ابو تراب اور سید العرب کے مصطفوی القاب
بَابٌ فِي تَلْقِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ بِأَبِيْ تُرَابٍ وَ سَيِّدِ الْعَرَبِ
(ابو تراب اور سید العرب کے مصطفوی القاب)
۱۲۴. عَنْ أَبِيْ حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ إِِسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا فَقَالَ لَهُ : أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ فَقَالَتْ : کَانَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِيْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِإِنْسَانٍ : انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أَبَا التُّرَابِ. قُمْ أَبَاالتُّرَابِ! مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت ابو حازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا، جب ان کو ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا؟ انہوں نے کہا ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ عرض کیا میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں؟ اس شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے)! اٹھو، اے ابو تراب اٹھو۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۲۴ : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المساجد، باب نوم الرجال في المسجد، ۱ / ۱۶۹، الحديث رقم : ۴۳۰، و البخاري في الصحيح، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، ۵ / ۲۳۱۶، الحديث رقم : ۵۹۲۴، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، ۴ / ۱۸۷۴، الحديث رقم : ۲۴۰۹، و البيهقي في السنن الکبري، ۲ / ۴۴۶، الحديث رقم : ۴۱۳۷، و الحاکم في معرفة علوم الحديث، ۱ / ۲۱۱.
۱۲۵. عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ : أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : هَذَا فُلانٌ، لِأَمِيْرِ المَدِيْنَةِ، يَدْعُوْ عَلِيًّا عِنْدَ المِنْبَرِ، قَالَ : فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ : يَقُوْلُ لَهُ : أَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ. قَالَ : وَاﷲِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَا کَانَ وَاﷲِ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيْثَ سَهْلًا، وَ قُلْتُ : يَا أَبَا عَبَّاسٍ، کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَي فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ : فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ، وَ خَلَصَ التُّرَابُ إِلَي ظَهْرِهِ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُوْلُ : اجْلِسْ أَبَاتُرَابٍ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
’’حضرت ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے اس وقت کے حاکم مدینہ کی شکایت کی کہ وہ برسرِ منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ان کو ابو تراب کہتا ہے۔ اس پر حضرت سہل رضی اللہ عنہ ہنس دیئے اور فرمایا، خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کوئی نام اس سے بڑھ کر محبوب نہ تھا۔ میں نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے کی پوری حدیث سننے کی خواہش کی، میں نے عرض کیا : اے ابو عباس! واقعہ کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا : ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عہنا کے پاس گھر تشریف لے گئے اور پھر مسجد میں آ کر لیٹ گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عہنا سے پوچھا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کے پاس تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چادر ان کے پہلو سے سرک گئی تھی اور ان کے جسم پر دھول لگ گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت سے دھول جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے اٹھو، اے ابو تراب! اٹھو، اے ابو تراب۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۲۵ : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۳ / ۱۳۵۸، الحديث رقم : ۳۵۰۰، و ابن حبان في الصحيح، ۱۵ / ۳۶۸، الحديث رقم : ۶۹۲۵، و الطبراني في المعجم الکبير، ۶ / ۱۶۷، الحديث رقم : ۵۸۷۹، و الروياني في المسند، ۲ / ۱۸۸، الحديث رقم : ۱۰۱۵، و الشيباني في الآحاد و المثاني، ۱ / ۱۵۰، الحديث رقم : ۱۸۳، و البخاري في الأدب المفرد، ۱ / ۲۹۶، الحديث رقم : ۸۵۲، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، ۱۰ / ۱۴۴.
۱۲۶. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَ عَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۲۶ : أخرجه الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۳۳، الحديث رقم : ۴۶۲۵، و الطبراني في المعجم الأوسط، ۲ / ۱۲۷، الحديث رقم : ۱۴۶۸، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۱۶.
۱۲۷. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُدْعُوْا لِيْ سَيِّدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۲۷ : أخرجه الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۳۴، الحديث رقم : ۴۶۲۶، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۳۱، و أبونعيم في حلية الأولياء، ۱ / ۶۳.
۱۲۸. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا أَنَسُ إِنْطَلِقْ فَادْعُ لِي سَيِّدَ الْعَرَبِ يَعْنِيْ عَلِيًّا فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ، فَلَمَّا جَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْأَنْصَارِ فَأَتَوْهُ فَقَالَ لَهُمْ : يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَي مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ : هَذَا عَلِيٌّ فَأَحِبُّوْهُ بِحُبِّيْ وَکَرِّمُوْهُ لِکَرَامَتِيْ فَإِنَّ جِبْرَئِيْلَ أَمَرَنِيْ بِالَّذِيْ قُلْتُ لَکُمْ عَنِ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيالْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’امام حسن بن علی رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے انس! میرے پاس عرب کے سردار کو بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا، کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے ذریعے انصار کو بلا بھیجا جب وہ آ گئے تو فرمایا : اے گروہِ انصار! میں تمہیں وہ امر نہ بتاؤں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھام لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ علی ہے تم میری محبت کی بنا پر اس سے محبت کرو اور میری عزت وتکریم کی بنا پر اس کی عزت کرو، جو میں نے تم سے کہا اس کا حکم مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام نے دیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۲۸ : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، ۳ / ۸۸، الحديث رقم، ۲۷۴۹، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۳۲، و أبو نعيم في حلية الأولياء، ۱ / ۶۳.
۱۲۹. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه نَائِمٌ فِيْ التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أَحَقَّ أَسْمَائِکَ أَبُوْ تُرَابٍ، أَنْتَ أَبُوْ تُرَابٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابو تراب ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۲۹ : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، ۱ / ۲۳۷، الحديث رقم : ۷۷۵، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۰۱.
۱۳۰. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا رضي الله عنه بِأَبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أَحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنییتوں سے زیادہ محبوب تھی۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم ۱۳۰ : أخرجه البزار في المسند، ۴ / ۲۴۸، الحديث رقم : ۱۴۱۷، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۹ / ۱۰۱