بقیع میں مدفون ائمہ
ائمہ بقیع
ائمہ بقیع سے مراد شیعوں کے وہ چہار امام ہیں جو جنت البقیع، مدینہ میں مدفون ہیں۔ وہ ائمہ یہ ہیں: امام حسن مجتبیؑ، امام سجادؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ۔ ان ائمہ کے قبور پر پہلے زمانے میں ضریح بنائی ہوئی تھی لیکن سنہ 1344 ہجری میں وہابیوں کے ہاتھوں انہدام بقیع کے موقع پر انہیں بھی منہدم کر دیا گیا۔
بقیع میں مدفون ائمہ
قرستان بقیع میں شیعوں کے چار امام مدفون ہیں، اسی کی وجہ سے ان اماموں کو ائمہ بقیع کے نام سے بھی یاد کئے جاتے ہیں:
حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبی کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام اور امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپؑ 37 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے اور سنہ41 ہجری میں معاویہ کے ساتھ صلح کیا۔ آپ کی مدت امامت چھ ماہ تین دن تھی۔ صلح کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں دس سال زندگی فرمائی۔ سرانجام شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔[1]
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (38-94ھ)، امام سجاد یا زین العابدین کے نام سے مشہور شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 34 سال تھی۔ آپ واقعہ کربلا میں وجود تھے اور اسرائے اہل بیت کے ساتھ کوفہ اور شام لے جائے گئے۔ شیعہ روایات کے مطابق امام سجادؑ ولید بن عبد الملک کے حکم سے زہر سے مسوم اور شہید ہوئے۔[2] آپ بھی بقیع میں امام حسن مجتبی کے ساتھ مدفون ہیں۔[3]
محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (57-114ھ)، امام باقرؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ تقریبا 19 سال تک امامت کے منصب پر فائز رہے اور سنہ 114 ہجری کو ہشام بن عبدالملک کے حکم سے مسموم اور شہید ہوئے۔[4] آپ بھی بقیع میں اپنے پدر بزرگوار امام سجادؑ اور امام حسن مجتبیؑ کے ساتھ مدفون ہیں۔[5]
جعفر بن محمد بن علی بن حسین (83-148ھ)، امام صادق کے نام سے مشہور شیعوں کے چھٹے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 34 سال ہے۔امام صادقؑ 65 سال کی عمر میں شہید ہوئے اور امام باقرؑ اور دوسرے دو اماموں کے ساتھ بقیع میں مدفون ہیں۔ [6]
گنبد اور ضریح
چار ائمہ معصومین کے قبور کے ساتھ عباس بن عبدالمطلب، حضرت فاطمہ زہراؑ سے منسوب قبر یا فاطمہ بنت اسد کی قبر موجود ہے۔ بنی عباس نے عباس بن عبدالمطلب کے قبر کی حفاظت کیلئے اس پر ایک عمارت تعمیر کروائی۔ اس گنبد کو بھی بقیع میں موجود دیگر گنبدوں کے ساتھ تعمیر کروایا گیا۔ اس سے قبل یا اس کے بعد ازواج رسول خدا، آپ کی پھوپھیوں اور امام مالک وغیرہ کے قبور پر بھی گنبد بنایا گیا تھا۔ چھٹے صدی ہجری کے بعد سے یہاں پر مدفون شخصیات کے ماننے والوں میں سے ہر کسی نے اپنے بزرگوں کے قبول پر گنبد بنانا شروع کیا۔[7]
اندلس کے مشہور مسلمان سیاح ابن جبیر کے مطابق امام حسنؑ اور عباس بن عبد المطلب کے قبر پر بنایا گیا گنبد بہت بلند تھا۔[8] ابن بطوطہ نے بھی ابن جبیر کے بعد (شاید ان کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے) چھٹے صدی ہجری میں بقیع کی توصیف میں عباس اور امام حسنؑ کے مبقروں کو بلند و بالا گنبدوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔[9] صَفَدی نے بھی شیعوں کے چار امام اور پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس کی قبر پر گنبد کی طرف اشارہ کیا ہے۔[10]
سنہ 1293 ش میں فرہاد میرزا قاجار اور 1303 ش میں محمد حسین خان فراہانی کے سفر ناموں میں بقیع میں موجود ائمہ کے قبور کی حالت کے بارے میں انہدام سے پہلے تک بہت ساری معلومات مذکور ہیں جن میں وہاں مدفون ائمہ کے قبور پر گنبد ہونے کا تذکرہ موجود ہے۔[11]
انہدام بقیع
بقیع میں موجود عمارتوں اور گنبدوں کو پہلی بار سنہ 1221 ہجری میں وہابیوں نے منہدم کر دیا تھا جسے عبدالحمید دوم سلطان عثمانی نے دوبارہ مرمت کروایا لیکن 8 شوال سنہ 1344 ہجری کو مدینہ کے حاکم امیر محمد نے اپنے باپ عبدالعزیز آل سعود کے حکم سے ان گنبدوں کو دوبارہ ویران کر دیا۔[12]
حوالہ جات
-1جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۶۸-۱۶۹۔
-2شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۱۴۳۔
-3مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸۔
-4مصباح کفعمی، ۶۹۱.
-5فرق الشیعۃ ۶۱، اصول کافی ۲/۳۷۲، ارشاد مفید ۲/۱۵۸، دلائل الامامۃ ص۲۱۶، اعلام الوری ۲۵۹، کشف الغمۃ ۲/۳۲۷، تذکرۃ الخواص ۳۰۶، مصباح کفعمی ۶۹۱،
-6المفید، ۱۳۸۰ش. صص۵۲۶-۵۲۷.
-7جعفریان، ص۳۳۰.
-8ابن جبیر، رحلة ابن جبیر، دار و مکتبۃ الہلال، ص۱۵۵.
-9سفرنامہ ابن بطوطہ، ج۱،ص۱۲۸.
-10الوافی بالوفیات، ج ۴،ص۱۰۳، ج ۱۱،ص۱۲۷.
-11سفرنامہ فرہاد میرزا معتمد الدولہ، ص۱۷۰، ۱۷۳، ۱۹۰.؛ سفرنامہ میرزا محمد حسین حسینی فراہانی، ص۲۲۸-۲۳۴.
-12نجمی، تاریخ حرم ائمہ، ۱۳۸۶، ص۵۱۔
مآخذ
ابن بطوطہ، سفرنامہ ابن بطوطہ، ترجمہ محمد علی موحد، تہران، تہران، علمی و فرہنگی، 1982ء۔
ابن جبیر، محمد بن احمد، رحلۃ ابن جبیر، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، بیتا۔
جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، 2007ء۔
جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انتشارات انصاریان، 2002ء۔
شبروای، جمال الدین، الإتحاف بحب الأشراف، قم، دارالکتاب، ۱۴۲۳ھ۔
صفدی، خلیل بن ایبک، کتاب الوافی بالوفیات، بیروت، ویسبادن، ۱۴۰۸ّھ۔
فراہانی، محمد حسین بن مہدی، سفرنامۃ میرزا محمد حسین حسینی فراہانی، تہران، چاپ مسعود گلزاری، 1983ء۔
میرزا قاجار، فرہاد، سفرنامۃ فرہاد میرزا معتمد الدولہ، تہران، چاپ اسماعیل نواب صفا، 1987ء۔
مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، تہران، نشر مشعر، 2007ء۔