امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اُصولِ اَربَعَ مِائہ، چار سو حدیثی کتابیں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اُصولِ اَربَعَ مِائہ ان چار سو حدیثی کتابوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جنہیں ابتدائی شیعہ راویوں نے ائمہ معصومین سے بلاواسطہ یا ایک واسطے کے ساتھ سنا اور لکھا ہے۔

اصل کو احادیث کی کتابوں پر یہ برتری حاصل ہے کہ اسے کسی اور کتاب سے مآخوذ نہیں کیا ہے اس لئے اس میں خطا اور تحریف کا امکان کم نظر آتا ہے۔ اصول اربع مائہ شیعہ علما کے ہاں بہت اہمیت کی حامل ہیں اور حدیث کے صحیح ہونے کا میزان اور معیار قرار پائی تھیں۔
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر اصول امام صادقؑ کے دور سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں لکھی گئی ہیں۔ اصول کی تعداد کے بارے میں شیعہ علما کا مشہور نظریہ یہی ہے کہ 400 تھیں لیکن بعض نے اس کی تعداد کو اس سے کم بھی بیان کیا ہے۔
شیعہ ان اصول کی نگہداشت میں بہت کوشاں تھے لیکن جب ان میں موجود اکثر احادیث کُتُب اَربَعہ میں درج ہوئیں تو ان کی طرف توجہ کم ہوئی اور یوں وہ ختم ہوئیں اور آج کل ان میں سے صرف 16 اصل باقی ہیں جنہیں الاُصولُ السِّتَّہ عَشَر (16 اصول) کے نام سے چھاپا ہے۔


اصل کی تعریف

حدیث کی اس کتاب کو اصل کہا جاتا ہے جس کے مصنف نے اس میں درج احادیث کو ائمہؑ سے بلاواسطہ یا ایک واسطے کے ساتھ سنا اور لکھا ہے۔[1] اصل کو کسی اور کتاب سے اخذ نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس میں موجود احادیث کو خود راوی نے ہی یا امام سے سنا ہے یا جس نے بلاواسطہ امام سے سنا تھا اس سے سن کر درج کیا ہے۔[2]
دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائہ کے مطابق «اصل» کی اصطلاح پہلی بار پانچویں صدی ہجری کے بعد شیعہ علما کے ادبیات میں شامل ہوئی؛[3] خاص کر شیخ مفید، نَجّاشی اور شیخ طوسی کی تالیفات میں۔[4]
اصول اربعمائہ کا اعتبار
فیض کاشانی کا کہنا ہے کہ اصول اربعمائہ، احادیث کے اعتبار کی کسوٹی شمار ہوتی تھیں اس لئے جو حدیث اصول اربع مائہ کی بعض اصول میں ذکر ہو یا ایک دو اصل میں معتبر اور متعدد اسناد کے ساتھ ذکر ہوئی ہو یا اس اصل کا مصنف اصحاب اِجماع میں سے ہو تو قدیم فقہا اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے اور اسے قبول کر لیتے تھے۔[5] کہا جاتا ہے کہ شیعہ علما اس بات پر متفق ہیں کہ یہی اصول اربع مائہ جوامع حدیث تدوین کرنے کے لئے مبنا بنیں اور کتب اربعہ کی اکثر احادیث انہی اصول سے لی گئی ہیں۔[6]
شیعہ ماہر کتابیات آقابزرگ تہرانی اصول اربع مائہ کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ دوسری کتابوں کی بنسبت ان میں خطا اور فراموشی کا امکان کم نظر آتا ہے کیونکہ ان میں احادیث کو بلاواسطہ امام معصوم سے اخذ ہوئی ہیں۔ اسی لئے باقی کتابوں کی نسبت ان پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے؛ بالخصوص اگر لکھنے والا معتمد اور شرائط کے حامل راوی نے لکھا ہو تو اس صورت میں اس کی احادیث کو یقینی طور پر صحیح سمجھی جائیں گی۔[7] اسی سبب اگر رجالی علما کسی راوی کے بارے میں لکھیں کہ وہ اصل لکھنے والے ہیں تو یہ اس کی ایک مثبت خصوصیت سمجھی جائے گی؛ کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ احادیث کو صحیح نقل کرنے اور معصوم کی عبارت کو درج کرنے کی کوشش کرتا تھا۔[8]
تاریخچہ
شیعہ علما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اصول اربعہ مائہ شیعہ ائمہ کے دور میں یعنی امام علیؑ سے امام حسن عسکریؑ کے دور میں لکھی گئی ہیں؛[9] لیکن ان کی تالیف کے آغاز کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں دو نظرئے مشہور ہیں:[10] پہلا نظریہ یہ ہے کہ ان کی تدوین کا آغاز امام علیؑ کے دور سے شروع ہوا اور امام عسکریؑ کے دور تک جاری رہا۔ سید محسن امین اور شیخ مفید جیسے علما اس نظرئے کے حامی ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ امام صادقؑ کے دور یا اس سے تھوڑا پہلے یا بعد میں تدوین شروع ہوئی۔ شہید اول، محقق حلی اور میر داماد اس نظرئے کے طرفدار ہیں۔[11]
محمد حسین حسینی جلالی اپنی کتاب دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائہ میں دوسرا نظریہ درست ہونے پر تاکید کرتے ہیں۔[12] آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ میں لکھتے ہیں کہ اصول اربع مائہ کی تدوین کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کب شروع ہوئی؛ لیکن یہ بات معلوم ہے کہ بعض کے سوا ان سب کو امام صادقؑ کے اصحاب نے لکھا ہے؛ خواہ وہ اصحاب خاص ہوں یا وہ اصحاب جو امام باقرؑ یا امام کاظمؑ کے بھی شاگرد تھے۔[13]
مجید معارف اپنی کتاب تاریخ عمومی حدیث میں ایک اور نظریہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اصول اربع مائہ امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے دور میں لکھی گئیں۔[14]اس بات کی تائید یہی سے ہوتی ہے کہ ان میں مذکور احادیث میں سے اکثر انہی تینوں اماموں سے نقل ہوئی ہیں۔[15]
امام صادقؑ کے دور میں اصل لکھنے کے رواج کا سبب
شیعوں کا اصول لکھنے کی طرف توجہ کرنے کی علت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے دور کا مختصر عرصہ ایک ساتھ تھا اور اس دوران بنی امیہ کی خلافت کمزور پڑ گئی تھی اور بنی عباس نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا تھا اور اس دوران حکمران سیاسی چپقلشوں میں لگے رہے اور ائمہ پر سختی کرنے کی انہیں فرصت نہیں ملی اس لئے ائمہؑ کو دینی تعلیمات کی ترویج کا موقعہ فراہم ہوا اور شیعہ راویوں نے سکون کے ساتھ ائمہ کی کلاسوں میں شرکت کی اور جو احادیث سیکھی انہیں نقل کیا۔[16]
اصول کا اہل سنت کے مُسَند سے موازنہ
اصول اربعہ مائہ کو اہل سنت کے ہاں رائج «مُسنَد» سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اہل سنت کے ہاں مُسنَد‌ لکھنا رائج تھا۔[17] ان دونوں کی باہمی شباہت اور یکسانیت اس بات میں ہے کہ دونو میں احادیث کے وحدت کا معیار راوی ہے موضوع نہیں؛ یعنی دونوں میں ایک راوی نے مختلف موضوعات پر بعض احادیث لکھی ہیں۔ دونوں میں حدیث کسی کتاب سے نہیں لی گئی ہے بلکہ بلاواسطہ معصوم سے سنی ہوئی ہیں۔ اسی طرح شیعوں میں اصول اربع مائہ احادیث کے مجموعے لکھنے کا مبنی بنی ہیں اور اہل سنت میں مسانید جوامع احادیث کا باعث بنی ہیں۔[18]
البتہ شیعہ علما کی نظر میں ان دونوں کے مابین کچھ فرق بھی ہے؛ اصول اربع مائہ میں معصوم سے بلاواسطہ یا ایک واسطے سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اس لئے ان میں خطا اور تحریف کا امکان کم ہے لیکن مسانید میں بسا اوقات چار، پانچ یا چھ واسطے سے رسول اللہؐ سے حدیث نقل ہوئی ہے۔ اسی لئے یہ درج اول کی کتابیں نہیں ہیں۔[19]
اصول کی تعداد
علما کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ یہ اصول چار سو کتابیں تھیں[20]یا آقابزرگ تہرانی کے بقول 400 سے کم نہیں تھیں۔[21] شیخ مفید (مَعالم‌ُالعلما کے مطابق، خود ان کی کتابوں میں نہیں ملا)، فضل بن حسن طَبرِسی، شیخ بہایی، حُرّ عاملی اور میرداماد یوں کہا ہے۔[22]
مثال کے طور پر کتاب معالم‌ العلما، میں شیخ مفید سے منقول ہے کہ امامیہ نے امام علیؑ کے دور سے امام حسن عسکریؑ کے دور تک 400 کتابیں لکھی ہیں انہیں اصول کہا گیا ہے۔[23] اسی طرح سید محسن امین اَعیان‌ُ الشیعہ میں لکھتے ہیں کہ امام علیؑ کے زمانے سے امام حسن عسکریؑ کے دور تک 6000 کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے 400 کتابوں کو باقی کتابوں پر فوقیت تھی اور یہی کتابیں شیعوں کے ہاں اصول اربع مائہ سے مشہور تھیں۔[24]
مشہور کے مخالف نظریہ
جلالی حسینی اپنی کتاب دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَمِائہ میں مشہور کے مخالف نظریہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصول کی تعداد سو سے زیادہ نہیں تھی۔[25] اس کی دلیل یہ ذکر کرتے ہیں کہ انہیں شیخ طوسی و نَجّاشی کی کتابوں میں 70 سے زیادہ اصل نہیں ملی ہیں؛ جبکہ ان دونوں نے شیعہ کتابوں کی فہرست لکھتے تھے بالخصوص شیخ طوسی جنہوں نے یہ وعدہ دیا تھا تمام کتابوں کو جمع کریں گے۔[26]
ان کا کہنا ہے کہ شیعہ علما نے اصل کی جو تعریف کی ہے وہ باعث بنی ہے کہ اصول کی تعداد کو 400 لکھیں کیونکہ بعض نے ہر اطمینان والی کتاب کو اصل نام دیا ہے اور بعض نے ہر اس کتاب کو اصل نام دیا ہے جو کسی اور کتاب سے نہیں لی گئی ہے۔ اس کے بعد وہ نتیجہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کہا جاتا ہے کہ شیعوں نے 6000 ہزار کتابیں لکھی تھی جن میں میں سے 400 اصول ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ یہ تعداد قابل اعتماد تھی۔[27]
مشہور کے موافق نظریہ
مجید معارف، اپنی کتاب تاریخ عمومی حدیث میں مشہور کے نظریے کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس بات کی کئی شواہد تائید کرتی ہیں۔ جیسا کہ نجاشی اور شیخ طوسی کی دو کتابوں میں امام باقرؑ اور امام کاظم کے 500 سے زیادہ شاگردوں کا ذکر ہوا ہے جو امام سے بلاواسطہ ایک کتاب کے راوی تھے۔[28]اس کتاب میں شیخ طوسی کی الفہرستِ سے ایک بات نقل ہوئی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے اصول اور مصنفات شیعہ کی ایک فہرست جمع آوری کی ہے لیکن اس بات کی ضمانت نہیں کہ ہم نے تمام کتابوں تک رسائی حاصل کی ہو۔[29]
اصول اربع مائہ کی سرنوشت
کہا جاتا ہے کہ اصول اربعہ مائہ کی حفاظت میں شیعہ بہت کوشاں رہتے تھے لیکن جوامع حدیث کی تدوین کے بعد پھر ان کی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی اسی وجہ سے آج بعض اصل باقی رہی ہیں باقی سب ختم ہوئیں۔[30] اس کے باوجود اصول اربعہ مائہ میں سے اکثر، کُتُب اَربَعہ کی تدوین کے دوران موجود تھیں اور ان کی احادیث ان احادیث کے شیعہ مجموعوں[31] میں درج ہوئی ہیں۔[32]
جو 16 اصول باقی تھیں ان کے خطی نسخوں کے علاوہ اَلاُصولُ السِّتَّہ عَشَر کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔[33] یہ سولہ اصل درج ذیل ہیں:
اصل زید زرّاد کوفی
اصل ابو سعید عَبّاد عُصفُری
اصل عاصِم بن حُمَید حنّاد کوفی
اصل زید نَرسی کوفی
اصل جعفر بن محمد بن شُرَیح حضرمی
اصل محمد بن مثنی حضرمی
اصل عبدالملک بن حکیم خَثعَمی
اصل مثنی بن ولید حناط
اصل خَلّاد سِندی
اصل حسین بن عثمان عامری
اصل عبداللہ بن یحیی کاہلی
اصل سَلّام بن ابی‌عمرہ
اصل یا نوادر علی بن اسباط کوفی
گزیدہ اصل علاء بن رزین‌القلا
اصل درست بن ابی‌منصور محمد واسطی
کتاب عبداللہ بن جبر معروف بہ دیات ظریف بن ناصح کوفی.[34]

حوالہ جات
1.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص126؛ فضلی، اصول‌الحدیث، 1420ھ، ص47.
2.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص126.
3.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص8-9.
4.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص9.
5.    ↑ فیض کاشانى، الوافی، 1406ھ، ص22.
6.    ↑ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص211-212.
7.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص126.
8.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص127.
9.    ↑ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص205.
10.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص22؛‌ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص205-206.
11.    ↑ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص205-206.
12.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص23-24.
13.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص130-131.
14.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص261.
15.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص264-265.
16.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص131-132.
17.    ↑ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص197-198.
18.    ↑ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص211-212.
19.    ↑ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص215-216.
20.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص26.
21.    ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص129.
22.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص258..
23.    ↑ ابن‌شہرآشوب، معالم‌العلما، 1380ق/1961م، ص3.
24.    ↑ امین، اعیان‌الشیعہ، 1403ھ، ج1، ص140.
25.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص26.-27.
26.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص26.
27.    ↑ حسین جلالی، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، مؤسسةالاعلمی، ص27-28.
28.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص259.
29.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص257.
30.    ↑ مدیر شانہ‌چی، تاریخ حدیث، 1382شمسی، ص94.
31.    ↑ مؤدب، تاریخ حدیث، 1388شمسی، ص86.
32.    ↑ مدیر شانہ‌چی، تاریخ حدیث، 1382شمسی، ص94؛ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص262.
33.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص263.
34.    ↑ معارف، تاریخ عمومی حدیث، 1377شمسی، ص263-264؛ طباطبایی، مسندنویسی در تاریخ حدیث، 1377شمسی، ص213-215.
مآخذ
•    آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1403ہجری۔
•    ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعة و اسماء المصنفین منہم قدیماً و حدیثاً، نجف، المطبعة الحیدریہ، چاپ اول، 1380ق/1961م.
•    امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ہجری۔
•    حسین جلالی، محمدحسین، دِراسةٌ حولَ الاُصولِ الاَربَعَ مِائہ، تہران، مؤسسةالاعلمی.
•    طباطبایی، سید کاظم، مسندنویسی در تاریخ حدیث، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغلت اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
•    فضلی، عبدالہادی، اصول‌الحدیث، بیروت، مؤسسہ ام‌القری، چاپ دوم، 1420ہجری۔
•    فیض کاشانى، محمدمحسن، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین على علیہ السلام‏، چاپ اول، 1406ہجری۔
•    مدیر شانہ‌چی، کاظم، تاریخ حدیث، تہران، سمت، 1382ہجری شمسی۔
•    معارف، مجید، تاریخ عمومی حدیث با رویکرد تحلیلی، تہران، کویر، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
•    مؤدب، رضا، تاریخ حدیث، قم، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ دوم، 1388ہجری شمسی۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک