب انہیں (اپنے انجام کا) علم ہو جائے گا۔
“اَمۡ لَہُمۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ”[8]
ترجمہ: یا ان کا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ اللہ اس شرک سے پاک ہے جو یہ کرتے ہیں۔
“وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً”[9]
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟
مذکورہ آیات سے پتہ چلتا ہے کہ مشرکین کا شرک اس بات کا نتیجہ تھا کہ خدا کے علاوہ دوسری چیزوں کو بھی الہ اور خدا مانتے تھے۔
خلاصۂ کلام:
مذکورہ مطالب سے چند امور واضح ہوجاتے ہیں:
الف:کسی بھی چیز کی صرف تعظیم کرنا ،اسکی عبادت شمار نہیں ہوگی۔
ب:حتی کہ غیراللہ کو سجدہ تب تک شرک یا عبادت شمار نہیں ہوگا جب تک اسکی الوہیت یا ربوبیت کا عقیدہ نہ رکھا جائے۔البتہ اگر مشہور قول کی بناء پر غیراللہ کو سجدہ کرنا مطلقا حرام ہے گرچہ الوہیت یا ربوبیت کے عقیدہ سے نہ بھی ہو لیکن توجہ رہے حرام ایک چیز ہے اور شرک دوسری چیز ہے۔
ج: مشرکین دوسری چیزوں کے بارے میں الوہیت اور ربوبیت کا عقیدہ رکھتے تھے۔
د:شعائر اللہ کی تعظیم کرنا شرک فی العبادہ نہیں ہے بلکہ یہ تو بذات خود امر الٰہی کی بجاآوری ہے۔
ھ: اولیاء الٰہی سے استمداد کرنا یا ان سے توسل کرنا یا انکے مزارات مقدسہ کی تعظیم کرنا انکی عبادت شمار نہیں ہوگا کیونکہ ان سے استمداد کرنا یا ان سے توسل رکنا یا انکی قبور کی زیارت کرنا کبھی اس عقیدہ کی بناء پر نہیں ہوتا کہ وہ نعوذ باللہ وہ الٰہ ہیں یا ربّ ہیں۔
ز: یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا اگر الوہیت اور ربوبیت کے عقیدہ سے نہ ہو تو شرک نہیں ہوگا۔
ابتہ متعدد آیات میں جو ایا ہے کہ غیر اللہ کو نہ پکارو ۔ان تمام ایات کا مورد وہی مشرکین ہیں یعنی اس طرح نہ پکارو جیسے مشرکین پکارتے تھے اور واضح ہے کہ مشرکین انکو ربّ یا الٰہ سمجھ کر پکارتے تھے۔
اس مسئلہ کی مکمل تفصیل انشاء اللہ شبہات کے جواب میں عرض کریں گے۔
معاونت فرہنگی مدرسہ علمیہ ثقلین قم۔
00982538801693-5
________________________________________
[1] ۔سورہ حج آیت 32
[2] ۔سوری بنی اسرائیل آیت 24
[3] ۔سورہ بقرہ آیت 34
[4] ۔سورہ یوسف آیت 100
[5] سورہ مریم آیت 81
[6] ۔سورہ انعام آیت 96
[7] ۔سورہ حجر آیت
[8] ۔سورہ طور آیت 43
[9] ۔سورہ انعام آیت 74