حضرت فاطمہ کا مدینے کی خواتین سے خطاب
حضرت فاطمہ کا مدینے کی خواتین سے خطاب
حضرت فاطمہ(س) کا مدینے کی خواتین سے خطاب یا خطبہ عیادت سے مراد حضرت فاطمہ زہرا(س) کا وہ خطبہ جسے آپ(س) نے غصب خلافت کے بعد حالت مریضی میں مدینے کی خواتین کے سامنے پیش کیا۔ اسی علالت میں آپ(س) کی شہادت واقع ہوئی۔ اس خطبے کو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے حالات کی منظر کشی، اسلامی حکومت کے مستقبل کے بارے میں پیشنگوئی اور فصاحت و بلاغت کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل خطبہ قرار دیا جاتا ہے۔
حضرت فاطمہ(س) نے اس خطبے میں عہد و پیمان توڑنے والوں اور اندھی تقلید کرنے والوں سے بےزاری کا اعلان کرتے ہوئے ان کی بے وفائی کی منظر کشی کی ہے۔ اس کے بعد مختلف زاویوں سے حالات حاضرہ کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے مستقبل میں مسلمانوں کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ اسی طرح علوی حکومت کی خصوصیات، مدینہ کے لوگوں کے فکری انحطاط اور نظریاتی اختلافات، حاکمیت کے غلط کرتوتوں کے مقابلے میں لوگوں کی ذمہ داری اور سقیفہ کے واقعے کی حقیقی منظر کشی اس خطبے کے دیگر مضامین میں سے ہیں۔ آپ نے اس خطبہ میں قرآن کی کئی آیات سے استناد کیا ہے جن میں نفسانی خواہشات کی پیروی کے انجام سے متعلق سورہ مائدہ کی آیت نمبر 80، حق کی پیروی نہ کرنے والوں کی ملامت کے سلسلے میں سورہ اعراف آیت نمبر 96 اور سورہ زمر آیت نمبر 51 اور رہبری اور حکومت کے لئے لائق اور شائستہ افراد کی نشاندہی کے سلسلے میں سورہ یونس آیت نمبر 35 شامل ہیں۔
حضرت زہرا(س) کا یہ خطبہ مختلف طریقوں سے شیعہ اور اہل سنت حدیثی کتابوں میں آیا ہے۔ اسی طرح حضرت زہرا(س) کی حالات زندگی کے بارے میں تحریر کردہ کتابوں میں محققین نے اس خطبہ کی بھی تشریح کی ہے۔
اجمالی تعارف اور اہمیت
حضرت فاطمہ(س) کا مدینہ کی خواتین سے خطاب یا خطبہ عیادت حضرت فاطمہ(س) کی اس تقریر کو کہا جاتا ہے جسے آپ نے بیماری کی حالت میں عیادت کے لئے آنے والی خواتین کے سامنے ارشاد فرمایا۔[1] آپ کی عیادت کے لئے آنے والی خواتین کی تعداد اور باقی تفصیلات کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں[2] البتہ کتاب بلاغات النساء[3] اور شرح ابنابیالحدید بر نہجالبلاغہ[4] میں آیا ہے کہ مہاجر و انصار میں سے کئی خواتین حضرت فاطمہ(س) کے پاس آئی تھیں۔ اسی طرح تاریخ یعقوبی میں ذکر ہوا ہے کہ ازواج پیغمبر اکرمؐ اور قریش کی بعض خواتین آپ کی عیادت کے لئے آئی تھیں۔[5]
بعض محققن اس خطبے کو فصاحت، بلاغت اور مضمون کے حوالے سے متحیر العقول قرار دیتے ہیں۔[6] ان کے مطابق حضرت فاطمہ(س) نے نوزائیدہ اسلامی معاشرے کی سیاسی صورتحال سے مکمل آگاهی کی بنیاد پر سامعین پر زیادہ سے زیادہ اثر گزار ہونے کے لئے اس خطبے میں اظہار خیال، احساسات اور ترغیبی تکنیکی طریقوں کے ذریعے سامعین کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔[7] اسی طرح اس خطبے کا مضمون مدینے پر حاکم سیاسی پالیسی سے حضرت زہراء(س) کی مکمل آگاہی کی نشاندہی قرار دیتے ہیں۔[8]
شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی اس خطبے کو خطبہ فدکیہ کی طرح واضح اور دلیرانہ انداز لب و لہجہ اور غم انگیز انداز بیان کا حامل قرار دیتے ہیں۔[9] ان کے مطابق اگرچہ حضرت فاطمہ(س) بہت ظلم و ستم کا شکار ہوئی تھیں اور آپ کے گھر پر ہجوم کے واقعے میں زخم کھانے کی وجہ سے بستر بیماری پر تشریف فرما تھیں؛ لیکن اس خطبے میں اپنے بارے میں آپ نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور آپ کی پوری توجہ غصب خلافت، حضرت علیؑ کی مظلومیت اور اس خطرناک انحراف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات پر مرکوز تھی جو آپ کے ایثار اور مشیّت الہی پر تسلیم و رضا کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔[10]
خطبے کا پس منظر
حضرت فاطمہ(س) اپنی عمر کے آخری ایام میں (آپ کے گھر پر ہونے والے حملہ کی وجہ سے) بستر بیماری پر تھیں جس کی بنا پر مہاجر و انصار خواتین آپ کی عیادت کے لئے آئی تھیں۔[11] عیادت کے لئے آنے والی خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مہاجر و انصار حضرت زہرا(س) کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں خود کو مقصر جانتے تھے اس بنا پر خواتین کو حضرت زہرا(س) کی عیادت کے لئے بھیج کر اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔[12] اس طرح بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد بھی کار فرما تھے مثلا یہ کہ خاندان پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ حاکم وقت کے روابط کو بہبود بخشنا اور مدینہ کے غبار آلود فضا کو خوشگوار بنانا اس عیادت کے سیاسی مقاصد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔[13]
مضمون
حضرت زہرا(س)
"تمہاری اس دنیا سے میں بہت بے زار ہوں اور تمہارے مَردوں کو میں اپنا دشمن سمجھتی ہوں! ان کے رفتار و کردار کو آزما چکی ہوں، ان سے بہت ناراض ہوں اور ان سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہوں[14]
حضرت زہرا(س) خطبہ عیادت میں عہد و پیمان توڑنے والوں[15] اور اندھی تقلید کرنے والوں سے اظہار بےزاری کرتے ہوئے ان کی بے وفائی کی منظر کشی کرتی ہیں۔[16] مختلف حوالے سے اس وقت کے سیاسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کے مستقبل کی پیشن گوئی، حکومت علوی کی خصوصیات، مسلمانوں کے فکری انحطاط اور نظریاتی اختلافات، حاکم وقت کے غلط کرتوتوں کےمقابلے میں لوگوں کی ذمہ داری اور سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کرتی ہیں۔[17] آپ اس خطبہ میں قرآن کی کئی آیات من جملہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 80 جوکہ نفسانی خواہشات کی پیروی کے انجام، سورہ اعراف آیت نمبر 96 اور سورہ زمر آیت نمبر 51 حق کی پیروی نہ کرنے والوں کی ملامت اور سورہ یونس آیت نمبر 35 رہبری اور حکومت کے لئے لایق اور شائستہ افراد کی نشاندہی کرنے والی آیات سے اسنتاد کرتی ہیں۔[18]
لوگوں کی سرزنش
حضرت فاطمہ زہرا(س) اس خطبے کی ابتداء میں مہاجرین و انصار کو حاکم وقت کی چاپلوسی[19] اور حکومت کے انحرافی سیاسی پالیسی پر خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش کرتی ہیں اور پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ان کی فولادی ارادے کے سست پڑ جانے پر ان کی شکایت کرتی ہیں۔[20] اور ان کو ٹوٹی ہوئی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ تشبیہ دیتی ہیں۔[21] حسین علی منتظری کے مطابق ان تشبیہات میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے واقعات میں اس وقت کے مسلمانوں کے فکری انحطاط اور تظریاتی اختلافات کی نشاندہی ہوتی ہے۔[22] حضرت زہرا(س) غصب خلافت میں مہاجر و انصار کو ذمہ دار ٹھراتی ہیں کیونکہ یہ لوگ حاکم وقت کے غلط سیاسی پالیسی کے سامنے تسلیم ہوئے[23] اور یہ بدنما داغ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ان کی پیشانی پر کلنگ کے ٹیکے کی طرح باقی رہیں گے۔[24]
امام علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے کی علت
اس خطبے کے دوسرے حصے میں حضرت فاطمہ(س) نے امام علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے کے اصل مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں آپ کی شجاعت اور تسلیم ناپذیری، آپ کی نسبت کینہ اور دشمنی، موت کی نسبت آپ کی بے اعتنائی، خدا کی راہ میں آپ کا غضبناک ہونا اور دشمن کی کسی سازش کا شکار نہ ہونے کو اس کے اصلی دلائل میں شمار کرتی ہیں۔[25]
حکومت علوی کی خصوصیات
حضرت فاطمہ(س) نے اس خطبے کے ایک اور حصے میں فرماتی ہیں کہ اگر حضرت علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے بعد اسلامی حکومت کا حاکم ہوتا تو لوگوں کو کیسی حکومت نصیب ہوتی۔ حق اور باطل کا تصفیہ اور مشرکین کے باقیات کے ہاتھوں حکومت کو کھیلونا بننے سے محفوظ رہنا، مسلمانوں کی نسبت حاکم کی مہربانی اور خیر خواہی اور ہدایت کی راہ میں لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور تشدد کا اظہار نہ کرنا، تشنگان عدالت کا منبع عدل سے سیراب ہونا، حاکم کا دنیوی امور میں مشغول نہ ہونا، جھوٹے کو سچوں سے جدا کرنا اور تقوای الہی کی رعایت کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں برکت اور رحمت کی فراوانی کو حکومت علوی کی برجستہ خصوصیات میں شمار کرتی ہیں۔[26]
غاصب حکام کی توصیف
حضرت زہرا(س) اس خطبے کے ایک اور حصے میں مسلمانوں کے اس رویے پر اپنی حیرانگی کا اظہار کرتی ہیں، کہ یہ لوگ کن دلائل کی بنیاد پر ان جھوٹے حکام کی پیروی کی ہیں اور ان جیسے نا اہلوں کو اپنا سرپرست اور ہادی انتخاب کئے ہیں اور کس امیدپر اس قدر ظلم و ستم کے مرتکب ہوئے ہیں۔[27] بعض کہتے ہیں کہ شاید اس حصے میں آپ کی مراد یہ ہے کہ لوگوں کن دلائل کی بنیاد پر حضرت علیؑ اور اہل بیتؑ جیسے طاقتور اور محکم تکیہ گاہ کو چھوڑ کر ان کی جگہ دوسروں کو انتخاب کئے ہیں۔[28] آپ کی تعبیر میں لوگوں نے سر کو چھوڑ کر دم کے ساتھ لپٹ گئے ہیں اور عالم کو چھوڑ کر عوام کے پیچھے چلے گئے ہیں اور اپنی گمرہی اور ہلاکت کو خوشبختی سمجھ بیٹھے ہیں۔ حضرت فاطمہ(س) ان غاصب حکمرانوں کو ایسے بد کردار قرار دیتے ہیں جو اپنی بد کرداری کو صلاح تصور کرتے ہیں۔[29]
بے ثبات مستقبل کی پیشنگوئی
غلط انتخاب کے نتیجے سے خبردار کرانا اس خطبے کا آخری حصہ ہے جس میں حضرت فاطمہ(س) نے اس ملاقات میں ارشاد فرمایا۔ آپ لوگوں کو تیز اور کاٹنے والی تلواروں، ستمگر اور خونخوار ستمکاروں کا مسلط ہونا، وسیع افراتفری اور مستبد حکومت کی پیشن گوئی کرتی ہیں جو مسلمانوں کی دولت و ثروت بر باد کرے گی اور ان کے اتحاد اور بھائی چارگی کو پراکندہ اور اختلاف کی آگ میں پھینک دے گی۔[30] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق ان جملوں سے حضرت زہرا(س) کی مراد بنی امیہ اور بنی عباس نیز حجاج بن یوسف جیسوں کی حکومتیں اور واقعہ حرہ جیسے واقعات ہیں۔[31]
حضرت فاطمہ(س) کی باتوں پر مہاجر و انصار کے مردوں کا رد عمل
سوید بن غفلہ کے مطابق جب مدینہ کی خواتین نے حضرت فاطمہ(س) کی باتوں کو اپنے مردوں تک پہنچائیں، تو ان مردوں میں سے بعض آپ سے معذرت خواہی کے لئے آپ کے پاس چلے گئے اور ابوبکر کی بیعت کرنے اور شرعی اعتبار سے اس بیعت کو توڑنا جائز نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اہل بیتؑ کی مدد سے معذرت خواہی کئے۔ حضرت زہرا(س) نے ان کی باتوں کو سننے کے بعد فرمایا چلے جاؤ یہاں سے اور مجھ سے بات مت کرو تمہاری اس عذرخواہی میں کوئی صداقت نہیں ہے[32] اور حق کا دفاع نہ کرنے کے لئے تمہارا کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہے اور آئندہ رونما ہونے والے المیے کے ذمہ دار تم لوگ ہو۔[33]
خطبے کے منابع
مدینہ کے خواتین کے سامنے حضرت زہرا(س) کا خطبہ معصوم اور غیرمعصوم راویں کے توسط سے شیعہ اور اہل سنت دونوں فریقین کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔[34] یہ خطبہ متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہوا ہے[35] من جملہ وہ اسناد درج ذیل ہیں:
شیخ صدوق نے کتاب معانی الاخبار میں دو طریقوں سے نقل کیا ہے، ایک میں امام علیؑ کے توسط سے اور دوسرے میں عبداللہ بن حسن بن حسن نے اپنی والدہ فاطمہ بنت امام حسین سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔[36]
طبری نے کتاب دلائل الامامۃ میں امام صادقؑ سے انہوں نے اپنے جد امجد امام سجادؑ سے اس خطبے کو نقل کیا ہے۔[37]
اہل سنت علماء ابنطَیفور اور ابنابیالحدید نے اپنی کتاب بَلاغات النساء[38] اور شرح نہجالبلاغہ[39] میں اس خطبہ کو عَطیہ کوفی سے نقل کیا ہے۔
احمد بن علی طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں سوید بن غفلہ سے اس خطبہ کو نقل کیا ہے۔[40] علامہ حلی کے مطابق سوید امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھا۔[41] علامہ مجلسی نے بھی اس خطبے کو کتاب الاحتجاج سے اپنی کتاب بِحار الانوار میں نقل کیا ہے۔[42] اس خطبے کے شارح حسین علی منتظری کے مطابق سوید بن غفلہ اس خطبے کے راوی ہیں جس نے پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ایمان لے آئے تھے اور یہ شخص ایک مخلص انسان تھا جس کی شیعہ اور اہل سنت دونوں فریقوں نے توثیق کی ہیں۔[43]
شرحیں
مدینہ کے خواتین کے سامنے حضرت زہراء کا یہ خطبہ مستقل طور پر بھی اور دوسری کتابوں کے ضمن میں بھی اس کی تشریح کی گئی ہے۔
ملکہ اسلام، خطبہ فدکیہ اور خطبہ عیادت کی شرح، مصنف: میرزا خلیل کمرہای۔[44]
رنجنامہ کوثر آفرینش- حضرت زہراء کے دوسرے خطبہ عیادت کی تشریح، مصنف سید مجتبی برہانی۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبے کی شرخ اور واقعہ فدک، مصنف: حسین علی منتظری۔[45]
زہرا برترین بانوی جہان، مصنف: آیت اللہ مکارم شیرازی۔[46]
سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر(ص)، مصنف: علی کرمی فریدنی۔[47]
متن اور ترجمہ
حوالہ جات
↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص108۔
↑ خشاوی، زندگانی سیاسی حضرت فاطمہ زہرا(س)، 1378ہجری شمسی، ص۔۔۔
↑ ابنطیفور، بلاغات النساء، ص19۔
↑ ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، ج16، ص233۔
↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص115۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص734۔
↑ خزاعی و ہمکاران، «تحلیل خطبہ عیادت بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، ص7-8۔
↑ فتاحیزادہ و رسولی، «اسناد و شروح خطبہہای حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، ص17-18۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص211۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص212-215۔
↑ خزاعی و ہمکاران، «تحلیل خطبہ عیادت بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، ص16۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص734۔
↑ خزاعی و ہمکاران، «تحلیل خطبہ عیادت بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، ص16۔
↑ روحانی، زندگانى حضرت زہرا عليہا السلام (ترجمہ جلد 43 بحار الانوار)، 1377ہجری شمسی، ص580-583۔
↑ پورسید آقایی، «خطبہہای فاطمہ(س)»، ص60۔
↑ منتظری، خطبہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص379۔
↑ منتظری، خطبہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص371؛ دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہ(س)، 1381ہجری شمسی، ص90-96؛ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص737-745۔
↑ پورسید آقایی، «خطبہہای فاطمہ(س)»، ص60۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص737۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص221۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص738۔
↑ منتظری، خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص383-384۔
↑ منتظری، خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص385۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص222۔
↑ دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہ(س)، 1381ہجری شمسی، ص92؛ منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص393-395۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص227-228؛ منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص402-410؛ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص741۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص742-743؛
↑ منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص414۔
↑ دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہ(س)، 1381ہجری شمسی، ص94-95۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص744-745؛ دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہ(س)، 1381ہجری شمسی، ص95۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص238-241۔
↑ منتظری، خطبہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص424-426۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص748-749۔
↑ فتاحیزادہ و رسولی، «اسناد و شروح خطبہہای حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، ص18۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص215۔
↑ شیخ صدوھ، معانی الاخبار، 1403ھ، ص354-356۔
↑ طبری، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص125۔
↑ ابنطیفور، بلاغات النساء، ص19۔
↑ ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، ج16، ص233۔
↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص108۔
↑ علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، 1417ھ، ص163۔
↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج43، ص159۔
↑ منتظری، خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص 376-377۔
↑ نگاہی بہ کتاب «ملکہ اسلام»، کتابی در شرح خطبہ ہای حضرت زہرا(س)، مندرج در سایت دارالعرفان۔
↑ منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص371-428۔
↑ مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص211-247۔
↑ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر (ص)، 1380ہجری شمسی، ص733-749۔