پندرھویں پارے کا مختصر جائزه
پندرھویں پارے کا مختصر جائزه
پندرھویں پارے کےچیدہ نکات
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١﴾سورة الإسراءا
ان آیات میں معراج پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کے دو سفر تھے ایک سفر مکہ سے مسجد اقصیٰ تک تھا اور دوسرا مسجد اقصی ٰسے آسمانوں کی طرف تھا، بعض مفسرین نے پہلے سفر کو اسرا ءکہا ہے اور دوسرے کو معراج اور بعض نے دونوں کو معراج سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ معراج در حقیقت جسمانی طور پر واقع ہوئی تھی جس کی بہترین دلیل خود لفظ عبد ہے اور سبحان کے ذریہ مسئلہ کے قابل تعجب ہونے کا اظہار کیا گیا ہے اور خود سرکار دو عالم(ص) کا بھی بیان ہے کہ مجھے براق نامی سواری پر لے جایا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں جسمانی سفرہی میں ہوسکتی ہیں روحانی سفر میں نہیں اور حضرت عائشہ کی طرف یہ نسبت کہ جسم رسول(ص) بستر پر تھا یہ صرف ایک افتراء ہے اس لئے کہ ان کی شادی ہجرت کے بعد ہوئی ہے اور معراج ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے چاہے ۲۷ رجب کو ہو یا بروایتے ۷ اربیع الاول کو اور اس وقت ان کے گھر یا بستر میں ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ ایک محترم اور مقدس مقام پر ہے جسے قبیلہ یبوسیین نے آباد کیا تھا اور اس کا مرکز صہیون نامی پہاڑ تھا (۲۵۰۰ ق م) میں سالم یبوسی نے اسے آباد کیا تھا اور اس کے بعد مسلمانوں نے اس علاقہ میں مسجدیں بنائیں ابتدائے بعثت میں مکہ کی زندگی میں اور پھر مدینہ میں آ کر ۱۳ ماہ تک مسلمانوں نے اسی کی طرف نمازیں پڑھی تھیں مسجد اقصی کی بے حرمتی مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ ۱۹۹۷ء میں امریکہ اور برطانیہ کی سازش سے اس پر یہودیوں کا قبضہ ہو گیا اور اس میں رقص و رنگ کی محفلیں قائم ہو گئیں اور یہ علاقہ اسرائیلی حکومت میں شامل ہو کر مسلمانوں اور ان کے حکام کی بے غیرتی کا مرثیہ پڑھ رہا ہے ۔
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾ سورة الإسراء
مترفین صرف مالداروں کا نام نہیں ہے بلکہ عیش پرستوں کا نام بھی ہےجیسے کہ دور حاضر کے بعض مسلمان بادشاہوں کا حال ہے قرآن مجید میں مترفین کا ذکر آٹھ مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ مذمت کے ساتھ آیا ہے مترفین کی وجہ سے سارے قریہ کی تباہی کا راز شاید یہ ہے کہ اہل قر یہ ان کو برداشت کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز نہیں بلند کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، انہیں ووٹ دیتے ہیں اور اس طرح سب ان کے شر یک ظلم اور پھر مستحق عذاب ہو جاتے ہیں، روایت میں وارد ہوا ہے کہ ’’حق کے بارے میں چپ رہنے والا گونگے شیطان کے مانند ہے، اور ظلم پر راضی ہو جانے والا خود بھی ظالم ہے‘‘ ۔
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾ سورة الإسراء
رسول اکرم(ص) کی خدمت میں ایک شخص اذن جہاد کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں اس نے کہا کہ بے شک؛ فرمایا جاؤ ان کی خدمت کرو کہ یہی جہاد ہے ، والدین کے حق کے بارے میں امام سجادB کی دعا کے الفاظ یہ ہیں’’ پروردگار کہاں میری تربیت میں ان کی مسلسل مشغولیت، کہاں میری حفاظت میں ان کی شدید زحمت، کہاں میرے لئے وسعت فراہم کرنے میں ان کی اپنے نفس پر تنگی ؟ اور کہاں میں............ وہ تو مجھ سے اپنا حق بھی نہیں مانگتے ہیں اور میں یہ جانتا بھی نہیں ہوں کہ مجھ پر کس قدر ان کا حق ہے اور میں انکی خدمت کا حق ادا بھی نہیں کرسکتا ہوں‘‘۔
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿٣٦﴾ سورة الإسراء
مولائے کائنات حضرت علیؑ کی ولایت کا انکار کرنے والے اس دن کیا کریں گے جب کانوں سے اعلان غدیر کے سننے، آنکھوں سے دست پیغمبر(ص) پر علی ؑکے بلند ہونے اور دل سے مولائیت کے اقرار کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ ﴿٦٢﴾ سورة الإسراء
شیطان کی سب سے بڑی شیطنت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے بھی بحث کرتا ہے اور اس کے احکام کو بھی چیلنج کرتا ہے اگر چہ اسے یہ احساس ہے کہ اگر آدم افضل ہوتے تو میں سجدہ کر لیتا اور اس طرح وہ ان افراد سے بہرحال بہتر ہے جو افضل مانے کے بعد بھی مولا مانے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا﴿٧٨﴾ سورة الإسراء
واضح رہے کہ قرآن کریم نے نماز کے تین ہی اوقات بیان کیے ہیں ؛ دو نمازوں کو زوال سے وابستہ کیا ہے اور دو کو تاریکئ شب سےاور ایک کو فجر سے لہٰذا تین اوقات پر اعتراض کرنا قرآن سے ناواقفیت کی واضح دلیل ہے۔
وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ﴿١٧﴾ سورة الكهف
تزاور۔ انحراف کرنا اور کترا کر نکل جانا،گویا آفتاب ان کی امداد پر مامور تھا؛ اس واقعہ سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ رب کریم کے پاس امداد بالغیب کے بے شمار راستے ہیں جن کا اہل دنیا احساس بھی نہیں کر سکتے ہیں ،اور اسی واقعہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جو خدا چند مخلصین بندوں کے لئے سیر آفتاب یا شعاع آفتاب کا رخ موڑ سکتا ہے وہ کسی خاص مخلص بندے کے لئے مغرب سے آفتاب پلٹا بھی سکتا ہے، اس کی قدرت سے کوئی شے بعید نہیں ہے صرف عمل میں اخلاص کی ضرورت ہے۔