شریکۃ الحسین حضرت زینب کبری (س) کی ولادت با سعادت
شریکۃ الحسین حضرت زینب کبری (س) کی ولادت با سعادت
حضرت زینب کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو سیدہ زینب ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں ۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے در و بام کو روشن کئے ہوئے ہیں، اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پرچم لہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیزہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ہیں ۔
عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ و ہاجرہ و خدیجہ اور طیب و طاہر صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا (س) کی عظیم شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ہیں وہاں جناب زینب بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بن کر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ اور جھوٹ ایمان و کفر اور عدل و ظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔
کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبری ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں۔ انہیں سیدہ زینب نے کربلا کی سر زمین پر کسب کمال میں وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں۔
جناب سیدہ زینب کی ولادت اور رسول خدا (ص) کی خوشحالی:
حضرت زینب امام علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی بیٹی یعنی حضرت محمد (ص) کی نواسی تھیں۔ وہ 5 جمادی الاول 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
جناب سیدہ کی پیدائش پر پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ۔ یوں جیسے رسول خدا کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا ۔ خود نبی اکرم سفر میں تھے علی ابن ابی طالب (ع) نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے۔
مولا علی سب سے زیادہ رسول اسلام کی آمد کے منتظر تھے کہ دیکھیں حضور اکرم اپنی نواسی کے لیے کیا نام منتخب کرتے ہیں ۔ رسول اسلام جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ کے دروازے پر سلام کر کے رخصت ہوتے تھے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے در سیدہ پر آ کر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے ۔
آج سب، جیسے ہی سفر سے پلٹے سب سے پہلے فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی (ع) نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا ۔ بچی کو دیکھ کر رسول خدا نے گریہ کرنا شروع کر دیا۔ کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ: جبرائیل امین نے مجھے بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہو گی۔
اس کے بعد آپ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ:
یہ میری بچی خدیجۃ الکبری کی من و عن (ہو بہو) تصویر ہے۔
روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا : خدا نے اس بچی کا نام " زینب " منتخب کیا ہے ۔
اس لیے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں " زین " معنی زینت اور "اب"معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں ۔ رسول خدا نے جناب سیدہ زینب کو اپنے سینہ اقدس سے لگا لیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی(ع) کے رخسار مبارک پر رکھ کر اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسو چہرہ مبارک پر جاری ہو گئے ۔ کیونکہ وہ جناب سیدہ زینب پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے ۔
کتاب قاموس اللغہ میں آیا ہے کہ: لفظ زینب اصل میں وہی زین اب ہے کہ جسکا معنی اپنے باپ کی زینت ہے،
تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ: بلند مقام فرشتے جناب جبرائیل نے اس مبارک نام کو خداوند کی طرف سے انتخاب کیا تھا اور کتنا خوبصورت نام ہے،
نشوو نما:
سیدہ زینب کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔
نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبری فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گیئں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز توجہ کا شرف بخشا جو زینب کی پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلی کا عہد طفولیت تکمیل انسانی کی ایک مثال بن گیا۔
امام سجاد کی زبان سے بی بی زینب کے علم لدنی کا مقام بیان ہونا:
اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَة
اے پھوپھی اماں، آپ الحمد للہ ایسی خاتون ہیں کہ جسکو کسی نے پڑھایا نہیں ہے، اور آپ ایسی عاقل خاتون ہیں کہ کسی نے آپ کو عقل و شعور نہیں دیا۔
الاحتجاج، ج2 ،ص27
عفت و حجاب و حیاء حضرت زینب(س):
نقل ہوا ہے کہ: امیر المؤمنین علی (ع) کے کوفہ میں ایک ہمسائے نے کہا کہ: میں پانچ سال تک علی کا کوفہ میں ہمسایہ تھا، میں نے اس مدت میں علی کی بیٹی زینب کا نام سنت تھا لیکن اس مدت میں اسکو اور اسکی آواز تک کو بالکل نہیں سنا تھا، کیونکہ وہ بالکل گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی۔
شعوری اور فکری تربیت:
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام اور علی و فاطمہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیر معمولی کردار بن گیا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ غیر معلمہ اور فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات بکھیرتا چراغ بن گئیں ۔
جب بھی ہم جناب زینب کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف حصوں پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں مہکتی اور مسکراتی تین چار ماہ کی ایک معصوم بچی ہو چاہے وہ کوفہ میں خلیفۂ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی " عقیلۂ قریش " ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی حسین غریب کی شریک و پشت پناہ ، فاتح کوفہ و شام ہو ہر جگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے کلیدی کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہیں۔
روایت کے مطابق حضرت زینب ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ علی ابن ابی طالب ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ زہرا سے اپنے مہمان کے لیے کھانے کی فرمائش کی، معصومہ عالم نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب کے لئے رکھی ہوئی ہے یہ سن کر علی و فاطمہ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اور مسکراتے ہوئے کہا : مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھا لوں گی اور ماں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں : " تم واقعا زینب ہو"،
جناب زینب کو بھی بچپن میں ہی نانا رسول خدا کے سایہ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی درد و مصائب میں مبتلا مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کر دیا ۔
حضرت زینب کو حضرت محمد (ص) کی زیارت کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ جب وہ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد انکی مادر گرامی حضرت فاطمہ بھی انتقال فرما گئیں۔
اور جناب فاطمہ زہرا (س) کی رحلت کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو " ثانی زہرا" اور " عقیلۂ بنی ہاشم " جیسے خطاب عطا کرنے پر مجبور ہو گئی ۔
حضرت زینب نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھا تھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی ۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں ۔
حضرت زینب (س) کی ازدواجی زندگی:
حضرت علی (ع) نے اپنی بیٹی جناب زینب کبری کی شادی اپنے بھتیجے جناب عبد اللہ ابن جعفر سےکی تھی، جن کی کفالت و تربیت، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم (ص) نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب نے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی ۔
روایت میں ہے کہ حضرت علی نے عبد اللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے اگر وہ اپنے بھائی امام حسین کے ساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہوں گی ۔
چنانچہ جناب عبد اللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی پشت پناہی کے عمل میں جناب زینب کی حمایت اور نصرت و مدد کی حضرت علی کی شہادت کے بعد جناب زینب کو اپنے شوہر کے گھر میں بھی آرام و آسایش کی زندگی میسر تھی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے حضرت عون اور حضرت محمد کربلا میں امام حسین کے ہمراہ شہید ہو گئے ۔
جناب زینب (س) کی اپنے بھائی امام حسین (ع) سے محبت:
جناب عبد اللہ اقتصادی اعتبار سے اچھے تھے انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب کے لئے مہیا کر رکھی تھیں ۔ وہ جانتے تھے جناب زینب کو اپنے بھائیوں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے ۔
خاص طور پر جناب زینب امام حسین سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں میں پرورش پا رہی تھی چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن جناب سیدہ فاطمہ نے پیغمبر اسلام سے عرض کی کہ بابا ! مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین کو ایک لمحے کے لیے نہیں دیکھتی تو بے چین ہو جاتی ہے، اس وقت رسول اسلام نے فرمایا تھا : بیٹی ! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہو گی"۔ یہ سنتے ہی جناب زینب عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کر دی اور جب امام حسین کے ساتھ ہر محاز پر شریک سفر رہیں ۔
ثانی زہرا کو بچپن ہی سے اپنے بے مثال بھائی حضرت امام حسین سے خصوصی محبت و الفت تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بچپن میں بھی اگر آپ کو تھوڑی دیر کے لیے امام حسین کے چہرے کی زیارت نصیب نہ ہوتی تو آپ پر گریہ طاری ہو جاتا تھا۔ یہ محبت و الفت بچپن سے کربلا تک اس درجہ کمال کو پہنچ چکی تھی جہاں یک جان دو قالب کی صورت پیدا ہو گئی اور حضرت امام حسین جیسی شخصیت نے واقعۂ کربلا کے دوران حضرت زینب سے مشاورت فرمائی۔ یہی سبب ہے کہ واقعۂ کربلا میں آپ نے امام حسین کی پیروی میں نہ صرف بہ تمام و کمال پیش آنے والے تمام مصائب کو برداشت کیا، بلکہ اپنے دو بیٹوں حضرت عون و محمد کو بھی راہِ خدا میں فدا کیا۔ اور اس کے بعد کربلا سے کوفہ و شام تک بے پردگی کے عالم میں بھائی کے پیغام کو عام کرتی چلی گئیں، اسی لیے آپ کو شریکۃ الحسین بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بی بی زینب کو ام المصائب بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کیوں کہ آپ نے مسلسل غم و آلام نہایت قریب سے دیکھے۔ اول اول پانچ برس کی عمر میں حضور ختمی مرتبت کی رحلت پر گھر میں صفِ ماتم دیکھی۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ بی بی فاطمۃ الزہرا کی وفات پر غم و الم کا شکار ہوئیں۔ پھر اپنے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالب کی شہادت کا غم سہا، اس کے بعد بڑے بھائی امام حسن کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور آخر میں اپنے چہیتے برادر حضرت امام حسین کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ حضرت امام حسین سے پہلے کے تمام واقعات و حادثات کا مشاہدہ کربلا کے لیے آپ کا تربیتی اثاثہ قرار پایا اور یومِ عاشور آپ نے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بیٹوں کو خون میں غلطاں دیکھا، مگر ﷲ کے شکر کے سوا آپ کی زبان مبارک سے کوئی اور لفظ نہ نکلا۔
حضرت زینب کی طبیعت میں عبادت و پرہیزگاری کا عنصر نہایت غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام غم و آلام پوری خندہ پیشانی سے سہتی رہیں، مگر عبادات خداوند میں کوئی کمی نہیں آئی۔
امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں: میری پھوپھی نے تمام سفر و اسیری کے دوران کبھی نماز قضا نہ کی اور وقت رخصت آخر امام حسین نے بھی اپنی بہن زینب سے فرمایا تھا کہ: اے بہن! مجھے اپنی نمازِ شب میں فراموش نہ کرنا۔
یہ سند ہے کہ حضرت زینب نہایت عبادت گزار اور پرہیزگار شخصیت تھیں۔ آپ کو ثانیٔ زہرا کہنے کی وجہ غالباً یہی ہے کہ آپ حسبی و نسبی اعتبار سے کئی منازل میں حضرت فاطمۃالزہرا سے مماثلت رکھتی ہیں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا نے آغوشِ رسالت میں پرورش پائی تو حضرت زینب کو آغوشِ رسالت و ولایت میسر آئی۔ حضرت فاطمۃ الزہرا کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری ہیں تو حضرت زینب کی والدہ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ہیں۔ حضرت خدیجہ کے دو فرزند راہِ خدا میں شہید ہوئے تو حضرت زینب نے بھی اپنے دو بیٹے راہِ خدا میں فدا کیے۔
11محرم الحرام کو یومِ زینب کا مقام حاصل ہوا اور آپ پر مصائب کی انتہا ہو گئی۔ راہِ کوفہ و شام کا سر برہنہ سفر آپ کے مصائب کی ہمت و جرأت کا امتحان ثابت ہوا۔ ﷲ اکبر! زینب اس مقام سے بھی سرخرو گزریں اور کوفہ و شام میں آپ کے بھرپور خطبات ثابت کرتے ہیں کہ آپ نے بغیر کسی گھبراہٹ و خوف کے کبھی راہِ کوفہ میں تو کبھی دربارِ یزید میں نہایت جرأت و شجاعت کے ساتھ ظالم کے ظلم اور مظلوم کے حق کی وضاحت فرمائی۔ ان خطبوں کی علمیت، ان کی اہمیت اور اندازِ خطابت حضرت علی کے خطبات کی یاد دلاتا ہے اور ان سے حضرت زینب کی علمیت و تدبر کی عکاسی ہوتی ہے۔
واقعہ کربلا میں حضرت زینب کی ذاتِ اقدس محض ایک بہن کی نہیں ہے، صرف ایک ماں کی نہیں ہے، صرف ایک مجاہدہ اور خطیبہ کی نہیں ہے، بلکہ زینب نام ہے اس شخصیت کا جس نے کربلا میں لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے۔ کربلا میں آپ کی شخصیت سے قریب قریب ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہدایت آفریں کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔
جناب زینب وہ پاکیزہ سیرت خاتون ہیں جو اپنے والد حضرت علی (ع) اور اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت و گفتار پر صدق دل سے ایمان رکھتی تھیں اور اخلاق و آداب میں مہربان ، صادق اور مہذب و مؤدب خاتون تھیں وہ دوسروں کی جان کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو خطروں میں ڈال دیا کرتی تھیں اور تمام میدانوں میں دوسروں کو خود پر مقدم رکھتی تھیں۔ معرکہ کربلا میں آپ حتی کہ اپنے حصے کا پانی بھی نوش نہیں فرماتی تھیں بلکہ بچوں کو پلا دیا کرتی تھیں۔ ایسے بحرانی حالات اور مصائب و آلام کے ماحول میں جہاں ہر انسان کے قدم متزلزل ہو جایا کرتے ہیں۔ جناب زینب ثابت قدم رہیں ، ظالموں اور جابروں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور موقع و محل کے مطابق گوناگوں حالات میں بہترین کردار کامظاہرہ کیا۔ آپ نے کبھی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے عظیم خطبوں کے وار سے ان کے دلوں پر کاری ضربیں لگائیں تو کبھی، غمزدہ بیبیوں اور بچوں کی تسکین کے لئے نرم و مہربان مشفقانہ لہجے میں دلجوئی کی اور امام وقت سید سجاد زین العابدین کی جان کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں جلتے ہوئے شعلوں سے نکال کر امام حسین کے بعد حسینی انقلاب کی قیادت و پاسبانی کے فرائض ادا کئے اور ایسے خطرناک مراحل میں صرف خداوند عالم سے مدد طلب کی۔ آپ نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران ظالم و جابر ستمگروں کے دربار اور لوگوں کے ہجوم میں اپنے حکیمانہ خطبوں اور تقریروں سے کربلا کے انقلاب کو حیات نو عطا کی۔ خطبوں اور تقریروں کی فصاحت و بلاغت آپ کے علم و کمال کے ساتھ دیگر شخصی خصوصیتوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ خطابت کے علاوہ آپ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے جگہ جگہ وقت و حالات کے مطابق بالکل صحیح و بجا مستحکم فیصلے کیے ہیں۔
حضرت زینب اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ کہاں پر نرم لہجے میں گفتگو کرنا ہے اور کہاں جوش و خروش کے ساتھ حماسہ آفریں تقریر کرنی ہے۔ اسیری کے بعد جب جناب زینب دیگر اہل حرم کے ساتھ کوفہ و شام کے دربار میں ابن زیاد اور یزید لعین کے سامنے لائی گئیں تو آپ نے تو آپ نے بے مثال خطبے پیش کئے۔ یہ خطبے ایسے حالات میں دئیے گئے جب اہل بیت پیغمبر یزیدیوں کے زر خرید غلاموں کی قید میں اذیتوں کے سخت دور سے گزر رہے تھے اور دشمن اپنی پوری طاقت و توانائی صرف کر کے اپنے زعم ناقص میں انہیں معاذ اللہ ذلیل و خوار کرنا چاہتے تھے لیکن جناب زینب نے اپنی شعلہ بار تقریروں سے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ان کی نیندیں حرام کر دیں۔ یہ خطبے اور تقریریں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یہ تمام مصائب و آلام ، جناب زینب کے پائے ثبات کو متزلزل کرنے میں ناتواں تھے ایسے سخت حالات میں ایک دلشکستہ و غمگین خاتون کے ذریعے دیئے گئے وعظ خطبے اور تقریریں مخصوص الہی امداد کے بغیر ممکن نہ تھیں اور یہ چیز جناب زینب کی کرامت میں شمار ہوتی ہے۔
حضرت زینب (س) کی پاک شخصیت کے تاریخی پہلو:
دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی تحفظ و پاسداری:
جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھا تھا کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھا ہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کر رہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی حسین کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہو گئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کا پورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا ۔
علم و تقوی:
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس ہو گی اس کا علم و تقوی کتنا بلند و بالا ہو گا۔ جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی ہیں ، لیکن ہماری عورتوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکیں ۔
ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع ہو گئیں ۔اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معرفت اللہ سے مستفیض فرمائیں ۔ زینب نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں ہی خواتین کی کثیر تعداد علوم اللہ سے فیضیاب ہونے لگی ۔ آپ ہر روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں ۔
تاریخ آپ کو " ثانی زہرا" اور " عقیلۂ بنی ہاشم " جیسے ناموں سے بھی یاد کرتی ہے ۔
کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مرد و زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں ہو رہی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں ہو رہی ہیں جس کا باپ "راسخون فی العلم " جس کا باپ باب شہر علم ہے جس کا باپ استاد ملائکہ ہے ۔
جذبہ جہاد و ایثار سے سرشار بیٹی:
حضرت زینب نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سر بلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئے جاوداں بنا دیا۔ جناب زینب کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتا ہے۔
فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر:
اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیاز ہے صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز استعمال نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے ۔
سالار حق و حقیقت:
جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کیے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کر کے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سر دربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کر کے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کیے ہیں ۔
انقلابی تدبر:
باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے شرابی و زناکار حکمران یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کر دیا۔
بے مثال عالمہ اور صبر و استقامت کی انتہا:
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب س) عالمہ غیر معلمہ ہیں اور ایسی دانا کہ آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں ہے۔
زینب کی حشمت و عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں خالق کائنات نے علم و دانش سے سرفراز فرمایا تھا ۔
جناب زینب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کی عظیم دولت و نعمت سے بھی بہرہ مند تھی زینب بنت علی تاریخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفریں کردار کا دوسرا نام ھے ۔
زینب نے اپنے عظیم کردار سے آمریت کو بے نقاب کیا ظلم و استبداد کی قلعی کھول دی اور فانی دنیا پر قربان ہونے والوں کو آخرت کی ابدیت نواز حقیقت کا پاکیزہ چہرہ دیکھایا ، صبر و استقامت کا کوہ گراں بن کر علی کی بیٹی نے ایسا کردار پیش کیا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا ۔
جناب زینب کو علی و فاطمہ کے معصوم کردار ورثے میں ملے امام حسن کا حسن و تدبیر جہاں زینب کے احساس عظمت کی بنیاد بنا وہاں امام حسین کا عزم و استقلال علی کی بیٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گیا ، تاریخ اسلام میں زینب نے ایک منفرد مقام پایا اور ایسا عظیم کارنامہ سر انجام دیا جو رہتی دنیا تک دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ و اسوہ حسنہ بن گیا۔
زینب بنت علی (ع) تاریخ اسلام میں اپنی ایک مخصوص انفرادیت ہے اور واقعہ کربلا میں آپ کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسین کے مقدس مشن کی تکمیل کو یقینی بنایا ۔ آپ نے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا تحفظ و پاسداری میں اپنا کردار اس طرح ادا کیا کہ جیسے ابو طالب (ع) رسول اللہ (ص) کی پرورش میں اپنے بھتیجے کے تحفظ کے لیے اپنی اولاد کو نچھاور کرنا پسند کرتے تھے کیونکہ ان کا ایک مقصد تھا کہ محمد بچ جائے وارث اسلام بچ جائے بالکل اسی طرح زینب کا حال یہ کہ اسلام بچ جائے دین بچ جائے چاہے کوئی بھی قربانی دینی پڑے ۔
تاریخ کربلا اور انقلاب زینبی:
تاریخ کربلا اور انقلاب زینبی (ع) میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جسکے قافلہ سالار امام حسین تھے جس کے حامی عباس (ع) علی اکبر (ع) بنی ہاشم اور امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب تھے ، وہ غیور مرد جن پر اہل بیت (ع) حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اہل بیت (ع) کو سکون تھا ۔
ایسی حمایت و نگہبانی تھی کہ سید شہدا (ع) کی حیات کے آخری لمحات تک دشمن خیموں کے پاس تک نہ بھٹک سکا ، جنگ کے دوران ابو عبد اللہ الحسین (ع) کی، لاحول ولا قوۃ الا باللہ کی آواز سے ان کی ڈہارس بندھی ہوئی تھی حسین (ع) اس طرح انھیں تسلی دے رہے تھے ۔
بہترین عزیزوں کی شہادت پر امام زین العابدین (ع) کے بعد اس قافلہ کی بزرگ خاندان پیغمبر (ص) سے ایک خاتون ہے کہ جس کے عزم و استقلال کے سامنے پہاڑ پشیمان، جس کے صبر پر ملائکہ محو حیرت ہیں، یہ علی (ع) کی بیٹی ہے، فاطمہ (س) کی لخت جگر ہے ۔ بنی امیہ کے ظلم کے قصروں کی بنیاد ہلانے والی ہے ، ان کو پشیمان و سرنگوں کرنے والی ہے جناب زینب تھیں ۔
یہ وہی سیدہ زینب (س) ہے جو اپنے امام (ع) کے حکم سے اولاد فاطمہ (س) کے قافلہ کی سرپرستی کرتی ہیں ، بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد امام حسین (ع) اور ان کے فداکار اصحاب کے خونی پیغام کو لوگوں تک پہنچاتی ہیں ۔
عباس محمود عقاد مصر کے معروف مصنف نے لکھا ہے کہ:
جب زینب نے سنا کہ ابن زیاد نے علی ابن حسین کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے، تو اس نے بے درنگ فوری خود کو اپنے وقت کے امام اور اپنے بھائی کے بیٹے کے پاس پہنچایا اور ابن زیاد کو اس کے قتل کرنے سے روکا، اس جرات اور شجاعت نے ابن زیاد اور اس کے دربار میں موجود ہر بندے کو حیران کر دیا۔ یقینی طور پر اگر زینب کی یہ جرات اور شجاعت نہ ہوتی تو نزدیک تھا کہ امام حسین کی نسل کی آخری یادگار بھی ختم ہو جاتی۔
محمدجواد مغنیہ لبنان کے متفکر نے لکھا ہے کہ:
علی (ع) نے علوم کو رسول خدا بغیر کسی واسطے کے حاصل کیا تھا اور ان علوم کو اپنی اولاد کو سیکھایا تھا اور ہم تک یہ تمام علوم علی (ع) کی اولاد کے ذریعے سے پہنچے ہیں۔ اسی وجہ سے بنی امیہ نے چاہا کہ نسل علی ختم کر دیں اور انکا کوئی بھی اثر باقی نہ رہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ: شمر نے کہا تھا کہ امیر عبید اللہ کا فرمان ہے کہ: حسین کی تمام اولاد کو قتل کیا جائے اور کوئی بھی زندہ نہ بچے۔
شمر نے یہ بات اس وقت کہی تھی کہ جب علی ابن حسین کو قتل کرنے کے لیے تلوار کو نیام سے نکالا ہوا تھا، اسی وقت زینب سامنے آئی اور کہا کہ: اگر اسکو قتل کرنا ہے تو پہلے مجھے بھی ساتھ قتل کرنا ہو گا۔
شیخ صدوق نے لکھا ہے کہ: حضرت زینب کو خاص نیابت امام حسین کی طرف سے ملی ہوئی تھی، اسی لیے لوگ حلال و حرام کے مسائل میں اس سے رجوع کیا کرتے تھے، لیکن جب امام سجاد کی صحت بہتر ہو گئی تو پھر وہ یہ کام امام وقت ہونے کی وجہ سے انجام دیتے تھے۔
علامہ مامقانی نے كتاب شریف تنقیح المقال میں لکھا ہے کہ:
حضرت زینب، امام کی مقام عصمت پر فائز تھیں اور اگر یہ مقام ان کے پاس نہ ہوتا تو امام معصوم امام حسین بالکل انکو امامت اور راہنمائی کا فریضہ نہ سونپتے، یعنی جب امام سجاد بیمار تھے، تمام امور امامت اور لوگوں کے حلال حرام کے مسائل بی بی زینب ہی انجام دیتی تھیں، لھذا یہ علامت ہے کہ وہ نائب امام ہونے کے خاص مقام پر فائز تھیں۔
احتجاج طبرسی میں ذکر ہوا ہے کہ: جب علی (ع) کی بیٹی نے لوگوں کو خاموش ہونے کے لیے اشارہ کیا تو، اسی اشارے کی وجہ سے سانس لوگوں نے سینوں میں رک کر رہ گئے اور حتی اونٹوں کی گھنٹیوں کی آوازیں بھی بند ہو گئی۔
كمال السید، نے كتاب "زنی بہ نام زینب" میں لکھا ہے کہ: جب رسول خدا نے دنیا میں آنے کے بعد اپنی نواسی کو ہاتھوں پر اٹھایا، اسکو چوم کر فرمایا:
حاضر اور غائب تمام لوگوں تک یہ بات پہنچا دو کہ میری اس بیٹی کا احترام کریں، کیونکہ اس کا احترام بالکل خدیجہ کبری کی طرح ہے۔
حضرت زینب (س) رسول خدا کے خاندان کے ان افراد میں سے ہیں کہ جن کا نام خود خداوند نے انتخاب کیا ہے۔
کوفہ کی طرف انقلابی حرکت:
11 محرم سن 61 ہجری کو اہل بیت (ع) کے اسیروں کا قافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا ، اہل بیت (ع) کے امور کی بھاگ دوڑ امام زین العابدین (ع) کے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ امام ہیں اور ان کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے، قافلہ سالار زینب کبری (س) ہیں ، جو امام زین العابدین (ع) کی قریب ترین ہیں اور خواتین میں سب سے بزرگ ہیں ۔
راہ حق و حقیقت میں کربلا کی فرض شناس خواتین نے امام عالی مقام (ع) کی بہن حضرت زینب کبری (ع) کی قیادت میں ایمان و اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل اور شجاعت و استقامت کے وہ جوہر پیش کیے ہیں ۔ جس کی مثال تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بھی ملنا ناممکن ہے ۔
کربلا کی شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے ۔ وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ آیا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرا دئیے۔ حضرت زینب (س) اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم (ع) ، رقیہ ( ع) ، رباب (ع) ، ام لیلی (ع) ، ام فروہ (ع) سکینہ (ع) ، فاطمہ (ع) اور عاتکہ (ع) نیز امام (ع) کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کیں۔
ظاہر ہے کہ ان خواتین اور بچوں کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے کہ جنہوں نے عاشور کے دن رنج و مشقت اور غم برداشت کیے تھے، دل خراش واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اپنے عزیزوں کے داغ اٹھاۓ تھے اور اب وہ بے رحم دشمنوں کے محاصرہ میں ہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کافر قیدیوں کی طرح لے جایا جا رہا ہے ۔
خواتین کے احساس و جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور صورت حال میں امام زین العابدین (ع) کی جان کی حفاظت بھی کرنا ہے جو کہ قافلہ میں زینب کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے وہ پیغام کربلا ہے کہ جو آپ کے ذمے ہے ، لیکن زینب کے حوصلہ میں حد سے زیادہ استقامت اور مقاومت ہے کہ وہ بڑی مشکلوں اور مصائب کے وحشتناک طوفانوں سے ہرگز نہ گھبرائیں اور مقصد امام حسین (ع) کو زندہ جاوید بنانے میں حضرت زینب نے تاریخی اور مثالی نمونہ پیش کیا ہے ۔
شام کی طرف انقلابی حرکت:
اسیروں کے قافلہ کو چند روز ابن زیاد کی بامشقت قید میں رکھ کر شام کی طرف روانہ کیا۔ جس وقت سے شام مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تھا اس وقت ہی سے وہاں خالد بن ولید اور معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگ حاکم رہے تھے ، اس علاقے کے لوگوں کو نہ پیغمبر (ص) کی صحبت میسر ہوئی اور نہ وہ آپ کے اصحاب کی روش سے واقف ہو سکے ،رسول خدا کہ چند صحابی جو اس سر زمین پر جا کر آباد ہوئے تھے یہ پراگندگی کی زندگی بسر کرتے تھے عوام میں ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا ، نتیجہ میں وہاں کے مسلمان معاویہ ابن ابی سفیان کے کردار اور اس کے طرز زندگی کو ہی سنت اسلام سمجھتے تھے ۔
اسیروں کے قافلے کے شام میں داخل ہونے کے وقت ایسے ہی لوگوں نے شہر شام کو جشن و سرور سے معمور کر رکھا تھا ، یزید نے اپنے محل میں مجلس سجا رکھی تھی ، اس کے ہم قماش چاروں طرف بیٹھے تھے تا کہ سارے مل کر اس کامیابی کا جشن منائیں ۔
بی بی زینب (س) کا یادگار اور تاریخی خطبہ:
زینب (س) اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی طرح ظالموں کے سامنے قد بلند کرتی ہیں، بھرے دربار میں خدا کی حمد و ستائش کرتی ہیں اور رسول (ص) و آل رسول (ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آیت سے اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں کہ:
ثم کان عاقبۃ الذین اساؤا السوء ان کذبوا بآیات اللہ۔۔۔۔
یزید تو یہ سمجھتا تھا کہ تو نے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کر دیا ہے تیرے گماشتوں نے ہمیں شہر بہ شہر اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو با عزت ہو گیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہو گیا ہے اسی لیۓ ان باتوں پر تکبر کر رہا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔
تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کر سکے کیا تو نے قول خدا کو فراموش کر دیا ہے ۔ کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئی ہے یہ ان کے لیے بہترین موقع ہے ، ہم نے ان کو اس لیے مہلت دی ہے تا کہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہو گا ۔
اے پسر طلقاء کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول کی بیٹیوں کو تو اسیر کر کے سر برہنہ کرے ، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جاۓ ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کر کے شہر بہ شہر پھراۓ؟ نہ انہیں کوئی پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کا خیال ہے ، نہ کوئی سر پرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے ، لیکن جس کے دل میں ہمارے طرف سے کینہ بھرا ہوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہہ کر تو فرزند رسول (ص) کے دندان مبارک پر چھڑی لگاتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تو نے آل رسول (ص) اور خاندان عبد المطلب کا خون بہایا ہے، اے یزید خوش نہ ہو کہ تو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے ، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پر ظلم و ستم کیا ہے ان کے دلوں کو ہمارے کینے سے خالی کر دے ،خدا کی قسم تو اپنی اوقات سے باہر آ گیا ہے اور تم نے اپنے اجداد کے ماضی کو فراموش کر دیا ہے۔
جس روز رسول (ص) خدا ، ان کے اہل بیت (ع) ، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ہو گا ۔ یہ دن وہ روز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں، انہیں جمع کرے گا ۔
خدا خود فرماتا ہے : " راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں ، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے ، جس روز محمد (ص) داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ہو گا ، اور عدالت الہی میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس روز معلوم ہو گا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے ۔
یزید اے دشمن خدا ! میری نظروں میں تیری بھی قدر و قیمت نہیں ہے کہ میں تجھے سر زنش کروں یا تحقیر کروں ، لیکن کیا کروں میری آنکھوں میں آنسو ہیں دل سے آہیں نکل رہی ہیں ، شہادت حسین (ع) کے بعد لشکر شیطان ہمیں کوفہ سے تیرے دربار میں لایا ہے تا کہ اہلبیت (ع) پیغمبر (ص) کی ہتک حرمت و عزت کرنے پر مسمانوں کے بیت المال سے ، جو کہ زحمت کش و ستم دیدہ لوگوں کی محنتوں کا صلہ ہے ، انعام حاصل کرے ۔
جب اس لشکر کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہوئے اور دہان ہمارے گوشت کے ٹکڑوں سے بھر گئے ہیں، جب ان پاکیزہ جسموں کے آس پاس درندہ کتے دوڑ رہے ہیں ایسے موقع پر تجھے سرزنش کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟
اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تو نے ہمارے مردوں کو شہید اور ہمیں اسیر کر کے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہو جاۓ گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس روز تمہارے کیے کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہو گا، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے ، تو اور تیرے پیروکار خدا کی عدالت کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔
تجھے اس روز معلوم ہو گا کہ بہترین توشہ جو تیرے باپ معاویہ نے تیرے لیے جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول (ص) خدا کے بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔
قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی ، جو چاہو تم کرو ، جس نیرنگی سے کام لینا چاہو، لے لو ، اپنی ہر دشمنی کا اظہار کر کے دیکھ لو ، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گیا ہے، وہ ہرگز صاف نہ گا ، ہر تعریف خدا کے لیے ہے جس نے جوانان بہشت کے سرداروں کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لیے واجب قرار دیا ہے، خداوند عالم سے دعا ہے کہ ان کی عظمت و عزت میں اضافہ فرماۓ ان پر اپنی رحمت کے سائے کو مزید زیادہ کرے کہ وہ ہر شئی پر قدرت رکھنے والا ہے ۔
سفیره کربلا کے خطاب سے مردہ ضمیروں میں بیداری:
شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزر جانے والے حادثے کی حقیقت سے آگاہ ہو گئے اور انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوۓ ہیں رسول (ص) خدا کے نواسے حسین بن علی (ع) اور یہ خواتین بچے جنہیں قیدی بنا کر دمشق لایا گیا ہے یہ پیغمبر اسلام (ص) کے اہلبیت (ع) یہ اس کا خاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر اور دوسرے مسلمانوں پر حکومت کر رہا ہے۔
بازار حمیدیہ جہاں شہدائے کربلا کی عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر لایا گیا۔ خطبہ زینب کبری کے سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوئے کلمات کا رد عمل یہ ہوا کہ پتھر دل والا بھی جب ایمان و تقوی سے سرشار اور خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھے لگا ۔ چند لحظوں کے بعد ہی قصر یزید میں موت کا سناٹا چھا گیا ۔
یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے تو کہنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے ، میں حسین (ع) کے قتل کو پسند نہیں کرتا تھا ، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے ، حکم دیا کہ انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیں ۔ قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاہتی ہیں، مل سکتی ہیں۔ زینب کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور خطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے ۔
جس زینب (س) نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر نہیں آیا اور کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رہیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رہیں ۔
اس ماحول میں لب کشائی کے لیے شیر کا کلیجہ اور جرات درکار ہے ، زینب (س) کی رگوں میں علی (ع) و فاطمہ (س) کا خون دوڑ رہا ہے ۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شہامت سے ایسے کلام کر رئیں ہیں اور اہلبیت (ع) کی فریاد مظلومیت پوری تاریخ میں پھیلا رہی ہیں اور مردہ ضمیروں کو بیدار کر رہی ہیں ۔
کلام زینب (س) کے چند نکات:
جناب زینب (س) کی تقریر ایسی منطقی اور شعلہ ور تھی کہ جس کے مقابلے میں کوئی شخص کھڑا نہیں رہ سکتا تھا ، زینب (س) کی تقریر کی قاطعیت و جامعیت نے یزید جیسی پلید شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کر دیا اور رسول (ص) اور آل رسول (ع) کی عظمت و کرامت کو یاد دلایا اور الہی حق کو بنی امیہ کے بنائے ہوئے حق سے جدا کر دیا ۔
اگرچہ آپ (س) کا پورا خطبہ ہی نور و معرفت ہے اور رہتی دنیا تک چراغ راہ اور سر چشمہ ہدایت ہے لیکن اس کے چند پہلو بہت اہم ہیں:
ظالم کی پہچان اس کے سیاہ کارناموں سے ہوتی ہے:
جناب زینب (س) کے خطبہ کے روشن نکات میں سے ایک پہلو یزید کے خاندان کے سیاہ کارنامے اور اس کی نسل کی ناپاکی کی حقیقت کو بیان کرنا ہے، زینب (س) خاندان یزید کی پلیدیوں کو شمار کرتی ہیں اور کسی شخص میں ان کی تردید کی طاقت نہیں ہے ۔ اے یزید تو ہندہ کا بیٹا ہے اور ہندہ وہ عورت ہے کہ جس نے جنگ احد میں لشکر رسول (ص) کے سردار سید الشہداء حضرت حمزہ کا جگر اپنے دانتوں سے چبا کر پھینک دیا تھا ،ایسے خاندان سے سانحہ کربلا کے علاوہ اور کوئی توقع نہیں کی جا سکتی ۔
تاریخ اسلام میں اسیری کی تعریف:
زینب (س) یزید کو ابن طلقاء کہ کر مخاطب ہوتی ہیں، طلقاء ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کہ رسول خدا سے دشمنی رکھتے تھے اور جنگ کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے وقت رسول (ص) نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور فرمایا تھا : "اذ ھبوا انتم الطلقا " جاؤ تم سب آزاد ہو یزید انہیں اشخاص کا بیٹا ہے جنہیں رسول نے آزاد کر دیا تھا اور آج اس نے خاندان پیغمبر (ص) کو اسیر بنا رکھا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ زینب (س) نے یزید کو یہ سمجھا دیا کہ در حقیقت قیدی تو ہے ہماری اسیری اور ہماری ذلت پر کوئی دلیل نہیں ہے اور تو ہم سے ہی غصب کیے ہوئے منبر پر اسیری کی حالت میں بیٹھا ہے۔ تیری اسیری کی علامت علی کی بیٹی کا کلام کرنا اور تیرا خاموش ہو کر بیٹھنا ہے۔
جناب زینب (س) کی اس تقریر سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی زینب (س) کو تاریخ اسلام پر کتنا عبور تھا ۔
حزب اللہ اور گروہ شیطان:
جناب زینب(س) اپنے سرفراز خاندان کے نام کو حزب اللہ اور یزید کے ناپاک خاندان کو گروہ شیطان کے نام سے یاد کرتی ہیں اور فرماتی ہیں : بڑے تعجب کی بات ہے کہ حزب اللہ ، گروہ شیطان اور آزاد شدہ لوگوں کے ہاتھوں مارا جاۓ ، ہمارا خون تمہارے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور تمہارے منھ سے ہمارا گوشت نکل رہا ہے ۔
پردہ کی اہمیت:
جناب زینب (س) کے کلام سے تمام با ایمان اور اہلبیت (ع) کا اتباع کرنے والوں کو جو پیغام دیا جا سکتا ہے و عفت و حجاب کا پیغام ہے زینب خاندان پیغمبر (ص) کی خواتین بیٹیوں کو قیدی بنا کر شہروں شہروں ، کوچہ و بازار میں سر برہنہ مجمع عام میں پھرانے پر تند و سخت لہجہ میں اعتراض کرتی ہیں اور اس حرکت کو عدل کے خلاف قرار دیتی ہیں ، یہ حساسیت مسلمان عورت کے حجاب و عفت کی اہمیت کو بتاتی ہے کہ اس کا ہمیشہ دفاع کرنا چاہیے۔
پیشن گوئی:
زینب (س) نے اپنے خطبہ کے آخر میں اعتماد کے ساتھ فرمایا : اے یزید تو اپنے تمام مکر و حیلوں کو استعمال کر لے اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کر لے لیکن قسم خدا کی تو ہماری یاد کو نہیں مٹا سکتا ہے اور وحی الہی کو نابود نہیں کر سکتا ہے.... اور ہر تعریف خدا ہی کے لیے ہے کہ جس نے ہمارا آغاز سعادت و مغفرت سے اور اختتام شہادت و رحمت پر کیا ۔
تاریخ کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام حسین اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لےکر کیوں نکلےتھے ؟
یزیدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول، دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کے لیے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گیا تھا، اگر حسین (ع) کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب (ع) اور امام سجاد (ع) کی قیادت میں اسرائے کربلا نے خطبوں اور تقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سر زمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ حق کا خون رائگاں چلا جاتا ۔
اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو کس طرح تہہ تیغ کر دیا گیا ۔
ان مظالم کو بیان کر کے جو یزید نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول (ع) پر روا رکھے تھے؛ حضرت زینب (ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا ۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہو گیا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کی ابتدا تھی ۔
جناب زینب کا ایک زرین قول ہے ۔ آپ فرماتی ہیں کہ:
خداوند تعالی کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے اس کو پیش نظر رکھ کر (گناہ کرنے سے ) شرم کرو ۔
حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کے تقریبا " ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں ۔ آپ کا روضہ اقدس شام کے دار الحکومت دمشق میں ہے ۔
جناب زینب کے خطبات ، دینی معارف سے مالا مال، اجتماعی پہلوؤں کی حامل حقیقتوں کے عکاس مطالب پر مشتمل تھے۔ جناب زینب جو خود مکتب وحی کی ایک ممتاز معلمہ ہیں ہمیشہ اپنے خطبے کا آغاز پرودگار عالم کے ذکر سے کرتی ہیں آپ خدا کی یاد میں اس قدر غرق تھیں کہ رضائے الہی کے مقابل تمام مصیبت و آلام کومعمولی تصور کرتی تھیں لہذا پوری جرات و شہامت اور خندہ پیشانی کے ساتھ اسے برداشت کیا اور راہ حق میں پیش آنے والی مصیبتوں کو بھی نعمت الہی تصور کیا۔ جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد نے آپ سے پوچھا کہ اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا تو آپ نے بڑے ہی اطمینان و یقین کے ساتھ جواب دیا : ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ انھیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں ، عنقریب ہی خداوند عالم تمہیں اور انہیں قیامت کے دن محشور کرے گا پس تم لوگ اس دن کے بارے میں فکر کرو کہ اس دن حقیقت میں کون کامیاب ہو گا۔
یہ عظیم روحانی اقتدار ،جو دشمن کی ذلت و حقارت کا سبب بنا ہے خدا کی جانب سے مدد و نصرت پر اعتماد و اطمینان کا سر چشمہ ہے۔ گویا جناب زینب نے اپنے کو خدا کی لازوال طاقتوں سے متصل کر لیا تھا۔
حضرت زینب معاشرے کی ہدایت و رہنمائی میں امام کے کردار اور مقام و منزلت سے بخوبی واقف تھیں اسی لئے واجب سمجھتی تھیں کہ اپنے بھائی امام حسین اور بھتیجے امام زین العابدین (ع) کے عظیم مقام کو اسلامی معاشرے میں امام و راہ بر کے اعتبار سے پہچانیں لہذا آپ نے کوفیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ فرزند پیغمبر، جوانان بہشت کے سردار امام حسین اور ان کے بچوں کے قتل سے اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو کس طرح مٹاو گے ؟ اس عظیم ہستی کے قتل کا داغ ،جو تمہارے لئے بہترین پناہ گاہ،امن و اتحاد کا علمبردار، تمہارے دین کا ذمہ دار اور شریعت کا پاسباں تھا "
حضرت زینب نے قرآنی مفاہیم پر کامل تسلط کی بنا پر اپنی تقریروں میں الہی آیات سے استفادہ کیا منجملہ ان کے آپ نے سورہ احزاب کی 33 آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے خاندان اور اپنی مادر گرامی فاطمہ زہرا (س) اور اپنے والد ماجد حضرت علی (ع) اور اپنے دونوں بھائیوں کی عصمت و طہارت کا اعلان کرتے ہوئے شجاعت و شہامت کے ساتھ فرمایا: اس خدا کا شکر جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے شرف و کمال عطا کیا اور ہرطرح کے نجس سے پاک و پاکیزہ رکھا۔ اسی طرح آپ نے سورہ آل عمران کی 178 آیت کی تلاوت کر کے یزید لعین سے کہا :
تیری یہ عیش و عشرت کی زندگی جلد ہی ختم ہو جائے گی اور تیری یہ بادہ نوشی و مدہوشی عارضی اور چند روزہ ہے۔
خدا وند عالم تجھ سے سخت مواخذہ کرے گا یہ دنیا اور اس کی زندگی گناہگاروں کے لئے مہلت ہے کہ وہ اپنے عذاب میں اور زیادہ اضافے کے لیے مواقع فراہم کریں۔
کربلا کی شیر دل خاتون نے بارہا اپنے خطبوں میں یزید و ابن زیاد کو ذلیل و خوار کیا اور ان کی کھل کر مذمت کی اور قران و اسلام سے ان کی دیرینہ دشمنیوں کو یاد دلایا۔
آپ نے خدا و پیغمبر کے خلاف ، یزید کی سرکشی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا " تو نے اس کام کے ذریعے خدا کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے اور پیغمبر اسلام ، قران اور احکام اسلامی کا انکار کیا ہے،
اگر مصیبتوں، پریشانیوں، سختیوں اور موجودہ حالات نے ہمیں ایسی منزل پر لا کر کھڑا نہ کیا ہوتا کہ میں تجھ سے کلام کرنے پر مجبور ہوتی تو تجھ جیسے بدترین فاسق و فاجر سے کبھی بھی کلام نہ کرتی، میں تیرے ظاہری رعب و دبدبے کو تیری حقیقی حالت سے بہت زیادہ پست جانتی ہوں اور تجھ پر بہت زیادہ لعنت بھیجتی ہوں۔
حق کی باطل پر کامیابی ایک ایسی سنت الہیہ ہے جو جناب زینب کے خطبات اور تقریروں میں پوری طرح حکمراں تھے۔ جناب زینب کے کلام سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ باطل اگرچہ ممکن ہے ظاہری کامیابی اور اقتدار پر قبضہ جما لے اور ایک دنیا پرست ظالم و جابر حکمراں اپنے جھوٹے جاہ و حشم اور اقتدار کی دھونس جما کر چند دنوں اپنا رعب و دبدبہ قائم کر لے لیکن بالآخر دنیا اور آخرت میں حق کو ہی کامیابی ملے گی۔
اسی بنیاد پر جو افراد کربلا میں امام حسین کے ساتھ آخری دم تک موجود رہے ہیں اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں وہ زندہ جاوید ہیں۔
حضرت زینب نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے دربار میں فرمایا تھا:
اے یزید، دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے اور تیری دولت اور عیش و عشرت کی زندگی اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح ہماری دنیوی مصیبتیں اور مشکلیں ختم ہو جاتی ہیں مگر کامیابی و کامرانی ہمارے ساتھ ہے کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے۔
امام حسین کی شہادت کے بعد دراصل حضرت زینب نے حسینی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانا ایک دینی و الہی فریضہ تصور کیا اور اپنی خداداد فصاحت و بلاغت اور بے نظیر شجاعت و شہامت کے ذریعے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ حضرت زینب (س) نے اپنی پاک و پاکیزہ زندگی کے دوران اہل بیت پیغمبر کے حقوق کا دفاع کیا اور کبھی اس بات کی اجازت نہ دی کہ دشمن، واقعہ کربلا سے ذاتی فائدہ اٹھا سکے ، جناب زینب کے خطبوں کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیاں نے لوگوں کو آپ کے بابا علی مرتضی کی یادیں تازہ کر دیں تھیں۔
اس عظیم خاتون نے الہی حقائق ایسے فصیح و بلیغ الفاظ میں بیان کیے جو ان کے عالمہ غیر معلمہ ہونے اور قرآن و سنت پر کامل دسترس پیدا کر لینے کو ظاہر کرتے تھے۔
چنانچہ عرب کے مشہور و معروف ادیب جاحظ نے کسی کا قول ، کہ جس نے جناب زینب کے خطبوں اورتقریروں کو سنا تھا ، نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
میں حسین ابن علی کی شہادت کے بعد کوفہ میں داخل ہوا اس وقت زینب بنت علی خطبہ دے رہی تھیں ہم نے آج تک اسیری کی حالت میں کسی بھی خاتون کو ان سے زیادہ فصیح و بلیغ خطبہ پیش کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے علی خطبہ دے رہے ہوں۔
اہل بیت اطہار وہ مقدس نفوس ہیں جو فیوضات نبوت سے براہ راست فیض یاب ہو ئے اور رہتی دنیا تک نور الہی اور راہ حق کے صحیح ترجمان بن گئے۔ خانوادہ رسول ہی وہ مبارک خاندان ہے جس کے معزز و مبارک افراد نے بقائے حق اور فنائے باطل کیلئے ایثار و قربانی، صبر و استقامت، جرات و شجاعت اور ہمت و عزیمت کی بے مثا ل و بے نظیر مثالیں قائم کر دیں۔ اور راہ حق پہ بے خوف و خطر چلتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
واقعہ کربلا جہاں فخر بشریت، نواسہ رسول امام حسین کی قربانیوں کا مظہر ہے وہیں دختر بتول سیدہ زینب کے کامل کردار کی عظمتوں کا امین بھی ہے۔ تاریخ میں کوئی عظیم فتح ایسی دکھائی نہیں دیتی جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خوا تین بھی اپنے پختہ ارادوں، اخلاقی، نظریاتی اور عملی معاونت کے ساتھ شریک کار نہ رہی ہوں۔ اسکی کئی مثالیں اسلام کے دور آغاز سے لے کر واقعہ کربلا تک نظر آتی ہیں۔ ایثار، قربانی، صدق، وفا، صبر، استقامت، جرات اور شجاعت کا سفر جو سیدہ خدیجۃ الکبری سے شروع ہوا میدان کربلا میں وہ سیدہ زینب کی صورت میں درجہ کمال پر دکھائی دیتا ہے۔
فضائل اور کراما ت نبوی سے معمور معزز و محترم گھرانے میں پیدا ہو کر، علی حیدر کرار کے جاہ و جلالت کا مظہر بن کر، آغوش زہرا کی پاکیزہ تربیت کا پیکر بن کر، اخلاق و کمالات سے مزین جو کردار تاریخ کی پیشانی کا جھومر بنا زمانہ اسے بی بی زینب کے نام سے یاد کرتا ہے۔ در حقیقت سیدہ زینب کی شخصیت تاریخ ِ بشریت میں کردار کی بلندی کا وہ مینارہ نور ہے جسکی کرنیں انسانیت کے لیے ہمیشہ کیلئے مشعل راہ بن چکی ہیں۔
واقعہ کربلا میں دختر بتول کی بے مثال شرکت نے تاریخ بشریت میں اعلائے کلمتہ الحق کیلئے لڑی جانے والی سب سے بڑی جنگ میں بپا ہونے والے انقلاب کو رہتی دنیا کیلئے جاوداں بنا دیا۔ کربلا کے عظیم معرکے کے دوران اور اسکے بعد سیدہ زینب کے کردار کا ہر پہلو اہمیت کا حامل اور چراغِ راہ کی مانند ہے مگر آپ کا انقلابی کردار تاریخ کی کتاب میں درخشندہ باب بن کر چمک رہا ہے۔
محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے :
آیاتِ حق کی چھائوں میں عصمت کا پھول تھیں
زینب کہیں علی تھیں کہیں پر بتول تھیں
اسلام کا سرمایہ ء تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تو تیور میں علی ہے
التماس دعا .....