آیت میثاق
آیت میثاق
سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کو آیت میثاق کہا جاتا ہے جس میں توحیدِ فطری کو بیان کیا گیا ہے۔ آیت میثاق مفسرین، متکلمین اور محدثین کے درمیان بحث کا موضوع رہی ہے۔ بعض نے اس کو عالم الذر پر دلیل قرار دیا ہے جبکہ بعض دیگر مفسرین نے اس کو انسان کی فطرت میں توحید کے وجود پر دلیل قرار دیا ہے۔ علامہ طباطبائی نے دیگر بزرگان سے ہٹ کر اس آیت کا جائزہ لیا ہے۔
آیت کریمہ کا بیان
سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کو آیت میثاق، آیتِ ذرّ اور آیت اخذ میثاق کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلى أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى شَهِدْنا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هذا غافِلينَ؛
اور وہ وقت یاد کرو جب آپ کے ربّ نے فرزندانِ آدمؑ سے ان کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا اور انہیں انہی پر شاہد بناتے ہوئے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم اس پر شاہد ہیں، کہ کہیں تم لوگ روزِ قیامت یہ نہ کہو کہ ہم تو اس (عہد و پیمان) سے غافل تھے۔ [۱]
اللہ تعالی سے عہد و پیمان
بعض مفسرین کے مطابق یہ آیت توحیدِ فطری پر دلالت کرتی ہے۔ توحید فطری سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان کا وجود انسان کی روح کی اندر اور باطن کی گہرائی میں پایا جاتا ہے۔ یہ آیت بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے تمام اولادِ آدمؑ کو ان کی جانوں پر گواہ بنایا اور ان سے عہد و پیمان لیا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ انہوں نے عہد و پیمان کا اقرار کیا اور کہا کہ بے شک تو ہمارا ربّ ہے۔ اس عہد و پیمان کی جزئیات تفصیلی طور پر وارد نہیں ہوئیں۔
مفسرین کی آراء
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کا باہمی اختلاف رہا ہے اور انہوں نے اس کے ذیل میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ بعض مفسرین نے احادیث و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ آیت کریمہ سے مقصود عالمِ الذرّ ہے اور عہد و پیمان سے مراد فطری اور تکوینی عہد و پیمان ہے۔ بالفاظِ دیگر اولادِ آدمؑ ان کو ان کی پشتوں سے نکالنے سے مراد یہ ہے کہ باپ کے صلب سے نطفہ جب رحمِ مادر میں منتقل ہوتا ہے تو انتہائی باریک ذرات پر مشتمل ہوتا ہے، ایسے میں توحیدی اعتقادات تک پہنچنے کی استعداد اور آمادگی ان کی فطرت اور ان کی ذات کے اندر ایک احساس کی صورت میں رکھ دی گئی ہے اور عقل و خرد میں خود کی شناخت اور آگاہی کو ایک حقیقت بنا کر ودیعت کر دیا گیا ہے۔
روحِ توحید کا مخلوقات میں ہونا
تمام بشر روحِ توحید سے فطری طور پر اپنی ذات کی گہرائی میں آشنا ہیں۔ اللہ تعالی کی عبادت اور اس کی طرف رغبت و میلان انسان کی خلقت میں تکوینی طور پر رکھ دی گئی ہے۔ زبانِ حال، زبانِ وجود اور اس طرح کی مختلف تعبیرات عربی ادبیات اور خطبہ جات میں اس طرف اشارہ کرنے کے لیے وارد ہوئی ہیں۔ [۲][۳][۴][۵]
حوالہ جات
۱. ↑ اعراف/سوره۷، آیت ۱۷۲۔
۲. ↑ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج۷، ص۴-۱۰۔
۳. ↑ منصور، عبد الحمید یوسف، نیل الخیرات فی القراءات العشرة، ج۸، ص۳۰۶۔
۴. ↑ خرمشاہی، بہاء الدین، دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، ص۱۰۶۔
۵. ↑ فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، ج۱۵، ص۴۶-۵۲۔
مأخذ
فرہنگنامہ علوم قرآنی، مقالہِ آیتِ میثاق سے یہ تحریر لی گئی ہے۔