امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

بذلی استطاعت اور بعض دوسرے احکام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بذلی استطاعت
مسئلہ 2189: جس طرح سے استطاعت حج کے اخراجات رکھنے سے پائی جاتی ہے اسی طرح اگر کوئی حج کے اخراجات دے رہا ہو پھر بھی استطاعت پائی جائے گی کہ اسے استطاعت بذلی کہتے ہیں۔

اس بنا پر اگر کوئی شخص انسان کو کوئی مال[219] ہبہ کرے کہ اس سے حج كرنے جائے یا یہ کہے کہ تمہارے حج كرنے جانے اور حج کے زمانے میں تمہارے اہل و عیال کے اخراجات کو دوں گا یا کوئی مال اس کے اختیار میں قرار دے اور اس سے کہے کہ حج كرنے جاؤ اور انسان کو اطمینان ہو کہ وہ اپنے وعدے پر عمل کرے گا یا مال کو اس سے واپس نہیں لے گا تو وہ مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے۔

مسئلہ 2190: اگر کسی کے سفر حج کے اخراجات اور اس کے اہل و عیال کے اخراجات جب تک سفر سے واپس نہ آجائے کوئی شخص دے اور کہے: حج كرنے جاؤ لیکن اس مال کا اسے مالک نہ بنائے (بلکہ صرف اس کےلیے مباح کرے) تو اگر اسے اطمینان ہو کہ اس مال کو اس سے واپس نہیں لے گا تو اس پر حج واجب ہے۔

مسئلہ 2191: اگر کسی کو کوئی صرف حج كرنے جانے کا خرچ دے اور انسان کے پاس حج سے واپس آنے کا خرچ نہ ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے البتہ وہ تفصیل جو مسئلہ نمبر 2165 میں وطن واپس آنے کے بارے میں یا اس کے علاوہ بیان ہوئی یہاں پر بھی جاری ہے۔

اور یہی حکم ہے اگر اس کے اہل و عیال کا خرچ حج سے واپس آنے تک نہ دے، مگر یہ کہ خود انسان کے پاس ہو یا یہ کہ اگر حج کرنے نہ بھی جائے پھر بھی اسے مہیّا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو یا یہ کہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات مہیّا نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ حرج اور مشقت میں نہ پڑ رہا ہو اور اس کے اہل و عیال کا نفقہ بھی اس پر واجب نہ ہو۔

مسئلہ 2192: اگر کوئی شخص کسی انسان کو مال ہبہ کر دے کہ اس سے حج كرنے جا ئے تو واجب ہےکہ اسے قبول کرے لیکن اگر ہبہ کرنے والا اختیار کرنے کے انتخاب کو انسان کے اوپر چھوڑ دے اور کہے کہ : اس مال سے چاہو تو حج كرنے جاؤ یا چاہو تو حج كرنے نہ جاؤ یا ہبہ کرنے والا مال کو ہبہ کرے اور ہبہ کرنے میں حج کا نام نہ لے نہ معین شکل میں اور نہ ہی اختیاری شکل میں تو ان دونوں صورتوں میں ایسا ہدیہ قبول کرنا واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 2193: بذلی استطاعت میں قرض دار ہونا مستطیع ہونے سے مانع نہیں ہے؛ پس اگر کسی شخص کے رفت و آمد کے اخراجات کو فراہم کریں گرچہ وہ شخص مقروض ہو اس پر حج واجب ہو جائے گا ۔[220]

مسئلہ 2194: جیسا کہ چھٹی شرط میں بیان ہوا کہ حج سے واپس آنے کے بعد اپنی زندگی کے اخراجات کو فراہم کر سکتا ہو استطاعت بذلی میں شرط نہیں ہے ، اس بنا پرا گر جانے آنے کے اخراجات اور اہل و عیال کےاخراجات جب تک وہ مکہ جائے اور واپس آنے تك اگر اسے ہبہ کریں تاکہ وہ حج کرے تو اس پر حج واجب ہو جائے گا گرچہ پلٹنے کے بعد ایسا مال جس سے زندگی گزار سکے نہ رکھتا ہو البتہ اگر انسان کی آمدنی صرف ایام حج میں ہو اور اس آمدنی سے سال کے بقیہ دنوں یا بعض دنوں کے اخراجات فراہم کرتا ہو اس طرح سے اگر حج كرنے جائے تو بقیہ سال یا سال کا کچھ حصہ اپنے اخراجات زندگی کو فراہم نہ کر سکتا ہو تو اس صورت میں اس پر حج واجب نہیں ہے مگر یہ کہ ہبہ کرنے والا سال کے بقیہ دنوں کے اخراجات کو بھی دے کہ اس صورت میں مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے۔

مسئلہ 2195: اگر انسان کے پاس اتنا مال ہو جو حج کے سفر کے کچھ اخراجات کو پورا کرے اور پورے حج کے اخراجات کےلیے کافی نہ ہو لیکن باقی کوئی اسے ہبہ کر رہا ہو تو اگر حج سے واپس آنے کے بعد زندگی کے اخراجات کو فراہم کرنے کی توانائی اس معنی میں جو چھٹی شرط میں بیان ہوئی رکھتا ہو تو وہ مستطیع شمار ہوگا اس پر حج واجب ہو جائے گا اور اگر توانائی نہ رکھتا ہو تو حج واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 2196: اگر کسی کو اتنا مال دیں جو حج کے لیے کافی ہے اور اس سے شرط کریں کہ حج کے سفر میں اس شخص کی جس نے مال دیا ہے خدمت کرے گرچہ وہ خدمت اس کے حال کے مناسب ہو اس سے استطاعت بذلی پیدا نہیں ہوگی اور ایسے مال کا حج بجالانے کےلیے قبول کرنا واجب نہیں ہے ؛ لیکن اگر قبول کرے اور اس کی خدمت اعمال حج کو بجالانے میں خلل نہ رکھتی ہو بلکہ خدمت کرنے کے ضمن میں حج بھی بجالا سکتا ہو اور استطاعت کے دوسرے شرائط بھی رکھتا ہو من جملہ چھٹی اور ساتویں شرط۔ تو وہ مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہو جائے گا۔

[219] وہ مال جو حج کے اخراجات اور جانے( اور آنے کےلیے اگر ضرورت ہو) کافی ہو اور اگر اپنے اہل و عیال کا نفقہ نہ رکھتا ہو وہ مال سفر کے دوران ان کے اخراجات کےلیے بھی کافی ہو۔

[220] البتہ اگر حج كرنے جانا قرض کو اپنی تاریخ پر دینے سے مانع ہو تو انسان مستطیع نہیں ہے اس پر حج واجب نہیں ہوگا۔

بعض دوسرے احکام

مسئلہ 2197: اگر انسان حج كے لیے جانے کی وجہ سے زیادہ مجبور ہو کہ کوئی واجب عمل جو حج سے اہم ہے ترک کرے یا کسی حرام کام کو جس سے پرہیز کرنا حج سے زیادہ اہم ہے انجام دے تو ضروری ہے کہ حج پر نہ جائے تاکہ واجب کے ترک کرنے یا حرام کے انجام دینے پر مجبور نہ ہو لیکن دونوں صورت میں اگر اسی حالت میں حج كرنے جائے اور یہ جانا سبب ہو کہ اہم واجب ترک ہو یا اہم حرام کا مرتکب ہو تو گرچہ گناہ گار ہے لیکن اس کاحج صحیح ہے اور اگر سارے شرائط پائے جاتے ہوں تو حَجّۃ الاسلام سے کفایت کرےگا۔

مسئلہ 2198: حج کے شرائط پائے جانے کے بعد اس کا واجب ہونا فوری ہے پس انسان پر لازم ہے کہ استطاعت حاصل ہونے کے پہلے سال ہی حج بجالائے اور اگر کسی نے پہلے سال میں انجام نہ دیا تو لازم ہے کہ دوسرے سال بجالائے اور آئندہ برسوں كی بہ نسبت بھی یہی حکم ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک