مہدیؑ کا انکار کفر ہے
مہدیؑ کا انکار کفر ہے
فرائد السمطین، کتاب البرہان فی علامات مہدی آخرالزمان(ع) ، باب۲، کتاب الاشاعۃ ص۱۱۲، کتاب الاذاعہ، ص۱۳۷، کتاب التصریح، ص۴۴۲، کتاب العرف الوردی فی اخبار المہدی، ج۲ص۸۳ اور بعض دیگر کتب میں فوائد الاخبار مولفہ ابی بکر اسکافی نیز ابوبکر بن خیثمہ کی کتاب اخبار المہدی، اور شرح سیر سھیلی کے حوالوں سے جابر بن عبداللہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”مَن انکر خروج المہدي فقد کفر” ”جو شخص خروج مہدی(ع) کا منکر ہو وہ کافر ہے۔” الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ یہ روایت بھی آپ(ص) ہی سے منقول ہے: ”مَن کذب بالمہدي فقد کفر” ”جو شخص مہدی(ع) کی تکذیب کرے وہ کافر ہے۔” سفارینی کے مطابق ان روایات کی سند قابل اعتبار ہے،سفارینی کتاب ”لوامع” میں تحریر فرماتے ہیں: ”ظہور مہدی(ع) پر ایمان رکھنا واجب اور اہل سنت کے عقائد میں شامل ہے۔” ”ارشادالمستھدی” (۱) کے مولف اس کتاب کے صفحہ،۵۳ پر تحریر فرماتے ہیں: اے عقلمند! ظہور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں ہر طرح کے شک وشبہ سے اجتنا ب کر، اس لئے کہ حضرت (ع) کے ظہور کا عقیدہ خدا، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی رسالت پر عقیدہ کی تکمیل او رآپ کے ذریعہ بیان کی گئی باتوں کی تصدیق کا باعث ہے، پیغمبر (ص) صادق و مصدّق ہیں ، اس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے کہ مہدی(ع) موعود کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا ہے اگر کسی شخص نے ایسا دعویٰ کیا بھی ہے تو وہ جھوٹا اور کذّاب ہے اس لئے کہ حضرت مہدی(ع) کے لئے روایات میں جو اوصاف وعلائم بیان کئے گئے ہیں وہ ایسے شخص میں نہیں پائے جاتے، حضرت مہدی(ع) کا ظہور اور آپ(ع) کی شناخت کے ذرائع بالکل واضح اور عیاں ہیں آپ کا ظہور حضرت عیسیٰ(ع) کے نزول سے پہلے ہوگا، حضرت عیسی(ع) کے ساتھ آپ کی موجودگی روایات صحیحہ کی رو سے قطعی اور بدیہی ہے۔ جو شخص تفصیل کا طالب ہو وہ اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب کی طرف رجوع کرے اس کتاب (ارشاد المستہدی) میں ہمارا نصب العین حضرت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور سے متعلق بطور اختصار روایات کے تواتر کا اثبات ہے۔ صفحہ/۵۲ پر فاضل مولف تحریر فرماتے ہیں: ”مذکورہ احادیث (احادیث ظہور) وروایات کو اکثر محدثین اور غیر محدثین نے اپنی کتابو ں میں نقل فرمایا ہے اور حضرت مہدی رضی اللہ عنہ (ارشاد المستھدی کے الفاظ بعینہ نقل کئے گئے ہیں) کے ظہور کاعقیدہ صحابہ کے درمیان مشہور ومعروف تھا اور صحابہ کا یہ عقیدہ وایمان پیغمبر ؐسے ماخوذ ہے اسی طرح تابعین سے منقول آثار وروایات مرسلہ سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے اس لئے کہ اس قسم کے مسائل میں تابعین اپنے نظریئے یا اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔” اس مقالہ سے با آسانی یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت مہدی موعود منتظر ارواح العالمین لہ الفداء کے ظہور کا مسئلہ تمام مسلمانوں کے نزدیک اجماعی اورمتفق علیہ ہے نیز اس موضوع سے متعلق اہل سنت نے اپنے ذریعوںسے جو روایات نقل کی ہیں وہ بھی متواتر اور مسلم الثبوت ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے، آپ ؐکی نبوت کی تصدیق کرنے اور آپ ؐکے ذریعہ بیان کی گئی۔۔۔۔۔۔غیبی اخبارکا جزء ہے جن میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور پر بھی ایمان لایا جائے اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا جائز نہیں ہے۔ اس مقالہ میںسندکے طور پر صرف اہل سنت کے اقوال اور کتب کو بنیاد قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی شخص، شیعوں کی معتبر کتب اور اہل بیت(ع) عصمت وطہارت سے معتبر ترین اسناد کے ساتھ منقول روایات اور گزشتہ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ میں اس موضوع پر لکھی جانے والی لاتعداد کتابوں کو ملاحظہ کرے تو اس کی معلومات جامع اور کامل ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کی روایات واحادیث شیعوں کی ان کتب میں بھی پائی جاتی ہیں جن کی تالیف وترتیب امیرالمومنین (ع) کے عہد میں ہوئی، اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں حضرت مہدی (ع) بلکہ آپ کے پدر بزرگوار امام حسن عسکری (ع) کی ولادت باسعادت سے قبل جو کتب اور اصول مرتب ہوئے ان میں بھی ایسی روایات موجود ہیں جو بذات خود ایک معجزہ اور خبر غیبی کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہم دست بدعا ہیں کہ خداوند عالم جملہ مسلمانان عالم کی آنکھوں کوحضرت (ع) کے جمال بے مثال کی زیارت سے منور فرمائے انتظار کے لمحے تمام ہوں،اوراس مصلح حقیقی کے ظہور سے انسانی زندگی میں پائے جانے والے اضطراب کا خاتمہ ہو۔”انہ علی کل شیء قدیر” ” بیشک وہ ہر چیز پر قد رت رکھنے والا ہے۔”۱)۔ ”ارشادالمستھدی” حلب سے طبع ہوئی ہے اور حلب کے ہی ایک عالم جناب شیخ عبدالمتعالی سرمینی نے راقم الحروف کے پاس بطور ہدیہ ارسال فرمائی تھی۔