خطبہ فدک کے سماجی و اخلاقی نکات
خطبہ فدک کے سماجی و اخلاقی نکات
مقدمہ:
حضرت فاطمہ زہراء سلام علیھا کی شخصیت اور سیرت مسلمانوں کےلیے نمونہ عمل ہے۔ علم و عمل آپ کو والد گرامی سے ورثے میں ملا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں آپ مسلمان عورتوں کو تعلیم دیتی تھیں۔ خواتین آپ کے پاس آتیں اور مسائل دریافت کرتیں آپ انہیں ہر قسم کے فقہی، قرآنی، احادیث، اخلاقی مسائل سے آگاہ کرتی تھیں یہی وجہ تھی کہ بابا کی وفات کے بعد جب آپ نے محسوس کیا کہ اب اتمام حجت کا وقت آن پہنچا ہے تو آپ نے دربار خلافت میں جا کر علمی اور مدلل انداز میں وہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ جسے سن کر لوگوں کی عقلیں دنگ رہ گئیں۔ اس مقالہ میں ہم سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے مشہور و معروف خطبہ فدک میں بیان کیے گئے اخلاقی اقدار اور سماجی حالات سپرد قلم کریں گے۔ یہ خطبہ آپ نے مسجد نبوی میں اصحاب رسولؐ کے سامنے ارشاد فرمایا۔
اگر چہ اس خطبہ میں فدک کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا گیالیکن یہ خطبہ جامعیت کے لحاظ سے اپنی نظیر خود ہے۔ اس میں آپؑ نےمعارف اسلامی، احکام اسلامی، توحید، نبوت، امامت،معاد، نماز، روزہ، حج، زکات،جہاد، امر بالمعرف ،نہی عن المنکر ، معاشرت اور سماج کے حالات اوران میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بیان فرمایا۔اس خطبہ میں ہمارا موضوع بحث موجود اخلاقی اور سماجی نکات کو تحریر کرنا ہے ۔سیدہ کونین نے معاشرے میں اخلاقی پستی اور سماجی مسائل کو مختلف مقامات پر مختلف گوشوں سے بیان کیا ۔ اختصار کی خاطر ان میں سے کچھ نکات کو ذکر کریں گے اور یہ بھی کوشش کریں گے کہ زیادہ تفصیل لی طرف نہ جائیں۔
جناب سیدہ کا تعارف:
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ
الکوثر01
"بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا”۔اللہ تبارک و تعالی کی ذات نے اضطراب کی بے کراریوں ،سوز وتپش کی بے چینیوں،اور گناہوں کی کرم باریوں سےنجات کے لیے مصدر عصمت وجہ ظفر،مادر شبیر ؑوشبرؑ ،کوثر آخرت ،سیدہ نساء العالمین،ام آئمہ،خاتون جنت ،بنت پیغمبر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا جیسی نعمت عظمی عطا کی کہ جس نعمت کا جتنا بھی اللہ کی بارگاہ میں شکر ادا کیا جائے کم ہے۔آپ کی عظمت کابیان مشت خاکی کے سے باہر ہے۔چنانچہ ہم نمونہ کلام کے طور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنداحادیث نقل کرتے ہیں:
كُنْتُ إذا اشْتَقْتُ إِلي رائِحَةِ الجنَّةِ شَمَمْتُ رَقَبَةَ فاطِمَة
کنز العمّال ، ج ١٢ ص ١٠٩
میں جب بھی جنت کی خوشبو سونگھنے کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ سے اس خوشبو کو سونگھتا ہوں۔
حَسْبُك مِنْ نساءِ العالَميَن أَرْبَع: مَرْيمَ وَآسيَة وَخَديجَة وَفاطِمَة
البدایہ والنہایہ،ج2 ص7
تمام جہانوں میں فقط چار عورتیں بہترین ہیں، مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ ۔
ما رَضِيْتُ حَتّي رَضِيَتْ فاطِمَة
مناقب ابن المغازلی، ص108
میں کبھی بھی کسی سے راضی نہیں ہوا، مگر یہ کہ فاطمہ اس سے راضی ہو جائے۔
سيّدَةُ نِساءِ أَهْلِ الجَنَّةِ فاطِمَة
کنز العمّال، ج12 ص110
جنت کی تمام عورتوں کی سرور و سردار فاطمہ ہیں۔
انما فاطِمَة بَضْعَةٌ مِنّي يَسُرُّنِي ما يَسُرُّها
الصواعق المحرقۃ، ج2ص662
"فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے خوش کیا، اس نے مجھے خوش کیا "۔ان کے علاوہ بھی بہت سی احادیث سیدہ کونین کی شان میں بیان ہوئی ہیں جن سب کو بیان کرنا یہاں ممکن نہیں۔
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل سماجی رویے:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگ گمراہی کے تاریک گڑھوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کوئی راہ راست کی طرف ہدایت کرنے والا نہیں تھا ۔ اپنے ہاتھوں سے تراشی ہوئی مورتیوں کی عبادت کرتے انہیں اپنا خالق و رازق سمجھتے تھے۔ عورت ذات کی حیثیت ایک مال کی طرح تھی جو مرد کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی تھی دیگر اموال کی طرح اسے ورثے میں منتقل کر دیا جاتا ۔اگر کسی کے گھر بیٹی کی جنم ہوتی تو وہ یا تو ذلت و رسوائی کے ساتھ باقی رکھتے یا پھر ان کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔
معاشرے کی اس حالت کی طرف سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام علیھا نے خطبہ فدک میں اشارہ فرمایا:
اذلۃ خاسئین تخافون ان یتخطفکم الناس من حولکم فانقذکم اللہ تبارک و تعالیٰ بمحمد
اعلام الھدایہ ،ج3 ص،139
"تم ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ آس پاس کے لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمدؐ کے ذریعے نجات دی”۔اللہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں تک مکمل طور پر اوامر الہی پہنچ جاۓان کی تربیت کریں اور ان کے نفوس کو پاکیزہ کریں ۔ جہالت اور گمراہی کے تاریک گڑھوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو ہدایت اور روشنی کے کنارے پر پہنچائیں پس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بہترین اخلاقی تعلیمات سے روشناس کرایا اور عملی طور پر لوگوں کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا حتی کہ خداوندعالم نے آپؐ کے بارے میں فرمایا:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ
الاحزاب21
ایک اور جگہ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم کی بعثت اور آپ کی دنیا میں تشریف آوری کو مومنین کے لیے باعث ہدایت اور احسان قرار دیا ہے اور لوگوں کی اخلاقی پستیوں کو ختم کرنے اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو عملی جامہ پہنانے کے متعلق ارشاد فرمایا:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ
آل عمران 164
ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
لِیَسْتَأْدُوْھُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِہِ
نہج البلاغہ خطبہ1
"وہ اللہ کے ساتھ کیے گئے فطری عہد و میثاق کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے "۔ لوگوں کے حالات اس قدر ابتر ہو گئےتھے کہ جناب سیدہ نے ان کے ماحول کا تعارف کراتے ہوئے یوں گویا ہیں:
فَرَأَی الْاُمَمَ فِرَقاً فی اَدْیانِها
دلائل الامامیہ، ص34
"رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اقوام عالم کو اس حال میں پایا کہ وہ دینی اعتبار سےفرقوں میں بٹی ہوئی ہیں”۔جب رسول خدا مبعوث برسالت ہوئے تو لوگوں کی حالت یہ تھی کہ ہر قبیلے اور علاقے والوں نے اپنے الگ الگ خدا بنائے ہوئے تھے ۔خدائے واحد کی پرستش کرنے والے بہت ہی کم لوگ تھے صنم، سورج ، چاند، ستارےاور درختوں وغیرہ کی پوجا کرتے تھے۔ دین ابراہیمی کے پیروکار بہت قلیل تعداد میں رہ گئے تھے اوردین خداوندی کے آثارتقریبا مٹ ہی چکے تھے ۔اس مطلب کی طرف قرآن ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے:
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ مَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ
البقرہ 213
"لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے”۔جیسا کہ امام علیؑ فرماتے ہیں:
اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ تَنَازُعٍ مِّنَ الْاَلْسُنِ، فَقَفّٰی بِهِ الرُّسُلَ، وَ خَتَمَ بِهِ الْوَحْیَ، فَجَاهَدَ فِی اللهِ الْمُدْبِرِیْنَ عَنْهُ، وَ الْعَادِلِیْنَ بِه
نہج البلاغہ خطبہ 131
"اللہ نے آپؐ کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ رکا پڑا تھا اور لوگوں میں جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں۔ چنانچہ آپؐ کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا اور آپؐ کے ذریعہ سے وحی کا سلسلہ ختم کیا۔ آپؐ نے اللہ کى راہ میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو اس سے پیٹھ پھرائے ہوئے تھے اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرا رہے تھے”۔علاوہ ازیں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں:
عُكَّفاً عَلی نیرانِها
دلائل الامامیہ،ص34
"کچھ اپنے آتشکدوں میں منہمک تھے”۔یہاں آپؑ زرتشتیت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔اس مذہب کے لوگ آگ کی پوجا کرتے ہیں ۔ان کاظہور3500سال قبل فارس میں ہواتھا۔ اس کو عام طور پر زرتشتیت کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے یعنی پوری دنیا میں ایک لاکھ تیس ہزار سے بھی کم زرتشتی ہیں۔ مگر یہ دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ایرانی پیغمبر زرتشت نے پارسی مذہب کی بنیاد رکھی تھی اسے عام طور پر پارسی مذہب بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے آتش پرسوں کا مذہب اور مجوسیّت بھی کہا جاتا ہے۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%D8%B1%D8%AA%D8%B4%D8%AA%DB%8C%D8%AA
جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث رسالت ہوۓ تو کچھ لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ آتشکدوں(زرتشت کی عبادت گاہوں )میں آگ کی پوجا کیا کرتے تھے۔جن کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِئِیۡنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الۡمَجُوۡسَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا ٭ۖ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَھیۡدٌ
الحج 17
"یقینا ایمان لانے والوں، یہودیوں، صابیوں، نصرانیوں، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر گواہ ہے”۔مجوسیوں کے بعد بت پرستوں کی حالت کے بارے میں فرماتی ہیں
عابِدَةً لِاَوْثانِها
دلائل الامامۃ،ص34
کچھ بتوں کی پوجاپاٹ میں مصروف تھیں۔
سیدہ کونین اس جملے میں بت پرستوں کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔یہ لوگ اپنے ہی ہاتھ سے بت کو تراشتے اور ان کی پوجا کرتے۔یہ لوگ مختلف قسم کے بت بناتے اور کہتے کہ یہ رزق دینے والا ہے ، یہ پیدا کرنے والا ہے ، یہ عذاب دینے والا ہے ،وغیرہ۔ روایت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم نے اپنے بزرگوں کی یاد میں بت بناۓ تھے اور ان بتوں کو اپنے بزرگان کا نام دے دیا تھا لیکن ان کی پرستش نہیں کرتے تھے لیکن جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے چلتا چلا گیا لوگ ان کی پرستش کرنے لگے۔اور دور جاہلیت کے لوگ حضرت نوح ؑ کی قوم کے بزرگوں کے نام سے اپنے بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔اور ان میں سے کچھ نام ود ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر ہیں۔
تفسیر نمونہ،ج14 ص297
زمانہ جاہلیت میں بتوں کی پرستش کا سلسلہ عروج پر تھا ۔اور تقریبا 360 بت خانہ کعبہ کے ارد گرد رکھے ہوۓ تھے،اور سب انہیں پوجتے تھے۔اتنے سارے بتوں کو نصب کرنے کی گرض و غایت یہ تھی کہ جب مکہ کے پیش و نواح کے لوگ یہاں مراسم عبادت بجالانے کے لیے آئیں تو ان کے تمام مقدس بت یہاں موجود ہوں لہذا وہ آرام سے اپنی عبادتوں کو انجام دیں اور ساتھ قریش کی سرداری اور بادشاہت کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
ضیاء النبی،ج1 ص320
اس مذہب کا قرآن مجید میں کئی مرتبہ ذکر آیا ہے ۔مگر اختصار کی خاطرہم ایک آیت کے ذکر پر اکتفاء کریں گے ،اللہ تبارک وتعالی اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَنۡ لَّا یَسۡتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ وَ ہُمۡ عَنۡ دُعَآئِہِمۡ غٰفِلُوۡنَ
احقاف05
اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکیں بلکہ جو ان کے پکارنے تک سے بے خبر ہوں؟اس کی مزید وضاحت امیرالمومنین علیہ السلام کے اس فرمان مبارک میں موجود ہے:
فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهٗ مِنْ عِبَادَةِ الْاَوْثَانِ اِلٰی عِبَادَتِهٖ، وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّیْطٰنِ اِلٰی طَاعَتِهٖ، بِقُرْاٰنٍ قَدْ بَیَّنَهٗ وَ اَحْكَمَهٗ، لِیَعْلَمَ الاللہ
نہج البلاغہ،خطبہ145
اللہ سبحانہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں، تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔اس کے بعدسیدہ کونین فرماتی ہے:
مُنْكِرَةً للَّـهِ مَعَ عِرْفانِها
دلائل الامامۃ ،ص34
"معرفت کے باوجود اللہ کی منکر تھیں”۔عرب کے بدو اللہ کی معرفت رکھتے تھے کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آسمان اور زمین کو خلق کرنے والا کون ہے ؟ تو وہ کہتے تھے اللہ ہے لیکن وہ اللہ کو وحدہ لا شریک نہیں مانتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ نظام کائنات کے ہر شعبے کا خدا مختلف ہے۔اور وہی اس شعبے کو چلا رہا ہے مثلا: بارش برسانے والا خدا کوئی اور ہے ،اناج دینے والا خدا کوئی اور ہے ،اور اسی طرح یہ تصور بھی تھا کہ آسمان وزمین کو خلق کرنے والا خدا بھی ہے اور وہ اللہ ہے۔لیکن وحدانیت خدا کے منکر تھے۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلِ اللّٰہُ ۙ وَ اِنَّاۤ اَوۡ اِیَّاکُمۡ لَعَلٰی ہُدًی اَوۡ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ
سباء 24
ان سے پوچھیے:تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ کہدیجئے: اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔
نہج البلاغہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے
اَنْۢ بَعَثَ اللهُ سُبْحَانَهٗ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِاِنْجَازِ عِدَتِهٖ وَ تَمَامِ نُبُوَّتِهٖ، مَاْخُوْذًا عَلَى النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقُهٗ، مَشْهُوْرَةً سِمَاتُهٗ، كَرِیْمًا مِیْلَادُهٗ. وَ اَهْلُ الْاَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُّتَفَرِّقَةٌ، وَ اَهْوَآءٌ مُّنْتَشِرَةٌ، وَ طَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَیْنَ مُشَبِّهٍ لِّلّٰهِ بِخَلْقِهٖ، اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِهٖ، اَوْ مُشِیْرٍ اِلٰى غَیْرِهٖ
نہج البلاغہ،خطبہ:1
یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور، محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا، خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
اصلاح معاشرہ:
سماج جب مکمل طور پرگمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا تو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےذریعےتاریکیوں میں ڈوبےمعاشرے میں اجالا کردیا ،جہالت میں گم لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کر ایا ،لوگوں کو اللہ کی معرفت سے کرائی جو کل تک اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر تے تھے ان کے دلوں میں اپنی بیٹیوں کے لیے پیار و محبت پیدا کردی۔اور پوری دنیا میں اسلام کی تعلیمات کو پھیلا دیا۔معاشرے میں پیدا ہونے والی ان اخلاقی اقدار میں ختمی مرتبت کا اہم کردار تھا جیسا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں:
فَاَنارَ اللَّـهُ بِاَبی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّـهُ عَلَیهِ و الِهِ ظُلَمَها، وَ كَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها،وَ جَلی عَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها
اعلام الھدایہ،ج3 ص137
پس اللہ تعالی نے میرے والد گرامی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کر دیا اور دلوں سے ابہام اور آنکھوں سے تیرگی کو دور کر دیا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذن خداوندی سے اس جہالت سے بھرے ہوۓ معاشرے کو ہدایت کے نور سے روشن کردیا ،پستی سے عروج کی طرف لے گئے ، ایک دوسرے کا ناحق مال کھانے والےدوسرے کے اموال کی نا صرف حفاظت کرنے لگے بلکہ اپنا مال دوسروں پر ایثار کرنے کا جذبہ رکھنے لگے۔جو لوگ بتوں کے سامنے سر جھکاتے اور اپنے حقیقی خالق ومالک کی معرفت سے بے بہرہ تھے ان کے دلوں کواللہ تبارک و تعالی کی معرفت سے منوّر کردیا ،اور جن کی آنکھیں حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہی تھیں ان کی آنکھوں کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے بینائی عطا کر دی۔
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی لا ریب کتاب میں فرمایا :
رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيَاتِ اللّـٰهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۚ وَمَن يُّؤْمِنْ بِاللّـٰهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُّدْخِلْـهُ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِـيْهَآ اَبَدًا ۖ قَدْ اَحْسَنَ اللّـٰهُ لَـهٝ رِزْقًا
الطلاق11
ایک ایسا رسول جو تمہیں اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتا ہے تاکہ وہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق دے رکھا ہے۔اس مطلب کی طرف مولا کائنات ؑاشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَرْسَلَهٗ بِالضِّیَآءِ، وَ قَدَّمَهٗ فِی الْاِصْطِفَآءِ، فَرَتَقَ بِهِ الْمَفَاتِقَ، وَ سَاوَرَ بِهِ الْمُغَالِبَ، وَ ذَلَّلَ بِهِ الصُّعُوْبَةَ، وَ سَهَّلَ بِهِ الْحُزُوْنَةَ، حَتّٰی سَرَّحَ الضَّلَالَ، عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ
نہج لبلاغہ خطبہ211
اللہ نے انہیں روشنی کے ساتھ بھیجا اور انتخاب کی منزل میں سب سے آگے رکھا تو ان کے ذریعہ سے تمام پراگندگیوں اور پریشانیوں کو دور کیا اور غلبہ پانے والوں پر تسلط جما لیا، مشکلوں کو سہل اور دشواریوں کو آسان بنایا، یہاں تک کہ دائیں بائیں (افراط و تفریط) کی سمتوں سے گمراہی کو دور ہٹایا۔
معارف دینیہ میں اخلاقی پہلو:
معاشرے کی اخلاقی تربیت کے لئےاللہ تبارک و تعالی نے بہت سے احکام نافذ فرماۓ۔ جن کی بناء پر معاشرو ں میں موجود برائیوں کو ختم کر کے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔ مثلا اللہ نے زکات کو واجب قرار دیا ،روزے اورحج کی ادائیگی کا حکم دیا ،عدل و انصاف قائم رکھنے ،امر بالمعروف و نہی از منکر کو ضروری قرار دیا،والدین سے احسان کرنے اور صلہ رحمی کو واجب قرار دیا ان کےعلاوہ جتنے بھی احکام نافذ کئے ہیں یہ سب معاشرے کی اخلاقی تربیت کے لیے نافذ فرمایا ہے۔معاشرے کی اخلاقی تربیت کے لئے نافذ احکام اور ان کے فوائد کو ذکر کرتے ہوۓ سیدہ کونین فرماتی ہیں:
وَالزَّكاةَ تَزْكِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ، وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوب
اعلام الھدایہ ج3 ص134
(اللہ نے) زکات کونفس کی پاکیزگی کااور رزق میں اضافے کا،روزہ کو اخلاص کے اثبات کا ،حج کو دین کی تقویت کا،عدل و انصاف کو دلوں کو جوڑنے کا (ذریعہ بنایا)۔
اللہ تبارک و تعالی نے زکات کو واجب قرار دیا تاکہ ایک تو انسان کا نفس پاک ہو اور یہ بھی کہ رزق میں اضافے کا موجب بنےکہ جب کوئی زکات ادا کرتا ہے تو اس کا نفس لالچ اور مال و دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے ،اور یہ بھی کے اللہ تبارک و تعالی اس کے رزق میں اور بھی زیادہ اضافہ کرتا ہے۔ساتھ ہی میں سیدہ کونین فرماتی ہیں کہ اللہ تعالی نے روزے کو واجب قرار دیا تاکہ انسان کے دل میں ایک تو یہ احساس پیدا ہو کہ میری ہر عبادت خدا کے لیے خاص ہے اور یہ احساس بھی پیدا ہو کہ میں جو سال ہا سال کھا تا پیتا رہتا ہوں تو جو میرے غریب مومن بھائی ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے نصیب ہوتا ہے ان پر کیا گزرتی ہو گی۔ساتھ ہی سیدہ کونین فرماتی ہیں کہ اللہ نے حج کو واجب قرار دیا تاکہ دین اسلام کو تقویت پہنچے کہ جب ایک ہی وقت میں تمام مسلمان ایک ہی جگہ پر جمع ہو جائیں اور متحد ہو کر ایک ہی خدا کی عبادت بجالائیں گے تو اس ذریعے سے دین کو تقویت پہنچے گی۔ساتھ میں ہی سیدہ کونین فرماتی ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے عدل و انصاف کو فرض قرار دیا تاکہ لوگوں کے دل آپس میں جڑے رہیں کہ جب معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو گا کسی پر بھی کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا تو لوگوں کے درمیان محبت اور بھائی چارگی پیدا ہو گی۔ ان معارف الٰہیہ کا حکم خداوندعالم نے قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر دیا ہے۔
زکات:
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ
التوبہ103
(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں، یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
روزہ: یٰۤاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ
البقرہ 183
اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
حج: فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ
آل عمران97
اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔
عدل:لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ
الحدید 25
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں اور ہم نے لوہا اتارا جس میں شدید طاقت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ معلوم کرے کہ کون بن دیکھے خدا اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، اللہ یقینا بڑی طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔
نہج البلاغہ میں مولائے کائناؑت فرماتے ہیں:
فَرَضَ اللهُ الاْيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ، وَالصَّلاَةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ، وَالزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ، وَالصِّيَامَ ابْتِلاَءً لاِخْلاَصِ الْخَلْقِ، وَالْحَجَّ تقویَّہً لِلدِّينِ
نہج البلاغہ،حکمت252
خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کو تقویت پہنچانے کے لیے۔عدل کے بارے میں فرماتے ہیں:
اَلْعَدْلُ یَضَعُ الْاُمُوْرَ مَوَاضِعَهَا،وَ الْعَدْلُ سَآئِسٌ عَامٌّ
نہج البلاغہ،حکمت437
عدل تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے،عدل سب کی نگہداشت کر نے والاہے۔
اخلاقی زبوں حالی:
اسلام کے آنے سے پہلے لوگوں کی حالت بہت بری تھی۔ان میں تہذیب نامی کوئی چیز ہی نہیں تھی،وہ گندگی کے ڈھیر میں رہتے تھے،اور گندلا پانی پیتےتھے، اور گندگی ہی کھاتےتھے،اور کچھ لوگوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے لیے رہنے کا کوئی گھر ہی نہیں تھا اور نہ کوئی مستقل جگہ رہنے کو تھی،اور ایک دوسرے سے لڑتے رہتے قتل و غارت کرتے اور انہی ذرائع سے اپنا پیٹھ بھرتے ۔نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون آکر ابھی قتل کر دے گا،مال و متاع لوٹ کر لے جائے گا،ناموس کو کنیزی میں لے لے گا۔
آپ معاشرے کی بدحالی کے متعلق یوں گویا ہیں:
وَ كُنْتُمْ عَلی شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ، مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَ مَوْطِیءَ الْاَقْدامِ، تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ، وَ تَقْتاتُونَ الْقِدَّ،اَذِلَّةً خاسِئینَ، تَخافُونَ اَنْ یتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِكُمْ، فَاَنْقَذَكُمُ اللَّـهُ تَبارَكَ وَ تَعالی بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّـهُ عَلَیهِ وَ الِهِ
اعلام الھدایہ ،ج3 ص139،138
تم آگ کے گھڑے کے دہانے پر تھے تم پینے والے کے لئے گھونٹ بھر پانی ،طمع ولالچ والے ایک تر نوالہ ،جلدی بجھ جانے والی چنکار ی اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس وخاشاک تھے۔تم کیچڑ والے بدبودار پانی سے پیاس بجھاتےتھے،اور گھاس پھونس سے بھوک مٹاتے ۔ تم ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے۔ تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگارہتا تھا کہ آس پاس کے لوگ تمہیں کہی اچک نہ لیں ۔ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نجات دی۔ سیدہ کونین ان جملوں میں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل معاشرے کی بد حالی کے بارے میں فرما رہی ہیں کہ یہ معاشرہ اپنی انتہا کے کنارے پر ہی تھا۔ان کی بد حالی اس قدر تھی کہ لمحوں میں ان کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا ،ان کی حیثیت ایک ذرے کے برابر بھی نہ تھی۔ ان کے پاس نہ ہی پینے اور نہ ہی کھانےکو کوئی اچھی چیز تھی پیاس بجھانے کے لیے گنداپانی پیتے اور گھاس وغیرہ سے اپنا پیٹھ بھرتے تھے ۔ہر وقت ذلیل ہوتے رہتے تھے، ان کی زندگی میں ذرا سی بھی خوشی نہیں
تھی۔ ہر وقت غم کے عالم میں رہتے ۔اور انہیں یہ خوف بھی رہتا کہ ان پر کہیں سے کوئی حملہ ہو جائے گا اور یہ نست و نابودہو جائیں گے ۔اور پھر اللہ نے اس معاشرے پر اپنا لطف و کرم فرمایا اور اپنے حبیب کو ان کی نجات کے لئے مامور فرمایا ۔اللہ تبارک وتعالی اپنی لاریب کتاب میں فرماتا ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیھمۡ وَ یُعَلِّمُھمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ
آل عمران164
ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ امام علی علیہ السلام پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ اَمِیْنًا عَلَى التَّنْزِیْلِ، وَ اَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلٰى شَرِّ دِیْنٍ، وَ فِیْ شَرِّ دَارٍ، مُنِیْخُوْنَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَّ حَیَّاتٍ صُمٍّ، تَشْرَبُوْنَ الْكَدِرَ، وَ تَاْكُلُوْنَ الْجَشِبَ، وَ تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ، وَتَقْطَعُوْنَ اَرْحَامَكُمْ، اَلْاَصْنَامُ فِیْكُمْ مَنْصُوْبَةٌ، وَ الْاٰثَامُ بِكُمْ مَعْصُوْبَةٌ
نہج البلاغہ، خطبہ 26
اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے) متنبہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب! اس وقت تم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔
رحلت رسول کے بعد سماج کا اخلاقی انحطاط:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابھی آپ کی تدفین بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ معاشرے میں تفرقہ اور نفاق پیدا ہوگیا۔
بیت الاحزان ،ص85
اسلام کے لباس میں خواہشات نفسانی کی تکمیل ہونے لگی ، دین اسلام اندر سے کھوکھلا ہونے لگا ،دین میں بدعت پیدا ہونے لگی ،معاشرہ برائی کی طرف مائل ہونے لگا،قرآن مجید اور اہل بیت پیغمبر کے ہوتے ہوئے لوگ اسلام کی تعلیمات سے منحرف ہونے لگے ،اور شیطان کی پکار پر لبیک کہنے لگے۔
اس اخلاقی انحطاط کے بارے میں فرماتی ہیں:
فَلَمَّا اِختارَ اللَّـهُ لِنَبِیهِ دار اَنْبِیائِهِ وَ مَأْوی اَصْفِیائِهِ، ظَهَرَ فیكُمْ حَسْكَةُ النِّفاقِ، وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدّینِ، وَ نَطَقَ كاظِمُ الْغاوینَ، وَ نَبَغَ خامِلُ الْاَقَلّینَ
اعلام الھدایہ،ج3 ص139
"پھر جب اللہ نے اپنے نبیؐ کے لئے مسکن انبیاء اور برگزیدہ گان کی قرار گاہ(آخرت )کو پسند کیا تو تمہارے دلوں میں نفاق کے کانٹے نکل آئے، اور دین کا لبادہ تار تار ہو گیا، ضلالت کی زبانیں چلنے لگیں،بے مایہ لوگوں نے سر اٹھانا شروع کیا،اور باطل کے سرداروں نے گرجنا شروع کر دیا”۔جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوئی تو معاشرے کی حالت تبدیل ہونے لگی جو حالت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل تھی اس کی طرف معاشرہ تبدیل ہونے لگا ،لوگوں کے دلوں میں منافقت پیدا ہو گئی کہ ان کا ظاہری عمل ان کے دل اور ارادوں سے مختلف تھا،اور یہ بھی کہ ان کی زبانوں پر گمراہی کے الفاظ جاری تھے،جن کی کوئی حیثیت بھی نہیں تھی وہ لوگ اپنے آپ کو بڑا منوانے لگے ،اور جو لوگ باطل پر تھے یعنی جن کو حق کی اصل پہچان ہی نہیں تھی وہ اپنے آپ کو حق کا مظہر ٹھرانے لگے۔قرآن مجید میں بھی پہلے ہی لوگوں کو انحطاط کی طرف جانے سے خبردار کر دیا تھا جس کے لئے اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:
وَمِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ
التوبہ101
"اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے”۔
اسی کی مثل نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا فرمان ہے :
ذِمَّتِیْ بِمَاۤ اَقُوْلُ رَهِیْنَةٌ وَ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ اِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَهُ الْعِبَرُ عَمَّا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْہُ التَّقْوٰى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ، اَلَا وَ اِنَّ بَلِیَّتَكُمْ قَدْ عَادَتْ كَهَیْئَتِهَایَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبِیَّکُمْ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وَ الَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً، وَ لَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَ لَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّٰى یَعُوْدَ اَسْفَلُكُمْ اَعْلَاكُمْ، وَ اَعْلَاكُمْ اَسْفَلَكُمْ، وَ لَیَسْبِقَنَّ سَابِقُوْنَ كَانُوْا قَصُرُوْا، وَ لَيَقْصُرَنَّ سَبَّاقُوْنَ كَانُوْا سَبَقُوْا. وَاللهِ! مَا كَتَمْتُ وَشْمَةً وَّ لَا كَذَبْتُ كِذْبَةً، وَ لَقَدْ نُبِّئْتُ بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ هٰذَا الْیَوْمِ
نہج البلاغہ ،خطبہ16
میں اپنے قول کا ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں۔ جس شخص کو اس کے دیدۂ عبرت نے گزشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں، اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لئے وہی ابتلاآت پھر پلٹ آئے ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت تھے۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا! تم بری طرح تہ و بالا کئے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے) ہنڈیا، یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی، نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا۔ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے۔
نتیجہ:
سیدہ کونین کا کلام جو خطبہ فدک کی صورت میں شائع ہے اس میں فقد باغ فدک کا مطالبہ موجود نہیں ہے بلکہ سیدہ کونین اس خطبہ میں دین سمجھا رہی ہیں:حمدخداوندی کے ساتھ توحید بیان کر رہی ہیں،رسالت پیغمبر کی گواہی کے ساتھ نبوت سمجھا رہی ہیں ،فضائل امام علی کے ساتھ امامت سمجھا رہی ہیں،دین کے احکام بیان کر رہی ہیں ،معاشرتی نظام بیان کر رہی ہیں ،مختلف پہلو سے معاشرے کے حالات بیان کر رہی ہیں ، اخلاقی نکات بیان کر رہی ہیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے پہلو ں کو بیان کر رہی ہیں ۔بلکہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ سیدہ کونین خطبہ فدک میں مکمل دین سمجھا رہی ہیں ۔
جیسا کہ سیدہ کونین نے عرب کے بدؤں کے حالات،مختلف مذاہب کی رسومات،اخلاقی خامیاں،دینی احکامات کے ذریعے معاشرے کی تصحیح کا طریقہ،اسلامی تعلیمات کا معاشرتی اخلاق اثرات اور رحلت رسول کے بعد معاشرے کے انحطاط کو بیان کیا ۔ان تمام پہلو ؤں کی جانب اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کس طرح معاشرہ پستی کے بعد کامیابی کی اونچائیوں کو چھوتا ہے اور کن خرابیوں کی وجہ سے عروج با زوال ہوتا ہے ۔ اور سیدہ کونین نے اپنے ارشادات عالیہ میں معاشرے کی اصلاح اور کامیابی کی راہوں کو طے کرنے کے زریں اصول بیان فرمائےہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔