امیرالمؤمنین
امیرالمؤمنین (حضرت علیؑ کا لقب)
امیرالمومنین کے معنی مؤمنین کے امیر، پیشوا اور رہبر کے ہیں۔ اہل تشیع کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا اور صرف آپؑ کے ساتھ مختص ہے۔ اسی لئے شیعہ حضرات اس کا استعمال دوسرے خلفاء حتی امام علیؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ کے لئے بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔
چنانچہ پانچویں صدی ہجری کے شیعہ بزرگ عالم دین شیخ مفید تصریح کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے غدیر خم کے واقعے میں علی بن ابیطالب کو اپنا جانشین اور تمام مسلمانوں کا مولا اور پیشوا مقرر فرمایا اور تمام مسلمانوں سے حضرت علیؑ کو امیرالمؤمنین کے لقب کے ساتھ سلام کرنے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں شیخ مفید ام سلمہ اور انس بن مالک کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حتی پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں بھی امیرالمؤمنین کا لقب حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
اہل سنت مورخین من جملہ یعقوبی اور ابن خلدون اس بات کے معتقد ہیں کہ امیر المؤمنین کا لقب پہلی بار عمر بن خطاب کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
مفہوم شناسی
امیرالمومنین کے معنی مسلمانوں کے رہبر اور پیشوا کے ہیں۔[1] شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ لقب صرف حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہیں یہاں تک کہ ایک حدیث کے مطابق امام علیؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ کے لئے بھی اس لقب کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔[2]
مفاتیح الجنان کے مطابق عید غدیر کے دن شیعوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت ایک مخصوص ذکر کہنے کی سفارش کی گئی ہے جس میں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی ولایت کے ساتھ متمسک رہنے پر خدا کی حمد و ثنا کی گئی ہے۔[3]
پہلا استعمال
شیعوں کے مطابق امیرالمؤمنین کا لقب پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے پہلی بار حضرت علی بن ابیطالبؑ کے لئے استعمال ہوا ہے؛ لیکن پیغمبر اکرمؑ کے بعد حضرت علیؑ کو خلافت سے دور رکھے جانے کی وجہ سے یہ لقب دوسرے اور تیسرے خلیفہ یعنی حضرت عمر اور حضرت عثمان کے لئے استعمال کیا گیا۔[4]
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امیرالمؤمنین کا لقب پیغمبر اسلام کی طرف سے غدیر خم کے واقعے میں امام علیؑ کے لئے استعمال ہوا جس میں حضرت محمدؐ نے حضرت علیؑ کو اپنا جانشین اور تمام مسلمانوں کا مولا اور پیشوا مقرر فرمایا اور تمام مسلمانوں من جملہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ اور زبیر کو حضرت علیؑ کے لئے "امیرالمؤمنین" کے لقب کے ساتھ سلام کرنے کا حکم دیا۔[5] اس بنا پر تمام مسلمانوں پیغمبر اکرمؐ کےاس حکم کی تعمیل کرنے اور حضرت علیؑ کی بیعت کرنے کے لئے باری باری حضرت علیؑ کے خیمے میں داخل ہوئے اور اسی طریقے کے مطابق آپ کو سلام کئے جس طرح پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا تھا۔[6]
اس لقب کو حضرت علیؑ کے لئے ثابت کرنے کیلئے شیعہ حضرات حضرت عمر کے ایک جملے سے بھی استناد کرتے ہیں جس میں انہوں نے غدیر خم کے واقعے میں حضرت علیؑ کو تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے امیر اور مولا کے عنوان سے پکارا۔[7] بعض محققین اس بات کے اوپر تصریح کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے اس خطاب میں لفظ "مؤمن" کا استعمال کرنا ان کی طرف سے اس لقب کو حضرت علیؑ کے لئے قبول کرنے کے اوپر واضح دلیل ہے۔[8]
ام سلمہ[9] اور انس بن مالک سے منقول ایک حدیث کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے اپنی دو زوجات کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں علی بن ابیطالبؑ کو امیرالمؤمنین کے لقب کے ساتھ یاد فرمایا ہے۔[10]
اہل سنت کا نقطہ نظر
اہل سنت مورخین من جملہ یعقولی اور ابن خلدون اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ لقب سب سے پہلے حضرت عمر کے لئے استعمال ہوا تھا۔ اور وہ اشخاص جنہوں نے پہلی بار یہ لقب حضرت عمر کے لئے استعمال کئے ان میں عبداللہ بن جحش، عمروعاص، مغیرۃ بن شعبہ اور ابو موسی اشعری شامل ہیں۔[11] بعض مورخین کے مطابق خلیفہ دوم کو اس لقب سے ملقب کرنے میں خود انہی کا ہاتھ تھا۔[12] پیغمبر اکرمؐ کے بعد اس لقب کو سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا اور خلفائے راشدین اور خلفائے بنی امیہ و بنی عباس کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔[13]
مونوگرافی
ساتویں صدی ہجری کے ممتاز شیعہ محدث سید بن طاووس نے الیقین باختصاص مولانا علی بإمرۃ المؤمنین نامی کتاب میں اہل سنت مآخذ میں موجود 220 احادیث کی روشنی میں اس لقب کو حضرت علیؑ سے مختص قرار دئے ہیں۔[14] سید بن طاووس کے مطابق "امیرالمؤمنین" ایک ایسا لقب ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے علی بن ابیطالبؑ کے ساتھ مختص فرمایا ہے۔[15]
حوالہ جات
۱-دایرةالمعارف تشیع، ج۲، ص ۵۲۲
۲-مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۷، ص۳۳۴؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۱۶ق، ج۱۴، ص۶۰۰.
۳- اَلحمدُ لِلهِ الّذی جَعَلَنا مِنَ المُتَمَسِّکینَ بِولایةِ اَمیرِالمؤمنینَ و الائمةِ المَعصومینَ علیهم السلام؛ (ترجمہ: تعریف صرف اس خدا کے لئے ہے جس نے ہمیں امیر المؤمنینؑ اور دوسرے ائمہ کی ولایت کے ساتھ تمیک کرنے والوں میں سے قرار دیا۔) (قمی، مفاتیح الجنان، ذیل اعمال روز ۱۸ ذی الحجہ).
۴- شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۸؛ ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنین، ۱۳۷۹ش، ص۱۳؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۲۵ق، ج۴۲، ص۳۰۳ و ۳۸۶؛ ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۶۳.
۵- شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۸.
۶-شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۶.
۷- بَخٍّ بخٍّ لک یابن ابیطالب أصبَحتَ و أمسَیتَ مولای و مولی کلِّ مؤمنٍ و مؤمنَهٍ؛ (ترجمہ: اے علی آفرین ہو آپ پر! آپ میرے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے امیر اور مولا بن گئے ہو) (شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۷).
۸-منتظری مقدم، «بررسی کاربردہای لقب امیرالمؤمنین در بستر تاریخ اسلام»، ص۱۳۶.
۹- شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۸.
۱۰-ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۲۵ق، ج۴۲، ص۳۰۳ و ۳۸۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۸؛ ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۶۳.
۱۱-یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۴۷ و ۱۵۰؛ ابن خلدون، مقدمہ ابن خلدون، ج۱، ص۴۳۵ و ۴۳۶
۱۲-طبری، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ج۴، ص۲۰۸.
۱۳- دایرۃ المعارف تشیع، ۱۳۶۸ش، ج۲، ص۵۲۳-۵۲۲.
۱۴- تقدمی معصومی، نور الأمیر فی تثبیت خطبۃ الغدیر، ۱۳۷۹ش، ص۹۷.
۱۵- «الیقین باختصاص مولانا علی(ع) بامرۃ المؤمنین»، سایت حدیث نت.
مآخذ
آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م۔
ابن خلدون، مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ محمد پروین گنابادی، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۹ش۔
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۵ق۔
ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنین، گردآوری عبدالرزاق محمد حسین حرزالدین، قم، انتشارات دلیل، ۱۳۷۹ش۔
ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۰۷ق۔
عبدوس، محمدتقی، و محمد محمدی اشتہاردی، بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۷ش۔
حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، تحقیق محمدرضا حسینی جلالی، قم، مؤسسہ آل البیت لاحیاءالتراث، ۱۴۱۶ق۔
تقدمی معصومی، امیر، نور الأمیر علیہ السلام فی تثبیت خطبۃ الغدیر: مؤیدات حدیثیۃ من کتب أہل السنۃ لخطبۃ النبیّ الأعظم الغدیریۃ، قم، مولود کعبہ، ۱۳۷۹ش۔
دایرۃ المعارف تشیع، زیرنظر احمد صدر حاجسیدجوادی و كامرانفانی و بہاءالدین خرمشاہی، ج۲، تہران، موسسہ انتشارات حکمت، ۱۳۶۸ش۔
شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسہ آل البیت لاحیاءالتراث، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
طبری، محمد بن جریر، تاریخ الام و الملوک (تاریخ طبری)، محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، بیتا۔
قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، ترجمہ موسوی دامغانی، مشہد، انتشارات آستان قدس رضوی، چاپ یازدہم۔
مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ق۔
منتظری مقدم، حامد، «بررسی کاربردہای لقب امیرالمؤمنین در بستر تاریخ اسلام»، در مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، قم، مؤسسہ امام خمینی، بہار ۸۷۔
یعقوبی، احمد بن واضح، تاریخ یعقوبی، بیروت، دارصادر، بیتا۔