کتاب نھج البلاغہ کے بارے میں چند کلمات
نہج البلاغہ
سوال: بسمہ تعالیٰ
جناب مرجع دینی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہم متمنی ہیں کہ آپ کتاب نھج البلاغہ کے بارے میں چند کلمات ذکر فرمایئں ۔
پروردگار آپ کو اسلام و مسلمین کے لیے تا دیر ذخیرہ بنائے۔
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس کتاب شریف میں مولانا امیر المومنین (ع) کے کلام میں سے جو کچھ بھی وارد ہوا ہے وہ اللہ اور اسکے نبی مصطفیٰ (ص) کے کلام کے بعد۔بلند ترین کلام شمار ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں غور و فکر کرنےاور کائنات کی حقیقت اور اس میں تامل کا فطری منھج بیان ہوا ہے۔ اصولِ اسلام اور اسکے معارف اور حکم ِ زندگی کی وضاحت ہے،اور ایسی سنتوں و سیرتوں کا بیان ہے کہ جن کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نفس کے تزکیہ اور اسکی ریاضت کا بھی بیان ہے ۔اس میں مقاصد شریعت اور وہ چیزیں کے جن پر احکام کی بنیاد ہے واضح کردی گئی ہیں، اور حکمرانی کے آداب و شرائط و استحقاق کی یاد دہانی بھی ہے اوراللہ تعالیٰ کی ثناء اور اسکے سامنے دست دعاء پہیلانے کے اسلوب کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور اسکے سوا اوربھی بہت کچھ ہے۔
جیسا کہ ایک جہت سے یہ کتاب تاریخ ِاسلامی اور جو حادثات بعد نبی (ص) خاص طور پر خلافت امام (ع) میں واقع ہوئے ان سب کا ایک سچا آینہ ہے اسی طرح اس میں امام ؑکی سیرت حیات، انکے اخلاق و عادات،انکے علم و فقھ کی جوانب بھی متضمن ہیں۔یہ کتاب کھلی دعوت ہے تمام مسلمانوں کے لیے تا کہ وہ اپنے دینی امور میں کسبِ نور کریں اس کتاب سے سیکھیں اور اپنا تزکیہ کریں۔ اور بالخصوص نوجوانوں کو اسکے مطالعہ کے ذریعے اس میں تدبر سے اور اسے کسی حد تک حفظ کر کے اس کتاب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بہت ہی مناسب ہے ان لوگوں کے لیے جومحبت ِ امام (ع) کا دعوہ رکہتے ہیں اور تمنی کرتے ہیں کہ کاش وہ امام (ع) کے زمانے میں ہوتے تو خود امام (ع) کے موعظے کو سنتے، اور ان کی ہدایت سے سرفراز ہوتے۔
ان ہی کی نھج پر گامزن ہوتے ۔انہیں چاہیے کے وہ یہ سب کام اس کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں۔ بیشک جیسا کے امام (ع) نے جنگ جمل میں فرمایا تھا کہ یقینا انکے ساتھ اس جنگ میں وہ لوگ بھی حاضر ہوگئے ہیں کہ جو ابھی مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں موجود ہیں ۔امام (ع) کی مراد وہ لوگ تھےکہ جن کی صدق ِ نیت کو خدا نے جان لیا تھا کہ وہ امام(ع) کے ساتھ ان کے زمانے میں حاضر ہونے اور انکی اقتدا کی تمنیٰ رکھتے ہوں گے۔اور یہی وہ لوگ ہونگے جو ان کے اولیاء کے ساتھ اس دن محشور ہونگےکہ جب ہر انسان کو اس کے امام کے پیچھے محشور کیا جائے گا۔ ایسا فقط اس لیے کہ وہ لوگ جس حق کو پہچانتے ہونگے اس پرعمل کرنے میں شبھات کے بہانے نہ تلاش کرتے ہونگے اور نہ ہی امام (ع) سے تعلق کی خالی کھوکلی تمنیٰ سے اپنی زیب و زینت کرتےہونگے۔مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ امام(ع) نے ان جیسوں کے لیے جو ذمہ داری بیان کی ہے اس کی تطبیق کریں، آثار ِ امام(ع) کی پیروی کریں اپنے اعمال و سلوک میں امام (ع) کے نشان ِ قدم پر چلیں،اور اپنے آپ کو امامؑ کے ولات امر و عمال کی طرح تصور کریں تاکہ خود ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ منھج اور اسوہ امام(ع) سے کس قدر وابستہ ہیں۔
ہم اللہ العلی القدیر سے دعاگو ہیں کہ ہم سب کو بدست خود اتباع ہدیٰ و اجتناب ِ ھویٰ کی راہ پر گامزن کردے کہ بیشک وہی ولی التوفیق ہے۔
علی الحسینی السیستانی
۲۶ رجب ۱۴۳۳ھ