اسلامی انقلاب کے مبادی اور اصول
اسلامی انقلاب کے مبادی اور اصول
اشاریه:
انسانی معاشرہ ہمیشہ تغیر پذیر رہا ہے۔یہ تغیر عام طور پر کمال کی طرف گامزن ہے۔اجتماعی طور پر مثبت ، ہدف مند اور بہتری کی جانب بڑھنے ،بدلنے اور تبدیل ہونے کو ”انقلاب“ کہا جاتا ہے۔
انیسویں عیسوی کے اوائل سے لے کر اب تک اس دنیا نے کئی قسم کے انقلابات دیکھی ہے۔جن میں انقلاب فرانس ، انقلاب روس اور انقلاب اسلامی ایران قابل ذکر ہیں۔
انقلاب روس و فرانس جزوی ، محدود اور مادی انقلاب تھے جو گروہی و طبقاتی نظام کے خلاف وقتی ضرورت کے سبب وجود میں آئے۔ضرورتوں کے بدلنے سے انقلابات بھی دشمنوں کی کوششوں کے بغیر ختم ہوگئے۔لیکن انقلاب اسلامی ایران ایک اسلامی انقلاب ہے جو کسی ایک ضرورت یا ایک طبقہ یا مخصوص زمانے سے متعلق نہیں۔
جس طرح اسلام ہمہ جہت دین ہے جو نہ فقط معنوی و روحی اعتبار سے انسان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے بلکہ سیاسی و مادی لحاظ سے بھی انسانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اسلامی انقلاب بھی ایک ہمہ جہت انقلاب ہے۔اسلامی انقلاب فرانسی و روسی انقلاب کے برعکس اپنا الہی مبنا ٕ رکھتا ہے جو قرآن و حدیث میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ اسلامی انقلاب دنیا کے ستمگروں و استعماری طاقتوں کے لاکھ کوشش کے باوجود نہ فقط باقی ہے بلکہ بڑی آب و تاب کے ساتھ دنیا بھر کے مستضعفین کے لئے امید بن کر مزید مضبوط اور قوی ہوتا جارہا ہے۔ ہم اس مقالے میں اپنی بساط کے مطابق انسان کے فردی و اجتماعی زندگی میں بہتری کے لئے اسلامی انقلاب کے مبادی اور ذرین اصولوں کو واضح بیان کرنے کی کوشش کرینگے ۔ ان شاء اللہ
بنیادی الفاظ: انقلاب،انقلاب فرانس،انقلاب روس،تغیر پذیر،بنا ٕ،مستضعفین،بساط،آب و تاب.
مقدمه
انقلاب کا لغوی معنی دیکھا جاۓ تو اس کا معنی تبدیلی،یا نظام حکومت کی اچانک تبدیلی،الٹ دینا،پلٹانا یا پلٹناکسی عمل یا حالت سے ، زیر و زبر کرنا، اتار چڑھاؤ،پلٹ جانا، رد بدل وغیرہ کے معنوں میں اہل لغات نے بیان کئے ہیں۔
( صفی پوری،منتھی الارب۔رامپوری،غیاث الغات۔بہھقی،تاج المصادر)
انقلاب کا اصطلاحی معنی معاشرے میں لوگوں کے ذریعے بنیادی تبدیلی لانا ہے۔
اس وقت لفظ انقلاب جس معنی و مفھوم میں استعمال ہورہا ہے اسی معنی کے لئے پہلے لاطینی زبان میں لفظ ”ریوولوٹیو“(Revolutio) استعمال ہوتا تھا جس کا معنی گردش تھا۔
البتہ گردش کا معنی انگلش میں آسمانی گردش کے معنی کے لئے مخصوص تھا۔پھر یہ لفظ سترھویں صدی میں ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر نمودار ہوا۔
البتہ قدیم برطانیہ میں یہ لفظ صدیوں تک آمریت و بادشاہت کی بحالی کے لئے استعمال ہوتا رہا۔پھر اٹھارویں صدی کے اواخر میں امریکی انقلاب یا فرانسیسی انقلاب کے دوران اس لفظ کا موجودہ رائج معنی میں استعمال بڑھ گیا۔
اسی لئے بادشاہ فرانس لوئی سولہ کو ان کے وزیر نے کہا تھا کہ جناب عالی ! یہ فسادات نہیں انقلاب ہے.
انقلاب کی قسمیں
مفھوم انقلاب کو بہتر سمجھنے کے لئے تبدیلی کی قسموں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تبدیلی یا انقلاب فردی و اجتماعی میں تقسیم ہوتا ہے۔
انقلاب اجتماعی کی کئی قسمیں ہیں۔
1-آمریت۔
کسی فرد واحد یا چند افراد کے ذریعے کسی نظام حکومت کے خلاف کوشش کر کے حکومت حاصل کرنے کو آمریت کہا جاتا ہے۔
2-شورش۔
معاشرے میں کوئی گروہ حکومت کے کسی پالیسی یا قانون کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کریں ۔ اس کی تبدیلی کے لئے احتجاج ، ہڑتال ، بھوک ہڑتال ، یا دھرنا دیا جاتا ہے۔ اسے شورش کہا جاتا ہے۔
3-بغاوت
کسی بھی حکومت میں کلی تبدیلی کے لئے گروہی یا عوامی جدوجہد ہو مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو تو اسے بغاوت اگر کامیاب ہو تو انقلاب کہا جاتا ہے۔
انقلاب و اصلاح میں فرق
ایک اہم بات انقلاب و اصلاح میں فرق کو جاننا ہے۔
انقلاب:
کلی طور تبدیلی کا وہ طریقہ ہے جو عوام کی طرف سے بنیادی مسائل و مشکلات کی حل کے لئے یک مشت احتجاجات و جلاٶ گھیراٶ بلکہ جانوں کی قربانی سے یک مشت لایا جاتا ہے۔
اصلاح:
کسی بھی حکومت کی جانب سے تدریجی طور پر آرام و سکون کے ساتھ سطحی تبدیلی لانے کو اصلاح کہا جاتا ہے۔
اب ہم انقلاب کے مفھوم و مطالب سے آشنائی کے بعد دنیا کے دو مشہور و معروف انقلاب یعنی انقلاب فرانس و انقلاب روس کا مختصر ذکر کرنے کے بعد انقلاب اسلامی ایران سے مختصر تقابلی جائزے کے بعد انقلاب اسلامی ایران کی اہم خاصیت یعنی اس کے مبادی و اصول کو بیان کریں گے۔
انقلاب فرانس
یوں تو دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آۓ ہیں ۔مگر ان انقلابات میں ایک قابل ذکر انقلاب انقلاب فرانس ہے۔
انقلاب فرانس کادورانیہ 1789 سے لے کر 1799 تک دس سال پر مشتمل ہے۔
یہ ایک طبقاتی نظام کے خلاف وقتی جنگ تھی۔ یا پھر یہ انقلاب ، مذہبی پادریوں اور اشرافیہ کے خلاف دل برداشتہ عوام کا فیصلہ تھا۔ چونکہ پادریوں یا چرچ کے پاس پورے فرانس کی دس فیصد زمینیں تھیں۔ان کے پاس عوام پر ٹیکس لگانے کا مکمل اختیار تھا۔بشپ سارے اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔پادری اور اشرافیہ کے ہاتھوں فرانس کے %45 ذرعی وسائل تھے۔
طبقہ اشرافیہ کی عیاشیاں روز بروز بڑھتی جارہی تھی جس کے سبب خزانہ خالی ہوتا جارہا تھا اور خالی خزانے کو بھرنے کے لئے بےتحاشا ٹیکس لگاۓ جارہے تھے۔اس صورت حال سے عوام سخت نالاں اور دلبرداشتہ تھے۔ان صورت حال و عوامل کے سبب انقلاب فرانس 14 جولائی 1789 ٕ کو وجود میں آیا ۔
اس وقت فرانس پر بادشاہ ”لوئی سولہ“ کی حکومت تھی۔ کہتے ہیں کہ اس دن بادشاہ کا قریبی وزیر ملکی حالات سے باخبر کرتے ہوۓ دن بھر کی واقعات بتارہے تھے۔تو بادشاہ نے ٹوکتے ہوۓ کہا کہ ہمیں معلوم ہیں کہ ملک میں فسادات ہورہے ہیں ۔اس پر وزیر نے ہمت کرتے ہوۓ نہایت احترام سے کہا کہ ”جناب عالی یہ فسادات نہیں انقلاب ہے“ اسی روز ہی پیرس میں کا قلعہ جو ایک بدنام جیل کے نام سے معروف ہوچکا تھا۔ یہ جگہ خوف و دہشت کی علامت بن گئی تھی۔کہتے ہیں کہ اس قلعے میں بادشاہ کے مخالفین کو لاکر ان پر بےتحاشا تشدد کیا جاتا تھا۔اس روز یہاں سات قیدی اور اسلحے کا ایک ڈپو تھا۔اس پر حملہ کر کے نہ فقط قیدیوں کو آزاد کرایا بلکہ انقلابی عوام نے کافی تعداد میں اسلحہ بھی لوٹا۔
ان انقلابیوں نے پیرس کے گورنر کو قتل کر کے ان کا سر بھی ایک نیزہ نما لوہے پہ چڑھا کر دن بھر پورے شہر میں جلوس کی شکل میں پھراتے رہے۔ اس انقلاب کی بنیاد ظاہرا عوامی آزادی ،برابری اور اخوت جیسے نعروں پہ تھا۔جس سے پورے یورپ میں موجود بادشاہوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجی اس لئے تمام بادشاہوں نے اس انقلاب کو وہیں ختم کرنا چاہا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوۓ۔ انقلابات میں انقلابی آئیڈیا لوجی یا نعرے ہر موڑ پہ بدلتے رہتے ہیں۔انقلاب فرانس کے پیچھے کوئی منبع یا فلسفہ نہیں تھا بلکہ یہ عوام کی ایک وقتی ضرورت تھی اس وجہ سے یہ دس سال کے عرصے میں کئی پیچ و خم کھاتے ہوۓ بلآخر ختم ہوگیا۔ یہ انقلاب امن آشتی اور عوام کے لئے ایک بہترین و پر امن ماحول نہیں لاسکا۔کوئی قابل قبول عقلی فلسفی یا دینی ضابطہ نہیں دے سکا ۔1794 تک شہر تشدد اور قتل و غارت گری و بد امنی کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ ہرطرف خوف و ہراس کی فضاتھی۔ اس انقلاب کا اختتام انقلاب کے عظیم داعی ”میکس میلاں روۓ سپئر“ کا سر قلم کرنے سے ہوا۔
1799 میں نپولیئن نے اقتدار پہ قبضہ کرلیا۔جسے یورپی ممالک نے سراہا مگر جب نپولین کے قدم فرانسيسی سے باہر نکلنے لگے تو یورپی طاقتوں نے اسے بھی ماضی کا حصہ بنادیا۔(ٹیڈ گرانٹ کی کتاب کا ترجمہ۔روس انقلاب سے رد انقلاب تک) انقلاب روس دنیا کے بڑے انقلابوں میں سے ایک انقلاب انقلاب روس ہے۔ عظیم روس میں فروری 1917 میں کھانے پینے کی اشیا ٕ کی عدم دستیابی پر پیدا ہونے والی عوامی بےچینی نے پشت سر دو انقلابوں کی راہ ہموار کی تھی۔
پہلا انقلاب ماہ فروری کا تھا اور دوسرا انقلاب سات ماہ بعد سوشلیسٹ بالشویک والوں کا انقلاب تھا۔ روٹی اور دوسرے سامان خوردنوش کی عدم دستیابی سے پیدا ہونے والے انقلاب اور کمزور و بھوکے انقلابیوں کی ناتوان و نحیف احتجاجات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ جس نے روسی بادشاہت کو تخت سمیت زمین بوس کردیا۔آخری روسی بادشاہ ”زار نکولس دوم“ نے تخت سے دومارچ کو دستبرداری کا اعلان کردیا۔ فروری انقلاب کے بعد قائم ہونے والی عبوری روسی حکومت بھی مستحکم نہ ہوسکی چونکہ یہ حکومت عوامی ضروریات کو پورا کرنے اور عوامی بےچینی میں کمی لانے میں ناکام و نامراد رہی۔
یوں اس بےچینی و افراتفری سے ”لینن“ کی قیادت میں اٹھنے والی مارکس بالشویک انقلاب کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔ بلآخر 25 اکتوبر 1917 کو بالشویک انقلابیوں نے شاہی دارالحکومت ”سینٹ پیٹرز برگ“ میں سرکاری عمارتوں پر قبضہ شروع کیا۔ جولائی 1918 میں سارے شاہ خاندان کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔
بالشویک انقلاب کے بعد لینن نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 1922 میں وسیع و عریض کمیونسٹ سوشلسٹ ریاست کو قائم کیا تھا۔یہ عظیم انقلاب بھی اپنے سات دہائیاں مکمل کرنے کے بعد 1991 میں اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔
انقلاب جمہویہ اسلامی ایران:
دنیا کے تمام انقلابات کے مقابلے میں انقلاب اسلامی ایک عظیم انقلاب ہے ۔یہ اب تک کی وہ عظیم انقلاب ہے جو دین یعنی اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔
اس انقلاب کی چند بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
۱-اس انقلاب کا خالص مذہبی ہونا۔
2-ایک خاص مذہبی آئیڈیا لوجی و طرز حکومت و معاشرت کا حامل ہونا۔
3-قرآن و حدیث جیسے الہی و دینی منابع کا حامل ہونا۔
4-انقلاب کے اصولوں کا قرآن و حدیث کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونا۔
5-امام مہدی( عج) کی عالمی عادلانہ حکومت کے لئے ضمیمہ بننا۔
دوانقلابوں اور اسلامی انقلاب کا بنیادی فرق
اسلامی انقلاب کا الہی مبداء و مبنی اور اس کے اصولوں کے تحت ہونا ہی اس انقلاب کی اہم خاصیت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ انقلاب دوسرے انقلابات کے برعکس کسی خاص طبقہ فکر یا عوام کے کسی خاص جزوی ضرورت کے لئے نہیں آیا۔بلکہ اسلام جیسے آفاقی مذہب کے تمام قوانین اور انسان کے جسمانی و روحانی ارتقا ٕ کے تمام تقاضوں کے تکامل کے لئے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وجود میں لایا گیا۔
اس انقلاب کے لئے کسی خاص عمارت پہ قبضہ نہیں کیا گیا۔نہ ہی کسی خاص خاندان کا قتل عام کیا گیا نہ ہی کسی کا سرقلم کر کے نیزے پہ پھرایا گیا۔ جب شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نےعوام پر گولیاں برسائی جارہی تھی تو خمینی بت شکن کے حکم پر شاہی افواج کو گولیوں کے جواب میں پھول پیش کیا گیا۔اسی طرح سرکاری و قومی املاک کو بھی انقلابیوں کی طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
اسلامی انقلاب کے مبانی
اسلامی انقلاب کے مبانی ان چار چیزوں پر مشتمل ہیں۔
1-قرآن
2-سنت (حدیث)
3-اجماع
4-عقل
قرآن مجید اور حکومت کی تشکیل:
قرآن کی نظر میں حاکمیت و حکومت کے حقدار حکم اولی کے مطابق خدا کو حاصل ہے۔
اس پہ ہم چند آیتیں پیش کریں گے۔
ان الحکم الااللہ،حکم فقط خدا کی طرف سے ہے۔(سورہ انعام آیت نمر 57)
فااللہ ھو الولی،
پس خدا ہی حاکم ہے۔(سورہ شورای آیت نمبر 9)،
الالہ الخلق والامر،
خبردار!اسی کے لئے خلق اور امر ہے۔ان آیتوں سے خدا کی حاکمیت واضح ہوتی ہے۔
حاکمیت کے حقدار:
خدا کے علاوہ حاکمیت کا حق انہیں حاصل ہیں جنہیں خدا و رسول اجازت دیں ۔جو قرآنی آیات اور روایات و احادیث سے ثابت ہو۔جیسے
«اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم»
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور جو تم میں سے صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ (سورة النسا ٕ آیت نمبر 59)
إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمونَ الصَّلاةَ وَيُؤتونَ الزَّكاةَ وَهُم راكِعونَ.
صرف اللہ تمھارا ولی اور اس کا رسول اور وہ باایمان لوگ جو نماز قائم کرتے اور زکواة دیتے ہیں درحالانکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔(سورہ مائدہ آیت نمبر 55)
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔
(اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ (اسے) بخوشی تسلیم کریں۔(سورہ نسا ٕ آیت نمبر 65)
«النبی اولٰی بلمٶمنین
نبی تمھارے نفسوں پر تم سے ذیادہ حق رکھتا ہے۔(احزاب آیت نمبر 6)
«اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا»،
اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں ۔(النسا ٕ آیت نمبر 105)
مرسلہ صدوق میں رسول خدا کی اس حدیث کو امیرالمٶمنین کےذریعے نقل کیا ہے کہ
امیر المٶمنین فرماتے ہیں :
رسول خدا نے تین مرتبہ فرمایا: اے پروردگار میرے خلفا ٕ پہ رحم فرما۔پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول آپ کے خلفا ٕ کون ہیں؟ فرمایا: وہ افراد جو میرے بعد آئیں گے اور میری حدیث اور سنت کو نقل کریں گے ۔
( صدوق،عیون اخبارالرضا ج ٢۔صدوق، من لا یحضرالفقیہ ج ٤۔)
یہ مرسلہ صدوق بہت سے علماۓ کرام کے لئے قابل اعتبار ہیں۔
بہت سے فقہا ٕ جیسے صاحب جواہر ملااحمد نراقی ،صاحب عناوین یعنی میر عبدالفتاح مراغی ، آیت اللہ گلپائیگانی،اور آیت اللہ سید روح اللہ خمینی نے حکومت ولایت فقیہ کے اثبات کے لئے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔.
العلما ٕ حکام علی الناس۔
علما ٕ لوگوں پر حاکم ہیں۔(آمدی،غررالحکم ج ١)
الملوک حکام علی الناس والعلما ٕ حکام علی الملوک۔
بادشاہ لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں اور علما ٕ بادشاہوں پر حاکم ہوتے ہیں۔(کراجکی،کنزالفوائد ج ٢)
امام حسین ع نے مقام منی پہ علماۓ کرام سے خطاب کرتے ہوۓ فرمایا۔
امور کی تدبیر اور احکام کا اجرا ٕ ان علماۓ ربانی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خدا کے حلال و حرام کے امین ہوتے ہیں۔پس تم سے یہ مقام و مرتبہ چھین لیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے حق سے منہ پھیر لیا۔(حرانی، تحف العقول عن آل الرسول ج ١،ص 238)
عقل و اجماع:
عقل بھی شرعی احکام کے منابع میں سے ہے اور شارع مقدس کی نظر کو کشف کرسکتی ہے۔
اس پر علم اصول میں مستقلات عقلیہ و غیر مستقلات عقلیہ کے نام سے ایک معرکة الآراء ٕ بحث موجود ہے۔
شرعی حکم کے استنباط میں عقلی دلیل کا بھی وہی کردار ہے جو دوسری شرعی ادلہ کا ہے۔شارع مقدس کی نظر کو کشف کرنے میں عقلی دلیل کا قابل اعتبار ہونا اپنی جگہ پر ثابت ہوچکا ہے بنابر ایں ولایت فقیہ پر دلیل عقلی محض مستقلات عقلیہ کی قسم سے ہے اور مستقلات عقلیہ میں کسی نقلی دلیل سے مدد لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔
نبوت عامہ کی ضرورت پر فلاسفہ کی مشہور برہان کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جس کا نتیجہ نہ صرف ضرورت نبوت بلکہ ضرورت امامت پھر ضرورت نصب فقیہ عادل کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔
مرحوم محقق نراقی پہلی شخصیت ہے کہ جنہوں نے حکومت اسلامی یا ولایت فقیہ کی اثبات کے لئے عقلی دلیل کا سہارا لیا ہے۔
ان کے بعد دوسرے فقہا نے اسے آگے بڑھایا ہے۔مختلف طرز کی عقلی ادلہ کی وجہ ان کے مقدمات کا مختلف ہونا ہے ۔اور قاعدہ لطف و حکمت الہی سے بھی مدد لی گئی ہے۔
بقول آیت اللہ سید روح اللہ خمینی (رح)کے کہ ”عقل کے واضح احکام میں سے کہ جن کا کوئی انکار نہیں کرسکتا یہ ہے کہ انسان کے بیچ ایک حکومت کا ہونا ضروری ہے اور بنی نوع انسان نظم و نسق ، قانون ، ولایت اور بنیادی حکومتوں کا ضرورتمند ہے۔(خمینی،کشف الاسرار ص ٢٢٢)
ضرورت حکومت امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں:
مولا علی ع نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ ”لوگوں کے لئے حاکم کا ہونا بہت ضروری ہے۔خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔۔۔۔(رضی،خطبہ ٤٠)
پس حکومت اسلامی کی بنیاد بھی انہیں
منابع اربعہ یعنی قرآن ، سنت ، عقل و اجماع پر ہے۔
عادلانہ حکومت کی تشکیل:
از روۓ قرآن و حدیث عادلانہ حکومت کی تشکیل تمام مسلمانوں بلاخص علماۓ حقہ کی زمہ داریوں میں سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ
«وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ»۔
جولوگ خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں، پس وہ لوگ ہی کافر ہیں۔(سورہ مائدہ آیت نمبر 44)
«وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْظالمون»۔
جولوگ خدا کےنازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے پس وہ لوگ ہی ظالم ہیں۔(سورہ مائدہ آیت نمبر 45)
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفاسقون۔
پس خداوند عالم نے بہت سی آیات میں لوگوں کو گناہ گاروں اور ہوس پرست افراد کی اطاعت سے منع کیا ہے۔
یہ تما امور بےعدالتی کی علامت ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
«ولاتطیعوا أمر المسرفین* الذین یفسدون فی الارض ولا یصلحون»،
اور زیادتی کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو۔جو زمین میں فساد پیدا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔(سورہ شعرا ٕ آیت 151،152)
دوسری جگہ فرماتا ہے کہ
«ولاتطع مناغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا»
اور اس کی اطاعت نہ کرو جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہےوہ اپنی خواہشات کا تابع ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔(سورہ کہف آیت نمبر 28)
امام حسین ع فرماتے ہیں کہ ”
فلعمری ما الامام الّا الحاکم بالکتاب،القائم باالقسط والدائن بدین اللہ
“ مجھے اپنی جان کی قسم امام وہی ہوسکتا ہےجو قرآن کے مطابق فیصلہ کرے۔عدل و انصاف قائم کرے اور دین خدا پر عمل کرے۔(ارشاد مفید،ج 2،ص 39)
فقاہت:
جس طرح اسلامی معاشرے کا حاکم اصلی خدا اور قانون اصلی قرآنی تعلیمات و سنت رسول و آئمہ ہیں اسی طرح اس معاشرے کی باگ دوڑ جس کے ہاتھ میں ہو عقلا اس کا دین کی اعلی تعلیمات سے آگاہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ لذا اس حاکم کو ولی فقیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔اس پر دلالت کرنے کے لئے بہت سی روایات موجود ہیں۔
مقبولہ عمر ابن حنظلہ: امام معصوم فرماتے ہیں کہ
« من کان منکم ممن قد روای حدیثنا و نظر فی حلالنا و حرامنا وعرف احکامنا فلیرضوا بہ حکما ،فانّی قد جعلتہ علیکم حاکما»
تم میں سے جس شخص نے ہماری احادیث کی روایت کی ہو اور ہمارے حلال و حرام میں غور و فکر کیا ہو اور ہمارے احکام سے واقف ہو اسے اپنا حاکم قرار دو کیونکہ میں نے اسے تم پر حاکم بنایا ہے۔(حرعاملی ، وسائل الشیعہ ،ج 27،ص 136، باب 11،از ابواب صفات قاضی)
مشہورہ ابی خدیجہ: امام صادق ع فرماتے ہیں کہ
«ولکن انظروا الیرجل منکم یعلم شیئا من قضائنا فاجعلوہ بینکم»
لیکن دیکھو تم میں سے جو شخص ہماری قضاوت سے واقف ہو اسے اپنے درمیان قاضی قراردو“(کلینی،اصول کافی ج 7، ص 412،کتاب الاقضاوالاحکام باب کراھیہ الارتفاع الی قضاة الجور)
توقیع امام زمانہ:
«اماالحوادث الواقعہ فارجعوا فیھا الی رواة احادیثنا»
لیکن پیش آنے والے نئے واقعات میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو۔(صدوق،عیون اخبار الرضا ج 2، ص37، باب31)
جس طرح مندرجہ بالا آیات قرآنی اور روایات سے اسلامی معاشرے کے حاکم کا عالم فقیہ و عادل ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
اسلامی انقلاب بھی انہیں آیات و روایات کے عین مطابق ولایت فقیہ کی حکومت کو انہی مبانی سے استنباط کرتے ہیں۔
انقلاب اسلامی اور مسئولین کی ذمہ داری کوئی بھی حکومت جب اسلام کے نام پر وجود میں آۓ تو دینی مبنا ٕ کے تحت ان کی کیا ذمہ داری ہیں۔یہ قرآنی آیات و روایات کی روشنی میں واضح ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اور ابن عباس کے درمیان مقام ”ذی قار“ میں جو مکالمہ ہوا تھا اس میں آپ نے حکومت کرنے کا مقصد حق کا قیام اور باطل کو روکنا قرار دیا تھا۔
اسی طرح رسول خدا نے معاذ ابن جبل کو یمن کا والی بناکر بھیجاتو انہیں نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا کہ
”اے معاذ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینا۔اچھے اخلاق سکھانا ۔اچھے اور برے افراد کو ان کے مقام پر رکھنا۔جاہلیت کی ہر رسم کو فنا کردینا مگر جس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔اسلام کے چھوٹے بڑے ہر حکم کو قائم کرنا۔(حرانی،تحف العقول ص 26)
آیت اللہ سید روح اللہ خمینی بت شکن کا پیغام حکومت و وزرا ٕ کے نام اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عظیم فقیہ ،آیت اللہ سید روح اللہ خمینی بت شکن نے اسلامی منابع کی روشنی میں وزارتوں کی ذمہ داریوں سے بابت ارشاد فرمایا کہ
”حکومت کے ذمہ دار گناہ سے دور رہیں۔اس مقام پر برہنہ عورتیں نہ لائی جائیں۔عورتیں رہیں تو حجاب کے ساتھ ،کام کریں تو اسلامی حجاب کے ساتھ شریعت میں رہتے ہوۓ کریں۔ یہاں سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کی جائیں۔بےشمار سجاوٹیں اور دوسری چیزیں جو وہاں ہیں سب حکومتی خزانے میں رکھوادی جائیں۔تاکہ عوام کے لئے خرچ ہو۔عوام عدالت کے خواہاں ہیں۔ انہیں بڑے بڑے کمرے کی خواہش نہیں ہے۔انہیں اسلامی حکومت کی ضرورت ہے۔(خمینی،صحیفہ امام ، ج 6،ص 329)
اس دور اور آنے والے دور کےوزرا ٕ سے میری وصیت ہے کہ یہ جو پیسہ آپ خرچ کر رہے ہیں یہ سب قوم کا ہے۔آپ سبھی حضرات قوم خاص کر غریبوں کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔انہیں مشکل میں نہ ڈالیں۔اپنی ذمہ داری کے برخلاف کام نہ کریں۔کیونکہ یہ حرام ہیں۔(خمینی،صحیفہ امام ،ج 9،ص 451)
اسلام کی بنیاد پر امور کی اصلاح انقلاب اسلامی کے بانی آیت اللہ سید روح اللہ خمینی (رح )نے فرمایا کہ ”
ہمیں اب باور کر لینا چاہئے کہ طاغوت کی بساط اب لپیٹ دینی چاہیے ۔طاغوت کا دور ختم ہوگیا۔ایسانہ ہو کہ فقط اونچے عہدہ کے افراد چلے جائیں باقی سبھی اپنی جگہ قائم رہیں ، تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوۓسبھی افراد، سبھی ادارے، بازار سمیت سبھی جگہیں ایسی ہو جائیں کہ جب بھی کوئی دیکھے تو اس کو محسوس ہو یہ ایک اسلامی حکومت ہے۔اس میں سبھی چیزیں اسلامی ہیں۔یہاں نہ ناپ تول میں کمی زیادتی ہو نہ جھوٹ بولے ، نہ دھوکے بازی ہو۔(خمینی،صحیفہ امام ، ج 9، ص 451)
نتیجہ اس بدلتی دنیا میں روزنت نئی چھوٹے بڑے انقلابات آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔انقلاب فرانس و انقلاب روس جیسے بڑے انقلاب آۓ اور گزر گئے۔ جب کہ ان کا کوئی خاص شدید قسم کا دشمن بھی نہیں تھا۔
اس کے باوجود اس دنیا سے مٹ گئے اور قصہ پارینہ ہوگیا مگر انقلاب اسلامی ایران قدیم و جدید ہرقسم کی دشمنوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود آج ایک مضبوط و مستحکم تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس انقلاب نے نہ اوائل میں کسی خاص عمارت کو فتح کیا نہ ہی قتل عام کیا نہ ہی سطحی مطالبات لے کر اٹھے بلکہ یہ انقلاب تمام مستضعفین جہاں کی آزادی اور ظالم و ستمگر طاغوتی طاقتوں کے خلاف اسلام کے واضح احکامات کی روشنی میں رونما ہوا۔جو انسان کے جسمانی و روحانی دنیاوی و اخروی زندگی کی کامیابی و کامرانی اور ارتقا ٕ و تکامل کے لئے برگزار ہوا۔ہزاروں شھدا ٕ کے خون مطہر کے نتیجے میں چیدہ چیدہ شخصیات کی شہادت اور آٹھ سالہ عالم استکبار کی مسلط کردہ جنگ اور دیگر تمام تر مکر و فریب کے باوجود آج باقی ہے۔اور اس کی بقا ٕ کا راز اس کا اسلامی مبانی کے تحت ہونا اور امام مہدی (عج) کی عالمی عادلانہ حکومت کے لئے راہ ہموار کرنے کا جذبہ ، شوق ، لگن اور ایمان ہیں”گام دوم“ انہی دینی مبنی ٕ کےتحت ایک عالمی اسلامی تمدن ،تہذیب اور ثقافت کو وجود میں لانے کے لئے عملی کوشش اور اپنی مسئولیت کی ادائیگی کا نام ہے۔
ہماری دعا ہے کہ خدا اس عظیم انقلاب کو انقلاب مہدوی سے متصل کرے۔آمین۔
حوالہ جات۔
۱.قرآن مجید 1.صفی پوری ، عبدالرحیم بن عبدالکریم،منتھی الارب،بی جا
۲-.رامپوری ، غیاث الدین محمد بن جلال الدین ، فرھنگ غیاث الغات،تھران ، امیر کبیر 1363ش
۳-.بیہقی،احمد بن علی،تاج المصادر،بی جا،پژوھش گاہ علوم انسانی،و مطالعات فرھنگی،1376 ش
۴-.ٹینڈ گرانٹ،روس انقلاب سے رد انقلاب تک،لاہور،طبقاتی جدوجہد پبلشر۔ اردو ترجمہ
۵- حرانی،ابومحمد حسن بن علی ،تحف العقول عن آل رسول، قم
۶- مفید،محمد بن نعمان،الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد،قم،گنگرہ شیخ مفید
۷-حرعاملی،.محمد بن حسن،وسائل الشیعہ،قم،مٶسسہ آل بیتلاحیا ٕ الاثرات
۸-.کلینی ،محمد بن یعقوب،اصولکافی ،قم،اسوہ
۹- صدوق،محمد بن علی ابن بابویہ،عیون اخبار الرضا،تھران،دارالکتب الاسلامی
۱۰-.خمینی،روح اللہ،صحیفہ امام،تھران،مٶسسہ تنظیم و نشر آثار آیت اللہ سید روح اللہ خمینی