امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

خُطبہ فدکیہ یا خطبة لُمَّة،

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

تاملی در مسووليتهای مردمی در خطبه فدکيه حضرت زهرا (س) | فرهنگ اسلامی

خُطبہ فدکیہ یا خطبة لُمَّة،
حضرت فاطمہؑ کے اس خطبے کو کہا جاتا ہے جو آپ نے ابو بکر کے فدک واپس لینے کے اعتراض میں مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا۔ ابوبکر نے خلافت حاصل کرنے کے بعد آنحضرت (ص) سے ایک حدیث منسوب کرکے جس میں یہ کہا گیا کہ انبیاء الہی اپنے بعد میراث نہیں چھوڑتے ہیں، فدک کے علاقے کو جسے آنحضرت (ص) نے فاطمہ کو ہبہ کیا تھا، خلافت کی طرف سے مصادرہ کر لیا۔ فاطمہ نے انصاف سے مایوس ہو کر مسجد نبوی کا رخ کیا اور اور وہاں آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ انہوں نے اس خطبہ میں فدک پر اپنے حق مالکیت کی تصریح کی۔ اسی طرح سے انہوں نے اس خطبہ میں خلافت حضرت علی (ع) کا حق ہونے کا بھی دفاع کیا اور مسلمانوں کو اہل بیت (ع) پر ہونے والے ظلم کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرنے کی سرزنش کی۔
خطبہ فدک معارف کا مجموعہ ہے جس میں خدا شناسی، معاد شناسی، نبوت و بعثت پیغمبر اکرم (ص)، عظمت قرآن، فلسفہ احکام و ولایت جیسے مطالب کا بیان ہے۔
اس خطبے کا متن شیعہ و سنی مآخذ میں نقل ہوا ہے۔ سید عز الدین حسینی زنجانی، حسین علی منتظری، مجتبی تہرانی اس خطبہ کی شرح لکھی ہے۔
اہمیت و منزلت
خطبہ فدک میں حضرت فاطمہ کے حکومت وقت کے خلاف سیاسی مواضع، فدک کا مصادرہ کرنے والوں اور اہل خلافت کی سرزنش کا تذکرہ ہے۔[1] اس خطبہ میں اسلامی معاشرہ میں امامت و ولایت اہل بیت (ع) کو قبول کرنے کے ذیل میں ایجاد وحدت و اتحاد اور تفرقہ و نفاق سے دوری پر تاکید کی گئی ہے۔[2] یہ خطبہ اس میں مذکور توحید، معاد، نبوت و بعثت پیامبر اسلام (ص)، عظمت قرآن، فلسفہ احکام و ولایت[3] جیسے معارف کی وجہ سے حضرت فاطمہ کے نفیس ترین دینی میراث کے طور پر متعارف ہوا ہے۔[4]
اسی طرح سے اس خطبہ کو فصاحت و بلاغت[5] اور فن خطابت میں مشہور عقلی و منطقی خصوصیات کے استعمال کی وجہ سے حضرت علی (ع) کے خطبہ کے ہم پلہ ہونے کو اس خبطے کی اہمیت کے دلائل میں شمار کیا گیا ہے۔[6] یہی سبب ہے کہ ابن طیفور نے اپنی کتاب بلاغات النساء میں اس کا شمار فصیح و بلیغ خطبات میں سے کیا ہے۔[7]
مصادرہ فدک خطبہ کا سبب
 فدک اور واقعہ فدک
فدک، خیبر کے نزدیک ایک زرخیز علاقہ تھا۔[8] جو حجاز کے علاقہ میں مدینہ سے ایک سو ساٹھ کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے،[9] جس میں یہودی آباد تھے۔[10] مسلمانوں کی طرف سے خیبر کے قلعہ کی فتح کے بعد، اس گاؤں کے لوگوں نے خیبر کا انجام دیکھا تو پیغمبر کے ساتھ صلح کی کہ آدھا گاؤں رسول کے لئے ہوگا جبکہ وہ اپنی زمینوں پر باقی رہے گے۔[11]
فدک بغیر کسی خون ریزی کے صلح کے ساتھ آنحضرت (ص) کے ہاتھ آ گیا۔[12] اس لئے قرآنی حکم کے مطابق[13] پیغمبر کیلئے مخصوص قرار پایا۔[14] رسول خدا اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بنی ہاشم کے غریبوں کو دے دیتے تھے۔ اس آیت وَآتِ ذَا الْقُرْ‌بَیٰ حَقَّهُ : ترجمہ (اور تم اپنے رشتے داروں کو ان کا حق دو) [15] کے نازل ہونے کے بعد آپ (ص) فدک حضرت فاطمہؑ کو بخش دیا۔[16] رسول اللہ کے وصال کے بعد ابو بکر نے ایک حدیث پیش کرکے یہ دعوی کیا کہ انبیاء اپنے بعد میراث نہیں چھوڑتے۔[17] لہذا انہوں نے فدک کو جو فاطمہ کے اختیار میں تھا،[18] حکومت کی طرف سے مصادرہ کر لیا۔[19]
حضرت فاطمہؑ کہتی رہیں کہ رسول خدا (ص) نے فدک انہیں اپنی وفات سے پہلے عطا کیا تھا اور انہوں نے اس پر حضرت علی (ع) و ام ایمن کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔[20] بعض نقل کے مطابق ابوبکر نے فدک کو ان کا حق تسلیم کرتے ہوئے تائید میں انہیں ایک تحریری نوشتہ دیا؛ لیکن عمر نے اسے پھاڑ دیا۔[21] بعض (اہل سنت) منابع کے مطابق، ابوبکر نے فاطمہ کو گواہوں کو قبول نہیں کیا اور شہادت کے لئے دو مردوں کو طلب کیا۔[22]
جب حضرت فاطمہ نے دیکھا کہ اس مطالبہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو آپ اپنی بعض رشتہ دار خواتین کے ساتھ مسجد میں تشریف لے گئیں۔[23] ابن طیفور کے نقل کے مطابق، جس وقت آپ مسجد میں گئیں ابوبکر اور مہاجرین و انصار کا ایک گروہ وہاں موجود تھا، آپ کے اور مجمع کے درمیان ایک پردہ سے حائل بنایا گیا، پہلے آپ نے گریہ کیا، آپ کے ساتھ سب نے گریہ کیا، اس کے بعد آپ کچھ دیر ٹھریں تاکہ مجمع خاموش ہو جائے اس کے بعد آپ نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ [24] چونکہ آپ نے یہ خطبہ فدک کے مصادرہ کے بعد اس پر اعتراض کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا اس لئے یہ خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[25] البتہ بعض مقامات پر اسے اس عنوان سے کہ آپ خطبہ ارشاد فرمانے سے پہلے اپنی بعض رشتہ دار (خواتین وَ أقْبَلَتْ فی لُمَّهٍ مِنْ حَفَدَتِها وَ نِساءِ قَوْمِها) کے ساتھ مسجد میں وارد ہوئیں، خطبہ لمۃ کے نام سے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔[26]
خطبے کی سند
علامہ مجلسی نے خطبہ فدکیہ کو مشہور خطبوں میں شمار کیا ہے جسے شیعہ و اہل سنت مختلف سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔[27] شیخ صدوق نے بھی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں اس کے بعض حصے نقل کئے ہیں۔[28] آیت اللہ منتظری کے مطابق اس خطبہ کی قدیمی ترین سند کتاب بلاغات النساء تالیف احمد بن طاہر مروزی ہے جو ابن طیفور (204۔280 ھ) کے نام سے مشہور اہل سنت عالم دین ہیں جو زمانہ کے اعتبار سے امام علی نقی (ع) و امام حسن عسکری (ع) کے معاصر تھے۔[29] ابن طیفور نے اس خطبہ کو دو روایت سے ضبط کیا ہے۔[30] البتہ سید جعفر شہیدی کے بقول متاخر اسناد میں دونوں روایتیں خلط ملط ہوکر ایک ہی صورت میں نقل ہوئی ہیں۔[31] بہرحال خطبہ فدکیہ کے لئے 16 منابع ذکر ہوئے ہیں۔[32]
نقل ہوا ہے کہ امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، حضرت زینب (س)، امام باقر (ع)، امام صادق (ع)، حضرت عایشہ، عبدالله بن عباس و ۔۔۔ اس خطبے کے راویوں میں شامل ہیں۔[33]
مضمون
خطبہ حمد و توصیف الہی سے شروع ہوتا ہے۔ پھر اس میں بعثت پیغمبر (ص) کا ذکر ہے اس کے بعد حضرت علی (ع) کی آنحضرت (ص) سے قربت، اولیائے الہی کے درمیان ان کی سرداری، ان کی بے مثال دلیری، شجاعت اور نبی اکرمؐ اور اسلام سے دفاع کا ذکر ہے۔ اصحاب رسول کی اس بنیاد پر سرزنش کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر (ص) کے بعد پیروئے شیطان ہوگئے، ان میں نفاق ظاہر ہوگیا اور انہوں نے حق کو ترک کر دیا۔ اسی طرح سے اس میں غصب خلافت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اور ابوبکر کے کلام کہ انبیاء اپنی میراث نہیں چھوڑتے ہیں کو حکم قرآن کے خلاف بیان کیا گیا ہے۔ اس خطبہ میں آپ نے ابوبکر کے اس مسئلے کو قیامت کے روز خدا کے سپرد کیا اور پھر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں صحابہ پیغمبر اس ستم پر خاموش بیٹھے ہیں۔ پھر آپ نے واضح طور پر کہا کہ جو ابوبکر اور ان کے ساتھیوں نے کیا وہ خدا سے اپنے ایمان کے عہد کو توڑنے کے مترادف ہے۔ آخر میں انہیں اس کام کی وجہ سے دوزخ کی وعید سنائی۔[34]
خطبہ فدکیہ کا متن اور اردو ترجمہ
اس لنک پر  ملاحظہ فرمائیں:

http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=1826


خطبے کی شرحیں
خطبہ فدکیہ کی شرحیں لکھی گئی ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی کتاب الذریعہ میں ان میں بعض کے ناموں کا تذکرہ کیا ہے: جیسے کشف المحجة فی شرح خطبة اللمة شارح سید عبد اللہ شبر، شرح خطبة اللمہ شارح کرمانی مشہدی، شرح خطبة اللمہ شارح سید علی نقی نقوی لکھنوی و شرح خطبة اللمہ شارح فضل علی قزوینی۔۳۵] اسی طرح سے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اس خطبہ اور اس کے مصادر کو ذکر کرنے کے بعد اس کی شرح و تفسیر لکھی ہے۔[۳۶] نقل ہوا ہے کہ علامہ مجلسی کی شرح اس کی سب سے اہم شرح ہے۔[۳۷]
اس خطبہ کی بعض دیگر شرحیں مندرجہ ذیل ہیں:
خطبہ حضرت فاطمہ زهرا (س) و واقعہ فدک شارح حسین علی منتظری، انتشارات خرد آوا
خطبہ آتشین بانوی اسلام در بستر شهادت تألیف ناصر مکارم شیرازی
شرح خطبہ حضرت زهرا (س) مولف سید عز الدین حسینی زنجانی، انتشارات بوستان کتاب
بحثی کوتاه پیرامون خطبہ فدکیہ مولف مجتبی تهرانی، مؤسسہ پژوهشی مصابیح الهدی
خطبہ فدکیہ، مبانی معرفتی و زمینہ ‌های تاریخی مولف سید محمد مهدی میر باقری، نشر تمدن نوین اسلامی

حوالہ جات
۱- آموزه‌های هفت‌ گانہ خطبہ تاریخی حضرت زهراء پایگاه اطلاع‌ رسانی آیت‌ الله مکارم شیرازی
۲- میرزایی، «اهمیت ضرورت و جایگاه امامت در نگاه حضرت صدیق طاهره(س)»، ص۴۱ و ۴۵.
۳-آموزه‌های هفت ‌گانہ خطبہ تاریخی حضرت زهراء پایگاه اطلاع‌ رسانی آیت الله مکارم شیرازی
۴- پور سید آقایی، «خطبہ ‌های فاطمی»، ص۴۷.
۵- شرف‌ الدین موسوی، المراجعات، ۱۴۰۲ق، ص۳۹۲.
۶- ندری ابیانہ، «ویژگی‌های خطابی خطبہ فدکیہ»، ص۱۳۳.
۷- ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۲۶ق، ص۱۶.
۸-یاقوت حموی، معجم ‌البلدان، ۱۹۹۵م، ذیل ماده فدک، ص۲۳۸.
۹- یاقوت حموی، معجم ‌البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۲۳۸.
۱۰- بلادی، معجم معالم الحجاز، ۱۴۳۱ق، ج۲، ص۲۰۶ و ۲۰۵ و ج۷، ص۲۳.
۱۱- شہیدی، زندگانی فاطمہ زہراؑ، ص۹۷_۹۶
۱۲- مقریزی، امتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۲۵.
۱۳- سوره حشر، آیہ ۶و۷.
۱۴- سبحانی، فروغ ولایت، ۱۳۸۰ش، ص۲۱۸.
۱۵- سوره اسراء، آیہ ۲۶.
۱۶- شیخ طوسی، التبیان،‌ دار احیاء التراث العربی، ج۶، ص۴۶۸؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۳۳-۶۳۴: حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج‌۱، ص۴۳۸-۴۳۹؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۱۷۷.
۱۷- بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۵۶م، ص۴۰ و ۴۱.
۱۸- طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۹۱؛ سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی، ۱۴۲۶ق، ج۱۸، ص۲۴۱.
۱۹- کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۴۳؛ شیخ مفید، المقنعة، ۱۴۱۰ق، ص۲۸۹ و ۲۹۰.
۲۰- حلبی، السیرة الحلبیة، ۱۹۷۱م، ج۳، ص۵۱۲.
۲۱- کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۴۳؛ حلبی، السیرة الحلبیة، ۱۹۷۱م، ج۳، ص۵۱۲.
۲۲- بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۵۶م، ص۴۰.
۲۳- اربلی، کشف الغمة، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۳۵۳-۳۶۴.
۲۴- ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۲۶ق، ص۱۶.
۲۵- الویری، «خطبة اللمة-سندها و مکانتها عند الشیعه»، ۱۵.
۲۶- الویری، «خطبة اللمة-سندها و مکانتها عند الشیعہ»، ۱۵.
۲۷- مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۹، ص۲۱۵.
۲۸- صدوق، من لا یحضر، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۵۶۷-۵۶۸.
۲۹- منتظری، خطبہ حضرت زهرا علیها السلام، ۱۳۸۵ش، ص۳۷.
۲۹- ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۲۶ق، ص۱۷-۲۵.
۳۰- شهیدی، زندگانی فاطمہ زهرا، ۱۳۶۲ش، ص۱۲۲.
۳۱- آذربادگان، «نگاهی گذرا بہ اسناد و منابع مکتوب خطبہ فدک» پرتال جامع علوم انسانی.
۳۲- پور سید آقایی، «خطبہ‌ های فاطمی»، ص۵۱.
۳۳- شہیدی، زندگانی فاطمہؑ زہرا علیہا السلام، صص ۱۲۶-۱۳۵

۳۴-  آقا بزرگ تهرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، صص۲۲۴ و ج۱۸، ص۵۸.
۳۵- مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۹، ص۲۱۵-۳۳۵.
۳۶- پور سیدآقایی، «خطبہ ‌های فاطمی»، ص ۵۸.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک