تناسخ
تناسخ
تناسخ انسانی روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے کو کہا جاتا ہے۔ شیعوں کے ہاں تناسخ ایک باطل عقیدہ ہے اور اس کو ماننے والے معاد کے انکار کی وجہ سے کافر شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ ائمہؑ سے بھی تناسخ کے بارے میں بعض روایات نقل ہوئی ہیں اور شیعہ متکلمین اور مفسرین نے بھی تناسخ کے بطلان پر کئی دلائل پیش کیے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اکثر مسلمانوں، من جملہ شیعوں کے ہاں تناسخ کا عقیدہ درست نہیں ہے اگرچہ بعض مسلمان دوسرے تمدن اور ادیان سے متاثر ہوکر اس عقیدے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ تناسخ پر عقیدہ رکھنے والے سب سے پہلے غالی ہیں۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ بعض غالیوں کا اللہ کی روح کو شیعہ ائمہ میں حلول ہونے کے عقیدے کو مذہب شناسوں نے مسامحہ کر کے اس کو تناسخ کے عقیدے سے یکسان قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض اہل سنت علما نے شیعوں کا عقیدہ رجعت کو تناسخ سے یکساں قرار دیا ہے۔ جبکہ شیعہ علما کا کہنا ہے کہ رجعت اور تناسخ میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے کیونکہ رجعت میں تناسخ کے برخلاف، ایک نفس کے لئے کئی بدن نہیں ہوتے ہیں۔
محمد بن زکریائے رازی وہ پہلا اسلامی فلاسفر ہیں جسے تناسخ کا معتقد سمجھا جاتا ہے جبکہ ابن سینا وہ پہلا اسلامی فلاسفر ہیں جنہوں نے تفصیل سے تناسخ کے عقیدے کو رد کردیا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ ملاصدرا نے حرکت جوہری کے نظرئے کے تحت نفس کے ایجاد اور بقاء کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ تناسخ کو ثابت کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
بعض کا کہنا ہے کہ اسلامی عرفان کے مبانی کے مطابق عرفا کا ترک دنیا کا شوق تناسخ سے سازگار نہیں ہے کیونکہ تناسخ ایک طرح سے روح کا دنیوی بدن میں لوٹ آنا ہے۔ مسلمان عرفا اور صوفیوں کا معاد پر عقیدہ رکھنے کو بھی تناسخ کے بطلان پر دلیل قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض مسلمان صوفیوں کا حلول اور تجلی کے عقیدے کی وجہ سے ان پر تناسخ کے قائل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
تعریف اور اہمیت
تناسخ انسانی روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے کو کہا جاتا ہے۔[1] کہا جاتا ہے کہ تناسخ میں اس شخص کی پچھلی زندگی اس کے جدید اور نئے جسم کو متعین کیا جاتا ہے۔[2] تناسخ کا اصل مفہوم، موت کے بعد جسمانی دنیا میں روح حاضر ہونے کو کہا گیا ہے؛ ایک ایسا حضور جس کے دلائل کا دینی اور فلسفی نظام میں مختلف طریقوں سے تجزیہ و تحلیل کی گئی ہے۔[3]
تناسخ کے عقیدے کو تاریخ بشر کے ابتدائی اور نئے ادیان میں سے اکثر ادیان کے عام عقیدوں میں شمار کیا گیا ہے.[4]
تناسخ، ادیان ابراہیمی کے بعض عقائد بالخصوص معاد کے عقیدے سے سازگار نہیں سمجھا جاتا ہے۔[5] مسلمانوں کے ہاں تناسخ کا عقیدہ باطل ہونے اور اس کے کفرآمیز ہونے پر اجماع قائم ہے۔[6]
بعض محققیں کے ہاں ارواح کا ازلی ہونا، درد و الم کی توجیہ کرنے میں ناتوان ہونا، عدل الہی اور شرور کے مابین سازگاری ایجاد کرنا اور انتقامی کاروائی کی توجیہ کو بعض افراد کے ہاں تناسخ کا عقیدہ مزید بڑھنے کے دلائل میں شمار کیا گیا ہے۔[7]
تناسخ کے اقسام
تناسخ نزولی: یعنی غیر کامل روح کا انسان سے نچلے مرحلے کی طرف منتقل ہونا، جیسے حیوانی، نباتاتی اور جماداتی مرحلے کی طرف منتقل ہونا؛ اسے تناسخ نزولی کہا جاتا ہے۔[8]
تناسخ صعودی: انسان، حیوانی، نباتاتی یا جمادتی مرحلے میں سے کسی بھی نچلے مرحلے سے ایک مرحلہ اوپر کی طرف منتقل ہونے کو کہا جاتا ہے۔[9] تناسخ کے اقسام کے مابین وجہِ مشترک یہی ہے کہ دونوں میں روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔[10]
تناسخ اور مسخ کے درمیان فرق
کہتے ہیں کہ تناسخ اور مسخ میں فرق پایا جاتا ہے:[11] تناسخ میں روح جسم سے الگ ہونے کے بعد دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، لیکن مسخ میں روح بدن سے الگ نہیں ہوتی ہے بلکہ صرف جسم کی شکل تبدیل ہوتی ہے تاکہ گناہ گار انسان خود کو کسی حیوان کی شکل میں دیکھ کر درد اور رنج کا احساس کرے۔[12]
امام رضاؑ:
مَنْ قَالَ بِالتَّنَاسُخِ فَہُوَ کافِرٌ بِاللَّہِ الْعَظِیمِ مُکذِّبٌ بِالْجَنَّةِ وَ النَّارِ
جو بھی تناسخ پر عقیدہ رکھے وہ اللہ تعالی کا منکر اور کافر ہوگا اور بہشت اور جہنم کی تکذیب کی ہے۔[13]
شیعہ عقیدے میں تناسخ کی نفی
شیعوں کے ہاں تناسخ کے عقیدے کو باطل سمجھا جاتا ہے اور چونکہ تناسخ سے معاد کی نفی ہوتی ہے اس لئے اسے کفر قرار دیا گیا ہے۔[14]تناسخ کی نفی میں شیعہ ائمہؑ سے بعض روایات بھی نقل ہوئی ہیں۔[15] توقیعات امام زمانہؑ میں سے کسی ایک میں تناسخ پر عقیدہ رکھنے والے غالیوں سے برائت کا اعلان کیا گیا ہے۔[16] احادیث میں اخروی بہشت اور دوزخ کے انکار کو تناسخ پر عقیدہ رکھنے والوں کے کفر کا بنیادی سبب قرار دیا گیا ہے۔[17] بعض شیعہ ماہرین علم رجال نے ان راویوں کو ضعیف قرار دیا ہے جن پر تناسخ کے عقیدے کا الزام تھا۔[18]
شیعہ مفسریں نے قرآن مجید کی معاد کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ذریعے تناسخ کے نظریے کی نفی کی ہے۔[19] انہوں نے تناسخ کے قائل لوگوں کے استدلال کو انہی قرآنی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے نقد کیا ہے۔[20] شیعہ متکلمین نے تناسخ کے خلاف کچھ دلائل بھی پیش کیا ہے۔[21] نیز تناسخ کو قبول کرنے والوں کی طرف سے قائم شدہ دلائل کو بھی نقد کرتے ہوئے انہیں رد کیا ہے؛[22] مثلا شیخ طوسی انسان پر دنیا میں دکھ درد کی حکمت کو صرف ثواب اور عقاب نہیں سمجھتا ہے بلکہ اس طرح سے تناسخ کے معتقد لوگوں کے دلائل کو بھی رد کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اس جہاں میں بےگناہ انسان کا درد و الم اس کی قلبی زندگی کے گناہوں کی وجہ سے ہے۔[23]
کیا رجعت وہی تناسخ ہے؟
بعض اہل سنت علما نے تناسخ کو رجعت جو کہ شیعہ عقیدہ ہے، کے ساتھ یکسان قرار دیا ہے[24] اسی لئے شیعوں کو تناسخ کے حامی قرار دیا ہے۔[25] بعض شیعہ علما نے رجعت اور تناسخ کے باہمی فرق کو بیان کرتے ہوئے اس عقیدے کو رد کیا ہے؛ مثال کے طور پر جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ رجعت میں تناسخ کی وہ دونوں خصوصیات نہیں ہیں جن کی وجہ سے تناسخ محال ہے، اول یہ کہ رجعت میں تناسخ کی طرح سیر نزولی نہیں ہے یعنی نفس انسانی، حیوانی، نباتاتی یا جماداتی نفس میں تبدیل نہیں ہوتی ہے؛ دوم یہ کہ رجعت تناسخ کی طرح ایک نفس کے لئے کئی بدن کا موجب نہیں بنتی ہے۔[26] سبحانی کے بقول، رجعت مردوں کو زندہ کرنے کے سوا کچھ نہیں جس کے ضمن میں انسانی روح اپنے پہلے والے بدن میں لوٹ آتی ہے بغیر اس کے کہ وجود کے اعتبار سے اس میں کوئی تنزل پیش آجائے۔[27] وہ رجعت کو حضرت عیسی کا مردوں کو زندہ کرنے والے معجزے کی طرح ایک امر سمجھتا ہے اور کسی بھی مسلمان یا عیسائی نے اسے تناسخ میں سے شمار نہیں کیا ہے۔[28]
تناسخ، اس پر نقد، اور اس کا رجعت سے باہمی فرق کے بارے میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں؛ جن میں فارسی زبان میں تناسخ گذشتہ و امروز ادیان و مذاہب یونیورسٹی کی اشاعت شدہ کتاب،[29] کتاب تناسخپژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی و دانشگاہ باقرالعلوم(ع) کی اشاعت[30] اور کتاب تناسخ در اندیشہ اسلامیتالیف علی رضایی بیرجندی.[31]شامل ہیں۔
بعض مسلمانوں کا تناسخ پر عقیدہ رکھنے کی علت
بعض مسلمانوں کا تناسخ پر عقیدہ رکھنے کی علت، انکا دیگر ادیان اور تمدن سے متاثر ہونا قرار دیا گیا ہے۔ ان ادیان میں بدھ مت، مانیسزم، مزدکیسم اور یونانی شامل ہیں۔[32] ادیان ابراہیمی میں مسخ کا عقیدہ بھی مسلمانوں کا تناسخ کے عقیدے سے آشنا ہونے کا سبب ٹھہرایا گیا ہے۔[33] بعض مآخذ کے مطابق عربوں میں اسلام سے پہلے بھی تناسخ کے عقیدے کی نشانیاں ملتی ہیں۔[34]
مسلمانوں میں تناسخ پر عقیدہ رکھنے والوں میں سب سے پہلا شخص، بعض نے عبداللہ بن حارث[35] اور بعض نے عبداللہ بن سبأ قرار دیا ہے۔[36] اسلامی فرقوں میں تناسخ کا عقیدہ رکھنے والا فرقہ غالیوں کا سمجھا گیا ہے۔[37] محققین کے مطابق علم ادیان کے بعض ماہرین نے کیسانیہ جیسے شیعہ غالیوں کا روح الہی کا شیعہ ائمہؑ میں حلول کرنے کے عقیدے کو تناسخ کے ساتھ یکساں سمجھا ہے؛[38] جو کہ حلول اور تناسخ میں پائے جانے والی شباہت اور فرقہ شناسوں کے تسامح کی وجہ سے ہے۔[39]اسماعیلیہ کو بھی تناسخ سے مشابہ عقائد کے حامل ہونے کی وجہ سے، ان کو بھی تناسخ کے ماننے والے سمجھے جاتے ہیں۔[40]
کتابوں میں تناسخ کے قائل بعض افراد اور گروہوں کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے؛ جن میں ابنابیالعوجاء،[41]بعض معتزلی علما،[42] نُصَیری،[43] دروزی،[44] اہل حق،[45]، راوندی،[46] سپید جامگان،[47] خرمدینیّون،[48] و التقاطی فرقے، جیسے یزیدی، آذرکیوانی، نقطوی اور پسیخانی.[49] شامل ہیں۔
تناسخ فلسفہ اسلامی کی نظر میں
بعض محققین کا کہنا ہے کہ اسلامی فلسفے کی تاریخ میں تناسخ کے عقیدے کی طرف مائل اور معتقد فلسفیوں کے ہونے نے تناسخ کے ماننے والے اور اسی طرح مخالفوں کے دلائل کو عمق بخشا ہے۔[50] محمد بن زکریائے رازی (251ـ313ھ)[51] کو تناسخ کے معتقد سب سے اہم فیلسوف قرار دیا گیا ہے۔[52] دوسرے فلاسفر میں اخوان الصفاء اور فارابی کو بھی تناسخ کی طرف مائل ہونے والے فلسفیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[53]
ابنسینا اسلامی پہلا فلاسفر ہیں جس نے تناسخ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔[54] کہا جاتا ہے کہ اسلامی فلسفہ دانوں میں ابن سینا اور ان کے پیروکاروں نے تناسخ باطل قرار دینے میں مقدور بھر کوشش کی ہے؛ اگرچہ تناسخ کی بنیاد انسانی نفس کے قدیم ہونے پر مبتنی ہے۔[55] ابنسینا نے ایک استدلال کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تناسخ کا لازمہ یہ ہے کہ دو نفس ایک بدن سے مربوط ہوں اور اس کے محال ہونے سے تناسخ کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔[56] محققین کا کہنا ہے کہ ابن سینا کا یہ استدلال مشائی مشرب کے فلاسفر کو پسند آیا ہے اور اپنی کتابوں میں بارہا اس کا ذکر بھی کیا ہے۔[57]
تناسخ کے حوالے سے شیخ اشراق کا موقف واضح نہیں ہے:[58]محققین کا کہنا ہے کہ مشائی مشرب کے فلاسفر کی پیروی کرتے ہوئے پرتونامہ، المطارحات و الواح عمادیہ جیسی کتابوں میں تناسخ کو باطل قرار دیا ہے۔[59] محققوں کا کہنا ہے کہ شیخ اشراق نے اپنی معروف کتاب حکمة الاشراق میں شک و تردید کے ساتھ تناسخ ممکن نہ ہونے کے دلائل کو ناکافی سمجھتے ہوئے تناسخ کی بعض صورتوں کی طرف مائل ہوئے ہیں اور آخر میں تناسخ کے بارے میں اپنا واضح موقف پیش کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔[60]
بعض محققین کے مطابق ملاصدرا نے حرکت جوہرى کے نظرئے کے مطابق نفس کے ایجاد اور بقا کو کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ جس سے تناسخ کا اثبات ناممکن ہوجاتا ہے۔[61] اس نظرئے کے مطابق نفس اور بدن پیدائش کے آغاز سے ہی اوامر بالقوہ اور ذاتی حرکت جوہری کے حامل ہیں۔[62] وہ طبیعی زندگی طے کرتے ہوئے قوہ سے خارج ہوجاتے ہیں اور سعادت یا شقاوت کی جہت سے فعلیت تک پہنچ جاتے ہیں۔[63] ملاصدرا کی نظر میں تناسخ کسی چیز کا فعلیت سے قوہ کی طرف لوٹ آنا ہے جو کہ محال اور ناممکن ہے۔[64]
عرفان اسلامی اور تناسخ
بعض محققین کا کہنا ہے اسلامی عرفان کے مبانی تناسخ کے ساتھ سازگار نہیں ہیں؛ جیسے عرفا میں ترک دنیا کا شوق، فنا فی اللہ وغیرہ۔[65] یہ سازگاری نہ ہونے کی وجہ ان کی نظر میں تناسخ خود انسانی روح کا دنیوی بدن میں ایک طرح سے لوٹ آنا ہے۔[66] اسلامی عقائد میں سے معاد جیسے عقائد کا عرفا اور اسلامی تصوف میں ہونا تناسخ کے رد ہونے پر دلیل سمجھا گیا ہے؛[67]جیسا کہ صوفیوں میں سے ابونصر سراج[68] (متوفی: 378ھ)، ابنعربی[69] (560-638ھ)، شیخ محمود شبستری[70] اور علاءالدولہ سمنانی (659-736ھ)[71] جیسے اہم صوفیوں نے تناسخ کے نظریے پر نقد کیا ہے۔ مثال کے طور پر محمود شبستری تناسخ کو کائنات میں «کوتاہ نظری» کا نتیجہ سمجھتے ہیں؛[72] ایک ایسی نگاہ جسے گلشن راز کے شارحین نے موت کے بعد روح کے محل وقوع کے حوالے سے برزخی بدن کو نظر انداز کرکے اسے مادی بدن میں منحصر قرار دیا ہے۔[73]
عرفا اور صوفیوں کی تناسخ پر توجہ کی دوسری وجہ صوفیوں کا حلول پر عقیدہ ہے؛ اور حلول اور تناسخ کو مسلم دانشوروں نے ایک سمجھ کر صوفیا اور عارفوں پر تناسخ کے عقیدے کا الزام لگایا ہے۔[74] اسی طرح عرفان اور اسلامی تصوف میں تجلی اور ظہور الہی کا موجودات میں ظہور کے عقیدے کی وجہ سے بھی تناسخ کے قائل ہوئے ہیں۔[75] اس الزام کا بعض عرفا نے جواب دیا ہے اور تناسخ کو نقد کرنے کے بعد تجلی کو تناسخ سے الگ قرار دیا ہے۔[76]
حوالہ جات
مینایی، «تناسخ»، ص86.
ویتمن، تاریخ و خاستگاہ آیین ہندو، 1382ہجری شمسی، ص29.
مینایی، «تناسخ»، ص88.
ناس، تاریخ جامع ادیان، 1354ہجری ہجری شمسی، ص105.
مینایی، «تناسخ»، 228.
ابنحزم اندلسی، الفصل، 1416ھ، ج1، ص110.
مکارم شیرزای، «تناسخ یا بازگشت ارواح»، ص47-50؛ مینایی، «تناسخ»، ص90-93.
عضدالدین ایجی، المواقف، بیروت، ص374.
عضدالدین ایجی، الواقف، بیروت، ص374.
مینایی، «تناسخ»، 227.
مازندرانی، شرح اصول الکافی، ج12، ص315؛ جوادی آملی، تسنیم، 1388ہجری شمسی، ج5، ص132؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376ہجری شمسی، ص195.
سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376ہجری شمسی، ص195.
صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1404ھ، ج2، ص200.
شیخ صدوق، الإعتقادات، 1414ھ، ج1، ص63.
صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1404ھ، ج2، ص200؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج4، ص320-321.
طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص474-475.
مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج4، ص320.
علامہ حلی، خلاصة الاقوال، 1381ہجری شمسی، ص77.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص181.
طباطبایی، المیزان، ج17، 1393ھ، ص313؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج1، ص164-165.
شیخ صدوق، الإعتقادات، 1414ھ، ج1، ص63؛ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1413ھ، ص87-90؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص305-312.
سید مرتضی، الذخیرة، 1411ھ، ص234-238؛ مفید، مسائل السرویہ، ص47-49.
طوسی، الاقتصاد، 1400ھ، ص87-88.
مقدسی، البدء و التاريخ، مکتبة الثقافة الدينية، ج5، ص130.
امین، احمد، فجر الاسلام، 1969ء، ص277.
سبحانی، الفكر الخالد في بيان العقائد، 1425ھ، ج2، ص228-229.
سبحانی، الفكر الخالد في بيان العقائد، 1425ھ، ج2، ص228-229.
سبحانی، الفكر الخالد في بيان العقائد، 1425ھ، ج2، ص228.
«تناسخ گذشتہ و امروز»، تارنمای دانشگاہ ادیان و مذاہب.
«کتاب تناسخ منتشر شد»، تارنمای خبرگزاری ایسنا.
«تناسخ در اندیشہ اسلامی»، تارنمای گیسوم.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص180.
مینایی، «تناسخ»، 228.
ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج1، ص119.
نوبختی، فرق الشیعہ، 1404، ص34-35.
بغدادی، الفرق بین الفرق، 1408ھ، ص254-255.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص180.
ملطی، التنبیہ و الرد، 1413ھ، ص29؛ اسفراینی، التبصیر فی الدین، قاہرہ، ص27؛ بغدادی، الفرق بین الفرق، 1408ھ، ص227.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص180.
منہاجی اسیوطی، جواہرالعقود، 1417ھ، ج2، ص274.
اسفراینی، التبصیر فی الدین، قاہرہ، ص115.
بغدادی، الفرق بین الفرق، 1408ھ، ص261-262؛ شہرستانی، الملل و النحل، ج 1، ص60-62
اشعری، المقالات و الفرق، 1360ہجری شمسی، ص246-247.
نویسندہ ناشناس، کتاب النقط و الدوایر، 1902ھ، ص30-32.
خواجہ الدین، سرسپردگان، 1349ہجری شمسی، ص14.
ابنکثیر، البدایة و النہایة، 1410ھ، ج10، ص81.
ابنکثیر، البدایة و النہایة، 1410ھ، ج10، ص154-155.
ابنکثیر، البدایة و النہایة، 1410ھ، ج10، ص270.
ذکاوتی قراگوزلو، «تناسخ و نحلہہای شعوبی متأخر»، ص62-73.
مینایی، «تناسخ»، ص233-234.
ابنحزم اندلسی، الفصل، 1416ھ، ج1، ص109.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص184.
مینایی، «تناسخ»، ص234.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص184-185.
مینایی، «تناسخ»، ص93.
ابنسینا، المبدأ و المعاد، 1363ہجری شمسی، ص108-109.
مینایی، «تناسخ»، ص93.
یوسفی، «تناسخ از دیدگاہ شیخ اشراق»، ص118؛ مینایی، «تناسخ»، ص236.
یوسفی، «تناسخ از دیدگاہ شیخ اشراق»، ص118؛ مینایی، «تناسخ»، ص236.
یوسفی، «تناسخ از دیدگاہ شیخ اشراق»، ص118.
مینایی، «تناسخ»، ص94.
ملاصدرا، الحکمة المتعالیہ، 1981م، ج9، ص7-9.
ملاصدرا، الحکمة المتعالیہ، 1981م، ج9، ص7-9.
ملاصدرا، الحکمة المتعالیہ، 1981ء، ج9، ص7-9.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص184.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص184.
ذہبی، «تناسخ در جہان اسلام»، ص184.
ابونصر سراج، اللمع، 1380ھ، ص541-542.
ابنعربی، الـفتوحات المکیة، 1407ھ، ص199-200.
شبستری، گلشن راز، 1368ہجری شمسی، ص71.
علاءالدولہ سمنانی، مصنفات فارسی، 1369ہجری شمسی، ص222-225.
شبستری، گلشن راز، 1368ہجری شمسی، ص71.
لاہیجی، مفاتیح الاعجاز، 1313ھ، ص33.
مینایی، «تناسخ»، ص233.
مینایی، «تناسخ»، ص233.
شبستری، گلشن راز، 1368ہجری شمسی، ص81