کتب اربعہ کی اصطلاح
کتب اربعہ کی اصطلاح تاریخ کے آئینے میں
شیعہ ان چار کتب یعنی کافی، تہذیب الاحکام، استبصار اور من لایحضرہ الفقیہ کو اپنی سب سے معتبر حدیثی منابع مانتے ہیں اور انہیں "کُتُب اَربَعہ" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔[1] البتہ اکثر شیعہ علماء ان کتابوں میں مذکور تمام احادیث پر عمل کرنے کو واجب نہیں سمجھتے بلکہ ان پر عمل کرنے کیلئے ان کی سند اور دلالت دونوں کی چھان بین کرتے ہیں۔[2]
کتب اربعہ کی اصطلاح تاریخ کے آئینے میں
شہید ثانی وہ پہلے عالم دین تھے جنہوں نے مذکورہ چار کتب احادیث کے لئے کتب اربعہ کی اصطلاح استعمال کیا۔ شہید ثانی نے سنہ 950ھ میں اپنے کسی شاگرد کو نقل حدیث کی اجازت دیتے ہوئے "کتب الحدیث الأربعۃ" کی اصطلاح کا استعمال کیا۔[3]
درج بالا تاریخ کے تقریبا 3 دہائیوں بعد محقق اردبیلی نے اپنی فقہی کتاب مجمع الفائدہ و البرہان کہ جن کی اشاعت کا آغاز سنہ 977ھ اور اختتام 985ھ کو ہوئی، میں اس اصطلاح کو استعمال کیا یوں یہ اصطلاح حدیثی کتابوں سے فقہی کتابوں کی طرف منتقل ہوئی۔ اس کے بعد یہ اصطلاح زبدۃ البیان (اشاعت 989ھ)، مُنتَقَی الجُمان (اشاعت 1006ھ) اور الوافیہ (اشاعت 1059ھ) جیسی کتابوں میں بھی استعمال ہوئی۔[4]
توثیق
شیعہ فقہا من حیث المجموع کتب اربعہ کی توثیق کرتے ہیں؛ یہاں تک کہ شیخ انصاری معروف کتب من جملہ کتب اربعہ کے معتبر ہونے پر عقیدہ رکھنے کو ضروریات مذہب میں سے قرار دینے کو بعید نہیں سمجھتے۔[5] لیکن ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ علماء کے درمیان ان کتابوں میں مذکور تمام احادیث اور روایتوں کی صحت و سقم یا توثیق اور عدم توثیق میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تین نظریات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:
تمام احادیث قطعی الصدور اور معتبر ہیں: اخباری کتب اربعہ میں موجود تمام احادیث کو معتبر سمجھتے ہوئے ان تمام احادیث کے معصومین سے صادر ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔[6] سید مرتضی کا نظریہ بھی اخباریوں کے اس نظریے سے ملتا جلتا ہے۔ سید مرتضی ان کتابوں میں موجود اکثر احادیث کو متواتر یا قطعی الصدور مانتے ہیں۔[7]
تمام احادیث صحیح ہیں لیکن سب قطعی الصدور نہیں: بعض فقہا مانند فاضل تونی[8]، ملا احمد نراقی[9] اور میرزا محمد حسین نایینی باوجود اس کے کہ ان کتابوں میں موجود تمام احادیث کو قطعی الصدور نہیں مانتے لیکن سب کے صحیح ہونے کے قائل ہیں۔ آیت اللہ خویی سے منقول ہے کہ کافی کی احادیث کی سند میں خدشہ وارد کرنا بعض ناتوان افراد کی سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ہے۔[10]
اکثر احادیث ظنی الصدور ہیں صرف قطعی الصدور حجت ہیں: اکثر شیعہ فقہا اور اصولیوں کا نظریہ یہ ہے کہ کافی کے بعض متواتر احادیث کے علاوہ باقی احادیث ظنی الصدور ہیں اور صرف وہ احادیث جو سندی اعتبار سے موثق ہیں، حجت ہیں، اگرچہ خبر کی حجیت کے معیار اور شرائط میں ان کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[11]
الکافی
یہ کتاب الکافی کے عنوان سے مشہور ہے جسے شیخ محمد بن یعقوب کلینی رازی (متوفی 329 ھ) نے غیبت صغری کے دوران مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب تین علیحدہ اور کلی حصوں اصول کافی، فروع کافی اور روضۂ کافی پر مشتمل تقریبا 16000 احادیث کا مجموعہ ہے۔ الاصول من الکافی اعتقادی احادیث کا مجموعہ ہے؛ الفروع من الکافی میں منقولہ احادیث کا تعلق عملی احکام اور فقہ سے ہے جبکہ روضۂ کافی زیادہ تر اخلاقی احادیث اور مواعظ و نصائح پر مشتمل ہے۔[12]
من لایحضرہ الفقی
یہ کتاب شیخ صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی (متوفی 381 ھ) کی تالیف ہے۔ یہ کتاب تقریبا 6222 احادیث پر مشتمل ہے جن کا موضوع فقہ اور عملی احکام ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ شیخ صدوق نے اس میں وہ احادیث جمع کررکھی ہیں جنہیں وہ صحیح سمجھتے تھے اور ان کی بنیاد پر فتوی دیتے تھے۔[13]
تہذیب الاحکام
یہ کتاب ابو جعفر محمد بن حسن طوسی (متوفی 462 ھ) کی تالیف ہے۔ یہ کتاب فقہ اور شرعی احکام سے متعلق حدیثوں کا مجموعہ ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ (ع) سے نقل ہوئی ہیں۔ شیخ طوسی نے اس کتاب میں صرف فروع دین پر بحث کی ہے اور طہارت سے لے کر دیات تک احکام سے متعلق احادیث بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کے عناوین کی ترتیب اور زمرہ بندی شیخ مفید کی کتاب المقنعہ کی ترتیب و زمرہ بندی کے عین مطابق ہے۔ کتاب تہذیب الاحکام 393 ابواب اور 13592 حدیثوں پر مشتمل ہے۔ اس کے آخر میں شرح مشيخۃ تہذيب الاحكام کے نام سے ایک ضمیمہ مندرج ہے۔ مشیخہ سے مراد وہ اکابرین اور اسانید ہیں جن سے شیخ نے حدیثیں نقل کی ہیں۔[14]
الاستبصار فی ما اختلف من الاخبار
یہ کتاب بھی تہذیب الاحکام کے مؤلف شیخ طوسی کی تالیف ہے۔ انہوں نے یہ کتاب تہذیب الاحکام کے بعد اپنے شاگردوں کی درخواست پر تالیف کی ہے۔ شیخ نے اس کتاب میں صرف ان احادیث کو درج کیا ہے جو مختلف فقہی مباحث و موضوعات میں وارد ہوئی ہیں؛ چنانچہ اس کتاب میں تمام فقہی ابواب کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ شیخ طوسی نے ابتداء میں ان روایات و احادیث کو نقل کیا ہے جنہیں وہ صحیح سمجھتے ہیں اور اس کے بعد مخالف روایات کی طرف اشارہ کیا ہے اور پھر ان روایات کو جمع کرکے ان کا جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب کی ترتیب دوسری فقہی کتب کی مانند ہے اور اس کا آغاز کتاب طہارت سے اور اختتام کتاب دیات پر ہوا ہے۔ (یہاں کتاب سے مراد فصل یا حصہ ہے)۔
یہ کتاب مجموعی طور پر 5511 روایات پر مشتمل ہے۔[15]
حوالہ جات
1. -امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۳۸۳-۳۸۴۔
2. - امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۳۸۳-۳۸۴۔
3. -باقری، «امامیہ چار کتب حدیثی اور "الکتب الأربعۃ" کی اصطلاح کا رواج: اندرو نیومن کے نظرے کا نقد۔
4. -باقری، «امامیہ چار کتب حدیثی اور "الکتب الأربعۃ" کی اصطلاح کا رواج: اندرو نیومن کے نظرے کا نقد۔
5. -انصاری، فرائد الاصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۳۹۔
6. -استرآبادی،الفواید المدنیہ، ص۱۱۲؛ الکرکی، ہدایۃ الأبرار، ۱۳۹۶ق، ص۱۷۔
7. - حسن عاملی، معالم الاصول، ص۱۵۷
8. -فاضل تونی، الوافیہ فی أصول الفقہ، ۱۴۱۵ق، ص۱۶۶۔
9. - ملااحمد نراقی، مناہج، ص۱۶۶
10. -خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۸۷۔
11. -سید ابوالقاسم خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۸۷-۹۷
12. - رجوع کریں: مدیرشانہ چی، تاریخ حدیث، ص116ـ119۔
13. - مدیرشانہ چی، تاریخ حدیث، ص132ـ135۔
14. - مدیرشانہ چی، تاریخ حدیث، ص138ـ142۔
15. - رک: مدیرشانہ چی، تاریخ حدیث، ص148ـ152۔
مآخذ
استر آبادی، محمد امین بن محمد شریف، الفوائد المدنیۃ، تبریز، بی نا، ۱۳۲۱ھ۔
امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر للادراسات الاسلامیۃ، ۱۴۱۶ھ/۱۹۹۵ء۔
انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۲۸ق۔
باقری، حمید، «چہار کتاب حدیثی امامیہ و رواج اصطلاح «الکتب الأربعۃ»: نقدی بر دیدگاہ اندرو نیومن»، وبگاہ طومار اندیشہ، دیدہشدہ در ۶ فروردین ۱۳۹۷ش۔
خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ، قم، مرکز نشر الثقافۃ الإسلامیۃ فی العالم، ۱۳۷۲ش۔
فاضل تونی، عبداللہ بن محمد، الوافیۃ في أصول الفقہ، تحقیق رضوی کشمیری، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۱۵ھ۔
کرکی، حسین بن شہاب الدین، ہدایۃ الأبرار إلی طریق الأئمۃ الأطہار، تحقیق رؤوف جمال الدین، نجف، مؤسسۃ احیاء الاحیاء، ۱۳۹۶ھ۔
مدیر شانہچی، کاظم، تاریخ حدیث، تہران، انتشارات سمت، ۱۳۷۷ش۔
مدیر شانہچی، کاظم، علم الحدیث، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ شانزدہم، ۱۳۸۱ش۔