امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نبیﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتاب: نبیﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ" اہل بیت کی رکاب میں(۱۱)'

اہل البیت علیہم السلام قرآن کے آئینے میں:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃٔ احزاب/۳۲ )
ترجمہ : اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے   کہ وہ  آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے  پاک و پاکیزہ رکھے  جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
اہل بیت  رسولعلیہم السلام سنت  نبوی کے آئینے میں:
’’اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ‘‘(صحاح و مسانید)
ترجمہ: میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں  چھوڑے جارہاہوں۔ وہ  اللہ کی کتاب  اور میری عترت  یعنی  میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔

عرضِ مجلس
اہل بیت علیہم السلام  کا علمی و فکری ورثہ  جسے  مکتب اہل بیت  نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے  ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے  مکتب فکر  کی تصویر  پیش  کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ  کی مختلف  جہات کو محیط ہے  ۔اس مکتب فکر نے    اسلامی  معارف  کے اس صاف سرچشمے  سے سیراب  ہونے  کے لائق  نفوس  کی ایک کھیپ کو پروان  چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر  نے امت مسلمہ  کو  ایسے  عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت  علیہم السلام کے نظریاتی  نقش قدم پر چلے ہیں  ۔اسلامی معاشرے کے اندر  اور باہر  سے تعلق رکھنے  والے  مختلف  فکری مناہج  اور مذاہب  کی جانب  سے اُٹھنے والے سوالات  ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل  نظر رہی ہے  ۔
یہ علماء  اور دانشور  مسلسل  کئی صدیوں  تک ان سوالات  اور شبہات کے  معقول ترین اور محکم ترین  جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس  اہل بیت   نے اپنی  سنگین ذمہ داریوں  کو محسوس  کرتے ہوئے  ان اسلامی تعلیمات  و حقائق  کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے  جن پر مخالف  فِرق  و مذاہب  اور اسلام  دشمن  مکاتب  و مسالک کے اربابِ بست و کشاد  نے  معاندانہ توجہ  مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی  مجلس اہل بیت   نے اس  سلسلے میں  اہل بیت علیہم السلام  اور مکتب اہلبیت کےان پیروکاروں  کے نقش قدم  پر چلنے کی سعی  کی ہے جنہوں نے  ہر دور کے مسلسل  چیلنجوں  سے معقول ،مناسب  اور مطلوبہ  انداز میں  نمٹنے  کی  کوشش کی ہے ۔
اس سلسلے میں  مکتب اہل بیت  کے علماء کی کتابوں  کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں  کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں  ،عقل و  برہان کی بنیادوں  پر استوار ہیں  اور  مذموم  تعصبات و خواہشات سے پاک  ہیں  نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین  کو اس انداز میں  اپنا مخاطب  قرار دیتی  ہیں  جو عقل سلیم  اور فطرت سلیمہ   کے ہاں  مقبول  اور پسندیدہ  ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں  کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ  اور شبہات  و اعتراضات کے بارے میں  بے لاگ سوال و جواب   کا ایک  جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی   اٹھائے جاتے رہے ہیں  اور آج بھی انہیں  ہوا دی جارہی ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے  بعض  حلقے  اس سلسلے میں  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد  کررہے  ہیں  ۔اس بارے   میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی  رہی ہے کہ لوگوں  کے جذبات اور تعصبات کو مذموم  طریقے  سے بھڑکانے سے اجتناب  برتا جائے جبکہ عقل  و فکر  اور طالبِ حق نفوس  کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں  جنہیں  اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب  پورے عالم کے سامنے پیش  کرتا ہے اور وہ بھی  اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں  تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
یہاں  اس بات کی طرف اشارہ ضروری  ہے کہ زیر نظر تحقیقی  مباحث  ممتاز علماء اور دانشوروں  کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر  اور قدر دان ہیں  جن میں سے  ہر ایک نے ان علمی  مباحث  کے مختلف حصوں  کا جائزہ  لے کر ان کے بارے میں  اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ  ہم نے  اپنی  ان ذمہ داریوں  میں  سے بعض  کو ادا کرنے میں  ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم   رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں  جس نے اپنے رسول کو  ہدایت  اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی  کافی ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  شعبہ ثقافت
نبیؐ پر درود و سلام بھیجنے کا طریقہ :
شیعہ وسنی  مکاتب فکر  کے ہاں  محمد و آل محمدعلیہم السلام  پر  درود و سلام کی کیفیت :
نبی ﷺپر درود بھیجنے کا مسئلہ  ان مسائل میں سے  ایک ہے جن کی اصل بنیاد  پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے لیکن  ان کی تفصیلات اور کیفیات  کے بارے میں  مسلمانوں  کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے  ۔
اس مسئلے کی بنیاد اللہ کا یہ فرمان ہے :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔۱
بے شک اللہ  تعالی اور اس کے فرشتے  نبی  پر درود  بھیجتے ہیں  ۔اے  ایمان  لانےوالو! (تم بھی ) اس پر درود  بھیجو اور اس طرح سلام  کہو  جس طرح   سلام کہنے کا حق ہے ۔
یہ آیت قرآن کی ایک اور آیت کے ساتھ مشترک  جہت رکھتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ  سبحانہ و تعالی ٰ  اپنے بندوں  پر درود بھیجتا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے :

هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۔۲
اللہ وہ ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی  تاکہ  وہ تمہیں  تاریکی سے نور کی طرف نکال لے آئے بے شک وہ مومنین پر  بہت مہربان ہے ۔
اسی طرح  اس   تیسری آیت کے ساتھ بھی مشابہت رکھتی ہے  جس میں  نبی کریم  ﷺکو مومنین  پر درود  بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے  :

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔۳
 ان کے اموال سے زکات لے کر  انہیں  پاک  اور بابرکت  بنائیں  اور ان پر درود  بھیجیں  کیونکہ  آپ کا درود ان کے لیے  باعث تسکین  ہے ۔بے شک اللہ  بہت سننے  اور خوب جاننے والا ہے ۔
اکثر مفسرین  نے بتایا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں بندے کے درود و سلام سے مراد دعا اور تعظیم  ہیں جبکہ بندے پر خدا کا درود و سلام  اس کی رحمت اور  تکریم  سے عبارت ہے  جیسا کہ آیت میں اس کی  علت یوں بیان ہوئی ہے :

لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ

(تاکہ وہ تمہیں تاریکی سے روشنی کی طرف نکال لائے  اور وہ مومنین پر  مہربان ہے ۔)
اس طرح مومنین  کے حق میں  رسول ﷺکا  درو و سلام  ان کے حق میں  خیر و برکت کے لیے رسول کی دعا  سے عبارت ہے۔

رہی بات  رسول  یا مومنین کے حق میں  فرشتوں  کے درود و سلام کی ،تو اس سے مراد دعا اور استغفار ہیں۔۴
بندے ، رب اور رسولﷺ کا ایک دوسرے پر دوردوسلام یعنی خداکے حضور بندے کا صلوات وسلام ، خداکا بندے کے حق میں دوردوسلام اور مومنین کے حق میں رسولﷺکادورد وسلام اور رسول کے حق میں مومنین کا  دوردوسلام ،خالق ومخلوق نیز امت اوراس کے قائدکے باہمی ربط اوررشتے کی بہترین تصویر پیش کرتے ہیں اور وہ اس بنیاد پر  کہ  ہر فریق  کو اپنی اور  دوسرے فریق  کی حیثیت  و منزلت  کی پہچان ہو تاکہ اس  باہمی ارتباط  کے حدود پامال  نہ ہوں۔  پس بندہ  اپنے عظیم  خالق کی تعظیم ،عبودیت  اور بندگی  کی خاطر درود کا نذرانہ  پیش کرتا ہے  جبکہ  اللہ  اپنے عارف بندے  کی  عزت افزائی اور اس پر رحمت کی خاطر  اس پر درود بھیجتا ہے ۔مومنین  رسول ﷺکے مقام  و مرتبے  کے اقرار اور آپ کی ولایت کے آگے سرتسلیم  خم کرنے کی خاطر  آپ پر درود بھیجتا ہے جبکہ رسولﷺ مومن  کی  تکریم  اور اس کی بھلائی  میں  اضافے کے لئے  اس پر درود بھیجتا ہے ۔
یادرہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے  نبی کو عزت وشرف کا عظیم  ترین مقام عطا کرتے ہوئے آپ پر درود بھیجا اور اللہ  کے فرشتوں  نے بھی  آپ پر درود بھیجا ۔اس کے ساتھ اس نے مومنوں  کو بھی آپ پر درود  و سلام  بھیجنے  کا تاکیدی حکم دیا ۔اسی مقصد  کے تحت  اللہ نے  آنحضرت ﷺپر ایمان لانے  اور آپ کے اوامر کی اطاعت کرنے  والی امت  کی بھی عزت افزائی کی ۔ اللہ  تعالیٰ  ،اس کے فرشتوں  اور  اس کے رسول  کا  امت کے حق میں  درود  سلام  بھیجنا اسی عزت و تکریم  کی ایک جھلک اور اسی چراغ کی ایک کرن ہے ۔
امت مصطفوی کی یہ وہ خصوصیت  ہے جس کے باعث  وہ تمام سابقہ امتوں  سے ممتاز  قرار پاتی ہے ۔
نبیؐ پر درود کے الفاظ:
 فقہائے مذہبِ اہل بیت کا اس بات پر اتفاق  ہے کہ درود  میں صرف  نبی ﷺکے نام پر اکتفا کرنا جائز نہیں ہے بلکہ آپ کے ساتھ  آپ کی آل  کا ذکر بھی واجب  ہے ۔۵
وہ اس حکم پر قطعی احادیث کے ذریعے استدلال  کرتے ہیں  جو فریقین  کی کتابوں  میں مذکور  ہیں  مثلاً  سنی مآخذ  میں مذکور ۔۶
  ایک  مشہور حدیث کہتی  ہے:
’’ایک دفعہ نبی کریمﷺ ہمارے پاس تشریف  لائے تو ہم   نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ہم نے یہ تو جان لیا کہ آپ پر کیسے سلام کہیں  (اب یہ بتائیے  کہ ) ہم آپ پر درود کیسے  بھیجیں؟ فرمایا : یوں کہو : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔۷
(اے اللہ ! محمد وآل محمد  پر درود بھیج  جس طرح تونے ابراہیم  پر درود  بھیجا ہے۔ بے شک تو لائق حمد و صاحب ِ عظمت ہے ۔)
آیت کریمہ  :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔۸
کے بارے میں  دیگر مفسرین  نے بھی اس قسم کی  روایت کی ہے اور وہ بھی  تاکید  اور اصرار کے ساتھ ،جیساکہ ابن حجر  نے الصواعق المحرقہ  میں نقل کیا ہے کہ  آنحضرتﷺنے فرمایا : میرے اوپر دم کٹی  صلوات نہ بھیجو  ۔لوگوں نے پوچھا : دُم کٹی  صلوات سے کیا مراد ہے
؟ فرمایا : وہ یہ ہے کہ تم  صرف یہ کہو :

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ

اور بس ۔(یہ درست نہیں  بلکہ )  تم یوں کہو:  :

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ  اٰلِ مُحَمَّدٍ ۔۹
اگرچہ یہ دلائل وافر اور کثیر  تعداد میں  موجود ہیں  اور اس بات پر زور دیتی ہیں کہ درود میں نبیﷺ کے ساتھ آل کا بھی ذکر کیا جائے۔  اس کے باوجود سنی فقہا کا  آل پر درود  بھیجنے کے وجوب  پر اتفاق نہیں ہے ۔ اہل سنت کے بعض  علماء صلوات میں رسولﷺ کے ساتھ آل علیہم السلام  کے ذکر کو بھی واجب  گردانتے ہیں  جبکہ بعض علماء  اسے واجب نہیں سمجھتے ۔۱۰
اس سلسلے میں وہ ایسے ناقابل قبول دلائل دیتے ہیں جو   نہ صرف یہ کہ  قابل قبول نہیں بلکہ ان کا ذکر قلم کی خوداری کے منافی  ہے۔ بطور مثال ایک شخص کی دلیل یہ ہے :  (درود میں آل کو شامل کرنے کا ) واجب  نہ ہونا  زیادہ معقول ہے کیونکہ نبی نے ان  لوگوں کو اس (درود میں آل کو شامل کرنے ) کا حکم اس  وقت دیا جب انہوں نے آپ سے درود سکھانے کا تقاضا کیا ۔آپ نے اپنی طرف سے (سوال کے بغیر ) اس کا حکم نہیں دیا ۔۱۱
اس دلیل کا یہ جواب ہے کہ رسول اللہ ﷺبعض اوقات کسی موضوع کے بارے میں شرعی حکم بیان کر نے کے لئے لوگوں کے سوال کا جواب دینے پر اکتفا فرماتے تھے (لوگوں کے سوال کے جواب میں شرعی حکم   بیان کرتے تھے اور اسی کو کافی سمجھتے تھے )۔اگر لوگ آپؐ سے سوال نہ کرتے تو آپ اپنی طرف سے اس حکمِ شرعی کو بیان فرماتے تھے ۔اس کے نظائر قرآن میں  بکثرت مذکور  ہیں  جنہیں  قرآن نے ’’یَسْئِلُوْنَکَ ‘‘کے ذریعے بیان کیا ہے ۔
درج ذیل مثالیں  ملاحظہ ہوں :
۱۔’’َيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ‘‘۔۱۲
لوگ آپ سے حیض کے بارے میں  سوال کرتے ہیں ۔
۲۔’’ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتال فیہِ‘‘۔۱۳
لوگ آپ سے حرمت والے  مہینے( میں جنگ کرنے) کےبارے میں  پوچھتے ہیں  ۔
۲۔’’ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ‘‘-۱۴
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں  پوچھتے ہیں ۔
ان کے علاوہ  دیگر نظائر بھی موجود ہیں  ۔
مذکورہ  دعوے کا لازمہ یہ ہے کہ اگر لوگ ان مسائل  کے بارے میں  سوال کریں  تو ان کا شرعی حکم ثابت نہیں ہوگا  ۔کیا اس قسم کا استنباط صحیح ہے ؟
آل سے مراد کون ہیں ؟
مکتب اہل بیت کے ہاں یہ  ایک قطعی امر ہے  کہ جس  آل پر درود بھیجنے  کا حکم  ہوا ہے اس سے مراد  آل رسول کی معصوم  ہستیاں  ہیں  کیونکہ غیر معصوم  لوگوں  پر درود  بھیجنا واجب نہیں  ہے ۔۱۵
یہ مسئلہ  مکتب اہل بیت کے ان مسلمات کی طرح ہے  جن کا اثبات  دلیل و برہان سے مستغنی ہے ۔ اہل سنت کے مآخذ  میں رسول اللہ ﷺسے مروی احادیث  اس بات کی تائید کرتی ہیں  ۔ان مآخذ میں  مسند احمد  ،المستدرک علی الصحیحین ،سیوطی کی الدر المنثور ،کنزل العمال   اور مجمع الزوائد وغیرہ  شامل ہیں۔  یہ سب  اس بات پر دلالت  کرتے ہیں  کہ آل محمد سے مراد  فاطمہ ،علی ، حسن  اور حسین  علیہم السلام ہیں  ۔۱۶
چنانچہ امام  احمد اپنی  مسند میں  روایت کرتے ہیں  کہ نبی ﷺنے فاطمہ  ،علی ،حسن  اور حسین علیہم السلام کو جمع کیا اور ان کے اوپر  ایک چادر ڈال دی  ۔پھر آپ نے  اپنا ہاتھ چادر کے اوپر  رکھا اور فرمایا :

اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰؤُلَاءِ آل ُ مُحَمّدٍ فَاجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔۱۷
اے  اللہ !  : یہی آل محمد ہیں  ۔پس تو  اپنے درود  اور اپنی  برکات سے محمد وآل محمد کو بہرہ مند فرما ۔بے شک  تو لائق  تعریف  اور عظیم  ہے ۔
اگرچہ  احادیث کی کثرت اور ان کی  واضح  دلالت  کے باعث یہ مسئلہ  بحث  و تمحیص  سے مستغنی  ہے  اس کے باوجود  ’’ آل ‘‘ کی عجیب  و غریب  تاویلات پیش  کی گئی ہیں ۔
مثلا کہا گیا  ہے کہ آل سے مراد  رسول ﷺکے پیروکار  ہیں  یا  آپ کی امت  ہیں  یا آپ کی پیروی کرنے والے  اور آپ کے قوم قبیلہ  والے  ہیں  ۔یہ بھی کہا گیا ہے  کہ آل سے مراد  آنحضرتﷺ کی قوم ہے  نیز ایک  قول یہ  ہے کہ  اس سے مراد آپ کے وہ رشتہ دار  ہیں   جن پر صدقہ حرام ہے ۔
یہ سب سے عجیب نظر یہ ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ آل سے مراد  بنی ہاشم  ہیں -۱۸
زیر بحث موضوع  کے اس  مرحلے میں  بہترین حسن ختام  کے طور پر  ہم فخر الدین رازی کا قول پیش کریں گے ۔موصوف اپنی تفسیر  کبیر  میں  رقمطراز ہیں :  میں کہتا ہوں  : محمد گ کی آل وہ ہیں  جن کا معاملہ رسول پر  منتہی ہوتا ہو ۔پس وہ سب لوگ جن کا معاملہ سب سے محکم اور کامل طریقے سے آنحضرت کے ساتھ  مربوط ہو وہی آپ کی آل ہیں  اور  اس بات میں کوئی شک نہیں  کہ  فاطمہ  ،علی ، حسن اور حسین  علیہم السلام کا رسول  اللہﷺ کے ساتھ باہمی  تعلق  تمام لوگوں  کے تعلقات سے زیادہ محکم  اور شدید تھا ۔
یہ اس چیز کے مانند  ہے جو  نقلِ متواتر سے ثابت  اور معلوم  ہو ۔پس  ان کا آلِ رسول  ہونا ضروری اور قطعی ہے ۔اگر ہم  یہ کہیں  کہ  آل محمد  سے مراد آنحضرت ؐ کی دعوت  قبول کرنے والی امت ہے  تب بھی  وہ آل ہیں  ۔پس تمام احتمالات کی روسے یہ بات ثابت  ہے کہ وہ  (فاطمہ ،علی  حسنین  علیہم السلام) آل  ِرسول  ہیں ۔
رہے دوسرے لوگ تو ان کے بارے میں  اختلاف ہے کہ وہ آل  رسول  ہیں یا نہیں  ۔
تفسیر کشاف کے مولف نے  نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت ( یعنی آیت مودت) اتری تو رسول اللہ  ﷺسے سوال ہوا : اے اللہ کے رسول !  آپ کے وہ قرابتدار کون ہیں  جن  کی مودت  ہم پر فرض  ہوئی ہے ؟ فرمایا : وہ علی  فاطمہ  اور ان دونوں  کے دو بیٹے ہیں  ۔
اس  سے یہ ثابت  ہوا  کہ  یہ چاروں  نبیﷺ کے سب سے قریبی  افراد ہیں  ۔پس جب  یہ  بات ثابت ہوگئی   تو لازم ٹھہرتا ہے کہ ان کی تعظیم  خاص طور سے زیادہ ہوگی ۔یہ بات کئی دلائل سے ثابت ہے ۔
فخررازی  نے دوسری دلیل یہ پیش کی ہے  کہ آل کے لیے دعا ایک عظیم مقام  ہے ۔اسی لئے  اللہ نے اس دعا کو  نماز  کے تشہد کا  خاتمہ  قرار دیا  ہے جو یہ ہے:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ۔

یہ تعظیم آل  کے علاوہ کسی کے لئے ثابت نہیں ہے ۔۱۹
اس کے علاوہ فخر رازی  نے  اپنی تفسیر   میں  اس بات پر زور دیا ہے  کہ  نبیﷺ پر درود کے الفاظ  یہ ہیں  :

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ۔۲۰
اس مسئلے کی فقہی بحث :
اس مسئلے کی اصل بنیاد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح نبیﷺ پر  کسی بھی وقت درود بھیجنے  کی فضیلت  اور اس کے استحباب نیز  درود کے باعث ثواب کے حصول میں بھی  کوئی اختلاف  نہیں  ہے کیونکہ  اس بارے میں  شیعہ وسنی دونوں کے ہاں  بہت سی احادیث مروی  ہیں ۔
ان  میں سے ایک حدیث یہ ہے :  جو کوئی میرے اوپر ایک درود بھیجے  اللہ  اس کے بدلے  اس شخص پر  دس بار درود بھیجتا ہے ۔۲۱
البتہ  اختلاف  دو باتوں  میں ہے جو  یہ ہیں :
الف ۔آنحضرت ﷺپر درود کن الفاظ میں  بھیجا جائے  ؟
جواب : اس بارے میں ہم  بحث کرچکے ہیں  جس  کی روشنی  میں  حق بات  ظاہر ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ   آنحضرت ﷺپر درود بھیجتے وقت آل محمدعلیہم السلام کا ذکر  نہ  صرف جائز  ہے  بلکہ  تمام  مسلمانوں  کے نزدیک مستحسن اور مطلوب امر ہے  نیز نبیﷺ  پر درود بھیجتے وقت آل کا ذکر نہ کر نے سے  درود  دُم کٹا  اور ناقص ہوجاتا ہے  جیساکہ حدیث نبوی  میں اس کی تصریح موجود ہے ۔
ب۔ نبی ﷺاور آل نبی علیہم السلام پر درود بھیجنا کب واجب  ہے ؟ یہاں ہم  اس بارے میں  بحث کریں گے ۔
اس بات میں  شک  کی گنجائش  نہیں  ہے کہ آیت  مجیدہ میں امر کا صیغہ  استعمال ہوا ہے  اور وہ بھی  تاکید  کی صورت  میں  ۔
اس آیت میں  پہلے یہ فرمایا گیا ہے  :

’’ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ‘‘

(بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں )۔
اس کے بعد بطور تاکید  حکم ہوا ہے  :

’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا‘‘

اےایمان والو ! آپ پر درود بھیجو  اور سلام کہو  جس طرح سلام کہنے کا  حق ہے ۔
علم اصول ِفقہ کے علماء کے ہاں  یہ بات طے شدہ  اور مسلّمہ ہے کہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے  ۔البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی پر درود  بھیجنا کب واجب ہے  ؟ اس بارے میں مختلف آراء  پائی جاتی ہیں جن کا ذکر  زمخشری نے اپنی تفسیر میں یوں کیا ہے :
اگر آپ یہ سوال کریں  کہ  رسول اللہﷺ  پر درود بھیجنا واجب  ہے یا مندوب  ؟ تو میں عرض کروں گا کہ  یہ واجب ہے۔ البتہ  وجوب کے حالات کے بارے میں اختلاف پایاجاتا ہے ۔
بعض حضرات نے  آنحضرت ﷺکے ذکر کے وقت اسے واجب قرار دیاہے  ۔حدیث میں مذکور ہے : جس شخص کے پاس  میرا ذکر کیا جائے  لیکن وہ مجھ پر درود نہ بھیجے  وہ جہنم میں داخل ہوگا  اور اللہ  اسے( اپنی رحمت سے ) دور کرے گا ۔
یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرتﷺ  سے عرض ہوا : اے اللہ کےرسول ! اللہ تعالی کے قول  :

’’ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ  الخ‘‘

کے بارے میں  آپ کا کیا خیال ہے ؟
آپ ﷺنے فرمایا :  یہ پوشیدہ علم کا  حصہ ہے  ۔اگر تم مجھ سے اس بارے میں سوال نہ کرتے  تو میں  تمہیں اس کے بارے میں نہ بتاتا ۔بے شک اللہ نے دو فرشتوں کو میرے اوپر موکل کیا ہے۔ جب بھی  کسی مسلمان کے پاس میرا ذکر  ہوتا ہے اور وہ میرے اوپر درود بھیجتا ہے تو یہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : اللہ تیری مغفرت کرے  ۔تب اللہ  اور اس کے فرشتے  ان دوفرشتوں سے کہتے ہیں  :آمین ۔
بعض فقہاء نے کہا ہے :ہر مجلس میں  ایک بار واجب ہے اگر چہ وہاں  آپ کا ذکر  مکرر ہو  جس طرح  آیت ِ سجدہ  ،چھینک کی دعا  نیز  ہر دعا  کے شروع اور آخر کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ بعض فقہاء  نےاسے  زندگی میں ایک بار واجب  قرار دیا ہے  جس طرح  شہادتین کے اظہار کے بارے میں بھی  یہی کہا ہے ۔
احتیاط کا تقاضا  یہ ہے کہ ہر  ذکر کے وقت آپﷺ پر درود  بھیجا جائے جیساکہ حدیث میں اس کا ذکر ہوا ہے ۔
اگر آپ  یہ سوال کریں  کہ کیا نماز میں آنحضرت  ﷺپر صلوات بھیجنا نماز کے جائز ہونے کی شرط ہے یا نہیں ؟  تو میں عرض کروں گا  : ابو حنیفہ اور ان کے  ہم خیال افراد  اسے شرط قرار نہیں  دیتے ۔ابراہیم نخعی  سے مروی ہے : وہ  ( یعنی صحابہ )  اس کے بدلے تشہد  یعنی السلام علیک ایھا النبی  کہنے پر اکتفا کرتے تھے ۔
البتہ شافعی نے اسے  نماز کی شرط  قرار دی ہے۔۲۲
قرطبی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے  : اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت پر درود بھیجنا زندگی میں ایک بار واجب ہے اور تمام واجب  اوقات میں سنت موکدہ کی طرح ضروری ہے  جسے ترک کرنے کی  گنجائش  نہیں اور اسے صرف وہی ترک کرسکتا ہے جس میں  کوئی اچھائی  نہ ہو۔۲۳
ابن حزم نے المحلی  میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ زندگی میں ایک بار واجب ہے اور اس سے زائد مستحب ہے ۔موصوف نے شافعی کے اس نظرئے کو رد کیا ہے کہ نماز  میں  درود بھیجنا واجب ہے اور کہا ہے کہ شافعی کا یہ دعوی  دلیل سے عاری ہے ۔موصوف نے اس بات کو بھی رد کیا ہے کہ ایک سے زائد بار صلوات بھیجنا  واجب ہے اور اس کی یہ وجہ بیان کی ہے  کہ اگر ایک سے زائد بار واجب ہوتو اس کی تعداد  معین ہونی چاہیے جبکہ اس کی گنجائش نہیں کیونکہ کسی خاص تعداد پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے  ۔۲۴
جصاص کی بھی یہی رائے ہے ۔۲۵
شافعی کا یہ نظریہ   ہے کہ صلوات صرف آخری تشہد میں واجب ہے ۔حنبلیوں کی بھی یہی رائے ہے۔ انہوں نے اس رائے کے حق میں کئی دلائل پیش کیے ہیں۔۲۶
رہا اہل بیت علیہم السلام  کا نظریہ  تو ان کے ہاں  یہ بات روز روشن کی طرح  واضح  اور بدیہی  ہے کہ  نبیﷺ پر درود بھیجنا پہلے تشہد  میں بھی  واجب ہے اور دوسرے تشہد  میں بھی ۔
شیخ طوسی  نے  اس نظرئے  کے حق میں  یہ دلیل دی ہے کہ اس پر شیعہ مذہب کا اجماع  قائم ہے نیز  احتیاط  بھی اسی کا تقاضا  کرتا ہے کیونکہ اگر کوئی  ایسا کرے تو اس کی نماز کے درست ہونے میں  کوئی اختلاف  نہیں  ہے ۔اس کے برعکس  اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی نماز کے صحیح  ہونے  کی کوئی دلیل  نہیں ہے۔ علاوہ ازیں  ارشاد الہی :

’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا‘‘ 

کا بھی یہی تقاضا ہے  کیونکہ  آنحضرت پر درود  بھیجنے کا حکم  اور امر ثابت ہے  اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے اور  (صلوات  کے واجب  ہونے کے لئے ) اس سے زیادہ  موزوں اور سزاوار مقام کوئی نہیں ہے ۔
اس کے  بعد شیخ طوسی  نے تین روایات  نقل کی ہیں  جو  نماز میں  درود  کے واجب ہونے پر دلالت  کرتی ہیں  ۔پہلی روایت کعب بن  عجرہ سے مروی ہے جسے اس نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے ۔دوسری روایت  حضرت عائشہ  کے ذریعے رسول اللہﷺ  سے مروی ہے جبکہ تیسری روایت ابو بصیر کے ذریے امام صادق علیہ السلام  سے منقول  ہے۔۲۷
تذکرۃ الفقہاء  میں مذکور ہے : امر وجوب پر دلالت کرتا ہے جبکہ  اس بات پر اجماع  ہے کہ  درود نماز کے علاوہ کہیں  واجب  نہیں  ہے ۔پس نماز میں اس کا واجب  ہونا ضروری ہے ۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں :
 میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا : طہارت اور میرے  اوپر درود کے بغیر نماز قبول نہیں  ہوتی ۔
تیسری  دلیل امام صادقعلیہ السلام کا یہ فرمان  ہے :
 جو شخص  نماز  پڑھے لیکن  نبی  پر درود نہ بھیجے اور  اسے عمدا ترک کرے  اس کی کوئی نماز ہی نہیں  ہے ۔۲۸

خلاصہ ٔبحث:
مذکورہ بالا  گفتگو سے ثابت ہوا  کہ نبی کریم ﷺپر درود بھیجنا ہر وقت مستحسن  اور مطلوب ہے  جبکہ نماز کے پہلے اور دوسرے تشہد میں  واجب ہے۔ بنابریں  اس  نماز کا باطل ہونا  عیاں ہے جس میں نبی ﷺپر؛ درود نہ بھیجا  جائے ۔
گذشتہ  مباحث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نبیﷺ پر  بھیجے جانے والے درود  سے مراد  وہ ہے جس میں  آپ کے ساتھ آپ کے اہل بیتعلیہم السلام  کا بھی تذکرہ کیا جائے نیز یہ کہ اہل بیت  کے  ذکر سے خالی صلوات کو رسول اللہ ﷺنے ناقص  اور دُم کٹا درود  قرار دیا ہے ۔رسول  اللہ ﷺنے بذات خود  اس سے منع کیا ہے ۔
اس  کا لازمہ یہ ہے کہ جو درود  آل محمدعلیہم السلام کے ذکر سے خالی ہو  وہ اس درود کی طرح  ہے جس میں  سرے  سے آنحضرت ﷺکا  ذکر نہ ہوا ہو ۔
واضح  ہے کہ یہ دونوں  ( درود سے خالی نماز اور اہل بیت کے ذکر سے خالی درود  ) باطل  ہیں  جیساکہ امام شافعی فرماتے  ہیں :
یَا آلَ  بَیْتِ رَسُوْلِ اللہِ  حُبُّکُمُ                                  فَرضٌ  مِنَ اللہِ  فِی الْقُرْآن ِ اَنْزَلَہُ  
کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اَنَّکُمُ                                        مَنْ لَمْ  یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَاصَلَاۃَ لَہُ

اے اہل بیت  رسول !  آپ کی محبت کو خدا نے قرآن میں  فرض قرار دیا ہے ۔
آپ  کی منزلت  کی عظمت  کے لئے  یہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود  نہ بھیجے اس کی  کوئی نماز ہی نہیں ہے ۔۲۹
رہا یہ سوال کہ  درود میں  اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ دوسروں  کا  رسول اللہﷺ  کے ساتھ ذکر کرنا  کیسا  ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے  کہ یہ ایک  خود ساختہ  کوشش ہے  جس پر کوئی دلیل موجود نہیں  ہے ۔رسول اللہ ﷺکے ساتھ اہل بیت علیہم السلام پر درود  بھیجنے  کے معاملے میں  فخررازی  نے درست کہا ہے کہ  یہ ایک عظیم منصب و مقام ہے  جو اہل بیت  کے ساتھ مختص ہے  اور دوسروں کو یہ مقام  حاصل نہیں  ہے ۔علاوہ ازیں  اگر آل پر درود  نہ بھیجا جائے  یا کامل درود  کی جگہ علیہ الصلاۃ  و السلام   یا  صلی اللہ علیہ وسلم   کہا جائے تو یہ رسول  پر  درود محسوب  نہیں ہوگا کیونکہ  اول الذکر  ناقص  اور دُم کٹا درود ہے جس سے منع کیا گیا ہے جبکہ ثانی الذکر  ناقص اور دم کٹا ہونے  کے علاوہ  یہاں  دلیل سے بھی عاری ہے ۔۳۰
۔۔۔۔
حوالہ جات:

نام کتاب: نبی ﷺپر درود بھیجنے کا طریقہ
موضوع : فقہ ۔ مولف : شیخ عبد الکریم بہبہانی ۔ مترجم : شیخ محمد علی توحیدی۔ نظرثانی:شیخ سجاد حسین
کمپوز ر:شیخ غلام حسن جعفری ۔ اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ۔ ناشر: عالمی مجلس اہل بیت  ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں


۱-احزاب/۵۶
۲-  احزاب/۴۳
۳۔توبہ/۱۰۳
۴۔المیزان ،ج۹،ص ۳۹۷،ج۱۶،ص ۳۳۵ نیز دیکھیے: تفسیر کبیر ،ج ۱۶/۱۸۰، ۲۵/۲۱۵،۲۲۷۔
۵۔دیکھیےشیخ طوسی  کی الخلاف ،ج۱،ص  ۳۷۳، تذکرۃ الفقہاء ،ج۳،ص ۲۳۳ نیز جواہر الکلام ،ج ۱۰ ،ص ۲۶۱۔
۶۔یہ نماز  کے تشہد  کا سلام  ہے جو پہلے سے موجود تھی ۔یہ وہ سلام نہیں ہے جو صلوات کے ساتھ ہو ،خاص کر وہ جس کے بعد یہ مذکور ہو : صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ  اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔رہی بات اس آیت  میں مذکور:’’وسلّموا تسلیماً ‘‘کی تو ائمہ اطہار علیہم السلام  سے مروی روایات میں اس  تسلیم سے  مراد  اطاعت  اور سرتسلیم خم کرنا ہے اور وہ  سلام نہیں ہے جو  بطور تحیت بولا جاتا ہے جیساکہ تفسیر عیاشی  اور تفسیر  قمی  میں اس آیت کی  تفسیر  میں مذکور ہے ۔( دیکھئے مقالہ :وسلمواتسلیما انقیاداًاوتکریما ً ؟ مجلۃ الفکر الاسلامی  : یوسفی غروی ،شمارہ ۱۵۔
 ۷۔صحیح بخاری ،ج۶،ص ۲۱۷،ح۲۹۱ نیز سنن ترمذی ،ج۵،ص ۳۵۹،ح ۳۲۲۰۔یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔
 ۸۔احزاب /۵۶
۹۔الصواعق المحرقہ،ص ۲۲۵،مطبوعہ بیروت۔
۱۰۔دیکھیے :امام نووی کی المجموع  ،ج۳ ،ص  ۴۶۶۔۴۶۷
۱۱۔دیکھیے ابن قدامہ کی المغنی ،ج۱،ص ۵۸۱ ،الشرح الکبیر:حاشیہ المغنی ،ج۱،ص ۵۸۱،مطبوعہ دار الکتاب العربی۔
 ۱۲۔بقرہ /۲۲۲
۱۳۔بقرہ /۲۱۷
 ۱۴۔بقرہ/۲۱۹
 ۱۵۔تذکرۃ الفقہاء،ج۳،ص ۲۳۴
۱۶۔مرحوم فیروز آبادی  نے اپنی کتاب’’فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ‘‘ ،ج۱،ص ۲۱۹۔۲۲۲میں  ان میں سے بعض احادیث کو جمع کیا ہے ۔
 ۱۷۔مسند احمد،ج۶،ص ۳۲۳
 ۱۸۔الصواعق المحرقۃ ،ص ۲۲۵ نیز نووی کی المجموع ،ج۳،ص ۴۶۶،مطبوعہ  دار الفکر
 ۱۹۔تفسیر کبیر ،ج۲۷،ص ۱۶۶
 ۲۰۔ایضا ،ج۲۵،ص ۲۷۷
 ۲۱۔الجامع  لاحکام القرآن ،ج۱۴،ص  ۲۳۵
 ۲۲۔الکشاف ،ج۳،ص  ۵۵۷۔۵۵۸
۲۳۔الجامع لاحکام القرآن ،ج۱۴،ص ۲۳۲۔۲۳۳
 ۲۴۔المحلی ،ج۳،ص ۲۷۳
 ۲۵۔احکام القرآن ،ج۳،ص ۴۸۴
۲۶۔الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ،ج۱،ص ۲۳۶،۳۶۷ نیز دیکھئے ابن قدامہ مقدسی کی المغنی  ،ج۱،ص۵۷۹۔۵۸۰۔
 ۲۷۔کتاب الخلاف ،ج۱،ص ۳۶۹۔۳۷۱
۲۸۔تذکرۃ الفقہاء،ج۳،ص ۲۳۲
 ۲۹۔دیکھئے :ابن حجر کی الصواعق  المحرقہ ،ص  ۲۲۸،تفسیر آیت  : ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی۔  ان دوشعروں  میں  شافعی کے قول کی مختلف تفسیر کی گئی ہے۔
 ایک احتمال یہ ہے کہ ’’لاصلاۃ ‘‘ سے مراد  یہ ہو  کہ اس کی نماز صحیح نہیں ہے  جو شافعی کے قول کے مطابق ہے کیونکہ وہ نماز میں  نبی  کے ساتھ آل پر درود بھیجنے کے وجوب  کے قائل ہیں  ۔
دوسرا احتمال  یہ ہے کہ لا صلاۃ  سے مراد  یہ ہو کہ  اس کی نماز  کامل نہیں  ہے جو اس مسئلے میں  موصوف کے قول کے موافق ہے ۔
۳۰-( مزید تفصیل کے لئے  دیکھئے  یوسف غروی کا  مقالہ : سلموا تسلیما انقیاداً او تکریماً ، مجلۃ  الفکر الاسلامی،شمارہ ۱۵)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک