امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جیل سے رہائی کیلئےمجرب عمل، عمل اُمّ داؤد

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

عمل اُمّ داؤد مستحب عبادتوں میں سے ایک ہے جسے ماہ رجب کے ایام البیض میں انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔

اس عمل کو امام صادقؑ نے اپنی رضاعی ماں ام داؤد کو ان کے بیٹے کی رہائی کے لئے تعلیم دی۔ اسی وجہ سے یہ عمل، "عمل ام داؤد" کے نام سے مشہور ہے۔ جس حدیث میں اس عمل کا بیان آیا ہے وہ بعض شیعہ حدیثی مآخذ من جملہ شیخ طوسی کی کتاب مِصباحُ المُتَہجِّدِ اور سید بن طاوس کی کتاب اِقبال الاَعمالِ میں موجود ہے۔
ام‌ داؤد کے بقول اس عمل کی انجام دہی کے چند دنوں بعد ان کا بیٹا آزاد ہو کر گھر پہنچ جاتا ہے۔ شیخ طوسی، سید بن طاووس اور علامہ مجلسی جیسے شیعہ علماء کے مطابق عمل ام‌داؤد مصیبتوں کے خاتمے اور حاجتوں کی برآوری کے لئے انتہائی مؤثر ہے۔
ام داؤد

ام‌داؤد عبداللہ بن ابراہیم کی بیٹی اور حسن مُثَنّیٰ کی زوجہ ہیں۔[1] اپنے بیٹے داؤد کی نسبت سے "ام داؤد" کے نام سے مشہور ہوئیں۔[2] آپ امام صادقؑ کی مادر رضاعی بھی ہیں۔[3]
مربوطہ واقعہ
دعائے ام‌ داؤد
شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ [تین مہینوں(رجب، شعبان اور رمضان) کے فضائل] اور سید بن طاووس کی کتاب اِقبال الاَعمال میں عمل ام داؤد کا واقعہ نقل ہوا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:
ام‌داؤد کے بیٹے داؤد کو عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے حکم پر گرفتار کر کے عراق لے جایا گیا جس کے بعد مدتوں ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ام‌داؤد اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے کافی دعائیں مانگتی ہیں اور مختلف لوگوں سے اس حوالے سے مدد لیتی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک دن ام داؤد امام صادقؑ کی خدمت میں پہنچتی ہیں، اس موقع پر امام صادقؑ ام داؤد سے ان کے بیٹے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ ام‌داؤد مذکورہ واقعے کو امام کی خدمت میں بیان کرتی ہیں۔ امام صادقؑ ام داؤد کو رجب کے ایام بیض میں "عمل ام‌ داؤد" بجا لانے کا حکم دیتے ہیں۔[4]
ام‌داؤد کہتی ہیں، اس عمل کے چند دنوں بعد ان کا بیٹا داؤد گھر لوٹ آیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ 15 رجب کے دن ہی رہا ہو گئے تھے۔[5]
کیفیت
عمل ام‌ داؤد کی کیفیت درج ذیل ہے:
سب سے پہلے ماہ رجب کے ایام البیض یعنی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ رکھا جائے؛
15ویں تاریخ کو غسل کرے اس کے بعد ایک ایسی جگہ جہاں بیٹھ کر نماز ظہر و عصر کو خضوع اور خشوع کے ساتھ بجا لائے جہاں نہ کوئی چیز انسان کی توجہ ہٹا سکے اور نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کر سکے؛
نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر درج ذیل سورتوں کی تلاوت کرے:
100 مرتبہ سورہ حمد
100 مرتبہ سورہ اخلاص
10 مرتبہ آیۃ الکرسی
سورہ انعام، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ لقمان، سورہ یس، سورہ صافات، سورہ سجدہ، سورہ شوری ، سورہ دخان، سورہ فتح، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ قلم، سورہ انشقاق اور اس کے بعد قرآن کے آخر تک تمام سورتوں کی ایک ایک بار تلاوت کرے؛
اور آخر میں دعائے استفتاح یا دعائے ام داؤد پڑھی جائے؛[6]
فضیلت
امام صادقؑ سے منقول وہ حدیث جس میں ام داؤد کو اس عمل کی تعلیم دی گئی، میں اس عمل کی اہمیت کے بارے میں آیا ہے: خدا آسمان کے دروازے اس شخص کے لئے کھول دیتے ہیں، فرشتے اس کے حاجتوں کی قبولی کی بشارت دیتے ہیں اور اس کا ثواب بہشت سے کم نہیں ہے۔[7]
شیخ طوسی، سید بن طاووس اور علامہ مجلسی جیسے مشہور شیعہ علماء فرماتے ہیں: دعائے ام‌ داؤد مشکلات کی برطرفی، حاجت روائی اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے نہایت مؤثر ہے۔[8]
موجودہ دور میں ماہ رجب کے ایام بیض میں اعتکاف کے لئے جانے والے افراد عمل ام‌ داؤد کو انجام دیتے ہیں۔


سند اور مآخذ
جس حدیث میں عمل ام داؤد کا تذکرہ آیا ہے یہ حدیث مختلف شیعہ حدیثی مآخذ موجود ہے۔ اس سلسلے میں سب سے قدیمی‌ کتاب شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاَشہُر الثَّلاثہ ہے۔ البتہ اس کتاب میں صرف اس عمل کی سند اور واقعہ بیان ہوا ہے۔[9]
اس کے علاوہ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد اور سیدبن طاووس کی کتاب اِقبال الاعمال میں بھی اس عمل کا تذکرہ آیا ہے۔[10]
کتاب بَلَدالامین، مصباح کفعمی،[11] بِحارالانوار [12] مفاتیح الجنان[13] من جملہ ان مآخذ میں سے ہیں جن میں اس عمل کو مذکورہ کتابوں سے نقل کئے ہیں۔[14]


حوالہ جات
۱- امین، اعیان‌الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
۲-امین، اعیان‌الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
۳- امین، اعیان‌الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۶، ص۳۶۸.
۴- رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبالالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۱و۲۴۲۔
۵- بہ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبالالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۵۰و۲۵۱۔
۶- شیخ طوسی،مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷؛ کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰و۵۳۱؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ص۱۸۰.
۷- صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۴.
۸- اکبری و ربیع‌نتاج، «کاوشی در دعای ام‌داوود»، ص۸۲.
۹-اکبری و ربیع‌نتاج، «کاوشی در دعای ام‌داوود»، ص۸۸.
۱۰- مراجعہ کریں: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷-۸۱۲؛‌ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۲-۲۴۸.
۱۱- دیکھئے: کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰-۵۳۵؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ۱۸۰-۱۸۳۔
۱۲- دیکھئے: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۵، ص۴۰۰-۴۰۳۔
۱۳- قمی، عباس، مفاتیح‌الجنان، ذیل اعمال ام‌داوود۔
۱۴- اکبری و ربیع‌نتاج، «کاوشی در دعای ام‌داوود»، ص۹۰و۹۱۔
مآخذ
اکبری، زہرا، و سیدعلی‌اکبر ربیع‌نتاج، «کاوشی در دعای ام‌داوود»، در مجلہ سفینہ، تہران، مؤسسہ فرہنگی نبأ مبین، شمارہ ۳۶، پاییز ۱۳۹۱۔
امین، سیدمحسن، اعیان‌الشیعہ، تحقیق حسن الامین، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۰۶ق۔
سیدبن طاووس، على بن موسی، الإقبال بالأعمال الحسنہ، تحقیق جواد قیومى اصفہانى، قم، ‏دفتر تبلیغات اسلامى، چاپ‏ اول، ۱۳۷۶ش۔‏
شیخ صدوق، محمد بن على، ‏فضائل الأشہر الثلاثۃ، تحقیق و تصحیح غلامرضا عرفانیان یزدى، قم، کتابفروشى داورى‏، چاپ اول، ۱۳۹۶ق۔
طوسى، محمد بن الحسن، ‏مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، ‏مؤسسہ فقہ الشیعۃ، ۱۴۱۱ق۔‏
قمی، عباس، مفاتیح الجنان، اسوہ، قم۔ بی‌تا۔
کفعمى، ابراہیم بن على، البلد الأمین و الدرع الحصین، بیروت، ‏مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ اول، ۱۴۱۸ق۔
کفعمى، ابراہیم بن على، ‏مصباح الکفعمی، قم دارالرضی، چاپ دوم، ۱۴۰۵ق۔‏
مجلسى، محمدباقر،‏ بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، تحقیق جمعى از محققان‏، بیروت، ‏دار إحیاء التراث العربی،‏ چاپ دوم، ۱۴۰۳ق

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک