اصالتِ روح
بہت سے موضوعات کی خوش نصیبی یہ ہے کہ علماء اور دانشور وں کی محفلوں میں زیر بحث آتے ہیں مگر عوام اسے چھوتے بھی نہیں دنیا کے زیر بحث موضوعات میں کچھ ایسے دل کش و خوش نصیب موضوع ہیں جو اہل دانش و بینش کی محفلوں میں بار پاتے اور عالموں کے لبوں تک آتے ہیں۔ کچھ موضوع اس درجے تک نہیں پہنچتے وہ ہر کس وناکس کے لئے نقل محفل ہوتے اور ہر شخص اس پر طبع آزمائی کرتا ہے، نتیجہ یہ کہ ان کی شکل و صورت بگڑ جاتی ہے اور محققین کیلئے نہ صرف دشواری بلکہ لغزش فکر کا باعث ہوتے ہیں۔
"روح و بدن " اسی طرح "خدا اور کائنات"، ان موضوعات میں ہیں جن کے بارے میں ہر شخص نے اپنے طور پر کوئی نہ کوئی نظریہ قائم کررکھا ہے۔ البتہ اس عمل کے کچھ نہ کچھ وجوہات ہیں اور ان کا سبب محض اتفاق اور خوش نصیبی ہی نہیں ہے۔
فطری طور پر انسان سب سے پہلا سوٴال کرتا ہے۔ میں کون ہوں؟ جس دنیا میں ہوں وہ کیا ہے؟ نتیجتاً ہر ایک اپنے لئے ایک تسلّی بخش جواب ڈھونڈھ لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کائنات اور اپنی ذات کے بارے میں ایک خاص تصّور کا حامل ہوتا ہے۔
روح اور بدن ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ہر ایک نے بچپن میں اپنی ماں، دائی اور دادی… اس کے بعد واعظ اور شاعر کی زبان سے کچھ نہ کچھ ضرور سنا ہے، اس لحاظ سے اس کا ذہن پہلے ہی سے تیار ہوتا اور کسی نہ کسی حد تک خاص نظریہ کی طرف رحجان بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی بنا پر ممکن ہے کچھ لوگ مذکورہ عنوان کو دیکھتے ہی اس پر بات کو سننے کے لئے تیار ہوجائیں کہ:
- روح وہ نامرئی مخلوق ہے جو کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر بدن کے پردے میں مخفی ہے۔ یا اپنے چہرے پر بدن کا نقلی چہرا لگائے ہوئے ہے۔
یا اس سے بھی زیادہ گئی گذری بات یہ ہے کہ:
- روح وہ جن یا دیو ہے جو بدن کے محسوس حصّے سے دکھائی دیتا ہے۔
- بدن ظاہری اور عاریتی پردے کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور روح کی نامرئی انگلیاں ہیں جو اس ظاہری پردے کے پیچھے کام کرتی ہیں۔یہ بھی مکن ہے کہ جن لوگوں نے شعر و شاعری کی زبان سے روح کے بارے میں کچھ سنا ہو، ان کے ذہن فوراً یہ سننے کے لئے آمادہ ہوجائیں کہ:
- روح ایک ملکوتی پرندہ ہے، جس کے لئے چند وجوہ کی بنا پر بدن کا وقتی قفس تیار کیا گیا ہے۔
- وہ سدرہ نشین شاہباز ہے جو خلافِ طبع بدن کے ایک گوشہ میں سکونت اختیار کرتا ہے۔
- وہ بادشاہ ہے جس نے قصر بدن کو اپنے شاہی قصر کے لئے منتخب کیا ہے۔اور کبھی کبھی اپنے سے زیادہ مزین و آراستہ کرنے میں مصروف رہتا ہے۔
ہماری مراد شعر و شاعری کی زبان پر تنقید نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی زبان اور ہو بھی کیا سکتی ہے، شعر و شاعری یا وعظ و خطابت کی زبان علم و فلسفے کی زبان سے مماثلت نہیں رکھ سکتی، کیونکہ ان کے مقاصدعلم وفلسفہ کے مقاصد سے مختلف ہیں۔ ہر فن کی اس فن سے مخصوص ایک چابی ہوتی ہے اور یہ بات بدیہی ہے کہ وہ چابی صرف اسی تالے کے لئے قابل استعمال ہوتی ہے، جس کے لئے بنائی گئی ہو۔
ہمیں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جن کی شخصیت مرکب ہوتی ہے۔ یعنی وہ بیک وقت شاعر بھی ہوتے ہیں اور فلسفی بھی۔ ان کی بات کا انداز یکساں نہیں ہوتا ہے کیونکہ خود فلسفہ و شاعری کے انداز جدا جدا ہیں۔
مثال کے طور پر دیکھئے روح اور بدن اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں ابوعلی سینا کی فلسفی کتابوں "الشفا" اور "الاشارات و التبنیھات" کی زبان اور اسی موضوع پر ان کے قصیدہٴ عینیہ کی زبان تقابل کی نظر سے ملاحظہ کیجئے۔
مطلع: هبطت الیک من المحل الارفع ورقاء ذات تعزز و تمنّع
مقصد یہ ہے کہ علم و فلسفہ کی زبان اور شعر یا وعظ و خطابت کی زبان میں امتیاز ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ منکر افراد اور مادیات پسند لوگوں کی طرح غلطیوں کے شکار اور بددلی میں مبتلا نہ ہوں۔
درحقیقت فلاسفہ کے افکار و نظریات میں بھی کبھی کبھی وہ جھلک دکھائی دیتی ہے جو کم و بیش شعر و شاعری کے پیرائے اور زبان سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ جیسے افلاطون سے منسوب مشہود نظریہ، جس میں وہ کہتا ہے: روح ایک قدیم جوہر ہے، جو بدن سے پہلے موجود ہے، جب بدن کا ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے اس وقت یہ اپنے مرتبہ سے اترکر (تنزّل) بدن سے (تعلق) ملحق ہوتی ہے۔
سو فی صدی یہ نظریہ "دوئی"کا نظریہ ہے، اس لئے کہ روح اور بدن کو ایک دوسرے سے علیحدہ دو جوہر اور ان کے باہمی تعلق کو عرضی و اعتباری مانتا ہے۔ جیسے طائر کا گھونسلے اور سوار کا سواری سے تعلق اورکوئی جوہری یا طبیعی تعلق جو ان دونوں کے درمیان ذاتی وحدت و پیوندکی نشاندہی کرتا ہو اسے نہیں مانتا۔
لیکن یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کچھ دن گذرنے نہیں پائے تھے کہ خود افلاطون کے شاگرد ارسطونے اس نظریہ کو باطل کردیا اور سب نے اس کی تائید کی ارسطو یہ سمجھا کہ افلاطون اور اس کے سابقین کی زیادہ تر توجہ روح اور بدن کے معاملات میں نظریہٴ "دوئی" پر مبنی ہے، اور ان لوگوں نے روح اور بدن کے باہمی تعلق اور وحدت کے بارے میں زیادہ غور نہیں کیا ہے۔ ارسطو اس نتیجہ پر پہنچا کہ روح اور بدن کے باہمی تعلق کو طائر کا گھونسلے یا سوار کا سواری جیسا تعلق نہیںمانا جاسکتا، بلکہ ان دونوں کا تعلق اس سے کہیں گہرا ہے۔ ارسطو نے روح اور بدن کے تعلق کو صورت و مادہ کے تعلق کے مانند اس فرق کے ساتھ جانا ہے کہ چوں کہ قوةٴ عاقلہ مجرو ہے لہٰذا وہ مادّے کا جزٴ نہیں بلکہ مادّے کے ساتھ ہے۔ اس بحث کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ارسطو کے فلسفے میں روح کے قدیم اور بالفعل جوہر ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ روح قدیم نہیں بلکہ حادث اور ابتدا میں محض استعداد وقوة ہے اور کسی طرح کا قبلی علم اسے حاصل نہیں، وہ اپنی تمام معلومات و اطلاعات کو اسی کائنات میں قوة سے فعل میں لاتی ہے، جزئی اختلاف کے ساتھ ابن سینا کے فلسفے میں بھی انہیں معنوں کی جھلک ملتی ہے، وہ دوئی، علیحدگی اور بیگانگی جو افلاطون کے فلسفے میں موجود تھی، ارسطو اور ابن سینا کے فلسفے میں نسبتاً کافی حد تک کم ہوگئی اور اس موضوع کی اساس ارسطو کے مشہور نظریہٴ مادہ و صورت اور کون و فساد پر مبنی قرار پائی۔ اگر چہ اس نظریہ میں کچھ خاص امتیازات کی اصلی وجہ یہ دوئی کی جگہ روح اور بدن کے درمیان حقیقی تعلق اور وحدت کا قائل ہے اور یہ ایک اہم بات بھی ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے اہم اشکالات اور ابہامات سے بھی خالی نہ تھا۔ اشکالات مادہ اور صورت نیز کون اور فساد کے طبیعی تعلق کی کیفیت کے بارے میں ہیں، جن کا بیان مناسب موقعہ پر ہونا چاہیے، اس صورت حال میں ضروری تھا کہ علم و فلسفے کے میدان میں قدم اٹھائے جائیں تاکہ اس معمہّ کا حل ممکن ہوسکے یا کم سے کم اس موضوع کو معقول اور قابل قبول بنایا جاسکے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ قدم کہاں سے اٹھائے گئے۔
یورپ میں فکری اور علمی تحوّل کے مقدمات فراہم ہوئے اور مکمل طور سے انقلاب آگیا انقلاب کی خصوصیت یہ ہے کہ ترو خشک کی تمیز نہیں کرتا۔ گذشتہ اعتقادات و مبانی بے اساس ہوگئے۔ انقلابیوں نے تمام اشیاء کے لئے نئے منصوبے تیار کیے یہاں تک کہ روح اور بدن کے مسئلہ میں بھی نئے نظریات قائم ہویے۔ فرانس کے مشہور فلسفی "دیکارت" نے روحاور بدن کی دوئی سے متعلق ایک خاص نظریہ پیش کیا، جس پر کچھ دن بعد ردو قبول کی بحث شروع ہوئی پھر نظریے کی تراش خراش اور اصلاح کی طرف توجہ کی گئی۔
دیکارت نے فکری ارتقا کی منزلیں طے کرنے کے دوران خود کو تین حقیقتوں کے ماننے پر مجبور پایا، خدا، نفس اور جسم۔ اس نے اس لحاظ سے کہ نفس، فکرو شعور رکھتا ہے اور بُعد (جہت) نہیں رکھتا… جسم بُعد رکھتا ہے اور فکرو شعور سے خالی ہے۔ اس طرح و یکارت نے نفس و بدن کو دوچیزیں جانا۔
دیکارت کے نظریے پر جو معقول اعتراض ہوا (سب سے پہلے خود یورپی افراد نے کیا) وہ یہ تھا کہ اس نے صرف دوئی اور روح و بدن کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بارے میں بیان کیا اور اُس تعلق کے بارے میں جو روح اور بدن کے درمیان موجود ہے کوئی ذکر نہیں کیا ہے…دوسری بات یہ ہے کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا دومختلف چیزیں ہیں تو ایک دوسرے سے ملیں کیسی؟ روح اور بدن کے بارے میں قابل ذکر سب سے اہم مسئلہ اس تعلق کا ہے جو ایک لحاظ سے بدن اور روح یا روحی خواص کے درمیان موجود ہوتا ہے۔
درحقیقت، دیکارت کا نظریہ ایک طرح سے افلاطون کے نظریے کی طرف بازگشت ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ دوبارہ طائر اور گھونسلے کی یاد دلائی جارہی ہے۔ کیونکہ دیکارت فطری اور ذاتی تصوّرات کاقائل ہے اور کہیں کہیں پر شروع سے ہی اس نے نفس کو موجود مانا ہے، اس لحاظ سے اس کا نظریہ افلاطون کے نظریہ سے قریب ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ روح اور بدن کے باہمی تعلق کے بارے میں اس کا بیان اتنا ہی مختصر ہے جتنا کہ نظریہٴ افلاطون کا بیان مختصر تھا۔
یہ رجعت پسندی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوئی، اس لیے کہ روح اور بدن کا ایک دوسرے سے تعلق کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جیسے چھپایا جانا ضروری ہو اور محض ان دونوں کی جدائی کے اسباب و وجوہ پر اکتفا کی جائے۔ لہٰذا دیکارت کے بعد دانشوروںنے ان دونوںکے مابین تعلق کوجاننے کی کوشش شروع کی، جو شخص تاریخ فلسفہٴ عصر جدید سے پوری طرح باخبر ہے، وہ جانتا ہے کہ روح اور بدن کے تعلق کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لئے نئے فلاسفر نے کتنی کوشش کی ہے اور کتنے مکاتب فکر اور مختلف نظریات نے جنم لیا اور کس حد تک افراطو تفریط میں آگے بڑھ چکے ہیں، کچھ لوگوں نے نفسیاتی ظواہر کو ترکیبات مادہ کی معمولی خاصیت جانا اور ہر طرح کی دوئی (روح اور بدن کے درمیان) ہونے کے انکاری ہوگئے، دوسرے گروہ نے جسم اور مادہ کو بے بنیاد، اور روح کے لیے محض نمائش جانا۔ اس طرح سے انہوں نے اپنے خیال میں روح اور بدن کی جدائی اوردوئی کو ختم کیا، ایک ایسا گروہ بھی ہے جس نے تھک کر اس بحث کو انسان کی قدرت ہی سے خارج قرار دیدیا۔
اگر چہ روحی اور جسمی امور اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں دور حاضرکے دانشور اور فلسفی کسی مفید نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے، لیکن ان کی بے انتہا کوشش نے سائینس کے تمام شعبوں، خاص طور سے حیاتیات، فیزیالوجی اور نفسیات میں بہت اچھے اچھے فوائد و نتائج اہل علمکے حوالے کیے کبھی بھی ان مضامین پر کام کرنے والے محقق روح اور بدن نیز ان دونوں کے درمیان تعلق کے بارے میں اپنی تحقیقات کے نتائج حاصل کرنے کے سلسلے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے، لیکن ان تحقیقات نے اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے راہ ہموار کردی اور ہم انشاء اللہ ان نکات کی طرف اشارہ کریں گے۔
ابتدا میں ہم نے ارسطو اور ابن سینا کے نظریہ کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ اس نظریہ میں روح اور بدن کی وحدت اور تعلق کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور افلاطون کا نظریہٴ دوئی رفتہ رفتہ فراموش کے سپرد ہوگیا۔
اب یہ غور کرنا ہے کہ ابن سینا کے بعد آنے والے مسلمان فلسفیوں کے نزدیک اس مسئلے نے کیا صورت اختیار کی؟
ابن سینا کے زمانے کے بعد مسلم فلاسفہ نے براہ راست اس مسئلہ پر تحقیقی کام انجام نہیں دیا، لیکن فلسفے کا سب سے عام اور اساسی اور مقدّم مسئلہ یعنی فلسفہٴ وجود میں ترقی اور تحول کے اعتبار سے ایک عظیم انقلاب آیا، جس نے ایک طرح سے زیادہ تر فلسفی مسائل خاص طور سے روح اور بدنکےمسئلہ وحدت اور دوئی کو متاثر کیا۔
اس مقالے میں اشاروں پر اکتفا کرتے ہوئے محض اتنا کہا جاسکتا ہے کہ "صدرالمتاٴلھین" نے جو مسائل "وجوہ" میں عظیم تبدیلی لانے والے مفکرین و فلاسفہ کے گروہ میں قد آور شخصیت کے مالک ہیں۔ صدرالمتاٴلھین ملاصدرا نے اپنے وضع کردہ نئے، مستحکم اور اعلی اصول سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کائنات کی ظاہری اور محسوس ہونے والی حرکات کے علاوہ ایک گہری، جوہری اور نامرئی حرکت ایسی بھیموجود ہے جو اس کائنات پر حکم فرما ہے اور وہی موجود ظاہری حرکتوں کی بنیاد ہے۔ اگر کسی صورت اور مادہ کو فرض کرنا ہو تو اس طریق کے علاوہ فرض نہیں کرنا چاہیے۔ مختلف اجسام کی تخلیق اور تشکیل قانون کون و فساد پر نہیں، بلکہ قانونحرکت پر مبنی ہے۔ اسی طرح نفس اور روح دونوں قانون حرکت کا نتیجہ ہیں۔ نفس کی تشکیل کا نقطہٴ آغاز جسمانی مادہ ہے اور مادے میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے اندر اس موجود کی پرورش کرے جو ماوراء الطبیعہ کے برابر ہو، دراصل طبیعت اور ماوارء الطبیعہ کے درمیان کسی قسم کی دیوار نہیں ہے اور کوئی مادی موجود ترقی و تکامل کی راہ طے کرتے ہوئے غیر مادی موجود میں بدل جائے کوئی قباحت نہیں ہے۔ نفس کے نقطہٴ تشکیل اور اس کے تعلق کے بارے میں افلاطون نیز ارسطو کا خیال کسی بھی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔
مادہ و حیات اور روح و جسم کے تعلق کی نوعیت اس تعلق سے کہیں زیادہ طیبعی اور جوہری ہے۔ کسی شئی کے شدید و کامل درجہ کی صعیف اور کمتر درجہ کے تعلق کی نوعیت کے مانند ہے۔ دوسرے الفاظ میں، روح و بدن کا ایک دوسرے تعلق کسی ایک بُعد کا دوسرے العباد سے تعلق کی طرح ہے، یعنی مادہ اپنے تحوّل و تکامل کی راہ طے کرنے کے دوران تین جسمانی ابعاد (جسے ہم العباد ثلاثہٴ مکانی بھی کہتے ہیں) نیز اپنی ذاتی اور جوہری حرکت (بعد زمانی) کے علاوہ ایک نئی جہت میں منسبط ہوتا ہے۔ یہ نئی جہت ان چار مکانی و زمانی جہات و العباد کے علاوہ ایک مستقل بالذات جہت ہے۔ البتہ اس جہت کو ہماری طرف سے بعد نام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بھی کمیّت و مقدار رکھنے والی چیزوں کی طرح ذہنی تجزیہ کے قابل ہے، بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ مادہ اُس نئی جہت کو اختیار کرتا ہے جس میں اس کی خاصیّت مادہ مکمل طور سے ختم ہوجاتی ہے۔
یہ باتیں بطور مقدمہ اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ اس سے پہلے کہ روح اور بدن کے تعلق کا صحیح تصّور پیدا ہو اس بارے میں کہ، آیا روح اصلی ہے یا نہیں؟ اور آیا خاصیت "اجزاء مادہ کی ترکیب" ہے کہ نہیں؟ پر بحث کرنا فضول ہے۔ لیکن اس موضوع کی وضاحت کے بعد ہم اسے آگے یوں بڑھا سکتے ہیں کہ آیا روح کی خصوصیات حالت انفراد و ترکیب مادہ کی خصوصیات کے مانند ہیں اور خاصیات روح کیا مادی عناصر کی ترکیب و امتراج کا نتیجہ ہیں یا جسمانی مادہ جب تک مادی اور جسمانی حد میں رہتا ہے اس وقت تک اس طرح کے اثر و خواص سے خالی ہوتا ہے اور یة خواص مادے میں اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب وہ اپنے جوہر و ذات میں تکامل کے مرحلے طے کرکے ذاتی درجہ کا مالک ہوتا ہے اور اسی درجہ کی بنا پر غیر مادی اور غیر جسمانی محسوب ہوتا ہے اور روح کے اثر و خصوصیات کا اس درجہ سے تعلق واقعیت ووجود ہے؟ یا کچھ اور؟
اس منزل پر پہنچنے کے بعد اس بحث کو انسانی روح اور اس کے ظواہر پر معمول کے مطابق منحصر کرنا ضروری نہیں، ہم اسے نچلے درجے سے شروع کرکے زندگی کے تمام آثار و ظواہر میں پھیلاؤ دے سکتے ہیں۔
فکری اور حیاتی آثار کے درمیان اگر کسی فرق کے قائل ہوسکے ہیں تو وہ صرف تجرد اور عدم تجرد کی بنا پر جو فی الحال مورد بحث نہیں، فی الحال زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ:
"روح مادہ کی خاصیت و اثر نہیں، بلکہ وہ جوہری کمال ہے جو مادّے میں ظاہر ہو کر مادّے سے کہیں زیادہ اور متنوع آثار کی تشکیل کرتی ہے۔"
یقیناً یہ خصوصیت صرف انسان و حیوان ہی میں نہیں پائی جاتی بلکہ ہر ذی حیات میں ہوتی ہے۔
حیات اور زندگی کی حقیقت کچھ بھی سہی، اس کی ماہیت و کنہ کا ادراک ہمارے لئے خواہ ممکن ہو یا نہ ہو۔ یہ بات قطعی اور ناقابل تردید ہے کہ وہ ذی حیات موجودات جنہیں ہم حیوان و نباتات کے نام سے جانتے ہیں، ان میں ایک قسم کی فعالیت ہوتی ہے جو دوسری بے جان اور مردہ اشیاء میں نہیں ہوتی۔
اس گروہ کے موجودات میں "ذاتی تحفّظ" کی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ خود کو ماحول کے اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں، یعنی (جاندار) ذی روح موجودات جس ماحول میں رہتے ہیں، اس کی مناسبت سے اپنے داخلی انتظامات و قویٰ کو اس طرح تیار رکھتے ہیں کہ اس فضا میں جدوجہد کرکے اپنی بقا کو محفوظ رکھ کر اس سے مستفید ہوسکیں۔
جاندار موجود میں "ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے" کی خاصیت ہوتی ہے۔ جو داخلی فعالیت پر مبنی ہے، بے جان چیزوں کو یہ خاصیت ہرگز میسر نہیں ہوتی، اگر کوئی بے جان چیز ایسی فضایا ایسے ماحول میں قرار پائے جو اس کی تباہی کا باعث ہو، تو وہ اپنی بقا کو محفوظ رکھنےکے لئے کسی قسم کی کوشش نہیں کرتی۔
جاندار موجود میں "عادت" کی خصوصیت پائی جاتی ہے، مثلاً اگر کوئی جاندار نامساعد ماحول اور ناموافق فضا کا شکار ہوتا ہے تو شروع میں اسے سخت ناگوار گذرتا ہے اور وہ بہت بے چین ہوتا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ اسی فضا کا عادی ہوجاتا ہے اور اس میں امن و امان محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ مان و امان اپنی داخلی فعالیت اور خاصیتِ انطباق کے نتیجہ میں پیدا کرتا ہے اگر کوئی پودا، یا جانور کا بدن، یہاں تک کہ جسم کا کوئی بھی عضو اس ناہموار ماحول (وفضا) میں آجائے، جو اس کی حیات و بقا کے لئے باعث نقص و خطر ہو، تو رفتہ رفتہ وہ اپنے تئیں اتنا تیار و مستعد بنالیتا ہے کہ اس ماحول میں رہتے ہوئے ممکن خطرے سے نپٹ سکے۔ انسان کا ہاتھ اگر چہ نرم و نازک ہے اور پہلی بار کسی بھاری پتھر یا بوجھ کی تاب نہیں لاتا، لیکن رفتہ رفتہ یہی ہاتھ اس بوجھ کا عادی ہوجاتا ہے، یعنی ایک داخلی طاقت اس کی بناوٹ میں اس بوجھ کی مناسبت سے تغیر و تبدیلی لاتی ہے، تاکہ نئے عوامل کے سامنے ڈٹ کرمقابلہ کرسکے۔
جاندار، تغذیہ کی خاصیت رکھتا ہے، وہ خود کار (خودکفیل) اور داخلی عوامل کے زیر اثر بیرونی مواد کو اپنے لئے جذب کرتا ہے، اور اسے خاص انداز میں تجزیہ و ترکیب کے ذریعے اپنی بقا اور دوام زندگی کے کام میں لاتا ہے، لیکن یہ خاصیت بے جان چیزوں میں نہیں ہے۔ جاندار موجود اور زندہ عناصر جہاں بھی ہوں، رفتہ رفتہ ترقی کرتے اور نئی شکل و صورت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ کمال پذیر بھی ہوتے ہیں اور ہر لمحہ اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب اپنی نسل باقی رکھنے کے لائق ہوجاتے ہیں تو خود ختم ہوکر اپنے نتائج کے ذریعے اپنے وجود قائم رکھتے ہیں۔
حیات و زندگی جہاں کہیں دکھائی دیتی ہے، وہاں کے ماحول (اور فضا) پر غلبہ حاصل کرلیتی ہے اور کائنات کے بے جان عناصر کو ترکیب بدل کر نئی ترکیب و حالت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ حیات، مصور… منصوبہ ساز اور کلاکار ہے اور اس میں ترقی و تکامل کی خاصیت موجود ہے… حیات، مقصد اور صلاحیتِ انتخاب رکھتی ہے، وہ اپنی منزل و راہ کو جانتی ہے، جس راہ کو لاکھوں سال پہلے انتخاب کیا جاچکا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مقصد و منزل کی طرف بڑھتی رہتی اور جس حد سے آگے اسے کمال نہیں ملتا وہاں سے آگے نہیں بڑھتی۔
یہ تمام خواص، بے جان میں نہیں، صرف جاندار موجودات میں ہوتے ہیں۔ کرسی موریسن کے بقول: " مادہ بذات خود ذکاوت عمل (ابتکار) سے عاری اور صرف حیات ہے جوہر لمحہ خوبصورت اور نئے مناظر پیش کرتی ہے۔"
اس نکتہ سے ہم مکمل طور سے درک کرتے (سمجھتے) ہیں کہ حیات و زندگی بذات خود ایک خاص طاقت اور جداگانہ کمال و فعلیت ہے جو مادے میں پیدا ہوکر اپنی فعالیت کے علاوہ دوسری مختلف کے سرگرمیوں اور فعالیتوں کا اظہار کرتی ہے۔
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ "زیست شناسی " (حیاتیات) کے موضوع پر دانشوران مغرب کی طرف سے اس قدر عمدہ تحقیقات سامنے آچکے ہیں جو موضوع روح و بدن کے لئے بڑی اچھی زمین ہموار کرتے ہیں ہر چند خود ان دانشوروں کی مراد یہ تحقیق نہ تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ حیات و زندگی اور جاندار موجودات کے خواص کے بارے میں وہ زبردست تحقیقات عمل میں آئیں جو حیاتی طاقت کی اصالت کو مکمل طور سے واضح کرتی ہیں۔ زیادہ تر دانشوروں نے اس حقیقت کو درک کرکے اپنی تحقیقات میں حیاتی طاقت کی اصالت کی طرف اشارہ بھیکیا ہے، انہوں نے سنجیدگی سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حیاتی طاقت وہ قوت ہے جو طبیعت کے سلسلے میں مادّے پر خارج سے آتی ہے اور آثار زندگی محض مادے ک ترکیب، جمع اور تفریق سے نہیں بلکہ اسی قوت کے معلول ہیں۔ اجزاء مادہ کی ترکیب، جمع و تفریق اور تالیف حیاتی آثار کی پیدائش کے لئے شرطِ کافی نہیں بلکہ شرط لازم ہے اور جو لوگ حیاتیات کے مشہور عالم و دانشور، لامارک کی طرح حیاتی قوت کی اصالت کے منکر ہیں اور رسمی طور پر یہ اظہار کرتے ہیں کہ جاندار کی طبیعت کا مکانیکی قوانین کی رو سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ جب ان کے نظریہ کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حیاتی قوت کی اصالت کے بارے میں انکار اس لئے ہے کہ یہ لوگ حیاتی قوت کی اصالت کو دوئی اور جدائی کے برابر اور حیاتی قوت کے وجود کو مادہ اور اس کے آثار سے جدا اور منفصل مانتے ہیں۔ انہوں نے یوں سوچا کہ اگر حیاتی قوت، اصالت رکھتی ہے تو اسے ماحول سے وابستہ ہونے کے بجائے ہر فضا اور ہر حالت میں یکساں رہنا چاہیے، ماحول کے عوامل سے متاٴ ثر نہیں ہونا چاہیے۔ جسم کی فزیکی اور کیمیاوی تحریک و عمل سے تعلق و وابستگی نہ رکھنا چاہیے، حالانکہ علمی مشاہدات ان سب کے برخلاف بات ثابت کرتے ہیں۔
لامارک کہتا ہے:
"زندگی فیزیکی کیفیت کے علاوہ کچھ نہیں، زندگی کی تمام کیفیتیں فیزیکی یا کیمیاوی علل پر موقوف ہیں اور ان کا "مرکز نمو" (منشا) جاندار کی مادّی تعمیر کے اندر ہے۔"
شاید لارمک نے سوچا کہ اگر حیاتی قوت اصالت رکھتی ہے تو فیزیکی اور کیمیاوی علل سے اس کا تعلق اور اس کے (مرکز نمو) منشا کو جاندار کے مادّے میں نہ ہونا چاہیے۔
اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دیکارت کا نظریہٴ دوئی اور نظریہٴ افلاطون کی طرف اس کی الٹی دوڑ بہت مشکل سے تمام ہوئی کیونکہ اس نے دانشوروں کو اس طرف اکسایا کہ وہ حیاتی طاقت کی اصالت کے بارے میں ہی سوچتےرہیں اور حیات و بدن کے جوہری اور ذاتی رابطہ کو نگاہوں سے دور رکھیں اور دو مخالف قطبوں کو مرکز فکر بنائیں۔
کیونکہ دیکارت خود نظریہ دوئی کی راہ سے وارد میدان ہوا۔ اس نے دیکھا کہ جسم جس کی خاصیت ہے، بعد … اور نفس، جس کی خاصیت ہے، فکر و شعور اور ان دونوں کے درمیان ہیں دوگہرے درّے، لہٰذا وہ مجبور ہوگیا کہ انسان کے علاوہ دوسرے جانداروں میں حیات کو اصلی طاقت ماننے سے انکار کرے، اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ انسان کے علاوہ وہ تمام حیوانات کے اعضاء و جوارح کو نہ صرف مشینی مانتا بلکہ ان میں احساس و ادراک کا منکر بھی تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ حیوان فاقد احساس و ادراک ہے، لذّت و الم(خوشی اور دکھ درد) کو محسوس نہیں کرتا اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ خاص موقع پر چلتا، پھرتا اور گنگناتا ہے، یہ احساس و ارادہ پر منحصر نہیں، بلکہ ان مشینوں کو اس طرح سے بنایا گیا ہے، کہ وہ خاص موقعوں پر یہ آثار ظارہر کرتی ہیں اور ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ احساس و ارادہ کے تحت کررہی ہیں!!!
بہر حال، حیاتی قوت کی اصالت کا نظریہ ان نظریات میں سے ہے جو نئی علمی تحقیقات کی بنا پر مورد تائید قرار پایا ہے اور خاص طور سے تکامل (ایولوشن) انواع کے نظریہ نے حیاتی قوت کی اصالت اور مادے نیز طبیعت کے بے جان عناصر کی طاقت پر اس کے تسلّط کو پہلے سے کہیں زیادہ ثابت کردیا۔ ڈاروین جو خود اس نظریہ کا موجود ہے، اگر چہ وہ حیاتی طاقت کی اصالت کو ثابت کرنے کے حق میں نہیں، لطف یہ ہے کہ یہی شخص جو اپنے کام کی بنیاد طبیعی انتخاب پر رکھتا ہے اور طبیعی انتخاب کو محض اتفاقی تغیّر کا نتیجہ قرار دیتا ہے، جب انواع کی ترقی و پیش رفت اور تکامل کی منظم رفتار کی طرف دیکھتا ہے تو خود اپنے قول کے مطابق مجبوراً جاندار طبیعت کیلئے "وجود مشخص" کا قائل ہوجاتا ہے۔ حیاتی قوت کی اصالت کا اثبات، ڈاروین کی تحقیق کا موضوع نہ تھا۔ شروع میں اس نے کام شروع کیا تھا، لیکن خود بخود اس نتیجہ پر جاپہنچا، یہاں تک کہ اس کے زمانے ہی میں کچھ لوگوں نے اس سے کہا کہ "تم تو طبیعی انتخاب سے مراد ایک ایسی فعال طاقت لیتے تھے جو ماوراء طبیعت ہے۔" 1
وہ لوگ جنہوں نے انسانی نفسیات کے پہلوؤں کا مطالعہ کیا، بغیر اس کے کہ وہ حیاتی قوت کی اصالت کے بارے میں جستجو کریں اور بغیر اس کے کہ وہ اپنے فلسفیانہ تحقیقات کے نتائج سے آگاہ ہوں، اسی نتیجہ پر جاپہنچے۔
پیکانالیز کے مشہور و معروف ماہر نفسیات فرائیڈ نے نفسیات کے میدان میں ایک انقلاب برپا کردیا، یہ دانشور اپنے مطالعے، آزمائشوں اور تجربوں کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ عصبی بیماریوں کے لیے فیزیولوجی اور تشریح الاعضا کے علما کی صرف دماغ اور اس کے پیچ و خم پر تحقیق ناکافی ہے۔ اس نے تحت الشعور کے اس گوشے کا انکشاف کیا جس کی آگاہی و اطلاعشعور پر تحقیق ناکافی ہے۔ اس نے تحت الشعور کے اس گوشے کا انکشاف کیا جس کی آگاہی و اطلاع شعور کی سطح سے بہت گہری ہے۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پریشانیوں کی وجہ سے نفسیاتی اسباب و علل کے ظہور کی بذات خود ایک حقیقت ہے اور یہی حقیقت بیماریوں کا باعث ہوتی ہے۔ بیماریوں کا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج اور الجھنوں کو دور کرنے کے ذریعہ ہونا چاہیے اس سے جسمانی بیماری ختم ہوسکتی ہے۔
نفسیاتی اور کچھ جسمی بیماریوں کا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج کے ذریعہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔محمد بن زکریاء رازی اور ابن سینا نے بھی علمی طور پر اس طریقے کو اپنایا ہے، البتہ آج اس فن کا دائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس کی بعض صورتیں واقعا حیران کن ہونے ہونے کے ساتھ ساتھ اصالت حیات اور خاص طور سے انسان میں اصالتِ روح کی تائید کرتی ہیں لیکن فرائیڈازم میں بڑا انکشاف شعور و لاشعور اور اس کے گرہ درگرہ سلسلوں کا ہے۔ پرانے زمانے میں ملاقی ونسیاتی بیماریوں کو فقط "عادت "کے زاویے سے دیکھا جاتا تھا اورعادت اس حالت کا نام ہے جو کسی عمل کو بار بار انجام دینے سے پیدا ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ عادت: مادی حالت کی روانی جیسی حالت ہے۔ اس کی مثال ہے:
کسی ٹہنی کو دھرا کریں پھر چھوڑدیں، تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ سیدھی ہوجائے گی دوبارہ اگر اسے دوہرا کیا جائے تو دوسری بار کم سیدھی ہوتی ہے اور اگر اس عمل کو کئی بار دہرایا جائے تو دُھری ہوجائے گی۔ کہا جاتا تھا کہ عادت بھی کسی ٹہنی یا کاغذ کو دھرانے کے مانند ہے۔ اسی طرح سے کوئی بھی عمل تکرار کے نتیجہ میں دماغ پر اپنا اثر و رسوخ جماتا ہے، جیسے ہم اخلاقی برائی یا اچھائی کا نام دیتے ہیں۔ لیکن تحت الشعور یا " شعور باطن"اور "الجھنوں" کے نظریات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اخلاقی ظواہر دوسرے ظواہر سے علیحدہ اور مستقل ہیں۔
فرائیڈ اپنے نظریہ کے ذریعے حیاتی قوت کی اصالت یا مادہ پر حیات کی حکومت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا، بلکہ علمی تحقیقات جس کو وہ اہل بھی تھا۔ اس میں اہلیت و شائیستگی کا ثبوت دیا۔ لیکن جب فلسفی استنتاج و استنباط میں وارد ہوتا ہے، تو وہ شایستگی اور لیاقت کھو بیٹھتا ہے نامطلوب فرضیہ اور نظریات قائم کرتا چلاجاتا ہے۔ بہر حال اس دانشور کی علمی تحقیقات کی قدر و قیمت جو ہے وہ مسلم ہے۔
فرائیڈ کے بعض شاگردوں میں " یونگ"جیسوں نے نفسیاتی نظریات کے سلسلے میں فلسفی استنتاج و استنباط کے طرز میں اپنے استاد کی مکمل طور سے مخالفت کی اور اس نظریہ میں کافی حد تک حیاتی قوت کی اصالت کو نمایاں کیا اور وہ ان معنوں میں کہ فرائیڈ کے نظریہ کو ماوراء الطبیعت کا حامل پہلو قرار دیا۔
اس سے پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ اس سلسلے میں سب سے بڑا اعتراض محض جسم و جان اور مادہ و حیات کی نوعیتِ اختلاف کی تشخیص سے عبارت نہیں، کیونکہ یورپی محققین کے ذریعے حیاتی قوت کی اصالت کے بارے میں شواہد پیش کرنے سے پہلے انہیں سطحی مشاہدات کی مدد سے بھی اس سلسلے میں ثبوت اور دلائل فراہم ہوسکتے تھے۔ دوسرا بڑا اشکال، جسم و جان کے تعلق کے بارے میں طرز تصور کا ہے، جس نے بہت سے مفکرین اور دانشوروں کو حیاتی قوت کی اصالت کے بارے میں سوچنے سے دور رکھا اور جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ اس عظیم مشکل کا حل " صدرالمتاٴلھین"کے فلسفے میں بہت ہی اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
حیاتی قوت کی اصالت ایسا مسئلہ ہے جو ماوراء الطبیعت پہلو رکھتا ہے، اگر حیات، مادے کا اثر و خاصیت رکھتی تو ماوراء الطبیعت پہلو اس میں نہ ہوتا۔ کیوں کہ حیات و زندگی مادے میں حالت ترکیب و انفرادکے اثر کی طرح پوشیدہ رہتی، درحقیقت جب کبھی جاندار موجود پیدا ہوتا ہے تو مادے میں کسی قسم کی تخلیق یا فوق العادہ چیز رونما نہیں ہوتی، لیکن حیاتی قوت کی اصالت کے نظریہ کے مطابق، مادہ بذات خود فاقد حیات و زندگی ہے اور جب مادے میں استعداد و صلاحیت پیدا ہوتی ہے اس وقت زندگی اور حیات کا وجود ظاہر ہوتا ہے یادوسرے الفاظ میں، مادہ اپنی تکاملی سیروحرکت کے دوارن زندگی پاکر اس کمال تک رسائی حاصل کرتا ہے جو اس میں پہلے موجود نہ تھا، اسی کے نتیجہ میں وہ خاص قسم کی فعالیت حاصل ہو جاتی ہے، جس سے وہ پہلے عاری تھا، لہٰذا کسی بھی موجود کا زندہ ہونا درحقیقت اس کی خلقت و ایجاد کی دلیل ہے۔
ممکن ہے یہاں یہ کہا جائے کہ یہ بات درست ہے کہ بے جان مادہ انفرادی حالت میں حیاتی خاصیت نہیں رکھتا، لیکن مادے کے اجزاء میں ترکیب اور فعل و انفعال کے نتیجہ میں اگر حیات کی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چند مادی یا غیر مادی اجزاء جب ایک دوسرے کے ساتھ ترکیب پاکر ایک دوسرے پر متقابل اثر ڈالتے ہیں، تو اس عمل کے نتیجہ میں کچھ اجزاء اثر ڈالتے ہیں اور کچھ قبول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ " مزاج متوسط" پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات محال ہے کہ چند جزء ترکیب پاکر ایک ایسے اثر کو جنم دیں جو اجزاء ان کے " مزاج متوسط"کے آثار کے ماسوار ہے، مگر یہ کہ ان اجزاء کی ترکیب خود اپنی قوت سے بڑھ کر ایک ایسی جوہری قوت کی تشکیل کا باعث بنے جو اُن اجزاء کو واقعی وحدت بخشے، اب سوال یہ ہے کہ: مادے کے اجزاء میں ترکیب اور فعل وانفعال کے نتیجہ میں اگر حیات کی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ ایک ایسا سوال ہے جو تشریح کا محتاج ہے۔ مادے کے اجزاء میں فعل و انفعال سے مراد اگر حیاتی قوت کی تشکیل ہے اور حیاتی قوت پیدا ہوجاتی ہے تو بات قابل قبول ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ حیاتی قوت کے بغیر مادے کے اجزا ء میں حیاتی قوت کی خاصیت (جو اجزاء کی خاصیت سے مختلف سے) پیدا ہوجاتی ہے تو محال و ممتنع ہے۔
ایک مفروضہ اور باقی رہا، مفروضہ یہ ہے کہ مادہ بذات خود فاقد حیات ہے، اور حیات ایک ایسی قوّت ہے جو بے جان مادے کے تمام قوا پر مسلط ہے، لیکن یہاں پر دانشوروں کی تحقیق کے مطابق فرض کیا جائے، کہ بے جان موجودات میں (انرجی) قوت کی ایک مقدار معیّن و ثابت ہے اور انکا وجود و عدم، خلق ہونا نہیں، بلکہ مادے کے اجزاء کی جمع و تفریق اور انرجی کا نقل و انتقال سے خاص قسم کی قوت اگر حیات کے لئے بھی فرض کی جائے تو نتیجتہً حیاتی قوتیں بھی غیر حیاتی قوّتوں کی طرح خلق و ایجاد نہ ہوں گی، بلکہ، جمع و تفریق اور (انرجی) قوتوں کے نقل و انتقال کے نتیجہ میں ایک خاص موقع پر یکجا جمع ہوجائیں گی۔ لہذا زندہ ہونا بھی خلق و ایجاد نہیں۔
اس مفروضے کے بے نتیجہ ہونے کے بارے میں ہم کہیں گے: سب سے پہلے حیاتی (انرجی) قوت کے بارے میں توضٰح دی جائے، کہ آیا یہ قوت بذات خود بے جان میں ہوتی ہے یا جاندار میں؟ اور اگر دوسرے مفروضہ کے مطابق جاندار میں ہوتی ہے، تو آیا یہ ایسی شعئی ہے جو حیات رکھتی ہے؟ یعنی حیات کیا اُس شئی سے جدا اور مستقل چیز ہے، جس کے ساتھ وہ مل جل کر رہتی ہے یا کوئی تیسرا مفروضہ یعنی عین حیات ہے؟ پپہلے اور دوسرے مفروضہ کے مطابق حیاتی قوت اور دوسری قوّتوں میں (ان کے حیاتی یا باعثِ حیات ہونے کے اعتبار سے) کسی قسم کی حیات قوت نہیں۔ اس لئے کہ یہ قوت یا تو مکمل طور سے زندہ نہیں (پہلا مفروضہ) اور یا پھر باعث ِحیات وہ اضافہ شدہ چیز ہے جو اس کی ذات میں نہیں لیکن ا س سے وابستہ ہے۔ رہی تیسرے مفروضہ کی بات تو اس کے معنے یہ ہیں کہ (حیات اور حیاتی قوت) وہ مجرد موجود ہے جو اپنے آثار باقی رکھتے ہوئے تنزل پیدا کرکے مادے کی شکل اختار کرتا ہے۔ یہ محال ہے۔ البتہ تنزّل کے نام سے جو فلسفی دعویٰ کرتے ہیں کہ کائنات اور مادہ، ماوراء طبیعت کی تنزّل یافتہ شکل ہے تو اس کی نوعیت قوت کے نقل و انتقال اور تغیر اشکال کی نوعیت سے مختلف اور بذات خود ایک جدا بحث ہے۔ ان دونوںکوایک نہیں سمجھنا چاہے ۔ دوسرے یہ کہ بالفرض بے جان مادّے میں خلق و ایجاد کے منکر ہوں، اور ان موجودات کی تخلیق کو مادے کے اجزاء کی جمع و تفریق اور قوتوں کے نقل و انتقال کے سوا اور کچھ نہ جانیں، تو جاندار موجودات میں دانشوروں کی رائے کے مطابق یہ بات صادق نہین آتی۔ حیات کے خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے لئے کوئی معیّن اور ثابت مقدار فرض نہیں کی جاسکتی اور ایک نقطہ کی دوسرے نقطہ کی جانب حیات کے انتقال اور موجودات کے زندہ ہونے کو بھی درحقیقت ایک قسم کا تناسخ کہنا مناسب نہیں۔ اسلئے کہ حیات کی کوئی ثابت اورمعین مقدار نہیں، جس دن سے زمین پر حیات ظاہر ہوئی ہے اس دن سے ترقی کی طرف گامزن ہے اور اگر اتفاقاً ختم ہوجائے یعنی بہت سے جاندار موت کے گھاٹ اتر جائیں تو وہ انرجی کسی دوسرے نقطہ پر متمرکز نہیں ہوتی۔ البتہ حیات و موت ایک قسم کا بسط و قبض ہے۔ لیکن ایسا بسط و قبض جس کا تعلق کائنات کے وجودی درجہ سے کہیں بلند و بالاتر ہے، وہ فیض ہے جوغیب سے آتا اور اسی جانب واپس ہوجاتا ہے۔
مذکورہٴ بالا باتوں کی تائید کے لئے ہم یہاں پر" ازوالڈکولپہ" کی موٴلفہ کتاب " مقدمہ ای بر فلسفہ"ترجمہٴ جناب احمد آرام، سے کچھ اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ مذہب مادیت پر تنقید کرتے ہوئے " اِزوالڈ کولپہ" کہتا ہے:
" مذہب مادیت جدید علم فزکس کے قوانین میں اسے ایک اہم قانون " بقائے قوت" کی مخالفت کرتاہے، اس قانونکے مطابق دنیا میں موجود انرجی کی مکمل مقدار قائم ہے، ہمارے چاروں طرف جو تغیّرات اور تبدیلیاں نظر آتی ہیں، وہ انرجی کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک انتقال اور ایک صورت سے دوسری صورت و شکل اختیار کرنے کے سوا کچھ نہیں، اس قانون کے مطابق بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ فزکس کے آثار و ظواہر ایک " مربوط حلقے" کی تشکیل کرتے ہیںجس میں عقلی اور نفسیاتی آثار و ظواہر کی گنجائشناممکن ہے۔ لہٰذا دماغی عملیات خاص قسم کی پیچیدگی اور ابہام رکھنے کے باوجود اُن ظواہر میں محسوب ہونگےجو قانون (علّت و معلول) علیّت کے تابع ہوتے ہیں اور خارجی اثرات کے نتیجہ میں جو تغیّرات دماغ پر طاری ہونگے وہ بہر حال خالص فریکل اور کیمکل شکل میں ہوں گے پھر اسی شکل میں انہیں منتشر بھی ہونا چاہئے، اس طرح کے کلّی نظریہ سے اشیار کا(عقلانی ہونا) عقلی پہلو ہوا یں معلق رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ظواہر کی فزیکل قوت سے کچھ کم و کاست کیے بغیر نفسیاتی ظواہر کو فزیکل اور مادی تصوّر کرنا کیسے ممکن ہے؟ اس کا منطقی حل صرف یہ ہے کہ ہم عقلی عملیات کے لئے بھی اس کی دوسری کمیکل، الکٹریکل اور حرارتی اور مکاینکی قوتوں کے مدمقابل ایک خاص قوّت کے قائل ہوجائیں، اور یہ قبول کرلیں کہ اس خاص قوت اور دوسری جانی پہچانی انرجیوں کے درمیان وہی نسبت ثابت و برقرار ہے جو دوسری تمام قوتوں کے درمیان موجود ہے، لیکن یہ کہنا لازمی ہے کہ مادیت پسند علما اور دانشوروںے اس نظریہ کے بارے میں نہ اظہار خیال کیاہے اور نہ ہی کسی نے مادیت پسند تحریروں میں اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے البتہ مجموعی اعتراضات جو اس عقیدے کے مدمقابل ہیں ان پر اظہار نظر سے روکتے رہتے یں۔ تمام ہونے والے اعتراضات کی اساس یہ ہے کہ فزکس کے ماہرین، انررجی کی جو تعبیر کرتے ہیں وہ عقلی فکری ظواہر و اعمال پر ہرگز قابل انطباق نہیں ہے۔
کرسی موریسن اپنی کتاب "راز آفرینش انسان" ترجمہ محمد سعیدی "میں بیان کرتا ہے:
"جانوروں کے درمیان صاحب فکر و شعور انسان کا ظہور، اس تصورسے کہ یہ ظہور مادے کے تحوّل اور تبدیلی کا معلول ہے اور کسی خالق کا اس میں دخل نہیں" کہیں بلند و بالاتر ہے۔ اس صورت کے علاوہ انسان کو ایک مکانیکی آلہ ہونا چاہیے جس کی کارکردگی دوسرے کے ہاتھ ہے۔ اب یہ دیکھا جائے کہ اس مشین سے کاملینے اور اسے چلانے والا کون ہے؟ سائینس نے اب تک اس مشین کے چلانے والے کے بارے میں نہ کوئی تاویل پیش کی ہے اور نہ ہی اسے پہچان سکی ہے، لیکن دنیا بھر میںیہ بات مسلم ہے کہ اس مشین کو چلانے والا بذات خود مادے کا جز نہیں ہے۔"
اسی طرح کہتا ہے؛
" مادّہ، اپنے ذاتی قوانین و مقررات کے سوا کوئی عمل انجام نہیںدیتا، ذرّات اور ایٹم زمینی قوت جاذبہ اورکیمیاوی فعل و انفعالات نیز فضائی اثر اور الکٹریسٹی سے متعلق قوانین کے تابع ہیں۔ مادہ بذات خود کوئی نیا عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یہ فقط زندگی ہی ہے جو ہر لمحہ خوبصورت اور نئے نئے مناظر پیش کرتی رہتی ہے۔"
علماء و حکما، علّت و معلول یا کائنات کے رموز و اسرار سے متعلق بحث کرتے ہوئے (جیسے ابن سینا، اشارت کی دسویں تمط میں) روحی آثار و قوا کا ذکر خصوصیت سے کرتے ہیں صدرالمتاٴلھین ملا صدرا نے علّت و معلول سے متعلق بحث کو اسفار میں ایک فصل کی شکل دی ہے اور وہ اس عنوان سے کہ: "فکرو تصوّر کبھی کبھی اشیاء کے حدوث کا سبب بنتے ہیں" اس فعل سے انکی مراد مادے پر حیات کی حکومت و قاہریت نیز فکر و تصوّر کے اثرات کا اثبات ہے جو شئون حیات میں داخل ہے۔
اس فصل کے اجزا (پیراگراف اور ضمنی مباحث) میں ایک موضوع یہ بھی چھیڑا ہے کہ صحت و بیماری کی ایجاد میں سمجھنے سمجھانے اور توہم کے اثرات کا بھی دخل ہے۔
بحث بہت طویل و دلچسپ 2 ہے مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ آج کے دور میں اس پرانے اور دقیانوسی طرز فکر (دنیا محض مشینی دنیا ہے اور خلقتِ ذرّات کی تاٴلیف و ترکیب اور جمع و تفریق کے سوا اور کچھ نہیں) کہ کوئی گنجائیش نہیں رہ گئی، بات اس کے آگے بڑھ چکی ہے۔
دانشوروں کی تحقیقات نے مادیت پسندوں کے غرور کو مکمل طور سے ختم کردیا ہے اور اب کوئی ڈیکارتے اور دوسروں کی طرح یہ نہیں کہے گا کہ "مادہ اور حرکت مجھے دے دو میں دنیا بناؤں گا" دنیا کی شاخیں اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ ہم اسے مادہ، اور مادے کی حسیّ اور عرضی حرکت میں محصور کرسکیں۔
---
1. دارونیسم: تالیف ڈاکٹر محمود بہزاد طبع پنجم ص ۹۹
2. تفہیم و تلقین اور اس کے اثرات "تداوی روحی" تالیف کاظم زادہ ایرانشہر