حضرت علی اصغر علیہ السلام
حضرت علی اصغر علیہ السلام
عبد اللہ بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ یا عبد اللہ رضیع، امام حسینؑ کے شیر خوار اور کمسن فرزند تھے جو علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں اور وہ کربلا میں حرملہ بن کاہل اسدی کے تیر سے شہید ہوئے۔ اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق علی اصغر کو کمسنی کے باوجود خداوند عالم کے نزدیک خاص مقام حاصل ہے۔
نسب اور ولادت
عبد الله امام حسین ؑ کے فرزند ہیں اور آپکی مادر گرامی امرؤ القیس کی بیٹی رباب ہیں۔[1] عبداللہ بن حسین ؑ کی ولادت کی تاریخ معین نہیں ہے، لیکن اکثر منابع کے مطابق آپکو کربلا میں شہادت کے وقت شیر خوار کہا گیا ہے۔[2]
نام
اہل تشیع اور اہل سنت کے قدیمی منابع کے مطابق اس بچہ کا نام عبداللہ ہے، لیکن اہل تشیع کے موخر منابع کے مطابق آپ علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں۔
مقتل الحسین اخطب خوارزم[3]اور مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب[4] میں امام حسین ؑ کے شیر خوار فرزند کو علی کے نام سے یاد کیا ہے۔ انہی منابع کی پیروی کرتے ہوئے اب تک اس بچہ کو علی اصغر کہا جاتا ہے اور غالباً امام سجادؑ کو علی اوسط کا لقب دیا گیا ہے۔ [5]
ان منابع میں امام حسین ؑ کے اس فرزند کا نام ذکر کیا گیا ہے لیکن آپ کی شہادت کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی گئی۔[6] مقدم اور موخر منابع میں امام حسین ؑ کے ان فرزندان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے جن کا نام علی ہے۔[7]
امام حسین ؑ کے فرزندوں کے ناموں کے متعلق کلینی کی روایت [8] کے مطابق جب مروان نے امام حسین ؑ پر اعتراض کیا کہ اپنے دو فرزندوں کا نام علی کیوں رکھا ہے تو امام ؑ نے فرمایا کہ اگر میرے 100 فرزند بھی ہوتے تو میں ان سب کا نام علی ہی رکھتا۔
شہادت
تاریخی کتابوں میں علی اصغر ؑ کی شہادت کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں.
جیسا کہ شیخ مفید کہتے ہیں: امام حسین ؑ نے امام حسن ؑ کے فرزند قاسم کے لاشہ کو دوسرے شہداء کے ساتھ رکھا اور خیمہ کے آگے بیٹھ گئے اور علی اصغر کو آپ کے پاس لایا گیا امام ؑ نے علی اصغر کو آغوش میں لیا۔ اسی وقت بنی اسد کے ایک مرد نے ایک تیر علی اصغر کی طرف چلایا اور آپکو شہید کر دیا۔ امام حسین ؑ نے علی اصغر کے گلے کے نیچے ہاتھ رکھا جب ہاتھ خون سے بھر گیا تو آپ ؑ نے خون کو زمین پر گرایا اور فرمایا: خدایا اگر آسمان سے ہماری غیبی مدد نہ فرمائی تو اسے اس چیز میں قرار دے جس میں ہماری بہتری ہے اور ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔ پہر علی اصغر کو اٹھایا اور دوسرے شہداء کے ساتھ لٹا دیا۔[9]
ایک اور قول کے مطابق، امام حسین ؑ نے آخری وقت، یعنی تمام اعوان و انصار کی شہادت کے بعد، اس سے پہلے کہ خود میدان کی جانب روانہ ہوتے، وداع کے لئے خیمے میں آئے اور اپنے گھر والوں سے وداع کرنے کے بعد جب عبداللہ (علی اصغر) کو آغوش میں لے کر اسے چوم رہے تھے کہ اچانک بنی اسد کے ایک شخص نے تیر چلایا اور علی اصغر کو شہید کر دیا۔[10] تیر چلانے والے کا نام حرملہ بن کاہل لکھا گیا ہے۔[11]
کچھ افراد کے مطابق زینبؑ بچہ کو لے کر بھائی کے پاس آئیں اور فرمایا کہ لشکر سے اس بچے کے لئے پانی طلب کریں اور امام ؑ بچہ کو لشکر کے سامنے لے گئے اور فرمایا: (اے لشکر شام تم نے میرے اہل بیت اور پیروکاروں کو شہید کر دیا اب صرف یہی بچہ رہ گیا ہے جو پیاس کی وجہ سے بلک رہا ہے۔ اس کو پانی کاایک قطرہ دے دیں) جب امام حسین ؑ لشکر سے مخاطب تھے اسی وقت ایک مرد نے بچے کی جانب تیر پھینکا اور شہید کر دیا۔[12]
ابن جوزی نے ہشام بن محمد کلبی سے روایت نقل کی ہے: ... اس وقت امام حسین ؑ نے بچے کی طرف دیکھا جو کہ پیاس سے نڈھال ہو چکا تھا، بچے کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: (اے قوم! اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے تو اس بچے پر رحم کرو) اس وقت اہل کوفہ کے لشکر میں سے ایک مرد نے بچے کے گلے میں تیر مارا اور شہید کر دیا۔
اس واقعہ پر امام حسین ؑ نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا: «اللّہمّ احکم بیننا و بین قومٍ دعونا لینصرونا فقتلونا [پروردگارا! تو خود ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر، جنہوں نے ہمیں دعوت دے کر بلایا تا کہ ہماری مدد کریں لیکن اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ پھر امام حسین ؑ نے اپنے فرزند کے گلے پر ہاتھ رکھا اور آپکا ہاتھ خون سے بھر گیا اور اس خون کو آسمان کی جانب پھینکا اور فرمایا "ہون علی ما نزل بی انہ بعین اللہ [جو چیز ان سب سختیوں اور مشکلوں کو میرے لئے آسان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے محضر میں ہیں۔][13] امام باقر ؑ فرماتے ہیں کہ اس خون سے ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ پلٹا۔[14]
امام ؑ علی اصغر ؑ کے بے جان جسم کو لے کر خیمے کی جانب گئے اور پھر اسے دفن کرنے کے بعد خود میدان کی جانب روانہ ہوئے۔ بعض قول کے مطابق امام ؑ نے اپنے فرزند کی شہادت کے بعد فرمایا: (خدایا اس بچے کی شہادت تیرے نزدیک صالح کی سواری کو مارنے سے کم نہیں ہے.[15] خدایا اگر آج فتح اور نصرت ہمارے مقدر میں نہیں تو اسے اس دن کے لئے قرار دے جو ہمارے لئے بہتر ہے)[16] کہا گیا ہے: امام حسین ؑ نے اپنی تلوار سے زمین کو کھودا اور چھوٹی سی قبر بنائی جس میں بچے کو دفن کر دیا.[17] لیکن بعض مورخین نے لکھا ہے کہ امام ؑ علی اصغر کو خون بھری حالت میں خیمے کی جانب لائے اور حضرت زینبؑ کے سپرد کیا.[18] اور بعض نے لکھا کہ امام حسین ؑ علی اصغر ؑ کا جنازہ لے کر آئے اور دوسرے شہداء کے ساتھ رکھ دیا۔[19]
قاتل
بعض منابع میں بنی اسد کو حضرت علی اصغر کا قاتل کہا گیا ہے لیکن کسی کا نام ذکر نہیں ہوا[20] جبکہ بعض نے حرملہ بن کاہل اسدی کا نام ذکر کیا ہے۔ [21] زیارت الشہداء میں بھی حرملہ کا نام آیا ہے اور اس پر لعنت کی گئی ہے۔ [22] بعض میں ہانی بن ثبیت حضرمی کا نام ذکر ہوا ہے۔ [23]
دفن
آپ کے دفن کے سلسلہ میں بھی اختلاف ذکر ہوا ہے:
• امام حسین ؑ نے اپنی تلوار سے قبر کھودی اور انہیں دفن کیا۔[24]
• امام ؑ نے بچے کو خون آلود کپڑے میں لپٹا ہوا زینب کے حوالے کیا۔[25]
• دوسرے شہدائے کربلا کے ساتھ لٹا دیا۔[26]
بعض ان کے دفن کا مقام دوسرے شہداء کے ساتھ اور بعض امام حسین کے سینے پر دفن ہونے کے قائل ہیں.[27]
زیارت نامہ
زیارت ناحیہ مقدسہ میں
أَلسَّلامُ عَلَی الرَّضیعِ الصَّغیرِ سلام ہو اس چھوٹے شیرخوار پر
کے الفاظ کے ساتھ سلام بھیجا گیا ہے.[28] اور اسی طرح زیارت الشہداء میں حرملہ بن کاہل اسدی کا نام علی اصغر کے قاتل کے عنوان سے آیا ہے .[29]
باب الحوائج
بہت سے شیعہ عبد اللہ بن حسین کو باب الحوائج کہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں اگرچہ علی اصغر کی عمر شہادت کے وقت کم تھی لیکن خدا کے نزدیک آپ کو خاص مقام حاصل ہے۔[30] مجمع جہانی کی جانب سے علی اصغر کا جلوس ہر سال برآمد ہوتا ہے۔ اس جلوس کا نام شیر خواران حسینی ہے جو کہ ماہ محرم کے پہلے جمعہ کو تمام دنیا میں نکالا جاتا ہے۔[31]
حوالہ جات
1. ↑ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۳۵
2. ↑ ر.ک: مصعب بن عبداللّہ، ص ۵۹؛ بلاذرى، ج۲، ص ۴۹۸؛ طبرى، ج ۵، ص ۴۴۸، ۴۶۸
3. ↑ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ج ۲، ص ۳۷.
4. ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج ۴، ص۱۰۹.
5. ↑ ر ک : بہاء الدین اربلى، ج۲، ص۲۵۰؛ ابن طَقْطَقى، ص ۱۴۳؛ ابن صباغ، ص ۱۹۶؛ شَبْراوى شافعى، ص۱۳۰.
6. ↑ ملاحظہ کریں: ابن شہر آشوب، ج ۴، ص ۱۰۹؛ ابن طلحہ شافعى؛ بہاءالدین اِربلى، ج۲، ص۲۵۰؛ ابن صباغ، ص ۱۹۶.
7. ↑ ر ک: مصعب بن عبداللہ؛ بخارى؛ مفید، ایضا؛ قس دلائل الامامہ؛ ابن شہر آشوب؛ ابن طلحہ شافعى؛ بہاءالدین اربلى، ایضا.
8. ↑ کلینی،ج ۶، ص۱۹.
9. ↑ المفید، الارشاد، ج۲، ص112.
10. ↑ طبرى، ج ۵، ص۴۴۸؛ اخطب خوارزم، ہمانجا، و مقتل الحسین خوارزمی ج۲، ص۳۶-۳۷.
11. ↑ بلاذرى؛ اخطب خوارزم، ہمانجاہا؛ قس طبرى،ج ۵، ص۴۶۸ ہانی بن ثُبیت حَضرمى
12. ↑ الملہوف، ص ۱۶۹.
13. ↑ الملہوف، ص ۱۶۹.
14. ↑ ابومخنف، مقتل الحسین، ص۱۷۳.
15. ↑ فرسان الہیجاء، ج۱، ص۲۷۲.
16. ↑ خوارزمی، مقتل الحسین، ج۲، ص۳۷.
17. ↑ اخطب خوارزم، وہی ماخذ
18. ↑ مقتل الحسین ابو مخنف، ص۱۷۳.
19. ↑ اعلام الوری، ص۲۴۳.
20. ↑ تذکره الخواص، ص۲۲۷؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۱۰۸.
21. ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۰۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۶۵، ج۹۸، ص۲۶۹؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۳۷.
22. ↑ ابن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۷۴.
23. ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۴۶۸؛ ابن جوزی، تذکره الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۲۲۹.
24. ↑ خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۳۷.
25. ↑ ابن طاووس، اللہوف، ۱۳۴۸ش، ص۱۱۷؛ مقتل الحسین ابومخنف، ص۱۷۳.
26. ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۱۰۸.
27. ↑ قاضی طباطبایی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سیدالشہداء ؑ، ۱۳۸۳ش، ص۹۵.
28. ↑ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۴۹۸.
29. ↑ ابن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۷۴.
30. ↑ فرہنگ عاشورا، ص۳۲۲.
31. ↑ مراسم بزرگداشت جہانی حضرت علی اصغر