کوثر، قرآنی الفاظ اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لقب
کوثر، قرآنی الفاظ اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے القاب[1] میں سے ہے۔
لغت میں یہ لفظ "خیر کثیر" کے معنی میں ہے۔[2] قرآن کریم میں صرف ایک بار سورہ کوثر میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔[3]
کوثر کی تفسیر اور مصداق کے بارے میں مختلف نظریات اور متعدد اقوال پائے جاتے ہیں۔[4] کوثر کی بعض تفاسیر یہ ہیں: بہشت میں ایک نہر، اسلام، نبوت، قرآن کریم، علم و حکمت، حوض کوثر، شفاعت، دوستوں و پیروکاروں کی کثرت اور نسل و اولاد کی کثرت۔[5]
تفسیر مجمع البیان کے مولف شیخ طبرسی کے بقول: یہ سارے احتمالات درست ہیں۔ اس لئے کہ لفظ کوثر دنیا و آخرت کے خیر کثیر کو شامل کرتا ہے، اس لئے اس میں مذکورہ ساری تفاسیر شامل ہو جائیں گی۔[6] فخر رازی کوثر کی تفسیر بہشت کی ایک نہر کو زیادہ مشہور اور مستفیض شمار کرتے ہیں۔[7]
علامہ طباطبائی کوثر سے مراد پیغمبر اکرم (ص) کی نسل کی کثرت قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کہ ظاہرا سورہ کوثر کے آخر میں مذکور کلمہ ابتر بے نسل اور بے اولاد کے معنی میں ہے اور کوثر کے معنی کثرت نسل ابتر کے معنی سے زیادہ موافق و سازگار ہے۔[8]
شیعہ مفسرین کے مطابق سورہ کوثر میں لفظ "کوثر" سے مراد حضرت فاطمہ زہراؑ ہیں۔ کیونکہ عاص بن وائل کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو "اَبتَر" (بے اولاد) کا طعنہ دینے کے جواب میں خداوند عالم نے حضرت فاطمہؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کو بے شمار نسل عطا فرمائی ہے۔[9]
دنیا میں حضرت فاطمہؑ کی نسل کی فراوانی
آج دنیا کے مختلف ملکوں میں حضرت فاطمہؑ کی نسل سے سادات کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ مثلا ایران اور دیگر عربی ممالک کے علاوہ مغرب (تونس اور مراکش) میں ادریس بن عبداللہ بن حسن نے ادریسوں کی حکومت قائم کی جو اب بھی موجود ہے۔ انڈونیشیا میں حبشی اور علوی خاندان کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ یمن میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی نسل سے بہت سارے سادات موجود ہیں۔ مصر کے شہر اسوان میں "جعافرہ" کے نام سے ایک بہت بڑا قبیلہ ہے جو امام جعفر صادقؑ سے منسوب ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں رضوی و نقوی سادات موجود ہیں۔[10]
متعلقہ صفحات
ساقی کوثر
حوالہ جات
انصاری زنجانی، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء، ۱۴۲۸ق، ج۲۲، ص۹و۲۵
فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰.
سورہ کوثر، آیہ۱
نگاه کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳-۳۱۶؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰.
نگاه کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳- ۳۱۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۶؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰
طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۷.
فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۳۱۳
نگاه کریں: خرمشاهی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوهی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۹؛ احسانی فر، علوم حدیث، ۱۳۸۳ش، ص۵۳ـ۶۹ (ادله و متون روایی تفسیر کوثر بہ نسل پیامبر).
نک: خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۹
داغر، مصادر الدراسخ الأدبيۃ، ۱۹۸۳م، ج۴، ص۳۶۴-۳۶۶.
مآخذ
احسانی فر لنگرودی، محمد، «فاطمه(س) کوثر قرآن»، فصل نامہ علوم حدیث، ش ۳۱، بهار ۱۳۸۳ش.
خرمشاهی، بهاء الدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوهی، تهران، دوستان و ناهید، ۱۳۷۷ش.
داغر، يوسف أسعد، مصادر الدراسة الأدبية أعلام النهضة، بیروت، المكتبة الشرقية، ۱۹۸۳م.
طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق.
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.