انکار مہدی کفر ہے
انکار مہدی کفر ہے
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مہدی وہی عیسی بن مریم ہیں اور قرآن میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ جو آرہے ہیں وہ مہدی منتظر ہیں۔۔۔
ان حضرات کی شبہے کا جواب یہ ہے کہ نجات دہندہ کی آنی کا بیان بہت سی قرآنی آیات میں موجود ہے مثلا سورہ قصص کی پانچویں آیت میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَنُرِیدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ ۔ القصص / 5 ۔
اور ہم نے ارادہ کیا کہ ان ضعیف اور ماتحت بنائے جانے والے انسانوں کو روئے زمین کے پیشوا بنا دیں اور انہیں زمین کے وارث قرار دیں۔
نجات دہندہ کی خوشخبری تورات و زبور و انجیل جیسی آسمانی کتب بدھ مت، شنتوازم، ہندومت اور چینی مذہب کی کتابوں میں بھی دی گئی ہے اور وہ سب بھی نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔
قرآن مجید میں اسلامی عقائد و احکام کے اصول و ضوابط کا بیان ہوا ہے اور ان کی تشریح و تفسیر کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سونپ دی گئی ہیں۔ اسی حوالے سے ارشاد ربانی ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ ۔ النحل / 44 ۔
اور ہم نی قرآن آپ کی جانب نازل کی تا کہ آپ ہی لوگوں کے لئے ان چیزوں کی وضاحت کریں جن کی ان کی طرف تنزیل ہوئی ہے۔
وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ ۔ النحل /64 ۔
اور ہم نے یہ کتاب صرف اس لئے آپ پر نازل کردی کہ آپ ہی ان چیزوں کی ان کے لئے وضاحت کریں جن میں وه جھگڑا اور اختلاف کرتے ہیں۔
چنانچہ ان آیات کی تفسیر کے ذمہ دار رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلم ہیں۔
اور پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت خداوند متعال اپنی اطاعت کے ساتھ ہی فرض فرمائی ہے جیسا که ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا آَتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۔ الحشر / 7 ۔
اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہیں عطا کریں لے لو اور جن چیزوں سے آپ (ص) تمہیں روکتے ہیں ان سے اجتناب کرو اور
وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ ۔ التغابن / 12 ۔
اور خدا کے فرمانبردار ہوجاؤ اور رسول خدا (صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرو۔
خداوند متعال نے ان آیات کی روشنی میں واضح کردیا ہے کہ خدا کی اطاعت واجب ہے اور رسول خدا (ع) کی اطاعت بھی واجب ہے اور جس طرح کہ خدا کی اطاعت سے سرتابی حرام ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت سے سرتابی بھی حرام ہے۔
اور شیعہ اور سنی کتب میں منقولہ ایک ہزار احادیث میں رسول خدا (ص) نے آخرالزمان کے نجات دہندہ کو، نام و نشان بتا کر متعارف کرایا ہے اور وہ حضرت مہدی صاحب الزمان عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے سوا اور کوئی بھی نہیں ہے:
حضرت مہدی (عج) کے سلسلے میں سنی اور شیعہ کتب میں منقولہ احادیث 5 جلدوں پر مشتمل کتاب «معجم احادیث المہدی» میں شائع ہوئی ہے جو مجموعی طور پر 1941 حدیثیں ہیں اور یہاں ان کے اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں:
– ائمہ باره ہیں پہلے علی (ع) ہیں اور آخری مہدی (عج) ہیں (91 حدیثیں)۔
– ائمہ باره ہیں اور آخری امام مہدی ( عج اللہ تعالی فرجه الشریف ) ہیں (94 حدیثیں)
– ائمہ باره ہیں جن میں 9 امام سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور ان نو اماموں میں نویں امام مہدی (عج) ہیں (107 حدیثیں)۔
رسول الله صلی الله اللہ علیہ و آلہ و سلم نی 12 اماموں کے نام بتائے ہیں (50 حدیثیں)۔
– امام مہدی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے نویں فرزند ہیں۔ (148 حدیثیں)
– امام مہدی علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام کے چھٹے فرزند ہیں۔ (99 حدیثیں)
امام مہدی علیہ السلام امام موسی کاظم علیہ السلام کے نسل سے پانچویں فرزند ہیں۔ (98 حدیثیں)۔
– امام مہدی علیہ السلام امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی نسل سے چوتھے فرزند ہیں۔ (95 حدیثیں)۔
– امام مہدی علیہ السلام امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی نسل سے اور آپ (ع) کے تیسرے فرزند ہیں،(90 حدیثیں)۔
امام مہدی علیہ السلام امام علی النقی الہادی کے فرزندوں میں سے ہیں۔ (90 حدیثیں)۔
امام مہدی علیہ السلام امام حسن العسکری کے فرزند ہیں۔ (146 حدیثیں)۔
امام مہدی علیہ السلام ائمہ اثنا عشر میں بارہویں اور آخری امام ہیں۔ (136 حدیثیں)۔
برصغیر کے مشہور سنی عالم دین حسین احمد مدنی کی کتاب «الخلیفة المہدی فی احادیث صحیحة» کے صفحہ 3 پر ہےکہ : ۔۔۔ امام ابوالحسین بن الحسین الآبری السنجری الحافظ المتوفی 363ہجری اپنی کتاب «مناقب الشافعی» میں لکھتے ہیں:
و قدتواترت الاخبار و استفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی صلی اللہ علیہ و (وآلہ) و سلم في المہدي و انہ من اہل بیتہ و انہ یملک سبع سنین و یملأ الارض عدلاً و ان عیسی علیہ الصلوة و السلام یخرج فیساعدہ علی قتل الدجال و انہ یؤمّ ہذہ الامة و عیسی خلفہ فی قصتہ و امرہ[1]
«امام مہدی سے متعلق مروی روایتیں اپنے راویوں کی کثرت کی بنا پر تواتر اور شہرت کے درجہ پر پہنچ گئی ہیں کہ وہ اہل بیت رسول (ص) سے ہونگے۔ سات سال تک دنیا میں حکومت کریں گے۔ اپنے عدل و انصاف سے دنیا کو معمور کردیں گے اور عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر ان کی امامت میں (ایک) نماز ادا کریں گے وغیرہ، [2]
مدنی صاحب ہی اسی کتاب کے صفحہ پانچ پر لکھتے ہیں:
امام سفارینی حضرت جابر، حذیفہ، ابوہریرہ،ابوسعید خدری اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے منقول روایتوں کے ذکر اور نشان دہی کے بعد لکھتے ہیں: و قد روی عمن ذکر من الصحابة و غیر ما ذکر منہم رضی اللہ عنہم متعددة و عن التابعین من بعدہم ما یفید مجموعہ العلم القطعي فالایمان بخروج المہدي واجب کما ہو مقرر عند اہل العلم و مدون فی عقائد اہل السنة و الجماعة [3]
مذکورہ بالا صحابہ اور غیر مذکور صحابہ اور ان کے بعد تابعین سے اتنی روایتیں مروی ہیں کہ ان سے علم قطعی حاصل ہوجاتا ہے۔ لہذا ظہور مہدی پر ایمان لانا واجب ہے جیسا کہ اہل علم کے نزدیک ثابت شدہ ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقائد میں مدوّن و مرتب ہے۔
پہلی حدیث:
قال رسول اللہ(ص) «من انکر المہدی فقد کفر»
یہ حدیث شیعہ اور سنی مکاتب کی مشہورترین اور معتبرترین حدیث ہے۔
سنی منابع میں:
«عن جابر بن عبد الله رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله علیہ وسلم:
"من کذب بالدجال فقد کفر، ومن کذب بالمهدی فقد کفر" ۔ [4]
جس نے دجال کے وجود اور خروج کو جھٹلایا وه کافر ہے اور جس نے مہدی (عج) کو جهٹلایا وہ کافر ہے۔
من انکر خروج المهدی فقد کفر ۔[5]
جس نے قیام مہدی (عج) کو جهٹلایا وہ کافر ہؤا۔
عن جابر رضی الله عنه رفعه من أنکر خروج المهدى فقد کفر بما انزل على محمد ۔[6]
جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے روایت مرفوعہ ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم نے فرمایا: جس نے قیام مہدی (عج) کا انکار کیا وه ان تمام چیزوں پر کافر ہؤا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے متعدد حدیثیں شیعہ اور سنی منابع و مصادر سے وارد ہوئی ہیں کہ امام مہدی (عج) کا منکر کافر ہے۔
اہل سنت ہی کی کتابوں میں تصریح ہوئی ہے که امام مہدی علیہ السلام کے قیام کے اثبات کے حوالے سے وارد ہونے والی تمام حدیثیں صحیح ہیں اور یہ حدیثیں ابوداؤد ، ترمذی و احمد و دیگر نے ابن مسعود و دیگر سےنقل کی ہیں ۔
حدیث مستند ہے اور کفر کا معیار بھی واضح ہے۔۔۔ چنانچہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ کسی پر کفر کا الزام لگائے ہاں مگر وہ لوگ جو مہدی (ع) کے منکر ہیں؛ ان کو ہم نہیں رسول اللہ (ص) کافر قرادے چکے ہیں۔
یہ مہدی ہیں کون جن کی ظہور کی بشارت قرآن میں ہے۔ نبوی، علوی، فاطمی احادیث اور ائمہ علیہم السلام کی احادیث (جو درحقیقت احادیث نبوی ہیں) میں ان کے آنے کی بشارتیں ہیں۔۔۔ کچھ لوگ اس ذات با برکات کا انکار کرتے ہیں! کیسے؟ کیوں؟ وہ بات بات پر اپنی تأویلات اور اپنی ذاتی آراء و افکار کے مخالفین کو تو کافر کا لقب دیتے ہیں اور جتنی آسانی سے وہ دیگر مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے برعکس اپنے نظریات کے مخالفین کا خون بہاتے ہیں اور مسلمانوں کو کافر قراردے کر ان کے قتل کے فتوے جاری کرتے ہیں – جبکہ کفار کی پیش قدمی مقدس مقامات اور مکہ و مدینہ تک جاری ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن و اسلام کی توہین آج یورپ میں ایک فیشن کی صورت اختیار کرگئی ہے اور شاتمان رسالت کو یورپ میں بنگلے اور پرامن زندگی کی ضمانتیں ملتی ہیں – اتنی ہی آسانی سے کافر کیونکر ہوجاتے ہیں اور حضرت مہدی علیہ السلام کا انکار کس طرح کرتے ہیں؟
گو کہ حدیث میں ہے کہ اگر تم نے کسی کو کافر کہا تو یا تو وہ کافر ہوگا یا اگر وہ کافر نہیں تو یقینا تم کافر ہو اور اس طرح فتووں کے کارخانے کھولنے والوں پر ویسے بھی کفر کا شبہ موجود ہے۔۔۔ قرآن میں ان کے آنے کی بشارت موجود ہے۔۔۔ احادیث رسول (ص) و معصومین (ع) میں بشارتیں موجود ہیں پھر بھی کوئی کہتا ہے مہدی (ع) پیدا ہونگے !
کچھ لوگ کہتے ہیں: پیدا نہیں ہوئے
کوئی کہتا ہے مہدی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔۔۔
البتہ محی الدین بن عربی جو اہل سنت کے جانے پہچانے امام ہیں اور عارف بھی ہیں؛ یقین سے کہتے ہیں کہ شیعوں کی بات درست ہے اور امام مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں اور اس وقت پردہ غیب میں ہیں؟ ۔۔۔
یہ لوگ جانتے ہیں مگر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص 12سو سال زندہ رہے اور یہی حضرات منبر و محراب میں فیض افشانی کرتے ہیں تو حضرت نوح کی عمر کی کہانیاں سنا سنا کر نہیں تھکتے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی دوہزار سالہ عمر کی باتیں سناتے ہوئے انہیں بالکل حیرت نہیں ہوتی! اور مجھے ان لوگوں کی دوگانہ گوئی پر حیرت ہے! ۔۔۔ کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنے سارے برسوں میں انہیں کسی نے بھی نہ دیکھا ہو؟ ۔۔۔ یقینا یہ حضرات کم از کم اپنے آپ سے تو پوچھتے ہونگے کہ حضرت عیسی کو ان دوہزار برسوں میں کس نے دیکھا ہے یا دیگر انبیاء جو بقید حیات ہیں سال میں کتنی دفعہ ان حضرات کو نظر آتے ہیں؟ یا یہ کہ اگر وہ نظر نہیں آتے تو کیا ہم ان کے وجود کا ہی انکار کربیٹھیں؟ ۔۔۔ ہمیں عقل بھی تو – نہ اپنی نہ دوسروں کی – نظر نہیں آتی پھر اس بارے میں کیا فیصلہ کریں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث «من مات و لم یعرف امام زمانہ۔۔۔» یاد رہے۔۔۔
دوسری حديث:
حضرت رسول اللہ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:
«من مات و لم يعرف امام زمانہ مات ميتة الجاہلية» [7] – [8]
«اگر کوئی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائے، وہ دوران جاہلیت کی موت مرا ہے۔»
یہ حدیث سنی اور شیعہ کی منابع میں متفق علیہ ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث درست نہیں ہے تو وہ جھوٹا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث رسول اللہ کے زمانے کے لئے ہے تو وہ بھی جھوٹا ہے کیوں کہ ہر زمانے کے لوگوں کو اپنے امام کی معرفت حاصل کرنا لازم ہے۔
اور اگر کہے کہ حدیث صحیح بھی ہے اور آفاقی بھی اور ابدی بھی ہے تو یہ بتانا پڑے گا کہ اس کا امام زمانہ کون ہے؟ آپ کا امام کون ہے؟؟؟
منکرین مہدی بتائیں کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے۔۔۔ وہ امام کون ہے جس کو اگر وہ نہ پہچانیں تو جاہلیت کی موت مریں گے؟ جاہلیت یعنی عناد و لجاج یعنی ضد اور ہٹ دھرمی اور جہل پر اصرار۔
تیسری حديث :
حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
«اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک دن بھی باقی ہو خداوند متعال اس ایک دن کو اتنا طویل کرے گا کہ حضرت مہدی (عج) ظہور فرمائیں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں جیسے کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی»۔[9]
یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ سال ہفتہ وحدت کے ایام میں – ایک طرف سے وحدت و اتحاد بین المسلمین پر کاری ضربیں لگائی گئیں اور استعمار و استکبار کی خوب خوب خدمت کی گئی- امہ کے مختلف فرقوں، مکاتب اور مذاہب کے کثیر علماء نے ایک نہایت اہم اور عالمی اہمیت کی حامل قرارداد منظور کرلی۔ وہ یہ کہ:
«کسی بھی اسلامی فرقے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے اسلامی فرقوں کے پیروکاروں کی تکفیر کریں اور یہ کام غلط ناروا اور ناجائز ہے».
ہاں البتہ وہ فرقے جو غلو جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں یا اپنے اعمال کے ذریعے دشمن کی خدمت کررہے ہیں اور مسلمانوں اور دین مبین کو نقصان پہنچاتے ہیں یا فرقے نہیں ہیں بلکہ دشمنوں کے ہاتھوں بنے ہوئے ادارے ہیں، ان کا حساب اصلی اور حقیقی اسلامی فرقوں سے الگ ہے»۔
حضرت مہدي نے فرمایا:
1: «حوادث اور رودادوں میں ہماری حدیثوں کے راویوں سے رجوع کرو؛ کیونکہ وہ تمہارے اوپر میری حجت ہیں اور میں ان کے اوپر حجت خدا ہوں»۔
2- «انا بقية اللہ في ارضہ و المنتقم من اعدائہ»
میں روئے زمین پر «بقية اللہ» اور اس کا ذخیرہ اور اس کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہوں۔
3: «علامة ظہور امري كثرة الہرج و المرج و الفتن»
میرے ظہورکی نشانی ھرج و مرج اور افراتفری اور فتنوں کی کثرت سے عبارت ہے۔
4: «خدا اور کسی بھی بندے کے درمیان قرابتداری کا رشتہ قائم نہیں ہے اور «و مَن انكرني فليس مني و سبيلہ سبيل ابن نوح»؛ اور جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اور اس کا راستہ نوح (ع) کے ناخلف و نافرمان بیٹے (کنعان) کا راستہ ہے۔
ہفتہ وحدت مبارک ہو انشاء اللہ ہمارا یہ سال سنہ 1429 سال ظہور مہدي آل محمد(عليہ و علي آبائہ السلام) ہو۔
یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ سال ہفتہ وحدت کے ایام میں – ایک طرف سے وحدت و اتحاد بین المسلمین پر کاری ضربیں لگائی گئیں اور استعمار و استکبار کی خوب خوب خدمت کی گئی- امہ کے مختلف فرقوں، مکاتب اور مذاہب کے کثیر علماء نے ایک نہایت اہم اور عالمی اہمیت کی حامل قرارداد منظور کرلی۔ وہ یہ کہ:
«کسی بھی اسلامی فرقے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے اسلامی فرقوں کے پیروکاروں کی تکفیر کریں اور یہ کام غلط ناروا اور ناجائز ہے۔ ہاں البتہ وہ فرقے جو غلو جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں یا اپنے اعمال کے ذریعے دشمن کی خدمت کررہے ہیں اور مسلمانوں اور دین مبین کو نقصان پہنچاتے ہیں یا فرقے نہیں ہیں بلکہ دشمنوں کے ہاتھوں بنے ہوئے ادارے ہیں، ان کا حساب اصلی اور حقیقی اسلامی فرقوں سے الگ ہے»۔
وحدت میں تقیہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، تقیہ حضرت موسی نے کیا؛ حضرت زکریا نے کیا، حضرت ابراہیم نے بت توڑ کر بڑے بت کو ملزم ٹہرایا اور تقیہ کیا، تقیہ مشرکین کے نرغے میں آنے والے مسلمانوں نے کیا اور خدا نے ان کی تائید کی۔
«مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ» (نحل 106﴾
جس نے خدا کا انکار کیا ایمان لانے کے بعد – سوائے اس مؤمن کے جس کا دل ایمان سے مطمئن تھا اور مجبور کیا گیا – مگر جس نے دل کھول کر کفر کا راستہ اپنایا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں – اپ جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں – کہ اگر آپ کے ارد گرد کئی مسلح افراد ہوں اور وہ آپ کی رائے جان کر آپ کی جان کے درپے ہوں تو آپ کونسا راستہ اپنائیں گے؟ ہاں یہ بالکل صحیح ہے کہ تقیہ صرف ایسے ہی حالات کے لئے ہے۔ اتحاد امت ضروریات دین میں سے ہے۔ یہ کوئی سنتی عمل نہیں ہے؛ مباح بھی نہیں ہے بلکہ فرض عین ہے اور شيعہ مسلمان وحدت و اتحاد کی دعوت تقیّے کی بنا پر نہیں بلکہ ضرورت اسلام کی بنا پر دے رہے ہیں۔
تقیہ کا مطلب جھوٹ بولنا نہیں ہے بلکہ ضرورت کی مقدار کے مطابق بولنا ہے۔ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کا خیال رکھو اور ماحول کو دیکھ کر لوگوں کی عقل اور سوچ کے مطابق بات کرو۔ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی رضا اور ناراضگی کا خیال رکھو تا کہ معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم ہو۔
قرآن نے فرمایا ہے کہ لاتفرقوا۔۔۔ نہی واضح ہے۔۔۔ چنانچہ ہم شیعہ ہیں شیعہ اصولوں کے پابندہیں۔۔۔ ہم جب اتحاد کی بات کرتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کررہے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم تقیہ کررہے ہیں؛ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور ہمارا یہ بھی مقصد نہیں ہے کہ کسی اور فرقے کے لوگ ہمارا مذہب اختیار کریں۔۔۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ بنیادی اصولوں میں ہم ایک ہیں بعض فروع میں فرق ہے۔۔۔ اور اہم بات یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام کو کفار کا خطرہ درپیش ہے جو سنی تعلیمات کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور شیعہ اصولوں کو بھی ۔۔۔ وہ ہمارے قرآن اور رسول اللہ (ص﴾ کی توہین کو شعار بنائے بیٹھے ہیں۔ ۔۔۔ یاد رکھنا کہ چالیس پاروں والا قرآن ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ہمارے دشمن کے ذہنی اختراعات کے ریکارڈ میں دیکھ لیں تو مل ہی جائے گا۔۔۔۔ ہمارا قرآن وہی ایک ہے ۔۔۔ وہی جس کے تیس پارے ہیں اور ہم اس کی تحریف کو ناممکن سمجھتے ہیں کیوں کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔۔۔ ہمارے قرآن پر وہ حملے کررہے ہیں۔۔۔ اسی مشترکہ قرآن پر، کیونکہ دشمن مشترک ہے؛ وہ افغانستان، عراق، پاکستان اور دیگر ممالک میں سنیوں اور شیعوں کا قتل عام کررہے ہیں اور ان کے چیلے ان کے مقاصد پورے کررہے ہیں، مذاہب اربعہ کو وہابیت نے انفعال سے دوچار کردیا ہے اور وہابیت جہاں بھی جاتی ہے وہاں سے امن و امان اور تعمیری سوچ کوچ کرجاتی ہے اور دشمن کے ورود کے لئے راستے فراہم ہوجاتے ہیں۔۔۔آئیے شیعہ شیعہ رہے اور سنی سنی رہے اور متحد ہوجائیں۔ ورنہ برے حالات آئے ہیں ساری امت پر اور یہ حالات مزید بھی برے ہونگے اور پھر اگر ہم حقیقت پسندی کی طرف لوٹنا بھی چاہیں تو یہ ممکن نہ ہوگا ۔۔۔ عراق کا حال ہمارے سامنے ہے۔۔۔ دین و قرآن پر رحم کریں اور آئیں ایک دوسرے کے بازو بنیں اور دشمن کے بازو بن کر اپنے ہی بازو نہ کاٹیں خدا را۔۔۔۔ ہمارے پاس مہدی امت کا فلسفہ ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے اور دشمن ان کے ظہور کا راستہ روکنے کے لئے مدینہ منورہ پر قبضہ کرنے اور کعبہ معظمہ کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور یہ خواب ہماری وحدت سے ہی چور چور ہوسکتے ہیں۔
تین بار درود شریف برائے تعجیل ظہور – اتحاد امت – اور حل مشکلات امت۔
حوالہ جات:
[1]- تهذیب التهذیب ج9 ص123 فی ضمن ترجمة محمد بن خالد الجندی المؤذن)
[2] – بعید از قیاس ہے کہ حسین احمد مدنی صاحب عربی زبان و ادب میں کمزور رہے ہوں مگر انہوں نے روایت کے آخری حصے کا ترجمہ درس ادا نہین کیا – سبب جو بھی رہا ہو – آخری حصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے: « و ان عیسی علیہ الصلوة و السلام یخرج فیساعدہ علی قتل الدجال و انہ یؤمّ ہذہ الامة و عیسی خلفہ فی قصتہ و امرہ» اور اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی خروج کریں گے اور نازل ہونگے اور قتل دجال میں امام (ع) کے ساتھ تعاون کریں گے اور آپ (ع) امت کی راہبری اور امامت فرمائیں گے اور عیسی علیہ السلام آپ (ع) کے اس امر میں ہر وقت آپ کے پشت پر ہونگے یعنی تعاون کرتے رہیں گے۔
[3] – لوائح انوار البہیة ج2 ص79 و 80۔
[4]- عقد الدرر فی اخبار المنتظر ، ج1 ، ص36 ۔
[5]- فرائد السمطین ، ج2 ، ص334 ۔
[6]- لسان المیزان ، ابن حجر ، ج 5 ، ص 130۔
[7] – یہ وہ کتابیں ہیں جو سنی علماء نے منکرین مہدی کے جواب میں تحریر کی ہیں:
1ـ ابراز الوهم المكنون من كلام ابن خلدون ، ابوالفيض سيد احمدبن محمد بن صديق غمارى ، شافعى ، ازہرى ، مغربى ، (متوفی1380 ) مطبعہ ترقى دمشق 1347 ۔
2ـ ابراز الوهم من كلام ابن حزم ، احمدبن صديق غمارى مؤلف قبل ، مطبوعہ 1347 مطبعہ ترقى دمشق۔
3ـ الاحتجاج بالاثر على من انكر المهدى المنتظر ، جامعہ مدینہ کے استاد شيخ حمّود بن عبداللّہ تويجرى ، یہ کتاب شيخ ابن محمود قاضى قطری کی کتاب کے جواب میں تحریر ہوئی ہے ۔ جلد اول 1394 و جلد دوئم 1396 رياض ۔ سعودی عرب۔
4ـ الى مشيخة الازهر ، شيخ عبداللّہ سبيتى عراقى ۔ یہ کتاب سعد محمد حسن « المہدوية فى الاسلام» کی جواب میں تحریر ہوئی ہے۔ مطبوعہ 1375 ہـ دارالحديث بغداد۔
5ـ تحديق النظر فى أخبار الامام المنتظر ، ابن خلدون کے دعؤوں کے جواب میں شيخ محمد عبدالعزيز بن مانع نے لکھے اور 1385 ہجری کو شائع ہوئی ہے۔
6ـ الرد على من كذّب بالاحاديث الصحيحة الواردة فى المہدى ، جامعہ اسلامی مدینہ منورہ کے استاد اور اس کے تعلیمی بورڈ کے رکن عبدالمحسن العباد ، نے لکھی ہے اور اسی جامعہ کے رسالہ شمارہ 45 ص 297 ــ 328 و شمارہ 46 ص 361 ــ 383 ، میں چھپی ہے۔
7ـ الوهم المكنون فى الردّ على ابن خلدون ، ابوالعباس بن عبدالمؤمن، مغربى۔
[8] – تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں: کہ میں الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں۔ علامہ نے میری دعوت قبول کرلی۔ میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا۔ رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جاسکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے۔ علامہ امینی نے فرمایا:
«میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا۔ اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی۔ وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی۔۔۔ ایک روز انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا۔ میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں۔ بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار؛ غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں۔ کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟
میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے»؟
انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یھی حدیث کافی ہے۔ قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں؟
کہنے لگے: "انہا مطہرة بنص الکتاب"۔ نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (ص) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں۔
میں نے کہا: "حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے؟ یا پھر معاذاللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر جاہلیت کی موت مریں!؟
حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی۔۔۔ اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی۔ جبکہ آپ (ص) کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نی دی ہے۔
حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟
مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!
میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں۔۔۔
ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: «شیخنا اسکت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا"»۔
ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا۔
یہ حکایت صرف اس لئے نقل کی گئی کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حدیث (من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة) کو قبول کرتے ہیں۔ اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کررہے ہیں اور ان سب کو جاننا چاہئے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟
[9] – مسند احمد حنبل ج1ص99 و سنن ابن ماجہ ج2ص929۔