شیخ طوسی
شیخ طوسی
محمد بن حسن بن علی بن حسن (385۔460 ھ)، شیخ طوسی و شیخ الطائفہ کے نام سے معروف مایہ ناز شیعہ فقہاء اور محدثین میں سے ہیں۔ آپ کتب اربعہ میں سے دو کتابوں التہذیب الاحکام اور الاستبصار کے مؤلف ہیں۔ 23 سال کی عمر میں خراسان سے عراق آئے اور شیخ مفید اور سید مرتضی جیسے اساتید سے کسب فیض کیا۔ اپنے زمانے کے عباسی خلیفہ نے بغداد میں علم کلام کی تدریس کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی۔ جب شاپور لائبریری آگ لگنے کی وجہ سے جل گئی تو آپ ناچار نجف چلے گئے اور وہاں حوزہ علمیہ نجف کی بنیاد رکھی۔ شیخ طوسی سید مرتضی کی وفات کے بعد شیعیان جہاں کے مرجعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔
ان کے فقہی نظریات اور تحریریں جیسے نہایہ، الخلاف اور مبسوط شیعہ فقہاء کی توجہ کا مرکز ہیں۔ التبیان آپ کی اہم ترین تفسیری کتاب ہے۔ شیخ طوسی دوسرے اسلامی علوم جیسے رجال، کلام اور اصول فقہ وغیرہ میں بھی صاحب نظر تھے اور ان علوم میں بھی ان کی کتابیں کافی شہرت کی حامل ہیں۔ انہوں نے شیعوں کے طریقہ اجتہاد میں ایک تحول ایجاد کیا اور اس کے مباحث کو وسعت دی اور اہل سنت کے اجتہاد کے مقابلے میں اسے الگ تشخص اور استقلال عطا کیا۔ ان کے نامور شاگردوں میں ابوالصلاح حلبی کا نام نمایاں ہے۔
فہرست
زندگی نامہ
شیخ طوسی رمضان سنہ 385 ہجری، شیخ صدوق کی وفات کے 4 سال بعد ایران کے شہر خراسان میں متولد ہوئے۔[1] آپ کی کنیت ابو جعفر ہے اور کبھی کبھار آپ کو شیخ کلینی اور شیخ صدوق کے مقابلے میں چونکہ ان کی کنیت بھی ابو جعفر ہیں آپ کو ابو جعفر ثالث کہا جاتا ہے۔
شیخ طوسی سنہ 408 ہجری کو 23 سال کی عمر میں عراق تشریف لے گئے اور 5 سال تک شیخ مفید کی شاگردی میں رہے۔ آپ شیخ مفید کے علاوہ 3 سال حسین بن عبداللہ غضائری و نیز ابن حاشر بزاز، ابن ابی جید اور ابن الصلت کے شاگرد بھی رہے ہیں۔ آپ نے سید مرتضی کو بھی درک کیا ہے۔[2]
عباسی خلیفہ القائم بامر اللہ نے بغداد میں علم کلام کی تدریس آپ کے سپرد کی۔ آپ کی شاگردی میں تقریبا 300 علماء شامل تھے آپ اسی منصب پر فائز رہے یہاں تک کہ سلجوقی ترکیوں نے بغداد فتح کیا اور سنہ 447 میں طغرل بغداد میں آئے اور اس نے شاپور لائبریری کو جلا ڈالا۔
سنہ 448 کو اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان تصادم ہوا۔ ابن جوزی کہتے ہیں انہی حوادث کے دوران شیخ طوسی بغداد سے چلے گئے اور سنہ 449 میں آپ کا گھر مسمار کیا گیا۔ اس کے بعد آپ نجف اشرف چلے گئے اور حوزہ علمیہ نجف کی بنیاد رکھی اگرچہ کہا جاتا ہے کہ یہ حوزہ ان سے قبل بھی موجود تھا۔[3]
شیخ طوسی نے اپنی عمر کے آخری 12 سال نجف اشرف میں ہی گزاریں ہیں۔[4]
آپ کا خاندان
شیخ طوسی کا حسن کے نام سے ایک بیٹا تھا اپنے والد گرامی کی رحلت کے بعد نجف میں ہی زندگی بسر کی یہاں تک کہ شیعہ مرجعیت تک پہنچے۔ شیخ کا اپنے بیٹے حسن سے ایک پوتا بنام محمد تھا جنکی کنیت ابوالحسن تھا اپنے زمانے کے شیعہ مراجع میں سے تھے اور سنہ 530 ق کو نجف اشرف میں اس دنیا سے رحلت کر گئے۔[5]
علمی کارنامے
علمی مقام
شیخ طوسی شیعہ فقہاء میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے یہاں تک کہ انہیں شیخ الطائفہ یعنی فقہاء کا استاد کہا جاتا تھا۔ انہوں نے علم فقہ اور اصول میں مطلق اجتہاد کی بنیاد رکھی۔ علم فقہ میں جب بھی لفظ "شیخ" استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد شیخ طوسی ہوا کرتا ہے۔ آپ کتب اربعہ میں سے دو مایہ ناز کتاب استبصار اور تہذیب الاحکام کے مؤلف ہیں۔[6]
شیخ طوسی کے بعد کسی میں ان کے نظریات سے مخالفت کرنے کی جرأت نہیں تھی یہاں تک کہ ابن ادریس (متوفی 597 ھ) نے ان کے نظریات پر تنقید شروع کی۔ آپ کی کتاب نہایہ شیعہ مدارس میں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں میں شامل تھی۔ جب محقق حلی (متوفی 676 ھ) نے کتاب شرایع الاسلام لکھی تو طلاب علوم دینی اس کتاب کو شیخ طوسی کی کتابوں سے پہلے پڑھتے تھے۔ شیخ طوسی نے علم فقہ کے تمام ابواب میں کتابیں تألیف کی ہیں اور ہر شعبے میں انکی کتابیں متأخرین کیلئے مرجع علمی ہوا کرتی تھی کیونکہ ان سے پہلے موجود بہت سارے منابع کرخ میں شاپور لائبریری کی آگ لگنے کے وقت جل کر راکھ ہو گئی تھیں۔ [7]
آپ کے اساتید
شیخ طوسی کے اساتید بہت زیادہ ہیں۔ میرزا حسین نوری نے مستدرک وسائل الشیعہ میں [8]، 37 افراد کو ان کے اساتید کے عنوان سے ذکر کیا ہے لیکن شیخ طوسی اکثرا جن اساتید سے روایات نقل کرتے ہیں ان کی تعداد 5 ہے:[9]
شیخ ابو عبداللہ احمد بن عبدالواحد بن احمد بزاز، معروف بہ ابن حاشر و ابن عبدون متوفی 423 ھ
شیخ احمد بن محمد بن موسی، معروف بہ ابن صلت اہوازی متوفی 408 ھ
شیخ حسین بن عبیداللہ بن غضائری، متوفی 411 ھ
شیخ ابوالحسین علی بن احمد بن محمد بن ابی جید، متوفی بعد از 408 ھ
ابو عبداللہ محمد بن محمد بن نعمان مشہور بہ شیخ مفید، متوفی 413 ھ
آپ کے شاگرد
اہل تشیع اور اہل سنت کے 300 سے زیادہ مجتہدین و علماء نے شیخ طوسی کی شاگردی اختیار کی ہیں۔ جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:[10]
آدم بن یونس بن ابی مہاجر نسیفی
ابوبکر احمد بن حسین بن احمد خزاعی نیشابوری
ابوطالب اسحاق بن محمد بن حسن بن حسین بن محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی
ابو ابراہیم اسماعیل برادر اسحاق مذکور
ابو الخیر برکۃ بن محمد بن برکۃ اسدی
ابوالصلاح تقی بن نجم الدین حلبی
ابو ابراہیم جعفر بن علی بن جعفر حسینی
شمس الاسلام حسن بن حسین بن بابویہ قمی، معروف بہ حسکا
ابو محمد حسن بن عبدالعزیز بن حسن جبہانی
ابو علی حسن بن شیخ الطائفۃ محمد بن حسن طوسی
موفق الدین حسین بن فتح واعظ جرجانی
محیی الدین ابو عبداللہ حسین بن مظفر بن علی بن حسین حمدانی
ابو الصمصام و ابوالوضاح ذوالفقار بن محمد بن معبد حسینی مروزی
زین بن علی بن حسین حسینی
زین بن داعی حسینی
سعد الدین بن براج
ابو الحسن سلیمان بن حسن بن سلمان صہرشتی
شہرآشوب سروی مازندرانی، جد شیخ محمد بن علی مؤلف معالم العلماء و المناقب
صاعد بن ربیعۃ بن ابی غانم
عبدالجبار بن عبداللہ بن علی المقرئ رازی معروف بہ مفید
ابو عبداللہ عبدالرحمن بن احمد حسینی خزاعی نیشابوری معروف بہ مفید
موفق الدین ابوالقاسم عبیداللہ بن حسن بن حسین بن بابویہ
علی بن عبدالصمد تمیمی سبزواری
غازی بن احمد بن ابی منصور سامانی
کردی بن عکبر بن کردی فارسی
جمال الدین محمد بن ابی القاسم طبری آملی
ابو عبداللہ محمد بن احمد بن شہریار خازن غروی
محمد بن حسن فتال نیشابوری، صاحب روضۃ الواعظین
ابوالصلت محمد بن عبدالقادر بن محمد
ابوالفتح محمد بن علی کراجکی
ابو جعفر محمد بن علی بن حسن حلبی
ابوعبداللہ محمد بن ہبۃ اللہ الطرابلسی
سید مرتضی ابوالحسن مطہر بن ابی القاسم علی بن ابی الفضل محمد حسینی دیباجی
منتہی بن ابی زید بن کیابکی حسینی جرجانی
منصور بن حسین آبی
ابوابراہیم ناصر بن رضا بن محمد بن عبداللہ علوی حسینی
علمی آثار
تفصیلی مضمون: شیخ طوسی کے آثار
شیخ طوسی مختلف علوم جیسے فقہ، کلام، تفسیر اور رجال وغیرہ میں بے شمار علمی آثار کے مالک ہیں۔ ان کے بعض علمی آثار محو ہو چکے ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے شیخ طوسی کے علمی آثار کی فہرست کو کتاب نہایہ کے مقدمے میں ذکر کیا ہے۔[11]
وفات
شیخ طوسی نے اپنی عمر کے آخری 12 سال نجف میں زندگی گزاری اور سوموار کی رات 22 محرم سنہ 460 ہجری میں وفات پائی۔ ان کے شاگرد حسن بن مہدی سلیقی، حسن بن عبدالواحد عین زربیاور ابوالحسن لولوی نے انہیں غسل دیا اور ان کے گھر میں ہی انہیں سپرد خاک کیا گیا۔[12]
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا گھر ابھی بھی دینی علوم کیلئے درسگاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اب یہ مسجد میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مسجد شیخ طوسی (جسے جامع الشیخ الطوسی بھی کہا جاتا ہے) آج کل نجف اشرف کی مشہور ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ اب تک کئی بار توسیع و تعمیر کی گئی ہے۔[13]
حوالہ جات
1. ↑ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، ص۱۶۱.
2. ↑ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، ص۱۶۱.
3. ↑ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، صص۱۶۲- ۱۶۱.
4. ↑ دوانی، سیری در زندگی شیخ طوسی، در هزاره شیخ طوسی، ص۲۰.
5. ↑ الامین، اعیان الشیعہ، ج۹، ۱۶۰.
6. ↑ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعۃ، ص۱۶۲.
7. ↑ آقابزرگ، طبقات اعلام الشیعۃ، ص۱۶۲.
8. ↑ ج ۳، ص۵۰۹
9. ↑ شیخ طوسی، نہایہ، مقدمہ آقا بزرگ، صص۳۲-۳۱.
10. ↑ شیخ طوسی، نہایہ، مقدمہ آقا بزرگ، صص۳۶-۳۹.
11. ↑ شیخ طوسی، نہایہ، مقدمہ آقا بزرگ، صص۱۷-۳۱.
12. ↑ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعۃ، ص۱۶۲.
13. ↑ علوی، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ص۱۵۰
مآخذ
آقا بزرگ تهرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعة، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۳۰ھ
امین، سید محسن، اعیان الشیعة، تحقیق: حسن الامین، بیروت، ۱۴۰۶ق-۱۹۸۶ء
دوانی، علی، سیری در زندگی شیخ طوسی، هزاره شیخ طوسی، تهران، مؤسسہ انتشاراتی امیر کبیر، ۱۳۶۲ش
رضا زاده عسکری، زهرا، «نقش شیخ طوسی در ایجاد نهضت علمی با تأکید بر تطور فقهی»، در مجلہ پژوهش دینی، شماره ۱۲، زمستان ۱۳۸۴ش
طوسی، محمد بن حسن، النهایة فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتاب العربی، بیتا
علوی، سید احمد (گردآوری)، راهنمای مصور سفر زیارتی عراق، قم، معروف، ۱۳۸۹ش
غلامی، طاهره، «نگاهی بہ نخستین تفسیر جامع و کامل جهان تشیع؛ مروری بر کتاب شیخ طوسی و تفسیر تبیان»، در مجلہ کتاب ماه دین، شماره ۱۷۶، خرداد ۹۱
گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقها، تهران، سمت، ۱۳۸۵ش