ظہور مہدي (ع) کا عقيدہ اور مغرب زدہ لوگ
ظہور مہدي (ع) کا عقيدہ اور مغرب زدہ لوگ
ظہور مہدي (ع) کا عقيدہ اسلامي عقيدہ ہے (حصہ اوّل)
خدا کي حمد وستائش کي بجائے مادہ اور طبيعت (Nature)کے گن گاتے ہيں تاکہ ان لوگوں کي ہاں ميں ہاں ملا سکيں، جنہوں نے تھوڑے مادي علوم حاصل کئے ہيں يا فزکس، کميسٹري، رياضي سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغيرہ سيکھ لئے ہيں اوراگر انگريزي يا فرانسيسي زبان بھي آ گئي تو کيا کہنا-
يہ صورت حال کم وبيش سبھي جگہ سرايت کر رہي ہے اور زندگي کے مختلف شعبوں ميں اس کے آثار نماياں نظر آتے ہيں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہيں جو علوم قديم وجديد کے محقق تو نہيں ہيں ليکن مغرب کے کسي بھي نظريہ يا کسي شخص کي رائے کو سو فيصد درست مان ليتے ہيں چاہے اس کا مقصد سياسي اور استعماري ہي کيوں نہ ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھي دانستہ يا نادانستہ طور پر انہيں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجي مقاصد کي خدمت ميں مصروف ہيں -
انہيں يہ احساس نہيں ہے کہ يورپ اور امريکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کي علمي، عقلي، فلسفي اور ديني معلومات بالکل سطحي ہوتي ہيں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہيں (بلکہ ايک رپورٹ کے مطابق 81 فيصد افراد ضعف عقل و اعصاب اور دماغ ميں مبتلا ہيں) اور اپنے پست اور انسانيت سے دور سياسي مقاصد کے لئے دنيا کے مختلف مقامات پر اپنے سياسي مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہيں، البتہ جو لوگ ذي علم و استعداد، محقق و دانشور ہيں ان کا معاملہ فحاشي و فساد ميں ڈوبي اکثريت سے الگ ہے-
ان کے معاشرہ ميں ہزاروں برائياں اور خرافات پائي جاتي ہيں پھر بھي وہ عقلي، سماجي، اخلاقي اور مذہبي بنياد پر مبني مشرقي عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہيں-
مشرق ميں جو صورتحال پيدا ہو گئي ہے اسے ''مغرب زدہ ہونا'' يا مغرب زدگي کہا جاتا ہے جس کي مختلف شکليں ہيں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے ميں ہے، انہوں نے بعض اسلامي ممالک کي سماجي زندگي سے حياو عفت اور اخلاقي اقدار کو اس طرح ختم کر ديا ہے کہ اب ان کا حشر بھي وہي ہونے والا ہے جو اندلس (اسپين) کے اسلامي معاشرہ کا ہوا تھا-
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ ميں ايسے افراد جن کي معلومات اخبارات و رسائل سے زيادہ نہيں ہے اور جنہوں نے مغربي ممالک کا صرف ايک دو مرتبہ ہي سفر کيا ہے،مغرب زدگي، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر ماڈرن بننے کي جھوٹي اور مصنوعي خواہش، جو دراصل رجعت پسندي ہي ہے کو روشن فکري کي علامت قرار ديتے ہيں،اور اغيار بھي اپنے ذرائع کے ذريعہ مثلاً اپنے سياسي مقاصد کے لئے انہيں مشتشرق، خاورشناس کا خطاب دے کر ان جيسے افراد کي حوصلہ افزائي کرتے رہتے ہيں- ( جاري ہے )