امام علیؑ اور غزوات میں شرکت
امام علیؑ اور غزوات میں شرکت
غزوات پیغمبر
امام علیؑ نے اسلام کے غزوات اور سرایا میں مؤثر کردار ادا کیا۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔[161] آپ بہت سی جنگوں میں سپاہ اسلام کے اصلی سپہ سالار رہے[162] اور جیسے جنگ میں بہت مسلمان فرار اختیار کرتے تھے وہ کبھی فرار نہیں ہوئے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے ساتھ رہے اور جنگ کرتے رہے۔[163]
جنگ بدر
جنگ بدر یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ 17 رمضان المبارک سنہ 2 ہجری کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔[164] اس جنگ میں ابو جہل،[165] عتبہ بن ربیعہ[166] جیسے قریش کے بزرگ قتل ہوئے۔
علیؑ نے ولید بن عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔[167] اس جنگ میں نوفل بن خویلد جس پر آنحضرت نے نفرین کی تھی، حضرت کے ہاتھوں مارا گیا۔[168] ان کے علاوہ دیگر بیس افراد آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں حنظلہ بن ابو سفیان و عاص بن سعید شامل ہیں۔[169] بعد امام علی نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا: ابھی بھی وہ شمشیر جس سے تمہارے جد (عتبہ ہندہ کا باپ)، ماموں (ولید عتبہ کا بیٹا) اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کو قتل کیا تھا، میرے پاس ہے۔[170]
جنگ احد
جنگ احد میں مشرکین کے غلبہ کے بعد بہت سے مسلمانوں نے میدان جنگ سے فرار اختیار کی اور پیغمبر ؐ کو تنہا چھوڑ دیا۔ حضرت علی و بعض دیگر افراد موجود رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔[171] خود علیؑ نے اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا ہے مہاجرین و انصار نے اپنے گھروں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔ لیکن میں نے جبکہ میرے جسم پر ستر زخم تھے، رسول خدا ؐ کا دفاع کیا۔[172]
شیعہ[173] و اہل سنت[174] مصادر کے مطابق، امام علیؑ اس جان نثاری کے صلے میں جبرائیل نازل ہوئے اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا: یہ ایثار اور قربانی کی انتہا ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔ رسول خداؐ نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّہ ُ مِنِّي وَأَنَا مِنْہ(وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں) اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی: لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علی۔ (ترجمہ: ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے)۔
جنگ خندق (احزاب)
جنگ خندق میں رسول اللہؐ نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے رائے دی کہ مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔[175] کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے؛ بالآخر لشکر کفار سے عمرو بن عبدود اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گذر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علیؑ نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپؐ نے اذن دے دیا۔ علیؑ نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کردیا۔[176] جب علیؑ عمرو کا سر لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ۔ (ترجمہ: روز خندق علیؑ کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے)۔[177]
جنگ خیبر
جنگ خیبر جمادی الاولی سنہ 7 ہجری میں واقع ہوئی جب رسول اللہؐ نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے قلعوں پر حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا۔[178]اور جب ابوبکر اور عمر جیسے متعدد افراد یہودی قلعوں کی تسخیر کے مشن میں ناکام رہے تو رسول خداؐ نے فرمایا: لأعطين الراية رجلا يحب اللہ ورسولہ أو يحبہ اللہ ورسولہ میں کل پرچم ایسے فرد کے سپرد کر رہا ہوں جو خدا اور اس کے رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔[179] صبح کے وقت رسول اللہؐ نے علیؑ کو بلایا اور پرچم ان کے سپرد کیا۔ شیخ مفید کے نقل کے مطابق، علیؑ اپنی ذوالفقار لے کر میدان جنگ میں اترے اور جب ڈھال ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جنگ کے آخر تک اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔[180]
فتح مکہ
رسول خداؐ ماہ مبارک رمضان سنہ 8 ہجری کو فتح مکہ کی غرض سے مدینہ سے خارج ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے لشکر اسلام کا پرچم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا لیکن سعد نے جنگ، خون ریزی اور انتقام جوئی کے بارے میں باتیں کیں۔ پیغمبرؐ اسلام کو جب انکا پتہ چلا تو آپ نے امام علیؑ کو کہا کہ اس سے تم پرچم لے لو۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی ہدایت پر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور آپؐ کی ہدایت پر علیؑ نے آپؐ کے دوش پر کھڑے ہو کر بتوں کو توڑا۔ امام علیؑ نے خزاعہ کے بت کو کعبہ کے اوپر سے نیچے گرا دیا اور مستحکم بتوں کو زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔[181]
جنگ حنین
جنگ حنین سنہ 8 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس میں مہاجرین کا پرچم امام علی کے ہاتھوں میں تھا۔[182] اس جنگ میں مشرکین کے اچانک حملے کے بعد مسلمانوں نے فرار اختیار کی۔ صرف و جند دیگر افراد ثابت قدم رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔ غزوہ کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔[183]
جنگ تبوک
وہ واحد غزوہ جس میں علیؑ نے رسول اللہؐ کے ساتھ شرکت نہیں کی وہ غزوہ تبوک تھا۔ علیؑ رسول اللہؐ کی ہدایت پر مدینہ میں ٹہرے تاکہ آپؐ کی غیر موجودگی میں مسلمانوں اور اسلام کو منافقین کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔ علیؑ کے مدینہ میں ٹھہرنے کے بعد منافقین نے علی کے خلاف تشہیری مہم کا آغاز کیا اور علیؑ نے فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینے سے باہر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی تشہیری مہم کی اطلاع دی۔ یہی وہ موقع تھا جب رسول اللہؐ نے حدیث منزلت فرمائی کہ: "میرے بھائی علی! مدینہ لوٹو، کیونکہ وہاں کے معاملات سلجھانے کے لئے تمہارے اور میرے بغیر کسی میں اہلیت نہیں ہے۔ پس تم میرے اہل بیت اور میرے گھر اور میری قوم کے اندر میرے جانشین ہو! کہ تم خوشنود نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو موسی سے ہارون کی تھی، سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔[184]
سرایا
سریہ علی بن ابی طالبؑ فدک، بنی سعد سے مقابلہ شعبان سنہ 6 ہجری[185]
سریہ علی بن أبی طالبؑ قبیلہ بنی طی میں بت خانہ فلس کی تخریب کے لئے۔ ربیع الثانی سنہ 9 ہجری[186]
سریہ علی بن أبی طالبؑ یمن رمضان سنہ 10 ہجری[187]
یمن کی ذمہ داری
آنحضرت نے فتح مکہ اور جنگ حنین میں کامیابی کے بعد سنہ 8 ہجری میں اپنی دعوت میں وسعت دی۔ اسی سلسلہ میں معاذ بن جبل کو یمن بھیجا۔ وہ بعض مسائل کے حل میں ناکام رہے اور واپس آ گئے۔ اس کے بعد آپ نے خالد بن ولید کو بھیجا۔ ان سے مسئلہ حل نہیں ہوا اور ۶ کے بعد وہ بھی واپس آ گئے۔ تب آنحضرت نے امام علی کو بلایا اور انہیں اپنے خط کے ہمراہ یمن روانہ کیا۔ امام نے اہل یمن کو آنحضرت کا خط پڑھ کر سنایا اور انہیں توحید کی دعوت دی۔ امام کی کوششوں سے قبیلہ ہمدان مسلمان ہو گیا۔ امام نے ان کے اسلام لانے کی خبر آنحضرت ؐ کو بھیجی۔ آپ خوش ہوئے اور ہمدانیوں کو دعائیں دی۔[188] ایک دوسری گزارش میں قبیلہ مذحج کے ساتھ امام علی کی جنگ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گزارش کے مطابق، امام ان کی سر زمین کی طرف گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے تو آپ نے ان سے جنگ کی اور ان کے فرار اختیار کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دی، غنائم جنگ کو جمع کیا اور نجران کے صدقات کے ساتھ حج کے موسم میں سب آنحضرت کے حوالے کیا۔[189] آنحضرت نے یمن کی قضاوت بھی امام کے حوالے کی اور اس میں استواری کے لئے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ تاریخی مصادر میں وہاں قضاوت کے بعض نمونے ذکر ہوئے ہیں۔[190]
---
حوالہ جات
۔
ابن سعد، ج 3، ص 24۔
احمدی، «تحلیل روایی - تاریخی پرچمداری امیرمومنان علیؑ در غزوات پیامبر اکرم»، ص۳۷۔
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰۔
بلاذری، ج1، ص2883 ۔
ابنحجر، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۱۹۰۔
بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۵۲۔
طبری، ج 2، ص 148۔
واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج۱، ص۹۱۔
ابن ہشام، ج 1، ص 708-713۔
سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، ص۴۵۴، نامہ ۶۴۔
واقدی، المغازى، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۴۰۔
دیلمی، إرشاد القلوب إلى الصواب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۶۔
کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۱۰۔
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۵۴۔
ابن ہشام، ج3، ص235۔
ابن کثیر، البدایه و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۲۱۔
مجلسی، ج20، ص 216۔ بغدادی، تاریخ بغداد13/18/6978
ابن ہشام، ج 2، ص 328۔
مسلم، ج 15، ص 178-179۔
مفید، ارشاد، 590۔
حلبى، ج 3، ص 30۔
آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۵۹۔
یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۲۔
مفید، ارشاد، ج 1، ص 156؛ ابن ہشام، ج 4، ص 163۔
واقدی، المغازى، ۱۴۰۹، ج۲ ص۵۶۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۰، ج۲، ص۶۹؛ یاقوت حموى، معجم البلدان، ۱۹۹۵، ج۴، ص۲۳۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷، ج۲، ص ۶۴۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۰۹۔
آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۶۱، ص ۵۷۶۔
ابن هشام، السیرة النبویة، ج ۴، ص ۳۱۹؛ واقدی، کتاب المغازى، ۱۴۰۹، ج۳، ص۸۲۶ و رسولی محلاتی، تاریخ اسلام، ۱۳۷۴، ج ۱، ص۱۴۱ و ۱۵۳۔
طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، ج ۳، ص ۱۳۱-۱۳۲، ۱۳۸۷ق؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج ۲، ص ۶۹۰-۶۹۱، ۱۴۰۹ق؛ مفید، الارشاد، ج ۱، ص ۶۲، ۱۴۱۳ق۔
ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۲، ص ۱۲۸-۱۲۹، ۱۴۱۰ق؛ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، ج ۳، ص ۱۸۰۲-۱۸۰۳، ۱۴۰۹ق۔
ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۲۲۵، ۱۴۲۱ق؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۴۵، ۱۴۱۱ق۔