امام علی علیہ السلام اور خلفائے ثلاثہ کا دور
امام علی علیہ السلام اور خلفائے ثلاثہ کا دور
خلفائے ثلاثہ کا دور
خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور میں امام علی تقریبا امور سیاسی و حکومتی سے دور رہے اور فقط علمی و سماجی امور کی انجام میں مشغول رہے۔ جیسے جمع آوری قرآن جو مصحف امام کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں خلفاء کو مشورہ دینا، فقراء کو انفاق کرنا، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا، زراعت و شجر کاری، نہریں کھودنا، تعمیر مساجد جیسے مدینہ میں مسجد فتح، جناب حمزہ کی قبر کے پاس مسجد کی تعمیر، میقات میں ایک مسجد کی تعمیر اور اسی طرح سے مقامات و ملک کو وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی 40 ہزار دنیار تک بتائی گئی ہے۔
اس دور کے بعض اہم امور کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:
ابوبکر
ابو بکر کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
خانہ امام علیؑ پر حملہ و ابوبکر کے لئے جبری بیعت[201]
غصب فدک [202]
شہادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا
اجباری بیعت
بیعت سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض صحابہ کی خلافت ابوبکر کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی عمر کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔[203] ابوبکر نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے قُنفُذ نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، عثمان، خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، ابو عبیدہ جراح اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔[204] اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔[205]
بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو حضرت فاطمہ زہرا کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔[206] البتہ شیخ مفید کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔[207]
خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ
خلافت ابوبکر کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔[208] اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر مسلمانوں کی طرح مدینہ سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔[209] آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور اسلام و مسلمین کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو خلیفہ کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ یعقوبی اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے فقہ حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔[210] ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح شام کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔[211]
عمر
حضرت ابوبکر نے اپنی وصیت میں جسے عثمان نے تحریر کیا، لوگوں کو عمر کی پیروی کی دعوی دی اور اعلان کیا: میں عمر بن خطاب اپنے بعد تمہارا حاکم معین کرتا ہوں۔ ان کے بات سنیں اور ان کے اطاعت کریں۔[212] امام علی نے ان کے اس اقدام پر سکوت اختیار کیا۔ لیکن بعد میں آپ نے اس اقدام کو مذموم و ناحق بتایا اور اس کی توصیف ان الفاظ میں کی: تعجب خیز ہے، حیرت انگیز ہے کہ ابوبکر اپنی حیات میں لوگوں سے اپنی بیعت فسخ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے (جیسا کہ وہ کہتے تھے مجھے چھوڑ دو میں تم بہترین نہیں ہوں) لیکن خلافت کو دوسرے کے لئے مضبوط کرتے رہے۔ ان دو لوگوں (ابوبکر و عمر) نے شتر خلافت کے پستانوں کو سختی کے ساتھ دوہا۔ جبکہ میری برجستگی ان کے دونوں کے مقابلے میں اس قدر ہے کہ میں اس دریا کی مانند ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی آ کر گذر جاتا ہے اور کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو میرے علم کی بلندی تک پہچ سکے ... میں نے شجاعت کے ساتھ اس طولانی مدت میں نہایت اندوہ کے ساتھ اس پر صبر کیا۔[213]
خلافت عمر میں آپ کا رویہ
حضرت عمر کی خلافت دس سال تک رہی اور امام علی نے ابوبکر کے دور خلافت کی عمر کے دور میں بھی کسی طرح کا کوئی بھی منصب قبول کرنے سے پرہیز کیا۔ لیکن ایک مشاور کے عنوان سے عمر کے ساتھ رہے اور ان کے اپنے مشوروں کے ذریعہ سے مدد کی۔[214] جیسا کہ اہل سنت مورخین نے ذکر کیا ہے کہ عمر کوئی بھی کام امام علی کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اس لئے عمر امام کی خردمندی، دقت نظر اور تدین کے قائل تھے۔[215] امام نے ان زمانے کی فتوحات کے مقابلہ میں وہی موقف اختیار کیا جو ابوبکر کے دور میں اختیار کیا تھا، لیکن چونکہ اس زمانہ میں فتوحات کا دائرہ بیحد وسیع ہو چکا تھا۔ لہذا امام کا کردار بھی ابوبکر کے دور سے زیادہ ملموس و چشمگیر تھا۔ کسی بھی تاریخی یا حدیثی ماخذ میں ان فتوحات میں امام کی شرکت کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس دور کی کسی بھی کتاب میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی ہے کہ عمر نے امام علی سے کوئی مشورہ طلب کیا ہو اور امام نے اس سے منع کیا ہو۔ بلکہ امام باقرؑ سے منقول روایت کے مطابق، عمر امور حکومت کو، جن میں مہم ترین مسئلہ فتوحات کا تھا، امام علی کے مشورہ سے انجام دیا کرتے تھے۔[216] دوسری طرف اصحاب و پیروان علی نے ان فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag انصار میں سے چند افراد کے سوا سب نے علیؑ کی بیعت کی۔ مخالفین میں حسان بن ثابت، کعب بن مالک، مسلمہ بن مخلَّد، محمد بن مُسًلمہ اور چند دیگر افراد شامل تھے؛ جنہیں عثمانیہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ غیر انصاری مخالفین میں عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت، اور اسامہ بن زید کی طرف شارہ کیا جاسکتا ہے جو عثمان کے قریبیوں میں شمار ہوتے تھے۔[217] حضرت علی کی جانب سے لوگوں کی بیعت قبول نہ کرنے کا سبب جیسا کہ نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے معلوم ہوتا ہے، یہ تھا کہ آپ اپنے دور کے معاشرے کو اس قدر فساد زدہ سمجھتے تھے کہ جس کی قیادت کرنا، اس میں اپنے منصوبوں اور ارادوں کو عملی جامہ پہنانا آپ کے لئے ممکن نہ تھا۔[218]
--
حوالہ جات:
طوسی، تلخیص الشافی، ج3، ص76؛ شہرستانی، ج2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج2، ص 12۔
حلبى، ج3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج16، ص316۔بلاذری، ص۴۰ و ۴۱.کلینی، ج۱، ص۵۴۳
پیشوائی، ج 2، ص 191۔
ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔
ابن قتیبہ، ج۱، ص۲۸۔
يعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۵۲۷.
مفيد، الفصول المختارہ، ص ۵۶-۵۷۔
جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔
رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین علیهالسلام، ص۲۵۳۔
یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۸.
ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۴-۵۴؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۳۳۔
یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۳۷۔
نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ۔
ابن حجر عسقلانى، الاصابه فى تمییز الصحابه، ۱۳۲۸ق، ج ۲، ص ۵۰۹؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۳۲۸ق، ج ۳، ص ۳۹۔
جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔
صدوق، الخصال، ج۲، ص۴۲۴؛ مفید، الاختصاص، تصحيح و تعليق علىاكبر غفارى، ص۱۷۳۔
طبری، ج 4، ص 427-431۔
نہج البلاغہ، خطبہ 92۔