امام زمانہ کی ولادت سے متعلق روایات
شیعہ اثنا عشری محدثین، مورخین اور علم رجال کے مصنفین نے تو امام زمانہ کی ولادت سے متعلق روایات کو صحیح اور معتبر منابع ومدارک کی بنیاد پر اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہی ہے،
آپ کے پدر بزرگوار کی حیات طیبہ اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے دوران سینکڑوں قابل اعتماد اور ثقہ افراد کو آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے،بےشمار معجزات آپ کی ذات سے ظاہر ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ اہل سنت کے بہت سے مشہور علماء نے بھی اپنی کتب میں آپ کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، بعض حضرات تو آپ کی امامت ومہدویت کے معتقد تھے، بعض حضرات نے اظہار عقیدت اور مدح سرائی کے لئے عربی یا فارسی میں اشعار کہے یہاں تک کہ بعض حضرات تو آپ کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہونے اور بہ نفس نفیس آپ سے حدیث سننے کے مدعی ہیں، ہم نے ان میں سے بعض حضرات کے اقتباسات اپنی کتاب منتخب الاثر میں ذکر کئے ہیں لیکن یہاں اختصار کے پیش نظرصرف ان کے اسماء پر اکتفا کررہے ہیں:
۱۔ ابن حجر ہیثمی مکی شافعی، (متوفیٰ سال ۹۷۴)۔
۲۔ موٴلف روضة الاحباب سید جمال الدین، (متوفی ۱۰۰۰ء )۔
۳۔ ابن الصباغ علی بن محمد مالکی مکی، (متوفیٰ ۸۵۵ء)۔
۴۔ شمس الدین ابو المظفر یوسف، موٴلف التاریخ الکبیر وتذکرة الخواص، (متوفیٰ ۶۵۴ء)۔
۵۔ نور الدین عبدالرحمن جامی معروف، صاحب کتاب شواہد النبوہ۔
۶۔ شیخ حافظ ابو عبداللہ محمد بن یوسف گنجی، صاحب کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان و دیگر کتب(متوفیٰ ۶۵۸ء)۔
۷۔ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، (متوفی ۴۵۸ء)۔
۸۔ کمال الدین محمدبن طلحہ شافعی، (متوفی ٰ ۶۵۲ء)۔
۹۔ حافظ بلاذری ابو محمد احمد بن ابراہیم طوسی، (متوفیٰ ۳۳۹ء)۔
۱۰۔ قاضی فضل بن روز بہان، شارح کتاب الشمائل ترمذی۔
۱۱۔ ابن الخشاب ابو محمد عبداللہ بن احمد، (متوفیٰ ۵۶۷ء)۔
۱۲۔ شیخ وعارف شہیر محی الدین، صاحب کتاب الفتوحات، (متوفیٰ ۶۳۸ء)۔
۱۳۔ شیخ سعد الدین حموی۔
۱۴۔ شیخ عبدالوہاب شعرانی موٴلف الیواقیت والجواہر، (متوفیٰ ۹۷۳ء)۔
۱۵۔ شیخ حسن عراقی۔
۱۶۔ شیخ علی الخواص۔
۱۷۔ ابن اثیر، موٴلف تاریخ کامل۔
۱۸۔ حسین بن معین الدین میبدی، صاحب شرح دیوان۔
۱۹۔ خواجہ پارسا محمد بن محمد بن محمود بخاری، ( ۸۲۲ء)۔
۲۰۔ حافظ ابوالفتح محمد بن ابی الفوارس، صاحب کتاب الاربعین۔
۲۱۔ ابوالمجد عبدالحق دہلوی ،(ستر کتابوں کے موٴلف ۱۰۵۲ء)۔
۲۲۔ شیخ احمد جامی نامقی۔
۲۳۔ شیخ فریدالدین عطار نیشاپوری معروف۔
۲۴۔ جلال الدین محمد رومی، صاحب مثنوی، (متوفی ٰ ۶۷۲ء)۔
۲۵۔ شیخ صلاح الدین صفدی، (متوفیٰ ۷۶۴ء)۔
۲۶۔ مولوی علی اکبر بن اسد اللہ ہندی صاحب کتاب مکاشفات۔
۲۷۔ شیخ عبدالرحمن صاحب کتاب مراٴة الاسرار۔
۲۸۔ شعرانی کے بعض مشایخ ۔
۲۹۔ مصرکے ایک عالم ، بہ نقل شیخ ابراہیم حلبی۔
۳۰۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی، صاحب تفسیر البحر المواج و کتاب ہدایة السعداء۔
۳۱۔ شیخ سلیمان قندوزی بلخی، (متوفی ۱۲۹۴ ھء)۔
۳۲۔ شیخ عامر بن عامر البصری صاحب قصیدہ تائیة ”ذات الانوار“۔
۳۳۔ قاضی جواد سابطی۔
۳۴۔ صدر الدین قونوی صاحب تفسیر الفاتحہ ومفتاح الغیب۔
۳۵۔ عبداللہ بن محمد مطیری مدنی، موٴلف کتاب الریاض الزاھرہ۔
۳۶۔ شیخ محمد سراج الدین رفاعی، موٴلف صحاح الاخبار۔
۳۷۔ میر خواند محمد بن خاوند شاہ، موٴلف تاریخ روضة الصفا، (متوفیٰ ۹۰۳ء)۔
۳۸۔ نضر بن علی جہضمی عالم و محدث معروف۔
۳۹۔ قاضی بہلول بہجت افندی، موٴلف کتاب محاکمہ در تاریخ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۴۰۔ شیخ محمد ابراہیم جوینی، (متوفی ٰ ۱۱۷۴ء)۔
۴۱۔ شیخ شمس الدین محمد بن یوسف زرندی، موٴلف معراج الوصول۔
۴۲۔ شمس الدین تبریزی، شیخ جلال الدین رومی۔
۴۳۔ ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں آپ کی تاریخ ولادت معین کی ہے۔
۴۴۔ ابن ارزق در تاریخ میافارقین۔
۴۵۔ مولی علی قاری صاحب کتاب مرقاة درشرح مشکاة۔
۴۶۔ قطب مدار۔
۴۷۔ ابن وردی مورخ۔
۴۸۔شبلنجی، موٴلف نورالابصار۔
۴۹۔ سویدی، سبائک الذہب۔
۵۰۔ شیخ الاسلام ابراہیم بن سعد الدین۔
۵۱۔ صدر الائمہ موفق بن احمد مالکی خوارزمی۔
۵۲۔مولی حسین بن علی کاشفی، موٴلف جواہر التفسیر، (متوفیٰ ۹۰۴ء)۔
۵۳۔ سید علی بن شہاب ہمدانی، موٴلف ”المودة فی القربیٰ“
۵۴۔ شیخ محمد صبان مصری، (متوفی ۱۲۰۵ء)۔
۵۵۔ الناصر لدین اللہ خلیفہٴ عباسی۔
۵۶۔ عبدالحی بن عمار حنبلی، موٴلف شذرات الذھب، (متوفی ٰ ۱۰۸۹ء)۔
۵۷۔ شیخ عبدالرحمن بسطامی، در کتاب درة المعارف۔
۵۸۔ شیخ عبدالکریم یمانی۔
۵۹۔ سید نسیمی۔
۶۰۔ عماد الدین حنفی۔
۶۱۔ جلال الدین سیوطی۔
۶۲۔ رشید الدین دھلوی ہندی۔
۶۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی۔
۶۴۔ شیخ احمد فاروقی نقشبندی۔
۶۵۔ ابوالولید محمد بن شحنہ حنفی، در تاریخ روضة المناظر۔
۶۶۔ شمس الدین محمد بن طولون مورخ شہیر، درکتاب الشذرات الذہبیہ، (متوفیٰ ۹۵۳ء)۔
۶۷۔ شبراوی شافعی،سابق رئیس جامعہ ازہر و موٴلف کتاب الاتحاف۔
۶۸۔ یافعی، موٴلف تاریخ مراٴة الجنان،
۶۹۔ محمد فرید وجدی در دائرة المعارف۔
۷۰۔ عالم محقق شیخ رحمة اللہ ہندی، موٴلف اظہار الحق۔
۷۱۔ علاء الدین احمد بن محمد السمانی۔
۷۲۔ خیر الدین زرکلی در کتاب الاعلام، ج۶ص۳۱۰۔
۷۳۔ عبدالملک عصامی مکی۔
۷۴۔ محمود بن وہیب القراغولی بغدادی حنفی۔
۷۵۔ یاقوت حموی در معجم البلدان، ج۶ ص۱۷۵۔
۷۶۔ موٴلف تاریخ گزیدہ، ص۲۰۷،۲۰۸، طبع لندن، ۱۹۱۰ءء۔
۷۷۔ ابوالعباس قرمانی احمد بن یوسف دمشقی در اخبار الدول وآثار الدول۔
حضرت ولی عصر علیہ السلام کی ولادت باسعادت اور آپ کے وجود مبارک سے متعلق روایات بھی بے شمار ہیں، ہم نے اپنی کتاب منتخب الاثر کی فصل سوم کے باب اول میں اس موضوع سے متعلق دو سو سے زیادہ روایات نقل کی ہیں،علامہ سید میر محمد صادق خاتون آبادی اپنی کتاب اربعین میں فرماتے ہیں کہ ”شیعوں کی معتبر کتب میں حضرت مہدی کی ولادت، غیبت، آپ کے بارہویں امام اور فرزند حسن عسکری ہونے پر ایک ہزار سے زائد روایات موجود ہیں۔“
امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت کوبیان کرنے والی تفصیلی روایات معتبر کتب حدیث میں موجود ہیں، انھیں روایات میں سے ایک تفصیلی روایت ینابیع المودة کے مولف اور اہل سنت کے معروف عالم فاضل قندوزی نے اپنی کتاب کے ص۴۴۹ اور ۴۵۱ پر نقل کی ہے ان کے علاوہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب ”غیبت“ میں اور شیخ صدوق نے ”کمال الدین“ میں صحیح اور معتبر سند کے ساتھ جناب موسیٰ بن محمد بن قاسم بن حمزة بن موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے اور انہوںنے امام محمد تقی علیہ السلام کی دختر جناب حکیمہ خاتون سے نقل کیا ہے کہ جناب حکیمہ نے فرمایا:
امام حسن عسکری نے ایک شخص کے ذریعہ میرے پاس کہلایا کہ پھوپھی آج شب نیمہٴ شعبان آپ میرے یہاں افطار فرمائیں خداوندعالم آج کی رات اپنی حجت کو ظاہر کرے گا اور وہی روئے زمین پر حجت خدا ہوگا۔
میں نے امام حسن عسکری کی خدمت میں عرض کیا: حجت کی ماں کون ہے؟
امام نے فرمایا: نرجس۔
میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان،بخدا نرجس کے یہاں تو ایسے کوئی آثار نہیں ہیں۔امام نے فرمایا: جو میں نے کہا وہی حقیقت ہے۔
جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں حسب وعدہ پہنچی اور سلام کیانرجس نے میرے آرام کے لئے بستر وغیرہ آمادہ کیا اور ”میری اور میرے خاندان کی سیدوسردار خاتون“کہہ کر مجھ سے حال دریافت کیا۔
جناب حکیمہ نے فرمایا: میں نہیں تم میری اور میرے خاندان کی سید وسردار ہو۔
جناب نرجس نے فرمایا: پھوپھی یہ آپ کیا فرما رہی ہیں؟
جناب حکیمہ نے فرمایا: میری بیٹی!آج کی رات خدا تجھے وہ فرزند عطا کرے گا جو دنیا وآخرت کا آقا ہے،جناب نرجس کے چہرہ پر شرم وحیا کے آثار نمودار ہوگئے، میں نے نماز عشاء سے فارغ ہوکر روزہ افطار کیا اور بستر پر لیٹ گئی، جب نصف شب گزر گئی تو نماز شب کے لئے بیدار ہوئی نماز شب پڑھنے کے بعد میں نے دیکھا کہ جناب نرجس اسی طرح آرام سے سو رہی ہیں تعقیبات کے بعد میری آنکھ لگ گئی، گھبراکر اُٹھی نرجس اسی طرح سو رہی تھیں،پھر جناب نرجس اٹھیں، نماز شب بجالائیں اور پھر سوگئیں۔
میں صبح کی جستجو میں باہر نکلی فجر اول طلوع ہوچکی تھی،جناب نرجس محو خواب تھیں میرے دل میں شک کا گزر ہوا امام حسن عسکری نے آواز دی: پھوپھی عجلت مت کیجئے گھڑی نزدیک آرہی ہے، جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں نے الم سجدہ اور سورہٴ یٰسین کی تلاوت شروع کردی، ناگاہ میں نے دیکھا کہ جناب نرجس گھبراکر بیدار ہوئیں میں ان کے سرہانے گئی میں نے کہا: ”بسم اللہ علیک “ کیا کچھ محسوس کررہی ہو؟جواب دیا ”جی ہاں اے پھوپھی۔“
میں نے کہا گھبراؤ نہیں یہ وہی بات ہے جس کی اطلاع میں تمہیں دے چکی ہوں۔
جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ مجھ پر ہلکی سی غنودگی طاری ہوگئی،جب مجھے اپنے آقا کے وجود کا احساس ہوا تو آنکھ کھلی،پردہ ہٹایا تو میں نے نرجس کے پاس اپنے آقا کو سجدہ ریز پایا،تما م اعضائے سجدہ زمین پر تھے،میں نے گود میں لیا تو بالکل پاک وصاف پایا، امام حسن عسکری نے آواز دی ”اے پھوپھی میرے لال کو میرے پاس لائیے۔“
میں اس مولود کوامام کی خدمت میں لے گئی امام نے اپنے دست مبارک سے بچہ کو آغوش میں لیا بچہ کے پیر اپنے سینہ پر رکھے اور اپنی زبان نومولود کے دہن میں دی اورسر وصورت پر دست شفقت پھیرا۔
پھر امام نے فرمایا: میرے لال گفتگو کرو۔نومولود نے جواب میں کہا:
”اشہد ان لاالٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ وانّ محمداً رسولُ اللہ۔“
وحدانیت ورسالت کی گواہی کے بعد امیرالمومنین سے لے کر اپنے پدر بزرگوار تک تمام ائمہ پردرود بھیجا اور خاموش ہوگئے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: انہیں ان کی ماں کے پاس لے جایئے تاکہ ماں کو سلام کریں اس کے بعد میرے پاس لایئے،میں بچہ کو ماں کے پاس لے گئی، اس نے ماں کو سلام کیا پھر میں نے اسے امام کی خدمت میں پہنچا دیا،امام نے فرمایا اے پھوپھی ساتویں دن پھر تشریف لائیے گاجناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں اگلی صبح پہنچی، امام کو سلام کیا اور پردہ ہٹایا تاکہ اپنے آقا کی زیارت کرسکوں مگر بچہ نظر نہ آیا میں نے عرض کیا میری جان آپ پر قربانمیرا آقا کیا ہوا؟
امام نے فرمایا: اے پھوپھی میں نے بھی اپنے لال کو اسی کے حوالہ کردیا جس کے حوالہ مادر موسی نے اپنا بچہ کیا تھا۔
جناب حکیمہ کہتی ہیں کہ میںساتویں دن پھر امام کی خدمت میں پہنچی، سلام کیا اور بیٹھ گئی۔
امام نے فرمایا: میرے فرزند کو میرے پاس لایئے، میں اپنے آقا کو اس عالم میں امام کے پاس لے گئی کہ آپ کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے امام نے پہلے دن کی طرح آغوش میں لیا، دست شفقت پھیرا، دہن میں زبان رکھی گویا بچہ کو دودھ اور شہد دے رہے ہیں پھر فرمایا:
میرے لال! گفتگو کرو۔
بچہ نے کہا: ”اشہد ان لاالہ الا اللہ“، پھرحضرت محمد ،امیرالمومنین اور اپنے پدربزرگوار ودیگر ائمہ پر درود وسلام بھیجا اوراس آیہٴ کریمہ کی تلاوت فرمائی :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
”ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم اٴئمة ونجعلہم الوارثین ونمکن لہم فی الارض ونری فرعون وہامان وجنودھما منھم ماکانوا یحذرون“
راوی حدیث موسیٰ بن محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کے بارے میں عقید (خادم)سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ”حکیمہ خاتون نے سچ کہا ہے“(۱)
شیخ صدوق نے انتہائی معتبر حدیث میں احمد بن الحسن بن عبداللہ بن مہران امی عروضی ازدی کے واسطہ سے احمد بن حسین قمی سے روایت کی ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں خلف صالح کی ولادت ہوئی تو امام حسن عسکری کی جانب سے میرے دادا احمد بن اسحاق کے نام سات خطوط خود آپ کے دست مبارک سے لکھے ہوئے موصول ہوئے،جیسا کہ اس سے قبل توقیعات بھی اسی تحریر میں موصول ہوتی تھیں،ان خطوط میں یہ تحریرتھا کہ ”ہمارے یہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی ہے جو تمہارے نزدیک مخفی اور لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا، اس لئے کہ ہم اس کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے مگر صرف قریب ترین حضرات کو قربت کے باعث اور چاہنے والوں کو ان کی محبت کی بنا پر، ہم نے چاہا کہ ہم تمہیں بتادیں تاکہ خدا تمہیں اسی طرح مسرورکرے جس طرح اس نے ہمیں مسرور کیا ہے۔(۲)
(۱)منتخب ا لاٴثر ص۳۲۱ تا۳۴۱ (۲)منتخب الاثر، ص۲۴۳ تا ص۲۴۴۔
مسعودی کی روایت میں ہے کہ احمد بن اسحاق نے امام حسن عسکری سے عرض کیا: ”جب آقا کی ولادت سے متعلق آپ کا بشارت نامہ موصول ہوا تومردوزن اور منزل شعورمیں قدم رکھنے والا کوئی جوان ایسا نہیں تھا جو حق کا قائل نہ ہو گیا ہو۔
حضرت نے فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔(۱)
ایک اور روایت، ثقہٴ جلیل فضل بن شاذان نے جن کی وفات ولادت حضرت ولی عصرکے بعد اور امام حسن عسکری کی شہادت سے قبل (۲۵۵سے۲۶۰ہجری کے درمیان) ہوئی اپنی کتاب ”غیبت“ میں محمد بن علی بن حمز ہ بن حسین بن عبداللہ بن عباس بن امیرا لمومنین کے واسطہ سے امام حسن عسکری سے نقل کی ہے کہ امام حسن عسکری نے فرمایا: شب نیمہٴ شعبان ۲۵۵ ء طلوع فجر کے وقت میرے جانشین اور میرے بعد بندگان خدا پر حجت خدا اور ولی خدا کی اس عالم میں ولادت ہوئی کہ اسے ختنہ کی ضرورت نہ تھی سب سے پہلے جس نے مولود کو نہلایا وہ رضوان خازن جنت تھا جس نے چند دیگر ملائکہ مقربین کے ساتھ مل کر اسے کوثر وسلسبیل کے پانی سے غسل دیا۔(۲)
دوسری روایات میں ملتا ہے کہ جب امام عصر کی ولادت ہوئی تو امام حسن عسکری نے حکم دیا کہ دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت فقراء بنی ہاشم میں تقسیم کیا جائے اور تین سو گوسفند بطور عقیقہ ذبح فرمائے۔(۳)
اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ ولادت کے تیسرے دن حضرت کے پدر بزرگوار نے آپ کو مومنین کے سامنے پیش کرکے فرمایا:یہی میرا جانشین اور میرے بعد تمہارا امام ہے۔ یہی وہ قائم ہے جس کا انتظار کیا جائے گا اور جب دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی اس وقت ظاہر ہوکر دنیا کو عدل
(۱)منتخب الاثر،ص ۲۴۵-۲۴۶
(۲)منتخب الاثر، ص۳۲۰، اثبات الھداة،ج۷ص۱۳۹، ج۶۸۳ اربعین خاتون آبادی، ص۲۴ ودیگر کتب۔
(۳)منتخب الاثر، ص۳۴۱-۳۴۳
وانصاف سے بھردے گا۔(۱)
رجال اہل سنت کی ایک معتبر فرد نصر بن علی جہضمی نے اپنی کتاب ”موالید الائمہ“ میں امام حسن عسکری سے نقل کیا ہے کہ آپ نے اپنے فرزند ”م ح م د“ کی ولادت کے وقت فرمایا: ظالم یہ سمجھتے تھے کہ مجھے قتل کرکے میری نسل کا سلسلہ منقطع کردیں گے انہوں نے قدرت خدا کو کیسا پایا اور مولود کا نام آپ نے ”مومَّل“ (جس سے امید لگائی جائے) رکھا(۲)
احمد بن اسحاق اشعری نے امام حسن عسکری سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”الحمد للہ الّذی لم یخرجنی من الدنیا حتیٰ ارانی الخلف من بعدی اشبہ الناس برسول اللہ خلقا وخلقا یحفظہ اللہ فی غیبتہٖ ثم یظہر فیملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجوراً۔“(۳)
”تمام تعریفیں اس خدا کے لئے جس نے میرے دنیا سے رخصت ہونے سے قبل مجھے میرے جانشین کی زیارت کرادی میرا یہ جانشین لوگوں کے درمیان خَلق وخُلق میں رسول اللہ سے سب سے زیادہ مشابہ ہے ، اللہ غیبت میں اس کی حفاظت فرمائے گا پھر اسے ظاہر کرے گا اور وہ دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی تھی۔“
تفصیلی معلومات کے لئے حدیث کی کتب مثلا غیبت نعمانی و غیب شیخ،کمال الدین،بحار الانوار، اثبات الھداة، اربعین خاتون آبادی اور ناچیز کی کتاب منتخب الاثر کی طرف رجوع فرمائیں۔
__________________
مفکرجلیل آیةالله لطف اللہ صافی گلپائیگانی مدظلہ کی گراں قدر کتاب” نوید امن وامان” سے اقتباس
(۱)ینابیع المودة، ص۴۶۰، منتخب الاثر،ص۳۴۲
(۲)اثبات الھداة،ج۶ص۳۴۲ باب۳۱فصل۱۰ج۱۱۶
(۳)اثبات الھداة، ج۷ص۱۳۸، ج۶۸۲،باب۳۲فصل ۴۴کفایة الاثر، کمال الدین، منتخب الاثر۔