ظہور سے صدیوں قبل امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت
سوال: ظہور سے صدیوں قبل امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوچکی ہے اورآپ طویل عمر کے بعد ظہور فرمائیں گے آخر اس کی مصلحت کیا ہے؟
کیا خداوندعالم میں اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ظہور سے چالیس سال قبل ایسے باصلاحیت اور ایسی اہم ذمہ داری کے لئے شائستہ فرد کو خلق فرمادے؟
آخر ظہور اور قیام سے سینکڑوں سال قبل آپ کی پیدائش کا کیا فائدہ ہے اور ان تمام باتوں سے قطع نظر، غائب اور مخفی امام سے کیا حاصل ہے؟ کیا ایسے امام کا وجود وعدم مساوی نہیں ہے؟
جواب: یہ سوال درحقیقت ”فلسفہٴ غیبت“کے بارے میںہی ہے اس سے الگ کوئی جدید سوال نہیں ہے ہرچند گزشتہ مقالات میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جاچکا ہے پھر بھی یہاں اس سوال کے مختلف جوابات پیش کئے جارہے ہیں۔
پہلاجواب: وجود امام کے فائدہ کو صرف ظہور، آخرزمانہ میں قیام اور ظاہر بہ ظاہر امور تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ وجود امام کا ایک فائدہ مخلوق کی تباہی سے حفاظت، دین وشریعت کی فضا اور خدا کی حجت کا اہتمام بھی ہے،جیسا کہ اس سلسلہ میں معتبر روایات پائی جاتی ہیں یہ روایات ہماری کتب میں بھی مذکور ہیں اور برادران اہل سنت نے بھی انھیں نقل کیا ہے مثلا بارہ اماموںسے متعلق روایات سے بھی اس بات کا استفادہ ہوتا ہے، متعدد روایات کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی چنانچہ روایات کے مطابق امیرالمومنین حضرت علی نے فرمایا:
”اللھم بلیٰ لا تخلو الارض من قائمٍ للّٰہ بحجة اما ظاہراً مشہوراً اوخائفا مغمورالئلا تبطل حجج اللّٰہ وبیناتہ“(۱)
”خدا یا! بے شک زمین حجت الٰہی اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی چاہے وہ ظاہر وآشکار ہو یا خائف ومخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔“
اس عالم ہستی میں امام کی وہی حیثیت ہے جو کہ بدن انسانی میں قلب یاروح کی ہوتی ہے کہ حکم الٰہی سے یہی روح تمام اعضاء وجوارح کے باہمی رابطہ کی ذمہ دار ہے اور اسی کے تعلق وتصرف سے جسم کی بقا وابستہ ہے۔ ”انسان کامل“ اور ”ولی“ یعنی امام بھی باذن الٰہی تمام مخلوقات کے لئے اسی مقام و منزلت کا حامل ہوتا ہے،اسی طرح وجود امام کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ روایات کے بموجب لوگوں کے درمیان مومن کا وجود خیروبرکت اور نزول رحمت کا سبب ہوتا ہے اور اس کے باعث پروردگار کی خصوصی عنایات عطا ہوتی ہیں اور بے شمار بلائیں دفع ہوتی ہیں اگر ایک عام مومن کے وجود کے اتنے برکات وفوائد ہیں تو ”امام“ اور ”ولی اللہ الاعظم “ کے وجود اقدس کے فوائد وبرکات کتنے زیادہ ہوں گے!
باالفاظ دیگر امام اور حجت خدا واسطہٴ فیض الٰہی ہے،خدا اور بندگان خدا کے درمیان واسطہ ہے، جن برکات وفیوض الٰہیہ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہے امام ان فیوض وبرکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہے، لہٰذا حضرت کی طولانی عمراور ظہور سے صدیوں قبل آپ کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں بھی بندگان خدا الطاف الٰہیہ سے محروم نہ رہیں اور وجود امام کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں۔
دوسرا جواب: امور میں ظاہر بہ ظاہر مداخلت اور تصرف نہ کرنے کے ذمہ دار امام علیہ السلام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جوآپ کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور مخالفت پر کمربستہ ہیں جیسا کہ آپ کے آباء واجداد طاہرین کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر آمادہ ہوتے تو حضرت ظاہر ہی رہتے، محقق طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”تحرید الاعتقاد“ میں یہی جواب تحریر فرمایاہے:
”وجودہ لطف وتصرفہ لطف آخر وعدمہ مِنّا“(2)
”امام کا وجود بھی لطف (اطاعت ومصالح سے نزدیک اور معاصی ومفاسد سے دور کرنے والا) ہے اور امام کاتصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔“
خلاصہٴ کلام یہ کہ امام کا وجود لطف اور بندگان خدا پر اتمام حجت کا سبب ہے اور اگر اس طویل مدت میں ولایت وہدایت کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو لوگوں کو خدا کے خلاف دلیل حاصل ہوجائے گی، اپنے دیگر صفات کمالیہ مثلا رحمانیت، رحیمیت، ربوبیت کے مانند امام کی خلقت اور ہدایت کے لئے آپ کی تعیین کے ذریعہ خداوندعالم نے تربیت وہدایت کی نعمت کو بھی منزل کمال تک پہنچا دیا ہے کہ ارشاد خداوندی ہے:
”الیوم اکملت لکم دینکم“(3)
اب اگر لوگ اس عظیم نعمت سے بہرہ مندنہ ہوں اورآفتاب ہدایت کی شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو اس سے امام کے وجود پر اعتراض نہیں ہوسکتا جیسا کہ اگر لوگ دوسری نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دیں یا مزید برآں ان کا غلط استعمال کریں تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ انھیں خلق کیوں کیا گیا؟ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کررہے ہیں تو ان کا فائدہ کیا ہے؟ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بلکہ ایسے موقع پر تو یہ کہا جانا چاہئے کہ جب فیاض خدا نے اپنے بے پایاں فیض کے باعث ان
نعمتوں کو خلق فرماکر لوگوں کے حوالہ کردیا تو لوگ کیوں ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور کیوں کفران نعمت کررہے ہیں؟
تیسرا جواب: ہم یہ بات قطعی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مکمل طریقہ سے اپنے تمام دوستوں اور برگزیدہ اشخاص سے بھی پوشیدہ ہیں اور جہاں مصلحت ہوتی ہے وہاں انھیں برگزیدہ افراد کے واسطہ سے تائید وحمایت کے ذریعہ امور میں مدد نہیں فرماتے۔
چوتھاجواب: یہ طے شدہ ہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت لوگوں کی نگاہوں سے پنہاں ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ بھی آپ کی نگاہوں سے اوجھل ہیں بلکہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حج کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ حج بجالاتے ہیں اپنے اجداد کی زیارت کرتے ہیں زائرین وحجاج کے درمیان تشریف فرما ہوتے ہیں، مظلوموں کی فریاد رسی کرتے ہیں بیماروں کی عیادت فرماتے ہیں اور بسا اوقات بہ نفس نفیس لوگوں کی مشکلات برطرف فرماتے ہیں۔
پانچواں جواب: امام کے لئے یہ لازم وضروری نہیں ہے کہ براہ راست اور بلاواسطہ امور میں دخیل ہو بلکہ وہ دوسروں کو بطور خاص یا عام طور پر اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے جیسا کہ امیرالمومنین اور دیگر ائمہ دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندہ معین فرماتے تھے اسی طرح غیبت صغریٰ کے زمانہ میں امام علیہ السلام نے نائب خاص معین فرمائے تھے اور غیبت کبریٰ کے لئے بھی آپ نے معاملات اور اختلافات کے حل ، اجرائے سیاست اور مصالح اسلامی کے تحفظ ونظارت کے لئے احکام کی باریکیوں سے واقف، عادل علماء وفقہاء کو بطور عام منصوب ومعین فرمایا ہے جو آپ کے بعد زمانہٴ غیبت میں ظاہری طور پر حفاظت شریعت کے ذمہ دار اور لوگوں کے لئے مرجع ہیں اور فقہ کی کتب میں مذکور تفصیلات کے مطابق فقہا کو آپ کی نیابت میں ولایت بھی حاصل ہے۔
چھٹا جواب: امام کا محض موجود ہونا ہی بندگان خدا اور سالکان راہ ہدایت کی تقویت قلب وروح کا باعث ہے بہ الفاظ دیگر سالکان راہ خدا کے لئے ایک مرکز اور تکیہ گاہ ہے، یہ صحیح ہے کہ سب کے لئے مرکز اعتماد خدا کی ذات ہے اور ہر ایک اسی کی ذات پر اعتماد کرتا ہے لیکن جنگوں میں پیغمبراسلام کی موجودگی مجاہدوں کی تقویت قلب کا ذریعہ تھی اور آپ کی موجودگی کے تصور سے ہی سپاہیوں کے حوصلے بلند رہتے تھے اورآپکی عدم موجودگی سے بہت فرق پڑتا تھا اس چیز کو امیرالمومنین جیسی شخصیت کے قول کی روشنی میں بہتر طریقہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین کا ارشاد ہے:
”کنا اذا احمرّ الباٴس اِتقینا برسول اللہ فلم یکن احدٌ منا اقرب الی العدو منہ“(4)
”جب شدید جنگ ہوتی تھی تو ہم لوگ رسول خدا کی پناہ میں چلے جاتے تھے کہ آپ سب سے آگے ہوتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی پیغمبر سے زیادہ دشمن سے نزدیک نہیں ہوتا تھا۔“
ہم زندہ امام کے ماننے والے ہیں، امام ہی ہمارا ملجا وماویٰ اور محافظ شریعت ہے یہی تصور قوت قلب اور استحکام روح کا باعث ہے اور سالکین ومجاہدین راہ خدا پر کسی طرح کی مایوسی یا ناامیدی طاری نہیں ہونے پاتی، بلکہ قدم، قدم پرآپکی ذات بابرکت سے استمداد کرتے رہتے ہیں اورہمت وحوصلہ کی درخواست کرتے ہیں، یہ چیز نفسیاتی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
مثل مشہور ہے (مثل برائے مثل ہوتی ہے اس پر اعتراض نہیں کیا جاتا) کہ نادر شاہ افشار نے مورچہ خوار کی جنگ میں ایک فوجی کوپوری شجاعت کے ساتھ جنگ کرتے دیکھا کہ تنہا فوجی دشمنوں کی فوج کو تہہ وبالا کررہا ہے اسے بہت تعجب ہوا، نادرشاہ نے فوجی سے پوچھا: افغانیوں کے حملہ کے وقت تم کہاں تھے؟ (کہ اس وقت ایسی جنگ نہ کی) بہادر فوجی نے جواب دیا میں تو وہیں تھا
(جنگ میں مصروف تھا) مگر آپ نہیں تھے۔
لہٰذا نفسیاتی لحاظ سے بھی تقویت قلب وروح کی خاطرمومنین کے لئے وجود امام جیسی معتبر پناہ گاہ ضروری ہے یہ بھی ایک اہم فائدہ ہے اور ایسے فائدہ کے لئے بھی امام کی تعیین عقلاً وشرعاًحتمی وقطعی طور پر لازم ہے۔
____________________
مفکرجلیل آیةالله لطف اللہ صافی گلپائیگانی مدظلہ کی گراں قدر کتاب” نوید امن وامان” سے اقتباس
(۱)نہج البلاغہ صبحی صالح، ص۴۹۷ کلام ۱۴۷۔
(۲)تجرید الاعتقاد، بحث امامت۔
(۳) ”آج میں نے آپ کے لیے آپ کے دین کو کا مل کر دیا“۔سورہٴ مائدہ آیت ۳۔
(۴)نہج البلاغہ،ص۲۱۴،حیرت انگیز کلمات ۹۔