بچوں سے موثر گفتگو کیسے کریں؟
بچوں سے موثر گفتگو کیسے کریں؟
گفتگو کا مطلب خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ گفتگو زبانی بھی ہوسکتی ہے۔ اور باڈی لینگویج یا چہرے کے تاثرات کے ذریعے سے بھی پیغام رسانی ممکن ہے۔ بلکہ جدید ریسرچ کے مطابق باڈی لینگویج گفتگو پرسب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق گفتگو کی تاثیر میں 7فیصد الفاظ، 38 فیصد ٹون یا لہجہ جبکہ 55 فیصدباڈی لینگویج کا کردار ہوتاہے۔
گفتگواپنی خصوصیات کی وجہ سے موثر بھی ہوسکتی ہے۔ اور غیر موثریا منفی بھی ۔ والدین اور اساتذہ کے لئے ضروری ہے ۔ کہ وہ بچوں سے ایسی گفتگو کرنا سیکھیں۔ جو موثر اور مثبت ہو۔ جب والدین گھر میں موثر گفتگو کرتے ہیں۔ تو اس کے مثبت اثرات نہ صرف بچوں پر بلکہ گھر میں رہنے والے دیگر فیملی ممبرز پربھی پڑتے ہیں۔
نیز اس گفتگو کے مثبت اثرات گھر کے ماحول ،بچوں اور والدین کے بہتر تعلقات پر بھی پڑتے ہیں۔ جب والدین اپنے بچوں سے ان کے بچپن میں مثبت اور موثر گفتگو کرتے ہیں۔ تو بچے بھی اسی طرح سے مثبت گفتگو کرنا نہ صرف سیکھتے ہیں۔ بلکہ زندگی بھر موثر گفتگو کرنا ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتاہے۔
بچوں سےموثر گفتگو کیسے کریں؟
والدین جس انداز سے اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بچے اپنی شخصیت کا خاکہ بناتے ہیں۔ اسی سے ان کی توقیر ذات کا تصور بنتاہے۔ اگروالدین اپنے بچوں سے مثبت گفتگو کریں۔ عزت سے ان کو پکاریں ۔ اس انداز سے ان سے ہم کلام ہوں جس انداز سے وہ کسی بڑے سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ تو بچے اپنی ذات کو اہم سمجھنے لگتے ہیں ۔ ان کی سلیف اسٹیم بلند ہونے لگتی ہے۔ یوں اس رجحان سے وہ کامیاب طرز زندگی کی طرف چلنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف اگروالدین اپنے بچوں سے موثر اور مثبت گفتگو نہ کریں۔ بلکہ منفی انداز گفتگو اپنائیں۔ ان کو بچہ سمجھ کر کم تر الفاظ میں ان سے ہم کلام ہوں۔ تو بچے اپنے آپ کو کمتر، غیراہم اور غیر ضروری وجود سمجھنے لگتے ہیں۔ اس سے ان کی سلیف اسٹیم نیچے گر جاتی ہے ۔ ان کی خوداعتمادی کمزور ہوجاتی ہے۔ اور نتیجتا وہ ناکام طرز زندگی اپنانے لگتے ہیں۔
جو والدین اپنے بچوں سے مثبت اور موثر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے بچے معاون طرزعمل کے حامل بن جاتے ہیں۔ اور وہ بات چیت پرہی فورا عمل کرکے دکھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ جوا نسان کی اچھی صفت شمار ہوتی ہے۔ ایسے بچے فورا یہ بات سمجھنے لگتے ہیں۔ کہ ان کے والدین یا اساتذہ ان سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ اورپھر اس توقع پر اترنے کی از خود کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو گھر میں ذمہ دار فرد سمجھنے لگتے ہیں۔ اور دوسروں سے بھی تعاون کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔
بچوں سے مثبت گفتگو کیسے کریں؟
بچوں سے مثبت اور موثر گفتگو کی اہمیت سمجھنے کے بعد اب یہ جاننا ضروری ہے۔ کہ والدین اور اساتذہ اپنے بچوں سے مثبت اور موثر گفتگو کے لئے کیا طریقے اپنائیں؟ والدین او اساتذہ کے لئے ذیل میں اس حوالے سے چند ٹپس دی جاتی ہیں۔ جن کو اپنانے سے آپ کی گفتگو بچوں سے مثبت ہوجائے گی۔ ان شااللہ
:مثبت گفتگو کی شروعات بچپن سے کریں
بچوں میں اچھی گفتگو کی عادت پیدا کرنی ہو، تو والدین کوچاہیے کہ بچپن سے ہی بچوں سے خوب بولنا اور اچھا بولنا شروع کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیرخوارگی میں بچہ خود بول تو نہیں سکتا۔ لیکن وہ سب کچھ سن لیتاہے، او رمحسوس کرتاہے۔ اگر اس وقت ماں باپ خاص کر ماں اس سے خوب باتیں کرے۔ تو بچہ جیسے ہی بولنا شرو ع کرے گا۔ وہ بولنے والابچہ ہوگا ۔ اس کی مثال ٹیپ ریکارڈر کی ریکارڈنگ سے لے سکتے ہیں ۔
جب ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈکا بٹن دبا کر اس کے سامنے بولتے جائیں۔ تو وہ خاموشی سے ریکارڈ کرتا رہے گا۔ جیسے ہی پلے کا بٹن دبا ئیں گے تو وہ ساری باتیں دہرائے گا۔ جو اس کے سامنے کہی گئیں تھیں۔ بالکل اسی طرح بچےچھوٹی عمر میں ماں باپ کی باتوں کوصرف سن سکتے ہیں۔ جواب نہیں دے سکتے۔ لیکن جیسے ہی وہ بولنے کے قابل ہوجاتے ہیں، تو وہ سنی ہوئی ساری باتیں بلکہ دیکھی ہوئی ساری حرکات زبان سے کہنا شروع کردیتے ہیں۔
بچوں سے موثر گفتگوکی عادت بچپن سے رکھنے کا فائد ہ یہ ہوتاہے۔ کہ گھر میں بچوں اور والدین میں باہمی بات چیت اور گفتگو کا ماحول بنارہتاہے، جو صحت مند گھرانے کی نشانی ہے۔ اور اس عادت کی وجہ سے گھر کاماحول گھٹن سے پاک اور بچوں سےوالدین کی اچھی گفتگو جاری رکھنے کے لئے سازگار رہتاہے۔
:مثبت گفتگو سے سیلف اسٹیم میں اضافہ
بچوں سے والدین کی بامعنی، موثر اور اچھی گفتگو سے نہ صرف بچے بھی ایسی ہی موثر گفتگو کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ بلکہ ان میں اپنے والدین کے حوالے سے اچھے خیالات، احساسات اور تصورات پیداہوجاتے ہیں۔ اور بچوں میں سیلف اسٹیم کا لیول بھی بڑھ جاتاہے۔
بچوں سے بامعنی گفتگوکا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے۔ کہ بچے کی تربیت کرنا ، اسے اچھی عادات اپنانے اور بری عادات سے محفوظ رہنے کی تلقین کرنا، نیز اپنے بچوں سے زندگی میں مقصدیت لانے کی بات کرنے کے اچھے مواقع مل جاتے ہیں۔ اسی طرح جب والدین اپنے بچے کی اچھی عادات کو سراہنا چاہیں تو بات چیت کے ذریعے اچھے انداز سے کرسکتے ہیں۔
مثلا بچہ اپنے کھلونے سے کھیل کر پھرخود اسے اپنی جگہ پر رکھ لے۔ تو والدین اپنے الفاظ کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ اور کہہ سکتے ہیں کہ مجھے تمہاری یہ عادت بہت پسند ہے۔ کیوں کہ تم کہنے سے پہلے خود اپنا کھلونا سنبھال لیتے ہو۔
والدین کی اچھی یا غلط بات چیت سے بچے اچھے اور برے دونوں تاثرات لیتے ہیں۔ مثلا بچوں سے جب یہ کہاجائے تم یہاں سے چلے جاو ، میں کام کرہاہوں یا میراکام ڈسٹرب ہورہا ہے۔ یا میرادماغ نہیں کھاو۔ تو بچے ذہن میں اپنے بارے میں یہ تاثر قائم کرلیتے ہیں۔ کہ والدین کے لئے کام بچوں سے زیادہ اہم ہے ۔یوں وہ اپنی نظر میں اپنی اہمیت کھودیتے ہیں۔ جس سے سیلف اسٹیم کے ساتھ اس سے بننے والی خوداعتمادی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جس سے ان کی شخصیت کو بٹہ لگ جاتاہے۔
:بچوں سے گفتگو ان کی سطح کے مطابق کریں
والدین اور اساتذہ جب بچوں سے گفتگو کریں، تو ضروری ہے کہ ان کی شعوری سطح پر آکر ان سے بات چیت کریں ۔ یعنی سادہ، مختصر اور بچوں کے لئے قابل فہم الفاظ اورجملوں میں گفتگو کی کوشش کریں۔ اور ساتھ ہی اشارے یا باڈی لینگویج سے بھی کام لیں ۔ تاکہ بچے اپنے والدین اور اساتذہ کی بات خوب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات بہت ضروری ہےکہ اپنا لہجہ نرم ، مہذب او رنارمل رکھیں۔ زیادہ زور سے بات کرنا یا بالکل آہستہ بات کرنا دونوں رویے درست نہیں ۔ لہجے میں کرختگی یا شدت سے نہ آپ کی بات بچے سمجھ پائیں گے۔ بلکہ یہ خراب عادت بچوں کے اندر بھی منتقل ہوجائے گی۔ یوں وہ کرخت لہجے میں بات کرنے کو ہی نارمل رویے کے طورپر اپنائیں گے۔
چھوٹے بچوں سے گفتگو کے وقت بہتر طریقہ یہ ہے، کہ والدین کھڑے ہوکر بات کرتے ہوئے ان کے اوپر جھکنے کے بجائے ان کے سامنے بیٹھنے کی پوزیشن بنالیں۔ اور بچوں سے نظریں ملاکر بات کریں۔ جس سے بچوں کے لئے اپنے والدین کی بات کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ اورپھر نظریں ملاکربات کرنے کا یہی مثبت انداز بچے میں بھی منتقل ہوجائے گا ۔ کیونکہ بچے اپنے والدین کی نقل کرتے ہوئے ہی تو سیکھتے ہیں۔
:بچوں کی بات پہلے غور سے سنیں
والدین اور اساتذہ کو بچوں کی بات پوری توجہ اور انہماک سے سن لینی چاہیے۔ کسی کی بات توجہ سے سننا بھی ایک مہارت ہے جو سیکھنی پڑتی ہے ۔اور اس کی مشق بھی کرنی پڑتی ہے۔ توجہ سے کسی کی بات کو سننا ہمارے نبی پاک ﷺ کی مبارک سنت بھی ہے۔ کسی کی بات کو توجہ سے سننا اس بات کی علامت ہے۔ کہ آپ اس بات کو اہمیت دینے کے ساتھ بات کرنے والے کی ذات کو بھی اہمیت دے رہے ہیں۔
جب والدین اپنے بچوں کی بات غور سے اور توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔ تو بچوں کواپنی بات کے ساتھ اپنی ذات کی بھی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہی اندازہ یا تصور بعد کی زندگی میں ان کی کامیابی اور خوداعتمادی کا سبب بھی بنتاہے۔ کسی کی بات کو اچھے طریقے سے سن لینا ایک مہارت ہے، جس کے لئے مندرجہ ذیل کام کرنا ضروری ہیں۔
بچوں کی بات غور سے سنا کریں
:سنتے وقت نظریں ملاکررکھیئے
جب والدین اپنے بچوں کی بات سنتے ہوئے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ والدین بچے کی بات پر تو جہ دے رہے ہیں۔ اور اپنے بچے کی ذات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ لیکن اگروالدین بچے کی بات سنتے ہوئے نظریں نہیں ملائیں گے، تو بچوں کو یہ محسوس ہو گا کہ ان کی بات غور سے نہیں سنی جارہی۔
جس سے ان کے دل میں اپنی ذات اور بات کے غیر اہم ہونے کا خیال پیدا ہوگا ۔اور ایسے ہی بچے سیلف اسٹیم کی کمی کا شکارہونگے۔ نیزبعد کی زندگی میں بچے بھی اس عادت کو اپنائیں گے حالانکہ وہ والدین کے لئے بھی قابل اصلاح چیز تھی۔
:بچے کو سنتے وقت دوسرے کا م چھوڑ دیجئے
جس وقت والدین کسی غیر اہم کام میں مصروف ہوں اور بچہ کوئی بات کرنا چاہے۔ تو والدین کو چاہیے کہ دونوں کام ایک ساتھ نہ کریں۔ مثلا بچوں کی بات سنتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے ہیں یا موبائل فون میں مصروف ہیں،ایسا کرنا درست نہیں۔ پہلے بچے کی بات پوری توجہ سے سنیں ۔اطمینان سے اس کا جواب دیں اورپھر اپنے کام میں مصروف ہوں ۔
اگر والدین کسی ضروری کام میں مصروف ہوں جس دوران بچے کی بات کو توجہ سے سننا مشکل ہو۔تو بچے کو پیار سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے یہ کام مکمل کرنے دو اس کے بعد میں تمہاری بات سنتا /سنتی ہوں۔ اس طرح کام نمٹا کر بچے کی بات کو توجہ سے سن لینا چاہیے۔
والدین اگر اپنے کام کو بھی جاری رکھیں اورساتھ ساتھ ثانوی طور پر بچے کی بات بھی سننا چاہیں۔ تو ایسا کرنےسے نقصان یہ ہوگا کہ بچے کی بات دھیان سے سنی نہیں جائے گی۔درمیان میں کام کا خیال زیادہ غالب آنے پربچے کی بات ایک طرف ہوجائے گی۔ اس سے بچے کے ذہن میں آنے والا خیال بھٹک جائے گا اور بچہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ جو مستقبل میں بننے والی اس کی شخصیت کے لئے نقصان دہ چیز ہے۔
:بچے کو یقین دلائیں کہ اس کی بات سنی گئی ہے
بچہ جب اپنی بات کہہ کرفارغ ہوجائے تو والدین کو چاہیے کہ اسی کی بات اپنی زبان سے ایک مرتبہ اس کے سامنے دہرائیں۔ تاکہ اسے یہ یقین ہوجائے کہ اس کی بات سنی اور سمجھی گئی ہے۔اس سے بچے کا اعتماد بڑھے گا اگر والدین کے سننے میں کہیں غلطی ہوچکی ہو اسے بھی درست کرنے کا موقع ملے گا۔
:والدین اپنی بات مختصر رکھیں
بچوں سے بات چیت مختصر اور پراثر جملوں سے کرنی چاہیے۔اگر لمبی گفتگو ہوگی تو بچے بات کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ چھوٹے بچوں کو کوئی ہدایت دینی ہو تو بات تیس سیکنڈ سے زیادہ لمبی نہیں ہونی چاہیے۔بچے سے مختصر بات کرکے بچے سے دوبارہ پوچھنا کہ میں نے کیا بات کہی ہے یہ بھی موثرگفتگو کا ایک طریقہ ہے۔
اس میں مقصد یہ ہونا چاہیے کہ والدین کم سے کم گفتگو کرکے بچو ں کی توجہ کو چیک کرتے رہیں۔ جیسے ہی بچہ کی توجہ ہٹنا شروع ہوجائے تو مزید گفتگو نہ کریں۔
مختصر بات کو پرتاثیر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ بچے سے آئی کنٹیکٹ ضرور رکھیں۔ اس حوالے سے اپنے بچے کی نفسیات سے باخبر ہونابھی والدین کے لئے ضروری ہے۔ تاکہ اپنی گفتگو کو موثر بنانے کے لئے بچے کی نفسیات کو پیش نظر رکھ سکیں۔
:بچوں سے درست سوالات پوچھیں
بچوں سے درست سوال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ سوال کے ذریعے ان سے بامعنی گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ درست سوال کا مطلب یہ ہے کہ بچوں سے درست موقع پر سوال پوچھا جائے۔آسان سوال پوچھا جائے، بچے کی دلچسپی کا سوال پوچھا جائے۔ اور اس سوال کے جواب کے دوران بچےکو جج نہ کیا جائے۔
بچوں سےایسا سوا ل نہ پوچھا جائے جس کا جواب ہاں یا نہ میں دیا جاسکتا ہو۔ بلکہ سوال ایسا ہو کہ جواب میں بچہ اپنا کوئی خیال یا اپنا کوئی تجربہ پیش کرسکے۔ یعنی اس کا جواب ذرا تفصیل سے دیا جاسکتا ہو۔
جب والدین اپنے بچوں سے ایسے ہی سوالات کرنے کے گر سیکھیں گے تو بچوں سے بامعنی گفتگو کا سرا ان کے ہاتھ آجائے گا۔لیکن اگر یہاں غلطی کی جائے، ایک ہی وقت میں بے شمار سوالات کیے جائیں۔سوال کا جواب دیتے ہوئے بچوں کو جج کرناشروع کریں۔ یاقطع کلامی کرکے فورا اصلاح کی کوشش کریں۔ تو ان تمام باتوں کی وجہ سے بات چیت کا سلسلہ ٹوٹ سکتاہے۔
:بچوں سے اپنے خیالات واحساسات کو بیان کریں
بچوں کو گفتگو میں شامل کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ والدین کسی بھی واقعہ ، حالت یا کیفیت کے بارے میں اپنے خیالات واحساسات بیان کریں۔ اور پھر بچوں سے بھی اپنے خیالات واحساسات بیان کرنے کو کہیں۔ اس طرح سے دوطرفہ بات چیت کی شروعات ہوجائے گی۔ والدین اپنے خیال یا احساس کے لبادے میں اخلاقیات وآداب کی کئی اہم باتیں اپنے بچوں کے دلوں میں اتارسکتے ہیں۔
بلکہ ان کے منہ سے ان باتوں کا اظہار بھی کرواسکتے ہیں۔ لیکن اس مقام پر یہ ضروری ہے کہ والدین بچوں کی باتوں کو جج بالکل نہ کریں۔ بلکہ بات چیت کے دوران ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
:بچوں سے بات چیت کے لئے فیملی ٹائم رکھیں
فیملی ٹائم کا مطلب چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ ایسا مقررکیا جائے جس میں تمام فیملی ممبرز، بچے اور والدین ایک ساتھ موجودہوں ۔وہ ایک ساتھ کھاناکھائیں اور باہمی دلچسپی کی بات چیت کریں۔ یہ ٹائم دن یا رات کے کھانے کے بعد رکھا جاسکتاہے۔ فیملی ٹائم میں موضوع گفتگو ہلکے پھلکے اور سب کی دلچسپی کے موضوعات ہوں۔ گزرے ہوئے دن کے احوال، آئندہ دن کی پلاننگ یا سب کی دلچسپی کا کوئی بھی موضوع لیا جاسکتاہے۔
فیملی ٹائم میں بچوں اور تمام فیملی ممبر ز کو گفتگو کا موقع دیا جاتاہےاور ہر ایک کو توجہ سے سنابھی جاتاہے۔ اس نشست کا کوئی موضوع طے نہیں ہوتا بلکہ نشست کے دوران خوش گپیوں کے ساتھ کئی سنجیدہ موضوعات بھی زیر بحث آتے ہیں۔ بہرحال بچوں سے بات چیت کے سلسلے کو برقراررکھنے کے لئے اور اسے مزید بڑھانے کے لئے فیملی ٹائم ایک اچھے ٹول کے طور پر کام دے سکتاہے۔
:بچوں کو بات بتانی ہوتو پوری بات سمجھائیں
بسااوقات والدین کو لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کوپوری بات بتادی ہے لیکن پوری بات بچوں کی سمجھ میں نہیں آئی ہوتی۔ ایسے میں بچے کنفیوژن کا شکا رہوجاتے ہیں اور والدین کو لگتا ہے کہ بچے ان کی بات نہیں مان رہے۔ ایسے میں خودوالدین کو اندازہ ہوناچاہیے کہ بچوں کو کتنی تفصیل سےبات بتانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اگر بات کے پس منظر کا علم نہ ہو اور والدین بھی انہیں بتانا ضروری نہ سمجھیں تو نتیجہ میں بچے غلط مفہوم اخذ کرسکتے ہیں۔
:جھگڑے کے دوران گفتگو کا انداز
ہرگھر میں والدین کے آپس میں یا والدین اور بچوں میں جھگڑا ہوسکتاہے۔جب کبھی ایسا موقع آئے تو والدین کو ذرا صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اور کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہییں جو اس صورت حال سے نکلنے میں ان کی مدد کرسکیں۔ نیز بچوں سے ان کےاچھے تعلقات اور مثبت بات چیت برقرار رہے، وہ اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔
:ایک وقت میں ایک مسئلے پر کام کریں
جب کسی مسئلےپر بچوں سے جھگڑاہو یاکسی مسئلے کو حل کرنا ہوتو ایک وقت میں ایک ہی مسئلے پر فوکس کریں۔ دوسرا کوئی مسئلہ اس دوران اٹھانے سے احتراز کریں۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ایک مسئلہ پہلے سے الجھاہوا ہے۔
اس مسئلے پربات چیت کرتے ہوئے دوسرے بہت سارے مسائل کو ایک ساتھ چھیڑدیا جاتاہے۔ اب جس مسئلے کو حل کرنا تھا یا جس مسئلے پر جھگڑا پیداہوگیا تھا۔ وہ کئی اور مسائل کے بھنورمیں پھنس کررہ جاتاہے ۔
اس صورت میں کوئی بھی مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھ کررہ جاتاہے۔ چنانچہ والدین کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ایک وقت میں بچے کے ساتھ ایک ہی مسئلے پر گفتگو کریں۔ اور اسی کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ جب ایک مسئلہ حل ہوجائے تو پھردوسرے کسی مسئلے پر کام کیا جاسکتاہے۔
:مسئلہ جدید انداز سے حل کرنےکی کوشش کریں
کسی بھی مسئلے پر کام کرتے ہوئے والدین کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے، کہ ہر مسئلے کے ایک سے زائد حل ہوسکتے ہیں۔ یعنی والدین پیداہونے والے مسئلے کے لئے ایک ہی حل پر اصرار نہ کریں بلکہ پہلے ممکنہ طور پر ایک سے زائد حل یا آپشن سوچیں۔ اور ان میں پہلاحل اور دوسراحل کی ترتیب بنائیں۔ جب ایک حل سے کام نہ چلے تو دوسرے حل کی طرف قدم بڑھائیںاس طرح مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔
:اپنا رویہ نرم اور گفتگومہذب رکھیے
یہ عام تجربہ ہے کہ جب والدین اور بچوں میں کبھی جھگڑا ہوجاتا ہے تو والدین ایک دم سخت رویہ اپناتے ہیں۔ اور گفتگو میں اتنی شدت آجاتی ہے کہ لگام ہاتھ سے چھوٹنے لگتی ہے۔ اور والدین اپنے بچوں سے باتوں میں وہ الفاظ کہہ جاتے ہیں جو شاید کسی معزز انسان سے نہیں کہے جاسکتے ۔ اس حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ شعور اور ذمہ داری کی سطح پر رہتے ہوئے اپنے بچوں سے معاملات کریں۔
اس میں کوشش کریں کہ والدین کے رویے اور گفتگو میں بے جا شدت نہ آنے پائے۔ گفتگو نرم لیکن پر عزم ہو، اور عقلی بنیاد پرگفت وشنید ہو تو مسئلے کاحل نکل ہی آتاہے۔اپنا بچہ سمجھ کر غصے کا سارابوجھ اس پر نہیں نکالنا چاہیے، بلکہ بچے کو بھی معزز انسان کا درجہ دے کر تہذیب کے حدود میں رہ کر اس کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
:گفتگو میں “آئی”میسیج استعمال کریں
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بچوں سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوجائے۔ یا بچے کی غلطی پر اس کو سمجھا نامقصود ہو۔تو اس کا طریقہ بچے کی غلطی کو اچھالنا، الزام دینا اور سخت ریکشن دینا نہیں ہوتا ۔بلکہ آئی میسیج استعمال کرنا زیادہ مناسب ہوتاہے۔ آئی میسیج میں والدین بچے کی غلطی کو نشانہ بنانے کے بجائے اس غلطی کے حوالے سے اپنا خیال یا تصور بیان کرتے ہوئے بچے کو صرف غلطی کا احساس دلاتے ہیں۔
مثلا تم خراب ہو تم گندے رہتے ، تم ہر وقت باہر گھومتے رہتےیا تم وقت ضائع کرتے ہو۔یہ سب جملے کہنے کے بجائے والدین کہیں کہ “میں سمجھتا ہوں یا سمجھتی ہوں کہ تمہیں اپنی صفائی کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔یا یوں کہیں کہ میر ا خیال ہے کہ تمہیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی ان آخری جملوں میں اپنے احساس یا خیال بچے کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس کی غلطی کا احساس دلایا گیاہے۔ جو بچے کے لئے زیادہ قابل قبول ہوسکتی ہے۔
اور ا س سے مزید جھگڑا پیدا ہونے کا اندیشہ بھی نہیں رہتا۔ ورنہ الزام دینے سے کسی کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ مزید لڑائی ہونے کا اندیشہ ہوسکتاہے۔ایک اہم چیز معافی ہے ، معاف کرنےسے انسان کو جلد احساس ہوجاتاہے ۔بچے کو بھی احساس ہوجاتاہے۔ نیز والدین اگریہ رویے اپنائیں تو بچے بھی اپنی زندگی میں ایسے ہی مثبت رویے اختیارکر سکتے ہیں۔